Powered By Blogger

جمعرات, مارچ 17, 2022

جاپان میں زلزلے کے شدید جھٹکے بلٹ ٹرین پٹری سے اترگئ،٢٠لآکھ گھر بجلی سے محروم

جاپان میں زلزلے کے شدید جھٹکے بلٹ ٹرین پٹری سے اترگئ،٢٠لآکھ گھر بجلی سے محروم

ٹوکیو: جاپان کے کئی شہروں میں گزشتہ روز زلزلے کے شدید جھٹکے محسوس کئے گئے۔ زلزلے کے باعث 2 افراد ہلاک جبکہ 88 زخمی ہو گئے۔ زلزلے کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک بلٹ ٹرین پٹری سے اتر گئی۔ جاپان کے محکمہ موسمیات نے سونامی کی وارننگ جاری کر دی ہے۔

جاپان میں آنے والے اس زلزلہ کی شدت ریکٹر اسکیل پر 7.3 درج کی گئی ہے اور اس کا مرکز راجدھانی ٹوکیو سے 297 کلومیٹر شمال مغرب میں واقع تھا۔ جاپان کے محکمہ موسمیات کے مطابق زلزلے کا مرکز سمندر سے 60 کلومیٹر کی گہرائی میں تھا۔ زلزلے کے جھٹکے سب سے زیادہ میاگی اور فوکوشیما شہروں میں محسوس کئے گئے۔ دونوں صوبوں میں لوگوں سے ساحلی علاقوں سے دور رہنے کی اپیل کی گئی ہے۔ فوکوشیما میں ہی زلزلے سے دو افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔

جاپان کی بلٹ ٹرین آپریٹر کمپنی کے مطابق توہوکو میں بلٹ ٹرین پٹری سے اتر گئی۔ اس وقت ٹرین میں 100 مسافر سوار تھے۔ تاہم ان میں سے کوئی بھی زخمی نہیں ہوا۔ جاپان کی ایسٹ نیپون کمپنی کے مطابق کئی ایکسپریس ویز کو نقل و حرکت کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔ ان میں اوساکی میں توہوکو ایکسپریس وے، میاگی پری فیکچر اور سوما اور فوکوشیما کا جوبن ایکسپریس وے شامل ہیں۔

حکام کی جانب سے رہائشیوں کو آئندہ ہفتے کے دوران ممکنہ آفٹر شاکس سے خبردار کیا گیا ہے۔ حکام نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ خطرے والے مقامات اور کسی بھی منہدم عمارت سے دور رہیں۔

زلزلے کے جھٹکوں کے بعد جاپان کے دارالحکومت ٹوکیو کے 20 لاکھ گھروں میں اندھیرا چھا گیا۔ اے ایف پی نے ٹوکیو الیکٹرک پاور کمپنی کے حوالے سے بتایا ہے کہ جاپان میں زلزلے کے بعد ٹوکیو تاریکی میں ڈوب گیا۔ زلزلے کے ان جھٹکوں نے جاپان کے لوگوں کو 2011 کی یاد تازہ کر دی۔ 11 مارچ 2011 جاپان کے لیے بے مثال حادثے کا دن تھا۔ اس دن شمال مشرقی جاپان کے ساحل پر 9 شدت کا زلزلہ آیا جس سے سونامی آئی جس میں ہزاروں افراد ہلاک ہوئے۔ آج بھی جاپان اس حادثے سے سنبھل نہیں سکا ہے۔ ان زلزلوں کے آفٹر شاکس میں 18 ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے۔

اکیسویں صدی کے"ولی"کو میں نے کیسا دیکھا-ریحان غنی

اکیسویں صدی کے"ولی"کو میں نے کیسا دیکھا-
ریحان غنی
حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی علیہ رحمہ اکیسویں صدی کے ایک ایسے بزرگ تھے جن کی قیادت پر لوگوں کو بھروسہ تھااور جن کی لوگ دل سے قدر کرتے تھے کیوں کہ انہیں یقین تھا کہ یہ وہ شخضیت ہے جسے جرات و بےباکی ورثے میں ملی ہےاوروہ کسی بھی قیمت پر حالات سے سمجھوتہ نہیں کر سکتی۔ حقیقت یہ ہے کہ جب کسی قیادت پر لوگوں کا بھروسہ اس قدر مضبوط ہو جاتا ہے تو" لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا" کے مصداق حالات سازگار ہوتے جاتے ہیں اور راستے کی تمام رکاوٹیں دور ہوتی چلی جاتی ہیں۔ حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی علیہ رحمہ بڑے عالم دین تھے یا بڑے سیاسی مدبر یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے۔ یہ فیصلہ کرنا بھی مشکل ہے کہ ان کی مضبوط شناخت ایک ملی رہنما کی حیثیت سے زیادہ ہےیا ایک بے باک مقرر اور خطیب کی حیثیت سےزیادہ ہے.اسی طرح یہ یہ کہنا بھی مشکل ہے کہ وہ بڑے صحافی تھے یا بڑے مصلح قوم. لیکن یہ بات تو بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ قومی اور عالمی منظر نامے پر ان کی گہری نگاہ تھی۔ وہ طاقتور سے طاقتور حکمرانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر باتیں کرنا جانتے تھے. وہ چاہتے تھے کہ سیاسی تھپیڑوں سے مسلمانوں کوبچانے کے لئے انہیں ایک ایسا مضبوط پلیٹ فارم دیا جائے جو وقت آنے پر ان کے لئے ایک مضبوط ڈھال بن سکے۔

ان کی خواہش تھی کہ اس ملک میں ملت اسلامیہ کے افراد احساس کمتری سے نکل کر اپنا راستہ خود تلاش کریں اور عصری تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم مسلم لڑکے اور لڑکیاں پورے اسلامی تشخص کےساتھ تعلیم حاصل کریں؛ لیکن وہ مخلوط تعلیم کے شدید مخالف تھے.اسی لئے انہوں نے لڑکیوں اور لڑکوں کے لئے الگ الگ تعلیمی ادارے قائم کرنے کی ضرورت پر زور دیا. وہ مسلم دلت اتحادکے لئے بھی آخر وقت تک کوشاں رہے. عالم دین ہونے کی حیثیت سے انہوں نے کوشش کی کہ وہ جن اداروں سے بھی وابستہ ہیں وہ ادارے مثالی ہوں، ان کی اپنی شناخت ہو، ان اداروں کے کارکنان مخلص ایماندار اور محنتی ہوں، ان میں قوم و ملت کے لئے کچھ کر گذرنے کا جذبہ ہو. حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی علیہ رحمہ امارت شرعیہ بہار اڑیسہ اور جھارکھنڈ کے امیر َ، خانقاہ رحمانی مونگیر کے سجادہ نشیں، آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے جنرل سیکریٹری اور کئی دوسرے بڑے اداروں کے سربراہ تھے۔ ان کے کندھوں پر ذمہ داریوں کا زبردست بوجھ تھا.وہ باد مخالف میں چراغ روشن رکھنے کا فن جانتے تھے۔ وہ جن اداروں سے بھی وابستہ رہے انہیں مضبوط اور قوم وملت کے لئے مفید اور کارآمد بنایا. یہی وجہ تھی کہ جب انہوں نے"دین بچاؤ دیش بچاؤ" کا نعرہ دیا تو کیا امیر کیا غریب سب کے سب دیوانہ وار آن کی طرف دوڑ پڑے اور15اپریل 2018 کو پٹنہ کے گاندھی میدان کو بھر دیا.یہ وہ تاریخ ہے جسے دنیا ہمیشہ یاد رکھے گی۔ آزادی کے بعد گاندھی میدان میں لوگوں نے مسلمانوں کا اتنا بڑا اجتماع پہلی مرتبہ دیکھا تھا. اس دن ایک مجاہد کی حیثیت سے ہرکوئی اپنے دین اور ملک کوبچانے کے لئے ایک دوسرےپرسبقت لے جانا چاہتا تھا۔ یہ اسی "ولی" کی کرامَت تھی جو ہم سب سے3اپریل2021 کو ہمیشہ کے لئے جدا ہو گیا۔

حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی علیہ رحمہ اکیسویں صدی کے اوائل کے ایسے واحد عالم دین، ملی اور. مذہبی رہنما تھےجن کے لئے ملت اسلامیہ کے افراد نےان کی زندگی میں بھی دھوپ کی تمازت برداشت کی اور انتقال کے بعد بھی ان کے لئے چلچلاتی دھوپ میں گھنٹوں کھڑے رہے. وہ لوگ جنہوں نے 15 اپریل 2018 کو گاندھی میدان کا اورپھر 4اپریل2021 کومونگیر میں خانقاہ رحمانی کا منظر دیکھا ہے وہ میری اس بات کی تصدیق کریں گے۔
حقیقت یہ ہے کہ حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی علیہ رحمہ اکیسویں صدی کے ایسے عالم دین اور رہنما تھے جنہوں نے "خلوت یا حجرہ نشینی" کے بجائے" صحرا نوردی" کو ترجیح دی اور ہمیشہ "میدان عمل" میں دوسروں کے ساتھ کھڑے نظر آئے. انہوں نے آخر وقت تک اپنے کندھوں پر ذمہ دار یوں کا کبھی ختم نہ ہونے والا بوجھ اٹھانے رکھا. وہ ہمیشہ شجر سے پیوستہ رہے اور بہار کی آمید رکھی. مجھے یقین ہے کہ 15 اپریل 2018 کو" دین بچاؤ دیش بچاؤ کانفرنس " کا خاکہ بھی حضرت امیر شریعت علیہ رحمہ نے "پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ " کو سامنے رکھ کر ہی بنایا ہوگا لیکن وہ اس موقع پر ٹھیک اسی طرح سازش کے شکار ہو ئے جس طرح نبی آخرالزماں صل اللہ علیہ وسلم ایک موقع پر شکار ہوئے تھے اور انہیں مجبور ہو کر" قنوت نازلہ" پڑھنی پڑی تھی۔
حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی علیہ رحمہ کاہر معاملے میں اپنا نقطہ نظر تھا اور اپنی فکر تھی. وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت والی مرکزی حکومت نے 2020 میں نئی قومی تعلیمی پالیسی بنائی توحضرت امیر شریعت پہلے ملی رہنما اور عالم دین تھے جنہوں نے اس کا اردو میں ترجمہ کرایا تا کہ عام اردو داں اس سے واقف ہو سکے اوریہ سمجھ سکےکہ یہ اس کے لئے نقصان دہ ہے یا مفید۔ اس قومی تعلیمی پالیسی کے بارے میں ان کا مضبوط خیال یہ تھا کہ یہ پالیسی ملک میں ایک خاص فکر اور نظریے کے فروغ کے لئے بنائی گئی ہے جو سیکولر تانے بانے کو ملیا میٹ کر دے گی اور اس سے سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں کو ہوگا. انہوں نے اس خطرے کو پوری شدت سے محسوس کر لیاتھا کہ اس قومی تعلیمی پالیسی کے نفاذ سے سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں کے مذہبی تشخص کو پہنچے گا اور انہیں اپنے بچوں کو اپنی مذہبی اور ثقافتی شناخت برقرار رکھتے ہوئے جدید تعلیم حاصل کرنا مشکل ہو جائے گا. اس لئے انہوں نے مختلف طرح کے تعلیمی ادارے کھو لنے کی کوششیں تیز کردی تھیں َاور اس کے لئے تعلیمی بیداری مہم بھی شروع کر دی تھی. وہ چاہتے تھے کہ تمام اضلاع میں مسلمانوں کے اپنے معیاری تعلیمی ادارے ہوں جہاں بچے بچیاں پورے اسلامی تشخص کے ساتھ جدید تعلیم حاصل کر سکیں؛لیکن حضرت امیر شریعت کا یہ خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکا. امید ہے کہ امارت شرعیہ کی نئی قیادت اس طرف توجہ دے گی۔
حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی علیہ رحمہ کو اپنی مادری زبان سے بھی گہرالگاؤ تھا وہ سرکاری سطح پر اردو کے ساتھ ہونے والی نا انصافی سے بے چین ہو جایا کرتے تھے. وہ چاہتے تھے کہ اردو ہر سطح پر پھلے پھولے. شاید یہی وہ بے چینی تھی جس نے اردو کو "اردو کارواں" کی شکل میں ایک مضبوط پلیٹ فارم عطا کیا جس کے تحت اردو کے لئے لڑائی لڑی جا سکے. وہ نوجوانوں پر مشتمل ایک" اردو دستہ" بھی بنانا چاہتے تھے جو سڑکوں پر آ کر جمہوری طریقے سے اردو کے حقوق کی لڑائی لڑ سکے. امارت شرعیہ کی موجودہ قیادت کو حضرت امیر شریعت علیہ رحمہ کے خاکے میں رنگ بھرنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ حضرت امیر شریعت کی مغفرت فرمائے، ان کے درجات بلند کرے اور ان کی قربانیوں اورخدمات کو قبول فرمائے آمین۔

پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کے خلاف انوکھا احتجاج

پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کے خلاف انوکھا احتجاجحیدرآباد ۔ 17 ۔ مارچ : ( اردو دنیا نیوز۷۲ ) : ملک میں پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ ہوجانے اور مزید اضافہ کی قیاس آرائیوں کے بعد غریب و متوسط طبقہ کے افراد کافی پریشان ہیں اور گاڑیوں کے استعمال کے بجائے پبلک ٹرانسپورٹ کا استعمال کرنے یا متبادل سواری کا انتظام کرنے کی حکمت عملی تیار کررہے ہیں ۔ مہاراشٹرا میں واقع ایک کالج کے لیاب اسسٹنٹ نے منفرد انداز میں پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے اپنی بائیک کو گھر میں چھوڑ دیا اور گھوڑ سواری کرتے ہوئے کالج جارہا ہے ۔ جس کی ویڈیو سوشیل میڈیا میں تیزی سے وائرل ہوگئی ہے ۔ تفصیلات کے بموجب اورنگ آباد سے تعلق رکھنے والے شیخ یوسف نے لاک ڈاؤن کے دوران ' جگر ' نامی گھوڑے کو خریدا ۔ پٹرول کی قیمتیں سنچری پار کرلینے کے بعد اب گاڑی کے بجائے گھوڑے پر سوار ہو کر کالج جارہے ہیں ۔ جن کی ویڈیو کو اے این آئی نیوز ایجنسی نے ٹوئیٹر پر شیئر کیا ہے ۔ جو دیکھتے ہی دیکھتے وائرل ہوگئی ہے ۔ شیخ یوسف نے بتایا کہ گھوڑ سواری سے پٹرول کا خرچ بچ گیا ہے اور ان کی فٹنس بھی بہتر ہوگئی ہے ۔۔ ن

بدھ, مارچ 16, 2022

karnataka hijab حجاب پر ارشد مدنی کاردعمل بتایا فیصلہ اسلامی تعلیمات اور شرعی حکم کے مطابق نہیں

karnataka hijab حجاب پر ارشد مدنی کا
ردعمل بتایا فیصلہ اسلامی تعلیمات اور شرعی حکم کے مطابق نہیں
نئی دہلی: صدرجمعیۃعلماء ہند مولانا ارشدمدنی Syed Arshad Madni نے کرناٹک ہائی کورٹ کے حجاب karnataka hijab controversy کے سلسلہ میں دئے گئے فیصلہ پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کورٹ کا فیصلہ حجاب کے سلسلہ میں اسلامی تعلیمات اور شرعی حکم کے مطابق نہیں ہے، جو احکام فرض یا واجب ہوتے ہیں وہ ضروری ہوتے ہیں، ان کی خلاف ورزی کرنا گناہ ہے۔ اس لحاظ سے حجاب ایک ضروری حکم ہے۔ اگر کوئی اس پر عمل نہ کرے تو اسلام سے خارج نہیں ہوتاہے لیکن وہ گنہگار ہوکر اللہ کے عذاب اور جہنم کا مستحق ہوتا ہے ضرور ہوتا ہے۔ اس وجہ سے یہ کہنا پردہ اسلام کا لازمی جزنہیں ہے شرعاغلط ہے، یہ لوگ ضروری کامطلب یہ سمجھ رہے ہیں کہ جو آدمی اس کا حکم نہیں مانے گا، وہ اسلام سے خارج ہوجائے گا، حالانکہ ایسانہیں ہے۔ اگر واجب اورفرض ہے تو ضروری ہے اس کے نہ کرنے پر کل قیامت کے دن اللہ کے عذاب کا مستحق ہوگا۔ مولانا مدنی نے یہ بھی کہا کہ مسلمان اپنی کوتاہی اور غفلت کی وجہ سے نماز نہیں پڑھتے، روزہ نہیں رکھتے تواس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ نماز اور روزہ لازم اور ضروری نہیں ہے مولانا مدنی نے یہ بھی کہا کہ یونیفارم مقرر کرنے کا حق اسکولوں کی حدتک محدود ہے جو معاملہ ہائی کورٹ میں زیرسماعت تھا وہ اسکول کا نہیں کالج کا تھا۔ اس لئے ضابطہ کے مطابق کالج کو اپنی طرف سے یونیفارم نافذ کرنے کا حق نہیں ہے رہا دستوری مسئلہ تو اقلیتوں کے حقوق کے لئے دستورکے آرٹیکل 25اور اس کی ذیلی شقوں کے تحت جو اختیارات حاصل ہیں، وہ دستورمیں اس بات کی ضمانت دیتاہے کہ ملک کے ہر شہری کو مذہب کے مطابق عقیدہ رکھنے، مذہبی قوانین پر عمل کرنے اور عبادت کی مکمل آزادی ہے۔ یہ بھی پڑھیں: اویسی بولے: مسلمانوں کیلئے اللہ کا حکم ہے کہ وہ سختی سے نماز، حجاب، روزہ وغیرہ کی پیروی کرتے ہوئے تعلیم حاصل کریں لیکن اب لڑکیوں کو مجبور۔۔۔۔

ہندستان کی حکومت کا اپنا کوئی سرکاری ریاستی مذہب نہیں ہے لیکن یہ تمام شہریوں کو مکمل آزادی دیتاہے کہ وہ اپنے عقیدہ کے مطابق کسی بھی مذہب پرچلیں اورعبادت کریں۔ مولانا مدنی نے کہا کہ سیکولرازم کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کوئی فرد یا گروہ اپنی مذہبی پہچان ظاہر نہ کرے ہاں یہ بات سیکولرازم میں ضرورداخل ہے کہ حکومت کسی خاص مذہب کی پہچان کو تمام شہریوں پر مسلط نہ کرے حجاب ایک مذہبی فریضہ ہے جس کی بنیاد قرآن وسنت ہے وہی ہمارا فطری اورعقلی تقاضہ بھی ہے۔

منگل, مارچ 15, 2022

آگرہ: کالج انتظامیہ نے ڈریس کوڈ میں لائ سختی

آگرہ: کالج انتظامیہ نے ڈریس کوڈ میں لائ سختی 

ریاست اترپردیش کے شہر آگرہ کے گورنمنٹ انڈسٹریل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ (آئی ٹی آئی) کے طلباء کے ایک گروپ نے برقعہ پوش طلباء کے خلاف احتجاج میں طلباء کی طرف سے پہنے ہوئے بھگوا اسکارف کو ہٹانے کی ہدایات پر کیمپس میں ہنگامہ کھڑا کر دیا۔

انسٹی ٹیوٹ نے ایک نوٹس جاری کیا ہے، جس میں تمام طلباء کو ہدایت کی گئی ہے کہ 'صرف مقررہ ڈریس کوڈ میں آئیں، بصورت دیگر ان کی حاضری نہیں مانی جائے گی۔

 انسٹی ٹیوٹ کے پرنسپل نواب سنگھ نے کہا کہ طالب علموں کے لباس کے بارے میں اصول مقرر ہیں اور ہر کسی کو ان پر عمل کرنا چاہیے۔ یہاں تقریباً 1500 طلباء ہیں جن میں 200 لڑکیاں بھی شامل ہیں،ان میں سے 20 مسلمان  لڑکیاں ہیں۔

ایک سینئر فیکلٹی ممبر، ہریش چندر نے کہا کہ پیر کے روز، کچھ طالب علم اپنے گلے میں 'گمچھا' (اسکارف) پہن کر کالج آئے۔ جب اس سے اسے ہٹانے کے لیے کہا گیا تو اس نے کیمپس میں طالبات کے برقعہ پہننے پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا۔

اس نے پرنسپل کو 'ڈریس کوڈ کی خلاف ورزی' کے بارے میں آگاہ کیا، لیکن کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔

اس نے کہا کہ جب میں بھگوا گمچھا پہن کر انسٹی ٹیوٹ میں آیا تو اساتذہ نے اعتراض کیا اور مجھے اسے ہٹانے کو کہا۔ لیکن میں نے ان سے کہا کہ پہلے طلباء کو کیمپس میں برقعہ پہننے سے روکیں۔ انہوں نے مجھے یقین دلایا کہ ہر طالب علم اس کی پیروی کرے گا۔ ڈریس کوڈ کی پیروی کریں گے۔

عورتوں کے لئے تعلیم کا مسئلہ_____مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

عورتوں کے لئے تعلیم کا مسئلہ_____
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کوپیداکیا، اورمرد وعورت کی تخلیق کی، توالد وتناسل کاسلسلہ جاری کیا اورہر دوصنف (مردو عورت) کو اوصاف حمیدہ اور اخلاق حسنہ کے حصول کے یکساں مواقع عطا فرمائے اور اپنے جود وکرم ،بخشش وعطامیںکوئی تفریق نہیںکی اور دونوں کے لئے تعلیم کو ضروری قرار دیا،یہی وجہ ہے کہ عہدنبویؐ میں مردوں کے ساتھ عورتیں بھی تعلیم کے حصول میں کوشاں رہتی تھیں اور اس سلسلہ میں کسی قسم کی کمی کا انھیں احساس ہوتا تو دربار رسالت میں استفسار کرتیں اور تعلیم وتعلم کا کوئی موقع ضائع نہیں ہونے دیتیں۔بخاری شریف کی ایک حدیث سے جس کے راوی حضرت ابوسعید خدریؓ ہیں، نقل کرتے ہیں کہ ایک دفعہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس عورتوں کاایک وفد آیااور عرض کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مردعلم حاصل کرنے میںہم سے آگے بڑھ گئے ؛اس لیے آپؐ ہمارے لیے کوئی دن مخصوص فرمادیں۔چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن کا وعدہ فرمایا، اس دن آپؐ عورتوں کو نصیحت فرماتے، احکام الٰہی کی تعلیم دیتے، پھر عورتیںموقع بہ موقع حاضر ہوکر استفسارات کرتیں اور اپنے اشکالات دورکیاکرتیں ،مؤرخین اورسیرت نگاروں نے بہت ساری صحابیات کا تذکرہ کیا ہے، جن کا علم وفضل مسلّم تھا، خودام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ بڑی عالمہ، فاضلہ اور فقہ وفتاویٰ میں مجتہدانہ درک رکھتی تھیں، ان کی مرویات کی تعداد دوہزار دوسو دس ہے، کثرت روایت میں پورے ذخیرہ حدیث میں آپ کا نمبر چوتھاہے، عمر رضا کحالہ نے اعلام النساء کی پانچ ضخیم جلدوں میں خواتین کے علمی مقام اور ان کی خدمات کا تذکرہ کیاہے۔ سلطا ن محمد تغلق ۱۳۲۴ھ؁ تا ۱۳۵۱ھ؁ کے عہد میں مقریزی کی روایت ہے کہ تعلیم اس قدر عام تھی کہ کنیزیں تک حافظ قرآن اور عالم ہوتی تھیں۔
اور دور کیوں جائیے ماضی قریب میں حضرت مولانا ابوالحسن علی ندویؒ کی والدہ خیر النساء بہترؔ اوربہن امۃ اللہ تسنیمؔ کے علم وفضل کودیکھئے، شعروشاعری ،حدیث وقرآن کا اتنا اچھا علم، بہت سارے ان مردوں کوبھی نہیں ہے، جنھوں نے اسلامی جامعات میںتعلیم حاصل کی ہیں۔
اس طرح عورتوں کاتعلیم حاصل کرنااسلامی بھی ہے اوراسلاف کی روایات کے عین مطابق بھی، لیکن یہاں یہ سوا ل باقی رہ جاتا ہے کہ انھیں کیا پڑھایا جائے؟ اور کس طرح پڑھایا جائے ،کیا پڑھایاجائے کہ اس کا جواب یہ ہے کہ انھیں دینیات ،تہذیب نفس اور تدبیر منزل کی تعلیم تولازماً دینی چاہئے، دینیات سے انھیں معاشرت ،معاملات اور عبادات میں اسلامی طریقہ کار کا پتہ چلے گا،تہذیب نفس کی تعلیم سے ان میںاخلاق حسنہ پیدا ہوں گے اور تدبیر منزل سے واقفیت انھیں خانگی امور کے بحسن وخوبی انجام دینے میں معاون ہوگی، اس طرح وہ گھر کی چہاردیواری میں رہ کر بھی اپنے خاندان کی نگہداشت بچوں کی تعلیم وتربیت اور صالح معاشرہ کی تشکیل میں اپنی حصہ داری ادا کرسکیں گی۔
ان کے علاوہ کچھ علوم تووہ ہیں جن کی ضرورت عورتوں کوپڑتی ہے مثلاً طب ومیڈیکل سائنس ایسے علوم کا حاصل کرنا عورتوں کے لیے لازمی تو نہیں لیکن مستحسن ہے اس لیے کہ عورتوں میں میڈیکل سائنس کی تعلیم ہونے سے عورتیں اپنے امراض کے لیے زیادہ ان سے رجوع ہوں گی اوریہ مردوں کے ذریعہ تشخیص کرانے سے ان کے حق میں زیادہ بہتر ہے۔
بعض علوم ایسے ہیں جوعورتوں کے لیے زوائد کے درجہ میںہیں، جیسے انجینئرنگ ، پولٹیکل سائنس وغیرہ ان علوم کی سماج کوضرورت ہے،لیکن عورتوں کے ان علوم کے نہ پڑھنے سے سماج میں کوئی پریشانی نہیں پیدا ہوتی بلکہ مرد کا ان علوم کا پڑھنا اور سماجی ضروریات کی تکمیل کرنا کافی ہے۔
کس طرح پڑھایاجائے ، کا جواب یہ ہے کہ ان کے مخصوص تعلیمی ادارے ہوں، جہاں مرد وعورت کے اختلاط کا کسی درجہ میں امکان نہ ہو، آمد ورفت میں پردہ کا معقول نظم ہواور اس پر سختی سے عمل کیا جائے۔
آج سارا بگاڑ مخلوط تعلیم اور بے پردہ آمد ورفت کی وجہ سے پیداہوگیاہے، عصری درسگاہوں میں پڑھنے والی لڑکیوں نے اپنا حجاب اتار پھینکا ہے، اور مغرب کی فیشن پرستی نے انھیں اتنا بے لگام کردیاہے کہ ہر چیز میںانھیں مردو ں کی نقالی کی عادت سی پڑ گئی ہے، وہ خاتون خانہ کے بجائے سبھا کی پری ہونے میں فخر محسوس کرتی ہیں، اکبرالٰہ آبادی نے اسی صوت حال کو سامنے رکھ کر کہا تھا:
تعلیم عورتوں کی ضروری تو ہے مگر خاتون خانہ ہوں ، وہ سبھا کی پری نہ ہوں
آج جب کہ مدارس، اسکول اورجامعات کی بہتات ہے ، مسلمانوں کے ایسے کئی تعلیمی ادارے وجودمیں آگئے ہیں، جن میںلڑکیوںکی تعلیم کانظم اسلامی اصول کو سامنے رکھ کرکیاگیاہے،اب لڑکیاں عالمہ، فاضلہ بھی بن رہی ہیں ،اورعصری علوم میں دستر س بھی رکھ رہی ہیں۔
اس دور میں جبکہ ہر طرف لادینی ، مذہب بیزاری اورمادّیت کا غلبہ ہے، اورفضائوںمیں یہ افکار اس طرح رچ بس گئے ہیں کہ ہر وقت فضائی آلودگی کی طرح ان سے دل ودماغ کے متاثر ہونے کاخطرہ رہتاہے، تعلیم نسواں کی اہمیت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔ لیکن اس سے کہیں زیادہ اہم ان کی عفت وپاکدامنی کی حفاظت ہے ،ایسے میں ہمیں تعلیم نسواں کے سارے نظام کو ازسر نو ترتیب دینا ہوگا جس سے لادینی اور اخلاقی انارکی پر بند باندھا جاسکے، ایک نئی حکمت عملی اپنانی ہوگی جس سے ان کے سماجی شعور میں بیداری پیدا ہو اور انھیں اسلامی خد وخال کے موافق تبدیلی قبول کرنے پر آمادہ کیاجاسکے۔ ان کے اندر خدا پرستی کاجذبہ پیدا ہو، اور مادّیت کے اس دور میں وہ خود بھی روحانی قدروں کواپنائیں اوریہ صفت اگلی نسلوں تک منتقل کرسکیں۔ اگر ہم تعلیم نسواں کے میدان میں اپنے جدوجہد سے ایسا کرنے میں کامیاب ہوگئے تو سمجھئے کہ ہم نے آئندہ نسلوں تک دین کو اس کی اپنی اصلی شکل وصورت میں منتقل کرنے کاسامان کردیا۔ اورایک بڑی ذمہ داری سے ہم عہدہ برآ ہوسکے۔

پیر, مارچ 14, 2022

پے ٹی ایم کے بانی وجۓ شرما کی گرفتاری اور رہائی

پے ٹی ایم کے بانی وجۓ شرما کی گرفتاری اور رہائینئی دہلی: دہلی پولیس کے ایک افسر کی گاڑی کو ٹکر مارنے کے الزام میں گرفتار کئے گئے پے ٹی ایم کے بانی وجئے شیکھر شرما ضمانت پر رہا ہوگئے ہیں ۔دہلی پولیس نے اتوار کے روز بتایا کہ 22 فروری کو مالویہ نگر پولیس تھانے میں درج ایف آئی آر کے مطابق مسٹر شرما نے اپنی کار سے دہلی پولیس کے ایک افسر کی کار کو پیچھے سے ٹکر مار دی تھی ۔ اس واقعہ کے بعد میں مسٹر شرما موقع سے فرار ہو گئے تھے ۔ بعد میں انہیں پولیس نے گرفتار کر لیا تھا ۔مبینہ طور پر یہ حادثہ اروبندو مارگ پر واقع مدر انٹرنیشنل اسکول کے باہر پیش آیا۔ اس وقت جنوبی دہلی کے ڈپٹی کمشنر آف پولیس (ڈی سی پی) کے دفتر میں تعینات کانسٹیبل دیپک کمار پولیس افسران کی گاڑی چلا رہے تھے ۔ پولیس نے مسٹر کمار کی شکایت کی بنیاد پر مسٹر شرما کے خلاف لاپرواہی سے گاڑی چلانے کا معاملہ درج کیا تھا۔ پولیس نے بتایا کہ دوران جانچ پولیس افسر کی گاڑی کو ٹکرمانے والی کار کی شناخت کی گئی اور اس کے ڈرائیور مسٹر شرما کی شناخت کے بعد انہیں گرفتار کر لیا گیا ۔ بعد میں اسے ضمانت پر رہا کر دیا گیا ۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...