Powered By Blogger

جمعرات, نومبر 11, 2021

اسد الدین اویسی نے کاس گنج میں پولیس تحویل الطاف کی موت پر دیا بڑا بیان ، کہی یہ بات میں

اسد الدین اویسی نے کاس گنج میں پولیس تحویل الطاف کی موت پر دیا بڑا بیان ، کہی یہ بات میںکاس گنج پولیس اسٹیشن میں الطاف کی پراسرار موت کا معاملہ طول پکڑتا جارہا ہے ۔ اے آئی ایم آئی ایم کے صدر اور ممبر پارلیمنٹ اسد الدین اویسی نے اس کو قتل قرار دیا ہے ۔ نیز انہوں نے وزیر اعلی یوگی اور دیگر سیاسی پارٹیوں پر مذہب کی سیاست کرنے کا الزام بھی عائد کیا ۔

مولانا آزاد نمونے کے انسان تھے : مفتی محمد امداداللہ قاسمی

مولانا آزاد نمونے کے انسان تھے : مفتی محمد امداداللہ قاسمی

مدہوبنی /بی این ایس

حکومتِ ہند نے آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم مولانا ابوالکلام آزاد کی تعلیمی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ان کے یوم پیدائش 11 /نومبر کو یوم تعلیم کے طور پر منانے کا اعلان کیا جو 2008ء سے ملک کے تمام تعلیمی و رفاہی سرکاری و غیر سرکاری اداروں میں یوم تعلیم کے نام سے منایا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے مؤقر چئیر مین کی ہدایت پر مدرسہ اصلاح المومنین راگھونگر بھوارہ مدھوبنی میں مدرسہ ہٰذا کے پرنسپل مولانا جلال الدین صاحب مفتاحی کی صدارت میں تقریب یوم تعلیم کا اہتمام کیا گیا جس میں اساتذہ اور طلباء و طالبات مدرسہ ہٰذا نے شرکت کی، مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ کی حیات و خدمات کا تعارف کراتے ہوئے مفتی محمد امداداللّٰہ قاسمی قاضی شریعت دارالقضاء امارت شرعیہ مدھوبنی و ناظم تعلیمات مدرسہ ہٰذا نے کہا کہ مولانا آزاد ؒ کی ولادت مرکز اسلام مکہ معظمہ میں11 نومبر 1888ء مطابق ذی الحجہ1305 کو ہوئی ۔والد ِ ماجد مولانا خیر الدین احمد، غدر 1857ء کو ہندوستان مین برطانوی جبر وتشدد سے تنگ آکر مکہ معظمہ تشریف لے گئے ،اور مدینہ منورہ کے مفتی اکبر شیخ محمد طاہر کی بھانجی سے ان کی شادی ہوئی ،انہی سے مولانا آزاد ؒ دنیا ئے رنگ وبو میں تشریف لائے ۔آپ کا ذاتی نام'' محی الدین احمد'' اور تاریخی نام''فیروز بخت'' رکھا گیا،لیکن آپ کی کنیت'' ابو الکلام ''اور آپ کا لقب ''آزاد'' نے آپ کے اصلی نام پر کچھ ایسا پردہ ڈالا کہ معدودے چند لوگوں کے کسی کو اس کا علم نہیں۔‌ مولانا آزاد بہت کم عمری میں دینی علوم سے آراستہ ہوگئے، اللہ تعالی نے زبردست حافظہ اور قوت یاد داشت عطا کیا تھا، اسی وجہ سے آپ نے دیگر علوم کو بھی حاصل کیا اور ہر ایک میں کمال حاصل کیا، ابتدائی عمر سے کتابوں کے شوقین اور مطالعہ کے رسیا تھے، مولانا آزاد نظم اوقات کے اس قدر پابند تھے کہ:'ایک مرتبہ دن میں پانچ بجے شام گاندھی جی آگئے، مولانا کو خبر کی تو ٹس سے مس نہ ہوئے ،فرمایا: اس وقت ملنے سے معذور ہوں کل صبح نو بجے تشریف لائیں ،گاندھی جی ہشاش بشاش لوٹ گئے اور اگلے دن صبح نو بجے تشریف لائے'۔مولانا ابوالکلام آزاد ؒ کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ، آپ ہندوستانی تاریخ کی ناقابلِ فراموش ہستی ہیں، جن کی پوری زندگی جہدِ مسلسل اور عملِ پیہم کا نمونہ تھی، جو ہند میں سرمایہ ملت کے نگہبان تھے۔ مولانا آزاد مختلف کمالات کا منبع تھے، ان کی شخصیت علوم وفنون کا مصدر اور مرکز تھی۔ علم و فضل، دین و مذہب، فلسفہ و حکمت، تصنیف و تالیف، خطابت و صحافت سیاست و تدبر، غرض کون سا ایسا علم و ہنر کا میدان تھا جو ان سے اچھوتا رہا ہو۔ سیاسی بصیرت ایسی کہ مہاتما گاندھی اور پنڈت نہرو جیسے رہنما آپ سے مشورہ کرتے۔ وہ ایک ماہر تعلیم بھی تھے۔

ملک میں تعلیم کے فروغ کے لیے انھوں نے وہ تعلیمی نظام ترتیب دیا جو اپنی مثال آپ ہے۔

مولانا آزاد نے ۱۵ /جنوری 1947/ کو وزیر تعلیم کا عہدہ سنبھالا اور 2/فروری 1958/تک اسی عہدے پر فائز رہے۔

انھوں نے تقریباً گیارہ برس تک ملک کے لئے تعلیمی خدمات انجام دیں۔وزیر تعلیم کا عہدہ سنبھالتے ہی انھوں نے یہ عزم کیا کہ وہ ہندوستان میں ایک اتنے مضبوط تعلیمی نظام کی بنیاد ڈالیں کہ آنے والی نسلیں اس پر عالی شان محل تعمیر کر سکے، مولانا ابو الکلام آزاد اس سچائی پر یقین رکھتے تھے کہ تعلیم کے بغیر ہندوستان ترقی نہیں کر سکتا۔ تعلیم کے ذریعے ہی اس ملک کو ترقی یافتہ اور مہذب ملکوں کی فہرست میں لایا جا سکتا ہے۔ان کی نگاہ میں قومی نظام تعلیم ملک کے نظام کا ناگذیر حصہ ہے۔ انھوں نے وزیر تعلیم کے عہدے پر فائز رہتے ہوئے تعلیم کے فروغ میں جو کارہائے نمایاں انجام دئے ، وہ ناقابل فراموش ہیں۔

اس تقریب میں مولانا جلال الدین صاحب مفتاحی، مولانا ابوالخیر قاسمی، مولانا حیدر قاسمی، مولانا ثناء اللہ، مولانا نظام الدین، حافظ سلیم، حافظ شفیع الرحمن، قاری نظام الدین، ماسٹر گلریز، ماسٹر عبداللہ کے علاوہ مدرسہ کے تمام کارکنان نے شرکت کی، اخیر میں قاضی شریعت کی دعا پر مجلس کا اختتام ہوا

اب الطاف کے والد کا نیا بیان میں ہوں ان پڑھ ، سمجھوتہ پولیس نے لکھوایا '

اب الطاف کے والد کا نیا بیان میں ہوں ان پڑھ ، سمجھوتہ پولیس نے لکھوایا '

کاس گنج: کاس گنج کی صدر کوتوالی میں بیت الخلا کی 2 فٹ کی ٹنکی سے ساڑھے پانچ فٹ کے 21 سال کے نوجوان الطاف کی پھانسی لگاکر خود کشی کرنے کی بات پہلے کسی کے گلے نہیں اتر رہی تھی۔ اب الطاف کے والد کا خودکشی کے اعتراف والا خط سوالات کے دائرے میں آ گیا ہے۔ الطاف کے والد کا اب کہنا ہے کہ وہ بیٹے کی موت کے بعد تناؤ میں ہیں اور اس کی دماغی حالت ٹھیک نہیں ہے۔ وہ ایک ناخواندہ انسان ہے اور اس سے ایک کاغذ پر انگوٹھا لگوا لیا گیا تھا، وہ خوف کے سایہ میں زندگی گزار رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان کے بیٹے کو انصاف ملے۔

 متاثرہ کنبہ کے ساتھ عبد الحفیظ گاندھی / تصویر آس محمد کیف

الطاف کے والد چاہت میاں نے یہ بات آج کانگریس وفد کے سامنے بھی کہی ہے۔ آج یہ وفد الطاف کے گھر پہنچا ہے۔ اس وفد میں اوم ویر یادو، توقیر عمر اور ضیاء الرحمن شامل ہیں۔ ضیاء الرحمن نے نمائندہ کو بتایا کہ الطاف کی موت کے بعد کنبہ اب تک صدمہ میں ہے اور خوفزدہ ہے۔ پورا کنبہ ناخواندہ اور غریب ہے۔ الطاف کے والد چاند میاں کو لکھنا پڑھنا بالکل بھی نہیں آتا۔ پولیس نے معاوضہ کی بات کہہ کر اسے سمجھا لیا تھا مگر اسے تاحال کوئی معاوضہ حاصل نہیں ہوا ہے۔ الطاف کے والد چاند میاں کا کہنا ہے کہ جو کچھ بھی کاغذ پر موجود ہے وہ پولیس نے لکھا ہے اور اس سے تو صرف انگوٹھا لگوایا گیا ہے۔

اس معاملے میں ایک اور سنسنی خیز انکشاف ہوا ہے۔ الطاف پر جس لڑکی کو لالچ دے کر لے جانے کا الزام ہے، وہ اکثریتی برادری سے تعلق رکھتی ہے۔ پہلے کہا جا رہا تھا کہ الطاف لڑکی کے گھر ٹائلیں لگانے گیا تھا۔ اسی بنیاد پر لڑکی کے گھر سے الطف کے چلے جانے کے بعد اس کے گھر والوں کو شک ہوا کہ ان کی لڑکی اس کے ساتھ گئی ہے اور اس کی اطلاع پولیس کو دی گئی۔ انسپکٹر کاس گنج اجے سروہی کی طرف سے دی گئی معلومات کے مطابق کوتوالی میں الطاف اور ایک نامعلوم شخص کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ 363، 366 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ اس حوالے سے الطاف کی پھوپھی نے بتایا کہ الطاف کا لڑکی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ وہ یہاں گھر پر ہی موجود تھا اور یہاں سے کہیں نہیں گیا تھا۔ یہ الزام سراسر غلط ہے اور اسی کی وجہ سے اس کی جان چلی گئی۔ پولیس ابھی تک لڑکی کا سراغ نہیں لگا سکی ہے۔ دریں اثنا، خاندان کے ایک فرد آزاد حکیم نے الزام لگایا ہے کہ انہیں لگتا ہے کہ الطاف کی پٹائی تعصب کی بنا پر کی گئی ہے۔

سماجوادی پارٹی کے ترجمان عبدالحفیظ گاندھی بھی اہل خانہ سے ملے۔ انہوں نے بتایا کہ پولیس کی کہانی میں جھول ہی جھول ہیں۔ ایک طرف جہاں الطاف کی خودکشی کی بات منطقی نظر نہیں آتی، وہیں ان کے والد کی طرف سے پولیس کو دی گئی کلین چٹ بھی کئی سوالات کو جنم دیتی ہے۔ مثلاً الطاف کے والد ناخواندہ ہیں اور خودکشی کے اعتراف کے حوالہ سے سامنے آنے والے خط کی زبان کسی ماہر کی معلوم ہوتی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس خط کی تحریر کسی وکیل یا پولیس اہلکار نے تیار کی ہو۔ پھر انگوٹھا لگوایا گیا ہے۔ پولیس نے معاملے کو دبانے کی کوشش کی ہے۔ اس کے علاوہ چاند میاں کو ملنے والے معاوضے کے بارے میں ابھی تک صورت حال واضح نہیں ہے۔ عام طور پر معاوضہ چیک کے ذریعے وصول کیا جاتا ہے اور وہ حاصل نہیں ہوا ہے۔ یہ معاملہ بہت سنگین ہے، اس میں کمزوروں اور غریبوں کو انصاف ملنے کی امید کو کچل دیا گیا ہے۔

کاس گنج کی سابق رکن اسمبلی زینت خان نے بھی پولیس کی نیت پر سوال اٹھائے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ اہل خانہ سے ملاقات کر کے آ رہی ہیں اور یہ واضح ہے کہ پولیس کا خاندان پر بہت دباؤ ہے اور وہ خوفزدہ ہیں۔ خاندان کی خواتین میں کافی غم و غصہ ہے اور وہ انصاف کی امید کھو چکی ہیں۔ لیکن ہم ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ چاند میاں کے گھر پر تمام اپوزیشن جماعتوں کے رہنما پہنچ رہے ہیں۔

متوفی الطاف کے ماموں آزاد حکیم نے نمائندہ کو بتایا کہ وہ پولیس کی کارروائی سے مطمئن نہیں ہیں۔ الطاف پر تشدد کیا گیا۔ یہ بات ان کی بہن اور الطاف کی والدہ نے بتائی ہے۔ الطاف کی پھوپھی مومنہ نے اپنے سر کی چوٹ بتائی۔ پولیس نے الطاف کو کسی سے ملنے نہیں دیا۔ میرے بہنوئی کو فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا حوالہ دے کر خاموش کر دیا گیا۔ لڑکی کا بھائی مسلسل گھر آنے کی دھمکیاں دے رہا تھا۔ پورا خاندان صدمے میں ہے۔ ہماری پولیس سے انصاف کی امید دم توڑ چکی ہے۔ ہم اس پورے معاملے کی سی بی آئی انکوائری چاہتے ہیں۔

گورنرز کانفرنس 2021 : گورنرز نے کورونا کے دوران سرگرمی سے کام کیا

گورنرز کانفرنس 2021 : گورنرز نے کورونا کے دوران سرگرمی سے کام کیا

نئی دہلی، 11 نومبر (انڈیا نیرٹیو)

جمعرات کو راشٹرپتی بھون میں منعقد 'گورنرس کانفرنس-2021' میں مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے کورونا کے خلاف جنگ میں گورنروں اور لیفٹیننٹ گورنرز کے تعاون کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ گورنروں نے کورونا کے دوران فعال طور پر کام کیا ہے۔

گورنروں اور لیفٹیننٹ گورنروں کی 51ویں کانفرنس جمعرات کو صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند کی صدارت میں راشٹرپتی بھون میں شروع ہوئی۔ صدر کووند کی صدارت میں منعقد ہونے والی یہ چوتھی کانفرنس ہے۔ تمام ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے گورنروں اور لیفٹیننٹ گورنروں کے علاوہ نائب صدر ایم وینکیا نائیڈو، وزیر اعظم نریندر مودی اور مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے کانفرنس میں شرکت کی۔

امت شاہ نے پہلی بار گورنرز کانفرنس میں شرکت کرنے والے گورنروں اور لیفٹیننٹ گورنروں کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ یہ کانفرنس دو سال بعد کورونا کی وجہ سے منعقد کی جا رہی ہے۔ شاہ نے کہا کہ وزیراعظم کی قیادت میں ملک نے کامیابی سے کورونا کا مقابلہ کیا ہے۔ آج، 100 کروڑ ویکسی نیشن کے ساتھ، ہم تقریباً کووڈ کے سائے سے نکل آئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کے تمام ممالک ہندوستان کی اس کامیابی کو سراہ رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کورونا کے دوران وزیر اعظم نے تمام ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ سے 20 بار بات چیت کی۔ گورنروں سے بھی وقتاً فوقتاً تبادلہ خیال کیا۔ کورونا جنگجوؤں کے حوصلے بلند کرنے کے لیے کئی پروگرام منعقد کیے گئے۔

آزادی کے امرت مہتسوکے پیش نظر گورنروں کی کانفرنس کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے شاہ نے کہا کہ ہمیں آزادی کے امرت مہتسو کو زیادہ سے زیادہ جوش و خروش سے منانا چاہئے اور زیادہ سے زیادہ عوام کی شرکت کو یقینی بنانا چاہئے۔ گورنرز بھی عوامی شرکت کو یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔

نئی تعلیمی پالیسی 2020 کا تذکرہ کرتے ہوئے مرکزی وزیر نے کہا کہ نئی تعلیمی پالیسی میں ہندوستانی زبانوں کو تقویت دینے کے لیے کئی دفعات کی گئی ہیں۔ انہوں نے ملک کی تمام یونیورسٹیوں میں نئی تعلیمی پالیسی کے نفاذ کے لیے گورنرز سے تعاون کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ گورنر نئی تعلیمی پالیسی کے نفاذ میں اہم کردار ادا کریں گے

جون پور کے قریب مال گاڑی کی 21 بوگیاں الٹ گئیں ، وارانسی - سلطان پور ریل روٹ بلاک

جون پور کے قریب مال گاڑی کی 21 بوگیاں الٹ گئیں ، وارانسی - سلطان پور ریل روٹ بلاک
جون پور:
 اترپردیش کے ضلع جونپور میں جمعرات کی صبح سلطان پور سے مغل سرائے جانے والی مال گاڑی کی 21 بوگیاں شری کرشنا نگر (بدلہ پور) ریلوے اسٹیشن کے نزدیک اُد پور گھاٹم پور کے قریب الٹ گئیں جس کی وجہ سے جونپور- وارانسی ریل روٹ پر ریل آمدورفت بند ہونے کی وجہ سے اس روٹ پر چلنے والی ٹرینیں اپنی جگہوں پر کھڑی کردی گئی ہیں۔
سرکاری ذرائع کے مطابق مال گاڑی مغل سرائے سے کوئلہ لانے کے لیے صبح 6:58 بجے سلطان پور سے روانہ ہوئی۔ مال گاڑی میں 59 بوگیاں تھیں۔ یہ مال گاڑی سری کرشن نگر (بدلہ پور) ریلوے کراسنگ کو عبور کرنے کے بعد صبح 7:58 بجے اُد پور گھاٹم پور کے قریب پہنچی ہی تھی کہ اچانک کچھ بوگیاں پٹری سے اتر گئیں۔ ٹرین کی تیز رفتاری کے باعث آگے سے 16 اور پیچھے سے 21 کو چھوڑ کر باقی 21 بوگیاں الٹ گئیں۔

تعلیم ہے امراض ملت کی دوا_____‌✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

تعلیم ہے امراض ملت کی دوا_____
‌✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ (9431003131)
عبد الرحیم دربھنگہوی

تعلیم کے حوالے سے انسان کی ضرورتیں دو قسم کی ہیں، ایک تو مذہبی ضرورت ہے، جس کا ایک سرااس دنیا سے اور دوسرا آخرت سے جڑا ہوا ہے، یہ تعلیم دنیوی سعادت اور اخروی نجات کے لیے ضروری ہے، اسی لیے اس تعلیم کو فرض قرار دیا گیا ، جسے اصطلاح میں بنیادی دینی تعلیم کہتے ہیں، یہاں یہ بات بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ سر کار کے رائٹ ٹو ایجوکیشن (تعلیم کے حق) سے الگ ایک چیز ہے، جب ہم حق کی بات کرتے ہیں تو اس سے لزوم کا پتہ نہیں چلتا ، کیونکہ اپنے حق سے دست برداری کو سماج میں بُرا نہیں سمجھا جاتا ، بلکہ اگر اس کا تعلق مالی حقوق سے ہو اور کوئی اس سے دست بردار ہوجائے تو اسے ایثار قرار دیا جاتا ہے، یہی حال ان تمام حقوق کا ہے جس کے نتیجے میں آدمی اپنا فائدہ چھوڑ کر دوسرے کو مستفیض ہونے کا موقع عنایت کرتا ہے، لیکن فرض وہ چیز ہے جس کی ادائیگی ہر حال میں لازم ہے، اور اگر کوئی فرض کی ادائیگی میں کوتاہی کرے تو وہ باز پرس، دار وگیر اور سزا کا مستحق ہوتا ہے، اس لیے تعلیم کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرض قرار دیا ، یعنی اس میں کوتاہی پر سزا بھی دی جا سکتی ہے، جبکہ حقوق کے حصول میں کوتاہی سزا کا موجب نہیں ہوا کرتی ۔یہ الگ بات ہے کہ بچے کے بجائے تنبیہ اور داروگیر گارجین کی ، کی جائیگی،کیونکہ بچوں کی طرف احکام متوجہ نہیں ہوتے۔تعلیم کے اس مرحلے کے لیے ضروری ہے کہ سماج کے ہر طبقہ کے بچہ کو کم عمری میں ہی تعلیمی اداروں سے جوڑ دیا جائے، انہیں زری کے کارخانوں اور ہوٹلوں سے اٹھاکر مکتب ، مدرسہ اور اسکول کی میز وچٹائی پر بیٹھا لا جائے تا کہ ان کی بنیادی دینی تعلیم سلیقے سے ہوسکے اور ان کا بچپنہ ضائع ہونے سے بچ جائے۔ پورے ہندوستان میں پھیلے مکاتب ومدارس الحمد للہ اس کام کو بڑے پیمانے پر کر رہے ہیں اور عمدگی اور خوش اسلوبی سے انجام دے رہے ہیں، لیکن خوب سے خوب تر کی تلاش جاری رہنی چاہیے۔
دوسرے علوم وہ ہیں جن کی ضرورت ہمیں اپنی زندگی بسر کرنے میں پڑتی ہے، اور چونکہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے، اس لیے ان علوم کو اس درجہ میں تو نہیں رکھا جا سکتا کہ سب کے اوپر اس کا حصول فرض قرار دیا جائے ، لیکن سماجی اور تمدنی ضرورت کے اعتبار سے مہذب سماج کی تشکیل ، عمرانی ضروریات اور زندگی برتنے کے فن کی واقفیت کے لئے الگ الگ علوم وفنون میں مہارت بھی ضروری ہے ،مثلا ہمیں رہنے کے لیے گھر چاہیے؛ اس گھر کا نقشہ بنانے کے لئے اچھے انجینئر کی ضرورت ہے ، بغیر انجینئرنگ میں مہارت کے ہم اس کام کو سلیقے سے نہیں کرسکتے، یہ سلیقگی مکتبی تعلیم سے اوپر اٹھ کر جدید عصری اعلیٰ تعلیم کے ذریعہ ہی ممکن ہے ، اس کے لیے مسلمانوں کو انجینئرنگ کالج کھولنے بھی چاہیے اور اپنے بچوں کو اس شعبے میں تیار بھی کرنا چاہیے ، کیونکہ آج یہ معاشی استحکام کا بڑا ذریعہ ہے اور پوری دنیا میں سول اور میکینکل انجینئرنگ کی مانگ بہت زیادہ ہے، اس میدان میں آگے بڑھنے کا سیدھا مطلب اعلیٰ تعلیم میں مہارت کے ساتھ مسلمانوں کے افلاس اور پس ماندگی کو دور کرنا ۔
اسی طرح ہماری صحت کا مسئلہ ہے ، یہ ایک جسمانی ضرورت ہے ، اس کے لئے ہمارے پاس اچھے ڈاکٹر ہونے چاہیے ، جو ہماری بیماریوں کا علاج کر سکیں، میڈیکل کی تعلیم کے لیے ہمارے پاس میڈیکل کالج بھی ہونے چاہیے اور اچھے اسپتال بھی ، دو چار مسلمانوں کے میڈیکل کالج اور دس بیس اسپتال، آبادی کی ضرورت کو پوری نہیں کر پاتے ، یقینا اسپتال کا کام انسانی بنیادوں پر ہوتا ہے اور مریض اور اسپتال کے منتظمین کو یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ کون کس علاقے اورکس مذہب کا ہے، لیکن اسپتال بڑی تعداد میں ہوں گے تو مریضوں کو سہولت ہوگی اور کم خرچ میں علاج کے حصول کے لیے بھی سوچنا ممکن ہوگا ، یہی حال دیگر سائنسی علوم میں مہارت کا ہے، ہمارے بچے ابتدائی تعلیم سے ثانوی تک جاتے جاتے گھر بیٹھنے اور معاشی وسائل کے حصول کے لیے فکر مند ہوجاتے ہیں، اعلیٰ تعلیم کی طرف توجہ کم ہے، اس لیے ہماری حصہ داری اوپر میں کم ہوتی جا رہی ہے، آئی، اس ، آئی پی اس، میں نمائندگی گھٹتی جا رہی ہے، سیاسی گلیاروں اور حکومت کے ایوانوں میں بھی آزادی کے بعد ہم مسلسل کم ہو رہے ہیں، ہمارے یہاں لیاقتوں کی کمی نہیں ہے ، کمی فکر مندی ، منصوبہ بندی اور اس حوصلے کی ہے جو انسان کو آگے بڑھنے کے لیے مہمیز کیا کرتا ہے، یہ مہمیز کرنے والی قوت الگ ہونی چاہیے ، اس کے لیے ادارے، تنظیمیں ، جماعتیں جمیعتیں اور سماج کے مختلف طبقات کو آگے آنے کی ضرورت ہے، آج سوشل سائٹس پر ملی قائدین کے خلاف سب وستم ، گالی گلوج اور بُرا بھلا کہنے کی مہم زوروں پر ہے ، اس بُرا بھلا کہنے والوں سے پوچھیے کہ تم کیا کر رہے ہو ؟ تو جواب ہو گا صرف تنقید، جو لوگ دوسروں کو بُرا بھلا کہنے میں اپنی توانا ئی صرف کر رہے ہیں، اگر وہ اپنی انرجی اور توانائی ملی مسائل کے حل، تعلیمی بیداری اور معاشی اعتبار سے مسلمانوں کو اٹھانے پر صرف کریں تو اس سے ملت کو بے پناہ فائدہ پہونچے گا ، کام آگے بڑھے گا ، اس کے بر عکس ملی قائدین کو بُرا بھلا کہنے سے رہا سہا اعتماد بھی ختم ہو تا ہے، اور جو صاحب تنقید کی بساط بچھائے ہوتے ہیں ان کے اندر خود کچھ کرنے کی صلاحیت  ہوتی نہیں اس لیے ایک خلا سا محسوس ہونے لگتا ہے، ہمیں اپنی صلاحیتوں کو جدید اعلیٰ تعلیم کے مواقع پیدا کرنے ، یونیورسٹی، کالج، انٹر کالج اور عصری علوم کے اداروں کے کھولنے میں لگانی چاہیے ، شرعی حدود وقیود کے ساتھ لڑکیوں کے لیے بھی تعلیمی ادارے کھولنے چاہیے اور ان کو آگے بڑھا نا چاہیے اس لیے کہ ایک مرد پڑھتا ہے تو فرد پڑھتا ہے ، لیکن ایک لڑکی پڑھتی ہے تو گھر پڑھتا ہے، خاندان میں تعلیم کی بنیاد پڑتی ہے، اور آنے والی نسل کے تعلیم یافتہ ہونے کے امکانات پیدا ہوتے ہیں، ہمیں ذریعہ تعلیم کے بارے میں بھی سوچنا چاہیے ، انگلش میں بچے کی مہارت اور چیز ہے اور ذریعہ تعلیم اسے بنانا بالکل دوسری چیز ، ماہرین تعلیم اس بات پر متفق ہیں کہ مادری زبان ابتدائی تعلیم کے حصول میں زیادہ معاون اور مؤثر ہے؛ لیکن ہمارا رجحان انگلش میڈیم اسکولوں اور کنونٹوں کی طرف بڑھا ہوا ہے ، جس کی وجہ سے مسلمانوں کے بچے بھی اردو زبان سے نا بلد ہیں اور اردو کا بڑا سرمایہ ان کی پہونچ سے باہر ہے، ہمیں یہ اچھی طرح جان لینا چاہیے کہ اردو صرف ایک زبان نہیں ہے، یہ ایک تہذیب ہے، یہ ایک ثقافت اور کلچر ہے، اردو زبان سے نابلد رہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم ایک تہذیب اور ثقافت وکلچر سے نا بلد ہوتے جا رہے ہیں، ضرورت ہے کہ اعلیٰ تعلیم کے ساتھ ہم اپنی مادری زبان کو فراموش نہ کریں، تاکہ ہماری تہذیب ، مذہب اور ثقافت سے ہمارا رشتہ منقطع نہ ہو ، ان تمام باتوں کے ساتھ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ محض تعلیم کا حاصل کرلینا کافی نہیں ہے، بلکہ ہمیں ہر سطح پراعلیٰ اخلاقی اقدار بھی پیدا کرنے کی ضرورت ہے، جس کے بغیر انسانی ہمدردی، خیر خواہی اور بھلائی کا تصور نا پید ہوتا ہے، یہ اعلیٰ اخلاقی اقدار پیدا ہوں گے تو ڈاکٹر مریض کو آپریشن ٹیبل پر لے جانے کے بعد دوسرے مرض کے انکشاف پر فیس بڑھانے کی بات نہیں کرے گا ، انجینئر نقشہ بناتے وقت پڑوسی کے گھر کی ہوا، روشنی وغیرہ کے لیے فکر مند ہو کر نقشہ بنائے گا ، سائنس داں  مہلک ہتھیاروں کو بناتے وقت اس سے بچاؤ کی تدبیروں پر بھی ریسرچ کرے گا ، سیاست داں، ابن الوقتی ، خود غرضی ، مفاد پرستی سے اونچا اٹھکر بد عنوانی سے پاک سماج بنانے اور لوگوں کے فائدے کے لیے کام کریں گے، غرض تعلیم کے ساتھ تربیت بھی اتنہائی ضروری ہے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں طلبہ کی فراہمی کے لیے ہمیں ابتدائی اور ثانوی تعلیم کے اداروں کے قیام پر بھی توجہ دینی چاہیے کیونکہ اعلیٰ تعلیم کے لیے معیاری طلبہ یہیں سے فراہم ہو سکتے ہیں، اور مقابلہ جاتی امتحان میں کامیابی کے بعد ملک وملت کے لیے کار آمد ہو سکتے ہیں، ان اداروں میں تربیتی نظام کو اعلیٰ پیمانے پر رائج کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ صرف ڈاکٹر انجیئر سیاست داں، دانشور نہ ہوں؛ بلکہ وہ اپنی خدمات کے ذریعہ فرد سے لے کر سماج کے مختلف طبقات کو فائدہ پہونچا سکیں۔
ایک بڑا مسئلہ حصول تعلیم میں گراں قدر اخراجات کا ہے، مسلمانوں کی معاشی حالت عمومی طور پر ایسی نہیں ہے کہ وہ تعلیم کی انڈسٹری سے مطلوبہ علوم حاصل کر سکیں، اس کے لیے ان تمام سرکاری اور غیر سرکاری اسکیموں سے ہمیں طلبہ کو واقف کرانا چاہیے، جس سے فائدہ اٹھا کر ہمارے بچے تعلیم کو جاری رکھ سکیں، اور تعلیم چھوڑنے کے تناسب میں کمی آسکے، میرا خیال ہے کہ تھوڑی سی چوکسی اور مختلف تنظیموں کی طر ف سے تھوڑی معلومات کی فراہمی سے ہم اس پریشانی سے چھٹکارا پا سکتے ہیں، ضرورت ہے عزم وارادہ کی، عزم کمزور ہو اور ارادہ متزلزل تو مالی مشکلات  راستے میں حائل ہوجائیں گی اور ان کو عبور کرنا آسان نہیں ہو گا، اس لیے ہمیں اپنے جوانوں میں، طالب علموں میں اعتماد پیدا کرنا چاہیے کہ تم ساری رکاوٹوں دشواریوں اور مشکلات کے باوجود بہت کچھ کر سکتے ہو بقول شاعر 
ع۔ چٹانیں چور ہوجائیں جو ہو عزم سفر پیدا
 ایک بڑا کام یہ بھی کرنے کا ہے کہ جو طلبہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں، ان کے لیے معیاری تعلیم کا نظم کیا جائے، ادارہ جس سطح کا ہو اور جس طرح کا بھی ہو، وہاں سے ہمارے فارغین اپنی اپنی صلاحیتوں کے اعتبار سے مکمل ہوں، ہم جانتے ہیں کہ یہ دور مقابلوں کا  ہے، معیار کا ہے، کوالیٹی نہیں رہے گی تو ہم کمیپٹیشن کے اس دور میں پچھڑتے چلے جائیں گے ، ہم جس معیار کی بات کرتے ہیں، وہ ہمارے مقابل سے کئی گنا آگے ہونی چاہیے، اس لیے کہ بحالی والا قلم جن کے ہاتھ میں ہے، وہ عام حالات میں ہم تک پہونچتے پہونچتے شل ہو جاتا ہے اور ہمارے طلبہ کو مختلف قسم کے تعصبات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس لیے ہمیں (ہیوی اکسٹرا) غیر معمولی صلاحیت کے ساتھ میدان میں اتر نا ہوگا، میں بات صلاحیت کی کر رہا ہوں، صرف نمبرات کی نہیں ، نمبرات کے باوجود کاغذات کے اس ٹکڑے کے پیچھے علمی صلاحیت کا فقدان ہو توہمیں کوئی آگے نہیں بڑھا سکتا، ہمیں آگے بڑھنا ہے، علم کے میدان میں ، تحقیق کے میدان میں، تجربات کے میدان میں  یہ ایک تحریک ہے، یہ مہم ہے اس تحریک اور مہم کو کامیاب کرنے کے لئے حضرت امیر شریعت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی مدظلہ کے حکم پر ہر ضلع میں کم از کم دو مکاتب، چار ریاستوں میں ایک سو سے زائد اسکول کے قیام کے ساتھ پھلواری شریف میں آٹھویں، نویں اور دسویں کلاس کے طلبہ کے لیے معیاری کوچنگ کے منصوبہ پر عمل شروع ہو گیا ہے ، تحریک کو کامیاب کرنے لیے ہر طبقہ کے لوگوں کو آگے آنا چاہیے۔ اور امارت شرعیہ کی اس تحریک کو کامیاب بنانے میں اپنی مضبوط حصہ داری پیش کرنی چاہیے___

ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا دوسرا سیمی فائنل آج ناقابل شکست پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان دبئی میں کھیلا جائے گا۔


ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا دوسرا سیمی فائنل آج ناقابل شکست پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان دبئی میں کھیلا جائے گا۔

ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا دوسرا سیمی فائنل آج ناقابل شکست پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان دبئی میں کھیلا جائے گا۔ اوپنر محمد رضوان اور مڈل آرڈر بیٹر شعیب ملک فُلو کا شکار ہونے کے باعث گزشتہ روز پریکٹس نہ کرسکے اور دونوں کھلاڑیوں نے ڈاکٹر کے مشورے پر آرام کیا جبکہ ٹیم کے دیگر کھلاڑیوں نے 2 گھنٹے سخت پریکٹس کی۔ پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے میڈیا منیجر نے بتایا ہے کہ شعیب ملک اور محمد رضوان کے کورونا ٹیسٹ کروائے گئے ہیں جو کلیئر آئے ہیں۔

ڈاکٹر آج صبح دونوں کھلاڑیوں کا چیک اپ کریں گے۔ میچ سے قبل شعیب ملک اور محمد رضوان کی طبیعت بہتر نہ ہونے کی صورت میں سرفراز احمد اور حیدر علی کو پلئینگ الیون میں شامل کئے جانے کا امکان ہے۔ آج کے میچ سے متعلق چیئرمین پی سی بی رمیز راجا کا کہنا ہے کہ سیمی فائنل میں کپتان بابر اعظم کو کچھ نیا کرنے کی ضرورت نہیں، قومی ٹیم کا اعتماد بلند ہے۔ کپتان بابر اعظم کا کہنا ہے کہ ورلڈ کپ کے لیے جو کھلاڑی چاہیے تھے وہی ملے، نڈر ہو کر فیصلے کررہے ہیں۔

واضح رہے کہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2021 میں پاکستان واحد ناقابل شکست ٹیم ہے اور بابر الیون نے گروپ میں تمام 5 میچز کے دوران ٹیم میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔ محمد رضوان، بابر اعظم، فخر زمان، محمد حفیظ، شعیب ملک، آصف علی، شاداب خان، عماد وسیم، حسن علی، حارث رؤف اور شاہین آفریدی نے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے تمام گروپ میچز میں پاکستان ٹیم کی نمائندگی کی ہے۔ گزشتہ روز پہلے سیمی فائنل میں نیوزی لینڈ نے انگلینڈ کو سنسنی خیز مقابلے کے بعد 5 وکٹوں سے شکست دیدی تھی۔ آئی سی سی مینز ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ 2021 کا فائنل 14 نومبر کو دبئی میں کھیلا جائے گا۔


اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...