Powered By Blogger

بدھ, دسمبر 15, 2021

مسلم اور غیر مسلم تعلقات✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

مسلم اور غیر مسلم تعلقات
✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ(9431003131)
اللّٰہ رب العزت نے بنی نوع انسان کے لئے دین اسلام کا انتخاب کیا اور اس کا آخری اور مکمل ایڈیشن آقا ومولافخر موجودات سرور کونین صلی اللّٰہ علیہ وسلم پرنازل کیا ، اور اعلان فرمادیا کہ محمد رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی اور رسول ہیں، ان کے بعد نہ تو کوئی نبی آئے گا اور نہ کوئی رسول ،
زبان رسالت نے اعلان فرمایا’’ لانبی بعدی‘‘ اور اس بات کا بھی اعلان کروایا گیا کہ اللّٰہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سارے جہاں کے لئے رسول بناکر بھیجے گئے، علاقوں، قبیلوں کی تفریق باقی نہیں رہی او ر ہر قبیلہ اور ہر علاقہ کے لوگ اللّٰہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی امت قرار پائے ۔
آپ صلی اللّٰہ سے قبل جتنے بھی انبیاء ورسل بھیجے گئے ، انہیں کسی خاص علاقہ اور خاص قوم کو راہ راست پر لانے کی ذمہ داری دی گئی اور انہیں محدود وقت کے لئے احکام دئے گئے اور یہ سارے احکام آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد منسوخ ہو گئے اب مدار نجات اللّٰہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبین ماننے ، قرآن کریم پر عمل کرنے اور رسول خاتم کے طریقوں کو اپنانے میں مضمر ہے ، بغیر اس کے نجات ممکن نہیں ۔
پھر چونکہ اس امت کو قیامت تک باقی رہنا ہے اور طاغوتی طاقتیں راہ راست سے انسانوں کو بھٹکانے میں ہمیشہ لگی رہتی ہیں، اورابتدائے آفرینش ہی سے ابلیسی حربے کا م کرتے رہے ہیں ، اسی لئے دعوت وتبلیغ اور امت کو قیامت تک صحیح رخ اور سمت پرقائم رکھنے کا نبوی کام علماء کے ذمہ کیا گیا اورزبان نبوت نے علماء کے بارے میں انبیاء کے وارث ہونے کا اعلان کیا اور علماء کو زمین کا چراغ کہا گیا ، ’’العلماء ورثۃ الانبیائ‘‘ اور’’ العلماء مصابیح الارض‘‘کہہ کر یہ اعلان کر دیا گیا کہ قیامت تک، علماء امت وہ کام کرتے رہیں گے جوماضی میں کار نبوت رہا ہے ۔ 
دور رسالت میں اور اس کے بعد جن لوگوں نے اسلام قبول کر لیا ، ان کی حیثیت امت اجابت یعنی اللّٰہ کی وحدانیت اور رسول کے رسالت کو قبول کرنے والے کی ہو گئی ، یہ سب مسلمان کہلائے ، قرآن پاک میں انہیں خیر امت اور وسط امت کا لقب دیاگیا، ایک گروہ جس نے اس پیغام کو قبول نہیں کیا ، ان کی حیثیت امت دعوت کی رہی، یعنی یہ وہ لوگ ہیں جن تک دعوت پہونچانے کا کام ہر دو ر میں داعیان امت کا رہا ہے اور علماء اور مصلحین ا س فریضے کی ادائیگی میں غیر معمولی تندہی کا ثبوت دیتے رہے ہیں۔ 
اس طرح دیکھیں تو تمام غیر مسلم خواہ وہ کسی مذہب کو مانتے ہوں ، ان کی حیثیت مدعو قوم کی ہے ، اور مسلمانوں سے ان کا رشتہ داعی اور مدعو کا ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ا مت ہونے میں وہ بھی شریک ہیں، فرق صرف اتنا ہے کہ اللّٰہ کے آخری دین کی دعوت ہمیں ان تک پہونچانی ہے ۔ 
داعی اور مدعو کا یہ رشتہ بڑا نازک ہوتا ہے اس کی اسا س اور بنیاد اس محبت اور تڑپ پر ہوتی ہے کہ کسی طرح یہ لوگ دعوت دین قبول کر لیں ، یہ محبت ، یہ تڑپ اوریہ بے چینی کبھی اتنی بڑھ جاتی ہے کہ لگتا ہے کہ آدمی اس فکر میں اپنے کو ہلاک کرڈالے گا۔
مسلمان اسی انداز کا تعلق غیر مسلموں سے رکھتا ہے ، اس کی ہدایت یابی کے لئے کڑھتا رہتا ہے ، وہ اپنے مدعو سے نفرت نہیں کر سکتا ، اس لئے کہ نفرت کی بنیاد پر دعوت کا کام نہیں کیا جا سکتا ۔اگر کوئی کسی غیر مسلم سے نفرت کرتا ہے تو وہ دعوت کے کام کو صحیح طور پر نہیں کر سکتا ، نفرت کی چیز کفر وشرک ہے ، کافر ومشرک نہیں، بالکل اسی طرح جس طرح مریض قابل نفرت نہیں ہوتا، مرض قابل نفرت چیز ہوا کرتی ہے ، یہی وجہ ہے کہ اللّٰہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر مسلموں کے ساتھ غیر معمولی برتاؤ کیا ، اور انہیں مختلف موقعوں پر عزت واکرام سے نوازا ۔ یہاں پر ہمیں اس بڑھیا کو یاد کرنا چاہئے جو اللّٰہ کے رسول کے ڈر سے بھاگی جا رہی تھی ، اوراسے گٹھری ڈھونے کے لئے کسی مزدور کی تلاش تھی، اللّٰہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بڑھیا کی گٹھری اٹھا کر منزل مقصود تک پہونچا دیا ، آپ کے اس حسن اخلاق نے بڑھیا کو اسلام سے قریب کر دیا اور وہ کلمۂ ’’لا الہ الااللہ‘‘ پڑھ کر مسلمان ہو گئی۔گو محدثین کے نزدیک اس کی سند مضبوط نہیں ہے ۔
یہ اور اس قسم کے بہت سارے واقعات یہ بتاتے ہیں کہ داعی کے حسن اخلاق نے دین کی دعوت کے کام کو لوگوں کے دلوں تک پہونچانے کا کام کیا ، یہ کام خوف وجبر سے نہ اس زمانے میں کیا جا سکتا تھا اور نہ آج یہ ممکن ہے، آخر قرآن کریم نے یوں ہی اعلان نہیں کر دیا کہ دین میں زبر دستی (کا فی نفسہ کوئی موقع )نہیں۔
اسلام نے داعی اور مدعو کے اس رشتے کی بنیاد کو پائیداری بخشی اور ان لوگوں کیلئے جو مسلمانوں کے درپئے آزار نہیں ہوئے اور مسلمانوں کیلئے مسائل نہیں کھرے کئے ان کے لئے واضح حکم دیا کہ :اللہ تم لوگوں کو ان لوگوں کے ساتھ احسان اور انصاف کا برتاؤ کرنے سے منع نہیں کر تا جو تم سے دین کے بارے میں نہیں لڑے اور تم کو تمہارے گھروں سے نہیں نکالا ۔ اللّٰہ تعالیٰ انصاف کا برتاؤ کرنے والوں سے محبت رکھتے ہیں۔
اسلام کا یہ حکم رحمت ورافت اور حسن اخلاق کی تعلیم پر مبنی ہے، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مشرکین اور مسلمانوں کے درمیان بر واحسان کا تعلق نہ صرف جائز  بلکہ مستحسن ہے ، یہی وجہ ہے کہ حضرت اسماء بنت ابو بکر ؓ کی والدہ حالت شرک میں ان کے پاس پہونچیں ، انہوں نے اللّٰہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ کیا ماں کے ساتھ اس حالت میں وہ حسن سلوک کر سکتی ہیں، تو  اللّٰہ کے رسول صلی ا للہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : ہاں ! اپنی ماں کے ساتھ حسن سلوک کرو ۔ 
خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حال یہ تھا کہ کفار ومشرکین مکہ کے ایذائیں پہونچانے اور دعوت دین کے کام میں غیر معمولی رکاوٹیں ڈالنے کے باوجود جب مکہ میں قحط پڑا اور لوگوں کو پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا تو آپؐ نے مکہ مال بھیجوایا تاکہ وہاں کے فقراء اور ضرورت مندوں میں اسے تقسیم کیا جائے ۔ اس معاملے میں صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین کا معمول بھی اپنے مشرک پڑوسیوں سے حسن سلوک کا تھا، ملک شام کی طرف جاتے ہوئے حضرت عمر بن الخطابؓ کا بیت المال سے مجوسی کو ڑھیوں کی مدد کرنا ثابت ہے، اسی طرح  حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ نے یہ حکم دے رکھا تھا کہ قربانی کے گوشت اپنے یہودی پڑوسیوں کوبھی دیا جائے، اس لئے کہ پڑوسیوں کا حق بہت ہے اور اس میں مسلم اور غیر مسلم کی تفریق نہیں کی گئی ہے ، اسی طرح اسلام نے یتامیٰ کی خبر گیری کے لئے مسلم اور غیر مسلم کی قید نہیں لگائی ، اس سے معلوم ہو تا ہے کہ غیر مسلموں کی مالی معاونت کی جاسکتی ہے ۔ قرآن کریم میں اللہ رب العزت بلا تخصیص مسکینوں ، یتیموں اور قیدیوں کو محض اللّٰہ کی رضا کے لئے کھانا کھلانے کو بہتر عمل اور اپنی رضا کا سبب بتا یا ہے ،جب کہ ایک دوسری جگہ یتیموں کی ناقدری اور مسکینوں کے معاملات سے صرف نظر کرنے کو اپنی ناراضگی کا سبب قراردیا ہے۔
 حسن سلوک کا ہی ایک طریقہ مریضوں کی عیادت ہے ، اسلام میں مریضوں کی عیادت کا حکم مسلم اور غیر مسلم سب کے لئے ہے ، امام بخاری نے روایت نقل کی ہے کہ ایک یہودی غلام اللّٰہ کے رسول کے پاس خدمت میں رہتا تھا ،جب وہ بیمار ہوا تو آپ اس کے پاس تشریف لے گئے اور اس کی عیادت کی۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا ابو طالب کی عیادت کی اور ان پر اسلام پیش کیا، ابن حجرؒ نے ان روایتوں سے مشرکین کی عیادت کے جواز پر استدلال کیا ہے ، صاحبؒ بحر الرائق نے اسے بر واحسان کے ذیل میں رکھتے ہوئے جواز کے قول کو ترجیح دیا ہے ،امام احمد بن حنبلؒ کی بھی یہی رائے ہے۔ 
حسن سلوک کے ذیل میں ہی تعزیت کا معاملہ آتا ہے ، فقہاء نے اسے جائز قرار دیا ہے ، البتہ ایسے کلمات سے اجتناب کا حکم دیا ہے جس سے شرک کی عظمت کسی درجہ میں بھی سامنے آئے، بعض فقہاء نے اسے بعض شرطوں کے ساتھ مخصوص کیا ہے ، لیکن واقعہ یہ ہے کہ بر وتقویٰ کی عمومیت سے حکم عام ہی نکلتا ہے ۔ 
ہم ہندوستان میں رہتے ہیں اور بہت سارے ممالک وہ ہیں جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں ، ان حالات میں غیر مسلموں سے تجارتی لین دین ایک سماجی اور معاشی ضرورت ہے ، اس ضرورت کے تحت مشرکین وکفار کے ہر اس معاملات میں شرکت کی جا سکتی ہے ، جو حلال ہو اور سود نیز دوسرے ممنوعات سے پاک ہو ، روزمرہ کی خرید وفروخت ، اجارہ ، رہن اور اس قسم کے دوسرے امور مالیہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے غیر مسلموں سے کئے جاتے رہے ہیں اور آج بھی ان کی اجازت ہے ، البتہ سود ، دھوکا دہی، خمر وخنزیر کے معاملہ میں ان کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا اور ان معاملات میں شریک ہونا مسلمانوں کے لئے جائز نہیں ہو گا ، مسلمان غیر مسلموں سے عاریت کا معاملہ بھی کر سکتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر اس کے پاس امانتیں رکھی جا سکتی ہیں اور جان ومال کی سلامتی کا یقین ہو اور احوال اس کے متقاضی ہوں توبعض صورتوں میں ان سے پناہ بھی چاہی جا سکتی ہے ۔فقہاء نے غیر مسلم والدین کا نان ونفقہ بھی ضرورتاً دینے کو جائز کہا ہے ، بعضوں کا قول اس مسئلے میں وجوب کا بھی ہے۔
صفوان بن امیہ سے یوم حنین کے موقع پر بنی قینقاع کے یہود اور خزاعہ کے ایک فرد سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اعانت طلب کرنا، احادیث وسیر میں مذکور ہے، اسی بنیاد پر احناف اور شوافع کے یہاں اس کے جواز کا قول منقول ہے ، اور مالکیہ میں ابن عبد اللہ اور حنابلہ کی رائے اس کے مطابق ہے ۔ تاریخ کا یہ واقعہ بھی قابل ذکر ہے کہ مدینہ ہجرت کے بعد آپ نے یہودیوں سے معاہدہ کیا اور نبوت سے قبل کی جانے والی حلف الفضول میں ا پنی شرکت پر نہ صرف اطمینان کا اظہار کیا بلکہ فرمایا کہ اگر آج بھی مجھے اس قسم کے معاہدہ کے لئے بلا یا جائے تو میں اس کے لئے راضی ہوں ، اس قسم کے واقعات ہمیں بتاتے ہیں کہ مصالح کے پیش نظر آج بھی اس قسم کے معاہدے کئے جا سکتے ہیں ۔
تعلقات کی استوای اور مدارات ومواسات میں ہدیہ کے لین دین کی بھی اپنی اہمیت ہے ، اس سے محبت میں اضافہ ہوتا ہے ’’تھادووتحابو‘‘ کہا گیا ہے ، اس سلسلے میں اسلام میں اتنی وسعت ہے کہ ہدایے دئے بھی جا سکتے ہیں اور قبول بھی کئے جا سکتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ملک ایلاء کا ہدیہ قبول کیا اور اس چادر کو زیب تن کیا ، اسی طرح دومۃ الجندل میں خیمہ کا ہدیہ قبول کیا اور اس نے باندی کا ہدیہ دیا تو اسے بھی قبول کر کے اس کی عزت افزائی کی، حسن سلوک ہی کے طور پر اسلام نے اس بات پر زور دیا کہ غیر مسلم مہمانوں کا اکرام بھی کیا جائے ،خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اس بارے میں عمل غیر معمولی تھا ،وہ واقعہ تو تاریخ کا سبھی کو یاد ہے کہ ایک غیر مسلم آپ کے یہاں مہمان ہوا ، آپ نے ضیافت کا غیر معمولی اہتمام فرمایا، کھانا بھی اس نے بھر پور کھایا اور بستر کو گندہ کر دیا ، آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے اسے دھویا ، اسی اثناء میں وہ اپنی بھولی ہوئی تلوار لینے آیا تو بھی آپ نے کچھ نہیں فرمایا اور اسے شرمندگی سے بچالیا ، اس واقعہ سے معلوم ہو تا ہے کہ آپ کو اکرام ضیوف کا کتنا خیال تھا ۔ 
غیر مسلموں کے ساتھ اس قسم کا سلوک انہیں مسلمانوں سے قریب کرے گا، انکی تالیف قلب ہوگی ، جس سے دفع ضرر بھی ہوگا ، اور دین کا قبول کرنابھی ان کے لئے آسان تر ہو جائے گا ، شریعت چاہتی ہے کہ ان مقاصد کے حصول کے لئے آپسی تعلقات کو بڑھا یا جائے اور دنیاوی مفاد اور مال ودولت کے حصول سے بے نیاز ہو کر محض دینی بنیاد وں پر اسے تقویت دی جائے ۔ فقہاء نے ان مقاصد کو شرط کے طور پر ذکر کیا ہے ، لیکن واقعہ یہ ہے کہ مداراۃ و مواساۃ کے قبیل کے ان کاموں کا لازمی نتیجہ وہی ہوگا ، جس کا ذکر اوپر کیا گیا ۔ 
ایک مسئلہ سیاسی شرکت کا بھی ہے ، حکومتیں اب جمہوری انداز میں تشکیل پا رہی ہیں، ان حکومتوں کا مزاج یقینا غیر اسلامی ہے ، چاہے ملوکیت ہو یا جمہوریت، دونوں حکومت الٰہیہ کی فکر اسلامی سے متصادم ہیں ، اور یقینی طور پر وہاں اللہ کی حاکمیت کا تصورہر سطح پر ناپید ہے ، ایسے میں کیا مسلمانوں کے لئے یہ جائز ہو گا کہ وہ اس طاغوتی نظام کے دست وبازوبنیں۔
اس سلسلے میں ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ ہماری نمائندگی جس قدر عوامی اداروں میں بڑھے گی ، امکانات اس بات کے قوی سے قوی تر ہوں گے کہ ہم حکومت میں اپنی باتیں منوا سکیں اور سارا کچھ تو نہیں بہت کچھ منظو رکر والیں ، ہندوستان میں مسلم پرسنل لا کی بقا کی ایک وجہ یہ بھی ہے، نفقہ مطلقہ کی دستوری لڑائی میں ہماری کامیابی کا راز بھی یہی ہے ،پارلیامنٹ میں ہمارے ایسے نمائندے موجود تھے ، جنہوں نے ہماری بھر پور وکالت کی اور باہر میں ہم نے عوامی دباؤ بنا یا اور حکومت کو اس کے آگے گھٹنے ٹیکنے پڑے۔
پس اس معاملہ میں ہمیں قواعد فقہیہ’’ الضرر یزال ، الضرورات تبیح المحظورات ، المشقۃ تجلیب التیسیر‘‘ وغیرہ کو سامنے رکھنا چاہئے اور ہمارے نمائندوں کو استطاعت بھر پوری قوت کے ساتھ ایوان نمائندگا ن میں ان صالح قدروں کی ترویج وبقا کے لئے کوشش کرنی چاہئے جو اسلام کو مطلوب ہیں ، اس سلسلے میں اسلام نے جو یسر کا فلسفہ پیش کیا ہے اور تشدید وتغلیظ سے اجتناب کی تلقین کی ہے اس سے ہماری اس رائے کو تقویت ملتی ہے ۔ نصوص کی حد تک دیکھیں تو حضرت یوسف علیہ السلام کا وزیر خزانہ بننا بلکہ اس کا مطالبہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ غیر مسلم حکومت میں ضرورت کی وجہ سے عہدے بھی قبول کیے جاسکتے ہیں۔ فقہاء نے بعض حالات میں منصب قضا کے قبول کرنے کی بھی اجازت دی ہے تاکہ ظلم وشرک وعدوان سے عوام الناس کو بچایا جا سکے ۔ یہ در اصل اھون البلتین کو قبول کرنے کے مترادف ہے اور بڑے ضرر وشرکے مقابلے چھوٹے ضرر کو قبول کرنے کا فطری اور فقہی عمل ہے ۔ 
مسلمانوں کے اس قسم کے معاملات کی بنیاد نہ توتقیہ ہے اور نہ منافقت ، بلکہ یہ سب اسلام کی ان تعلیمات کا حصہ ہیں جو اکرام واحترام آدمیت کے ذیل میں آتے ہیں اور جن کے بغیر مذہب اور عمرانیت کی گاڑی آگے نہیں بڑھ سکتی۔لیکن ہماری اس تحریر کا مطلب قطعا یہ نہیں ہے کہ جو قومیں مسلمانوں سے متحارب ہیں اور جو لوگ اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہونچانے کا کوئی موقع ضائع نہیں ہونے دینا چاہتے ، ان کے ساتھ بھی یہی سب سلوک کیا جائے ، دنیا کی تاریخ میںہر دور اور ہر مذہب میں ایسے لوگوں کا معاملہ جدا رہا ہے ، جو متحارب رہے ہیں۔
ان آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ غیر مسلم سے تعلقات کی ایک خاص قسم جسے موالاۃ کہتے ہیں وہ جائز نہیںہے، موالاۃ کے مختلف معنی مفسرین نے لکھے ہیں، ان میں ایک معنی یہ بھی ہے مسلمان اپنے اس تعلق میں غیر مسلم کے کفر اور اعمال کفریہ سے راضی نہ ہو ، اس کی وجہ یہ ہے کہ کفر کی تصویب بھی کفر ہے اور کفر سے راضی رہنا بھی کفر کے مترادف ہے۔
ان ابحاث کا حاصل یہ ہے کہ غیر مسلموں کی مدد مسلمانوں کے مقابل کرنا اور ان سے ایسا تعلق قائم کرنا جس سے مسلمانوں کے ملی رازان تک پہونچ جائے اور ملی کاز کے لئے نقصان دہ ہو ، مطلقادرست نہیں ہے ۔ 
لیکن جو محارب نہیںہیں، بچے بوڑھے اور عورتیں ان کو نقصان نہ پہونچایا جائے ۔ یہ انسانیت کے خلاف ہے کہ جو آپ سے نہیں لڑ رہا ہے اور خاموشی سے گوشہ نشیں ہے اس کو قتل کر دیا جائے ، کیونکہ انسان کا خون معصوم ہے اسے دفع ضرر اور رفع شر کے علاوہ نہیں بہایا  جا سکتا __

جنوری میں 5 ریاستوں کے انتخابات کاہوسکتا ہے اعلان ، الیکشن کمیشن کا کل سے شروع ہوگا دورہ

جنوری میں 5 ریاستوں کے انتخابات کاہوسکتا ہے اعلان ، الیکشن کمیشن کا کل سے شروع ہوگا دورہنئی دہلی: الیکشن کمیشن کا دورہ 15 دسمبر سے اتر پردیش اور پنجاب سمیت 5 ریاستوں کی انتخابی تیاریوں کا جائزہ لینے کے لیے شروع ہوگا۔الیکشن کمیشن کا دورہ پنجاب سے شروع ہوگا۔ الیکشن کمیشن کی ٹیم دو روز یعنی 15 اور 16 دسمبر کو پنجاب کا دورہ کرے گی۔ چیف الیکشن کمشنر سوشیل چندرا، الیکشن کمشنر راجیو کمار اور الیکشن کمشنر انوپ چندر پانڈے کے علاوہ الیکشن کمیشن کے دیگر افسران پنجاب کا دورہ کریں گے۔الیکشن کمیشن اپنے دورے کے دوران پنجاب کے اعلیٰ انتظامی اور پولیس افسران سے ملاقات کرے گا۔ الیکشن کمیشن تمام 5 ریاستوں کا انتخابی دورہ کرے گا ،جس کے بعد تیاریوں کا جائزہ لینے کے بعد تاریخوں کا اعلان کیا جائے گا۔الیکشن کمیشن دسمبر کے آخر میں یوپی کا دورہ کرے گا اور یوپی کے تمام عہدیداروں سے ملاقات کرے گا اور انتخابی تیاریوں کا جائزہ لے گا۔ اتر پردیش میں کئی مرحلوں میں ووٹنگ ہوتی ہے ،اور اس بار بھی سات سے زیادہ مرحلوں میں ووٹنگ کا امکان ہے۔الیکشن کمیشن ذرائع کے مطابق انتخابات کا اعلان جنوری کے مہینے میں کیا جائے گا اور فروری اور مارچ کے مہینوں میں پولنگ اور گنتی کی تاریخوں کا فیصلہ کیا جائے گا۔ انتخابی عمل جنوری کے مہینے میں شروع ہوگا

اسمبلی میں وندے ماترم مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

اسمبلی میں وندے ماترم 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
جد یو اور بی جے پی کی مخلوط حکومت نے بی جے پی کے ایجنڈا پر کام شروع کر دیا ہے ، اسی کی ایک کڑی حالیہ اسمبلی اجلاس کا آغاز واختتام وندے ماترم سے کرنا ہے، مجلس اتحاد المسلمین کے ریاستی صدر اور رکن اسمبلی جناب اختر الایمان نے اس معاملہ پر اپنا احتجاج اسمبلی میں درج کرایا،یہ اچھی بات ہے، سارے اعمال کو آنکھ بند کرکے سہہ لینے سے فرقہ پرستوں کے حوصلے بلند ہوتے ہیں، اختر الایمان پر مختلف ارکان نے جو تبصرے کیے وہ قابل مذمت ہیں واقعہ یہ ہے کہ وندے ماترم میں جن خیالات کا اظہار کیا گیا ہے وہ ہمارے مذہبی معتقدات اور دستور میں دیے گئے مذہبی آزادی کے تصورات سے میل نہیں کھاتے ، اس لیے اس کے اسمبلی میں گائے جانے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ مسلمانوں کی واضح سوچ شریعت کی روشنی میں یہ ہے کہ ملک ہمیں محبوب ہے، لیکن یہ معبود نہیں ہے، اس لیے ہم کسی ایسی بات کو نہیں دہرا سکتے جس سے معبود ہونا ثابت ہوتا ہو۔ حضرت امیر شریعت دامت برکاتہم نے اس واقعہ کا سخت نوٹس لیا ہے، وزیر اعلیٰ اور اسمبلی کے صدر نشیں (اسپیکر) سے آئندہ اس قسم کی حرکتوں پر روک لگانے کی اپیل کی ہے، تاکہ سیکولرزم کے بنیادی ڈھانچہ کو دھکانہ لگے، یوں بھی اختیاری چیزوں کو لازم کرنا دستور ہند کے مزاج سے ہم آہنگ نہیں ہے۔

منگل, دسمبر 14, 2021

*تحریک پیام انسانیت سب کی ضرورت*حضرت مولانا علی میاں رحمۃ اللہ علیہ ایک ہمہ گیر شخصیت ہیں۔آپ کا دائرہ کار بہت وسیع ہے

*تحریک پیام انسانیت سب کی ضرورت*
حضرت مولانا علی میاں رحمۃ اللہ علیہ ایک ہمہ گیر شخصیت ہیں۔آپ کا دائرہ کار بہت وسیع  ہے۔ تحریر وتقریر کے ذریعہ ہی نہیں بلکہ تحریک کے ذریعہ بھی آپ نےملک وملت کی آبیاری کی  ہے۔اور ایک ایسی تحریک کی بنیاد ڈالی دی ہے جو ملک ہند میں تمام تحریکوں کی  بڑی  ضرورت ہے۔دعوت وتبلیغ کے ذریعہ جہاں آپ نے مسلمانوں کے مابین اصلاح وتربیت کابڑاکام کیا ہے وہیں تحریک پیام انسانیت کے ذریعہ برادران وطن کے دلوں کوبھی رام کیا ہے۔اپنے ملک کی مسموم فضا کو خوشگوار بنانے کا کارنامہ انجام دیا ہے۔
   برادران وطن میں اسلام کا جامع تعارف پیش کردینا یہ آپ کا بڑا کارنامہ ہےاور یہ سب کچھ تحریک پیام انسانیت کےاسٹیج سے ہی ممکن ہوسکا ہے۔درحقیقت یہ  آپ کی دعوتی کوشش کی تمہید ہے۔دعوت الی اللہ کے لیے اس دھرتی کوہموار کرنے کے لئے آپ نے اس تحریک سے بڑا کام لیا ہے۔ تحریک پیام انسانیت دراصل اسی کاوش وکوشش کا نام ہے۔
اس تحریک ابتدائی محنت ۱۹۵۰ ء سے ہی شروع ہوئی ہے،ملک کی تقسیم کے بعد ہندو مسلم کے مابین ایک بڑی خلیج پیدا ہونے لگی تھی، اس کو پاٹنا ازحد ضروری تھا،حضرت علی میاں رحمۃ اللہ علیہ کی دور بیں نگاہیں اسے دیکھ رہی تھیں اور اس ضرورت کو شدت کےساتھ آپ محسوس کررہے تھے، تقریر وتحریر کے ذریعہ اس اہم کام کی طرف لوگوں کو متوجہ کررہے تھے، باضابطہ تحریک کی شکل میں اس کا آغاز ۱۹۷۴ ءمیں الہ آباد سے آپ نے کیا اور یہ کہاکہ اب بہت دیر ہوچکی ہے۔میں تحریکی آدمی نہیں ہوں باوجود اس کی شدید ضرورت ہے۔لٹریچر تیار کیا گیا،اور برادران وطن میں اسے پہونچانے کی منظم کوششیں ہوئیں، علاقے میں اس عنوان پر دورے شروع ہوئے،  جلسے منعقد کئے گئے، برادران وطن کو اس میں شامل کیا گیا، ان کے سامنے انسانیت کی بات پیش کی گئی، سب سے پہلا پروگرام الہ آباد میں منعقد کیا،یہاں سے پیام انسانیت تحریک کا پورے ملک میں تعارف شروع ہوا،حضرت علی میاں پوری زندگی اس تحریک کی اہمیت ضرورت سے روشناس کراتے رہے،آپ کا انتقال ہوا، تو آپ کے پوتے حضرت مولانا عبداللہ حسنی ندوی رحمہ اللہ علیہ اس تحریک کو ملک بھر میں لیکر گئے، اسفار کئے، اراکین کی ایک بڑی ٹیم کھڑی کردی، ملک کے کونے کونے میں لوگ اس تحریک سے متعارف ہوئے۔
۳۰/جنوری ۲۰۱۳ءمیں حضرت مولاناعبداللہ حسنی صاحب اس دارفانی سے کوچ کرگئے،حضرت مولانا سید بلال عبدالحی حسنی ندوی مدظلہ العالی اس تحریک کے معتمد عمومی منتخب کئے گئے ہیں۔آپ نے بھی بڑی محنت کی ہے، پورے ملک کو تین زون میں تقسیم کیا ہے،سال بھر میں تینوں زون کی تین مٹنگیں ہوتی ہیں، پھر آخری نششت حضرت علی میاں رحمۃ اللہ کی خانقاہ پر سالانہ کارگزاری کے نام پر منعقد کی جاتی ہے۔کشمیر سے لیکر کنیا کماری تک کے لوگ ایک ساتھ وہاں جمع ہوتے ہیں اور سال بھر کی کارگزاری پیش کی جاتی ہے۔بحمداللہ یہ اس وقت بہت تناور اور مضبوط درخت میں تبدیل ہوگیا ہے، باوجود اس کے جو خواب حضرت علی میاں رحمۃ اللہ نے اس تحریک کے حوالہ سے دیکھا تھا وہ ہنوز شرمندہ تعبیر نہیں ہوا ہے۔
ایک انٹرویو میں اس تحریک کا تعارف ان الفاظ میں کرایا ہے:پیام انسانیت کی تحریک ملک کے تمام دینی تعلیمی علمی کوششوں اورتحریکوں کے لیے ایک حصار کی حیثیت رکھتی ہے "(بحوالہ تعمیر حیات ۱۰/جنوری ۱۹۹۱ء )
افسوس کے ساتھ یہ ہمیں کہنا پڑ رہا ہے کہ ہم نے حضرت علی میاں کے اس پیغام کی لاج نہیں رکھی ہے،اور پیام انسانیت کو اپنی تنظیم اور تحریک کے لئے حصار کی حیثیت نہیں دی ہے۔یہی وجہ ہے کہ آئے دن یکے بعد دیگرے سبھی تحریکوں اور تنظیموں کی زمین ملک میں تنگ کی جارہی ہے۔اور مختلف قسم کی پابندیوں کا انہیں سامنا ہے۔ہم نے تحریک پیام انسانیت کو فقط حضرت علی میاں کی ایک تحریک سمجھا ہے،جبکہ حضرت علی میاں رحمۃ اللہ علیہ نے اسے سب کی ضرورت کہا ہے۔
حضرت علی میاں رحمۃ اللہ علیہ تحریک پیام انسانیت کوہر تحریک کا خادم اور معاون سمجھتے، اس لیے آپ نے اسے تحریکات کے لیے مشترکہ پلیٹ فارم کے طور پر پیش کیا اور ہر تحریک کے لیےملک میں اسے ضروری قراردیاہے۔
الہ آباد سے آپ نے اس کا باضابطہ آغاز کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہر دعوت اورہر تحریک کو ملک میں پیام انسانیت کاخیر مقدم کرنا چاہئے ۔حضرت کہتے ہیں:اس کی حیثیت وہ ہےجو کسی فراش یا سقہ یا زمین برابر کرنے والے یا شامیانہ لگانے والے کی ہوتی ہے جس کے بعد کوئی جلسہ یا اجتماع ہوسکتا ہے خواہ وہ خالص مذہبی نوعیت کا ہویا تعلیمی بحث ومذاکرہ کا(حوالہ سابق )
الہ آباد کو حضرت علی میاں خدا کی نگری کہتے تھے، وہاں سے آپ نے اس تحریک کو شروع کرکے ملک وملت کو بڑا پیغام دیا ہے، اور صاف لفظوں میں بھی کہا ہے کہ اگر ملک میں دعوت کا حق ادا کرنا یے تو اس تپتی زمین کو پیام انسانیت کے چھینٹوں سے نرم کرنے کی شدید ضرورت ہے۔اس کے بغیر دعوت کا کام بھی اس زمین پر مشکل اور ٹیڑھی کھیر ہے۔
موجودہ حالات ہمارے سامنے ہیں۔دعوت کے نام پر علماء کرام کی ایک جماعت اپنے ملک میں سلاخوں کے پیچھے ہے۔بہت دیر ہوچکی ہے۔آج الہ آباد بھی پریاگ راج میں بدل گیا ہے۔حضرت علی میاں کی اس تحریک کو سمجھنے کا اب وقت نہیں رہا ہے بلکہ اسے عملی طور پر حرز جاں بنانے کی ضرورت ہے۔
ناامیدی کے لئے اسلام میں کوئی جگہ نہیں ہے۔آج کے دن جہاں ہمیں جمعہ کی نماز سے گروگرام میں روکا جارہا ہے وہیں گردوارہ سے نماز کی پیشکش بھی ہورہی ہے۔ حضرت علی میاں رحمۃ نے بھی تحریک کی ابتدائی مرحلے میں ان جیسے واقعات کا مشاہدہ کیا اور آپ ناامید نہیں تھے، اپنی تقریر میں کہتے ہیں؛
انسانی سوسائٹی اس وقت سخت خطرے سے دوچار ہے اور موت وزیست کی کشمکش میں گرفتار ہےیہ حقیقت اپنے اپنےزمانے میں پیغمبروں نے بیاں کی تھیں اور ان کے لیے سخت جد وجہد کی تھی یہ حقیقتیں ابھی زندہ ہیں لیکن سیاسی تحریکوں مادی تنظیموں اور قومی خود غرضیوں نے گرد وغبار کا ایسا طوفان کھڑا کر دیا ہے کہ یہ روشن حقیقتیں ان کے اوٹ میں اوجھل ہوگئی ہیں لیکن انسانی ضمیر ابھی مردہ اور انسانی ذہن ابھی مفلوج ومعطل نہیں ہوا ہے،اور پوری بے غرضی، پورے یقین اور خلوص کے ساتھ ان حقیقتوں کو عام فہم اور دل نشیں انداز میں بیان کیا جائے تو انسانی ضمیر وذہن اپنا کام کرنے لگتا ہے، اور بڑی گرم جوشی سے ان حقیقتوں کا استقبال کرتا ہے اور بعض وقت تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان تقریروں میں اس کے دل کی ترجمانی اور اس کے درد کا مداوا ہے"(بحوالہ تعمیر حیات ۱۰/جنوری ۱۹۹۱ء )
آج ہماری ساری کاوشیں اور کوششیں بیکار ہیں اور بے سود ثابت ہورہی ہیں۔ملک میں ڈھیر ساری تنظیمیں ہیں جو یہ شکایت کررہی ہیں کہ حکومت ہمارے حقوق پر قذغن لگارہی ہے۔آئے دن آئے ہائے ہم کرتے ہی رہتے ہیں۔ایسے میں اگر ہم نے بنیادی محنت نہیں کی تو کوئی بھی ہمارا کچھ سننے والا نہیں ہے ۔آئیے اس بنیادی محنت سے ہم اپنے کام کی ابتدا کرتے ہیں، ان شاء  اللہ العزیز پورے ملک کو ہم اس طریقے پر صراط مستقیم تک لاسکتے ہیں ۔
آو ملکر انقلاب تازہ تر پیدا کریں 
دہر پر اس طرح چھاجائیں کہ سبھی دیکھا کریں۔
ہمایوں اقبال ندوی،ارریہ 
رابطہ، 9973722710

حج کے نام پر کروڑوں روپے کا دھوکہ دینے والے نوشاد کے فلیٹ سے نصف درجن پاسپورٹ ضبط

حج کے نام پر کروڑوں روپے کا دھوکہ دینے والے نوشاد کے فلیٹ سے نصف درجن پاسپورٹ ضبط

رانچی: حج پر بھیجنے کے نام پر کروڑوں روپے کی دھوکہ دہی کے ملزم نوشاد کو دھنباد سے گرفتار کیا گیا ہے۔ پولیس نے اس کے فلیٹ سے نصف درجن پاسپورٹ بھی ضبط کر لیے ہیں۔ تمام پاسپورٹ مختلف لوگوں کے ہیں۔ پولیس پاسپورٹ رکھنے والوں کی تلاش کر رہی ہے۔ اسی نوشاد کے پکڑے جانے کے بعد رانچی پولس اسے رات دیر گئے سرائی ڈھیلا تھانے سے رانچی لے آئی۔رانچی کے اورمانجھی تھانے میں دھوکہ دہی کے سلسلے میں دو معاملے درج ہیں۔ رانچی پولیس پچھلے دو تین ماہ سے نوشاد کی تلاش میں تھی۔

نوشاد پر رانچی، جمشید پور، لوہردگا، جامتارا، پلاموں، گریڈیہ اور دھنباد کے حاجیوں کو حج کے لیے بھیجنے کے نام پر رقم کی دھوکہ دہی کا الزام ہے۔ مقامی لوگوں نے اورمانجھی پولس اسٹیشن میں دی گئی شکایت میں الزام لگایا تھا کہ وہ رقم لے کر فرار ہوگیا۔
لیبیک ٹور اینڈ ٹریولز کمپنی کے نام سے حج یاترا کے لیے جاری کیے گئے پوسٹر میں دھنباد گووند پور کا پتہ دیا گیا تھا۔ پولس کو معلوم ہوا تھا کہ نوشاد ڈھائیا رہڑ گوڑہ کے گنپتی ٹاور میں چھپا ہوا ہے۔

پولیس تفتیش میں انکشاف ہوا ہے کہ ارشاد عالم عرف نوشاد عالم 2014 سے حج کے نام پر دھوکہ دے رہے ہیں۔ الزام ہے کہ سال 2019 میں اس نے حج کے نام پر 58 لوگوں سے پیسے لیے تھے جس میں صرف 35 لوگوں کو حج پر بھیجا گیا تھا۔ سال 2014 میں پٹنہ میں اس نے نیشنل ٹور اینڈ ٹریول کے نام پر تین کروڑ روپے کی دھوکہ دہی کی تھی۔ اس کے بعد وہ نیپال فرار ہو گیا۔ اس وقت سے پولیس اس کی تلاش میں تھی۔

وزیر اعظم مودی نے نصف شب وزیر اعلی یوگی کے ساتھ کئے بنارس کے دیدار ، ریلوے اسٹیشن کا لیا جائزہ

وزیر اعظم مودی نے نصف شب وزیر اعلی یوگی کے ساتھ کئے بنارس کے دیدار ، ریلوے اسٹیشن کا لیا جائزہ

وارانسی: وزیر اعظم نریندر مودی اپنے پارلیمانی حلقہ وارانسی کے دورے پر ہیں۔ کاشی وشوناتھ کوریڈور کے افتتاح کے بعد وزیر اعظم نے پیر کی رات شہر میں ہونے والے اہم ترقیاتی کاموں کا جائزہ لیا۔ ساتھ ہی انہوں نے نصف رات کو بنارس ریلوے اسٹیشن کا بھی جائزہ کیا۔ اس دوران وزیر اعظم کے ساتھ اتر پردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ بھی موجود تھے۔ پی ایم مودی نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر اس سے متعلق تصاویر شیئر کی ہیں۔

وزیر اعظم مودی نے وزیر یوگی کے آدھی رات کو بنارس ریلوے اسٹیشن پر پہنچے کے دوران ٹویٹ کیا، 

"اگلا اسٹاپ...

بنارس اسٹیشن۔ ہم ریل رابطے بڑھانے کے ساتھ صاف، جدید اور مسافر دوست ریلوے اسٹیشنوں کی سمت میں کام کر رہے ہیں۔''


وزیر اعظم نے وارانسی میں کاشی وشوناتھ مندر کا دورہ کیا۔ کاشی میں جاری اہم ترقیاتی کاموں کا بھی جائزہ لیا۔ انہوں نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ اس مقدس شہر کے لیے بہترین ممکنہ بنیادی ڈھانچہ تیار کیا جائے۔


وزیر اعظم مودی نے دیر رات گئے وارانسی میں بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ اور نائب وزرائے اعلیٰ کے ساتھ میٹنگ کی۔ انہوں نے ملاقات کے بعد کی ایک تصویر بھی شیئر کی ہے، جس میں بی جے پی کے قومی صدر جے پی نڈا اور دیگر رہنما نظر آ رہے ہیں۔


اس سے پہلے وارانسی آئے وزیر اعظم نے گنگا آرتی اور لیزر لائٹ شو بھی دیکھا۔ اس دوران وزیر اعلی یوگی بھی ان کے ساتھ رہے۔ شہر میں پیر روز شیو دیپوتسو بھی منایا گیا۔


وزیر اعظم مودی نے کہا، "کاشی کی گنگا آرتی ہمیشہ اندرونی روح کو نئی توانائی سے بھر دیتی ہے۔ آج کاشی کے بڑے خواب کو پورا کرنے کے بعد، دشاسوامیدھ گھاٹ پر گنگا آرتی میں شامل ہوا اور ماں گنگا کی مہربانی کے لیے ان کے سامنے جھک گیا۔


وزیر اعظم نریندر مودی آج وارانسی میں بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ کے ساتھ میٹنگ کریں گے۔ اس کے بعد سواروید مہامندر دھام، امرہاں میں منعقدہ پروگرام میں شرکت کریں گے۔ تقریباً ایک گھنٹہ مندر میں رہنے کے بعد ہیلی پیڈ سے بابت پور ہوائی اڈے کے لیے روانہ ہوں گے۔ اس کے بعد شام 5 بجے کے قریب طیارہ کے ذریعے دہلی کے لیے روانہ ہوں گے۔

پیر, دسمبر 13, 2021

بے کس اور بے بس قیدی مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ جو لوگ مجرم ہیں، انہیں یقینا سزا ملنی چاہیے اور ہمارا ماننا ہے کہ اس میں قانون کو اپنا کام کرنے دینا چاہیے

بے کس اور بے بس قیدی 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
 جو لوگ مجرم ہیں، انہیں یقینا سزا ملنی چاہیے اور ہمارا ماننا ہے کہ اس میں قانون کو اپنا کام کرنے دینا چاہیے ، لیکن پریشانی اس وقت محسوس ہوتی ہے جب مختلف قانون کے تحت لوگوں شکوک وشبہات کی بنیاد پر گرفتار کر لیا جاتا ہے اور زمانہ دراز تک چارج شیٹ داخل نہ ہونے کی وجہ سے انہیں اپنی بے گناہی ثابت کرنے کا موقع بھی میسر نہیں آتا اور کہنا چاہیے کہ جیل میں انہیں سڑا دیا جاتا ہے ، قصور قانون کا نہیں اس سسٹم کا ہے ، جس کی وجہ سے پولیس من مانی کرتی ہے ، اپنی تحویل میں لے کر تعذیب کے ذریعہ جسے ان کی اصطلاح میں تھرڈ گریڈ کہا جاتا ہے ، نا کردہ گناہوں کا اقرار کراتی ہے ، پولیس تحویل میں جو کچھ ہوتا ہے اس کی کہانی بار بار ہمارے سامنے آچکی ہے، اس لیے ملزم کے لیے عدالتی تحویل نسبتا راحت کا سبب ہوتا ہے اور وہ جسمانی اذیت سے بڑی حد تک محفوظ رہتا ہے ۔
 چارج شیٹ داخل بھی ہوجائے تو ہمارے یہاں انصاف کا حصول اس قدر مہنگا ہے کہ اوسط قسم کا انسان عدالت میں اپنی بے گناہی کے لیے وکلاء کی موٹی فیس ادا کرنے پر بھی قادر نہیں ہوتا، پھر بار بار جوتاریخیں پڑتی رہتی ہیں اس کے اخراجات الگ ہیں، صورت حال اس قدر خراب ہے کہ شاہ رخ خان کے بیٹے آرین خان کو منشیات کے ایک مبینہ معاملہ میں اٹھائیس روز لگ گئے، جب کہ ممبئی کے سرکردہ اور نامور وکلاء کی پوری ٹیم شاہ رخ خان نے کھڑی کر دی تھی ، ان کے وکیل تیش مانشندے نے بڑی اہم بات کہی کہ آرین خان خوش نصیب ہیں جنہیں بہترین قانونی ٹیم ملی، ظاہر ہے جیلوں میں بند دوسرے قیدی اس قدر خوش نصیب نہیں ہیں، اس کی تصدیق نیشنل کرائم رکارڈس بیورو (این سی آر بی) کی اس رپورٹ سے ہوتی ہے جو کئی سال کے بعد شائع ہوئی ہے ، اور جس میں ۳۱؍ دسمبر ۲۰۱۶ء تک کے ہی اعداد وشمار درج ہیں۔
 رپورٹ کے مطابق ملک کی چودہ سو جیلوں میں ۲۰۱۶ء تک چار لاکھ تینتیس ہزار قیدی تھے، ان مں سے جن پر جرم ثابت ہو چکا اورجنہیں سزا سنادی گئی ان کی تعداد ۱۳۵۶۸۳؍ تھی اور زیر سماعت قیدیوں کی تعداد ۲۹۳۰۵۸ تھی، اس کا مطلب ہے کہ ۶۷ ؍ فی صد قیدی زیر سماعت تھے۔ اسے اعداد وشمار کے اعتبار سے آپ دو تہائی بھی کہہ سکتے ہیں، افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ۱۶۴۹ ؍ قیدی خواتین کے ساتھ ۱۹۴۲؍ بے گناہ اور معصوم بچے بھی جیل کی ہوا کھا رہے ہیں، ان کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ اس ماں کے بچے ہیں جو قید ہیں، اور ان کے مقدمات زیر سماعت ہیں، جیل ضابطہ کے مطابق چھ سال تک وہ اپنی ماں کے ساتھ رہ سکتے ہیں۔
ان اعداد وشمار کے تجزیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قیدی خواتین سے زیادہ جیلوں میں بے گناہ معصوم بچے ہیں، ہم بار بار اس بات کو لکھ چکے ہیںکہ نصاف میں تاخیر بھی بے انصافی جیسا عمل ہے ، یقینا ہندوستانی عدلیہ پر ہمیں بھرسہ ہے ، لیکن انکوائری ، چارج شیٹ اور ٹرائل میں جو تاخیر ہوتی ہے اس کی وجہ سے جیلوں میں بند قیدی بے کس بھی ہیں اور بے بس بھی ، عدالت اور سسٹم کو اس پہلو بھی دھیان دینا چاہیے

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...