Powered By Blogger

اتوار, دسمبر 05, 2021

شاعر انقلاب جوش ملیح آبادی (پیدائش: 5 دسمبر 1898ء ) پورا نام شبیر حسین خاں جوش ملیح آبادی اردو ادب کے نامور اور قادر الکلام شاعر تھے۔ آپ آفریدی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔ میری خوش نصیبی یہ ہے کہ میں جوش صاحب کے وطن ملیح آباد کئ مرتبہ گیا ہوں،

جوش ملیح آبادی کے یومِ پیدائش پر خصوصی تحریر

تحریر - خرّم ملک کیتھوی
موبائل - 9304260090



شاعر انقلاب جوش ملیح آبادی (پیدائش: 5 دسمبر 1898ء )
 پورا نام شبیر حسین خاں جوش ملیح آبادی اردو ادب کے نامور اور قادر الکلام شاعر تھے۔ آپ آفریدی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔ 
میری خوش نصیبی یہ ہے کہ میں جوش صاحب کے وطن ملیح آباد کئ مرتبہ گیا ہوں، 

آپ 5 دسمبر 1898ء کو اترپردیش ہندوستان کے مردم خیز علاقے ملیح آباد کے ایک علمی اور متمول گھرانے میں پیدا ہوئے۔ تقسیم ہند کے چند برسوں بعد ہجرت کر کے کراچی میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ جوش نہ صرف اپنی مادری زبان اردو میں ید طولیٰ رکھتے تھے بلکہ آپ عربی، فارسی، ہندی اور انگریزی پر عبور رکھتے تھے۔ اپنی اِسی خداداد لسانی صلاحیتوں کے وصف آپ نےقومی اردو لغت کی ترتیب و تالیف میں بھرپور علمی معاونت کی۔نیز آپ نے انجمن ترقی اردو ( کراچی) اور دارالترجمہ (حیدرآباد دکن) میں بیش بہا خدمات انجام دیں۔ 22 فروری 1982ء کو آپ کا انتقال ہوا۔

جوش نے شعری فضا میں آنکھ کھولی۔ جوش کی شاعری تیرہ سال سے شروع ہوگئی تھی۔ ابتدا میں عزیز لکھنوی سے اصلاح لی،

تصانیف 

آپ کثیر التصانیف شاعر و مصنف تھے۔ آپ کے شعری مجموعوں اور تصانیف میں مندرجہ ذیل نام اہم ہیں۔

روح ادب
آوازہ حق
شاعر کی راتیں
جوش کے سو شعر
نقش و نگار
شعلہ و شبنم
پیغمبر اسلام
فکر و نشاط
جنوں و حکمت
حرف و حکایت
حسین اور انقلاب
آیات و نغمات
عرش و فرش
رامش و رنگ
سنبل و سلاسل
سیف و سبو
سرور و خروش
سموم و سبا
طلوع فکر
موجد و مفکر
قطرہ قلزم
نوادر جوش
الہام و افکار
نجوم و جواہر
جوش کے مرثیے
عروس ادب (حصہ اول و دوم)
عرفانیات جوش
محراب و مضراب
دیوان جوش

نثری مجموعے 

مقالات جوش
اوراق زریں
جذبات فطرت
اشارات
مقالات جوش
مکالمات جوش
یادوں کی برات (خود نوشت سوانح)

اہم اعزازات 
پدم وبھوشن، 1954

ہلال امتیاز، 2013

اقبال کے بعد جوش ؔ نظم کے سب سے بڑے شاعر ہیں۔
آپ کو شاعر انقلاب بھی کہا جاتا ہے،

برصغیر کے ممتاز شاعر جوش ملیح کو گزرے اکتیس برس ہوگے لیکن ان کی یادیں ابھی ہمارے دلوں میں نقش ہیں ہم کبھی بھی ان کی خدمات کو فراموش نہیں کرسکتے۔ تقسیم ہند کے چند سال بعد وہ پاکستان ہجرت کرگئے ان کا مجموعہ کلام لگ بھگ چوبیس مضامین پر مشتمل ہے۔جوش نے تحریک آزادی میں بھی کارہائے نمایاں انجام دیے
آپ 22 فروری 1983 کو اس دار فانی سے کوچ کرگئے،

گزر رہا ہے ادھر سے تو مسکراتا جا
چراغِ مجلسِ روحانیاں جلاتا جا

متھرا کی شاہی عیدگاہ مسجد میں ' 6 دسمبر ' کو کرشن کی مورتی نصب کریں گے ! ہندوتوا تنظیموں کا اعلان

متھرا کی شاہی عیدگاہ مسجد میں ' 6 دسمبر ' کو کرشن کی مورتی نصب کریں گے ! ہندوتوا تنظیموں کا اعلان

متھرا: یوپی کے متھرا میں 6 دسمبر کو شاہی عید گاہ مسجد میں کرشن کی مورتی نصب کرنے اور گنگا جل چڑھانے کا اعلان کیا ہے۔ اس طلاع کے بعد شہر بھر میں انتظامیہ کی جانب سے دفعہ 144 نافذ کر دی گئی ہے۔ مسجد کے ارد گرد یوپی پولیس، پی اے سی اور آر اے ایف کے جوانوں کو تعینات کیا گیا ہے۔

خیال رہے کہ ایودھیا کی بابری مسجد کی جگہ پر مندر تعمیر کا آغاز ہونے کے بعد ہندوتوادی تنظیموں کے حوصلے بلند ہیں اور اب ان کی نظریں دوسرے متنازعہ مذہبی مقامات کو حاصل کرنے پر مرکوز ہیں۔ اس کے علاوہ یوپی میں آئندہ اسمبلی انتخابات کے پیش نظر برسراقتدار جماعت بی جے پی کی جانب سے بھی اس مسئلہ کو طول دیا جا رہا ہے۔ حال ہی میں یوپی کے نائب وزیر اعلیٰ کیشو پرساد موریہ نے ٹوئٹ کر کے ایودھیا کے بعد متھرا میں کرشن جنم بھومی مندر تعمیر کا اشارہ کیا تھا۔

ہندوتوا تنظیموں کے اس اعلان کے بعد متھرا میں سخت چوکسی برتی جا رہی ہے۔ مسجد کی جانب جانے والے ہر شخص کا شناختی کارڈ چیک کیا جا رہا ہے اور جامہ تلاشی بھی لی جا رہی ہے۔ متھرا پولیس سوشل میڈیا پر بھی کڑی نگرانی رکھ رہی ہے۔

ایس ایس پی متھرا کے مطابق اب تک سوشل میڈیا پر اشتعال انگیز پوسٹ کرنے پر شہر کے گووند نگر اور کوتوالی پولیس تھانہ میں 4 ایف آئی آر درج ہو چکی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 6 دسمبر کو شاہی عیدگاہ مسجد اور شری کرشن رام جنم بھومی کے مقام پر گاڑیوں کی نقل و حرکت پر پابندی عائد رہے گی۔ اس کے لئے باضابطہ طور پر ٹریفک ایڈوائیزری بھی جاری کی گئی ہے۔

خیال رہے کہ 6 دسمبر کو بابری مسجد کی برسی کے موقع پر متھرا میں چار ہندوتوا تنظیمیں اکھل بھارتیہ ہندو مہا سبھا، شری کرشن جنم بھومی نرمان نیاس، نرائنی سینا اور شری کرشن مکتی دل نے شاہی عید گاہ میں جلابھیشیک (گنگا جل چڑھانے) کا اعلان کیا ہے۔ وہیں اکھل بھارتیہ ہندو مہا سبھا نے انتظامیہ سے مسجد میں کرشن کی مورتی نصب کرنے کی اجازت طلب کی۔ تاہم انتظامیہ نے انہیں اجازت دینے سے انکار کر دیا۔

جامعہ ملیہ: ریسرچ اسکالرروبینا وزیر اعظم رسرچ فیلو شپ کے لیے منتخب

جامعہ ملیہ: ریسرچ اسکالرروبینا وزیر اعظم رسرچ فیلو شپ کے لیے منتخب

جامعہ ملیہ: ریسرچ اسکالرروبینا وزیر اعظم رسرچ فیلو شپ  کے لیے منتخب
جامعہ ملیہ: ریسرچ اسکالرروبینا وزیر اعظم رسرچ فیلو شپ کے لیے منتخب

 

جامعہ ملیہ اسلامیہ کی ریسرچ اسکالر محترمہ روبینا وزیر اعظم رسرچ فیلو شپ (پی ایم آر ایف) کے لیے منتخب جامعہ ملیہ اسلامیہ کے لیے یہ امر باعث افتخار ہے کہ شعبہ الیکٹریکل انجینئر نگ کی پی ایچ ڈی اسکالر محترمہ روبینا کو مئی دوہزار اکیس مہم کے لیے راست داخلہ زمرے میں مؤقر وزیر اعظم رسرچ فیلوشپ(پی ایم آر ایف)کے لیے منتخب کیا گیا ہے۔

پروفیسر نجمہ اختر،شیخ الجامعہ،جامعہ ملیہ اسلامیہ نے اس اعزاز کے لیے انھیں مبارک دی اور امید ظاہر کی کہ معیاری تحقیقی ماحصل کے ذریعہ وہ اسے درست ثابت کریں گی۔

پروفیسر منا خان،صدر شعبہ الیکٹریکل انجینئرنگ،جامعہ ملیہ اسلامیہ نے کہا کہ اسکالر کو اس فیلوشپ کے تحت پہلے دوسال ستر ہزار روپئے،تیسرے سال پچھتر ہزار روپئے اور چوتھے اور پانچویں سال میں علی الترتیب اسّی ہزار روپئے ملیں گے۔اس کے علاوہ، اس اسکیم کے تحت اسکالر ہر سال دولاکھ روپئے کی رسرچ گرانٹ (پانچ سال میں دس لاکھ) کی بھی اہل ہے۔

محترمہ روبینا کی تحقیق

”Development of Smart Capacitive Sensors for Condition Monitoring of Electrical Apparatus in Smart Grids"

پر مبنی ہوگی۔اس کا بنیادی مقصد ٹراسفرما اور گیس موصل سوئچ گیئر (جی آئی ایس)جیسے اہم برقی آلات و اوزارکے لیے اعلی جامد اور متحرک خصوصیات والی آن لائن درستگی کی دیکھ ریکھ والے کیپی سیٹؤ محاس وضع کرنا ہے۔

اس کا زیادہ تر استعمال خرد ساخت کی حامل سینسنگ فلم کے ساتھ اپلی کیشنز کو زیادہ تر متوازی پلیٹ اور مستوی بین ڈیجیٹل کیپی سیٹؤ محاس کے ساتھ سمجھنے کے لیے ہوتاہے۔اگر چہ آج کل خرد ساختی مادے محسوساتی اطلاقات کے لیے بروئے کار لائے جاتے ہیں اور نینو مٹیریل کا استحکام اپلی کیشن کے لیے اہم ہے۔محققین حسیت پر زیادہ توجہ دیتے ہیں جنھیں جدید ترقی یافتہ آئی سی آلات سے نمٹا جاسکتا ہے لیکن استحکام کی کمی کے باعث محاس کی خراب کارکردگی کو آئی سیز سے سمجھنا اور حل کرنا مشکل ہے۔

محترمہ روبینا، شعبہ الیکٹریکل انجینرنگ، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر طارق الاسلام کی نگرانی میں پی ایچ ڈی کررہی ہیں ۔ وہ ’ڈیزائن،ماڈلنگ پر کام کرنے کے ساتھ اسمارٹ گرڈ میں چند اہم معیارات کے غیر رابطے والی پیمائش کے لیے اعلی کارکردگی کے حامل کیپی سیٹؤ محاس وضع کرنے پر کام کریں گی۔‘اسمارٹ گرڈ کے سینسر س کواعلی درجہ حرارت اور برقناطیسی رو والے مخل موسم اور سخت حالات کو جھیلنا پڑتاہے۔

 اس تحقیق سے نئے کیپی سیٹؤ محاس کی تیاری کا راستہ صاف ہوگا جو سستا بھی ہوگا اور جسے نصب کرنا بھی آسان ہوگا اور جو اپلی کیشن کے تقاضوں کو پورا بھی کرے گا۔

روبینا نے اس کامیابی اور اعزاز پر پروفیسر اے۔قیو۔انصاری،کوآرڈی نیٹر پی ایم آر ایف اسکیم،صدر شعبہ،ڈین فیکلٹی آف انجینرئنگ اینڈ ٹکنالوجی،نگراں اور شعبے کے دیگر اراکین کا شکریہ ادا کیا۔

 قابل ذکر ہے کہ دسمبر دوہزار بیس مہم کی لیٹریل داخلہ اسکیم میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے چھے رسرچ اسکالر پی ایم آر ایف کے لیے منتخب ہوئے تھے جن میں سے پانچ طالبات تھیں۔

بہترین صلاحیتوں کو رسرچ کے میدان میں لے آنا اس پرکشش فیلوشپ اسکیم کی اصل تحریک ہے تاکہ اختراعیت و جدت کے ذریعہ ترقی کے خواب کو شرمندہ تعبیر کیا جاسکے۔ بجٹ دوہزار اٹھارہ۔انیس میں اس اسکیم کا اعلان ہوا تھا۔


اپنے کو ہلاکت میں مت ڈالیے______مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی ایڈیٹر ہفت روزہ نقیب امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہہر چیز کی رفتار کا ایک معیار ہے، مقررہ رفتار سے آگے بڑھنے کا عمل تیز رفتاری کہلاتا ہے

اپنے کو ہلاکت میں مت ڈالیے______
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی ایڈیٹر ہفت روزہ نقیب امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
ہر چیز کی رفتار کا ایک معیار ہے، مقررہ رفتار سے آگے بڑھنے کا عمل تیز رفتاری کہلاتا ہے ، یہ ہر حال میں مضر اور بعض حالتوں میں مہلک ہے،اعتدال اور میانہ روی سے توازن باقی رہتا ہے، تیز رفتاری عموماً توازن کو ختم کردیتی ہے ، اس کے نتیجے میں ایسے حادثات پیش آتے ہیں جس کے پیچھے آہ ونالہ، گریہ زاری، تباہی وبربادی کی ایک داستان رقم ہوتی ہے ۔
 شمالی ہندوستان میں ٹریفک کا نظام بد سے بد تر ہے ، یہاں ٹریفک کا سب سے بڑا اصول ہے کہ جس طرح گاڑی نکال سکو نکال لو، دائیں بائیں اور سائڈ تک کی پرواہ نہیں کی جاتی، بس والے گاڑی اسٹینڈ پر مسافروں کے حصول کے لیے بہت دھیرے دھیرے گاڑی چلاتے ہیں اور شہر سے نکلنے کے بعد سرپٹ دوڑا نا شروع کرتے ہیں تاکہ منزل پر پہونچ کر ان کا ٹائم کہیں فیل نہ ہوجائے، اس دوڑ میں وہ تیز رفتاری کے سارے رکارڈ توڑنے کی کوشش کرتے ہیں ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے کوئی ریس چل رہی ہے، اس کے نتیجے میں وہ کبھی کبھی مسافروں کو ان کی منزل سے دور اتارتے ہیں اور اس تیزی میں اتارتے ہیں کہ مسافر گرتے گرتے بچتا ہے،کبھی کبھی تو بچے اور خواتین منہہ کے بل گرجاتے ہیں اور ڈرائیور گاڑی لے کر ایک دو تین ہو جاتا ہے ، یقینا سارا قصور ڈرائیور کا ہی نہیں ہوتا ، ان لوگوں کا بھی ہوتا ہے جو سڑک کے کنارے دکانیں لگا کر بیٹھ جاتے ہیں ، بے جگہ گاڑیاں کھڑی کر دیتے ہیں،جس سے سڑکوں کی وسعت سمٹ جاتی ہے اور آمد ورفت میں دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔
سڑک کے کنارے حکومت کی جانب سے مختلف انداز کے بورڈ لگے ہوتے ہیں،مثلا تیز رفتاری موت ہے، دھیرے چلئے گھر پر آپ کا انتظار ہو رہا ہے، حادثوں سے بچئے، لیکن اس قسم کے بورڈ کو پڑھنے کی فرصت کسے ہے ، زندگی بھاگم بھاگ میں گذر رہی ہے اور تیز رفتاری ہماری جانیں لے رہی ہے ، ٹریفک کے اصولوں کی پابندی کرکے ہم بہت سارے حادثات سے بچ سکتے ہیں، ٹریفک پولس ، گاڑی ڈرائیور اور عام انسان کو اس معاملہ میں زیادہ حساس اور فعال ہونے کی ضرورت ہے، ورنہ حادثات کو روکنا مشکل ہوگا ، ہمارے یہاں حادثہ کے بعد روپے تقسیم کرنے کا بھی رواج ہے ، انسانی جان انمول  ہے اس کا کوئی معاوضہ ہوہی نہیں سکتا، اس سے زیادہ کچھ نہیں ۔
حادثے زندگی کی بڑی حقیقت ہیں، ہنستی ، کھیلتی ، چلتی پھرتی ، دوڑتی بھاگتی زندگی کب حادثے کی چپیٹ میں آجائے، کہنا مشکل ہے ، یہ حادثے دبے پاؤں آتے ہیں اور گھر کا گھر اجاڑ دیتے ہیں،یقینا جس کا وقت آگیا، وہ چلا جائے گا؛ لیکن ہمیں وقت کا پتہ نہیں، اس لیے ہم حفاظتی تدابیر اختیار کرنے کے پابند ہیں، ان حادثوں میں ہماری بے احتیاطی کا بھی کم عمل دخل نہیں ہے، احتیاط میں لا پرواہی بظاہر حادثے کا سبب ہوتی ہے، نئی نسلوں کی عجلت پسندی غلط سمت میں گاڑی چلانا ، نابالغ ڈرائیور، بغیر ہیلمٹ اور بیلٹ کے ڈرائیوری ، سڑکوں پر بے ترتیب گاڑیاں کھڑی کرنا اور ٹریفک ضابطوں کی ان دیکھی کی وجہ سے بھی حادثے رو نما ہوتے ہیں، ایک اندازہ کے مطابق سڑک حادثے میں روزانہ چار سو زندگیاں ختم ہو جاتی ہیں۔
یہ حادثے ستر فی صدر گاڑی چلانے والوں کی غلطی سے ہوا کرتے ہیں، سڑکوں کی بد حالی، پُل کی تاریکی ، موٹر سائیکل کی لہیریا چال، ایڈونچر کا شوق بھی سڑک حادثوں کا سبب بنتا ہے ، سڑکوں پر بجلی کے پول اور درختوں کی موجودگی بھی ا ندھیرے میں کئی زندگی کونگل جاتی ہے ، اور زندگی نے ایک بار موت کو گلے لگا لیا تو وہ لوٹ نہیں سکتی ہے، زندگی قیمتی ہے، ٹریفک ضابطوں کی پابندی کرکے بظاہر اسے بچایا جا سکتا ہے، لیکن ہندوستان میں نقل وحمل کے جو ضابطے ہیں، وہ کاغذی ہیں، ان پر عمل نہیں ہوتا ہے، جو چاہے جس طرح چاہے گاڑی بھگا تا رہتا ہے، سڑکوں پر سگنل کی پرواہ کیے بغیر گاڑی بڑھا لینا عام سی بات ہے، ٹریفک پولیس غیر تربیت یافتہ ہے اور گاڑی روک کر دس بیس روپے وصول کر سارے ضابطے دھرے رکھنے میں طاق ہے ، یہ ساری بے اصولی اپنے کو ہلاکت میں ڈالنے کے مترادف ہے، اس لیے اپنی حفاظت کے لیے ٹریفک اصولوں پر عمل کرنا ضروری ہے، جب تک ہم حساس نہیں ہوں گے، اور یہ سارے سسٹم بدلے نہیں جائیں گے ، حادثے نہیں رک سکتے ،اور پتہ نہیں کب ہماری باری آجائے اس لیے ہمیں اپنے اعمال کی اصلاح پر توجہ دینی چاہیے، حقوق وفرائض کی ادائیگی کا خیال رکھنا چاہیے ، اللہ کے حقوق بھی اور بندوں کے حقوق بھی، نہ معلوم کب موت کا فرشتہ روح کو قفس عنصری سے لیکر اڑ جائے، اللہ رب العزت سے حادثاتی موت سے پناہ بھی چاہنی چاہیے اور آمد ورفت کے اصول وضوابط پر سختی سے عمل کرنا چاہیے ، تاکہ حادثوں سے بچنا ممکن ہو سکے

آل انڈیا مسلم پر سنل لا ءبورڈ :کچھ توقعات اور خواہشات

آل انڈیا مسلم پر سنل لا ءبورڈ :کچھ توقعات اور خواہشات

آل انڈیا مسلم پر سنل لا ءبورڈ :کچھ توقعات اور خواہشات
آل انڈیا مسلم پر سنل لا ءبورڈ :کچھ توقعات اور خواہشات

 

wwww

پروفسر اختر الواسع،نئی دہلی

 بمبئی میں دسمبر 1972ءمیں مسلمانوں کے تمام مذہبی فرقوں کے رہنما اور نمائندے اور سیاسی جماعتوں کے قائدین جمع ہوئے تھے اور انہوں نے ایک ایسے وقت میں جب یکساں سِوِل کوڈ کی بعض حلقوں کی طرف سے پُرزور حمایت ہو رہی تھی، مسلم پرسنل لاء میں مداخلت کی باتیں ہو رہیں تھیں، ایک غیرسرکاری تنظیم آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے نام سے بنائی۔ راقم الحروف نے بھی اس کنوینشن کے ذمہ داروں کی دعوت پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اسٹوڈینٹس یونین کے اس وقت کے صدر (آج کے گورنر کیرالہ) جناب عارف محمد خاں کے ساتھ طلبہ یونین کے جنرل سکریٹری کی حیثیت سے شرکت کی تھی اور بورڈ کے قیام کے تجویز کی تائید میں تقریر بھی کی تھی۔ اس بات کو کوئی مانے یا نہ مانے لیکن یہ بالکل صحیح بات ہے کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ ہندوستانی مسلمانوں کا ایک ایسا ادارہ اور تنظیم ہے جس پر مسلمان سب سے زیادہ بھروسہ کرتے ہیں۔ بورڈ کے قیام کا اصل مقصد مسلمانوں کے عائلی قوانین کا تحفظ رہا ہے لیکن گزرتے وقت کے ساتھ حالات نے بورڈ کو اس پر مجبور کیا کہ وہ وسیع تر معنوں میں مسلمانوں کے جان و مال اور حقوق کا تحفظ بھی اپنے دائرے کار میں شامل کر لے۔

کورونا کی عالمی وبا کے سبب ایک طویل عرصہ کے بعد 20 اور 21 نومبر کو کانپور میں بورڈ کا دو روزہ اجلاس ہوا۔ پورے ملک سے 100 سے زائد اراکین، عہدیدارن، علما اور دانشوران شریک ہوئے۔ نئے عہدیداران کا انتخاب عمل میں آیا، مختلف مسائل پر بات چیت ہوئی اور آخر میں قراردادوں کی منظوری کے بعد اجلاس ختم ہوا۔ ملک کے سلگتے ماحول میں مسلمانوں کو بورڈ سے جو امیدیں تھیں، اس میں مایوسی ہوئی۔ اجلاس میں یکساں سول کوڈ، جبراً مذہب تبدیلی، لوجہاد، سی اے اے، این آر سی،ماب لنچنگ، بے قصوروں کی گرفتاری اور دیگر اہم ایشوز پر غور و خوض تو ہوا ۔

غور کریں تو پتہ چلے گا کہ ملت کی زبوں حالی، مظلومی اور بے چارگی کو دیکھتے ہوئے عائلی قوانین میں انصاف اور حقوق کی بازیابی کے لئے مسلم پرسنل لاء بورڈ کا قیام عمل میں آیا تھا۔بعد ازاں بورڈ کے تمام عہدیداران اور اراکین نے فیصلہ کیا تھا کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ خود کو صرف شرعی اور عائلی مسائل تک محدود نہیں رکھے گا بلکہ مسلمانوں کا تحفظ، حقوق کی بازیابی اور ہمہ جہت ترقی کو یقینی بنانے کے لئے بھی کام کرے گا۔ اس کے لئے جامع حکمت عملی وضع کی گئی، افراد تیار کئے گئے اور ان کو ذمہ داریاں سونپی گئیں۔ اس طرح ملت کا یہ کاررواں آگے بڑھتا رہا اور کامیابیاں ملتی رہیں۔ بنیاد گزاروں نے سنگلاخ راہ سے گزر کر مسلمانوں کوانصاف دلایا۔ منزل کی جدوجہد میں وہ زخمی بھی ہوئے، لیکن کبھی آبلہ پائی کی شکایت نہیں کی اور نہ وہ اس سے ڈرے۔

کانپوراجلاس میں دو روز تک غور و خوض کے بعد 11 قراردادیں منظور کی گئیں اور اعلامیہ جاری کیا گیا۔ یکساں سول کوڈ کو لے کر چل رہے عمل پر جو قرارداد پاس ہوئی ہے اس میں اگرچہ سبھی مذاہب کے آئینی حقوق کا تذکرہ تو کیا گیا ہے اور یکساں سول کوڈ کو نہ ماننے کی بات کہی گئی ہے لیکن دوسرے مذاہب کے لوگوں کےساتھ مل کر جس حکمت علمی کو تیار کرنا چاہیے اس کے لئے کسی کوشش کا کوئی اشارہ نہیں ملتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی گیان واپی مسجد اور شاہی عیدگاہ متھرا کے سلسلے میں فرقہ پرست عناصر، خاص طور پر ہندومہاسبھا کی جانب سے شرانگیزی پر لگام لگانے کا مطالبہ تو کیا گیا ہےلیکن 1991ء کے اس قانون کے حوالے سے جو 15؍اگست 1947ء کو جو عبادت گاہ جیسی تھی اور جس کی تھی اس کو باقی رکھنے کی بات کی گئی تھی اس پر سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا کوئی عندیہ سامنے نہیں آیا۔ جب کہ یہ اس لئے ضروری ہے کہ ملک میں متھرا اور کاشی کو لے کر شرپسند جو آوازیں اٹھا رہے ہیں وہ نہ صرف دستورِ ہند کے منافی ہیں بلکہ 1991ء میں پارلیمنٹ کے ذریعے پاس کئے گئے قانون کے بھی خلاف ہے اور اس طرح کی آوازیں اور شرپسندانہ اقدامات لاء اینڈ آرڈر (نظم و نسق) کا مسئلہ ہے۔

اس لئے سپریم کورٹ سے فوری رجوع کرنا چاہیے۔ اسی طرح اسلاموفوبیا اور توہین رسالت کے بڑھتے معاملات کے خلاف قانون بنانے کا موقف اختیار کیا گیا ہے۔ مذہب کی تبلیغ کرنا آئین کے مطابق بنیادی حق ہے،مسلمانوں نے کبھی بھی زبردستی، لالچ یا دباؤ دے کر کسی کا مذہب تبدیل نہیں کرایا۔ اسی لیے ملک میں طویل مدت تک حکومت کرنے کے باوجود مسلمان اب بھی اقلیت میں ہیں۔ کسی نے ابھی تک اس طرح کی شکایت نہیں کی ہے کہ اس کا کسی نے جبراً مذہب تبدیل کرایا،اس لئے جبراً تبدیلی مذہب کو بے بنیاد بتایا گیا۔ تمام مکاتب فکر کی نمائندگی کرنے والی اس طاقتور تنظیم نے مولانا کلیم صدیقی، ڈاکٹر عمر گوتم سمیت مسلم مبلغین کی گرفتاریوں کا حوالہ دیتے ہوئے، انہیں جبری تبدیلی مذہب کے جھوٹے مقدمات میں پھنسانے کی بات تو کہی ، لیکن اس سےنمٹنے پر کوئی خاص زور نہیں دیاجب کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کو اور ملت کی تمام جماعتوں کو مل جل کر نہ صرف ان لوگوں اور ان کے اہل خانہ کی بھرپور مدد میں آگے آنا چاہیے اور اس ظلم و نا انصافی کے خلاف قانونی لڑائی کو ان کی طرف سے اپنے ہاتھ میں لینا چاہیے۔ ان کے اہلِ خانہ اور وہ خود کس کرب سے گزر رہے ہوں گے اس کا اندازہ راقم الحروف کو اس لئے ہے کہ وہ خود بھی1973ء سے 1974ءکے بیچ سات مہینے تک میٖسا(MISA) کے تحت قیدوبند کیا اذیتوں سے دو چار رہا ہے۔

کانپور اجلاس میں خوشی کی بات ہے کہ ایک بار پھر مولانا سید رابع حسنی ندوی صاحب بورڈ کے صدر بنائے گئے، جب کہ جمعیۃ علما ء ہند کے سر براہ مولانا ارشد مدنی نائب صدر اور مولانا خالد سیف اللہ رحمانی جنرل سکریٹری منتخب کئے گئے ۔راحت کی بات یہ بھی ہے کہ پہلی بار بورڈ میں مختلف سماجی شعبوں سے تعلق رکھنے والی 30مسلم خواتین کو رکنیت دی گئی اور 3خواتین کو ایگزیکٹو کمیٹی ممبران کے طور پر نامزد کیا گیا ہے۔ ہمیں اس بات کی اس لئے خوشی ہے کہ ابھی کچھ دنوں پہلے ہی اپنے ایک کالم میں ہم نے اس طرف بورڈ کے ذمہ داروں کی توجہ دلائی تھی۔

بلاشبہ اسےہندوستان کی اعلیٰ اسلامی تنظیم میں مسلم خواتین کو بااختیار بنانے کی کوشش کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔یہ سبھی تعلیم یافتہ اور تجربہ کار خواتین ہیں، جو بورڈ کے موقف کو پوری قوت کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کریں گی اور اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ وہ عورتیں جن کو اسلامی تعلیمات کے منافی رویہ رکھنے والے مردوں کے ہاتھوں بے چارگی کا سامنہ کرنا پڑ رہا ہے ان کی پریشانیوں کا حل ڈھونڈھا جائے اور ان کے مسائل و مصائب کو جاننے کے لئے ایک عملی کوشش کی جائے، اس کے لئے بورڈ کو علیحدہ سے ایک کمیٹی تشکیل دینی چاہیے۔

ہم آخر میں ایک بار پھر اس بات کا اعادہ کرنا چاہتے ہیں کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا ء بورڈ ’’مسلمانوں کی امیدوں کا اکلوتا مرکز‘‘ ہے جسے ہر اعتبار سے مضبوط و مستحکم ہونا چاہیے۔ ملت پیچھے آنے کو تیار بیٹھی ہے، شرط ہے کہ قیادت مناسب حکمت عملی کے اس کی رہنمائی کرے۔

نوٹ: مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پروفیسر ایمریٹس (اسلامک اسٹڈیز) ہیں۔ 

ہفتہ, دسمبر 04, 2021

ہندوستان کے بنیادی ڈھانچے پر 100 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ کی سرمایہ کاری کا ہدف : مودی

ہندوستان کے بنیادی ڈھانچے پر 100 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ کی سرمایہ کاری کا ہدف : مودی
دہرادون:
 وزیر اعظم نریندر مودی نے ہفتہ کو کہا کہ ہندوستان جدید انفراسٹرکچر پر 100 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ کی سرمایہ کاری کے ارادے کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج ہندوستان کی پالیسی رفتار، طاقت، کام سے دوگنا یا تین گنا تیز ہے۔ انہوں نے کہا کہ سڑکوں اور رابطوں کی ترقی خطے میں سیاحت، زیارت اور دیگر اقتصادی سرگرمیوں کی ترقی کا باعث بنتی ہے، معیشت مضبوط ہوتی ہے۔
مسٹر مودی یہاں اسمبلی انتخابات کی سمت بڑھ رہے اتراکھنڈ میں 18000 کروڑ روپے کے پروجیکٹوں کا سنگ بنیاد رکھنے اور افتتاح کرنے کے بعد ایک جلسہ عام سے خطاب کر رہےتھے، انہوں نے کہا کہ ان کی حکومت نے اتراکھنڈ میں ایک لاکھ کروڑ روپے کے پروجیکٹوں کو منظوری دی ہے۔ یہاں کی حکومت 'ان اسکیموں کو زمین پر لا رہی ہے'۔
مسٹر مودی نے کہا کہ اس صدی کے آغاز میں اس وقت کے اٹل بہاری واجپئی کی حکومت نے ہندوستان میں رابطے بڑھانے کی مہم شروع کی تھی۔ وزیر اعظم نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ واجپئی حکومت کے دوران شروع کی گئی ہائی وے ڈیولپمنٹ مہم کو بعد کی حکومت نے تتر بتر کر دیا۔
انہوں نے کہا، "لیکن ان کے بعد ملک میں 10 سال ایسی حکومت رہی ، جس نے ملک کا قیمتی وقت برباد کیا، دس سال تک ملک میں انفراسٹرکچر کے نام پر گھپلے ہوتے رہے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ ان کی حکومت نے انفراسٹرکچر کی ترقی کے کام کو ایک بار پھر تیز کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا، ''ہم نے ملک کو ہونے والے نقصان کو پورا کرنے کے لیے دگنی محنت کی اور آج بھی کر رہے ہیں۔
آج مجھے بہت خوشی ہے کہ دہلی-دہرا دون اقتصادی راہداری منصوبے کا سنگ بنیاد رکھا گیا ہے۔ اس سے باغپت سے لے کر شاملی تک اتراکھنڈ اور دہلی کے درمیان واقع اضلاع میں اقتصادی ترقی کو تقویت ملے گی۔
انہوں نے کہا کہ جب یہ ہائی وے پراجیکٹ تیار ہو جائے گا تو دہلی سے دہرادون کے سفر میں لگنے والا وقت تقریباً آدھا رہ جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ کیدار وادی اس حقیقت کی ایک مثال ہے کہ سڑک کے رابطے میں اضافہ سیاحت اور یاترا میں تیزی کا باعث بنتا ہے۔ کیدارناتھ سانحہ سے پہلے 2012 میں پانچ لاکھ 70 ہزار لوگوں نے درشن کئے تھے ۔ اس وقت یہ ایک ریکارڈ تھا۔

پیام صبا میرے مطالعہ کی روشنی میں✍️ عبدالرحیم ابن ڈاکٹر مولوی انور حسین برہولیا”پیام صبا” برادر محترم جناب کامران غنی صبا کا پہلا شعری مجموعہ ہے اور اس کی اشاعت محکمہ کابینہ سکریٹیریٹ حکومت بہار کے مالی تعاون سے ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس دہلی نے کی ہے۔

پیام صبا میرے مطالعہ کی روشنی میں

✍️ عبدالرحیم ابن ڈاکٹر مولوی انور حسین برہولیا
”پیام صبا” برادر محترم جناب کامران غنی صبا کا پہلا شعری مجموعہ ہے اور اس کی اشاعت محکمہ کابینہ سکریٹیریٹ حکومت بہار کے مالی تعاون سے ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس دہلی نے کی ہے۔ اس کی قیمت محض200/-روپیہ ہے ۔ اس کو بک امپوریم ،سبزی باغ پٹنہ، ناولٹی بکس، قلعہ گھاٹ، دربھنگہ سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ شعری مجموعہ کو المنصور ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ دربھنگہ کے زیر اہتمام ٢٠١٧ء میں شائع کیا گیا ہے۔ کامران غنی صبااردو شعر و ادب کا ایک ایسا نام ہے جو کم وقت اور کم عمر میں ہی میں اپنی ایک شناخت قائم کر چکا ہے۔ جن لوگوں نے کامران غنی صبا کو نہیں دیکھا ہے وہ یہ اندازہ لگاتے ہیں کہ شاید وہ کوئی عمر دراز شاعر ہوں گے۔ مگر ایسا کچھ نہیں ہے۔ کامران غنی صبا نے کتاب کا انتساب خدا کے نام کیا ہے جبکہ عام طور پر لوگ اپنے ماں باپ یا استاد کے نام کرتے ہیں مگرکامران غنی صبا کی فکر کتنی بلند ہے کہ انہوں نے انتساب کو خدا ئے برتر کے نام کیا ہے۔ حرف آغاز میں انہوں نے اپنی بات بہت ہی سلیقہ سے پیش کی ہے۔کتاب کے پہلے حصہ میں نظم”مجھے آزاد ہونا ہے” (جو کامران غنی صبا کی شناخت اور پہچان کا ذریعہ بنی) کے تعلق سے ڈاکٹر اقبال واجد، ڈاکٹر عبدالرافع، ڈاکٹر منصور خوشتر، نسترن احسن فتیحی، ڈاکٹر احسان عالم، سیدہ تسکین مرتضی، انور الحسن وسطوی، حسیب اعجاز عاشر، سیدہ زہرہ عمران اورسلمان فیصل کے مضامین شامل ہیں۔ دوسرے باب میں حمد ، نعت، منقبت ہیں جو ٦ ہیں ۔ التجا، لب پہ ذکر حبیب خدا چاہئے، نہ طلب ہے نام و نمود کی، ایک ایسی نعت پاک لکھا دے مرے خدا، جب روح جسم سے ہو خدایا جدا مری، حسین سا کوئی ہے بتائو…..

اس کے بعد والے باب میں نظمیں ہیں جن کی تعداد بیس ہے۔ کچھ نظمیں پابند ہیں، کچھ معریٰ اور کچھ آزاد، لیکن سبھی نظموں میں تسلسل روانی اور موسیقیت ہے۔الفاظ اتنے عام فہم ہیں کہ عام قارئین بھی اسے سمجھ سکتے ہیں۔ ایک نظم امی کے نام ہے، جو ان کی سالگرہ پر کامران غنی نے پیش کی تھی:

پیاری امی!
سالگرہ پر
آپ کو کون سا تحفہ دوں میں؟
پھول تو کل مرجھا جائیں گے
اور خوشبو بھی اڑ جائے گی
پیاری امی ! سالگرہ پر
لفظوں کی میں کچھ سوغاتیں
لے کر خدمت میں حاضر ہوں
لفظ دعائوں کی صورت میں
لفظ عقیدت، لفظ محبت
بابری مسجد کی شہادت پر بھی آپ کی ایک نظم ہے جس کے چند اشعار یہ ہیں:
تئیس سال ہوئے آج ہی کا دن تھا جب
ہمارے ملک میں جمہوریت کا قتل ہوا
تم پھر یہ جھوٹ نہ بولو ہمارے ہم وطنو!
”ہمارے ملک میں جمہوریت سلامت ہے”
مرا وجود، عید کا چاند، ایک باپ کی بیٹے کو نصیحت، محبت ایک عبادت ہے، گیت (ہندوستانی بچوں کے لئے) جیسی اہم نظمیں بھی اس مجموعہ میں شامل ہیں۔

آخری باب میں ٢٨ غزلیں ہیں۔ کامران غنی صبا اچھی نظموں کے ساتھ اچھی غزلیں بھی کہتے ہیں۔ تمام غزلیں بھی خوب ہیں۔ زندگی کتنا آزمائے گی، سجدہ شوق میں سر میراجھکا ہے کیا، چلو کہ جسم کا رشتہ تمام کرتے ہیں، ہم ان کی بارگاہ میں شام و سحر گئے جیسے اہم عنوان کی غزلیں موجود ہیں۔ سب پر تبصرہ سے مضمون کے طویل ہونے کا خطرہ لاحق ہے۔ کامران غنی صبا صرف ایک اچھے شاعر ہی نہیں ہیں بلکہ ایک اچھے استاد بھی ہیں اور نتیشور کالج مظفرپور میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ صحافت ، شعر وشاعری ، درس و تدریس سارا کام ایک ساتھ انجام دے رہے ہیں جو سب کے بس کا نہیں ہے۔ روز نامہ پندار کے ادبی صفحات کے بھی انچارج ہیں۔ اردو نیٹ جاپان کے مدیر اعزازی بھی ہیں۔ ابھی پی ایچ۔ڈی پٹنہ یونیورسیٹی سے کر رہے ہیں۔

باب کے آخر میں شاعر کا مختصر تعارف بھی ہے ۔ کتاب کا سرورق بہت عمدہ ہے ۔ طباعت بھی اچھی ہے۔ کتاب کے بیک کور پر سلمیٰ بلخی کے تاثرات پیش کیے گئے ہیں۔ سلمیٰ بلخی کامران غنی صبا کی والدہ ہیں وہ لکھتی ہیں ”کامران کو اشعار فہمی اور شعر گوئی کی صفت ورثے میںملی ہے۔ ان کا نام (کامران) ایک بڑے عالم اور بزرگ سید اسمٰعیل شمسی روح نے رکھا تھا۔”

کامران غنی صبا ایک اچھے ، بااخلاق انسان ہیں اور ہر کسی کو عزت و احترام دینا جانتے ہیں۔ اللہ ان کے شعری مجموعہ ”پیام صبا” اور کامران غنی صبا کو بھی مقبولیت عطا کرے۔ آمین۔

تحریر : عبدالرحیم ابن ڈاکٹر مولوی انور حسین برہولیا

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...