Powered By Blogger

پیر, ستمبر 06, 2021

سپریم کورٹ کا سنگھو بارڈر خالی کرنے کی درخواست سننے سے انکا

سپریم کورٹ کا سنگھو بارڈر خالی کرنے کی درخواست سننے سے انکار


 

judgment

نئی دہلی 6ستمبر:(اردودنیانیوز۷۲)سپریم کورٹ نے دہلی کو ہریانہ سے ملانے والی سنگھو سرحدکوخالی کرنے کی درخواست پر سماعت کرنے سے انکار کر دیاجوکسانوں کے احتجاج کی وجہ سے بندہے۔ عدالت نے کہاہے کہ درخواست گزار کو پنجاب ہریانہ ہائی کورٹ میں اپنی درخواست دائر کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ سپریم کورٹ میں سونی پت کے دو لوگوں نے اپنی درخواست میں کہا تھا کہ سڑک کئی مہینوں سے بند ہے ، لہٰذا سپریم کورٹ حکومت کو ہدایت کرے کہ وہ سڑک کھولے یا دوسری سڑک بنانے کا حکم جاری کرے ، تاکہ لوگ آ سکیں۔

جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے کہا ہے کہ ہمارے لیے اس معاملے میں مداخلت کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ جب ہائی کورٹس موجود ہوں اور وہ مقامی حالات سے پوری طرح آگاہ ہوں کہ کیاہو رہا ہے۔ ہمیں ہائی کورٹ پر اعتماد کرنا چاہیے۔ اس مشاہدے کے ساتھ ، سپریم کورٹ نے درخواست گزاروں کو ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کا حکم دیا۔ اس کے بعد ان کی جانب سے درخواست واپس لے لی گئی۔

عدالت نے کہا ہے کہ درخواست گزار ہائی کورٹ میں درخواست دائر کرنے کی آزادی رکھتا ہے۔ اعلیٰ عدالتیں نقل و حرکت کی آزادی اور بنیادی سہولیات تک لوگوں کی رسائی کے مسئلے سے بھی نمٹ سکتی ہیں۔

بنچ نے کہاہے کہ ہائی کورٹ نقل و حرکت کے حق اور دوسرے لوگوں کے حقوق کے درمیان توازن کے بارے میں بات کر سکتی ہے۔ دراصل ، درخواست گزار جئے بھگوان جو سونی پت کے رہائشی ہیں ، نے کہا تھا کہ اس تحریک کی وجہ سے شہر کے لوگوں کو مسائل کا سامنا ہے۔

دہلی کوملانے والی مرکزی سڑک بند ہے۔ درخواست گزار کی جانب سے پیش ہونے والے ایڈوکیٹ ابھیمنیو بھنڈاری نے کہاہے کہ سنگھو سرحد سونی پت کے لوگوں کی نقل و حرکت کے لیے اہم ہے اور اس تحریک کی وجہ سے ان کے نقل و حرکت کے حق کو سلب کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہاہے کہ ہم پرامن نقل و حرکت کے خلاف نہیں ہیں تاہم سڑکیں بند ہونے سے لوگوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔

مودی حکومت کسان تحریک کو کچلنے کی سازش بند کرو : کانگریس

مودی حکومت کسان تحریک کو کچلنے کی سازش بند کرو : کانگریسنئی دہلی: کانگریس نے کہاکہ ملک کا کسان زرعی قوانین کو ختم کرنے کی مانگ پر طویل عرصہ سے دھرنا دے رہا ہے لیکن مودی حکومت ملک کے کاشتکاروں کی بات سننے کی بجائے کسانوں پر حملہ کروا رہی ہے۔
کانگریس کے جنرل سکریٹری کے سی وینوگوپال نے یہاں جاری ایک بیان میں کہاکہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی مرکز، ہریانہ اور اترپردیش کی حکومتیں کسانوں کو انصاف دینے کے بجائے کسان۔مزدوروں کی گاندھیائی تحریک کو دبانے اور کچلنے میں مصروف ہے۔تین زرعی سیاہ قوانین سے کسانوں کی روزی روٹی پرحملہ کرکے اور انصاف مانگ رہے کسانوں کو دہلی نہیں آنے دیا جارہا ہے اور ان پر حملہ کیا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کسان گزشتہ نو مہینوں سے زیادہ وقت سے زراعت مخالف قوانین کو واپس لینے کی مانگ پر دہلی کی سرحدوں پر بیٹھے ہیں اور دھرنا دے رہے ہیں۔ ان نو مہینوں کے دوران 800سے زیادہ کسان تحریک میں اپنی جان قربان کر چکے ہیں۔ انہوں نے سوال کیا کہ کسانوں کی موت کے لئے کون ذمہ دار ہے۔ کسانوں سے با ت چیت کے نام پر بی جے پی کے وزراء نے اینٹھ دکھائی، بات ماننے سے انکار کردیا اور تینوں سیاہ قوانین پر دوبارہ غور کرنے کرنے تک سے منع کردیا۔
کانگریس نے اسے بی جے پی حکومت کے تکبر کی انتہا قرار دیتے ہوئے کہاکہ یہ حکومت عوام مخالف ہے اور کسانوں کی دشمن ہے اس لئے کسانوں کی مانگ پر غور کرنے کی بجائے ان کے ساتھ ناانصافی کررہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہریانہ میں جن لوگوں نے کسانوں پر حملہ کروایا ہے ان کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہئے۔

علی گڑھ میں مسلم لڑکی نے ’ہندو دوست ‘ سے مندر میں شادی رچالی

علی گڑھ میں مسلم لڑکی نے ’ہندو دوست ‘ سے مندر میں شادی رچالی


 
aligarh-muslim-girl-ties-knot-with-hindu-boy

فتنۂ ارتداد کاظہور ، مسلم مفکران اب بھی خواب خرگوش میں

علی گڑھ، 6ستمبر:(اردودنیانیوز۷۲)اطلاع کے مطابق یوپی کے ضلع علی گڑھ میں فتنۂ ارتدادکی بھیانک تصویر سامنے آئی ہے ۔ جہاں آر ایس ایس کے چلائی گئی تحریک ’ گھر واپسی‘کا لرزہ خیزمنظر سامنے آیا ۔ یوں تو لوَ جہاد کے نام فسطائی طاقتوں کے ساتھ ساتھ میڈیا بھی ہنگامہ آرائی کرتی نظر آتی ہے ، لیکن ’گھر واپسی ‘پر میڈیا اپنے منھ میں دہی جمائے ہوا ہے ۔ ایسا ہی ایک معاملہ علی گڑھ میں دیکھنے کو ملا ۔تفصیلات کے مطابق یہاں ایک مسلم لڑکی (جو کاس گنج کی رہائشی بتائی جاتی ہے ) نے مندر میں ہندو رسومات کے مطابق اپنے ہندو دوست سے شادی کرلی۔

خیال رہے کہ ضلع علی گڑھ کے تھانہ پالی مقیم پور کے تحت گاؤں بیجولی کے رہنے والے امیت مہیشوری نے ضلع کاس گنج کی رہنے والی لڑکی نشا خان سے شادی کی ہے۔ نشاخان نے فتنۂ ارتداد کی پرواہ کئے بغیرنیزماقبل ہونے والی مسلم لڑکیوں کے ساتھ ہندو شوہر وں کی طرف سے ہونے والی بدسلوکیوں کی خوفناک خبروں کو نظر ا نداز کرکے اپنے عاشق امیت سے 7 چکر لگا کر شادی کرلی۔

اس سلسلے میں بجرنگ دل کے ضلعی عہدیدار شوبھم سنگھل نے کہا کہ جو شادی ہوئی وہ لڑکے اور لڑکی کی رضامندی سے ہوئی، اس میں تمام ہندووادی افراد موجود تھے۔ ان کی شادی شیو مندر بجولی میں ہوئی، یہ شادی ان کی زندگی میں ایک نئی کرن ہے۔ابھی تک ا س شادی کے سلسلے میں نشاخان کی والدین کی طرف سے کوئی بیان نہیں آیا ہے۔

خیال رہے کہ صرف یوپی کے مختلف اضلاع ہی نہیں ؛بلکہ پورے ملک میں مختلف ہندوقوم پرست تنظیموں کی طرف سے مسلم لڑکیوں کو جھوٹے پیار کے چنگل میں پھنسا کراور سبز باغ دکھا کر شادی کے ذریعہ گھر واپسی کی مہم چلا جا رہی ہے ، لیکن بے حس ماں باپ تمام نتائج سے بے پرواہ ہیں۔ جبکہ مسلم تنظیمیں بھی اس سلسلے میں کسی طرح کی مثبت پیش رفت اور مؤثر مہم چلانے میں ابھی تک کامیاب نہیں ہوسکی ہیں۔ علی گڑھ کا یہ حادثہ مسلم قوم ، مسلمان ماں باپ اور عالی مرتبت مفکرین کے لئے پھر ایک زیانہ ہے ۔

عرب امارات کاغیرملکیوں کیلئے نئے گرین، فری لانسر ویزوں کا اعلان

عرب امارات کاغیرملکیوں کیلئے نئے گرین، فری لانسر ویزوں کا اعلان

golden-visa-UAE

دبئی، 6ستمبر :(اردودنیانیوز۷۲)متحدہ عرب امارات نے غیرملکیوں کیلئے نئے گرین اور فری لانسر ویزوں کا اعلان کردیا۔میڈیا رپورٹ کے مطابق اماراتی وزیر مملکت برائے غیر ملکی تجارت کے مطابق گرین ویزا ہولڈرز کو آجر کی ضمانت درکار نہیں ہوگی، گرین ویزا رکھنے والوں کی رہائش کا اجازت نامہ ان کے کام کے اجازت نامے سے علیحدہ ہوگا،ایسے افراد اپنے والدین اور 25 سال تک کے بچوں کو اسپانسر کر سکیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ویزے کی معیاد ختم ہونے کی صورت میں 90 سے 180 دن کا اضافی وقت دیا جائے گا،گرین ویزا باصلاحیت طلبہ، سرمایہ کار، تاجر اور کاروباری افراد کو دیا جائے گا جبکہ فری لانس ویزا اپنا کاروبار کرنے والے افراد کو دیا جائے گا۔

سیتا پور : گاؤں کے لوگ پراَسرار بخار سے خوفزدہ ، 50 اموات کا دعویٰ

سیتا پور : گاؤں کے لوگ پراَسرار بخار سے خوفزدہ ، 50 اموات کا دعویٰ


kids-fever-GettyImages

سیتا پور : (اردودنیانیوز۷۲)مغربی یوپی کے مختلف اضلاع فیروزآباد، علی گڑھ وغیرہ میں وائرل بخار کی تباہی مچانے کے بعد اب مشرقی یوپی کے سیتاپور ضلع میں بھی وائرل اور ڈینگوبخار پھیل رہا ہے۔ضلعی صدر مقام سے تقریباً 20 کلومیٹر دور بسیتی گاؤں کے مکین پراسرار بخار سے خوفزدہ ہیں۔ بسیتی گاؤں کے مکین اس وقت وائرل بخار سے پریشان ہیں۔ عالم یہ ہے کہ گاؤں کے اکثر لوگ خواہ وہ بچے ہوں، جوان ہوں یا ضعیف العمر ہر کوئی بخار کی زد میں ہے۔

لوگوں میں پراسرار بخار کے تئیںاس قدر گھبراہٹ ہے کہ اگر کسی کے جسم کا درجہ حرارت تھوڑابھی بڑھ جائے تو گھر والوں کے ماتھے پر پریشانی کی لکیر واضح طور پر نظر آنے لگتی ہے۔ دیہی باشندگان کے دعویٰ کے مطابق اب تک 50 سے زائد افراد فوت کر چکے ہیں۔اگرچہ دیہی باشندگان یہ اعداد و شمار گزشتہ ایک ماہ کے دوران بتا رہے ہیں۔ جبکہ ڈاکٹر یہ تعداد 15 سے 20 ہونے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ڈاکٹر گاؤں میں بخار اور دوا چھڑکنے کے حوالے سے میڈیکل کیمپ لگانے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔

لیکن گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ ڈاکٹروں کی ٹیم گاؤں میں صرف ایک بار ہی آئی ہے۔ گاؤں میں شاید ہی کوئی گھر ایسا ہو جس کا کوئی فرد بخار میں مبتلا نہ ہو۔وہیں ڈسٹرکٹ ہسپتال میں درجنوں مریض داخل ہیں۔گاؤں والوں کے مطابق یہ بخار کے آنے کے بعد پہلے سردی محسوس ہوتی ہے ، پھر بخار تیزی سے بڑھتا ہے۔ جس کی وجہ سے کئی دیہاتی فوت کرچکے ہیں۔

گاؤں والے بتا تے ہیں کہ وائرل بخار کی وجہ سے کئی اموات ہو چکی ہیں، جبکہ گاؤں میں ہر جگہ گندگی بھی دیکھی جا رہی ہے ۔جبکہ CHC سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر منیش گپتا نے بتایا کہ گاؤں میں کیمپ کا اہتمام کیا گیا ہے۔ گاؤں میں ادویات بھی تقسیم کی گئی ہیں۔ ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ گاؤں میں اب تک صرف 15 سے 20 لوگ وائرل بخار کی گرفت میں ہیں۔

کسانوں نے گودی میڈیا کو اوقات دکھائی: آج تک کی اینکر چترا ترپاٹھی "گودی میڈیا ہائے ہائے” کے نعروں کے درمیان موقع سے فرار : دیکھئے ویڈیو

آج تک ٹی وی اینکر چترا ترپاٹھی کو احتجاج کرنے والے کسانوں کے ردعمل کا سامنا کرنا پڑا ، جس کے باعث وہ مظفر نگر میں کسانوں کے احتجاج کے مقام سے بھاگنے پر مجبور ہوئیں۔ ٹی وی اینکر کو جلدی باہر نکلتے دیکھا گیا جب مشتعل کسانوں نے ‘گودی میڈیا ہاے ہاے’ کے نعرے لگائے۔

آج تک کے ٹی وی اینکر ترپاٹھی اتوار کی مہا پنچایت کی رپورٹنگ کے لیے مظفر نگر میں تھے جنہیں کسانوں نے متنازعہ فارم قوانین کے خلاف بلایا۔ اسے بہت کم احساس ہوا کہ اسے بی جے پی کے حق میں اپنے اور اس کے آجر انڈین ٹوڈے گروپ کے مبینہ تعصبات کے لیے کافی غصے کا سامنا کرنا پڑے گا۔

جیسا کہ توقع کی گئی تھی ، ترپاٹھی شدید سوشل میڈیا گفتگو کا موضوع بن گئے۔ کچھ ایسے تھے ، جنہوں نے انڈیا ٹوڈے گروپ کے اس طرح کے پروگرام کی کوریج کے لیے ایک خاتون اینکر بھیجنے کے فیصلے پر سوال اٹھایا۔
ایک صحافی نے ایک ویڈیو شیئر کی جس میں بتایا گیا کہ کس طرح ترپاٹھی نے احتجاج کرنے والے کسانوں کے ساتھ ناروا سلوک نہیں کیا۔

آج تک اور دیگر ٹی وی چینلز کو بی جے پی کے حق میں مبینہ جانبدارانہ کوریج کی وجہ سے گوڈی میڈیا ہونے کا طعنہ دیا جاتا رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کسان رہنما راکیش ٹکیت نے ٹی وی مباحثے میں سمبٹ پترا کو ‘بہوڈا’ کہا ، بی جے پی کے مشتعل ترجمان کا رد عمل
کچھ عرصہ پہلے ، کسان لیڈر راکیش ٹکیت نے حالیہ ٹی وی مباحثے کے دوران بی جے پی کے ترجمان سمبٹ پترا کو ‘بہودہ’ کہا تھا ، جسے ترپاٹھی نے ماڈریٹ کیا تھا۔

آج کی مہا پنچایت میں کسانوں نے اتر پردیش اور اتراکھنڈ میں اگلے سال ہونے والے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کے خلاف مہم چلانے کا عزم کیا ہے۔ دونوں ریاستوں میں فی الحال بی جے پی کی حکومتیں ہیں۔

رابعہ سیفی: بربریت کی گواہ ایک اور نربھیا

اعظم شہاب

سال قبل 16؍ دسمبر 2012 کو دہلی میں اپنے مرد دوست کے ساتھ رات میں تفریح کی غرض سے نکلنے والی اونچے طبقے کی ایک لڑکی کے ساتھ کچھ درندوں نے عصمت دری کے بعد اسے اور اس کے دوست کو چلتی بس سے پھینک دیا تھا۔ اسے بغرض علاج سنگاپور لے جایا گیا لیکن 29 دسمبر کو وہ جان کی بازی ہار گئی۔ اس واقعے کے خلاف پورا ملک سراپا احتجاج بن گیا تھا۔ دہلی سے لے کر ممبئی تک لکھنؤ سے لے کر بنگلور تک ہر جگہ مظاہرے شروع ہوگئے تھے۔ متاثرہ لڑکی کو انصاف دلانے کی مہم کچھ اس شدت سے شروع ہوئی تھی کہ اس واقعے کے محض 2 دن بعد ہی پولیس نے 6 لوگوں کو گرفتار کرلیا تھا۔ ان میں سے ایک نے جیل میں ہی خودکشی کرلی تھی، ایک کو نابالغ ہونے کی بناء پر تین سال بعد رہائی مل گئی تھی جبکہ بقیہ 4 لوگوں کو پھانسی دیدی گئی تھی۔ اس لڑکی کا نام یوں تو کچھ اور تھا لیکن اسے ’نربھیا‘ کا نام دیا گیا، جس کے بعد سے ’نربھیا‘ ملک بھر میں جنسی بربریت کا ایک علامتی نام بن گیا۔

تازہ ترین واقعہ دہلی کے سنگم وہار کی رہنے والی رابعہ سیفی کا ہے جس کے ساتھ بھی حیوانیت و درندگی کا نربھیا کی ہی مانند مظاہرہ ہوا ہے۔ لیکن کہا جاتا ہے کہ ظلم وناانصافی اسی وقت ظلم وناانصافی قرار پاتی ہے جب وہ اپنے جیسوں کے ساتھ ہو۔ چونکہ نربھیا اعلیٰ تعلیم یافتہ، ماڈرن اور اونچے طبقے سے تعلق رکھتی تھی اس لئے پہلے میڈیا، پھر طبقۂ اشرافیہ اور پھر ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کے فریضے کے طور پر پورے ملک نے اس کو انصاف دلانے کی مہم میں حصہ لیا۔ مگر کشمیر، ہاتھرس، جھارکھنڈ و دہلی کی متاثرہ لڑکیوں کا تعلق چونکہ اونچے طبقے سے نہیں تھا، اس لئے اول تو ان کے خلاف آواز نہیں اٹھی، اور اگر اٹھی بھی تو حکومت وانتظامیہ کے ذریعے اسے دبا دیا گیا اور پھر بھی نہیں دبی تو پولیس کے ذریعے اس طرح کے واقعات سے ہی انکار کر دیا گیا۔ یہ صورت حال اس ملک کی ہے جہاں عورتوں کو دیوی کا درجہ دیا جاتا ہے اور جہاں بیٹی بچاؤ اور بیٹی پڑھاؤ کی مہم چلائی جاتی ہے۔

رابعہ سیفی کے معاملے میں حکومت و انتظامیہ کی سرد مہری کا سب سے بڑا سبب اس کے علاوہ کیا کچھ اور ہوسکتا ہے کہ وہ ایک غریب خاندان کی اقلیتی طبقہ کی لڑکی ہے؟ اگر یہی رابعہ کوئی ریکھا یا سریتا ہوتی، کسی ملٹی نیشنل کمپنی میں کسی اونچے عہدے پرفائز ہوتی تو کیا حکومت وانتظامیہ کا یہی رویہ ہوتا؟ خبروں کے مطابق اس معاملے میں کوئی مہرا نامی آفیسر بھی ملوث ہے، لیکن اسے شوہر کی انتقامی کارروائی بتاکر پیش کیا جا رہا ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ مقتولہ کا شوہر بھی عین موقع پر سامنے آگیا۔ جبکہ رابعہ کے والدین اس بات سے ہی انکار کر رہے ہیں کہ ان کی بیٹی کی شادی ہوئی تھی۔ اس سے بھی زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ شوہر نامدار جن کے بارے میں بتایا جارہا ہے کہ وہ بھی ڈیفنس میں ہی کام کرتے ہیں، اس وقت سامنے آئے جب رابعہ کے ساتھ ہوئی بربریت نے لوگوں کو جنجھوڑنا شروع کر دیا تھا۔

پولیس کے ذریعے اس معاملے میں جو کہانی سامنے آرہی ہے وہ یہ ہے کہ نظام الدین نے رابعہ سے شادی کرلی تھی، لیکن رابعہ نے اس کی ساتھ بیوفائی کی جس سے دلبرداشتہ ہوکر ملزم نے اس کو قتل کر دیا اور خود کو پولیس کے حوالے کر دیا۔ اگر اس کہانی پر یقین بھی کرلیا جائے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ملزم کو خود کو پولیس کے حوالے ہی کرنا تھا تو اس کے لیے اسے دہلی سے باہر سورج کنڈ تک جانے کی کیا ضرورت آن پڑی؟ اس طرح کے جرم اضطراری کیفیت میں انجام پاتے ہیں نہ کہ منصوبہ بند طریقے سے۔ اور ایسی صورت میں اس کا امکان مزید کم ہو جاتا ہے جب ملزم خود کو قانون کے حوالے کرنے کا ارادہ رکھتا ہو۔ اس کے علاوہ اس معاملے میں پولیس اس آڈیو ریکارڈنگ کے بارے میں بھی ابھی تک کوئی خاطرخواہ جواب نہیں دے سکی ہے جس کے بارے میں بتایا جا رہا ہے کہ وہ رابعہ کے ساتھ کام کرنے والی کسی خاتون دوست کا ہے اور جس نے اپنے سینئر روندر مہرا کو اس کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ کیا یہ سب باتیں اس درندگی وقتل کو منصوبہ بند قرار دینے کی چغلی نہیں کھا رہے ہیں؟

یہاں سوال یہ نہیں ہے کہ رابعہ سیفی نے شادی کرلی تھی اور شوہر نے اس کی بیوفائی کی وجہ سے اسے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ سوال ہماری حکومتوں، انتظامیہ اورخاص طور سے سماج کی بے حسی کا ہے۔ کیا اس طرح کے جرائم پر اسی وقت انصاف کی گہار لگائی جائے گی جب جرم کی شکار ہونے والی لڑکی اونچے طبقے سے تعلق رکھتی ہو؟ کیا رابعہ کے ساتھ ہوئی دردنگی اور قتل کو یہ کہہ کر ہم جواز فراہم نہیں کر رہے ہیں کہ قاتل نے خود کو پولیس کے حوالے کر دیا ہے؟ اگرایسا ہے تو پھر معاف کیجئے نربھیا اور حیدرآباد کے وٹرنری ڈاکٹر کے انصاف کے لیے ہم نے جو گہار لگائی تھی وہ جھوٹ کے سوا کچھ نہیں تھا۔ رابعہ کے والدین بار بار اس کی آزادانہ تفتیش کا مطالبہ کر رہے ہیں مگر تفتیش کرانا تو دور اس واقعے کو دہلی تک میں منتقل نہیں کیا جا رہا ہے۔

نربھیا کے گنہگاروں کو انصاف دلانے کی مہم کی شدت کو دیکھتے ہوئے ایسا محسوس ہونے لگا تھا کہ اب دوبارہ اس طرح کی درندگی کی ہمت کوئی نہیں کرسکے گا، کیونکہ اسی دوران پارلیمنٹ میں اس طرح کے واقعات کے خلاف سخت ترین قانون بھی بنایا گیا تھا جسے نربھیا قانون کہا جاتا ہے۔ یہ الگ بات ہے ان احتجاجات اور قوانین کے باوجود بھی اس طرح کے واقعات نہیں رکے اور کبھی حیدرآباد تو کبھی کشمیر، کبھی بہار تو کبھی اترپردیش سے اس طرح کی درندگی کی خبریں آتی رہیں اور آج بھی آرہی ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ان احتجاجات کے پسِ پشت اسی طرح کے سیاسی مقصد کا حصول کارفرما تھا جس طرح اناہزارے کی بدعنوانی مخالف مہم میں کار فرما رہا۔ شاید اسی لئے جو حشر بدعنوانی مخالف مہم کا ہوا وہی نربھیا مہم کا بھی ہوا یعنی کہ نہ بدعنوانی رکی اور نہ ہی نربھیا جیسی درندگی۔ البتہ ان کا اتنا فائدہ ضرور ہوا کہ اس وقت کی مرکزی حکومت کے خلاف ایک ایسا ماحول تیا ر ہوگیا جس نے 2014 میں حکومت کی تبدیلی میں اہم کردار ادا کیا۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...