Powered By Blogger

اتوار, دسمبر 26, 2021

الوداع بپن راوتمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

الوداع بپن راوت
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
 تینوں مسلح افواج کے سر براہ (C.D.S)بپن راوت ۸؍ دسمبر ۲۰۲۱ء کو بارہ بج کر بیس منٹ پر نیل گیری کے جنگل میں ہیلی کاپٹر حادثہ میں جاں بحق ہو گیے، ان کے ساتھ ان کی اہلیہ مدھو لیکا راوت اور بارہ جاں باز فوجی افسران نے بھی وجود سے عدم کی راہ اختیار کرلی، پورا ملک سوگوار ہے، اگلے دن بپن راوت اور ان کی اہلیہ کو ستر توپوں کی سلامی کے بعدایک ہی چتا پر ان کی بیٹیوں نے منہہ میں آگ دے کر آخری رسم ادا کی ، یوں بھی جلنے کے لیے بچا ہی کیا تھا۔
ہندوستان کی تاریخ میں یہ کوئی پہلا فضائی حادثہ نہیں ہے، ۱۹۸۰ء میں اس وقت کے وزیر اعظم اندرا گاندھی کے صاحب زادہ سنجے گاندھی، ۲۰۰۱ء میں سابق مرکزی وزیر مادھوراؤ سندھیا، ۲۰۰۲ء میں پارلیامنٹ کے صدر نشیں (اسپیکر)جی ایم سی بالیوگی، ۲۰۰۴ء میں میگھالیہ کے کابینی وزیر سی سنگما، ۲۰۰۵ء میں ہریانہ کے وزیر توانائی اوپی جندل، اور ۲۰۰۹ء میں آندھرا پردیش کے وزیر اعلیٰ بھی فضائی حادثہ میں موت کی نیند سو چکے ہیں، ان سارے حادثات میں موسم کی خرابی کا بڑا دخل تھا، اس کے قبل ۲۲؍ نومبر ۱۹۶۳ء کو پونچھ میں ہونے والا ہیلی کاپٹر حادثہ سب سے بڑا فوجی حادثہ مانا جاتا رہاہے، جس میں فوج کے چھ بڑے افسران نے اپنی جان گنوائی تھی، اس کے قبل ۱۹۴۲ء میں بھی ایک فضائی حادثے میں لفٹنٹ جنرل اس ام ناگیش اور میجر جنرل کے ایس تِمیا کو بھی اپنی جان گنوانی پڑی تھی۔
لیکن تمل ناڈو کے کنور میں حادثہ کے شکار ایم آئی ۱۷؍ وی-۵، ہیلی کاپٹر کا معاملہ ان سب حادثات سے الگ اس لیے ہے کہ یہ فضائیہ کا سب سے محفوظ ہیلی کاپٹر تھا، یہ خراب موسم میں پرواز اور ہیلی پیڈ کے بغیر بھی زمین پر اتارا جا سکتا تھا، یہ روسی ساخت کا ناقابل تسخیر ہیلی کاپٹر تھا، اتنے محفوظ سفر میں حادثہ کا پیش آجانا اور فوجیوں کا اس طرح جل جانا کہ اس کی شناخت ڈی این اے کے ذریعہ ہو، یہ بتاتا ہے کہ اگر شیشہ پلائی ہوئی دیوار میں بھی کوئی ہوگا تو موت اسے آلے گی اور سکنڈوں کی تاخیر اس میںنہیں ہوگی، جنرل بپن راوت ان کی اہلیہ اور ان کے رفقاء کی موت کا وقت اور جگہ متعین تھا، چنانچہ متعینہ وقت اور جگہ پر ملک الموت نے اپنا کام مکمل کر دیا اور ہندوستان ،فضائیہ کے کئی جاں بازوں سے محرو ہوگیا۔
 جنرل بپن راوت کو وزیر اعظم نریندر مودی نے دو سینئر افسران کو نظر انداز کرکے بری فوج کا سربراہ بنایا تھا، نظر انداز کیے جانے والے افسر میں ایک مسلمان بھی تھا، ملازمت سے سبکدوش ہونے کے قبل مرکزی حکومت نے ایک عہدہ ’’سی ڈی اس‘‘ کا وضع کیااور سبکدوشی کے بعد یکم جنوری ۲۰۲۰ء کو انہیں اس عہدے پر مامور کرکے تینوں بری، بحری اور فضائی افواج کا مشترکہ سربراہ بنا دیاگیا۔حالانکہ رسمی طو پر ہی سہی صدر جمہوریہ تینوں فوج کا سربراہ ہوتا ہے جو’’ سول‘‘ سے ہوتا ہے، اس کی وجہ سے فوج کی بغاوت اور مارشل لا کے لگانے کے امکانات ختم ہوجاتے ہیں، جیسا پڑوسی ملک میں بار بار ہوتا رہا ہے۔بپن راوت کے گذر جانے کے بعد نئے سربراہ کی تلاش جاری ہے۔

بڑی خبر۔کرناٹک میں رات کا کرفیو ۔ نئے سال کی پارٹیوں پرپابندی

بڑی خبر۔کرناٹک میں رات کا کرفیو ۔ نئے سال کی پارٹیوں پرپابندیبنگالورو: ملک میں اومیکرون کے کیسس کے بڑھتے ہوئے کیسس کے پیش نظرکئی ریاستوں میں پابندیاں اوررات کا کرفیو نافذ کیا جارہا ہے۔ اترپردیش، مدھیہ پردیش میں رات کے کرفیوکا اعلان کردیا گیا ہے تازہ طورپراب اس فہرست میں ریاست کرناٹک بھی شامل ہوچکا ہے۔ کرناٹک میں 28 ڈسمبرسے دس دنوں تک رات کا کرفیوعائد کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں آج احکامات جاری کردئیے گئے۔ کرفیو کے اوقات رات دس بجے سے صبح پانچ بجے تک رہیں گے۔ اسی طرح حکومت نے سال نو کی پارٹیوں اورہجوم کے جمع ہونے پرپابندی لگادی ہے۔

کہیں ہم دوسروں کو یہی سب کچھ تو نہیں دے رہے ہیں؟ کامران غنی صبا

کہیں ہم دوسروں کو یہی سب کچھ تو نہیں دے رہے ہیں؟ 
کامران غنی صبا 

یہ بالکل فطری اصول ہے کہ ہم دوسروں کو وہی چیز دیتے ہیں جو ہماری فطرت سے ہم آہنگ ہو. چنانچہ جس کی طبیعت میں فیاضی ہوگی آپ دیکھیں گے کہ وہ غربت میں بھی فیاض ہوگا اور جس کی طبیعت میں بخالت ہوگی وہ دولت مند ہو کر بھی اپنی مٹھی کھولنے کو آمادہ نہیں ہوگا. جس کی طبیعت میں محبت ہوگی وہ نفرت تقسیم نہیں کر سکتا اور جس کی طبیعت میں نفرت ہو اس سے محبت کی توقع فضول ہے. پھر یہ بھی خوب اچھی طرح یاد رکھیے کہ فطرت کے اس اصول میں بھی عمل اور ردعمل ہے. یعنی ہم جو دوسروں کو دیتے ہیں وہی حاصل بھی کرتے ہیں. یعنی محبت تقسیم کرنے والوں کو محبت ملتی ہے، آسانیاں تقسیم کرنے والوں کو آسانیاں. نفرت کرنے والوں کو نفرت اور عداوت کرنے والوں کو بدلے میں عداوت ہی ملتی ہے. جو لوگ ہر وقت دوسروں کا گلہ شکوہ کرتے ہیں، کئی جگہ ان کے بھی گلے شکوے ہو رہے ہوتے ہیں. اسی طرح منفی تنقید کرنے والوں کی بھی تنقید ہی ہوتی ہے.
ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارا ہر عمل ردعمل کا بیج ہے لیکن شرط یہ ہے کہ اس بیج کو خلوص کی مٹی میں بویا جائے. بعض دفعہ ہمارا عمل مصنوعی بھی ہوتا ہے. ہم دوسروں کی تعریف اس لیے کرتے ہیں کہ ہماری بھی تعریف کی جائے، ہم انہیں لوگوں کے کام آتے جن سے ہمیں توقع ہو کہ وہ بھی ہمارے کام آئیں گے. ہم دوسروں سے معاملات اس کی حیثیت کے مطابق کرتے ہیں. یاد رکھیے ہم خود کو تو فریب میں مبتلا کر سکتے ہیں، فطرت کو نہیں. مصنوعی عمل آخر کار وہی نتیجہ دیتا ہے جس نتیجے سے بچنے کے لیے ہم تصنع کا سہارا لیتے ہیں.
بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کچھ لوگ اپنی تعریف سننے کے لیے کچھ اچھے کام کرتے ہیں لیکن انہیں اپنی توقعات کے مطابق تعریف نہیں مل پاتی. آخر کار وہ اپنی پیٹھ خود ہی تھپتھپانے پر مجبور ہوتے ہیں. موقع بے موقع اپنی کارکردگیوں کو خود ہی بیان کرتے ہیں. اس طرح شخصیت بری طرح مجروح ہوتی ہے. اصل تعریف تو یہ ہے کہ لوگ ہمارے غائبانے میں ہمیں اچھے نام سے یاد کرنے پر مجبور ہوں. ایک استاد کی اصل تعریف یہ ہے کہ اس کے طلبہ سکوت نیم شب میں اس کے لیے دعا مانگنے پر مجبور ہوں.
قصہ مختصر یہ کہ ہم اپنے اعمال کے اخروی نتائج پر یقین رکھیں یا نہ رکھیں. دنیا میں بھی ہمیں وہی کچھ ملتا ہے جو ہم دوسروں کو دیتے ہیں. اس اصول کی روشنی میں ہم اپنا محاسبہ کر سکتے ہیں کہ ہمیں دوسروں سے کیا مل رہا ہے. اگر ہمیں دوسروں سے صرف شکایتیں، مایوسیاں اور محرومیاں مل رہی ہیں تو ہمیں غور کرنا چاہیے کہ کہیں ہم بھی دوسروں کو یہی سب کچھ تو نہیں دے رہے ہیں.......؟

ہفتہ, دسمبر 25, 2021

*ملک کوآج مولاناآزاد کی خاص ضرورت*ہندو مسلم اتحاد کے بغیر ہمیں آزادی نہیں مل سکتی ہے،بلکہ اس کے بغیر انسانیت کے ابتدائی اصول بھی اپنے اندر نہیں پیدا کرسکتے ہیں۔

*ملک کوآج مولاناآزاد کی خاص ضرورت*
ہندو مسلم اتحاد کے بغیر ہمیں
  آزادی نہیں مل سکتی ہے،بلکہ اس کے بغیر انسانیت کے ابتدائی اصول بھی اپنے اندر نہیں پیدا کرسکتے ہیں۔
 اگر ایک فرشتہ آسمان کی بدلیوں سے اتر آئے اور قطب مینار پر کھڑے ہوکر یہ اعلان کردے کہ سوراج ۲۴/گھنٹے میں مل سکتا ہے بشرطیکہ ہندوستان ہندو مسلم اتحاد سے دستبردار ہوجائے تو میں سوراج سے دستبردار ہوجاوں گا مگر اس سے دستبردار نہیں ہوں گا،
کیونکہ اگر سوراج ملنے میں تاخیر ہوگی تو یہ بھارت کا نقصان ہوگا،لیکن ہمارااتحاد جاتارہا توعالم انسانیت کا نقصان ہوگا(خطبات آزاد:74)
مذکورہ بالا باتیں مولانا ابوالکلام آزاد نے دہلی کے اندر ۱۹۳۳ء میں انڈین نیشنل کانگریس کے اجلاس میں پیش کی ہے۔اس سے مولانا آزاد کی نگاہ میں ایسی آزادی دراصل غلامی کانام ہے،جو ملک میں رہنے والوں کوبانٹنے کے نام پر ملتی ہے۔یہ ہندو مسلم کے اتحاد کو پارہ کردیتی ہے اوردائمی غلامی کی طرف لوگوں کو ڈھکیل دیتی  ہے۔جواکثریت اور اقلیت میں بانٹ کر نفرت کی ایک بڑی دیوار کھڑی کردیتی ہے، اقلیت کا ملک میں جینا دشوارکردیتی ہے۔جس کا آج خوب سے خوب مشاہدہ بھی ہورہا ہے۔
آج جب کہ ملک آزاد ہوگیا ہے باوجود یہاں کے رہنے والوں میں غلامی اور محکومی کا احساس پیداہوگیا ہے،اس کی واحد وجہ اسی اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کی کوشش ہے جو اس وقت  تیز ہوگئی ہے۔
  یہ خبر جوآج گرم ہےکہ اپنےملک کی ریاست اترا کھنڈ کے ہری دوارمیں دھرم سنسد کا انعقاد کیا گیا ہے، اسمیں مسلمانوں کوکھلے عام  مارنے کاٹنے کی بات کی گئی ہے، اس طرح کی باتیں گزشتہ سات سالوں سے کھلے عام کی جارہی ہے، یہ دراصل اسی اتحاد کوپارہ کرنےکی کوشش اور ملک کو ازسر نو غلام بنانے کی ناپاک سازش ہے۔اس موقع پر دیکھنے والی بات یہ بھی ہے کہ ہم اس کے لئے کیا کچھ کررہے ہیں۔یہ جو زخم لگانے کی بات کرتے ہیں ہم اس پر کون سامرہم رکھنے جاریے ہیں؟
صبح صبح جب انقلاب اخبار ہاتھ میں آیا تو پہلے صفحہ پر ہری دوار والی خبر ہے، تو وہیں افکار ونظریات والے صفحہ پر مولانا ابوالکلام آزاد رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب غبار خاطر کا اقتباس بھی موجودہے۔اس سے مرض اور بیماری دونوں کی موجودگی ہمیں معلوم ہوتی ہے۔واقعی  حسن اجتماع قابل داد ہے۔
 ایڈیٹر انقلاب کو بہت بہت مبارکباد ہے کہ آپ نے بیماری کی صحیح دوا تجویز کی ہے۔
آج ملک کو غلامی سے نکالنے کے لئے انسانیت کی بات ضروری ہے۔یہی مشن مولانا ابوالکلام آزاد کا رہا ہے اوراسی پر علماء کرام یہاں گامزن رہے ہیں۔
حضرت علی میاں رحمۃ اللہ علیہ نے تو اس کےلئے پیام انسانیت کا باضابطہ ایک اسٹیج دیا ہےاوراس کےذریعہ نفرت پھیلانےوالوں کو ملک میں منھ توڑ جواب ملا ہے۔ مولانا علی میاں نے اس ملک کےمسلم باشندگان سے یہ  صاف صاف کہ دیا ہے کہ ملک
میں پیام انسانیت کے بغیر ہمارا کوئی بھی پروگرام کامیاب نہیں ہوسکتا ہے۔
مولانا آزاد نے اپنی تقریر وتحریر کے ذریعہ ملک میں انسانیت کی تحریک چلائی ہے،آپ کی پوری زندگی اورتمام علمی کاوش اس کی شہادت دیتی ہے۔ملک میں دعوت ہی نہیں بلکہ قیادت کیسے کی جاسکتی ہے اس کے لئے عملی نقوش چھوڑے ہیں۔
بالخصوص علماء کرام کو اس جانب متوجہ کرنے کی بھی آپ نے کوشش کی ہے،آپ کے خطوط میں بھی یہ افکار ملتے ہیں۔غبارخاطر،کاروان خیال اور برکات آزاد یہ سب مجموعہ خطوط ہیں۔انمیں غبار خاطر بہت معروف ہے،احمد نگر قلعہ میں آپ نے قید میں رہ کر اپنے افکارکو بذریعہ خط بنام مولانا حبیب الرحمن شیروانی قید کیا ہے۔حکیم اجمل صاحب اس کتاب کے مرتب ہیں۔
۱۹۴۶ء ہی میں آپ نے الہلال نکال کرہندو مسلم اتحاد کی طرف مسلمانان ہند کی توجہ مبذول کی ہے۔ الہلال کا مطالعہ یہ کہتا ہے کہ اسمیں جہاں سماجی ،سیاسی، تاریخی وعلمی مضامین ہیں وہیں اتحاد اورانسانیت کی بات موجود ہے۔
اورآپ کا خاص مشن ملک میں ہندو مسلم اتحادپراسمیں آپ کی خاص نظر ہے۔یہ اجتہادی کام نگاہ بد کا ملک میں شکار ہوا،وہ اسطور پرکہ جب انگریزوں نےاپنی نفرت کی کاشت کو مرجھاتے ہوئے دیکھا ،تواس کو بین کردیا،مگرمولانا آزاد تو صاحب ایمان اور پیدائشی مکی مسلمان تھے وہ کہاں رکنے والے تھے،اور کب خاموش بیٹھ جانے والےتھے،خاموش نہیں ہوئے،
بقول شاعر:
جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں 
ادھر ڈوبے ادھر نکلے ادھر ڈوبے ادھر نکلے۔
"البلاغ "کے نام پر" الہلال" ہی دکھاتےرہے اوراپنے مشن کو چھاپتے رہے۔
(دارالعلوم ندوۃ العلماء کے سلیمانیہ ہاسٹل کی لائبریری میں "الہلال "اور "البلاغ" کے تمام شمارے مجلد موجود ہیں،کوئی خواہش مندہیں تو وہاں سےمستفید ہوسکتے ہیں)
مولانا آزاد کی تقریریں اور تمام تحریریں بھی اسی کا آئینہ دار ہیں۔آپ نے ملک میں قیادت کی مسلمانان ہند کو ایک نئی راہ سجھائی ہے،یہ آپ کااجتہادی کارنامہ ہے۔
اس وقت ملک کو مولانا آزاد کی سخت ضرورت ہے۔مولانا کی فکر ونظر کو اپنانے کی ہمیں شدید ضرورت ہے۔موجودہ نازک حالات سے نکلنے کی یہی راہ ہے،اس  سے موجودہ وقت میں بڑاکام لیا جاسکتا ہے۔
آج اس کی شدید ضرورت ہے کہ مولانا آزاد کی تحریر وتقریر کو عام کیا جائے اور اس سےبڑا کام لیا جائے۔
بڑی خوشی کی بات ہے کہ روزنامہ انقلاب کے ایڈیٹر جناب ایم ودود ساجد صاحب نے مولانا آزاد کی کتاب غبار خاطر سے اس کی ابتدا کردی ہے، اپنے اخبار میں سلسلہ وار اسے شائع کرنا شروع کیا ہے، 
اس کے لئے موصوف کو بہت بہت مبارکباد ہے۔

ہمایوں اقبال ندوی 
جنرل سکریٹری، پورنیہ کمشنری، تنظیم ابنائے ندوۃ ریاست بہار 
رابطہ، 9973722710

پئے تفہیممفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

پئے تفہیم
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
مظاہر حسن، قلمی نام مظہر وسطوی(ولادت ۷؍ دسمبر ۱۹۸۶) بن ماسٹر محمد انظار الحسن حسن پور وسطی مہوا، ویشالی کے رہنے والے ہیں، شعر وسخن کا ذوق دادا، داؤد حسن صاحب (م ۲۶؍ فروری ۲۰۱۸ئ) سے ورثہ میں ملا ہے، ان کے چچا انوار الحسن وسطوی کا شمار ہندوستان کے بڑے ادیب ،قلم کار، تنقید نگار اور اردو ادب کے بڑے خادموں میں ہوتا ہے، مظہر وسطوی قوس صدیقی پھلواری شریف کے شاگرد ہیں، درس تدریس کے ساتھ مشق سخن جاری ہے ، اصلا غزل کے شاعر ہیں، حمد ونعت اور نظم بھی کہہ لیا کرتے ہیں، ان کی شاعری پر ہندی ساہتیہ سمیلن کی جانب سے پروفیسر ثوبان فاروقی ایوارڈ ۲۰۱۸ء میں مل چکا ہے، بڑوں کی حوصلہ افزائی نے شعرو سخن کے میدان میں ان کے حوصلے کو بلندی عطا کی ہے، اور اسی بلند حوصلگی کا ثبوت ان کا یہ شعری مجموعہ’’پئے تفہیم‘‘ ہے۔
 پئے تفہیم کی شعری کائنات ایک حمد، دو نعت، پینسٹھ(۶۵) غزلوں اور سات نظموں پر مشتمل ہے، کتاب کا انتساب ’’نئی تشکیلات کے نمائندہ شاعر استاذ ذی وقار محترم قوس صدیقی کے نام‘‘ ہے، نثری حصہ میں مظہر وسطوی کے حرفِ ابتدا کے ساتھ ڈاکٹر بدری محمدی کا ’’مظہر وسطوی کے ذوق سخن کی بالیدگی‘‘ اور نذر الاسلام نظمی کی ’’پئے تفہیم -میری نظر میں ‘‘ بھی شامل کتاب ہے، ایک سو برانوے (۱۹۲) صفحات کی اس کتاب کے بتیس (۳۲) صفحات اس پر صرف ہوئے ہیں، ڈاکٹر بدر محمدی نے وسیع کینوس میں مظہر وسطوی کی شاعری کا جائزہ لیا ہے اور اس کے در وبست کو پیش کیا ہے ، جس سے قاری مظہر وسطوی کی شاعری سے اپنے کو قریب محسوس کرتا ہے، نذر الاسلام نظمی اچھا لکھتے ہیں، مختصر لکھنے کے عادی ہیں، بہت دنوں سے مضمون نگاری سے اپنا رشتہ توڑ رکھا تھا، مظہر وسطوی کی شاعری نے ان کو لکھنے پر مجبور کر دیا، یہ خود اپنے میں بڑی بات ہے، اس حوالہ سے اہل ادب ان کے شکر گذار ہیں، خواہش ہوتی ہے کہ وہ لکھتے رہیں اور اپنی ادبی ، فنی اور تنقیدی صلاحیتوں کو ضائع ہونے سے بچالیں۔
 اردو ڈائرکٹوریٹ ، محکمہ کابینہ سکریٹریٹ کے جزوی مالی تعاون سے اس کتاب کی طباعت ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی سے ہوئی ہے ، کاغذ ، طباعت، جلد اور سر ورق خوبصورت ہے ، البتہ پروف کی غلطیاں رہ گئی ہیں، نثر میں پروف کی غلطی سے بڑا فرق نہیں پڑتا، لیکن شعری مجموعے میں پروف کی غلطی قافیہ کو تنگ اور شعر کواوزان وبحور سے خارج کرنے کا کام کرتی ہے، اس لیے اس پر توجہ کی خاص ضرورت ہوتی ہے،کتاب ایک سو برانوے (۱۹۲) روپے دے کر بک امپوریم سبزی باغ پٹنہ ، دفتر کاروان ادب حاجی پور اور نور اردو لائبریری حسن پور گنگھٹی ، بکساما ویشالی 844122سے حاصل کی جا سکتی ہے۔
مظہر وسطوی جوان سال ہیں، جوانوں کی ذہنی ترنگ عموما عشق ومحبت ، وارفتگی ، شوقِ فراواں کے گردگھومتی رہتی ہے، داغ اسکول کی طرح کاکل وگیسو اور سودائے قلب میں پنہاں محبت کا تذکرہ اب اس انداز میں نہیں ہوتا، کیوں کہ بقول فیض ’’اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا‘‘، یہ غم روزگار ہمارے دور کے شاعروں کو راتوں کی اختر شماری تک نہیں لے جاتا، وہ محبت کرتا ہے ، لیکن اتنا ٹوٹ کر بھی نہیں کہ مجنوں کی طرح صحرا نوردی پر اتر آئے اور فرہاد کی طرح دو دھ کی نہر نکالنے کی سعی لا حاصل میں اپنی توانائی لگا دے، پئے تفہیم کے شاعر مظہر وسطوی کے یہاں بھی محبت کی روداد ملتی ہے، تخیل کی وادی میں مٹر گشتی کرتے ہوئے وہ بہت کچھ سوچتے ہیں اور اسے شعر میں ڈھالتے رہتے ہیں، ان کے اشعار پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم میر وغالب کی صدی سے بہت دور آکر اپنی صدی میں جی رہے ہیں۔
 شاعر مستقبل کا پیغام بر ہویا نہیں وہ اپنے دور کا پیام بر ہوتا ہے، وہ جس دور میں جیتا ہے اس کی پوری عکاسی اس کی شاعری میں در آتی ہے، اسی کو ادباء عصری حسیت سے تعبیر کرتے ہیں، مظہر وسطوی کی شاعری میں عشق ومحبت کے ساتھ عصری حسیت پر مشتمل اشعار بھی ملتے ہیں، وہ اپنی شاعری میں عدالت کی بے حسی کا رونا روتے ہیں اور گناہ گاروں کو فرشتہ مان لینے پر ماتم کرتے ہیں، جب وہ شہروں کے احوال بتاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ’’ یہاں مظلوم لوگوں کی کراہیں بات کرتی ہیں۔‘‘ وہ کہتے ہیں کہ زمانے کی روش اس قدر خراب ہو گئی ہے کہ ترقی کوتھامے عذاب آرہا ہے، لوگوں نے آج جس کو مسیحا سمجھ لیا وہ تو کبھی انسانیت کا محافظ بھی نہیں رہا ہے ۔
 مظہر وسطی نے عصری حسیت کے ساتھ مذہبی اقدار واطوار کو بھی موضوع سخن بنا یا ہے، وہ کلام اللہ پڑھ کو پھونک دینے سے مدت تک پانی پر اثر رہنے کو شعر کے قالب میں ڈھالتے ہیں، نعرہ صلی علیٰ کو جہاں میں اپنے وجود وبقا کی ضمانت سمجھتے ہیں، ردائے فاطمہ اور رنگ فاطمہ کی بات کرتے ہیں تو تخیلات میں اسلامی افکار موجزن ہوتے ہیں، مذہبی روایات اور تاریخی واقعات کو شعر بند کرنے کے لیے جن الفاظ کا استعمال کرتے ہیں وہ ان کی دینی اور مذہبی شعور کو بتاتا ہے۔
مظہر وسطوی اپنی خودی اور خود داری کی حفاظت کرنے کے بھی قائل ہیں، گو وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ
بزرگوں سے سیکھا ہے طرزِ تمدن 
انا کو سرراہ سنگسار کرنا
لیکن وہ اپنی ’’انا‘‘ کو سنگسار نہیں کرتے وہ اسے اپنی شناخت قرار دیتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ میرا محبوب جو مجھے سزادیتا ہے اس کی وجہ سے میری احساس انا مرنے نہیں پاتی، وہ اسے زندہ رکھنا چاہتے ہیں۔
’’پئے تفہیم‘‘ کے اجراء کی باوقار تقریب مہوا میں منعقد ہوئی تھی، اس موقع سے جو پیغام میں نے بھیجا تھا اس پر اس تبصرہ کا اختتام کرتا ہوں۔ میں نے لکھا تھا کہ 
’’ آپ کی شاعری کو آپ ہی کے ذریعہ بار بار سن چکا ہوں، آپ کی شاعری بھی اچھی ہے اور پڑھنے کا انداز بھی عمدہ ہے، آپ اگر اپنی شاعری کو بے جوڑ سا ختیات کے خبط بے اصول تشکیلیات کے فتنے، ترقی پسندی، جدیدیت اور ما بعد جدیدیت کی گروہ بندی سے بچا سکے تو آپ کی شاعری دلوں تک پہونچے گی، آپ اس سے بڑا کام لے سکیں گے، آپ کے پاس توانائی بھی ہے اور وافر ذوق سفر بھی۔میری نیک دعائیں آپ کے ساتھ ہیں‘‘

مہاراشٹر کے بعد کل سے اترپردیش میں نافذ ہوگا نائٹ کرفیو ، حکومت نے جاری کی نئی گائیڈ لائنس

مہاراشٹر کے بعد کل سے اترپردیش میں نافذ ہوگا نائٹ کرفیو ، حکومت نے جاری کی نئی گائیڈ لائنس

لکھنؤ: 24؍دسمبر (ذرائع) ملک کی مختلف ریاستوں میں کووڈ کے معاملات میں اضافہ کو دیکھتے ہوئے اتر پردیش کی یوگی حکومت نے ہفتہ کو ایک بڑا فیصلہ لیا ہے۔ یوگی حکومت نے 25 دسمبر سے ریاست بھر میں نائٹ کورونا کرفیو نافذ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ رات کا کورونا کرفیو ہر روز رات 11 بجے سے صبح 5 بجے تک لاگو ہوگا۔ ساتھ ہی، کووڈ پروٹوکول کے ساتھ عوامی تقریبات جیسے شادی وغیرہ میں زیادہ سے زیادہ 200 لوگوں کی شرکت کی اجازت دی گئی ہے۔ منتظمین اس بارے میں مقامی انتظامیہ کو آگاہ کریں گے۔ نئی رہنما خطوط کے مطابق، بازاروں میں "ماسک نہیں، تو سامان نہیں' کے پیغام کے ساتھ بازاروں میں تاجروں کو بیدار کریں۔ کوئی دکاندار بغیر ماسک کے کسٹمرس کو سامان نہ دے۔ گلیوں/بازاروں میں ہر ایک کے لیے ماسک لازمی قرار دیا جائے۔ پولیس فورس کو مسلسل گشت کرنا چاہیے۔ پبلک ایڈریس سسٹم کو مزید موثر بنایا جائے۔ ملک کی کسی بھی ریاست یا بیرون ملک سے اتر پردیش کی سرحد پر آنے والے ہر فرد کی ٹریسنگ ٹیسٹنگ کی جانی چاہئے۔ بسوں، ریلوے اور ہوائی اڈوں پر اضافی چوکسی برتی جائے۔ مانیٹرنگ کمیٹیوں نے کورونا مینجمنٹ میں قابل تعریف کام کیا ہے۔

باہر سے آنے والے ہر فرد کا ٹیسٹ کیا جائے گا۔

تیسری لہر کے پیش نظر دیہاتوں اور شہری وارڈوں میں مانیٹرنگ کمیٹیوں کو دوبارہ ایکٹو کریں۔ باہر سے آنے والے ہر فرد کا ٹیسٹ کروائیں۔ ان کی صحت کی مسلسل نگرانی کی جانی چاہیے۔ لوگوں کو ضرورت کے مطابق کورنٹائن میں رکھا جائے۔ اسپتالوں میں داخل کیا جائے۔ کووڈ کی تیسری لہر کے امکان کے پیش نظر، ہم نے ماضی میں منظم تیاری کی ہے۔ جس کا دوبارہ جائزہ لیا جائے۔ ریاست کے تمام سرکاری/نجی طبی اداروں میں دستیاب طبی سہولیات کا باریک بینی سے جائزہ لیا جانا چاہیے۔ صنعتی اکائیوں میں کووڈ ہیلپ ڈیسک اور ڈے کیئر سنٹر کو دوبارہ ایکٹو کریں۔ بتادیں کہ اتر پردیش ٹیسٹنگ اور امیونائزیشن 19 کروڑ 14 لاکھ 94 ہزار سے زیادہ کووڈ ویکسینیشن اور 9 کروڑ 14 لاکھ سے زیادہ ٹیسٹ کروا کر ملک میں پہلے نمبر پر ہے۔

12 کروڑ 41 لاکھ افراد کو ٹیکے لگائے گئے۔

یہاں 6 کروڑ 73 لاکھ 17 ہزار سے زیادہ لوگوں کو ویکسین کی دونوں خوراکیں دے کر کووڈ کا حفاظتی احاطہ فراہم کیا گیا ہے۔ جبکہ 12 کروڑ 41 لاکھ افراد کو ویکسین کی پہلی خوراک مل چکی ہے۔ اس طرح، ریاست کی کل آبادی میں سے جو ویکسینیشن کے لیے اہل ہیں، 84.23 فیصد نے پہلے اور 45.66 فیصد لوگوں کو حاصل کیا ہے۔ ویکسینیشن کو تیز کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں تمام ضروری کوششیں کی جائیں۔

جمعہ, دسمبر 24, 2021

صاحب دل، قطب دوراں، استاذ الاساتذہ، *جناب الحاج مولوی محمد اسداللہ صاحب نوراللہ مرقدہ*

صاحب دل، قطب دوراں، استاذ الاساتذہ، 
*جناب الحاج مولوی محمد اسداللہ صاحب نوراللہ مرقدہ*
 (سرزمینِ چہونٹیا ضلع جامتاڑا جھارکھنڈ کی عظيم الشان اور قبلہ نما ہستی)

*راقم الحروف ✒جمشيد جوھر*

سال گزشتہ ایک صاحب کی تدفین میں مجھے اپنے گاٶں چہونٹیا کے پرانے قبرستان میں  شریک ہونے کا موقع ملا۔
تدفین کے عمل سے فارغ ہوا تو دفعتًا دل میں حاجی اسداللّٰہ صاحب نوراللّٰہ مرقدہٗ کے مزارِ مبارک کی زیارت کا شوق کچوکے لگانے لگا
 مگر مسٸلہ یہ تھا کہ آپؒ کی آرام گاہ تک لے جاۓ کون؟
چونکہ آپؒ کے گذرے ہوۓ اک زمانہ گذر چکا تھا
اور جب آپؒ نے پردہ فرمایا تھا تو میں مدرسہ اصلاح المسلمین سرکار ڈیہ دھنباد میں زیر تعلیم تھا۔
اس لۓ میری ناواقفیت کوٸی تعجب خیز نہ تھی۔
ابھی میں اسی اُدھیڑ بُن میں تھا کہ میرے سامنے صغیر بھاٸی آکھڑے ہوۓ
 علیک سلیک کے بعد میں نے اپنی معروضات ان کے سامنے رکھیں۔
بس انھوں نے جھٹ میرا ہاتھ تھاما اور بڑی سُرعت کے ساتھ رہبری کرتے ہوۓ ٹھیک حاجی صاحب کی قبر کے سرہانے لاکھڑا کردیا۔
السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ
عالمِ بےخودی میں سلام کے یہ الفاظ مجھ سے ادا ہوتے چلے گۓ۔

*میری تربت پہ وہ آگئے*
*آج جوھر! یہ کیا ہوگیا*

اب جن کیفیات کامشاہدہ  اس گنہگار نے کیا وہ بیان سے باہر ہے
۔قبر میں ایسی روحانیت دیکھنے کو کہاں ملتی ہے ؟
واللّٰہ
قبر کم اور گلزار زیادہ لگ رہی تھی
اس پر مستزاد یہ کہ
قبر مبارک کے ٹھیک بیچوں بیچ شاداب لہلہاتے ہوۓ تین خودرو تناور درخت {١شیشم،٢نیم،٣ٹھنکی} اُگ آۓ تھے۔ 
یہ سَدابَہار روح پرور منظر دیکھا تو بے ساختہ لبوں پر مرزا اسداللّٰہ خان غالب دھلوی کا شعر مچل گیا
*سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہوگٸیں*
*خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہوگٸیں*
ان درختوں کے برگ وبار سے مزار کے اوپر ایک گنبد نما چھتری کا گماں ہوتا تھا
میں نے ہمیشہ حاجی صاحبؒ کی زندگی میں دھوپ سےبچاٶ کے لۓ ہاتھ میں ایک عدد چھتری ضرور دیکھی تھی
جیسے چھتری سے یک گونا تعلق سا ہوگیا ہو 
کیا بعید ہےاسی واسطے قدرت نے بعد وفات کے آپ کی خاطر داری کا خیال کرتے ہوئے   دھوپ۔ گرمی۔ برسات سے تحفظ کے پیش نظر قدرتی چھتری کا انتظام کردیا ہو۔
مرورِ ایّام کے سبب قبر کی سرحدیں خستہ ہوچکی تھیں تاہم بہت حد تک محفوظ تھیں
کتبہ بغور دیکھا گیا تو حسب ذیل نتیجہ سامنے آیا 
  تاریخ وفات۔٢٩/ صفرالمظفر/ سنہ١٤٠٥ھجری
مطابق ۔3/ اکتوبر/ سنہ1984عیسوی 
بروز سوموار
 بوقت ١٠ بجے دن۔
میں فاتحہ پڑھ کر قبر کی بانڈری کی دیوار پکڑ کر انتہائی نیازمندانہ انداز میں کھڑا ہوگیا۔
صغیر بھاٸی حاجی صاحبؒ کے کارنامے گناتے رہے ۔
اور میں جذباتی ہوتا چلاگیا
میرے سرکی آنکھیں قبر کی مٹی دیکھ رہی تھیں 
اور دل کی آ نکھ کوٸی اور ہی شۓ کو تلاش کررہی تھی
بقول میر تقی میر کے
*آنکھیں تو کہیں تھیں، دلِ غم دیدہ کہیں تھا* 
فضا روح کو معطّر کررہی تھی
کسی جانب سے ہوا کا ایک جھونکا آیا اور
مجھے سرشار کرگیا۔
معاً
 غنودگی سی محسوس ہونے لگی اور نظر کے سامنے جھلملاتا ہوا اک ہیولا رقص کرنے لگا۔۔۔۔۔۔
لامبا قد ۔چھرہرا بدن۔گندُمی رنگ۔کلی دار گھٹنوں کے نیچے تک جھولتا بالکل سفید قمیص۔چارخانے کی تہبند۔سرپہ دوپلّی ٹوپی۔آنکھوں پہ لٹکتاہوا موٹے گلاس والا عینک۔شانے پر عربی رومال۔ پیرانہ سالی کے سبب جُھرّیوں کے باوجود نورانی چہرہ۔
پیشانی پر سِیمَاھُم فِی وُجُوھِھِم مِن اَثَرِ السُّجُود کی زندہ تفسیر۔ ایک ہاتھ میں چھتری دوسرے میں ریڈیم کے موٹے موٹے دانے والی تسبیح تھامے ہوۓ حاجی صاحبؒ اپنے دولت خانے {جو بظاہر فقير کی کٹیا لگتاتھا} سے خراما خراما چلے آرہے ہیں
*میرا مرشد ، میرا راہبر آگیا*
*بے خبر! دیکھ لے باخبر آگیا*
 جوں ہی مدرسہ کی حدود میں داخل ہوۓ 
طلبا ٕ کی جانب سے السلام السلام کا شور بلند ہونے لگا 
گویا اس روایتی سلام میں محض سلام ہی نہیں شدت کا اشتیاق بھی جیسے چھپا ہوا ہو۔
اور ہو بھی کیوں نہیں؟ آپؒ جو واقعی ایسے ہی طلبا پر  شفیق و مہربان رہتے تھے۔
یہی وجہ تھی کہ طلبا میں آپؒ حد درجہ مقبول تھے۔
 کیونکہ یہاں ضَرَبَ  یَضربُ کی گردان تھی ہی نہیں ۔
میں اس وقت ناظرہ خوان تھا
 اور حاجی صاحبؒ ابتدائی درجے ہی کے استاد تھے 
حالانکہ اس درجہ میں اور بھی اساتذہ تھے
مگر پتہ نہیں کیوں  سارے لڑکے اٹھ کے حاجی صاحبؒ ہی کے پاس سبق سنانے پہنچ جاتے تھے
حتی کہ جوبچے آپ کی آمد سے قبل کسی اور استاد کے پاس پہنچ چکے ہوتے
اگر انھیں بھی معلوم ہوتا کہ حاجی صاحبؒ آچکے ہیں
 تو سابق استاد کو چھوڑ کر بھاگ لیتے تھے
 اور یوں آپؒ کے پاس اک بھیڑ جمع ہوجاتی
 یہ منظر دیکھ کر تمام اساتذہ  ہنس پڑتے 
حاجی صاحبؒ کا اک تکیہ کلام اب تک میرے حافظہ میں محفوظ ہے کہ جب ہر بچہ سبق پوچھنے لگتا تو تنگ آکر اپنی مادری زبان( کھورٹھا) میں فرماتے
”  ناٸی سُوجھے ہو؟“
اتنے ہی پر بس کرتے
اور ان کا غصہ فرو ہوجاتا
 چھڑی پکڑنے کی نوبت ہی نہیں آتی ۔
اللّٰہ اکبر 
*اس سادگی پہ کون نہ مرجاۓ اے خدا؟*
*لڑتے ہیں مگر ہاتھ میں تلوار نہیں ہے*
اس زمانے میں مدرسہ انوارلعلوم چہونٹیا (جس کا قیام سنہ 1962عیسوی میں  ہوا )کی ایک ہی  عمارت تھی آفس۔ کلاس روم ۔اقامہ سب وہی تھی
بچے  صحن مدرسہ میں  آم کے درخت کے ساۓ میں پڑھتے تھے
 اس زمانے میں چہاردیواری بھی نہیں تھی
اب تو ماشإاللہ مدرسہ ھٰذا ترقی یافتہ نہ سہی مگر ترقی پزیر ضرور  ہے
مدرسہ کا جغرافیہ اور محل وقوع  بھی دیدہ زیب  ہے
یہ ایک مسطح سبزہ زار پہاڑی سلسلے کے دامن میں واقع ہے
اس کاصدر دروازہ پہاڑی کو کاٹ کر بنایا گیاہے
یہ پہاڑی سلسلہ شرق و غرب تک پھیلا ہواہے
مدرسہ انوار العلوم وہ مادر علمی ہے جس کے کوکھ سے بڑے بڑے فضلإ اور فن کار پیدا ہوۓ۔
مدرسہ ھذا کے بانیان میں دو خوش نصیب اور مخلص حجاج کا ذکر ملتا ہے 
ایک حاجی پینتو صاحب مرحوم سے موسوم ہیں 
دوسرے  حضرت حاجی اسداللّٰہ صاحبؒ ہیں
جس ماحول میں مدرسہ کا قیام عمل میں آیا
وہ بڑا پر فتن دور تھا
ایسے میں انوار العلوم جیسے ادارہ کا قیام 
 اک بڑا کارنامہ تھا 
حاجی صاحبؒ جہاں اک سچے علم دوست اور شریعت و سنت کے شیداٸی کےطور پر جانے جاتے تھے وہیں سماجی اور معاشرتی کا موں میں بھی خوب بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے
آپؒ کے بارے میں یہ بھی مشہور ہے کہ گاٶں سے منسوب کسی قانونی چارہ جوٸی میں حُکّام کے نزدیک آپؒ ہی جواب دہ ہوتے تھے
یعنی معاملہ کسی کا بھی ہوتا تھانیدار آپ ہی سے رجوع کرتا تھا
اور یوں معاملہ رفع دفع ہوجاتا تھا
اس سے پتہ چلا آپؒ علاقہ کا اک با اثر اور ذمہ دار شخص تھے
آپؒ نرے زاہدِ خشک انسان  نہیں تھے
بلکہ ہرایک جہت پہ یکساں نظر رکھتے تھے
اس طرح آپ کی ذات دنیا والوں  کے لۓ مشعل راہ تھی
 چنانچہ آپ کے متعلق مجھے  معتبر ذرائع سے خبر پہونچی
 کہ آپ نراین پور ہاٸی اسکول  کا بھی سنگ بنیاد رکھنے میں شامل رہے 
اس عمل میں آپ کے ساتھ ہیڈ ماسٹر  نند کشور جی اور دوسرے لوگ بھی تھے
بقول کلیم عاجز کے
*اپنا تو کام ہے کہ جلاتے پھرو چراغ* 
*رستے میں دوست یا کسی دشمن کا گھر ملے*
نراین پور دراصل غیر منقسم بہار کا اک چھوٹا سا قصبہ ہے اور بلاک بھی
اس زمانے میں دُمکا ضلع کے تحت آتا تھا
 اور اب جامتاڑا جھارکھنڈ کے میں آتا ہے
یہ وہ مصر ہے جہاں جانوروں کا بازار بھی لگتا ہے
اور دیگر اشیاۓ خوردونوش کے سامان بھی ملتے ہیں 
اب تو ماشإاللہ یہاں اک عالیشان مسجد بھی ہے
اس مسجد کی خصوصيت یہ ہے کہ اس میں کٸی مسلک کے لوگ ایک ساتھ نماز جمعہ ادا کرتے ہیں
واقعی جمعہ کے روز یہاں  فرزندان توحید کا اک حسین سنگم نظر آتا ہے
یہ منظر بھی دیدنی ہوتاہے
نراین پور  چہونٹیا سے ٨ /کیلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے
اسی طرح آپؒ کے بارے میں آتا ہے کہ گوکھلا (جوہمارا پوسٹ آفس ہے) مڈل اسکول  کے سرکاری ٹیچر بھی تھے
اور تو اور آپؒ چہونٹیا بستی کے پہلے پردھان بھی رہ چکے ہیں 
نیز یہ بھی مشہور ہے
 کہ اللّٰہ نے آپؒ کو گاٶں کے پہلے جن وترن پرنالی کے ڈیلر کے منصب سے بھی نوازا تھا
شاید اسی کو دین و دنیا کی بھلاٸی کا نصیب ہونا کہتے ہیں
 جو حضرت حاجی صاحبؒ کو اللہ تعالی نے وافر مقدار میں عطا فرمایا تھا۔   
آپ باضابطہ عالم تھے یا نہیں ؟
یہ تو میں نہیں بتاسکتا
 تاہم یہ بتانے میں کوٸی عار نہیں کہ عالِم گَر ضرور تھے
البتہ یہ محقَّق ہے کہ آپؒ کی تعلیم  اسکول لاٸن سے مڈل تک تھی
حاجی صاحبؒ مدرسہ انوارالعلوم چہونٹیا کے بانی ہونے کے ساتھ ساتھ تاعمر مدرّس بھی رہے
 کہا جاتا ہے یہ ادارہ اس وقت قاٸم ہوا جب علاقہ میں ہر جگہ جہالت بدعات خرافات  رسوم اور اوھام پرستی عام تھی 
یہ بات تو زبان زدِ خاص و عام ہے کہ علاقہ میں سالانہ اک فقير آتا تھا اور وہ تمام گھروں کی چُھریوں پرایک بار دم کرکے چلا جاتا تھا 
ُان ہی چُھریوں سے سال بھر جانور حلال ہوتے تھے
استغفراللہ 
کیسی جہالت تھی۔
گویا اب بسم اللّٰہ سے بے نیاز ہوگۓ
اب میں اپنا دیکھاہوا واقعہ پیش کرتاہوں 
 یہ بات ہمارے یہاں بالکل عام تھی کہ لوگ لُنگی بنیاین میں دھڑلے سے نماز پڑھ لیتے تھے
اور کچھ سادہ لوح بناٸن کی جگہ انگوچھا {گمچھا}ہی سے کام چلا لیتے تھے
یعنی انگوچھا ہی کُرتا بھی ہوتا اور ٹوپی بھی
یہ حال تھا علاقہ کا
 ایسے میں "انوار العلوم" حاجی صاحبؒ کی کسی کرامت سے کم نہیں تھا
حاجی صاحبؒ اک مرجع خلاٸق صفت انسان تھے آپؒ کی ہستی قبلا نما تھی 
وجہ اس کی یہ تھی کہ آپؒ اک صاف مخلص اور سادہ آدمی تھے آپؒ کو تفرقہ بازی سے سخت نفرت تھی
 اسی لۓ بلاکسی تفریق ہرمکتبِ فکر کے لوگ آپؒ سے خوش تھے۔
اس زمانے میں بالاتفاق امام عیدین اور جمعہ آپؒ ہی ہوا کرتے تھے
آپؒ کا بیان بڑا پرسوز ہوا کرتاتھا
خورد نوازی کا اک واقعہ عرض کرتا چلوں جو متعدّد بارخود میرے ساتھ پیش آیا
وہ یہ کہ جب حاجی صاحبؒ جمعہ میں خطبہ سے قبل بیان فرماتے
 اور قرآن کی کوٸی آیت تلاوت فرماتے
 تو وہ میری طرف اشارہ کرکے فرماتے کہ پوچھ لو یہاں حافظ صاحب بیٹھے ہوۓ ہیں
قرآن کی آیت ہے کہ نہیں؟
میں عمومًا دوسری صف میں سامنے بیٹھا ہوتا 
اللہ اکبر کبیرا 
کیسی شان تھی انؒ میں
 جبکہ میں تو انؒ ہی کے علم  سے کشید کیا ہوا اک طفل مکتب تھا۔
اس زمانے میں حافظ بھی تو خال خال ہی ہوتے تھے 
حاجی صاحب کے استدلال سے لوگ میری طرف رشک آمیز نظروں سے دیکھنے لگتے
 اور مجھے محسوس ہوتا جیسے میں کوٸٕی آسمانی مخلوق ہوں
جو ابھی ابھی زمین پہ اترا ہوں
 عمر ہی کیاتھی یہی دس بارہ سال کے قریب۔
میں نے بارہا دیکھا انوارالعلوم کا پڑھاہوا جب کوٸی سینٸر طالب علم باہر سے
چھٹیوں میں گھر آکر مدرسہ ھذا کے اساتذہ سے بغرض ملاقات رخ کرتا
 تو جب حاجی صاحبؒ سے ملتا
 تو لگتا اُن ہی کا حقیقی بیٹا ہو
ہم لوگوں  کی طرف سے توجہ ہٹاکر اسی سے ہمہ تن گوش ہوجاتے
اور ہم لوگ سمجھتے لو بھٸی آج کا سبق گول ہوگیا
*اُٹھٸے کہ اب تو لذت خواب سحر گٸی۔۔۔۔*
اللّٰہ اکبر کیسا اونچا اخلاق تھا حضرتِ موصوفؒ کے اندر۔
حضرت حاجی صاحبؒ بڑے کھلے دل کے آدمی تھے۔
حاجی صاحبؒ کی کل چھ(٦) اولادیں تھی 
تین بیٹے اور تین بیٹیاں
بیٹے اس طرح ہیں
پہلے عبدالطیف صاحب جو پردھان اور پوسٹ مین بھی تھے
دوسرے عبدالرقیبصاحب جو پیداٸشی گونگے تھے 
دونوں مرحوم ہوچکے ہیں
 تیسرے اسلام صاحب ہیں جو الحمدللّٰہ ابھی حیات ہیں 
اور حاجی صاحب کی آخری نشانی ہیں
جن کا مکان گاٶں کے سب سے پرانے بزرگ ۔معمّر  اور بوڑهے برگد کے سامنے ہے ۔
اور بیٹیاں اس طرح ہیں
آمنہ بی بی۔
سیمون بی بی 
طیمون بی بی۔
یہ سب کے سب اللہ کو پیاری ہوچکی ہیں 
اللہ تعالی سب کو جنت نصیب کرے آمین
محترم ناظرین! 
آپ 
حضرت حاجی صاحب جیسے قدآور ہستی کی روداد پڑھ کر یہ محسوس کر رہے ہوں گے کہ آپ کا مکان بھی کو ٸی محل نما ہوگا
مگر نہیں ایسا کچھ نہیں ہے
بلکہ اک کھپڑیل ہے 
اسی کاخِ فقیری میں آپ نے پوری زندگی گذاردی
گویا زبانِ حال سےیہ شکستہ مکان بتا رہاہے
*دنیا میں ہوں، دنیا کا طلبگار نہیں ہوں*
*بازار سے گذرا ہوں خریدار نہیں ہوں* 

چلۓ محترم! مغرب کی اذان ہوا چاہتی ہے
 صغیر بھاٸی کے تخاطب نے فکر کے لامتناہی سلسلے کو ایک جھٹکے میں جدا کردیا ۔

اوووووووووووہ ۔۔۔۔۔۔۔ میرے اللہ 
بے ساختہ زبان سے اک سرد آہ نکل گٸی 
سچ کہاہے کہنے والے نے
*ایسے ویسے کیسے کیسے ہوگٸے*
*کیسے کیسے ایسے ویسے ہوگٸے*

جھلملاتے ہوۓ جگنو جو استادِ گرامی کی یاد میں  پلکوں پہ جل اٹھے تھے، بڑی مشکل سے بجھاۓ،
الوداعی سلام کیا اور ہم قبرستان سے باہر نکل آۓ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔😭۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...