Powered By Blogger

پیر, مارچ 28, 2022

جب اسمبلی میں سی ایم یوگی اور اکھلیش یادو میں ہوا آمنا سامنا جانیں کیا ہوا

جب اسمبلی میں سی ایم یوگی اور اکھلیش یادو میں ہوا آمنا سامنا جانیں کیا ہوا

اتر پردیش اسمبلی انتخابات میں منتخب ہونے والے نو منتخب ایم ایل ایز کی حلف برداری کا پروگرام جاری ہے۔ وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ، نائب وزیر اعلیٰ برجیش پاٹھک، ایس پی صدر اکھلیش یادو اور تمام سینئر ایم ایل اے کو پروٹیم اسپیکر رماپتی شاستری کی حلف دلائی جا رہی ہے۔

سب سے پہلے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے ودھان سبھا میں قائد ایوان کے طور پر حلف لیا۔ وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی حلف برداری کے دوران ایوان جئے شری رام کے نعروں سے گونج اٹھا۔ اراکین اسمبلی اور وزراء نے وزیر اعلیٰ اور نائب وزیر اعلیٰ کو مبارکباد دی۔

اپوزیشن لیڈر اکھلیش یادو نے بھی اسمبلی میں ایوان کے ایم ایل اے کے طور پر حلف لیا۔ اکھلیش یادو پارٹی اور اپوزیشن کے ایم ایل ایز کا استقبال کرتے ہوئے حلف لینے پہنچے۔

اتر پردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے نومنتخب ممبران اسمبلی کی حلف برداری کے دوران اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اکھلیش یادو سے گرمجوشی سے ملاقات کی۔ دراصل، اکھلیش یادو کو دیکھ کر سی ایم یوگی مسکرائے اور ایک دوسرے سے ہاتھ ملایا۔ سی ایم یوگی نے بھی اکھلیش کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔

کرہل سے ایم ایل اے اکھلیش یادو کے بعد نو منتخب ممبر اسمبلی برجیش پاٹھک نے بھی لیڈر آف ہاؤس کے طور پر حلف لیا۔ اس کے بعد سابق وزیر اور بی جے پی اسپیکر کے امیدوار ستیش مہانا نے ایم ایل اے کے طور پر حلف لیا۔ اس کے بعد ڈپٹی سی ایم برجیش پاٹھک، بے بی رانی موریہ، راج بالا سنگھ، منوہر لال کوری، اوماشنکر سنگھ اور وجے لکشمی گوتم، جیویر سنگھ، دھرم پال سنگھ، نند گوپال گپتا نندی، یوگیندر اپادھیائے، نتن اگروال، انیل راج بھر، راکے سمیت کئی ایم ایل اے۔ سچن نے عہدے کا حلف لیا۔

یوپی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور سماج وادی پارٹی کے صدر اکھلیش یادو نے کہا کہ صرف بینچ بدلی ہے، میں اب اپوزیشن میں بیٹھوں گا۔ اپوزیشن حکومت کے احتساب کے لیے کام کرے گی اور اپوزیشن کا کردار مثبت ہوگا

سعودی عرب: اذان کے لیے لاؤڈ اسپیکر کی آواز دھیمی رکھنے کی ہدایت

 

سعودی عرب: اذان کے لیے لاؤڈ اسپیکر کی آواز دھیمی رکھنے کی ہدایت

ریاض : سعودی حکومت نے اذان کے لیے لاؤڈ اسپیکر کی آواز دھیمی رکھنے کی ہدایات جاری کر دیں۔

عرب میڈیا کے مطابق رمضان المبارک کے حوالے سے سعودی وزارت امور نے مساجد کو ہدایت نامہ جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مساجد میں آؤٹ ڈور لاؤڈ اسپیکر کا استعمال صرف اذان دینے یا اقامت پڑھنے تک محدود کیا جائے۔

جاری ہدایت نامے میں کہا گیا ہے کہ لاؤڈ اسپیکر پر ایمپلیفائر کا والیوم ایک تہائی سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے۔ عرب میڈیا کے مطابق رمضان کے دوران تمام میڈیا کو مساجد سے لائیو ٹرانسمیشن پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے جبکہ دوران نماز اماموں اور نمازیوں کی فلم بنانے کے لیے مساجد میں کیمروں کے استعمال پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔

ہدایات میں افطار پارٹیوں کا انعقاد کرنے والے پرائیویٹ گروپس اور افراد کو کھانے کی تقسیم میں فضول خرچی اور اسراف سے گریز کرتے ہوئے توثیق شدہ ضوابط پر عمل پیرا ہونے کا کہا گیا ہے۔


انسانوں کی تقسیم___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

انسانوں کی تقسیم___
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
    اللّٰہ رب العزت نے انسان کو قابل احترام واکرام بنایا ، اس کی شکل وصورت کو دوسری مخلوقات سے اتنا خوبصورت اور اتنا ممتاز کر دیا کہ جو دیکھے دیکھتا رہے ، کامنی کی مورت اور موہنی سی صورت ، یہ بھی بتایا کہ سارے انسان کا سلسلہ ایک آدم سے ملتا ہے، جو اس کائنات میں انسانوں کا باوا ہے اور آدم مٹی سے بنائے گیے تھے، ذات پات، اونچ نیچ، چھوٹ چھات کے لیے انسانی سماج میں گنجائش نہیں ہے ، اسلام کی یہ واضح تعلیمات اپنے کو بر تر سمجھنے اور دوسرے کو کم تر سمجھنے کی فطرت رکھنے والے بر ہمنوں کو پسند نہیں؛ کیوں کہ ان کے یہاں انسانوں کی درجہ بندی ہے، برہمن ، چھتری ، دیشن اور شودر، اس برہمنی تقسیم میں حکومت اور راج پاٹ کا سارا اختیار برہمن کو مل گیا اور سب سے کمزور پوری زندگی غلامی پر مامور شودر قرار پائے۔انہیں باور کرایا گیا کہ تمہاری پیدائش اسی لیے ہوئی ہے کہ تم ہماری غلامی کرو اور ہمارے گوموت کو صاف کرو، اس تقسیم کے نتیجے میں سماج کا یہ طبقہ جو پہلے شودر اور اب دلت اور ہریجن کہا جاتا ہے ، سماج سے کٹ کر رہ گیا اور وہ اچھوت قرار پایا ، وید اور پران کے اشلوک اس کے کان میں پڑ جانے پر شیشہ پگھلا کر ڈالا جاتا رہا ، اس کی ساری استعمال کی چیز ایسی نجس وناپاک قراردی گئیں جس کو بڑی ذات والے چھو بھی نہیں سکتے تھے، اس صورت حال نے ان کے اندر احساس کمتری پیدا کر دیا ، وہ دوسری ذات کے لوگوں کے سامنے گردن اٹھا کر چل نہیں سکتے تھے، جوتے پہن کر ان کے دروازوں سے گذر نہیں سکتے تھے، اچھی نوکریاں ان کے لیے دستیاب نہیں تھیں ،اس لیے معاشی طور پر بھی وہ مفلس وقلاش، دوسروں کے رحم وکرم پر اور دوسرے کے پھینکے ہوئے جوٹھے کھا کھا کر زندگی گذارتے رہے ، مسلمانوں میں اس فکر کے رواج پانے کی کوئی وجہ نہیں تھی ، لیکن ہم جس سماج میں رہتے ہیں، اس کے چاہے ان چاہے اثرات ہماری زندگی پر پڑتے ہیں ، اور ہم اس تہذیب وثقافت وکلچر کو اپنا لیتے ہیں ،مسلم سماج کے ساتھ بھی یہی ہوا ، اس نے ان چاہے ہندو سنسکرتی کو قبول کر لیا اور ان کے یہاں بھی اشراف وارذال کی تقسیم انسانوں کے درمیان ہو گئی ، کہیں زمین دار اور رعیت کی تقسیم ہوئی  ، کہیں ذات پات کی لعنت نے اپنے پاؤں جما لیے ، لسانی اور علاقائی عصبیت نے بھی بانٹنے کا کام کیا، اس طرح یہاں بھی چھوٹی ذات بڑی ذات کا غیر اسلامی تصور داخل ہو گیا ، آزادی کے بعد دستور میں ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر نے ہریجنوں اور دلتوں کے لیے رزرویشن پر زور دیا تا کہ وہ سماج کی میں اسٹریم مین شامل ہو جائیں؛ چونکہ ہمارے یہاں ذات پات کا تصور مذہبی طور پر نہیں تھا اس لیے مسلمانوں کو وہ سہولتیں ان دفعات کے تحت حاصل نہیں ہو سکیں، جو ہندوؤں کے یہاں اسی کام کے کرنے والے کو حاصل تھیں، سرکاری مفادات کے حصول کے لیے مسلمانوں نے بھی ذات پات کی بنیاد پر رزرویشن کا مطالبہ کیا ،جس میں کچھ کامیابی تو ملی؛ لیکن سماج میں اس بنیاد پر کھائی اور گہری ہو گئی ، لالو پرشاد یادو کے عہد حکومت میں اسے خوب ہوا دیا گیا اور ہر ذات کی الگ الگ ریلیوں کا انعقاد کیا گیا اس طرح ہر برادری کی تنظیم وجود میں آگئی ، مؤمن ، راعین ، حوارین ، کے نام پر تنظیمیں پہلے سے موجود تھیں؛ لیکن اب اس میں صدیقیین اور دوسری بڑی ذات سے متعلق لوگوں کی بھی تنظیم قائم ہو گئی ، اس صورت حال مسلمانوں کے درمیان آپسی رسہ کشی میں اضافہ ہوا اور ان خود ساختہ بنیادوں پر سیاسی سماجی اور معاشی مفاد کے حصول کی کوشش تیز تر ہو گئی ؛ حالانکہ اللّٰہ رب العزت نے قبائل اور خاندان کو صرف تعارف کا ذریعہ قرار دیا ہے ، اس بنیاد پر کوئی بھی شخص مکرم ومعظم نہیں ہو سکتا ، قابل احترام تو وہ ہے جو اللّٰہ سے زیادہ ڈرنے والا ہے یعنی بڑائی کی بنیاد تقویٰ ہے، نہ کہ ذات پات ، اسلامی صاف وشفاف تعلیمات یہی ہے کہ انسان ایک نفس سے پیدا ہوا ہے؛ اس لیے مندرجہ بالا بنیادوں پر انسانوں کی تقسیم کو کسی بھی درجے میں شرعی نہیں کہا جا سکتا ۔
اسلام کے اس تصور مساوات اور برابری کو کچھ لوگ یہ کہہ کر کمزور کرنا چاہتے ہیں کہ پھر شادی بیاہ میں کفو کی رعایت کا کیا مطلب ہے ، در اصل یہ اعتراض ایک غلط فہمی پر مبنی ہے کہ شریعت نے کفو میں رشتہ ضروری قرار دیا ہے ، حالانکہ ایسا نہیں ہے، کفاء ت اور برابری دین میں ہو یہ شرعی مطالبہ ہے؛ اسی لیے دین میں اختلاف ہونے کی صورت میں رشتہ ہو ہی نہیں سکتا ، بقیہ اور چیزیں جو اس نام پر رائج ہیں، وہ وقتی مصلحت کی بنیاد پر اپنے اپنے طور پر لوگوںنے رائج کر لیا ہے ۔ اصل کفو کا ترجمہ Maichingہے، دین میں Maichingقرآن کریم کا مطالبہ ہے ، بقیہ لڑکی کو حق ہے کہ وہ اپنی زندگی گذارنے کے لیے جن چیزوں میں برابری ضروری سمجھتی ہے، اسے دیکھ لے، کیا آپ کو یہ غیر فطری لگتا ہے کہ جب عورتیں ساڑی کے ساتھ بلاؤز ، چوڑی چپل بلکہ چھوٹے بچوں کے کپڑوں میں بھی Maichingدیکھتی ہیں ، تو جس کے ساتھ پوری زندگی گذارنی ہے اور خوش گوار زندگی کامدار جس پر ہے اس کا حق اس سے چھین لیا جائے، در اصل یہ کفائت رشتے کو مستحکم اور پائیدار بنانے کے لئے ہے، ایسا ہو سکتا ہے کہ ذات برادری،معیار زندگی، خاندانی وقار دونوں خاندان کا برابر ہو ، لیکن لڑکا کچے چمڑے کا کام کرتا ہو اور لڑکی عطر والے کی بیٹی ہو تو سب کچھ برابر ہونے کے با وجود ایک دوسرے کا کفو انہیں نہیں قرار دیا جاسکتا ، کیونکہ چمڑے کی بو کے ساتھ عطر کی خوشبو کا جوڑ نہیں ۔

اتوار, مارچ 27, 2022

صحافت ایک مشن ہے، اس کا سیدھا رشتہ سماج سے: وجے کمار چودھری

صحافت ایک مشن ہے، اس کا سیدھا رشتہ سماج سے: وجے کمار چودھری
بھارت کے تعمیر نو میں اردو اخبارات کا اہم رول : شرون کمار
 اردو پر ہی نہیں بلکہ سبھی زبانوں کے اخبارات کو بحران کا سامنا:شیوانند تیواری
اردو صحافت کے دوسو سال مکمل ہونے پر اردومیڈیافورم بہار کے زیراہتمام سیمینار، گفتگوو مشاعرہ کا انعقاد
پٹنہ،صحافت ایک مشن ہے یہ منافع خوری کی چیز نہیں ہے۔ اس کا رشتہ سیدھے سماج سے ہوتا ہے۔ عام لوگوں کا بھلا جس میں ہو، سماج کے مسئلہ کو حکومت کی دہلیز تک پہنچانے اور حکومت کی پالیسیوں کو عوام تک پہنچانے کا نام صحافت ہے۔ مذکورہ باتیں وزیرتعلیم جناب وجے کمار چودھری نے اردو صحافت کے دو سوسال مکمل ہونے کے موقع پر آج اردو میڈیا فورم کے زیراہتمام بہار اردو اکادمی میں منعقد عظیم الشان تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ وزیرموصوف نے کہا کہ صحافت میں غلط چیزوں کی مذمت ہونی چاہئے اور صحیح چیزوں کی ستائش ہونی چاہئے۔ اس سے سماج میں تبدیلی آتی ہے۔ آج سوشل میڈیا کے آجانے سے بڑا چیلنج پیدا ہوگیا ہے۔ کیونکہ صحافت صرف حقیقت بیان کرتا ہے اور وہ عوام کو ڈائرکشن بھی دیتا ہے کہ اب کیا ہونا چاہئے۔ جبکہ سوشل میڈیا بغیر تحقیق کے صرف انفارمیشن دینے کا کام کرتا ہے۔ جس سے کبھی کبھی حالات بگڑ جاتے ہیں۔ باتیں بگڑتی تب ہیں جب میڈیا اہل کار خبریں پہنچانا چھوڑ خبریں فروخت کرنا شروع کردیتے ہیں۔ اور جب آپ کا نشانہ فروخت کرنا ہوجائے تو وہ سیدھے منافع سے جڑ جاتا ہے جس سے خبریں پراگندہ ہوتی ہیں اور آج کل تو الیکٹرانک میڈیا پر باضابطہ دانشور حضرات اسپانسرڈ بحث کرتے ہیں۔ جس سے روشن خیال لوگوں کا نقصان ہوتا ہے انہوںنے کہا کہ آج جب اردو میڈیا فورم دوسوسالہ جشن اردو صحافت منارہی ہے تو میں یہ عرض کروں کہ آج سے دو سو سال قبل کلکتہ سے اردو کا پہلا اخبار جام جہاں نما نکلا تھا جس کے مدیر اور مالک ہریہردت اور سدا سکھ دونوں ہندوتھے۔ 
انہوں نے کہا کہ اخبار صرف اخبارنہیں ہوتابلکہ صحافت ادب کی بنیاد ہوتی ہے جو ادب تہذیب سے جڑ جائے وہ سماج کو روشنی دکھانے کا کام کرتی ہے۔ سماج جب بے سمت ہوجاتا ہے تو ادب اس کو راستہ دکھاتی ہے اور ادب کی بنیاد صحافت ہے۔ انہوںنے خورشید اکبر کے ایک سوال کے جواب میں کہاکہ یہ افواہ غلط ہے کہ ہائی اسکولوں سے اردو کی لازمیت ختم ہوگئی ہے اس لئے اردو کی لازمیت کو دوبارہ بحال کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ جس اسکول میں بھی اردو کے طلباءہوں گے وہاں اردو ٹیچر کو مامور کرنے کا کام کیا جائے گا۔ وزیرموصوف نے کہا کہ نتیش کمار حکومت اس ریاست کے عام لوگوں کی فلاح و بہبود کے لئے مسلسل کام کررہی ہے۔ اور ایمانداری سے کام کررہی ہے۔ خصوصا اقلیتی طبقہ کے مسائل کو حل کرنے کا بھی کام ہورہا ہے۔ باوجود اس کے اگر آپ لوگوںکو کسی بھی محکمہ سے شکایت ہے تو مجھ سے براہ راست مل کر مسائل رکھیں ۔ اس کا حل کیا جائے گا۔ 
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے دیہی ترقیات کے وزیرجناب شرون کمار نے کہا کہ بھارت کے تعمیر نو میں اردو اخبارات کا اہم رول رہا ہے۔ مولانا محمدعلی، جوہر، مولانا ابوالکلام آزاد، سر سیداحمد خان وغیرہ نے اپنے اخبارات کے ذریعہ آزادی کی جنگ لڑی اور عوام کو بیدار کیا۔ جس سے بھارت کو آزادی ملنے میں مدد ملی۔ انہوںنے کہا کہ جس طرح ہماری حکومت نے دیگر شعبوں میں کام کیا اسی طرح ہم لوگ اردو کی فلاح و بہبود کے لئے بھی کام کررہے ہیں۔ کیونکہ اردو بہت میٹھی اور شیریں زبان ہے۔ یہ ہندوستان کی زبان ہے بہار کے لوگ اپنی زبان سے بہت محبت کرتے ہیں۔بہار کی مٹی میں اتنی تاثیر ہے اگر بہار کے لوگوں کا امتحان آسمان پر بھی ہوجائے تو کامیاب ہو جائیں گے۔ انہوںنے کہا کہ وزیراعلی نتیش کمار صرف ووٹ کی سیاست نہیں کرتے وہ سب کو جوڑنے کا کام کرتے ہیں۔ اردو صحافت کے لئے جو لوگ بھی آگے چل رہے ہیں ان کے مسائل کو حل کیا جائے گا۔ 
راشٹریہ جنتا دل کے نائب صدر جناب شیوانند تیواری نے اپنے خطاب میں کہا کہ آج صرف اردو پر ہی نہیں بلکہ سبھی زبانوں کے اخبارات کو بحران کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ بد قسمتی سے اردو اور ہندی کا بٹوارہ ہوگیا ۔ اردو کو جب سے مسلمانوں کی زبان سمجھا جانے لگا۔ اسی وقت سے اردو صحافت بحران کا شکار ہوگئی۔ آج کل تو بہت سہولیات ہیں۔ لیکن ایک زمانہ تھا جب گاندھی جی چمپارن آئے تھے تو اس وقت خبروں کی ترسیل میں کافی دشواریاں تھیں۔ پھر بھی گاندھی کو گاندھی بنانے کا کام اردو صحافت نے کیا تھا۔ 
صدارتی خطبہ میں مفتی ثناءالہدی قاسمی نے کہا کہ اردومیڈیا فورم کی جانب سے دو سو سالہ جشن میں جو آوازیں اٹھی ہیں اسے حل کیا جائے گا۔ ہمیں خوشی ہے کہ فورم کی جانب سے جو آواز اٹھی ہے اس کو قبول کیا گیا۔ انہوںنے فورم کے تمام ارکان کا شکریہ ادا کیا کہ کورونا اور نامساعد حالات کے باوجود پروگرام کو منعقد کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ 
اردو میڈیافورم کے سرپرست اشرف فرید نے اردو صحافت کا منظرنامہ پیش کیا اور کہا کہ آج اردو اخبار نکالنا بہت ہی مشکل کام ہے ۔ اقتصادی پریشانیوں کی وجہ سے کئی اخبارات بند ہوگئے ہیں۔ لہذا انہوںنے اس جانب حکومت کی توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی۔ 
جلسہ کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا اور کنہہ مشق شاعر ناشاد اورنگ آبادی نے مہمانوں کے لئے استقبالیہ نظم پڑھی۔ نظامت کے فرائض اردو میڈیا فورم کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر ریحان غنی بحسن خوبی انجام دیتے ہوئے کہا کہ اگر اردو اخبارات میں بھی سلیقے سے رپورٹنگ کی جائے اور ایمانداری سے چیزیں رکھی جائیں تو حکومت کی توجہ مبذول ہوسکتی ہے۔ لہذا حکومت پر الزام لگانے کے بجائے ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنا ہوگا۔ انہوںنے اردو ، عربی ، فارسی کے پروفیسروں کی بحالی کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک اردو اخبار کی جو رپورٹنگ کی وجہ سے ممکن ہوئی۔ اس موقع پر صحافت پر ڈاکٹر ذاکر حسین کی ایک ضخیم کتاب کا اجراءکیا گیا۔
اس موقع پر شاعری اور اردو صحافت کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے پٹنہ کالج کے سابق پرنسپل پروفیسر اعجاز علی ارشد نے کہا کہ شاعری اور صحافت میں بے حد گہرا رشتہ ہے۔ اگر یہ دونوں جڑواں بہنیں نہیں ہیں تو سہیلی ضرور ہیں۔ اور دونوں ایک دوسرے کی معاون ہیں۔ اگر شاعر اپنی مقبولیت کے لئے اخبار کا سہارالیتا ہے تو وہ عوامی بن جاتا ہے اور اخبارات بھی شہرت کا سبب بنتے ہیں۔ 
تقریب سے خطاب کرنے والوں میں مولانا مظہرالحق عربی فارسی یونیورسٹی کے سابق پرووائس چانسلرپروفیسر توقیر عالم، معمر صحافی محمد مظاہرالدین ایڈوکیٹ کے نام قابل ذکر ہیں۔ 
شکریہ کی تجویز اردومیڈیا فورم کے سکریٹری ڈاکٹرانوارالہدی نے پیش کی۔ اس موقع پر اردو میڈیا فورم کے نائب صدر ڈاکٹر اظہاراحمد، ڈاکٹر سیدشہبازعالم،سکریٹری اسحاق اثر،کنوینر رابطہ کمیٹی نواب عتیق الزماں، ضیاءالحسن،میڈیا کمیٹی کے کنوینر ساجد پرویز، انواراللہ، مبین الہدی، جاوید احمدنے پروگرام کو کامیابی سے ہمکنار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
 پروگرام میں شرکت کرنے والی اہم شخصیتوں میں انوارالحسن وسطوی، کلیم اشرف، شہنواز عطا، آفتاب احمد، راجیش کمار، محمد حسنین، محمد نعمت اللہ، اشرف استھانوی، سید مسعودالرحمان، ڈاکٹر اسلم جاوداں، ڈاکٹر عبدالواحد انصار، ڈاکٹر مکرم حسین ندوی، ڈاکٹر اشرف النبی قیصر، شاہ فیض الرحمان، کاشف رضا، کاشف احمد، نوشاداحمد، وغیر ہ کے نام قابل ذکرہیں۔
دوسرے اجلاس میں مشاعرہ کا انعقادکیا گیا جس میںپروفیسر اعجاز علی ارشد، اثرفریدی، افتخار عاکف، ناشاد اورنگ آبادی، معصومہ خاتون، نکہت آرا ، معین گریڈیہوی، بے نام گیلانی ندیم جعفری، ڈاکٹر شمع یاسمین نازاں، ڈاکٹر نسیم فرحانہ نے اپنی شاعری پیش کی۔

وقار کی حفاظت ____مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

وقار کی حفاظت ____
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار اپنی سنجیدگی ، تحمل ، برداشت اور بُرد باری کے لیے مشہور ہیں، انہوں نے مختلف ذہنیت کے لوگوں کے ساتھ مل کر حکومت بنائی او راسے کامیابی کے ساتھ عرصہ سے چلا رہے ہیں، انہوں نے انتہائی جونیرتیجسوی یادو کو نائب وزیر اعلیٰ بنا کر بھی کام نکالا اور اب بھاجپا کے ساتھ مل کر بہار کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں، ہم نہیں کہہ سکتے کہ یہ اقتدار کی خواہش ہے یا بہار کی ضرورت ۔
 ان خصوصیات کے با وجود 14مارچ 2022کو وزیر اعلیٰ نے اپنا آپا کھو دیا اور اس بار وہ اسپیکر سے اسمبلی میں بھڑ گئے   ایک سوال کے جواب میں متعلقہ وزیر نے جو کچھ کہا اس سے اسپیکر مطمئن نہیں ہوئے ، معاملہ انہیں کے اسمبلی حلقہ کا تھا، انہوں نے جواب کے لیے اگلی تاریخ مقرر کر دی ، وزیر اعلیٰ اس وقت اسمبلی میں نہیں تھے، لیکن وہ کاروائی دیکھ رہے تھے ، انہوں نے اس کا نوٹس لیا اور انتہائی جذباتی ہو کر  اسمبلی حاضر ہوئے اور صدر نشیں (اسپیکر) پر برس پڑے، انہوں نے یہاں تک کہہ ڈالا کہ ’’سدن اس طرح نہیں چلے گا‘‘ انہوں نے اپنا وہ جملہ بھی دہرا یا کہ ہم کسی کو پھنساتے نہیں اور کسی کو بچاتے نہیں، یہ جن کا کام ہے وہ کر رہے ہیں، اسپیکر نے بار بار اپنی بات کہنی چاہی اور کہتے رہے کہ ’’آسن‘‘ کی بھی سنیے، لیکن وہ مسلسل بولے جاتے رہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اسمبلی میں صدر نشیں کی اس قدر بے عزتی پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی ، اس بات کا احساس وزیر اعلیٰ کو بھی ہوا اور صدر نشیں کو بھی ، وزیر اعلیٰ اس واقعہ کے بعد گورنر سے ملے او صدر نشیں اسمبلی کی کارروائی چلانے کے لیے اگلے دن حاضر نہیں ہوئے، یہ ان کی خفگی کا اظہار تھا، دوسرے دن بھی ہنگامہ کی وجہ سے کاروائی ملتوی کرنی پڑی۔
 اس سے قبل ایک بار اور وزیر اعلیٰ بے قابو ہو گیے تھے، موقع تیجسوی یادوکی تقریر پر اظہار خیال کا تھا، اس موقع سے پہلی بار اسمبلی نے وزیر اعلیٰ کو آپا کھوتے دیکھا تھا اور اسمبلی کے ارکان ہی نہیں ، میڈیا کے لوگ بھی انگشت بدنداں تھے کہ تیجسوی تو کل کا بچہ ہے ، آخر وزیر اعلیٰ کو کیا ہو گیا ہے ؟
 اسمبلی میں جو کچھ ہوا، بُرا ہوا، مسئلہ شخصی نہیں  ہے، شخصیتیں آتی جا تی رہتی ہیں ، مسئلہ عہدوں کے وقار کا ہے ، دائرے اور حدود کا ہے ، یہ دائرے ٹوٹ گیے او روقار کا لحاظ نہیں کیا گیا تو اسمبلی میں ارکان ہاتھا پائی او رکرسی میز الٹتے رہتے تھے ، اب صدر نشیں (اسپیکر) کی بھی کوئی نہیں سنے گا ، ایسے میں اسمبلی میں کارروائی چلانا مزید دشوار تر ہوجائے گا جو پہلے بھی کبھی آسان نہیں تھا۔

ہفتہ, مارچ 26, 2022

چھتیس گڑھ_بہار-جھارکھنڈ میں مدرسہ کے اساتذہ کو 4سال سے تنخواہ نہیں ملی،اقلیتی کمشن نے مرکز سے اپیل کی

چھتیس گڑھ_بہار-جھارکھنڈ میں مدرسہ کے اساتذہ کو 4سال سے تنخواہ نہیں ملی،اقلیتی کمشن نے مرکز سے اپیل کی

چھتیس گڑھ، بہار اور جھارکھنڈ میں مدرسہ کے اساتذہ کی تنخواہ پچھلے سال سے بقایا ہے۔ قومی اقلیتی کمیشن (این سی ایم) اس سلسلے میں مرکزی حکومت کو خط لکھے گا۔ این سی ایم کے رکن (قائم مقام صدر) سید شہزادی نے بتایا کہ انہوں نے اقلیتوں کی زمینی صورتحال جاننے کے لیے ان ریاستوں کا دورہ بھی کیا۔

شہزادی نے کہا، "ان ریاستوں میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ مدارس کے اساتذہ کو چار سال کی تنخواہ دینے سے انکار کیا گیا ہے۔ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ وزارت تعلیم کو ان کی 2018 تک کی ادائیگی کے اجراء کے حوالے سے ایک خط بھیجا گیا ہے۔ ہم نے فیصلہ کیا ہے۔ اساتذہ کو دوبارہ خط لکھیں تاکہ ان کی تنخواہ جلد مل جائے۔

این سی ایم ممبر نے کہا کہ اگر ان کی فلاح و بہبود کا کوئی مطالبہ پورا نہیں ہوتا ہے، تو ہم اس کے لیے حکومت کو باقاعدہ یاددہانی بھیجتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی یوپی کے رام پور میں مرکزی حکومت نے مدرسہ کے اساتذہ کو کچھ راحت دی ہے۔ تقریباً 200 اساتذہ کا اعزازیہ جاری کیا گیا ہے۔ ان کے کھاتوں میں رقم بھیجنے کا عمل شروع ہو گیا ہے۔

ضلع میں جدید کاری کے منصوبے میں 100 سے زائد مدارس شامل ہیں۔ مدارس میں جدید تعلیم کے لیے اساتذہ تعینات ہیں۔ لیکن اساتذہ کو تقریباً 53 ماہ سے اعزازیہ نہیں ملا۔ اس لیے مدارس میں جدید تعلیم دم توڑ رہی ہے۔ اساتذہ عرصہ دراز سے اعزازیہ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ مرکز نے ضلع کے 74 مدارس کے تقریباً 200 اساتذہ کو 2021-22 کے لیے مرکز کے حصہ کے 60 لاکھ روپے جاری کیے ہیں

ہم عصر شعری جہات___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

ہم عصر شعری جہات___
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
 بدر محمدی کے قلمی نام سے مشہور ڈاکٹر بدر الزماں (ولادت 2؍ نومبر1983) بن مرحوم ریاض علی ساکن چاند پور فتح ڈاک خانہ بریار پور ضلع ویشالی کا نام علمی ،ادبی وتنقیدی دنیا میں مشہور ومعروف ہے ، اکیسویں صدی کی دو دہائی کے درمیان ادب، شاعری اور تنقید وتبصرہ کے حوالہ سے جو چند نام ہمارے درمیان ابھر ے اور دیکھتے دیکھتے بساط علم وفن پر چھا گیے ان میں ایک نام بدر محمدی کا ہے ، ان کی غزلیات کا مجموعہ بنت فنون کا رشتہ 2011، تبصروں پرمشتمل امعان نظر 2015، غزلیات کا دوسر ا مجموعہ خوشبو کے حوالے 2017اور تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہم عصر شعری جہات 2021میں اشاعت پذیر ہوئے اور پذیرائی کی منزل طے کرنے میں کسی سے پیچھے نہیں رہے ، 2012میں بہار اردو اکیڈمی اور 2018میں اتر پردیش اکیڈمی نے انہیں ایوارڈ دے کر ان کی ادبی خدمات کا اعتراف کیا۔
’’ ہم عصر شعری جہات‘‘ ان کی تازہ ترین تصنیف ہے، جو ان کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے اورجس کا اجراء ملک کی ریاستوں کے کئی مرکزی شہروں میں ہوچکا ہے، مختلف شہروں میں اجراء کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ مصنف کو قارئین کی کمی کا شکوہ نہیں ہوتا، اور کتاب اہل علم تک پہونچ جاتی ہے ، صورت حال اس قدر نا گفتہ بہہ ہے کہ مطبوعہ اردو کتابوں کو مستحقین تک پہونچا دینا یہ بھی بڑا کام لگتا ہے، قیمت بھی وصول ہوجائے تو نور علی نور ۔
 ہم عصر شعری جہات کا انتساب مصنف نے ان بہی خواہوں کے نام کیا ہے جنہوں نے تنقید نگاری کی طرف بدر محمدی کو راغب کیا، دو سو سولہ (216)صفحات پر مشتمل اس مجموعہ میں چوبیس مضامین ہیں، جن میں سعید رحمانی کی حمدیہ سحر کاری ، فرحت حسین خوش دل کی دعائیہ نظمیں نویدی کی نثری نعتوں پر ایک نظر ، طالب القادری کی نعتیہ شاعری، ناوک حمزہ پوری کی نظمیہ رباعیات، حافظ کرناٹکی کی قطعات نگاری، روٹی جیسا چاند کا دوہانگار، ف،س اعجاز کی چند پابند نظمیں، عطا عابدی کی ’’زندگی زندگی اور زندگی، اندھیرے میں نور کی نظمیں، ظہیر صدیقی کا شاعرانہ اختصاص، شگفتہ سہسرامی کی شعری شگفتگی ، حمید ویشالوی بحیثیت استاذ شاعر، صبا نقوی کی شعری جمالیات ، ضیاء عظیم آبادی کی شاعرانہ ضیا پاشی، اوج ثریا کے شاعر کی زمینی وابستگی ، علیم الدین علیم کی غزلوں کا رنگ وآہنگ ، سائے ببول کے اور اظہر نیر ، لفظ لفظ آئینہ اور اس کی تصویریں ، تیکھے لہجے کا شاعر : ظفر صدیقی، اشرف یعقوبی کا شعری آہنگ ، منظور عادل کا سرمایہ سخن، مینو بخشی کی اردو شاعری کرب نا رسائی کی شاعرہ شہناز شازی کی شاعری اور کتابوں کا تفصیلی جائزہ لیا ہے اور شعر وادب میں شاعر وشاعرات اور ان کی کتابوں کے رنگ وآہنگ اور مقام ومرتبہ کے تعین کی کامیاب کوشش کی ہے ، ہمارے یہاں عموما تنقید نگار شاعر کی فکری جہتوں پر تو کلام کرتے ہیں، جو نسبتاً آسان کام ہے، لیکن فنی جہتوں پر گفتگو یا تو کم ہوتی ہے یا بالکل نہیں ہوتی ہے۔ بدر محمدی کی تنقیدوں میں بھی فنی جہتوں پر گفتگو کی کمی کھٹکتی ہے۔ بدر محمدی خود شاعر ہیں، ان کا مطالعہ وسیع ہے اس لیے وہ فنی جہتوں پر بھر پور گفتگو کی اہلیت رکھتے ہیں، لیکن بیش تر مضامین میں یہ ان چُھوارہ گیا  ہے ، حالاں کہ انہوں نے خود اپنی اس تنقید کو جمالیاتی تنقید قراردیا ہے اور لکھا ہے کہ ’’جس میں فنی حسن کو معیار قرار دیا جاتا ہے" ۔
کتاب کا آغاز جہت اول سے ہوتا ہے جس میں بدر محمدی نے اپنی تنقیدی نگارشا ت کے اختصاص ، تنقید وتخلیق کے باہمی رشتے اور شاعری کے حوالہ سے اچھی گفتگو کی ہے اس سے  وسعت مطالعہ اور اس میں گہرائی اور گیرائی کا پتہ چلتا ہے ، ڈاکٹر اسلم حنیف ، ڈاکٹر حقانی القاسمی، ڈاکٹر آفتاب عالم صدیقی نے علی الترتیب امتزاج پسند ناقد، بدر محمدی ، نقد شعر اور بدر محمدی ، مشکل راہوں کا مسافر۔ بدر محمدی کے عنوان سے مصنف کی تنقیدی بصیرت، ان کے تنقیدی طریقہ کار اور ان کی تجزیاتی صلاحیتوں کے در وبست پر روشنی ڈالی ہے ۔ ڈاکٹر اسلم حنیف گنور بدایوں لکھتے ہیں کہ ’’بدر محمدی کے یہاں شعری جمالیات کی تفہیم وانشراح کا توضیحی انداز غالب نظر آتا ہے ، اور وہ فن پاروں میں مضمر مختلف پہلوؤں کی گرفت کے ہنر سے آگاہ ہیں۔(صفحہ 14)  حقانی القاسمی نے لکھا ہے کہ ’’انہوں نے تحسین شعر یا تفہیم شعر میں مثبت اور صحت مند رویہ اختیار کیا ہے اس سے ایک ایسا معاصر شعری منظر نامہ ترتیب پاتا ہے جو ہماری تنقید کو ایک نیا آئینہ دکھاتا ہے ۔(صفحہ 25)ڈاکٹر آفتاب عالم صدیقی کی رائے ہے کہ ’’بدر محمدی تنقیدی زبان کے استعمال پر دسترس رکھتے ہیں، اور اپنی بات سلیقے سے کہنے کا ہنر جانتے ہیں۔ (صفحہ31)شفیع مشہدی نے لکھا ہے کہ بدر محمدی کے مضامین میں معروضیت بھی ہے اور دیانت بھی، اور پروفیسر نجم الہدیٰ سابق صدر شعبہ اردو بہار یونیورسیٹی مظفر پور نے لکھا ہے کہ بدر محمدی صرف لفظوں کے در وبست سے کام نہیں لیتے، فکر انگیزی اور قدر شناشی کی زیریں لہر ہر جگہ صاف نظر آتی ہے ۔‘‘
یہ کتاب قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی کے مالی تعاون سے چھپی ہے ، اس لیے اس کی قیمت صرف ایک سو اڑتیس روپے ہے ، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی معیاری طباعت اور عمدہ مارکیٹنگ کے لیے مشہور ہے ، یہ کتاب ہر اعتبار سے عمدہ چھپی ہے، کاغذ طباعت، سیٹنگ ، پروف ریڈنگ اور جلد سازی سبھی کچھ معیاری ہے، بک امپوریم سبزی باغ پٹنہ 4سے یہ کتاب مل سکتی ہے ۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...