Powered By Blogger

ہفتہ, فروری 26, 2022

خانگی زندگی مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

خانگی زندگی 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
 انسان علمی ، سائنسی اور تحقیقی میدان میں آگے بڑھ رہا ہے اور اس نے اپنے علم وعمل سے تسخیر کائنات کے قرآنی نظریہ اور الٰہی فرمان کو سچ کر دکھایا ہے، لیکن اس کے بر عکس دین وشریعت سے دوری نے اس کی ذاتی زندگی کو اجیرن بنا رکھا ہے، خاندان ٹوٹ رہا ہے اور ذہنی سکون چھنتا جا رہا ہے، حالاں کہ اللہ رب العزت نے انسانی زندگی میں مرد وعورت کے نکاحی رشتے کو مودت ومحبت اور پر سکون زندگی کا سبب قرار دیا تھا ، لیکن  ہماری بے عملی، بدعملی اور اس رشتے کے احترام کی لازمی اہمیت کے نظر انداز کرنے کی وجہ سے گھر میں سکون وطمانینت جیسی کوئی چیز باقی نہیں رہی، بیش تر گھروں میں خانگی زندگی کو آپسی جھگڑے اور غلط فہمیوں نے بر باد کر رکھا ہے ، اس لیے گھر کے نظام کو درست کرنے کی ضرورت ہے، یہ درستگی گھر کو پر سکون بنا نے کے لیے اصول کے درجے میں ہے، ہماری خانگی زندگی کی بے تربیتی کے اثرات بچوں کی ذہنی نشو ونما پر پڑتے ہیں، ہم نے بچوں کی تربیت کا کام اسکولوں اور کنونٹوں کے ذمہ کر دیا ہے، جہاں اعلیٰ اخلاق اقدار کے فروغ کا کام تمام ہو چکا ہے، مادہ پرستی نے ا نہیں ایک صنعتی کار خانہ بنا دیا ہے جہاں نصاب پڑھا دیا جاتا ہے ، اقدار نہیں پڑھائے جاتے ،ایسے میںہماری ذمہ داری کا فی بڑھ گئی ہے، ہمیں اپنے گھر کے نظام کو چست درست رکھنا ہوگا، اور اس کے لیے ملکی قوانین وضوابط کی طرح کچھ اصولوں کو گھر میں رائج کر نا ہوگا ، تاکہ ہماری خانگی زندگی اور گھر یلونظام دوسروں کے لیے بھی اسوہ اور نمونہ بن سکے اور پر سکون ماحول میں بچے اچھی تربیت پا سکیں۔
 سب سے پہلا کام یہ کرنا ہوگا کہ گھر کا ہر فرد نماز وقت پر ادا کرے،قرآن کریم کی تلاوت کا اہتمام کرے، نماز بندگی ، عاجزی، در ماندگی، بے کسی اور بے بسی کے اظہار کا بڑا ذریعہ ہے، نماز کی پابندی سے تواضع اور انکساری پیدا ہوتی ہے اور اپنے کو بڑا سمجھنے کے بجائے اللہ کی بڑائی کا خیال ذہن ودماغ پر جمتا ہے، جو سار ے جھگڑوں کے ختم کرنے کا سبب بنتا ہے ، اس لیے کہ جھگڑے اپنی بڑائی کے خیال سے ہی پیدا ہوتے ہیں۔
گھر کا ہر فرد کسی نہ کسی درجہ میں اپنے مقام مرتبہ اور حیثیت کے اعتبار سے انا کا شکار ہوتا ہے، اور اس انانیت کی وجہ سے وہ دوسرے لوگوں کو اپنے سے کم تر سمجھتا ہے، ان کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی کرتا ہے، اس لیے معاملہ بگڑتا چلا جاتاہے، یہ بیماری ختم نماز کے ذریعہ ہی ہو سکتی ہے، ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ تواضع اختیار کریں، آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے تواضع کو رفع درجات کا سبب بتایا ہے۔ من تواضع رفعہ اللہ
 گھر کے ماحول کو خوشگوار بنانے کے لیے برائے مہربانی اور شکریہ کے کلمات کو رواج دینا چاہے اس سے ایک دوسرے کی وقعت دل میں بڑھتی ہے، آتے جاتے سلام کے الفاظ دل کے دروازے ایک دوسرے کے لیے کھولتے ہیں، یہ آداب ملاقات بھی ہے اور لوگوں کے لیے سلامتی کی دعا بھی ، گھریلو مسائل جو بھی ہوں انہیں آپس میں ادب واحترام کے ساتھ ایک دوسرے کو منتقل کر نا چاہیے ، مار پٹائی ، گالی گلوج، لعن طعن سے بچنا چاہیے، عورتوں اور بچوں پر ہاتھ اٹھانا انتہائی غلط حرکت ہے، یہ ہمارے خاندان کے کمزور افراد ہوتے ہیں، اور کمزوروں پر ہاتھ اٹھانا انتہائی بزدلی کی بات ہے، تنبیہ کی گنجائش تو ہے لیکن اس کا اسلوب بھی جارحانہ نہ ہو، اس لیے کہ یہی جارحیت خانگی زندگی کو جو الا مکھی اور آتش فشاں بنا دیتی ہے۔
 خانگی نظام کو ٹھیک رکھنے میں ادب واحترام کے ساتھ خوش سلیقگی کا بھی بڑا عمل دخل ہوتا ہے،خوش سلیقگی یہ ہے کہ جب کوئی بات کرے تو توجہ سے سنی جائے ، خواہ وہ بچہ ہی کیوں نہ ہو ،ا س سے اس کے اندر یہ احساس جاگے گا کہ میری بات توجہ سے سنی گئی اور اسے اہمیت دی گئی ، اہمیت کا یہ احساس گھروں میں جو باغیانہ تیور نئی نسلوں میں پیدا ہو رہے ہیں، اسے ختم کر نے میں معاون ومدد گار ہوگا ، یہ سلیقہ گھروں میں نظر بھی آئے اس کا طریقہ یہ ہے کہ گھر کا ہر فرد اپنے ذمہ لازم کر لے کہ جو چیز جہاں سے اٹھائے گا وہیں رکھے گا ، دروازہ اور کھڑکی کھولا ہے تو ضرورت پوری ہونے کے بعد اسے بند بھی کرے گا ، رات کو بارہ بجے کے بعد کوئی جاگا نہیں رہے گا ، فضول گفتگو نہیں کرے گا ، رات کے اس حصہ میں وہاٹس ایپ اور دوسرے ذرائع کا استعمال بھی نہیں کرے گا ، یہ پابندی آپسی مجلسی گفتگو کے وقت بھی جاری رہے گی ۔
 انفرادی طور پر کھانے کے بجائے اجتماعی طور پر خورد ونوش بھی گھر کے ماحول کو ساز گار بنانے میں انتہائی معاون ہوتا ہے، اوراس سے بہت ساری غلط فہمیوں کا دروازہ بند ہوتا ہے،اپنے ضروری کام خود انجام دے لینا بھی اسوۂ رسول ہے، اپنے چھوٹوں پر رعب ودبدبہ کے ساتھ حکم جمانا بچوں کی نفسیات کے لیے مضر ہے، البتہ تربیتی نقطۂ نظر سے ایسا ماحول بچوں کو فراہم کرنا چاہیے کہ وہ اپنے بڑوں کی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اور اسے اپنی سعادت سمجھیں ، در اصل یہ دو طرفہ الفت ومحبت کا معاملہ ہے ، آپ چھوٹوں  پر رحم کریں گے تو وہ اپنے بڑے کی تو قیر کریں گے، گھر میں اگر وسعت ہو اور ہر ایک کے لیے الگ الگ کمرے مختص ہوں تو حتی الامکان دوسرے کے کمرے میں جانا اس کے سامان کو الٹ پلٹ کرنا بھی ممنوع ہونا چاہیے، جانا ضروری ہو تو دروازہ پہلے کھٹکھٹا یا جائے، سلام کیا جائے، یہ سلام استیذانی کہلاتا ہے،سلام کا جواب مل جائے اور صاحب کمرہ استقبال کی پوزیشن میں ہو تو ضرور جانا چاہیے، بچوں کی تربیت کے لیے اچھے کاموں اورامتحان میں اچھے نتائج کے موقع سے حوصلہ افزائی بھی ضروری ہے، اس سے آگے بڑھنے کا حوصلہ اور جذبہ پیدا ہوتا ہے، گھر کے کسی فرد کی بیماری پر تیمار داری اور عیادت سے بھی آپسی محبت  پروان چڑھتی ہے، اس لیے اس کام کو دوسری ضروریات پر مقدم رکھنا چاہیے، خانگی زندگی کو پر سکون رکھنے کے لیے اصول اور بھی ہیں فی الوقت اتنا ہی ، باقی پھر کبھی۔

خاص پیغام اعلان برائے اجلاس دستار بندیحضرات مسلمانانِ ڈومریا

خاص پیغام اعلان برائے اجلاس دستار بندی
حضرات مسلمانانِ ڈومریا!


السّلام عليکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ سب کو معلوم ہے کہ دو سال قبل جامعہ ممتاز العلوم کا قيام عمل ميں آيا ۔ جامعہ کا خاص مقصد حفاظ پيداکرنا اور ڈومريا واطراف کے ہر گھر ميں حافظ پہنچانا تھا۔ آپ حضرات کے مالی اور جانی تعاون سے الحمد للہ جامعہ اپنے مقصد ميں کامياب ہو رہا ہے۔ دوسال کے عرصہ ميں آٹھ طلبہ عزيز نے حفظ قرآن مکمل کر ليا ہے ۔ يہ يقينًا آپ حضرات کی حوصلہ افزائی کا نتيجہ ہے ۔ ابھی جامعہ ميں پچاس طلبہ زير تعليم ہيں ۔ جن کی کفالت کھانے پينے اور رہنے کا نظم خود جامعہ کرتاہے اور آپ حضرات سے لے کر کرتا ہے ۔ جامعہ کاالگ سے کوئی مستقل آمدنی کا ذريعہ نہيں ہے۔ آپ کےاس ديرينہ توجہات پر جتنا جامعہ شکریہ ادا کرے کم ہے۔
علماء ودانشوران ڈومرياکو جب آٹھ طلبہ عزیزکے حافظ بننےکی اطلاع ہوئی تو وہ بہت خوش ہوئے اور اجلاس دستار بندی کی تجويز پيش کی ۔ان کے ساتھ متعدد ميٹنگيں ہوئی جس میں21/22 مارچ کی تاريخ رکھی گئ۔لیکن طے شده تاریخ کا اعلان باضابطہ آپ حضرات کے مشورے سے کیا جائے گا



کوشش کیجائے گی کہ: ان شاء اللہ دار العلوم ديوبند، دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ اور جامعہ رحمانی، خانقاہ، مونگير سےاکابردین علماء کرام کو بلایا جائے ۔ اور ڈومریا کی سرزمين ایک مرتبہ پھر بزرگان دین و علمائے کرام کی تشريف آوری سے لالہ زار ہو جائے

۔ آپ تمام باشندگان ڈومریاسے بالخصوص درخواست کی جاتی ہے کہ: اس اجلاس کو کامياب بنانے ميں جامعہ ہذا کا ہر طرح سے تعاون کريں۔ بلکہ خود آگے بڑھ کر اجلاس کی ذمہ داری قبول کریں۔



نوٹ: اس سلسلے ميں بروز اتوار 27 /فروری2022ء،آٹھ بجے صبح جامعہ ممتاز العلوم کے احاطے ميں ميٹنگ رکھی گئی ہے۔ آپ تمام حضرات سے شرکت کی درخواست ہے ۔

فقط والسلام
مجلس منتظمہ: جامعہ ممتاز العلوم، ڈومريا، رانیگنج،ارریہ بہار۔

جمعہ, فروری 25, 2022

کہنہ مشق قاری،ماہرفن استاذ قاری عبد الصمد صاحب کاانتقالچینئی (ساجد حسین ندوی


کہنہ مشق قاری،ماہرفن استاذ قاری عبد الصمد صاحب کاانتقال
چینئی (ساجد حسین ندوی) کہنہ مشق قاری،تجربہ کار استاذِ حفظ اور اپنے فن اور تجربے سے ہزاروں افراد کو حفظِ قرآن کی دولت سے مالا مال کرنے والے خادم قرآن،استاذ الاساتذہ، شہرکانپور کی قدیم اور مرکزی درسگاہ مدرسہ جامع العلوم پٹکاپور، کانپور کے سابق استاذِ حفظ حضرت قاری عبدالصمد صاحب فرقانی ؒکا بتاریخ 23 اکتوبر 2022 بروز بدھ کو تقریبا دوپہر 1بجکر  40 منٹ میں حرکتِ قلب بند ہونے کی وجہ سے دارِ فانی سے دارِ بقا کی طرف کوچ کرگئے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔
گذشتہ ہفتہ مرحوم کو اچانک برین اسٹوک ہوگیا تھاجس کے بعد ان کو فوری طور پرتمل ناڈو گورنمنٹ سوپر اسپیشلٹی، ماونٹ روڈ چینئی میں داخل کیا گیا جہاں ماہرڈاکٹروں کی نگرانی میں علاج ہوا اور طبیعت بحال ہونے لگی، ایک دو دن میں ڈاکٹر نے ڈسچارج کرنے کو کہا تھا لیکن 23/ فروری کو تقریبا دو پہرساڑھے بجے طبیعت بگڑنے لگی، ڈاکٹروں نے آخری حد تک کوشش کی،لیکن وقت موعود آچکا تھا۔اللہ کے فیصلے کے سامنے انسانی طاقت بے بس ہوگئی اور 1/ بجکر 40منٹ پر قاری صاحب کی روح دارِ فانی سے دارِ بقا کی طرف کوچ کرگئی۔ 24فروری کو 1:45بجے قائد ملت جمعہ مسجد چینئی میں قاری صاحب کے منجھلے فرزند قاری محمد اسجد صاحب نے جنازے کی نماز پڑھائی جس میں کثیر تعداد میں لوگو ں نے شرکت کی اور سوگواروں کی موجودگی میں امیرالنساء قبرستان رائے پیٹھہ میں سپرد خاک کیا گیا۔
 قاری صاحب مرحوم کی پیدائش بہار کے ضلع مونگیر کے ایک گاؤں محلہ حاجی سبحان میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم پنج ویر نامی ایک گاؤں میں حاصل کی، اس کے بعد جامعہ محمودیہ،گوگری ضلع کھگڑیا،بہار میں قرآن کریم کا دور مکمل کرنے کے بعد لکھنو کی مشہور درسگاہ مدرسہ تجوید الفرقان میں قرأت کی تعلیم مکمل کی۔ قرأت کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد تدریسی خدمات کے لیے آپ کا تقرر شہر کانپور کی قدیم درسگاہ مدرسہ جامع العلوم،پٹکاپور،کانپور میں ہوا،جہاں آپ نے تقریبا 24/ سالوں تک بحیثیت استاذ حفظ خدمات انجام دی اور لاکھوں کی تعداد میں حفاظ تیار کئے۔ کچھ ناگزیر حالات کی وجہ سے آپ نے مدرسہ جامع العلوم سے استعفی دے دیا اس کے بعد دارالعلوم آگرہ، مدھیہ پردیش اور مدرسہ اشاعت العلوم کانپور میں صدر شعبہ حفظ کے طور پر کام کرتے رہے۔ اسی دوران قاری صاحب کی رفیق حیات کا انتقال ہوگیا اس کے بعد قاری صاحب کافی ٹوٹ گئے اور تدریسی خدمات چھوڑ کر شہر مدراس میں اپنے لڑکوں کے ساتھ رہنے لگے۔لیکن تدریس ان کی طبیعت میں رچی بسی تھی، اس لیے فارغ رہنا ان کے لیے مشکل لگنے لگا۔بہر کیف وہ شہر مدراس سے سیدھا اپنے گاؤں آگئے اور پنج ویر مدرسہ جہاں سے آپ نے ابتدائی تعلیم اور حفظ مکمل کیا تھا وہیں درس وتدریس میں لگ گئے۔ آخری عمر تک اسی ادارہ سے منسلک رہ کر قرآن کی خدمت کرتے رہے۔
قاری صاحب کے انتقال پر ہزاروں علماء،حفاظ، قراء اور شاگردوں نے اپنے رنج و غم کا اظہار کیا اور پسماندگان سے اظہار تعزیت کرتے ہوئے رفع درجات اور مغفرت کے لیے دعائیں کی۔
پسماندگان میں قاری صاحب کے چار لڑکے اور ایک لڑکی ہے، الحمدللہ چاروں لڑکے حافظ و قاری ہیں اور شہرمدراس میں دینی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
ہم اللہ سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرماکر درجات کو بلند فرمائے اوراپنے نیک بندوں میں شامل فرمائے۔ پسماندگان اور شاگردوں کو صبر جمیل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین، ثم آمین۔
اللھم اغفرلہ وارحمہ واعف عنہ وادخلہ الجنۃ بغیر حساب

سر پر رہے اے بیٹیو ہر آن ڈوپٹہشمشیر عالم مظاہری دربھنگوی

سر پر رہے اے بیٹیو ہر آن ڈوپٹہ
شمشیر عالم مظاہری دربھنگوی
امام جامع مسجد شاہ میاں روہوا ویشالی بہار
آج کل اسلام دشمن قوتوں نے عجیب پروپیگنڈہ شروع کر دیا ہے جس سے مسلمان عورتوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اسلام نے عورتوں پر بہت زیادہ پابندیاں لگا دی ہیں ہمارے معاشرے کی پڑھی لکھی مستورات خواتین اور بچیاں غلط فہمی کا شکار ہو جاتی ہیں اور وہ یہ سمجتی ہیں کہ شاید ہمارے جائز حقوق نہیں دیے گئے حالانکہ بات ہرگز ایسی نہیں ہے سب سے پہلی بات تو یہ کی جاتی ہے کہ اسلام نے پردے میں رہنے کا حکم دیا ہے جبکہ غیر مسلم معاشرہ میں عورت بے پردہ پھرتی ہے تو یہ بات سمجھنی بہت آسان ہے کہ عورت پردہ میں رہے تو اس کا فائدہ عورت کو بھی ہے مرد کو بھی 
کتاب اللہ کے بعد اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کا مطالعہ کریں تو آپ یقین کریں کہ پردہ کے بارے میں اس قدر احادیث ہیں کہ تعجب ہوتا ہے کہ بعض لوگ کیسے حضور  صلی اللہ وسلم کا نام بھی لیتے ہیں اور بے پردگی بھی کرتے ہیں عشق  کے دعوے بھی کرتے ہیں اور زمانہ سازی کے لئے بہو بیٹیوں کو عریانیت کی اجازت بھی دیتے ہیں بلکہ بعض تو نماز بھی پڑھتے ہیں حج بھی کرتے ہیں صدقہ خیرات بھی کرتے ہیں لیکن محض قدامت پرستی اور دقیانوسیت کے طعنوں سے بچنے کے لیے بے غیرتی بھی کرتے ہیں زمانۂ جاہلیت میں عورتوں کا دستور تھا کہ دوپٹوں سے اپنے سروں کو ڈھانک کر باقی دوپٹہ کمر پر ڈال لیتی تھیں مسلمان عورتوں کو حکم ہوا کہ اپنے دوپٹوں سے سر بھی ڈھانکیں اور گلے اور سینے پر ڈالے رہا کریں چونکہ صحابیات کے پاس مال و دولت کی اس قدر فراوانی نہ تھی کہ وہ نئے دوپٹے خریدتیں اس لیے انہوں نے اس حکم کو سن کر موٹی موٹی چادروں کے دوپٹے بنالیے اور ان سے اپنے گلوں اور سینوں کو بھی ڈھکنے لگی 
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (قال المرأ ۃ عورۃ) عورت سر تا پا پوشیدہ رہنے کے قابل ہے یعنی سر سے پاؤں تک عورت ستر ہے تو سر بھی ستر ہوا پس عورتیں ننگے سر نہ پھرا کریں کہ بے پردگی ہے (ترمذی)
کئی پردہ دار عورتیں برقع کے ساتھ باہر جاتی ہیں استانیہ اسکول جاتی ہیں جب گھر آتی ہیں تو ننگے سر گھر کا کام کاج کرتی ہیں اور ننگے سر پھرتی رہتی ہیں یہ حرام ہے سر چھپانے کی چیز ہے ستر ہے اسے مستور رکھا کریں گھر میں بھی ننگے سر نہ پھرا کریں یہ بات اکثر لڑکیوں اور عورتوں کے لئے سخت کوفت کا موجب ہے بڑی جانکاہ ہے جگر خراش ہے اور اس سے ان پر اتنا بوجھ ہوگا کہ گویا ان کے دل پر ایک پہاڑ پر لا کر رکھ دیا گیا ہے۔ یاد رکھیں اسلام اسی بات کا نام ہے کہ اپنے آپ کو اسلام کے حوالے کر دیا جائے اپنی خواہشات اور چاہت کو اسلام کے حکم کے آگے دبا دیا جائے نفس پر اسلام کے قانون اور حکم کا خنجر پھیر دیا جائے پھر مسلمان ہو سکتے ہیں جب اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ عورتیں ننگے سر نہ پھریں تو عورتوں کو خدا تعالی کا یہ حکم مان لینا چاہیے اللہ کے حکم کے آگے باتیں نہیں بنانا چاہیے اور نہ انہیں یہ حق حاصل ہے کہ وہ احکام الہی سے منہ پھیر یں یا بے اعتنائی برتیں اور پھر یہ عاجز انسان جو ہر وقت اس کے رحم و کرم پر زندہ ہے چلتا پھرتا ہے اور سانس لیتا ہے خدا تعالی کے آگے دم مارے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے حکم سے بولتے ہیں خدا کے احکام کا نور پھیلاتے ہیں ہر عورت مرد کو اس نور میں گام فرسا رہنا چاہیے
حجاب اور پردے کا مقصد یہ ہے کہ معاشرے کے اندر بےپردگی کے نتیجے میں جو فتنہ پیدا ہو سکتا ہے اس کا سد باب کیا جائے ۔ حجاب کا حکم اللہ تعالی نے قرآن کریم میں نازل فرمایا اور حضور صلی اللہ وسلم نے احادیث میں اس کی تفصیل بیان فرمائی اور ازواج مطہرات اور صحابیات نے اس حکم پر عمل کرکے دکھایا اب اہل مغرب نے یہ پروپیگنڈا شروع کر دیا کہ مسلمانوں نے عورتوں کے ساتھ بڑا ظالمانہ سلوک کیا ہے کہ ان کو گھروں میں بند کر دیا ان کے چہروں پر نقاب ڈال دی اور ان کو ایک کارٹون بنادیا تو کیا مغرب کے اس مذاق اور پروپیگنڈے کے نتیجے میں ہم اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ وسلم کے ان احکام کو چھوڑ دیں؟  یاد رکھیں جب تک خود ہمارے اپنے دلوں میں یہ ایمان اور اعتقاد پیدا نہ ہو کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ وسلم سے جو طریقہ سیکھا ہے وہی طریقہ برحق ہے کوئی مذاق اڑاتا ہے تو اڑایا کرے کوئی طعنے دیتا ہے تو دیا کرے یہ طعنے تو مسلمان کے گلے کا زیور ہیں انبیاء علیہم السلام جو اس دنیا میں تشریف لائے کیا انہوں نے کچھ کم طعنے سہے؟ جتنے انبیاء علیہم السلام اس دنیا میں تشریف لائے ان کو یہ طعنے دیئے گئے کہ یہ تو پسماندہ لوگ ہیں یہ قیانوس اور رجعت پسند ہیں یہ ہمیں زندگی کی راحتوں سے محروم کرنا چاہتے ہیں یہ سارے طعنے انبیاء کو دیے گئے اور ہم آپ جب مومن ہیں تو انبیاء کے وارث ہیں جس طرح وراثت میں اور چیزیں ملیں گی یہ طعنے بھی ملیں گے کیا ان طعنوں سے گھبرا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ کار کو چھوڑ دیں گے؟ اگر اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ وسلم پر ایمان ہے تو پھر ان طعنوں کو سننے کے لیے کمر کو مضبوط کر کے بیٹھنا ہوگا (اصلاحی خطبات) 
ام المومنین حضرت ام سلمہ کا بیان ہے کہ میں اور میمونہ دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھیں کہ اچانک عبداللہ بن ام مکتوم ( نابینا)  سامنے سے آ گئے اور رسول اللہ صلی اللہ وسلم کے پاس آنے لگے چونکہ عبداللہ نابینا تھے اس لئے ہم دونوں نے پردہ کرنے کا ارادہ نہیں کیا اور اسی طرح اپنی جگہ بیٹھی رہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ان سے پردہ کرو میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ وسلم کیا وہ نابینا نہیں ہیں؟ ہم کو تو وہ دیکھ نہیں رہے ہیں اس کے جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کیا تم دونوں بھی نابینا ہو؟ کیا تم ان کو دیکھ نہیں رہی ہو ؟ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عورتوں کو بھی جہاں تک ممکن ہوسکے مردوں پر نظر ڈالنے سے پرہیز کرنا چاہئے حضرت عبداللہ نابینا تھے پاکباز صحابی تھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دونوں بیویاں نہایت پاک دامن تھیں اس کے باوجود بھی آپ نے دونوں بیویوں کو حکم فرمایا کہ عبداللہ سے پردہ کریں یعنی ان پر نظر نہ ڈالیں اسلام میں مرد و زن کو حکم ہے کہ وہ اپنی نظروں کی حفاظت کریں تاک جھانک نہ کریں نگاہیں نیچی رکھیں تاکہ مرد اسے دیکھ ہی نہ سکے اگر عورتیں بے پردہ رہیں گی تو وہ صورتحال پیش آۓ گی جسے کسی دل جلے شاعر نے بیان کیا ہے 
سبھی مجھ کو کہتے ہیں نظریں نیچی رکھ اپنی
کوئی ان کو نہیں کہتا نہ نکلیں یوں بے حجاب ہوکر
آیات و احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ عورت سر سے لے کر پاؤں تک مستورہ ہے سارا جسم اس کا ستر ہے جسے ڈھانکنا ضروری ہے اب تو کئی عورتیں کہہ دیں گی کہ یہ پردہ تو پنجرہ ہے جس میں ہم کو قید کر دیا گیا ہے یاد رکھیں  کہ اللہ تعالی عورتوں کا خالق ہے وہ ان کی طبیعت مزاج اور جبلت کو خوب جانتا ہے اس نے اپنے علم اور حکمت سے عورتوں کے لیے یہ پردہ کا حکم نازل فرمایا ہے جو قرونِ اولیٰ کی عورتوں نے بسر و چشم قبول کیا اور دین اور دنیا کی خوبیاں اور بھلائیاں سمیٹ کر لے گئیں تاریخ ان کی روحوں پر تحسین اور آفرین کے پھول برساتی ہیں آج اگر عورتیں اپنی خواہش نفس اور ماحول کی کشش اور رواج اور فیشن کی نیلم پری کو خدا تعالی کے حکم کی چھری سے ذبح کر دیں اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے پردے کو اپنا لیں تو ان کے اولیاء اللہ ہونے میں کوئی شک نہیں ہوگا بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں شیطان مایوس ہو گیا تھا کہ اس کی پرستش کی جائے وحی کے نزول کے سامنے اس پر مردنی چھائی ہوئی تھی لیکن آج ابلیس مع اپنی ذریت کے ننگا ناچ رہا ہے تمام دنیا فسق و فجور اور بے حیائی سے بھری ہوئی ہے آج اگر عورتیں شرم و حیا کازلال پی کر پردہ قبول کرلیں تو فرشتے ان پر رحمتوں کے پھول برسائیں  اور حوروں کی عفت انہیں سلام کرے اور یہ اپنے لیے جنت کے دروازے کھلے پائیں 
سر پر رہے اے بیٹیو ہر آن ڈوپٹہ
ہے خانہ نشینوں کی حسیں شان دوپٹہ

حجاب پر سیاستمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

حجاب پر سیاست
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
مسلم لڑکیوں کے لیے حجاب کا استعمال اور پردہ ان کی تہذیب وثقافت ہی نہیں، دینی تقاضے کا حصہ ہے، حجاب اور اسکاف استعمال کرنے والی عورتیں سماج میں با وقار سمجھی جاتی ہیں، لیکن فرقہ پرست طاقتوں کو مسلم لڑکیوں کا حجاب میں آنا گوارہ نہیں ہے، وہ چاہتے ہیں کہ جس طرح وہ اپنی گھر کی عورتوں کو نیم عریاں رکھنا اور دیکھنا پسند کرتے ہیں ویسے ہی مسلم لڑکیوں کے دیدار سے بھی وہ اپنی آنکھیں سینکیں، یہ ایک نفسیاتی برائی ہے، جو انسان کوجسمانی تلذذ اور عیاشی کا خوگر بنا دیتا ہے، اسی لیے شریعت نے عورتوں کو پردہ کا حکم دیا ، تاکہ وہ غیرمردوں کی ہوس بھری نگاہوں سے محفوظ رہیں، کرناٹک اور ملک کی کئی ریاستوں میں حجاب پر سیاست شروع ہو گئی ہے، کرناٹک میں حجاب پہن کر کئی اسکول اور کالج میں داخلہ ممنوع قرار دے دیا گیا ہے، مسلم لڑکیاں احتجاج کر رہی ہیں، بھگوا بریگیڈ ان کے ساتھ بد تمیزی سے پیش آ رہا ہے، معاملہ عدالت میں ابھی زیر غور ہے، لیکن حجاب پر اس پابندی کی وجہ سے کرناٹک میں ہند ومسلم منافرت زوروں پر ہے ، اب یہ تحریک پورے کرناٹک میں پھیل گئی ہے، حالات اس قدر خطرناک ہو گیے ہیں کہ حکومت نے تین دنوں کے لیے تمام تعلیمی ادارے بندکر دیئے ہیں، عدالت میں سماعت چل رہی ہے، ابھی فیصلہ نہیں آیا ہے، لیکن عدالت نے اپنے تبصرے میں اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ حجاب مسلم لڑکیوں کا حق ہے اور ہم قرآن کو نہیں بدل سکتے ہیں، یہ سب اسکول یونیفارم کے لزوم کے نام پر کیا جا رہا ہے، لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ جب سکھ لڑکے پگڑی باندھ کر کلاس کر سکتے ہیں، تو مسلم لڑکیوں کا حجاب کیوں یونیفارم کے خلاف سمجھ میں آ رہا ہے۔

جمعرات, فروری 24, 2022

معراج کا پیغام : امت مسلمہ کے ناممفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

معراج کا پیغام : امت مسلمہ کے نام
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
طائف کی گلیوں سے اوباشوں کے پتھرکھا کھا کر ، لہولہان جسم اور رئیسوں کے طعن وتشنیع سن سن کر ٹوٹے ہوئے دل کے ساتھ لوٹتے ہوئے نبیٔ رحمت ﷺنے آسمان کی طرف باچشم نم دیکھا، اور زبان پر یہ کلمات جاری ہوئے : 
’’ الہی اپنی کمزوری ، بے سروسامانی اور لوگوں میں تحقیر کی بابت تیرے سامنے فریاد کرتا ہوں ، تو سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا، درماندہ اور عاجزوں کا مالک تو ہی ہے اور میرا مالک بھی تو ہی ہے، مجھے کس کے سپرد کیا جاتا ہے ۔کسی بیگانہ ترش کے یا اس دشمن کے جو کام پر قابو رکھتا ہے اگر مجھ پر تیرا غضب نہیں تو مجھے اس کی پرواہ نہیں ، لیکن تیری عافیت میرے لئے زیادہ وسیع ہے۔‘‘
زبان مبارک سے یہ کلمات نکل رہے تھے اور ادھر ملاء اعلی میں ہلچل مچی ہوئی تھی کہ آج  جو کچھ ہوا وہ چشم فلک نے کاہے کو دیکھا ہوگا، فرشتوں میںسرگوشیاں ہورہی ہیں کہ آخر جس کے صدقے میں کائنات بنی، اسے اور کتنے مظالم سہنے ہوں گے ، رب کائنات کو بھی اس کی فکر تھی، اس لئے خالق کائنات نے اس شکستہ دل کی دل جوئی کے لئے طائف سے واپسی کے بعد ایسا نسخہ تجویز کیا کہ عروج نسل انسانی کی انتہا ہوگئی ، زمان و مکان کے قیود وحدود اٹھالئے گئے ، تیز رفتار سواری براق فراہم کی گئی ، مسجداقصی میں سارے ابنیاء کی امامت کرائی گئی ، اور پھر اس جگہ لے جایا گیا؛ جہاں جاتے ہوئے جبرئیل کے بھی پر جلتے ہیں ،پھر قربت خداوندی کی وہ منزل بھی؛ آئی جس کے بارے میں قرآن کریم نے فکان قاب قوسین اوادنی کہہ کرسکوت اختیار کرلی ، ساتوں آسمانوں کی سیر ، جنت و جہنم کا معائنہ، ابنیاء کی ملاقاتیں ، اور پھر واپسی، کتنے گھنٹے لگے ؟ کیا تیز رفتاری تھی؟  سب کچھ رات کے ایک حصے میں ہوگیا ، اور صبح آپ ﷺ اپنے حجرہ ٔمبارکہ سے نکلے، اور لوگوں میں اس واقعہ کا اعلان کیا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تصدیق کرکے صدیق ہوگئے اور کئی نے تکذیب کرکے اپنی عاقبت خراب کرلی ، اور منافقین کے دل کی کدورتیں اور ایمان واسلام سے ان کی دوری، کھل کرسامنے آگئی ۔اللہ کے رسول ﷺ نے اس سفر میں، عالم قدس میں اپنی تمام قولی ، بدنی اور مالی عبادتوں کا نذرانہ پیش کیا ، اور اللہ رب العزت نے نبی کریم ﷺ پر ایسی سلامتی بھیجی، جومومنین کے نمازوں کا جز ہوگیا ، اللہ کے رسول ، اس اہم موقع سے اپنی امت کو کیسے بھول سکتے تھے ،فورا ہی اس سلامتی میں مومنین و صالحین کو شامل کرلیا اور اس پورے مکالمہ کا اختتام کلمۂ شہادت پر ہوا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد اللہ کے رسول ہیں ۔
تحفے نورانی اس سفر میں اور بھی ملے ، ایسے تحفے جس سے مومنین بھی معراج کا کیف وسرور پا سکتے ہیں یہ تحفہ نماز کا تھا ، پچاس وقت کی نماز تحفہ میں ملی، قربان جایئے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے، جنہوں نے بار بار بھیج کر تعدادکم کرائی اور بات پانچ پر آکر ٹھہری ، ثواب پچاس کا باقی رہا ، اور سب سے بڑی بات یہ کہ نبی ﷺ نے اعلان کیا کہ نماز مومنین کی معراج ہے ۔ہم واقعۂ معراج پر سر دھنتے ہیں ، دھننا چاہئے ۔لیکن اس واقعہ کا جو عظیم تحفہ ہے اس سے ہماری غفلت بھی لائق توجہ ہے ، معراج کے واقعہ کا بیان، سیرت پاک کا اہم واقعہ ہے، ہم اس کو سن کر خوب خوش ہوتے ہیں ، جلسے جلوس بھی منعقد کرتے ہیں اور اس خاص تحفہ نماز کو بھول جاتے ہیں جو ہمارے لئے آقا ﷺ لے کر آئے ، اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ جہاں ہمیں کچھ کرنانہیں ہوتا، وہاں ہم بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں ، اور جہاں کچھ کرنے کی بات آتی ہے ہم اپنی ذمہ داریوں کو بھول جاتے ہیں اور ان سے پہلو تہی کرتے ہیں اگر ایسا نہ ہو توہماری مسجدیں نمازیوں سے بھری رہیں گی اور رحمت ونصرت کی وہ پرُوائی چلے گی جو مصائب والم کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے جائے گی ۔
یہ حال تو ہمارا معراج کے اس تحفہ کے ساتھ ہے جس کا ذکر معراج سے متعلق گفتگو میں بار بارآتا رہتا ہے ۔ لیکن قرآن نے تو {فَاَوْحَی اِلیٰ عَبْدِہِ مَا اَوْحٰی}کہہ کر ہمیں بتایا کہ باتیں اور بھی ہیں اور سورہ اسریٰ ہی میں بارہ احکام کے ذکر کے بعد{ ذَالِکَ مِمَّا اَوْحَی اِلَیْکَ رَبُّکَ مِنَ الْحِکْمَۃِ} ( یہ تمام باتیں دانش مندی کی ان باتوں میں سے ہیں جو خدا نے آپ پر وحی کی ہیں ) کہہ کر واضح کردیا کہ’’ مااوحی‘‘ میں کیا کچھ تھا، آیئے ان احکامات پر بھی ہم ایک نظر ڈالتے چلیں ۔
۱۔سب سے پہلا حکم یہ دیا گیا کہ شرک نہ کرو: کیوں کہ یہ بڑا ظلم ہے ، وہ اللہ جو اس سارے کائنات کا خالق اورمالک ہے اس کے ذات وصفات میں کسی کو شریک کرنا شرک ہے ، اللہ اس بارے میں اتنا غیور ہے کہ اس نے اعلان کردیا ہے کہ وہ اس گناہ کو معاف نہیں کرے گا۔ {اِنَّ اللَّہَ لاَ یَغْفِرُاَنْ یُشْرَکَ بِہِ وَیَغْفِرُمَا دُوْنَ ذَالِکَ لِمَنْ یَشَائ}
۲۔ ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرو ان کی عزت واطاعت کرو ، اگر ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کو جھڑکنا تو بڑی بات ہے، اف تک نہ کہو ، اور ان سے ادب سے باتیں کیا کرو ، اور ان کے سامنے اپنے کندھے عاجزی اور نیاز مندی کے ساتھ جھکا دو ، اور ان کے لئے دعا بھی کرتے رہو کہ اے رب ان پر رحم کر جیسا کہ انہوں نے مجھے صغر سنی میں پا لا۔
واقعہ یہ ہے کہ اللہ رب العزت کی عبادت کے بعد والدین کی اطاعت سب سے اہم ہے اور جس طرح اللہ کا شکر ضروری ہے، اسی طرح والدین کا بھی شکرگذار ہونا چاہئے ، اس بارے میں احادیث بھری پڑی ہیں، لیکن ہم میں کتنے ہیں جو ان کا پاس و ادب قرآن کے مطلوب انداز میں کرتے ہیں حالانکہ مستدرک حاکم کی ایک روایت ہے کہ اللہ کی رضا باپ کی رضا میں ہے ، اور اللہ کی ناراضگی باپ کی ناراضگی میں ہے اور یہ معاملہ اتنا اہم ہے کہ حسن سلوک کے لئے ان کا مسلمان ہونا بھی ضروری نہیں ہے ۔
۳۔ حق داروں کے حق کی ادائیگی کرو :   والدین کے علاوہ بہت سے اعزو اقربائ، مسکین اور مسافر کے بھی حقوق ہم سے متعلق ہیں اور ہم ان کے ساتھ جو حسن سلوک کررہے ہیں یا کریں گے اصلا یہ ان کے حق کی ادائیگی ہے ان پر احسان نہیں ہے ۔
۴۔ فضول خرچی اور اسراف سے بچو : کسی گناہ کے کام میں اور بے موقع خرچ کرنے یا ضرورت سے زائد خرچ کرنے سے بھی منع کیا گیا ، اسی کے ساتھ یہ بھی حکم دیا گیا کہ اپنے ہاتھ بخالت کی وجہ سے گردن سے باندھ کرنہ رکھو ، اور نہ اس طرح کشادہ دست ہوجائو کہ فقر و فاقہ کی نوبت آجائے ،  خلاصہ یہ کہ افراط وتفریط سے بچتے ہوئے،اعتدال اور میانہ روی کی راہ اپنائو ۔
۵۔ مفلسی کے خوف سے اولاد کو قتل نہ کرو:    اس لئے کہ روزی ہم تم کوبھی دیتے ہیں ان کو بھی دیں گے ، ان کا مارنا بڑی خطا ہے دراصل اس حکم کا تعلق اللہ کی صفت رزاقیت سے جڑا ہوا ہے ، بچوں کو اس خوف سے ماردینا یا ایسی ترکیبیں کرنا جس سے ان کی ولادت ممکن نہ ہو ، اللہ کی صفت رزاقیت پر یقین کی کمی کا مظہر ہے ،جب اللہ کا اعلان ہے کہ روئے زمین پرجتنے جاندار ہیں سب کا رزق میرے ذمہ ہے ۔اورمیں رزق اس طرح دیتا ہوں جو بندہ کے وہم وگمان سے بھی بالاتر ہے۔اس صورت میں مفلسی کے خوف سے اولاد کا قتل کرنا، کس طرح جائز ہوسکتا ہے ۔
۶۔  زنا کے قریب مت جائو:  اس لئے کہ یہ بے حیائی کا کام ہے اور یہ پُرا راستہ ہے، حدیث میں ہے کہ زانی زنا کرتے وقت مسلمان نہیں رہتا ، ایمان اس کے قلب سے نکل جاتا ہے ،آج جس طرح فحاشی بے حیائی اور کثرتِ زنا کے واقعات پیش آرہے ہیں اس سے پورا معاشرہ فساد وبگاڑ میں مبتلا ہوگیا ہے، کاش اس حکم کی اہمیت کوہم سمجھتے۔
۷۔ ناحق کسی کی جان مت لو:   اس حکم کا خلاصہ یہ ہے کہ قتل ناحق حرام ہے ، اور یہ ایسا جرم عظیم ہے کہ اسے قرآن میں ساری انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیا گیا، اسی طرح اگر کسی نے ایک جان کو بچالیا تو گویا اس نے بنی نوع انسان کی جان بچالی ، اس حکم پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے آج بڑے پیمانے پر قتل وغارت گری کا بازار گرم ہے۔
۸۔ یتیم کے مال کے قریب مت جائو:  یتیم اپنی کمزوری اور کم سنی کی وجہ سے اپنے مال کی حفاظت نہیں کرسکتا ، اس لئے بہت سے لوگ اسے سہل الحصول سمجھ کر ہڑپ کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں ، اس حکم میں ہڑپ کرنے اور نائز جائز تصرف کرنے کا معاملہ تو کجا؟ اس کے قریب جانے اورپھٹکنے سے بھی منع کیا، کمزوروں کی اس قدر رعایت صرف اسلام کاحصہ ہے ۔
۹۔ اپنا عہد پورا کرو: معا ہدہ کی خلاف ورزی سے بچو، اس لئے کہ وعدوں کے بارے میں بھی پرشش ہوگی یعنی جس طرح قیامت میں فرائض واجبات کے بارے میں سوالات ہوں گے، ویسے ہی معاہدات کے بارے میں بھی سوال ہوگا ، عہد کے مفہوم میں وعدہ بھی شامل ہے اسی وعدہ خلافی کو حدیث میں عملی نفاق سے تعبیر کیا گیا ہے ۔
۱۰۔ ناپ تول میں پیمانہ اور ترازو کو ٹھیک رکھو :یعنی ڈنڈی نہ مارواورنہ کم ناپو، اس لیے کہ انجام کے اعتبار سے یہ اچھا اور بہتر ہے، اگر تم نے ناپ تول میں کمی کی تو جہنم کے’’ ویل‘‘ میں ڈالے جائو گے یہ تواخروی عذاب ہے، دنیاوی اعتبار سے پیمانے اور اوزان ٹھیک رکھنے کا فائدہ یہ ہوگا کہ تجارت میں برکت بھی ہوگی ۔کاروبار بھی خوب چمکے گا۔
۱۱۔ جس بات کی تحقیق نہ ہو اس پر عمل مت کرو: کیوں کہ کان، آنکھ ، اور دل سب کے بارے میں قیامت کے دن پوچھ گچھ ہوگی ، ہمارا حال یہ ہے کہ ایک بات سن لیا اور بغیرکسی تحقیق کے اسے دوسروں سے نقل کردیا ۔یا اگر کچھ فائدہ نظر آیا تو اپنی زندگی میں اتارلیا ،قرآن کریم کی ایک دوسری آیت میں خبر کی تحقیق کا حکم دیا گیا ہے کہ اگرتم بغیر تحقیق کے کام شروع کردوگے تو کبھی تمہیں ندامت کاسامنا کرنا پڑے گا، حضور ﷺ نے صاف لفظوں میں اعلان کیا کہ کفی بالمرء کذبا ان یحدث ماسمعہ کسی آدمی کے جھوٹا ہونے کے لئے یہ کافی ہے کہ اس نے جو سنا ہے وہ بیان کردے ، آج جب سنی ہوئی بات کو بغیر تحقیق کے نمک مرچ لگا کر بیان کرنے کا مزاج بن گیا ہے اورسنی سنائی باتوں پر عمل کی بنیاد رکھی جارہی ہے ۔ تو ہمیںدنیامیں ندامت کا سامناکرناپڑسکتا ہے اور آخرت کی رسوائی الگ ہے، جہاں مجرموں کے منہ پر مہر لگا دی جائے گی اور ان کے ہاتھ بولیں گے ، پائوں گواہی دیں گے کہ ان اعضاسے کیسے کیسے کام لئے گئے ۔
۱۲۔ اور آخری حکم اس سلسلے کا یہ ہے کہ زمین پر مغرور بن کر مت چلو :  اس لئے کہ تم اپنے اس عمل سے نہ تو زمین کی چھاتی پھاڑ سکتے ہو اور نہ پہاڑ کی چوٹی سر کرسکتے ہو ، گویا یہ ایک احمقانہ فعل ہے ۔ اور اس کے نتیجے میں پستی ذلت وخواری تمہارا مقدر ہے ، کیوں کہ قدرت کا اصول ہے کہ اکڑ کر نیچے آیا جاتا ہے اوپر نہیں ، اوپر جانے کے لئے جھک کر جانا ہوتا ہے جو کبر کی ضد ہے ۔آپ کو جب پہاڑ پر چڑھنا ہو تو جھک کر ہی چلنا ہوگا ، سائیکل اونچی سڑک پر چلا رہے ہوں یا پیدل ہی نیچے سے اوپر کو جارہے ہوں تو جھک کر چلنا ہوگا، ورنہ آپ الٹ کر کھائی میں جاگریں گے ، معلوم ہوا کہ اوپر جانے کے لئے جھکنا ہوتا ہے لیکن جب پہاڑ سے نیچے آنا ہو تو اکڑکر آنا ہوتا ہے اس لئے کہ اگر جھک کر آئے گا تو ڈھلک کر کھائی میں جا پڑے گا ۔ البتہ یہ جھکنا جاہ ومنصب اور کسی آدمی کے خوف سے نہ ہو بلکہ جھکنا صرف اللہ کے لئے ہو اسی کو اللہ کے رسول  ﷺ نے من تواضع للہ رفعہ اللہ سے تعبیر کیا ہے ۔
یہ ہے درحقیقت معراج کا پیغام اور تحفہ، جن پر عمل کرنے سے یہ دنیا جنت نشان ہوسکتی ہے آج ہم نے اس پیغام کو بھلا دیا ہے ، اور شب معراج کے ذکر سے اپنی محفل کو آباد کر رکھا ہے حالانکہ شب معراج تو ہمیشہ ہمیش کے لئے وہی ایک رات تھی جس میں آقا ﷺ معراج میں تشریف لے گئے تھے، قیامت تک کوئی دوسری رات شب معراج نہیں ہوسکتی ہے، وہ تاریخ آسکتی ہے، لیکن وہ نورانی رات پھر کبھی نہیں آئے گی، ہم نے بھی اپنی جہالت وغفلت سے کیسی کیسی اصطلاحیں وضع کر رکھی ہیں اللہ تعالی ہم سب کو شب معراج میں دیئے گئے پیغام کی اہمیت ومعنویت کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے ، آمین یا رب العلمین وصلی اللہ تعالی علی النبی الکریم وعلی الہ وصحبہ اجمعین

بدھ, فروری 23, 2022

داخل ہوجاؤاسلام میں پورے*ارریہ ضلع کی مسلم آبادی میں ایک چیز نئی نظر آرہی ہےجو سراسرجہالت پر مبنی ہے۔ افسوس تو اس بات پربھی ہے کہ یہ جہالت پڑھےلکھےلوگوں سے ہی سرزد ہورہی ہے

*داخل ہوجاؤاسلام میں پورے*
ارریہ ضلع کی مسلم آبادی میں ایک چیز نئی نظر آرہی ہےجو سراسرجہالت پر مبنی ہے۔ افسوس تو اس بات پربھی ہے کہ یہ جہالت پڑھےلکھےلوگوں سے ہی سرزد ہورہی ہے۔انٹلیکچول فیملی کےکچھ لوگوں نے اپنے بچوں کے لیے سال گرہ کے نام پرایک نئی تقریب کا اضافہ کرلیا ہے،دھوم دھام سےاس پروگرام کومناتے ہیں اور مبارکبادی کا گانا بھی اسمیں گاتے ہیں۔
ایک صاحب نے باضابطہ اپنے فیسبک آئی ڈی پرسالگرہ کے پروگرام کو شیئربھی کیا ہے۔دوستوں سے داد ودہش کے طالب بھی ہوئے ہیں، ایسا محسوس ہورہا ہے کہ موصوف نے ایک بڑاکارنامہ انجام دیا ہے،  اورقوم وملت پر احسان عظیم کیا ہے۔اسی لیےبڑے شوق سے اس بے بنیاد پروگرام کو پیش کررہے ہیں، اپنے لاڈلے کے سر پر ایک ہاتھ اونچی کیپ ڈالے ہوئے ہیں،سامنے ایک لمبی چوڑی کتاب جیسی چیز رکھی ہوئی ہے،ایسالگ رہا کہ ننھےمیاں ختم بخاری کرنے جارہے ہیں ،پھرغور سے  ہاتھ کی طرف نظر گئی ہےتو قلم کی جگہ ہاتھ میں ایک چھری ہے ،سامنے کتاب جگہ بخاری شریف نہیں ہے بلکہ کیک رکھا ہوا ہے، میاں بیدردی سےکاٹے جارہے ہیں،"بازو میں موم بتی بھی روشن کی گئی ہے۔ہیپی برتھ ڈے ٹو یو "موجود لوگ یہ ورد زورزورسےکررہے ہیں۔"نعوذ بالله من ذالك "
یہ کونسی تقریب ہے؟کم از کم ہمارے علاقے کی مسلم آبادی اس سے ناواقف رہی ہےاور نہ یہاں اس کا کوئی رواج رہا ہے۔افسوس کی بات ہے کہ خود کو تعلیم یافتہ کہنے والے لوگ اس صریح جہالت وبدعت کا مرتکب ہورہے ہیں۔یہ غیر شرعی عمل جس کی سنت وشریعت میں کوئی سند نہیں ہے اس کی تشہیر کا ذریعہ بھی بن رہے ہیں ۔یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ غیروں کا طریقہ ہے،مغربی ثقافت کی دین ہے،خاص دھرم کی پہچان ہے،اسے اپنارہے ہیں اور اپنے پیاروں کو اس کی تربیت دے رہے ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کچھ لوگ یہودیت چھوڑ کر مذہب اسلام میں داخل ہوئے،احکام اسلام کے ساتھ وہ تورات کے چند احکام کی بھی رعایت کرنا چاہتے تھے، بطور مثال سنیچر کے دن کی تعظیم وتکریم، اونٹ کے گوشت ودودھ کو حرام ماننا اور تورات کی تلاوت کرنا وغیرہ چنانچہ اس پر قرآن کریم کی یہ آیت نازل ہوئی کہ:اے ایمان والو داخل ہوجاؤ اسلام میں پورے اور مت چلو قدموں پر شیطان کے بیشک وہ تمہارا صریح دشمن ہے،(سورہ بقرہ:208)
یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ کے اس حکم کے بعد اس کی اگر کوئی مخالفت کرتا ہے تو وہ عذاب خداوندی کو دعوت دے رہا ہے۔
آج ملک میں جہاں اپنی بچیوں کو ہم مکمل حجاب میں داخل ہونے کی بات کہتے ہیں وہیں ہمیں پہلے پورے کے پورے اسلام میں داخل ہونے کی ضرورت ہے۔آج ہم عدالت کو اور حکومت کو اپنی بات سمجھانے کے بھی قابل نہیں رہے ہیں، وجہ صاف یہی ہے کہ ہم نے غیروں کا طریقہ بھی اپنی زندگی میں اپنا رکھا ہے اور معاملہ گڈ مڈ سا ہوگیا ہے۔
دھیرے دھیرے ہم اپنی شناخت اور پہچان سے بھی ہاتھ دھوتے جارہے ہیں، شاید یہی وجہ ہے کہ خدا ہمیں بچائے کہیں اس عذاب کے شکار تو نہیں ہوگئے ہیں کہ ہم پر اب زبردستی کی جارہی ہے اور ہماری شناخت کو ختم کرنے کی منظم کوشش شروع ہوگئی ہے۔ اقبال علیہ الرحمہ نے یہی بات کتنی خوبصورت انداز میں ہم تک پہونچادی ہے:
پانی پانی کرگئی مجھکو قلندر کی یہ بات 
تو جھکا جب غیر کے آگے نہ تن تیرا نہ من۔
ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ 
رابطہ، 9973722719

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...