Powered By Blogger

بدھ, فروری 23, 2022

داخل ہوجاؤاسلام میں پورے*ارریہ ضلع کی مسلم آبادی میں ایک چیز نئی نظر آرہی ہےجو سراسرجہالت پر مبنی ہے۔ افسوس تو اس بات پربھی ہے کہ یہ جہالت پڑھےلکھےلوگوں سے ہی سرزد ہورہی ہے

*داخل ہوجاؤاسلام میں پورے*
ارریہ ضلع کی مسلم آبادی میں ایک چیز نئی نظر آرہی ہےجو سراسرجہالت پر مبنی ہے۔ افسوس تو اس بات پربھی ہے کہ یہ جہالت پڑھےلکھےلوگوں سے ہی سرزد ہورہی ہے۔انٹلیکچول فیملی کےکچھ لوگوں نے اپنے بچوں کے لیے سال گرہ کے نام پرایک نئی تقریب کا اضافہ کرلیا ہے،دھوم دھام سےاس پروگرام کومناتے ہیں اور مبارکبادی کا گانا بھی اسمیں گاتے ہیں۔
ایک صاحب نے باضابطہ اپنے فیسبک آئی ڈی پرسالگرہ کے پروگرام کو شیئربھی کیا ہے۔دوستوں سے داد ودہش کے طالب بھی ہوئے ہیں، ایسا محسوس ہورہا ہے کہ موصوف نے ایک بڑاکارنامہ انجام دیا ہے،  اورقوم وملت پر احسان عظیم کیا ہے۔اسی لیےبڑے شوق سے اس بے بنیاد پروگرام کو پیش کررہے ہیں، اپنے لاڈلے کے سر پر ایک ہاتھ اونچی کیپ ڈالے ہوئے ہیں،سامنے ایک لمبی چوڑی کتاب جیسی چیز رکھی ہوئی ہے،ایسالگ رہا کہ ننھےمیاں ختم بخاری کرنے جارہے ہیں ،پھرغور سے  ہاتھ کی طرف نظر گئی ہےتو قلم کی جگہ ہاتھ میں ایک چھری ہے ،سامنے کتاب جگہ بخاری شریف نہیں ہے بلکہ کیک رکھا ہوا ہے، میاں بیدردی سےکاٹے جارہے ہیں،"بازو میں موم بتی بھی روشن کی گئی ہے۔ہیپی برتھ ڈے ٹو یو "موجود لوگ یہ ورد زورزورسےکررہے ہیں۔"نعوذ بالله من ذالك "
یہ کونسی تقریب ہے؟کم از کم ہمارے علاقے کی مسلم آبادی اس سے ناواقف رہی ہےاور نہ یہاں اس کا کوئی رواج رہا ہے۔افسوس کی بات ہے کہ خود کو تعلیم یافتہ کہنے والے لوگ اس صریح جہالت وبدعت کا مرتکب ہورہے ہیں۔یہ غیر شرعی عمل جس کی سنت وشریعت میں کوئی سند نہیں ہے اس کی تشہیر کا ذریعہ بھی بن رہے ہیں ۔یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ غیروں کا طریقہ ہے،مغربی ثقافت کی دین ہے،خاص دھرم کی پہچان ہے،اسے اپنارہے ہیں اور اپنے پیاروں کو اس کی تربیت دے رہے ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کچھ لوگ یہودیت چھوڑ کر مذہب اسلام میں داخل ہوئے،احکام اسلام کے ساتھ وہ تورات کے چند احکام کی بھی رعایت کرنا چاہتے تھے، بطور مثال سنیچر کے دن کی تعظیم وتکریم، اونٹ کے گوشت ودودھ کو حرام ماننا اور تورات کی تلاوت کرنا وغیرہ چنانچہ اس پر قرآن کریم کی یہ آیت نازل ہوئی کہ:اے ایمان والو داخل ہوجاؤ اسلام میں پورے اور مت چلو قدموں پر شیطان کے بیشک وہ تمہارا صریح دشمن ہے،(سورہ بقرہ:208)
یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ کے اس حکم کے بعد اس کی اگر کوئی مخالفت کرتا ہے تو وہ عذاب خداوندی کو دعوت دے رہا ہے۔
آج ملک میں جہاں اپنی بچیوں کو ہم مکمل حجاب میں داخل ہونے کی بات کہتے ہیں وہیں ہمیں پہلے پورے کے پورے اسلام میں داخل ہونے کی ضرورت ہے۔آج ہم عدالت کو اور حکومت کو اپنی بات سمجھانے کے بھی قابل نہیں رہے ہیں، وجہ صاف یہی ہے کہ ہم نے غیروں کا طریقہ بھی اپنی زندگی میں اپنا رکھا ہے اور معاملہ گڈ مڈ سا ہوگیا ہے۔
دھیرے دھیرے ہم اپنی شناخت اور پہچان سے بھی ہاتھ دھوتے جارہے ہیں، شاید یہی وجہ ہے کہ خدا ہمیں بچائے کہیں اس عذاب کے شکار تو نہیں ہوگئے ہیں کہ ہم پر اب زبردستی کی جارہی ہے اور ہماری شناخت کو ختم کرنے کی منظم کوشش شروع ہوگئی ہے۔ اقبال علیہ الرحمہ نے یہی بات کتنی خوبصورت انداز میں ہم تک پہونچادی ہے:
پانی پانی کرگئی مجھکو قلندر کی یہ بات 
تو جھکا جب غیر کے آگے نہ تن تیرا نہ من۔
ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ 
رابطہ، 9973722719

رواداری مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

رواداری 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
جس ملک میں مختلف مذاہب ، تہذیب وثقافت اور کلچر کے لوگ بستے ہوں ، وہاں دوسرے مذہب کے ماننے والوں کے درمیان بقاء باہم کے اصول کے تحت ایک دوسرے کا اکرام واحترام ضروری ہے، مسلمان اس رواداری میں کہاں تک جا سکتا ہے اور کس قدر اسے برت سکتا ہے، یہ وہ سوال ہے جو ملک میں عدم رواداری کے بڑھتے ماحول میں لوگوں کے ذہنوں میں پیدا ہوتا ہے، اس سوال کے جواب سے نا واقفیت کی بنیاد پر سوشل میڈیا ، ٹی وی اوردوسرے ذرائع ابلاغ پر غیر ضروری بحثیں سامعین، ناظرین اور قارئین کے ذہن ودماغ کو زہر آلود کرنے کا کام کر رہی ہیں، اس آلودگی سے محفوظ رکھنے کی یہی صورت ہے کہ رواداری کے بارے میں واضح اور صاف موقف کا علم لوگوں کو ہو اور غیر ضروری باتوں سے ذہن ودماغ صاف رہے۔
 اسلام میں رواداری کا جو مفہوم ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ غیر مسلموں کے ساتھ حسن سلوک کیاجائے، خندہ پیشانی سے ملا جائے، ان کے انصاف کے تقاضوں کو ملحوظ رکھا جائے، وہ ضرورت مندہوں تو ان کی مالی مدد بھی کی جائے اور صدقات نافلہ اور عطیات کی رقومات سے ان کی ضرورتوں کی تکمیل کی جائے ، کسی کو حقیر سمجھنا اور حقارت کی نظر سے دیکھنا اکرام انسانیت کے خلاف ہے، اس لیے معاملہ تحقیر کا نہ کیا جائے اور نہ کسی غیر مذہب کا مذاق اڑایا جائے،یہ احتیاط مردوں کے سلسلے میں بھی مطلوب ہے، اور عورتوں کے سلسلے میں بھی ، تاکہ یہ آپسی مذاق جنگ وجدال کا پیش خیمہ نہ بن جائے، معاملات کی صفائی بھی ہر کس وناکس کے ساتھ رکھا جائے ، دھوکہ دینا، ہر حال میں ہر کسی کے ساتھ قابل مذمت ہے اور اسے اسلام نے پسند نہیں کیا ہے، البتہ حالت جنگ میں اس قسم کے حرکات کی اجازت ہے، جس سے فریق مخالف دھوکہ کھا جائے، دھوکہ دینا اور چیز ہے اور کسی عمل کے نتیجے میں دھوکا کھانا بالکل دوسری چیز۔
 اسی لیے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو دھوکہ دیتا ہے وہ ہم میں سے نہیں ہے، ایسے تمام قوانین کا پاس ولحاظ بھی ضروری ہے، جو شریعت کے بنیادی احکام ومعتقدات سے متصادم نہیں ہیں، اگر کسی قسم کا معاہدہ کیا گیا ہے، زبانی یا تحریری وعدہ کیا گیا ہے تو اس کا خیال رکھنا چاہیے، کیونکہ ہمیں معاہدوں کا پاس ولحاظ رکھنے کو کہا گیاہے ، جن شرائط پر صلح ہوئی ہے، اس سے مُکر جانا انتہائی قسم کی بد دیانتی ہے، اسی طرح رواداری کا تقاضہ یہ بھی ہے کہ ان تمام حرکات وسکنات سے گریز کیا جائے، جس سے نفرت کا ماحول قائم ہوتا ہے اور قتل وغارت گری کو فروغ ملتا ہے، اس ضمن میں تقریر وتحریر سبھی کچھ شامل ہے، کوئی ایسی بات نہیں کہی جائے جس سے فرقہ پرستی کی آگ بھڑکے اور کوئی ایسا کام نہ کیا جائے، جو فتنہ وفساد کا پیش خیمہ ثابت ہو، غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے آپسی میل جول کو بڑھایا جائے اور اپنے پروگراموں میں تقریبات میں دوسرے مذاہب والوں کو بھی مدعو کیاجائے، تاکہ میڈیا کے ذریعہ پھیلا ئی جانے والی غلط فہمیوں کا ازالہ کیا جا سکے، افواہوں پر کان نہ دھرا جائے، اور خواہ مخواہ کی بد گمانی دلوں میں نہ پالی جائے، جلسے جلوس میں بھی نفرت انگیز نعروں سے ہر ممکن بچا جائے، اشتعال انگیزی نہ کی جائے، دوکانوں میں توڑ پھوڑ ، گاڑیوں کو جلانا وغیرہ بھی امن عامہ کے لیے خطرہ ہے، اس لیے ایسی نوبت نہ آنے دی جائے، اور ہر ممکن اس سے بچاجائے، دیکھا یہ جا رہا ہے کہ جلوس میں دوسرے مذاہب کے لوگ گھس جاتے ہیں، مسلمان اپنی وضع قطع چھوڑ چکا ہے، اس لیے پتہ نہیں چلتا کہ جلوس میں شریک لوگوں میں کتنے فی صد مسلمان ہیں اور کتنے دوسرے ، پھر یہ دوسرے لوگ جو اسی کام کے لیے جلوس میں گھس جاتے ہیں، امن وامان کو تباہ کرنے والی حرکتیں کرکے جلوس سے نکل جاتے ہیں، بدنام بھی مسلمان ہوتا ہے اور نقصان بھی مسلمانوں کا ہوتا ہے ۔
رواداری کے باب میں سب سے اہم یہ بات ہے کہ دوسرے مذاہب کے پیشوا اور معبودوں تک کو برا بھلا نہ کہا جائے، کیوں کہ سب سے زیادہ اشتعال اسی عمل سے پیدا ہوتا ہے اور اس کا الٹا اثر یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ ہمارے اللہ ورسول کو برا بھلا کہنے لگتے ہیں گویا ہمارا عمل اللہ ورسول کی توہین کا باعث بنتاہے ، کسی کو بتانا اور سمجھانا بھی ہو تو نرم رویہ اختیار کیا جائے، جارحانہ انداز سے بچا جائے اور حکمت سے کام لیا جائے، حکمت مؤمن کی گم شدہ پونجی ہے، جہاں بھی ملے اسے قبول کر لینا چاہیے، لے لینا چاہیے۔ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ رب العزت نے اپنے وقت کے سب سے بُرے انسان کے پاس اپنے وقت کے سب سے اچھے انسان حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہما السلام کو بھیجا تو نرمی سے بات کرنے کا حکم دیا ۔
 لیکن اس رواداری کا مطلب قطعا یہ نہیں ہے کہ ایسے نعرے لگا ئے جائیں جو کسی خاص مذہب کے لیے مخصوص اور ان کا شعار ہیں، چاہے لغوی طور پر اس کے معنی کچھ بھی ہوں، عرف اور اصطلاح میں اس کا استعمال مشرکانہ اعمال کے طور پرکیا جاتا ہے،تو اس سے ہر حال میں گریز کرنا چاہیے ، جے شری رام، بھارت ماتا کی جے اور بندے ماترم جیسے الفاظ دیش بھگتی کے مظہر نہیں، ایک خاص مذہب کے لوگوں کے طریقۂ عبادت کی نمائندگی کرتے ہیں، اس لیے مسلمانوں کو ایسے الفاظ کی ادائیگی سے احتراز کرنا چاہیے، کیوں کہ ان الفاظ کا استعمال رواداری نہیں، مذہب کے ساتھ مذاق ہے۔بعض سادہ لوح مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ اس قسم کے الفاظ کہنے سے ایمان واسلام پر کوئی فرق نہیں پڑتا وہ غلط فہمی میں ہیں، کیوں کہ مسلمان کا قول وفعل جیسے ہی اسلای معتقدات کے خلاف ہوتا ہے، ایمان واسلام کی عمارت دھڑام سے زمین بوس ہو جاتی ہے، یہ بہت نازک اور حساس معاملہ ہے، اتنا حساس کہ مذاق کے طور پر بھی کلمات کفر کی ادائیگی نا قابل قبول ہوتی ہے، اس مسئلہ کو جبریہ کلمۂ کفر پر قیاس نہیں کیا جا سکتا ، کیوں کہ جبر کی شکل میں دل ایمان پر مطمئن ہوتا ہے، الفاظ صرف زبان سے ادا ہوتے ہیں، لیکن برضا ورغبت کی شکل میں یا تو وہ دین کو مذاق بنا رہا ہے، یا واقعتاوہ ایسا کر رہا ہے، دین کا مذاق اڑانا یا کلمۂ کفر پر راضی ہونا، دونوں ایمان کے لیے مضر ہے اور دارو گیر کا سبب بھی ۔
المیہ یہ ہے کہ ہمارا مسلمان بھائی جو اپنے کو غیر مسلم بھائیوں کے سامنے سیکولر بننے کے لیے مختلف مندروں اور گرودواروں میں جا کر پوجا ارچنا کرتا ہے، متھا ٹیکتا ہے، وہ اپنے دین ومذہب سے کھلواڑ کرتا ہے، رواداری ایک دوسرے کے تئیں احترام کے رویہ کا نام ہے، نہ یہ کہ ایسے اعمال شرکیہ کا جو خدائے وحدہ لا شریک کی پرستش کے تقاضوں کے خلاف ہو ، یہ رویہ زیادہ تر ہمارے سیاست دانوں میں پایا جاتا ہے، میں یہ نہیںکہہ سکتا کہ جس کو جان ودل، ایمان واسلام عزیز ہو ، وہ اس گلی میں کیوں جائے، جائیے ضرور جائیے ، خوب سیاست کیجئے، لیکن سیاست میں عہدے اور مال وزر کی حصولیابی کی غرض سے اپنا ایمان وعقیدہ تو بر باد نہ کیجئے، تھوڑے مفاد کے حصول کے لیے حق بات کہنے سے گریز کا رویہ نہ اختیار کیجئے، اس لیے کہ دنیاوی عہدے جاہ ومنصب اور مفادات چند روزہ ہیں، اور آخرت کی زندگی ہمیشہ ہمیش کے لیے ہے، چند روزہ زندگی کے لیے ابدی زندگی کو بر باد کر لینا عقل وخرد سے بعیدہی نہیں، بعید تر ہے۔

منگل, فروری 22, 2022

ہمیں اپنی ترجیحات طے کرنی چاہیے: مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی22 فروری( پریس ریلیز) ذیلی دفاتر کے جائزہ کے چودہویں اور آخری دن دھنباد پہونچنے پر اہم خطاب

ہمیں اپنی ترجیحات طے کرنی چاہیے: مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
22 فروری( پریس ریلیز) ذیلی دفاتر کے جائزہ کے چودہویں اور آخری دن دھنباد پہونچنے پر اہم خطاب
حالات حاضرہ کے پیش نظر ہماری توجہات اور ترجیحات کی سمت کادرست ہونا ضروری ہے نسل کی ایمانی و فکری بے راہ روی پر حد درجہ تشویشناک رپورٹیں آرہی ہیں ایسے میں سب علماء و دانشوران اور عوام کو متحد ہوکر دینی بیداری پیدا کرنا اسلامی تشخص کو برقرار رکھنا مسلم سماج کو تعلیم کے میدان میں آگے بڑھانا انتہائی ضروری ہے۔
ان خیالات کا اظہار امارت شرعیہ بہار و اڈیشہ و جھارکھنڈ کے نائب ناظم وفاق المدارس الاسلامیہ کے ناظم ذیلی دفاتر کے انچارج ملک کے مشہور و معروف عالم دین و کالم نگار حضرت مولانا مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی صاحب مدظلہ العالی نے عبد الجبار بڑی مسجد واسع پور دھنباد میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کلمہ کی بنیاد پر اتحاد تعلیم اور خدمت خلق  کے بارے میں فرمایا کہ یہ امارت شرعیہ کی ترجیحات میں شامل ہے، مفتی صاحب نے اجتماعیت اور اس کے تقاضوں پر سیر حاصل گفتگو فرمائ، مفتی صاحب ان دنوں امیر شریعت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی مدظلہ العالی کی ہدایت پر ذیلی دفاتر کے جائزہ اور وہاں کے ضروریات و تقاضوں کے تعلق سے سفر پر ہیں انہوں نے اس موقع سے امارت شرعیہ دھنباد میں جاری دینی مکتب کے طلبہ و طالبات سے قرآن مجید و اذکار مسنونہ سنکر ضروری مشورہ بھی دئے اور اسلامیہ ہائی اسکول مہلی ڈیہ کے پرنسپل و امارت شرعیہ ارباب حل و عقد کے رکن حضرت مولانا یوسف قاسمی صاحب کی دعوت پر اسکول کا جائزہ لے کر خوشی کا اظہار فرمایا اور جھارکھنڈ میں جاری امارت پبلک اسکول کے تعلق سے ضروری مشورے کئے۔
حضرت مفتی صاحب نے آئندہ نسلوں کی آب یاری و ذمہ داریوں کی جانب توجہ مبذول کرنے کا مشورہ بھی دیا آپ نے فرمایا کہ سکنڈ لائن کی تیاری ضروری ہے، انہوں نے فرمایا کہ قحط الرجال کی بات کرنا صحیح نہیں ہے ہمارے پاس قابل افراد ہیں جن کی تربیت کرکے سکنڈ لائن تیار کی جا سکتی ہے، لیکن اس طرف ہماری توجہ نہیں ہے، ضرورت سکنڈ لائن اور دوسری صف کی تیاری کی ہے کیوں کہ یہی ہمارے بعد ہمارے مشن تحریکات اداروں کو حیات نو بخشنے کا کام کریں گے، چودہ دن کے طویل اور تھکا رہنے والے دورے آج مفتی صاحب پٹنہ کے لئے روانہ ہوگئے، قاضی محمد شاہد قاسمی،مولانا محمد شمیم اختر،نورالاسلام ،مولانا افروز ندوی وغیرہ نے انہیں الوداع کہا،یہ اطلاع مولانا محمد شمیم اختر استاذ مکتب امارت شرعیہ دھنباد نے دی ہے۔

نوجوان علماء دیوبند کی تصوف سے دوری*

*نوجوان علماء دیوبند کی تصوف سے دوری*

تصوف ہمارے اکابرین کا منہج و مشرب رہا ہے اکابرین دیوبند فقیہ ہوں محدث ہوں مفسر ہوں یا مورخ ہوں یا پھر کسی تحریکی و حربی تنظیم سے وابستہ رہے ہوں یا انکا کام دعوتی و سیاسی میدان میں ہو، کلام کے ماہرین سے مناظرے و مکالمے کے اساتذہ تک، میدان عمل سے علم کے دائروں تک، صحافتی حلقوں سے حکومتی مسانید تک ہر ہر دائرے سے تعلق رکھنے حضرات کا تعلق کسی نہ کسی درجے میں تصوف کے میدان سے رہا ہے، آپ کسی بھی عالم دیوبند کی سوانح دیکھیے چاہے وہ ندوی (ندوی سلفیہ کے علاوہ) ہو یا سہارنپوری ہو خالص دیوبند مدرسے کا فارغ ہو یا حیدر آباد دکن سے تعلق رکھتا ہو یا پھر پاکستان میں لب ساحل دار العلوم کراچی سے پہاڑوں کے سائے میں بنے دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک تک ہر ہر جگہ آپ کو قادری ، چشتی ، ، سہروردی ، نقشبندی سلسلے کے انوارات دکھائی دیں گے۔
مگر افسوس کہ آج کا نوجوان عالم دیوبند معرفت کے ان راستوں سے بیگانہ دکھائی دیتا ہے، اس کے ذہن میں تصوف کے حوالے سے بے شمار اشکالات پیدا ہو چکے ہیں اور وہ قلبی اعتبار سے کسی نہ کسی درجے میں دور جدید کی مادی فکر کے مذہبی رخ سے متاثر ہے یعنی اس کے اندر تحریکیت کا اس درجہ غلبہ ہو چکا ہے کہ اس کی نگاہ قلبی دائروں سے ہٹ گئی ہے۔
آج کہ جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ مدارس کے نوجوان فاضل کہیں پر کسی ڈسکورس سے متاثر ہیں تو کہیں ان پر ادیب و صحافی بننے کا غلبہ ہے اور وہ اپنے پاک و صاف اموال میں سے اس کے نام پر ہونے والے کورسز میں بیت سا پیسہ جھونک چکے ہیں اور جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ہمارا نوجوان عالم کرپٹو کی وادیوں میں سرگرداں ہے مگر نفی اثبات کی ضربیں اسے بوجھ لگتی ہیں، آج کہ جب ہم ووٹ کی جمہوری غلام گردشوں میں چکراتے ہوئے اسلامی فیمینزم کی بنیاد رکھ رہے ہیں ، مگر افسوس! کہ ہمیں بیعت کے عنوان سے ہی چڑ محسوس ہونے لگی ہے آج کہ جب ہم پر ایک خاص توحیدی منہج فکر کا غلبہ ہے تو ہمیں اپنے اکابر کے تصوف میں شرک کی آمیزش دکھائی دیتی ہے۔
آج ہمارے پاس بے شمار تاویلیں ہیں بہت سی علمی دلیلیں ہیں مگر کیا کیجئے کہ آج ہی کے دور میں گمرہی کے مگر مچھ اپنے جبڑے کھولے ہمارے جسد ملی کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے نگل جانے کے درپے ہیں۔
آج کہ جب روحانیت ہمیں عجوبہ دکھائی دیتی ہے آج کہ جب ہمارا اعتماد کرامت کے نام سے ہی اٹھ چکا ہے (یاد رہے کرامت تصوف کا نہیں کلام کا مسئلہ ہے) آج کہ جب ہمارا ربط دل کی دنیا سے ٹوٹ چکا ہے آج کہ جب ہم چائے خانوں اور ادبی چوپالوں میں بیٹھنے کو معراج سمجھ بیٹھے ہیں اور خانقاہوں سے ہمیں چڑ محسوس ہوتی ہے، سوال یہ ہے کہ، ہے! کوئی غزالی کہ جو تہافت الفلاسفہ کے مباحث سے نکل کر کیمیائے سعادت کے عالم معرفت تک چلا آئے، کیا آج ہمیں مجدد الف ثانیؒ کے مکتوبات اور شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی ہمعات کی ضرورت نہیں۔
آج کہ جب تشکیک کے سیاہ بادل نا صرف جدید جامعات بلکہ قدیم مدارس کے اوپر بھی برسنے کو تیار ہیں تو کیا ہمیں کسی پیر طریقت کے دامن سے وابستہ ہو جانے کی ضرورت نہیں۔
ہاں یہ بات سچ ہے کہ بہت سوں نے پیری مریدی کے نام پر اپنی اپنی دوکانیں کھول رکھی ہیں لیکن کیا دین کے ہر ہر شعبے میں ایسی دوکانیں موجود نہیں ؟ تو پھر خاص تصوف سے ہی بعد کیوں اور افسوس تو اس سانحے پر ہے کہ یہ بعد خالص مخالف و مغائرت کے درجے میں آ چکا ہے۔
تو آج کے نوجوان عالم دیوبند کو یہ بھولا ہو سبق یاد کرانا ہوگا۔
جس طرح ہماری علمی سند ہمارے اکابرین سے نبی کریم ﷺ تک بواسطہ سلف متصل ہے ایسے ہی ہماری روحانی سند ہمارے اکابرین سے نبی کریمﷺ تک بواسطہ مشائخ متصل ہے۔
حضرت تھانویؒ فرماتے ہیں 
ھو علم یعرف بہ احوال تزکیۃ النفوس وتصفیۃ الاخلاق وتعمیر الظاہر والباطن۔
یعنی وہ علم جس سے تزکیہ نفوس اور تصفیہ اخلاق اور ظاہر و باطن کی تعمیر کے احوال پہچانے جاتے ہیں۔
(سلوک کامل ص7)

ذیل میں اکابرین دیوبند کے سلسلہ روحانی کی ایک سند بواسطہ حضرت مدنیؒ پیش کررہا ہوں ملاحظہ کیجیے اور اپنے اکابرین کے منہج فکر کا ادراک کیجیے۔

حضرات اکابر دیوبند حضرت مولانا محمدقاسم نانوتوی رحمة اللہ علیہ اور حضرت مولانارشید احمد گنگوہی رحمة اللہ علیہ سلوک و تصوف میں سید الطائفہ حضرت حاجی امداداللہ مہاجر مکی رحمة اللہ علیہ سے بیعت تھے اور ان حضرات کو حضرت حاجی صاحب رحمة اللہ علیہ سے اجازت و خلافت حاصل تھی۔ حضرت حاجی صاحب کا چشتی سلسلہ حسب ذیل ہے:

(۱)۔ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمة اللہ علیہ۔
(۲)۔ الشیخ نور محمد جھنجھانوی رحمة اللہ علیہ۔
(۳)۔الشاہ عبد الرحیم شہید رحمة اللہ علیہ۔
(۴)۔الشیخ عبد الباری امروہوی رحمة اللہ علیہ۔
(۵)۔الشیخ عبد الہادی امروہوی رحمة اللہ علیہ۔
 (۶)۔الشیخ عضد الدین امروہوی رحمة اللہ علیہ۔
(۷)۔الشیخ محمد مکی رحمة اللہ علیہ۔
(۸)۔الشیخ الشاہ محمدی رحمة اللہ علیہ۔
(۹)۔الشیخ محب اللہ الہ آبادی رحمة اللہ علیہ۔
(۱۰)۔الشیخ ابو سعید گنگوہی رحمة اللہ علیہ۔
(۱۱)۔الشیخ نظام الدین البلخی رحمة اللہ علیہ۔
(۱۲)۔جلال الدین تھانیسری رحمة اللہ علیہ۔
(۱۳)۔الشیخ عبد القدوس گنگوہی رحمة اللہ علیہ۔
(۱۴)۔الشیخ محمد العارف ردولوی رحمة اللہ علیہ۔
(۱۵)۔الشیخ احمد العارف ردولوی رحمة اللہ علیہ۔
(۱۶)۔الشیخ عبد الحق ردولوی رحمة اللہ علیہ۔
(۱۷)۔الشیخ جلال الدین پانی پتی رحمة اللہ علیہ۔
(۱۸)۔الشیخ شمس الدین الترک پانی پتی رحمة اللہ علیہ۔
(۱۹)۔الشیخ علاء الدین صابر کلیری رحمة اللہ علیہ۔
(۲۰)۔الشیخ فرید الدین گنج شکر رحمة اللہ علیہ۔
(۲۱)۔الشیخ قطب الدین بختیار کاکی رحمة اللہ علیہ۔
(۲۲)۔شیخ المشائخ معین الدین چشتی رحمة اللہ علیہ۔
(۲۳)۔الشیخ عثمان الہارونی رحمة اللہ علیہ۔
(۲۴)۔السید الشریف الزندانی رحمة اللہ علیہ۔
(۲۵)۔الشیخ مودود الچشتی رحمة اللہ علیہ۔
(۲۶)۔الشیخ ابو یوسف الچشتی رحمة اللہ علیہ۔
(۲۷)۔الشیخ ابو محمد الچشتی رحمة اللہ علیہ۔
(۲۸)۔الشیخ احمد الابدال الچشتی رحمة اللہ علیہ۔
(۲۹)۔الشیخ ابو اسحاق الشامی رحمة اللہ علیہ۔
(۳۰)۔الشیخ ممشاد علوی الدینوری رحمة اللہ علیہ۔
(۳۱)۔الشیخ ابو ہبیرة البصری رحمة اللہ علیہ۔
(۳۲)۔الشیخ حذیفہ المرعشی رحمة اللہ علیہ۔
(۳۳)۔الشیخ ابراہیم بن ادہم البلخی رحمة اللہ علیہ۔
(۳۴)۔الشیخ فضیل بن عیاض رحمة اللہ علیہ۔
(۳۵)۔الشیخ عبد الواحد بن زید رحمة اللہ علیہ۔
(۳۶)۔الشیخ حسن البصری رحمة اللہ علیہ۔
(۳۷)۔سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ۔
(۳۸)۔سیدنا و رسولنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم۔

(سلاسل طیبہ، حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمة اللہ علیہ)

حسیب احمد حسیب

رجب سے متعلق احادیثمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

رجب سے متعلق احادیث
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
رجب کا مہینہ آگیا ، شعبان اور پھر نیکیوں کا موسم بہار رمضان المبارک ، تین مہینے مسلسل ، رجب میں معراج ، شعبان میں شب برأت اور رمضان، ہر پل ہر لمحہ رحمت پرور دگار، کوئی اندازہ لگا سکتا ہے ا للہ کے جو دو عطا کا، اسی لیے بزرگوں سے منقول ہے کہ رجب سے ہی یہ دعا شروع کر دی جائے کہ اے اللہ ہمارے لیے رجب وشعبان میں برکت عطا فرما اور رمضان المبارک تک ہمیں پہونچا دے؛ تاکہ ہم اس کے فیوض وبرکات سے مستفیض ہو سکیں اور نیک اعمال کے ذریعہ بخشش کا سامان کر سکیں ، بعض کتابوں میں لکھا ہے کہ رجب آتے ہی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا مانگنا شروع کر دیتے تھے، ایک زمانہ تک احقر بھی اسے حدیث ہی سمجھتا رہا اور اللہ معاف کرے مختلف موقعوںسے تقریروں وتحریروں میں نقل بھی کرتا رہا ، لیکن جب چند سال قبل رمضان میں قطر حکومت کی دعوت پر ’’احوال السلف فی رمضان ‘‘ پر خطاب کے لیے وہاں پہونچااس سلسلہ کا ایک پروگرام’’فنار‘‘ کے آڈیٹوریم میں تھا ، میں نے اپنی گفتگو کا آغازاسی حوالہ سے کیا اور پورے اعتماد سے کیا ، کیوں کہ بعض بڑوں کی تحریروں میں اس دعا کی نسبت آقا صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا تھا ، تقریر ختم ہوئی، افطار ونماز مغرب سے فراغت کے بعد باہر نکل رہا تھا کہ ایک شخص نے چلتے چلتے کان میں کہا کہ شیخ! یہ دعا بڑی پیاری ہے، لیکن نسبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف صحیح نہیں ہے، چونکا ضرور ، مگر حیرت اس لیے نہیں ہوئی کہ ایسی بہت سی روایتیں حدیث کے طور پر زبان زد ہیں، لیکن ان کی کوئی بنیاد حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں نہیں ہے ، میں نے فورا ہی مولانا رحمت اللہ ندوی جو بڑے عالم ہیں اور قطر ہی میں مقیم ہیں سے اس کا تذکرہ کیا، دس منٹ نہیں گذرے تھے کہ انہوں نے وھاٹس ایپ پر پوری تخریج بھیج دی ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سلسلے کی وعیدیں ذہن میں آئیں کہ جس نے میری طرف قصدا جھوٹی بات منسوب کی اس کا ٹھکانہ جہنم ہے ، خوف طاری ہوا، پھر’’ متعمداً  ‘‘یعنی قصداًکی قید دیکھ کر اطمینان ہو اکہ میرا شمار ان میں نہیںہے، اس لیے کہ میرا یہ عمل قصداً نہیں تھا ، مولانا رحمت اللہ ندوی حفظہ اللہ نے جو بھیجا تھا وہ تو اب محفوظ نہیں ، لیکن مطالعہ سے جو بات واضح ہوئی ،ا س کا خلاصہ یہ ہے کہ اس روایت کے ایک روای زائدہ بن ابی الرقاد ہیں، جنہیں تہذیب التہذیب میں (۳۰۵،۳۰۴) حافظ نے اور التاریخ الکبیر (۳؍ ۳۳۳ حدیث ۱۳۳۵) میں منکر الحدیث لکھا ہے، اس حدیث کے ایک راوی زیاد النمیری کو میزان الاعتدال (۲؍ ۹۱) میں ضعیف قرار دیا ہے ، یہی قول مجمع الزوائد (۱۰؍ ۳۸۸) میں جمہور محدثین کا نقل کیا ہے ، علامہ نووی نے الاذکار( ص ۱۸۹) ابن رجب نے لطائف المعارف (ص ۱۲۱) اور علامہ البانی نے ضعیف الجامع (۴۳۹۵) میں اسے ضعیف قرار دیا ہے، البتہ دعا کے الفاظ جو ہیں ان کے ذریعہ دعا مانگنے میں کسی قسم کی کوئی قباحت نہیں ہے،کیوں کہ دعا اللہ سے مانگی جا رہی ہے، اور برکت طلب کی جا رہی ہے، ان میں کچھ بھی ممنوع نہیں، بلکہ مطلوب ہے، فنی اعتبار سے حدیث میں ضعف راوی کی وجہ سے آیاہے ، میرے مطالعہ میں کسی نے اس روایت کو موضوع نہیں قرار دیا ہے ۔ رجب کے سلسلے میں دو اور احادیث کا ذکر کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے ، یہ روایتیں بھی مشہور ومعروف ہیں۔ایک روایت تو وہ ہے جس میں ان پانچ راتوں کا ذکر کیا گیا ہے ، جن میں دعا رد نہیں ہوتی ، ان میں ایک رات رجب کی پہلی رات مذکور ہے ، یہ روایت ابن عساکر کی تاریخ دمشق (۱۰؍ ۴۰۸) میں موجود ہے ، اس روایت میں ایک راوی ابو سعید بندار بن عمر الرویانی ہیں، ابن عساکر نے عبد العزیز النخشبی کا قول نقل کیا ہے کہ بندار سے روایت نہ سنو، اس لیے کہ وہ کذاب ہے، اس روایت کے راوی ابو قعنب مجہول ہیں اور ایک راوی عبد القدوس کے حالات بھی پردہ خفا میں ہیں۔
 ایک دوسری روایت بیہقی نے شعب ا لایمان میں ذکر کیا ہے کہ ماہ رجب میں ایک دن اور ایک رات ایسی ہے، جس میں اگر کوئی روزہ رکھے اور رات کو عبادت کرے تو وہ اس شخص کی طرح ہے جس نے سو سال کے روزے رکھے اور سو سال قیام اللیل کیا ، یہ رجب کی ستائیس تاریخ ہے ، یہ روایت اس کے راوی بیاض اور اس کے بیٹا خالد کے ضعیف ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے،اس سلسلے کی تفصیلات تہذیب الکمال (۷؍ ۳۳۷) تاریخ کبیر (۸؍۱۳۳) الجرح والتعدیل (۹؍ ۱۳۸) میزان الاعتدال (۳؍ ۲۴۰) لسان المیزان (۹؍ ۲۴۲) اور تقریب التہذیب (۲؍ ۳۳۱) میں دیکھی جا سکتی ہیں۔

پیر, فروری 21, 2022

نشہ کا کھیل مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

نشہ کا کھیل 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
 بہار حکومت نے شراب پر پابندی لگادی ہے اور اس پابندی کو نافذ کرنے کے لیے حکومت کی مشنری پور طور پر سرگرم عمل ہے، اس کے باوجود شراب کے استعمال اور اس کے نقل وھمل کی خبریں اخبارات اور سوشل میڈیا میں آتی رہتی ہیں، با خبر ذرائع کے مطابق اب بہار میں شراب کی جگہ دیگر نشہ آور اشیاء نے لے لی ہیں اور بڑے پیمانے پر اس کا استعمال ہونے لگا ہے ، ان نشہ آور اشیاء میں سر فہرست براؤن شوگر ہے، بھاگل پور ، پٹنہ اور مظفر پور کے ساتھ دوسرے اضلاع میں بھی اسمگلنگ کے ذریعہ اسے پہونچایا جا رہا ہے، اس کی رسائی مغربی بنگال اور جھارکھنڈ کے دھندہ بازوں کے توسط سے بہار کے مختلف اضلاع میں ہو رہی ہے اور کم از کم ہر ماہ پچاس کروڑ روپے براؤن شوگر کی کھیپ بہار میں کَھپ جاتی ہے، دینک بھاسکر کے ایک سروے کے مطابق پٹنہ میں اس کا مرکز مہندرو اور بورنگ روڈ ہے، جب کہ مظفر پور میں احیاء پور اور چھاتا چوک کے علاقہ میں اس کی سپلائی عام ہے، ظاہر ہے اس سپلائی میں پولیس عملہ کا بھی ہاتھ ہوتا ہے اور اس کی حصہ داری اس کاروبار میں کم وبیش پچیس فی صد تک کی ہوتی ہے، جیسا دینک بھاسکر کو ایک اسمگلر نے بتایا ، تحقیق کے مطابق سالانہ چھ سو کروڑ روپے کا براؤن شوگر کا دھندہ بہار میں ہوتا ہے، ہر ماہ چالیس ہزار روپے کم وبیش نزدیکی پولیس تھانے کو دیے جاتے ہیں، اس کی وجہ سے اس کاروبار سے منسلک مجرمین پکڑے نہیں جا رہے ہیں، گذشتہ دو سال میں اس کاروبار سے لگے صرف چوبیس (۲۴) لوگ پکڑے جا سکے ہیں اور صرف دو کلو براؤن شوگر کو اس درمیان پولیس نے ضبط کیا ہے، یہ ایک افسوسناک سچائی ہے۔
 براؤن شوگر انتہائی خطرناک اور قیمتی نشہ ہے، یہ ہماری نئی نسل کو تباہ کر رہا ہے، شروع میں اسے ایک سے دو بار یومیہ لوگ استعمال کرتے ہیں ، پھر یہ عادت ایسی بن جاتی ہے کہ پانی میں گھول کر رگوں میں بطور انجکشن لینے لگتے ہیں، اس سے جسمانی اعصاب تو تباہ ہوتے ہی ہیں، دماغ کے سوچنے ، سمجھنے کی صلاحیت بھی ختم ہوجاتی ہے، دھیرے دھیرے انسان اس قدر عادی ہوجاتا ہے کہ نہ ملنے پر بے ہوش ہوجاتا ہے اور کبھی مایوس ہو کر خود کشی کی طرف قدم بڑھاتا ہے، یہ خود کشی نہ بھی کرے تو وہ چلتی پھرتی لاش بن کر رہ جاتا ہے، عام مارکیٹ میں اک کلو براؤن شوگر کی قیمت نوے لاکھ سے ایک کروڑ روپے تک ہوتی ہے، چھوٹی سی پُریاکے حصول میں ڈھائی سو سے تین سو روپے خرچ ہوتے ہیں، اس طرح اس نشہ کا استعمال کرنے والا جلدہی مالی اعتبار سے بھی قلاش ہو جاتا ہے۔
 اسلام نے انسانی اعصاب اور ذہن ودماغ کی حفاظت کے نقطۂ نظر سے نشہ کو حرام قرار دیا ہے، اور اس کی لت نہ لگے اس کے لیے نشہ آور چیز کی چھوٹی بڑی تمام مقدار کو ممنوعات کے دائرے میں رکھا ہے، اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے سے انسان اس بُری لت سے پیچھا چھڑا سکتا ہے، خارجی طور پر حکومت کو چاہیے کہ وہ شراب سے زیادہ براؤن شوگر کے نقل وحمل اور استعمال پر نگاہ رکھے، پولیس اور تھانہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھے اور ایسے اسمگلروں کو پکڑ کر عبرتناک سزا دے تاکہ اس کی طرف لوگوں کی رغبت باقی نہ رہے، شراب پر پابندی لگا کر دیگر نشہ آور اشیاء کے استعمال سے آنکھ بند کر لینا کسی بھی طرح دانشمندانہ عمل نہیں ہے ۔

اتوار, فروری 20, 2022

دعوت دین کا فریضہ حکمت اور مواعظ حسنہ کے ذریعہ انجام دیں__مفتی محمد ثناءالہدی قاسمی

دعوت دین کا فریضہ حکمت اور مواعظ حسنہ کے ذریعہ انجام دیں__مفتی محمد ثناءالہدی قاسمی

  پٹنہ 20فروری (پریس ریلیز )
دفتر دارالقضاء امارت شرعیہ آسنسول میں ائمہ  وعلماء کے خصوصی اجتماع میں نائب  ناظم امارت شرعیہ حضرت مولانا مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی کا بصیرت افروز خطاب ہوا،  اس اہم اجتماع کو خطاب کرتے ہوئے نائب ناظم امارت شرعیہ مفتی محمد ثناءا لہدی قاسمی نے فرمایا کہ علماء کرام انبیاء کے وارث ہیں اور انبیاء کی بعثت کا مقصد مخلوق کو دعوت الی اللہ ہے ۔تمام انبیاء نے اس فریضہ کو خوش اسلوبی سے انجام دیا ۔خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالی نے دعوت الی اللہ کا اسلوب حکمت اور موعظت حسنہ فرما یا یہی اسلوب وارثیین نبوی کے لیے بھی لازم ہے ۔اگر ائمہ اورخطباء حکمت ودانائ   اور نرم گفتار کے ساتھ امت کو پیغامات دیں تو  یہ اسلوب متاثر کے ساتھ ساتھ مفید ترین ہوگا۔علماء اورائمہ   امت کی روح ہیں جس طرح روح کے بغیر جسم کی کوئ  حیثیت نہیں اسی طرح  زندہ قوم کیلیے علماء کا وجود ضروری ہے جسم سے روح کے نکلنے کے بعد انسان کے اعمال خیر وشر کے اعتبار سے یا تو روح علیین میں ہوگی یاسجیین میں ۔غرض کہ امت کا رشتہ اور تعلق علماء سے اور علماء کا رشتہ امت سے جسم اور روح کی طرح لازم وملزوم ہیں ۔موصوف نے اپنی تقریر کو جاری رکھتے ہوۓ  فرمایا ۔جوش کے فیصلہ سے بہتر ہوش کا فیصلہ ہوتا ہے ۔حجاب کے معاملہ میں قائدین ملت کا جو مشورہ ہو اسے ماننا امت کیلیے ضروری ہوتا ہے ۔آئین کی لڑائ کاغذ وقلم کے ذریعہ لڑنا قائدین ملت کی نظر میں بہتر ہے ۔اسے ماننا چاہیے اور جزبات کی رو میں نہ بہنا چاہیے  ملک کے نازک حالات میں جس وقت جو حکمت عملی ملک کی ملی تنظیمیں اور ملی قائدین اپنانے کو کہیں علماء اور ائمہ منبر ومحراب سے امت کو اسکی رہبری فر مائیں  اور امت اسی پر عمل پیرا ہوں یاد رہے باطل تدبیروں اور اسکیموں سے کئ گنا بہتر تدبیر خداوندی ہے ۔مؤمن کا اس بات پر یقین ہو لہذاحالات سے گھبرانے کے بجاۓ انابت الی اللہ کریں اور خدائ  نصرت پر یقین رکھیں مہمان محترم نے ایک گھنٹہ کی پر اثر تقریر علماء کے درمیان فرمائ  ۔مولانا محمد اسرائیل مظاہری صدر مدرس مدرسہ عربیہ برنپور نے بھی اس موقع پر اپنے تأثرات پیش فرماۓ اور پروگرام کے اختتام پر دعاء فرمایا ۔اجتماع کا آغاز قاری مجاہدالاسلام اشاعتی امام وخطیب عائشہ مسجد کی تلاوت کلام پاک سے ہوا ۔اجتماع میں شریک مفتی مظفر اقبال مہتمم مدرسہ اشرف العلوم کلٹی ۔مولانا عبدالحق مدرس مدرسہ عربیہ برنپور ۔مولانا نسیم قمر ندوی ۔مفتی شکیل الرحمان قاسمی مولانا امداداللہ رشیدی امام وخطیب نورانی مسجد مفتی سھیل احمد مظاہری مولانا مناظرالحق قاسمی مولانا فردوس احمد نعمانی مولانا نیاز احمد ندوی مولانا طاہر رشیدی ۔مولانا خالد قاسمی مولانا توقیر ذکی ندوی مولانا ہشام ندوی ۔وعلماء وائمہ  کی کثیر تعداد نے اس اہم اجتماع کو حالات حاضرہ کی ضرورت بتایا ۔قاضی شریعت مفتی زبیر احمد قاسمی ۔مولانا محمد سعید اسعد قاسمی ۔قاری محمد داؤد عرفانی نے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا ۔جبکہ ماسٹر یاسین ثاقب ماسٹر عامر ماسٹر مہدی حسن اساتذہ ایم ایم یو ہائ  اسکول امارت شرعیہ آسنسول نے مہمانوں کی ضیافت واستقبال کیاواضح ہوکہ نائب ناظم امارت شرعیہ وانچارج ذیلی دفاتر بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ ومغربی بنگال  کے ذیلی دفاتر ومکاتب واسکول امارت شرعیہ کا جا ئزاتی سفر جاری ہے  مفتی صاحب نے مولانا منت اللہ رحمانی اردو ہائی اسکول ودفتر امارت شرعیہ کا جائزہ فرمایا  بعد مغرب علماء وائمہ شہر آسنسول واطراف سے خصوصی اور اہم خطاب فر مایا ۔ مفتی زبیراحمد قاسمی قاضی شریعت دارالقضاء امارت شرعیہ آسنسول وقاری محمد داؤد عر فانی نے نائب ناظم صاحب کو کلکتہ کے سفر کے لئے الوداع کیا ۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...