Powered By Blogger

ہفتہ, دسمبر 18, 2021

دہلی میں اومیکرون کے مریضوں کے لئے تین اور اسپتال نامزد

دہلی میں اومیکرون کے مریضوں کے لئے تین اور اسپتال نامزدنئی دہلی،قومی دارالحکومت دہلی میں کورونا وائرس کے اومیکرون قسم کے معاملوں میں اضافے کے درمیان دہلی حکومت نے تین نجی اسپتالوں کو اس طرح کے مشتبہ مریضوں اور مصدقہ معاملوں کے علاج کےلئے نامزد کیا ہے۔
دہلی حکومت نے آج جن تین نجی اسپتالوں کو اومیکرون سے متاثر مریضوں کے علاج کےلئے نامزد کیا،ان میں بترا اسپتال ،فورٹس وسنت کنج اور سر گنگا رام سٹی اسپتال شامل ہیں۔
اس سے پہلے حکومت نے لوک نائک جے پرکاش نارائن اور میکس اسپتال کی اومیکرون سے متاثر مریضوں کے علاج کےلئے نشاندہی کی تھی۔
سرکاری ذرائع نے یواین آئی کو بتایا کہ یہاں جمعہ کو اومیکرون کے 10 معاملوں کی تصدیق کے بعد دو اور افراد اس قسم سے متاثر پائے گئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق ان میں سے ایک مریض کا میکس ساکیت میں علاج چل رہا ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ مریض حال ہی میں بیرون ملک گیا تھا اور اندرا گاندھی بین الاقوامی ہوائی اڈے پر کورونا پازیٹو پایا گیا تھا،ذرائع نے کہا،''مریض کی حالت مستحکم ہے۔''
دہلی میں جمعہ کو پوری طرح سے ویکسینیٹ 10 بین الاقوامی مسافر اومیکرون سے متاثر پائے گئے تھے،جن میں سے کچھ مسافر تو ویکسین کی بوسٹر ڈوز بھی لے چکےہیں۔
اومیکرون سے متاثر پائے جانے والوں میں سے تنزانیہ (1)، بیلجیم (1)، برطانیہ (4) اور دبئی سے یہاں آئے ہیں۔
واضح رہے کہ دہلی میں اومیکرون کا پہلا معاملہ پانچ دسمبر کو سامنے آیا تھا۔

فاربس_گنج کے علماء نے سماج کو #جہیز و نشہ سے پاک کرنے کا عہد لیا#جمعیت_علماء_فاربس_گنج کے ذریعےجہیز و نشہ مخالف مہم کو اپنے حلقے میں تیز کرنے کا اعلان

#فاربس_گنج کے علماء نے سماج کو #جہیز و نشہ سے پاک کرنے کا عہد لیا

#جمعیت_علماء_فاربس_گنج کے ذریعےجہیز و نشہ مخالف مہم کو اپنے حلقے میں تیز کرنے کا اعلان
                                          17/12/2021
_____________________________________
 مرکزی و صوبائی جمعیت کی ہدایت کے مطابق جمعیت علماء ارریہ پورے ضلع میں جہیز اور نشہ کے خلاف مہم چلارہی ہے۔
الحمد للہ منظم انداز میں جاری ہے۔یہ مہم ضلع کے تمام 9/بلاک میں بلاک سطحی جمعیت کی قیادت میں چلائی جارہی ہے۔جس کی سرپرستی صدر شعبہ اصلاح معاشرہ جمعیت علماء ارریہ مفتی محمد اطہر القاسمی کررہےہیں۔
اسی موضوع پر جمعیت علماء بلاک فاربس گنج کے تحت علاقے کا قدیم ادارہ مدرسہ رحمانیہ ننکار رام پور فاربس گنج میں ایک بڑا پروگرام منعقد ہوا۔جس میں ان دونوں موضوع کے ساتھ مدرسہ رحمانیہ ننکار کے اکابر کی سوانح پر مولانا محمد عثمان ندوی نائب مہتمم مدرسہ نور الاسلام جلپاپور نیپال کی تصنیف کا اجراء بھی عمل میں آیا۔
اجلاس کی نظامت کرتے ہوئے جمعیت علماء ارریہ کے جوائنٹ سیکریٹری مولانا محمد فیروز نعمانی نے سامعین کو اجلاس کے اغراض و مقاصد سے روشناس کراتے ہوئے کہاکہ جمعیت علماء ارریہ لاک ڈاؤن سے پہلے فاربس گنج بلاک میں بڑے منظم انداز میں جہیز اور نشہ کے خلاف مہم چلائی جارہی تھی،اب دوبارہ جمعیت علماء کے مرکزی و صوبائی اکابرین کی ہدایات کی روشنی میں ضلعی جمعیت پورے زور وشور سے مہم جارہی ہے جس کے مثبت اثرات ضرور مرتب ہوں گے۔
اجلاس کا آغاز قاری محمد احتشام کی تلاوت قرآن کریم اور محمد حسیب اللہ متعلمین مدرسہ رحمانیہ ننکارکی نعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوا۔
افتتاحی خطاب کرتے ہوئے بلاک کے صدر مولانا غیاث الدین نعمانی نے کہاکہ اصلاح کے دو پہلو ہیں،امر بالمعروف اور ونہی عن المنکر۔آج امر بالمعروف پر بیشتر لوگ محنت کررہے ہیں مگر نہی عن المنکر پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جارہی ہے۔جمعیت علماء ارریہ اسی دوسرے عنوان کو لےکر آپ کے علاقے میں حاضر ہے۔آپ اس کا تعاون کریں۔
بلاک کے سیکریٹری مولانا عبد الجبار ندوی نے کہا کہ سماج میں آگ لگی ہوئی ہے اور لوگ بےفکر اپنے گھروں میں سورہے ہیں۔اس کا نتیجہ سوائے تباہی کے اور کیا ہوسکتا ہے۔
علاقے کے بزرگ عالم دین حضرت مولانا عبد الوہاب صاحب شمسی نے کہا کہ میں نے اس سرزمین پر 45/سال کی عمریں گذار دی، میرے طلبہ آج بڑے بڑے علماء بن گئے ہیں۔یہی علماء آج قوم کے سچے رہنما ہیں۔آج سخت سردی میں یہ لوگ جمعیت کے پلیٹ فارم سے جہیز و نشہ کے خلاف مہم چلاتے ہوئے آج یہاں آئے ہیں،یہ سراسر قوم کی سچی ہمدردی ہے۔اس پیغام کو قبول کرنا آپ سب کی ذمےداری ہے۔
سابق قاضی شریعت امارت شرعیہ ارریہ قاضی نذیر احمد قاسمی نے کہا کہ تحریک کے روح رواں جناب مفتی محمد اطہر القاسمی ملت اسلامیہ کی ہمدردی کے لئےاپنے کلیجے میں ایک دھڑکتا ہوا دل رکھنے والے مخلص عالم دین ہیں۔ان کی موجودہ تحریک ہم سب کی اجتماعی تحریک ہے۔ہم مکمل ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر آپ سب سے اس تحریک کو کامیاب بنانے کی اپیل کرتے ہیں اور ساتھ ہی مفتی صاحب سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ ان دونوں موضوع کے ساتھ سوشل میڈیا کے غلط استعمال سے نوجوان نسلوں پر کیا مضر اثرات مرتب ہورہے ہیں اسے بھی شامل مہم کریں۔
مولانا محمد عثمان ندوی نے کہا کہ آج جو سوانحی کتاب بانیان مدرسہ رحمانیہ ننکار رام پور کا رسم اجراء ہورہاہے ان میں سے بیشتر میرے محسن اساتذہ کرام ہیں،لاک ڈاؤن کے ایام میں اللہ تعالیٰ نے مجھے توفیق بخشی اور میرے ٹوٹے پھوٹے قلم سے انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کا موقع فراہم ہوا۔قابل مبارکباد ہیں ادارے کے ناظم اعلیٰ مولانا محمد فاروق مظہری نائب صدر جمعیت علماء ارریہ کہ انہوں نے اگلی نسل کو اپنے اکابرین کی تاریخ پڑھنے کے لئے اس کتاب کی اشاعت کروائی۔
اجلاس کے سرپرست مفتی محمد اطہر القاسمی نے کہاکہ میں لگاتار 20/سال سے جہیز کے خلاف آوازیں لگاتا رہا مگر میری آواز صدا بصحرا ثابت ہوئی،لیکن خوشی کی بات یہ ہے کہ اب یہ تحریک ملک کی سوسالہ تاریخ ساز جماعت جمعیت علماء ہند چلارہی ہے۔
جماعت پر خدائی نصرت کا فیضان ہوتا ہے اس لئے آپ سب بھی جمعیت کی اس تحریک سے وابستہ ہوجائیں اور روزانہ اپنی تمام تر مصروفیات زندگی میں سے صرف آدھا گھنٹہ نکال لیں اور گاؤں گاؤں،شہر شہر اور مسجد مسجد دعوت وتبلیغ والوں کی طرح لوگوں کے ہاتھ پکڑ کر انہیں سنت و شریعت کے مطابق نکاح کے انعقاد کے لئے تیار کریں۔اور ساتھ ہی نوجوان نسلوں کے ہاتھوں کو نشہ سے دور کریں۔ان شاءاللہ تحریک کامیاب ہوگی۔موصوف نے تمام شرکاء سے فرداً فرداً اس تحریک کوکامیاب بنانے کےلئے عہد لیا۔
اخیر میں صدر اجلاس بزرگ عالم دین مفتی شکیل احمد قاسمی نائب شیخ الحدیث سردار شہر راجستھان نے کہاکہ خلوص وللہیت کے ساتھ جو بھی کام کیا جاتاہے خدا کی نصرت اس میں شامل ہوتی ہے۔جمعیت علماء اس تحریک کو لےکر کھڑی ہوئی ہے،یہ خوشی کی بات ہے ہم آپ سب کی کامیابی کے لئے دل سے دعائیں کرتے ہیں۔
خطاب کے بعد کتاب کے رسم  اجراء کی  تقریب عمل میں آئی۔اور تمام موجود احباب کو مولانا محمد فاروق مظہری ناظم اعلیٰ مدرسہ ہذا کی طرف سے کتاب ہدیہ کی گئی اور تمام شرکاء کی آمد کا شکریہ ادا کرنے کے ساتھ ساتھ تن من دھن سے جہیز و نشہ مخالف مہم کو کامیاب بنانے کےلئے اپیل کی  گئی اور سبھوں کی ضیافت کا اہتمام بھی کیا گیا۔حضرت مفتی شکیل احمد قاسمی صاحب کی دعاء پر مجلس اختتام پذیر ہوئی۔
اجلاس میں مذکورہ بالا علماء کرام کے علاوہ مفتی محمد یعقوب ندوی،ماسٹر محمد عمر حسین،مفتی جاوید مظاہری،مولانا مکھیا ممتاز احمد پوٹھیہ،مولانا ظفر امام قاسمی جھروا،سرپنج محمد اشفاق رام پور،الحاج محمد طاہر ہری پور،قاری حسیب الرحمان نرپت گنج،قاری شوکت مجھوا وغیرہ کے علاوہ عوام الناس کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔

تولیدی شرح میں گراوٹمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہآبادی اور رقبے دونوں کے اعتبار سے ہندوستان کا شمار دنیا کے بڑے ممالک میں ہوتا ہے

تولیدی شرح میں گراوٹ
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
آبادی اور رقبے دونوں کے اعتبار سے ہندوستان کا شمار دنیا کے بڑے ممالک میں ہوتا ہے، آبادی کی بڑھتی شرح کو قابو میں کرنے کے لیے یہاں حکومتی سطح پر خاندانی منصوبہ بندی کے عنوان سے مختلف قسم کے پروگرام چلائے جاتے ہیں، ’’دو یا تین بچے، ہوتے ہیں گھر میں اچھے ‘‘اور ’’پہلا بچہ ابھی نہیں، تین کے بعد کبھی نہیں‘‘ کے نعروں نے انسانی ذہن ودماغ پر جو اثر ڈالا ہے، اس کے نتیجے میں مانع حمل ادویات کا استعمال بڑھاہے، خاندانی منصوبہ بندی کے دیگر ذرائع نے بھی سماج میں پکڑ بنالی ہے، جس کا نقصان دہ اثر یہ ہوا ہے کہ عورتوں کی تولیدی صلاحیت وشرح میں رکارڈ کمی درج کی گئی ہے، ایک ہے منصوبہ بندی کے ذریعہ آبادی کا کنٹرول، گویہ بھی غیر شرعی ہے اور اس کے اپنے نقصانات ہیں، اس کی وجہ سے معاشی پیداوار میں کام کرنے کے لیے ہمیں افراد نہیں مل رہے ہیں اور دوسرا ہے صلاحیتوں کا ختم ہوجانا، یہ زیادہ تشویشناک ہے۔
قومی خاندانی صحت  سروے ۔۵(نیشنل فیملی ہیلتھ سروس ۔۵)کی رپورٹ کے مطابق ملک میں افزائش نسل کی مجموعی شرح (ٹی ایف آر)فی عورت ۲ء ۲ سے گھٹ کر ۰ئ۲ پر آگئی ہے ، اس رپورٹ کے تیار کرنے میں ملک کی چودہ ریاستوں اروناچل پردیش، چنڈی گڈھ، چھتیس گڈھ، ہریانہ، جھارکھنڈ، مدھیہ پردیش، دہلی، اڈیشہ،پڈوچیری، پنجاب، راجستھان، تمل ناڈو، اتر پردیش اور اتراکھنڈ کا سروے کیا گیا، اس سروے میں سات سو سات اضلاع کے تقریبا ۱-۶؍ لاکھ گھرانوں تک پہونچا گیا، سروے میں سات لاکھ چوبیس ہزار ایک سو پندرہ خواتین اور دس لاکھ ایک ہزار آٹھ سو انتالیس مرد شامل ہوئے، ایک سو اکتیس اہم اطلاعات ان سے حاصل کی گئیں، نیتی آیوگ کے رکن صحت ڈاکٹر وی کے پال اور مرکزی وزیر صحت اور خاندانی بہبود کے سکریٹری راجیش بھوشن نے، ’’فیکٹ شٹ‘‘ جاری کرکے ملک کویہ اطلاعات فراہم کی ہیں، عورتوں میں افزائش نسل کی صلاحیت اور شرح میں کمی کا ایک بڑا سبب مانع حمل ادویات کا استعمال ہے، جس کی شرح (سی پی آر )چون فی صد سے بڑھ کر سرسٹھ فی صد ہو گئی ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک کی چودہ ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں یہ شرح ۴ء ۱ ؍ سے ۴ئ۲؍ تک ہے، چنڈی گڈھ میں لڑکیوں کی تولیدی شرح ۴ئ۱، اتر پردیش میں ۲۴؍ ہے۔
سروے کے پہلے مرحلہ میں بائیس ریاستوں کی صورت حال کا جائزہ لیا گیا تھا اور اس کی رپورٹ ۲۰۲۰ء میں سامنے آئی تھی، دونوں مرحلے کی رپورٹ کو سامنے رکھ کر جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ بچوں اور خواتین میں خون کی کمی کا معاملہ بھی تشویش کا موضوع ہے۔
 در اصل جب ہم قدرت کی عطا کردہ صلاحیتوں کی نا قدری کرتے ہیں تو اس کا خمیازہ ہمیں بھگتنا پڑتا ہے، معاملہ مانع حمل ادویات کا ہو یا مستقل طریقۂ کار کے ذریعہ خاندانی منصوبہ بندی کا ، دونوں انسانی فطرت اور قانون قدرت کے خلاف ہے، اور اس کا جسمانی صحت پر اچھا خاصہ اثر ہوتا ہے، اور دھیرے دھیرے صلاحیتوں کو دیمک لگ جاتی ہے، پھر اس کے جو مضر اثرات سامنے آتے ہیں، وہ انتہائی پریشان کن ہوتے ہیں، اس لیے خاندانی منصوبہ بندی کے لیے عام حالات میں جب عورت کی صحت کو خطرات لاحق نہ ہوں ، مانع حمل ادویات کے استعمال اور خاندانی منصوبہ بندی کے دوسرے مستقل اور غیر مستقل طریقوں کے اپنانے سے گریز کرنا چاہیے، یہ ہماری صحت وعافیت کے لیے ضروری ہے اور اسلامی مزاج اور تقاضوں کے عین مطابق بھی۔

جمعہ, دسمبر 17, 2021

ذرائع ابلاغ کی بے بسی مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہتینوں زرعی قوانین کی واپسی کے بعد ذرائع ابلاغ بہت بے بس نظر آرہا ہے

ذرائع ابلاغ کی بے بسی 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
تینوں زرعی قوانین کی واپسی کے بعد ذرائع ابلاغ بہت بے بس نظر آرہا ہے، سب سے زیادہ سُبکی ان قوانین کی واپسی سے پرنٹ میڈیا اور الکٹرونک میڈا کو اٹھانی پڑی ہے، وہ اینکر جو ٹی وی پر چیخ چیخ کر ان قوانین کی افادیت ، اہمیت اور ضرورت پرزمین وآسمان ایک کیے ہوئے تھے، وہ حاشیہ پر آگیے ہیں، ان اخبارات کے مالکان اور مدیران بھی شرمندگی محسوس کر رہے ہیںجو کسان تحریک کے خلاف لکھنے میں ساری حد پار کر چکے تھے، سبکی تو وزیر اعظم کو بھی اٹھانی پڑی، کیوں کہ ان کی جملہ بازی ہار گئی اور انہیں اقرار کرنا پڑا کہ ہم کسانوں کو سمجھانے میں ناکام رہے انہیں اس ناکامی کا خیال مختلف ریاستوں میں ہونے والے انتخاب کی وجہ سے آگیا ، ورنہ وزیر اعظم حسب سابق’’ من کی بات‘‘ کہتے رہتے اور کسان ٹھنڈ سے مرتے رہتے۔
 اس سلسلے میں نیوز اینکر سو شانت سنہا اپنے دل کے درد کو روک نہیں سکے ، انہوں نے ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر لوڈ کرکے بتایا کہ ہم ہیرو سے زیرو ہو گیے، انہوں نے وزیر اعظم پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ ’’ ہم لوگ جنہوں نے قانون پڑھا ، اسے سمجھا، اور انہیں لگا کہ چلو اب کسانوں کے لیے کچھ اچھا ہو رہا ہے،وہ نریندر مودی کے جھکنے کے ساتھ ہی ہار گیے، مودی جی کچھ کسانوںکو سمجھا نہیں پائے تو کچھ کے لیے انہوں نے سب کو قربان کر دیا، سوشانت سنہا اتنے ہی پر نہیں رکے، انہوں نے کہا کہ اگر کچھ کے حساب سے ہی چلنا ہے تو جموں اور کشمیر میں ۳۷۰؍بھی لے آئیے، وزیرا عظم کو ان لوگوں کو بھی جواب دینا چاہیے جو لوگوں کو قانون سمجھا رہے تھے۔
سوشانت سنہا نے کچھ غلط نہیں کہا ہے، لیکن اس واقعہ میں سوشل میڈیا اور پرنٹ میڈیا کی عبرت کے لیے بہت کچھ ہے، جو وزیر اعظم کی ہر بات میںسُر سے سُر ملانے کے عادی رہے ہیں، یہ صحیح ہے کہ گودی میڈیا اس کام کے لیے حکومت سے بڑی رقم لیتا ہے، جس کے بدلے وہ حکومت کی قصیدہ خوانی میں ایک دوسرے سے آگے نکل جاتا ہے، بِکے ہوئے لوگ آقا کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں کر پاتے اس زاویہ سے دیکھیں تو بکی ہوئی گردن اور جھکے ہوئے سر میں کوئی بڑا فرق نہیں ہے۔

جمعرات, دسمبر 16, 2021

حیدرآباد میں 11سالہ نواسہ نے ایسا کردیا بڑا کام _ جس پر نانا کو مجبورآ جانا پڑا پولیس اسٹیشن

حیدرآباد میں 11سالہ نواسہ نے ایسا کردیا بڑا کام _ جس پر نانا کو مجبورآ جانا پڑا پولیس اسٹیشن

حیدرآباد _ 15 دسمبر ( اردو لیکس) حیدرآباد میں ایک نواسہ نے آن لائن گیم کھیلتے ہوئے اپنے نانا کے 11 لاکھ روپے کی رقم سائبر سارقوں کے ہاتھ لگا دی ۔جو گیمینگ ایپ کے ذریعہ دوسرے کے اکاونٹ میں منتقل ہوگئی۔ رقم سے محروم ہونے والے شخص کوئی عام آدمی یا بزنس مین نہیں ہیں بلکہ وہ پولیس کے ایک ریٹائرڈ سب انسپکٹر ہیں تفصیلات کے مطابق سید اصغر علی حیدرآباد کے نیشنل پولیس اکیڈمی میں سب انسپکٹر کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔ ریٹائرڈمنٹ کے بعد ان کے بینک اکاونٹ میں کافی رقم تھی اس دوران ان کا 11 سالہ نواسہ اپنے نانا اصغر علی کے فون کو آن لائن کلاس کے لئے استعمال کرتا تھا اور اس فون پر آن لائن گیمنگ کھیلتا تھا ۔یہ فون بینک اکاؤنٹ سے منسلک تھا اس دوران آن لائن گیمنگ ایپ کے ذریعہ بھاری رقم اصغر کے بینک اکاؤنٹ سے دوسرے اکاؤنٹ میں منتقل ہوگئی۔یہ واقعہ جاریہ سال جولائی کا ہے معاملے کا علم ہونے پر اصغر علی نے جولائی میں سائبرآباد سائبر کرائم پولیس میں شکایت درج کرائی۔ سائبرآباد پولیس نے اس کیس کی تحقیقات کرتے ہوئے سنگاپور میں آن لائن گیمنگ آفس کی نشاندہی کی اور ان سے رابطہ کیا۔ سائبرآباد پولیس نے پانچ ماہ کی طویل کوششوں کے بعد سید اصغر علی کے اکاؤنٹ میں11 لاکھ روپے منتقل کر دیئے۔ گم شدہ نقدی کی واپسی سے متاثرہ خاندان خوش ہے اور سائبرآباد پولیس کا شکریہ ادا کیا ہے۔

خفیہ ایجنسی کی بھول مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

خفیہ ایجنسی کی بھول 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
 ملک کی سا  لمیت، مختلف انداز کے دشمنوں سے حفاظت اور سازشوں سے محفوظ اور با خبر رکھنے کے لیے ہمارے یہاں کئی خفیہ ایجنسیاں کام کر رہی ہیں، ان ایجنسیوں کے علاوہ ریاستی طور پر بھی جرم کی روک تھام کے لیے مخبری کا مضبوط نظام قائم ہے، یہ حساس ادارے ہیںاس لیے ان کو اسی قدر چست ودرست رہنا ہوتا ہے، یہ اپنی ذمہ داریاں نبھاتے ہیں، ان سے جو بھول چوک ہوتی ہے، اس کے نتیجہ میں بڑا نقصان ہوجاتا ہے، کبھی کبھی ان کی بھول کا نتیجہ عام شہریوں کو بھگتنا پڑتا ہے اور کئی بار جان سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔
۴؍ دسمبر ۲۰۲۱ء کو ناگالینڈ میں ایسا ہی کچھ ہو گیا ، خفیہ ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق پیرا ملٹری فورس کے ۲۱؍ پیرا کمانڈو کے ایک دستہ نے اوٹنگ گاؤں کو لوٹ رہے کوئلہ مزدوروں پر لانگ کھاؤ کے دو الگ الگ مقام پر گولیاں چلا کر پندرہ مزدوروں کوموت کے گھاٹ اتار دیا، واردات کے وقت پولیس گائیڈ کو ساتھ رکھنے کی فوجی جوانوں نے ضرورت محسوس نہیں کی، یہ جگہ ناگالینڈ کے ضلع مون میں تیرو علاقہ کے تحت آتا ہے، ملٹری فورس نے دہشت پسندوں کے شبہ میں ان کی گاڑی کو نشانہ بنایا ۔
 یہ حادثہ اس قدر افسوسناک ہے کہ پورا ملک اس کی مذمت کر رہا ہے، اس کی جانچ کے لیے اس آئی ٹی( اسپیشل انوسٹی گیشن) تشکیل دی گئی ہے، ایف آئی آر درج کرایا گیا ہے، جانچ کمیٹی کو ایک ماہ میں رپورٹ دینے کو کہا ہے، جرم کسی کا بھی ہو، جانچ کی رپورٹ کچھ بھی آئے، لیکن جو ہلاک ہوئے ان کی واپسی تو نہیں ہو سکتی، پندرہ خاندان اجڑ گیا، بچے یتیم ہو گیے، ماؤں کی مانگوں کے سیندور اتر گیے، اس کی تلافی بھلا کیوں کر ہو سکے گی۔
 اس خوفناک اور الم ناک واقعہ کی وجہ سرحد اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں تعینات فوجی اور نیم فوجی دستوں کو افسپا(آرمڈ اسپیشل پاور فورس) قانون کے ذریعہ ملنے والے خصوصی اختیارات، ہیں، ان اختیارات کو استعمال کرکے فوج عوام پر ظلم کرنے لگتی ہے اور بے قصور شہری اس کے شکار ہوتے ہیں، اسی لیے اس واقعہ کے بعد ناگالینڈ کے وزیر اعلیٰ نیفر یو، نے افسپا کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے، میگھالیہ کے وزیر اعلیٰ کونارڈ کے سنگما نے بھی اس کی حمایت کی ہے تاکہ فوج اس کا سہارا لے کر عام شہریوں پر تشدد نہ کر سکے۔ 
 اس واقعہ میں ہمارے لیے جو سب سے بڑی سیکھ ہے وہ یہ ہے کہ آنے والی خبروں پر آنکھ بند کرکے اعتماد نہ کیا جائے ، اپنے طور پر تحقیق بھی کی جائے، بلا تحقیق خبر پر اقدام کرنے سے اس قسم کی شرمندگی کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے۔ اللہ رب العزت نے بھی آنے والی خبروں پر تحقیق کا حکم دیا ہے، تاکہ غلط ہونے پر اپنے اقدام پر شرمندہ نہ ہونا پڑے۔

بدھ, دسمبر 15, 2021

مسلم اور غیر مسلم تعلقات✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

مسلم اور غیر مسلم تعلقات
✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ(9431003131)
اللّٰہ رب العزت نے بنی نوع انسان کے لئے دین اسلام کا انتخاب کیا اور اس کا آخری اور مکمل ایڈیشن آقا ومولافخر موجودات سرور کونین صلی اللّٰہ علیہ وسلم پرنازل کیا ، اور اعلان فرمادیا کہ محمد رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی اور رسول ہیں، ان کے بعد نہ تو کوئی نبی آئے گا اور نہ کوئی رسول ،
زبان رسالت نے اعلان فرمایا’’ لانبی بعدی‘‘ اور اس بات کا بھی اعلان کروایا گیا کہ اللّٰہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سارے جہاں کے لئے رسول بناکر بھیجے گئے، علاقوں، قبیلوں کی تفریق باقی نہیں رہی او ر ہر قبیلہ اور ہر علاقہ کے لوگ اللّٰہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی امت قرار پائے ۔
آپ صلی اللّٰہ سے قبل جتنے بھی انبیاء ورسل بھیجے گئے ، انہیں کسی خاص علاقہ اور خاص قوم کو راہ راست پر لانے کی ذمہ داری دی گئی اور انہیں محدود وقت کے لئے احکام دئے گئے اور یہ سارے احکام آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد منسوخ ہو گئے اب مدار نجات اللّٰہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبین ماننے ، قرآن کریم پر عمل کرنے اور رسول خاتم کے طریقوں کو اپنانے میں مضمر ہے ، بغیر اس کے نجات ممکن نہیں ۔
پھر چونکہ اس امت کو قیامت تک باقی رہنا ہے اور طاغوتی طاقتیں راہ راست سے انسانوں کو بھٹکانے میں ہمیشہ لگی رہتی ہیں، اورابتدائے آفرینش ہی سے ابلیسی حربے کا م کرتے رہے ہیں ، اسی لئے دعوت وتبلیغ اور امت کو قیامت تک صحیح رخ اور سمت پرقائم رکھنے کا نبوی کام علماء کے ذمہ کیا گیا اورزبان نبوت نے علماء کے بارے میں انبیاء کے وارث ہونے کا اعلان کیا اور علماء کو زمین کا چراغ کہا گیا ، ’’العلماء ورثۃ الانبیائ‘‘ اور’’ العلماء مصابیح الارض‘‘کہہ کر یہ اعلان کر دیا گیا کہ قیامت تک، علماء امت وہ کام کرتے رہیں گے جوماضی میں کار نبوت رہا ہے ۔ 
دور رسالت میں اور اس کے بعد جن لوگوں نے اسلام قبول کر لیا ، ان کی حیثیت امت اجابت یعنی اللّٰہ کی وحدانیت اور رسول کے رسالت کو قبول کرنے والے کی ہو گئی ، یہ سب مسلمان کہلائے ، قرآن پاک میں انہیں خیر امت اور وسط امت کا لقب دیاگیا، ایک گروہ جس نے اس پیغام کو قبول نہیں کیا ، ان کی حیثیت امت دعوت کی رہی، یعنی یہ وہ لوگ ہیں جن تک دعوت پہونچانے کا کام ہر دو ر میں داعیان امت کا رہا ہے اور علماء اور مصلحین ا س فریضے کی ادائیگی میں غیر معمولی تندہی کا ثبوت دیتے رہے ہیں۔ 
اس طرح دیکھیں تو تمام غیر مسلم خواہ وہ کسی مذہب کو مانتے ہوں ، ان کی حیثیت مدعو قوم کی ہے ، اور مسلمانوں سے ان کا رشتہ داعی اور مدعو کا ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ا مت ہونے میں وہ بھی شریک ہیں، فرق صرف اتنا ہے کہ اللّٰہ کے آخری دین کی دعوت ہمیں ان تک پہونچانی ہے ۔ 
داعی اور مدعو کا یہ رشتہ بڑا نازک ہوتا ہے اس کی اسا س اور بنیاد اس محبت اور تڑپ پر ہوتی ہے کہ کسی طرح یہ لوگ دعوت دین قبول کر لیں ، یہ محبت ، یہ تڑپ اوریہ بے چینی کبھی اتنی بڑھ جاتی ہے کہ لگتا ہے کہ آدمی اس فکر میں اپنے کو ہلاک کرڈالے گا۔
مسلمان اسی انداز کا تعلق غیر مسلموں سے رکھتا ہے ، اس کی ہدایت یابی کے لئے کڑھتا رہتا ہے ، وہ اپنے مدعو سے نفرت نہیں کر سکتا ، اس لئے کہ نفرت کی بنیاد پر دعوت کا کام نہیں کیا جا سکتا ۔اگر کوئی کسی غیر مسلم سے نفرت کرتا ہے تو وہ دعوت کے کام کو صحیح طور پر نہیں کر سکتا ، نفرت کی چیز کفر وشرک ہے ، کافر ومشرک نہیں، بالکل اسی طرح جس طرح مریض قابل نفرت نہیں ہوتا، مرض قابل نفرت چیز ہوا کرتی ہے ، یہی وجہ ہے کہ اللّٰہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر مسلموں کے ساتھ غیر معمولی برتاؤ کیا ، اور انہیں مختلف موقعوں پر عزت واکرام سے نوازا ۔ یہاں پر ہمیں اس بڑھیا کو یاد کرنا چاہئے جو اللّٰہ کے رسول کے ڈر سے بھاگی جا رہی تھی ، اوراسے گٹھری ڈھونے کے لئے کسی مزدور کی تلاش تھی، اللّٰہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بڑھیا کی گٹھری اٹھا کر منزل مقصود تک پہونچا دیا ، آپ کے اس حسن اخلاق نے بڑھیا کو اسلام سے قریب کر دیا اور وہ کلمۂ ’’لا الہ الااللہ‘‘ پڑھ کر مسلمان ہو گئی۔گو محدثین کے نزدیک اس کی سند مضبوط نہیں ہے ۔
یہ اور اس قسم کے بہت سارے واقعات یہ بتاتے ہیں کہ داعی کے حسن اخلاق نے دین کی دعوت کے کام کو لوگوں کے دلوں تک پہونچانے کا کام کیا ، یہ کام خوف وجبر سے نہ اس زمانے میں کیا جا سکتا تھا اور نہ آج یہ ممکن ہے، آخر قرآن کریم نے یوں ہی اعلان نہیں کر دیا کہ دین میں زبر دستی (کا فی نفسہ کوئی موقع )نہیں۔
اسلام نے داعی اور مدعو کے اس رشتے کی بنیاد کو پائیداری بخشی اور ان لوگوں کیلئے جو مسلمانوں کے درپئے آزار نہیں ہوئے اور مسلمانوں کیلئے مسائل نہیں کھرے کئے ان کے لئے واضح حکم دیا کہ :اللہ تم لوگوں کو ان لوگوں کے ساتھ احسان اور انصاف کا برتاؤ کرنے سے منع نہیں کر تا جو تم سے دین کے بارے میں نہیں لڑے اور تم کو تمہارے گھروں سے نہیں نکالا ۔ اللّٰہ تعالیٰ انصاف کا برتاؤ کرنے والوں سے محبت رکھتے ہیں۔
اسلام کا یہ حکم رحمت ورافت اور حسن اخلاق کی تعلیم پر مبنی ہے، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مشرکین اور مسلمانوں کے درمیان بر واحسان کا تعلق نہ صرف جائز  بلکہ مستحسن ہے ، یہی وجہ ہے کہ حضرت اسماء بنت ابو بکر ؓ کی والدہ حالت شرک میں ان کے پاس پہونچیں ، انہوں نے اللّٰہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ کیا ماں کے ساتھ اس حالت میں وہ حسن سلوک کر سکتی ہیں، تو  اللّٰہ کے رسول صلی ا للہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : ہاں ! اپنی ماں کے ساتھ حسن سلوک کرو ۔ 
خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حال یہ تھا کہ کفار ومشرکین مکہ کے ایذائیں پہونچانے اور دعوت دین کے کام میں غیر معمولی رکاوٹیں ڈالنے کے باوجود جب مکہ میں قحط پڑا اور لوگوں کو پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا تو آپؐ نے مکہ مال بھیجوایا تاکہ وہاں کے فقراء اور ضرورت مندوں میں اسے تقسیم کیا جائے ۔ اس معاملے میں صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین کا معمول بھی اپنے مشرک پڑوسیوں سے حسن سلوک کا تھا، ملک شام کی طرف جاتے ہوئے حضرت عمر بن الخطابؓ کا بیت المال سے مجوسی کو ڑھیوں کی مدد کرنا ثابت ہے، اسی طرح  حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ نے یہ حکم دے رکھا تھا کہ قربانی کے گوشت اپنے یہودی پڑوسیوں کوبھی دیا جائے، اس لئے کہ پڑوسیوں کا حق بہت ہے اور اس میں مسلم اور غیر مسلم کی تفریق نہیں کی گئی ہے ، اسی طرح اسلام نے یتامیٰ کی خبر گیری کے لئے مسلم اور غیر مسلم کی قید نہیں لگائی ، اس سے معلوم ہو تا ہے کہ غیر مسلموں کی مالی معاونت کی جاسکتی ہے ۔ قرآن کریم میں اللہ رب العزت بلا تخصیص مسکینوں ، یتیموں اور قیدیوں کو محض اللّٰہ کی رضا کے لئے کھانا کھلانے کو بہتر عمل اور اپنی رضا کا سبب بتا یا ہے ،جب کہ ایک دوسری جگہ یتیموں کی ناقدری اور مسکینوں کے معاملات سے صرف نظر کرنے کو اپنی ناراضگی کا سبب قراردیا ہے۔
 حسن سلوک کا ہی ایک طریقہ مریضوں کی عیادت ہے ، اسلام میں مریضوں کی عیادت کا حکم مسلم اور غیر مسلم سب کے لئے ہے ، امام بخاری نے روایت نقل کی ہے کہ ایک یہودی غلام اللّٰہ کے رسول کے پاس خدمت میں رہتا تھا ،جب وہ بیمار ہوا تو آپ اس کے پاس تشریف لے گئے اور اس کی عیادت کی۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا ابو طالب کی عیادت کی اور ان پر اسلام پیش کیا، ابن حجرؒ نے ان روایتوں سے مشرکین کی عیادت کے جواز پر استدلال کیا ہے ، صاحبؒ بحر الرائق نے اسے بر واحسان کے ذیل میں رکھتے ہوئے جواز کے قول کو ترجیح دیا ہے ،امام احمد بن حنبلؒ کی بھی یہی رائے ہے۔ 
حسن سلوک کے ذیل میں ہی تعزیت کا معاملہ آتا ہے ، فقہاء نے اسے جائز قرار دیا ہے ، البتہ ایسے کلمات سے اجتناب کا حکم دیا ہے جس سے شرک کی عظمت کسی درجہ میں بھی سامنے آئے، بعض فقہاء نے اسے بعض شرطوں کے ساتھ مخصوص کیا ہے ، لیکن واقعہ یہ ہے کہ بر وتقویٰ کی عمومیت سے حکم عام ہی نکلتا ہے ۔ 
ہم ہندوستان میں رہتے ہیں اور بہت سارے ممالک وہ ہیں جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں ، ان حالات میں غیر مسلموں سے تجارتی لین دین ایک سماجی اور معاشی ضرورت ہے ، اس ضرورت کے تحت مشرکین وکفار کے ہر اس معاملات میں شرکت کی جا سکتی ہے ، جو حلال ہو اور سود نیز دوسرے ممنوعات سے پاک ہو ، روزمرہ کی خرید وفروخت ، اجارہ ، رہن اور اس قسم کے دوسرے امور مالیہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے غیر مسلموں سے کئے جاتے رہے ہیں اور آج بھی ان کی اجازت ہے ، البتہ سود ، دھوکا دہی، خمر وخنزیر کے معاملہ میں ان کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا اور ان معاملات میں شریک ہونا مسلمانوں کے لئے جائز نہیں ہو گا ، مسلمان غیر مسلموں سے عاریت کا معاملہ بھی کر سکتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر اس کے پاس امانتیں رکھی جا سکتی ہیں اور جان ومال کی سلامتی کا یقین ہو اور احوال اس کے متقاضی ہوں توبعض صورتوں میں ان سے پناہ بھی چاہی جا سکتی ہے ۔فقہاء نے غیر مسلم والدین کا نان ونفقہ بھی ضرورتاً دینے کو جائز کہا ہے ، بعضوں کا قول اس مسئلے میں وجوب کا بھی ہے۔
صفوان بن امیہ سے یوم حنین کے موقع پر بنی قینقاع کے یہود اور خزاعہ کے ایک فرد سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اعانت طلب کرنا، احادیث وسیر میں مذکور ہے، اسی بنیاد پر احناف اور شوافع کے یہاں اس کے جواز کا قول منقول ہے ، اور مالکیہ میں ابن عبد اللہ اور حنابلہ کی رائے اس کے مطابق ہے ۔ تاریخ کا یہ واقعہ بھی قابل ذکر ہے کہ مدینہ ہجرت کے بعد آپ نے یہودیوں سے معاہدہ کیا اور نبوت سے قبل کی جانے والی حلف الفضول میں ا پنی شرکت پر نہ صرف اطمینان کا اظہار کیا بلکہ فرمایا کہ اگر آج بھی مجھے اس قسم کے معاہدہ کے لئے بلا یا جائے تو میں اس کے لئے راضی ہوں ، اس قسم کے واقعات ہمیں بتاتے ہیں کہ مصالح کے پیش نظر آج بھی اس قسم کے معاہدے کئے جا سکتے ہیں ۔
تعلقات کی استوای اور مدارات ومواسات میں ہدیہ کے لین دین کی بھی اپنی اہمیت ہے ، اس سے محبت میں اضافہ ہوتا ہے ’’تھادووتحابو‘‘ کہا گیا ہے ، اس سلسلے میں اسلام میں اتنی وسعت ہے کہ ہدایے دئے بھی جا سکتے ہیں اور قبول بھی کئے جا سکتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ملک ایلاء کا ہدیہ قبول کیا اور اس چادر کو زیب تن کیا ، اسی طرح دومۃ الجندل میں خیمہ کا ہدیہ قبول کیا اور اس نے باندی کا ہدیہ دیا تو اسے بھی قبول کر کے اس کی عزت افزائی کی، حسن سلوک ہی کے طور پر اسلام نے اس بات پر زور دیا کہ غیر مسلم مہمانوں کا اکرام بھی کیا جائے ،خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اس بارے میں عمل غیر معمولی تھا ،وہ واقعہ تو تاریخ کا سبھی کو یاد ہے کہ ایک غیر مسلم آپ کے یہاں مہمان ہوا ، آپ نے ضیافت کا غیر معمولی اہتمام فرمایا، کھانا بھی اس نے بھر پور کھایا اور بستر کو گندہ کر دیا ، آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے اسے دھویا ، اسی اثناء میں وہ اپنی بھولی ہوئی تلوار لینے آیا تو بھی آپ نے کچھ نہیں فرمایا اور اسے شرمندگی سے بچالیا ، اس واقعہ سے معلوم ہو تا ہے کہ آپ کو اکرام ضیوف کا کتنا خیال تھا ۔ 
غیر مسلموں کے ساتھ اس قسم کا سلوک انہیں مسلمانوں سے قریب کرے گا، انکی تالیف قلب ہوگی ، جس سے دفع ضرر بھی ہوگا ، اور دین کا قبول کرنابھی ان کے لئے آسان تر ہو جائے گا ، شریعت چاہتی ہے کہ ان مقاصد کے حصول کے لئے آپسی تعلقات کو بڑھا یا جائے اور دنیاوی مفاد اور مال ودولت کے حصول سے بے نیاز ہو کر محض دینی بنیاد وں پر اسے تقویت دی جائے ۔ فقہاء نے ان مقاصد کو شرط کے طور پر ذکر کیا ہے ، لیکن واقعہ یہ ہے کہ مداراۃ و مواساۃ کے قبیل کے ان کاموں کا لازمی نتیجہ وہی ہوگا ، جس کا ذکر اوپر کیا گیا ۔ 
ایک مسئلہ سیاسی شرکت کا بھی ہے ، حکومتیں اب جمہوری انداز میں تشکیل پا رہی ہیں، ان حکومتوں کا مزاج یقینا غیر اسلامی ہے ، چاہے ملوکیت ہو یا جمہوریت، دونوں حکومت الٰہیہ کی فکر اسلامی سے متصادم ہیں ، اور یقینی طور پر وہاں اللہ کی حاکمیت کا تصورہر سطح پر ناپید ہے ، ایسے میں کیا مسلمانوں کے لئے یہ جائز ہو گا کہ وہ اس طاغوتی نظام کے دست وبازوبنیں۔
اس سلسلے میں ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ ہماری نمائندگی جس قدر عوامی اداروں میں بڑھے گی ، امکانات اس بات کے قوی سے قوی تر ہوں گے کہ ہم حکومت میں اپنی باتیں منوا سکیں اور سارا کچھ تو نہیں بہت کچھ منظو رکر والیں ، ہندوستان میں مسلم پرسنل لا کی بقا کی ایک وجہ یہ بھی ہے، نفقہ مطلقہ کی دستوری لڑائی میں ہماری کامیابی کا راز بھی یہی ہے ،پارلیامنٹ میں ہمارے ایسے نمائندے موجود تھے ، جنہوں نے ہماری بھر پور وکالت کی اور باہر میں ہم نے عوامی دباؤ بنا یا اور حکومت کو اس کے آگے گھٹنے ٹیکنے پڑے۔
پس اس معاملہ میں ہمیں قواعد فقہیہ’’ الضرر یزال ، الضرورات تبیح المحظورات ، المشقۃ تجلیب التیسیر‘‘ وغیرہ کو سامنے رکھنا چاہئے اور ہمارے نمائندوں کو استطاعت بھر پوری قوت کے ساتھ ایوان نمائندگا ن میں ان صالح قدروں کی ترویج وبقا کے لئے کوشش کرنی چاہئے جو اسلام کو مطلوب ہیں ، اس سلسلے میں اسلام نے جو یسر کا فلسفہ پیش کیا ہے اور تشدید وتغلیظ سے اجتناب کی تلقین کی ہے اس سے ہماری اس رائے کو تقویت ملتی ہے ۔ نصوص کی حد تک دیکھیں تو حضرت یوسف علیہ السلام کا وزیر خزانہ بننا بلکہ اس کا مطالبہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ غیر مسلم حکومت میں ضرورت کی وجہ سے عہدے بھی قبول کیے جاسکتے ہیں۔ فقہاء نے بعض حالات میں منصب قضا کے قبول کرنے کی بھی اجازت دی ہے تاکہ ظلم وشرک وعدوان سے عوام الناس کو بچایا جا سکے ۔ یہ در اصل اھون البلتین کو قبول کرنے کے مترادف ہے اور بڑے ضرر وشرکے مقابلے چھوٹے ضرر کو قبول کرنے کا فطری اور فقہی عمل ہے ۔ 
مسلمانوں کے اس قسم کے معاملات کی بنیاد نہ توتقیہ ہے اور نہ منافقت ، بلکہ یہ سب اسلام کی ان تعلیمات کا حصہ ہیں جو اکرام واحترام آدمیت کے ذیل میں آتے ہیں اور جن کے بغیر مذہب اور عمرانیت کی گاڑی آگے نہیں بڑھ سکتی۔لیکن ہماری اس تحریر کا مطلب قطعا یہ نہیں ہے کہ جو قومیں مسلمانوں سے متحارب ہیں اور جو لوگ اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہونچانے کا کوئی موقع ضائع نہیں ہونے دینا چاہتے ، ان کے ساتھ بھی یہی سب سلوک کیا جائے ، دنیا کی تاریخ میںہر دور اور ہر مذہب میں ایسے لوگوں کا معاملہ جدا رہا ہے ، جو متحارب رہے ہیں۔
ان آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ غیر مسلم سے تعلقات کی ایک خاص قسم جسے موالاۃ کہتے ہیں وہ جائز نہیںہے، موالاۃ کے مختلف معنی مفسرین نے لکھے ہیں، ان میں ایک معنی یہ بھی ہے مسلمان اپنے اس تعلق میں غیر مسلم کے کفر اور اعمال کفریہ سے راضی نہ ہو ، اس کی وجہ یہ ہے کہ کفر کی تصویب بھی کفر ہے اور کفر سے راضی رہنا بھی کفر کے مترادف ہے۔
ان ابحاث کا حاصل یہ ہے کہ غیر مسلموں کی مدد مسلمانوں کے مقابل کرنا اور ان سے ایسا تعلق قائم کرنا جس سے مسلمانوں کے ملی رازان تک پہونچ جائے اور ملی کاز کے لئے نقصان دہ ہو ، مطلقادرست نہیں ہے ۔ 
لیکن جو محارب نہیںہیں، بچے بوڑھے اور عورتیں ان کو نقصان نہ پہونچایا جائے ۔ یہ انسانیت کے خلاف ہے کہ جو آپ سے نہیں لڑ رہا ہے اور خاموشی سے گوشہ نشیں ہے اس کو قتل کر دیا جائے ، کیونکہ انسان کا خون معصوم ہے اسے دفع ضرر اور رفع شر کے علاوہ نہیں بہایا  جا سکتا __

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...