Powered By Blogger

جمعرات, اپریل 07, 2022

مولانا ڈاکٹر اقبال نیر ؒمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

مولانا ڈاکٹر اقبال نیر ؒ
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
 امارت شرعیہ بہار اڈیشہ کی مجلس شوریٰ کے رکن، مدرسہ خیر العلوم بالو ماتھ ضلع لاتی ہار کے مہتمم ، جامعہ رشید العلوم چترا جھارکھنڈ کی مجلس شوریٰ کے صدر اور مؤطین کے استاذ، آل انڈیا ملی کونسل کے رکن، ماہر طبیب، مشہور داعی، نامور مقرر مولانا ڈاکٹر محمد اقبال نیر بن خورشید عالم (م ۱۹۹۲) بن محی الدین کا رانچی کے ایک ہوسپیٹل میں ۱۸؍ مارچ ۲۰۲۲ء مطابق ۱۴؍ شعبان ۱۴۴۳ھ شب جمعہ دو بجے انتقال ہو گیا، وہ بہت دنوں سے صاحب فراش تھے، برین ہیمریج کے پہلے حملے نے ایک طرف کے اعضا کو متاثر کیا تھا اور مفلوج سے ہو گیے تھے، ایک ہفتہ قبل دو بارہ برین ہیمریج ہوا، اسپتال لے جائے گئے، علاج پر بھر پور توجہ دی گئی، لیکن وہ اس دوسرے حملہ کی تاب نہ لاسکے اور داعی اجل کو لبیک کہا، ان کی نماز جنازہ ان کے بڑے صاحب زادہ حافظ الفاتح نے بعد نماز جمعہ کوئی ساڑھے تین بجے پڑھائی، اور مقامی قبرستان میں تدفین عمل میں آئی، پس ماندگان میں اہلیہ تین لڑکے اور پانچ لڑکیوں کو چھوڑا، ایک لڑکی اور دو لڑکے ابھی غیر شادی شدہ ہیں۔
 ڈاکٹر اقبال نیر صاحب کی ولادت ۱۹۵۸ء میں ان کے آبائی گاؤں بالو ماتھ موجودہ ضلع لا تی ہار میں ہوئی، ابتدائی تعلیم مقامی مکتب میں حاصل کرنے کے بعد وہ اپنی نانی ہال چترا آگیے، مولانا سراج رشیدی ان کے ناناتھے، انہوں نے جامعہ رشید العلوم چترا میں ان کا داخلہ کرا دیا، چنانچہ پوری دل جمعی کے ساتھ  متوسطات تک کی تعلیم یہیں حاصل کی ، وہاں سے مظاہر علوم سہارن پور تشریف لے گیے اور وہیں سے ۱۹۷۸ء میں سند فراغ حاصل کیا، ۱۹۷۹ء میں انہوں نے دار العلوم دیو بند کا رخ کیا اور طب کی تعلیم کے لیے دار العلوم کے طبیہ کالج میں داخلہ لیا اور یہاں سے چار سالہ طب کا کورس مکمل کیا اور ۱۹۸۲ء میں فراغت حاصل کی دار العلوم کے قیام کے آخری سال میں وہ سجاد لائبریری کے صدر منتخب ہوئے اور میںنے ان کے ساتھ ناظم کی حیثیت سے کام کیا، فراغت کے بعد وہ اپنے گاؤں بالو ماتھ لوٹ آئے اور یہاں اپنا مطب کھول کر مریضوں کی خدمت کرنے لگے، اللہ نے دست شفا دیا تھا اس لیے جلد ہی آپ کا شمار علاقہ کے بہترین ڈاکٹروں میں ہونے لگا، اس طرح خدمت کے ساتھ معاشی استحکام بھی حصے میں آگیا، ۱۹۸۳ء میں آپ نے چترا کی ایک یتیم بچی سے نکاح کرلیا، اورازدواجی زندگی سے وابستہ ہو گیے، ۱۹۸۴ء میں آپ مدرسہ خیر العلوم بالو ماتھ کے مہتمم منتخب ہوئے اور اپنی جد وجہد اور کامیاب قیادت سے اس مدرسہ کو ترقی کی طرف گامزن کیا، ہرجمعہ کو بالو ماتھ کی جامع مسجد میں آپ کا خطاب ہوتا، ڈاکٹر صاحب کے خطاب سے علاقہ میں اصلاح معاشرہ کا بڑا کام ہوا، انہوں نے جامع مسجد میں درس قرآن کا سلسلہ شروع کیا اور اسے پایۂ تکمیل تک پہونچا کر دم لیا۔ تزکیہ نفس کے لیے انہوں نے حضرت مولانا ابو الحسن علی ندوی ؒ کا ہاتھ تھاما تھا، ان کے بتائے ہوئے اوراد وظائف پر وہ سختی سے عامل تھے، صحت اچھی تھی تو اوراد واذکار کے ساتھ تلاوت قرآن اور نوافل نمازوں کا اہتمام بھی خوب کرتے تھے، ان کے اندرمسلکی شدت نہیں تھی، ان کی تقریریں طویل ہوتی تھیں، لیکن معلومات کی فراوانی، بولنے کے انداز، تجزیہ کی صلاحیت کی وجہ سے لوگ اُوبتے نہیں تھے، ان کے مطالعہ میں گہرائی اور گیرائی تھی ، ان کی مجلسی گفتگو زعفران زار ہوتی تھی،وہ اپنی بات کہنے کے عادی تھے، دوسروں کی بُرائی اور غیبت سے پر ہیز کرتے تھے۔انہوں نے اپنے علاقہ میں رجال سازی پر بھی توجہ دی اور مختلف میدان میں افرادِ کار تیار کیے۔
 تقریر کے ساتھ اللہ نے ا نہیں لکھنے کا بھی ملکہ عطا کیا تھا، مطب کی پیشہ وارانہ مشغولیت کے ساتھ انہوں نے تصنیف وتالیف کا کام بھی جاری رکھا، ان کی مشہور کتابوں میں سیرت سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت (مولانا ذو الفتار صاحب) کی یادیں، مولانا رحمت اللہ ؒ حالات زندگی کا شمار ہوتا ہے۔
 مولانا اقبال نیر مرحوم سے میری ملاقات دوران طالب علمی ہی سے تھی، مظاہر علوم سے فراغت کے بعد جب انہوں نے دیو بند کے طبیہ کالج میں داخل لیا تو ۱۹۸۱ء میں وہ سجاد لائبریری کے صدر منتخب ہوئے اور مجھے ناظم چنا گیا، یہ زمانہ دار العلوم کے طلبہ وانتظامیہ کے لیے آزمائش کا تھا، اس لیے بہت بڑے پیمانے پر کام کی شکل تو نہیں بن سکی، لیکن سجاد لائبریری کی سر گرمیوں کو باقی رکھنے کا کام ہم لوگوں نے کیا، اگلے سال وہ گھر لوٹ گیے اور میں ان کی جگہ سجاد لائبریری کا صدر چن لیا گیا اور سجاد لائبریری کے لیے زمین کی خریداری اور تعمیر کا کام میرے دور صدارت میں شروع ہوا۔
مولانا کو اللہ رب العزت نے علمی رسوخ، انتظامی صلاحیت کے ساتھ قدورقامت اور چہرے مہرے کے اعتبار سے بھی انتہائی وجیہ بنایا تھا، وہ بغیر کالر کا کرتا اور اس پر کرتے کے رنگ کی دیدہ زیب اور خوشنما صدری پہنا کرتے تھے، ٹوپی عموما کھڑی پٹی کی مخملی یا بال والی پہنتے ، بہت کم میں نے انہیں گول ٹوپی میں دیکھا، ڈاڑھی ہلکی اور بہت بڑی نہیں تھی، سفیدی آنے کے بعد لال مہندی کا خضاب ڈاڑھی اور سر کے بالوں میں لگا یا کرتے تھے، پیشانی کشادہ ، آنکھ بڑی اور چہرہ روشن تھا، کہنا چاہیے کہ وہ خوش خصال، خوش جمال اور خوش لباس تھے، بعض لوگوں کی رائے ہے کہ خوش خوراک بھی تھے۔
 دیو بند سے آنے کے بعد نہ جانے کتنی میٹنگوں اور جلسوں میں ہم لوگ ساتھ ساتھ رہے، امارت شرعیہ، آل انڈیا ملی کونسل اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی میٹنگوں میں بھی وہ مختلف حیثیت اور جہتوں سے شریک ہوتے اور ہر جگہ اپنی اصابت رائے کا نقش جمیل چھوڑتے ، وہ بات کے دھنی نہیں ، کام کے آدمی تھے، ملی سر گرمیوں میں وہ پیش پیش رہتے تھے، غریبوں کی مدد اور یتیموں کی کفالت کے سلسلے میں بھی وہ بہت حساس تھے، ان کا چلا جانا ملی اور علمی خسارہ ہے۔ اللہ رب العزت مرحوم کی مغفرت اور پس ماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین ۔ للہ ما اخذ ولہ ما اعطیٰ وکل شئی عندہ لاجل مسمیٰ

بدھ, اپریل 06, 2022

روزے کے آداب 1: ذوق و شوق اور ایمانی کیفیت کیساتھ روزہ رکھنا۔

روزے کے آداب 

 1: ذوق و شوق اور ایمانی کیفیت کیساتھ روزہ رکھنا۔ 
          روزے کے عظیم اجر اور عظیم فائدوں کو نگاہ میں رکھ کر پورے ذوق و شوق کے ساتھ روزہ رکھنے کا اہتمام کیجیے۔ یہ ایک ایسی عبادت ہے جس کا بدل کوئی دوسری عبادت نہیں ہوسکتی۔ یہی وجہ ہے کہ روزہ ہر امت پرفرض رہا ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:           
        ”ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے جس طرح تم سے پہلے کے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تا کہ تم متقی اور پرہیز گار بن جاؤ۔“(البقره ۱۸۳ )   
         نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے روزے کے اس عظیم مقصد کو یوں بیان فرمایا:
        ”جس شخص نے روزہ رکھ کر بھی جھوٹ بولنا اور جھوٹ پرعمل کرنا نہ چھوڑا تو خدا کو اس کے بھوکا اور پیاسا رہنے سے کوئی دلچسپی نہیں“۔ (بخاری)
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
         *”جس شخص نے ایمانی کیفیت اور احتساب کے ساتھ رمضان کا روزہ رکھا تو خدا اس کے ان گناہوں کو معاف فرما دے گا جو پہلے ہو چکے ہیں۔“* (بخاری)

*2: بغیر عذر شرعی کے روزہ نہ چھوڑنا:* 
            رمضان کے روزے پورے اہتمام کے ساتھ رکھیے اور کسی شدید بیماری با عذر شرعی کے بغیر کبھی روزہ نہ چھوڑیے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
          ”جس شخص نے کسی بیماری یا شرعی عذر کے بغیر رمضان کا ایک روزہ بھی چھوڑا تو عمر بھر کے روزے رکھنے سے بھی اس ایک روزے کی تلافی نہ ہو سکے گی۔“ (ترمذی) 

3: ریاکاری اور دکھاوے سے بچنا:     
             روزے میں ریا کاری اور دکھاوے سے بچنے کے لیے معمول کے مطابق ہشاش بشاش اور اپنے کاموں میں لگے رہیے اور اپنے انداز و اطوار سے روزے کی کمزوری اور سستی کا اظہار نہ کیجیے۔ حضرت ابو ہریرہ کا ارشاد ہے:   
         ”آدمی جب روزہ رکھے تو چاہیے کہ حسب معمول تیل لگائے کہ اس پر روزے کے اثرات نہ دکھائی دیں

منگل, اپریل 05, 2022

حرمین شریفین میں دس رکعت تراویح پر دارالعلوم دیوبند برہم

حرمین شریفین میں دس رکعت تراویح پر دارالعلوم دیوبند برہم 
سعودی حکومت سے سابقہ معمول کے مطالبہ سنت تراویح رائج رکھنے کامطالبہ، ملی تنظیموں سے سعودی سفارت خانے کو میمورنڈم بھیجنے کی اپیل 
دیوبند۔ ۵؍اپریل: (ایس چودھری) 

حرمین شریفین میں نماز تراویح کی 20؍رکعات کے بجائے 10؍رکعات تراویح باجماعت پڑھائے جانے پر عالم اسلام کی ممتاز دینی درسگاہ دارالعلو م دیوبند نے تشویش کا اظہار کیاہے اور کہاکہ اب پوری دنیا سے کووڈ کا بحران ختم ہونے کے ساتھ سعودی عرب میں بھی تمام پابندیاں ختم کی جاچکی ہیں لیکن اس کے باوجود حرمین شریفین میں 20؍رکعات نماز تراویح کے بجائے 10؍رکعات باجماعت پڑھایا جانا پورے عالم اسلام کے لئے نہایت فکر مندی کی بات ہے ۔دارالعلوم دیوبند نے سعودی عرب حکومت سے فوری طور پر سابقہ معمول کے مطابق حرمین شریفین میں 20؍رکعات نماز تراویح باجماعت ادا کرائے جانے مطالبہ کیاہے۔دارالعلوم دیوبند کے قائم مقام مہتمم مولانا عبد الخالق مدراسی نے جاری بیان میں کہاکہ دارلعلوم دیوبند اس بات سے فکر مند اور برہم ہے کہ حرمین شریفین میں نماز تراویح کی 20؍رکعات کے بجائے 10؍رکعات باجماعت پڑھائی جارہی ہیں۔مولانا عبد الخالق مدراسی نے کہا ہے کہ حرمین شریفین عالم کے تمام مسلمانوں کا مرکز محبت وعقیدت ہے،ان مقامات مقدسہ میں ہمیشہ سے باجماعت نماز تراویح 20؍رکعات ہوتی رہی ہیں،حکومت سعودی عربیہ نے گذشتہ دو برسوں میں کووڈ بحران کے حوالہ سے رکعات کی تعداد میں تخفیف کی اور محض 10؍رکعات نماز تراویح پر اکتفا کیا،اس وقت بھی دارالعلوم دیوبند نے اس سلسلہ میں ایک مکتوب مورخہ 28؍اپریل 2021؁ء کو بھی حکومت سعودی عربیہ کو ارسال کیا تھا جس میں مذکورہ تخفیف کو ختم کرنے کی اپیل کی گئی تھی۔الحمد للہ! اب ساری دنیا کووڈ بحران سے نکل چکی ہے،ہر جگہ پابندیاں اور تحدیدات کا سلسلہ ختم ہوتا جارہا ہے،سعودی عربیہ میں بھی کووڈ کی تمام پابندیاںختم کی جارہی ہیں اس کے باوجود حرمین شریفین میں20؍رکعات تعامل کے بجائے 10؍رکعات نماز تراویح پڑھائی جانے کا سلسلہ جاری ہے جو بلاشبہ سوہانِ روح ہے،حرمین شریفین میں دیگر حق پرست مسالک اور مکاتب فکر کا خیال رکھنا اور صرف کسی ایک سخت رخ پر عمل پیرا ہونا کسی بھی طرح مناسب نہیں ہے،اسلئے ہم سعودی حکومت سے اپیل کرتے ہیں کہ سابقہ معمول کے مطابق حرمین میں 20؍رکعات نماز تراویح کی سنت کو فوری طور پر جاری کرے،چونکہ سعودی حکومت کے اس نار واطرز عمل سے بر صغیر ہندو پاک اور دنیا کے بہت سے زائرین کو ذہنی اذیت کاسامنا ہے اسلئے بعجلت ممکنہ اس جانب توجہ دی جائے۔مولانا عبد الخالق مدراسی نے دیگر ملی تنظیموں کو بھی اس مسئلہ کی جانب توجہ دلاتے ہوئے کہا ہے کہ سعودی سفارتخانہ کے ذریعہ حکومت سعودی عربیہ کو اس بابت میمورنڈم بھیجے جائیں۔

عیادت: ہم دردی ، غم گساری اور دل جوئی کا نبوی طریقہ

عیادت: ہم دردی ، غم گساری اور دل جوئی کا نبوی طریقہ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
صحت انسانی زندگی کے لیے  اللہ کی بڑی نعمتوں میں سے ایک ہے ،اس پر جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہے لیکن صحت ہمیشہ نہیں رہتی زندگی میں بہت بار آدمی بیمار ہو تا ہے ۔دردوالم کی کیفیت سے گذرتا ہے اور صبر کرتا ہے ۔وہ سوچتا ہے کہ اللہ رب العزت نے بیشتر ایام صحت کے ساتھ رکھا تو اس کا شکر تو ادا نہیں ہو پایا ،اب چند ایام بیماری کے ہیں تو کیوں شکوہ کناں رہوں،یہ احساس اس کے اندر برداشت کی غیر مرئی قوت پیدا کرتا ہے ، اس کی وجہ سے اس کے لیے دکھ اور تکلیف کا بر داشت کرنا آسان ہو جاتا ہے ،بیماری میں پریشانی اور غم کو کم کر نے ،ہمدردی غمگساری اور دلجوئی کا نبوی طریقہ عیادت ہے اسی لیے بیماری چھوٹی ہو یا بڑی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عیادت کا حکم دیا ۔ اور اس کے فضائل کثرت سے بیان کیے اور اسے اللہ کی رضا اور جنت کے حصول کا ذریعہ اور جہنم سے بُعد اور دوری کا سبب قرار دیا ، بخاری ، مسلم، ترمذی، ابو داؤد وغیرہ میں بہت ساری صحیح روایات موجود ہیں، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مریض کی عیادت کا بڑا ثواب ہے ، بعض روایتوں میں اسے ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر حق قرار دیا گیا ہے ، ایک روایت میں اسے قرب خدا وندی کا ذریعہ بتا یا گیا ، یہ قرب خداوندی اسی وقت حاصل ہوگی، جب عیادت صرف اللہ کی رضا اور خوشنودی کے حصول کے لیے کی جائے، کوئی دنیاوی غرض اس میں پوشیدہ نہ ہو، عیادت کرنے والا اس خوف سے عیادت نہ کررہا ہو کہ اگر عیادت نہیں کیا تو لوگ کیا کہیں گے ، اس سلسلے میں ایک روایت حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے مروی ہے،جسے ترمذی نے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشا د فرمایا کہ جو مسلمان کسی مسلمان بھائی کی عیادت کے لیے صبح کو جاتا ہے تو ستر (۷۰) ہزار فرشتے شام تک اس کے حق میں رحمت کی دعائیں کرتے ہیں، اور جنت میں عیادت کرنے والوں کے لیے ایک باغ اس پر مستزاد ہوگا، حضرت ثوبان ؒ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بھی نقل کرتے ہیں کہ جب مسلمان اپنے مسلمان بھائی کی عیادت او رمزاج پرسی کرتا ہے تو واپسی تک جنت کے باغوں اور پھلوں کے درمیان رہتا ہے ، یہ روایت صحیح مسلم شریف میں موجود ہے ، خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول مریضوں کی عیادت کرنے کا تھا، حضرت جابر بن عبد اللہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں بیمار ہو گیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابو بکر صدیق ؓ میری عیادت کے لیے تشریف لائے، اس وقت مجھ پر غشی طاری تھی ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور وضو کے بچے ہوئے پانی سے میرے اوپرچھینٹیں ماری تو مجھے ہوش آگیا ، ان روایتوں کی بنیاد پر علماء نے عیادت کو سنت قرار دیا ہے ، کیوں کہ عیادت کی فضیلت پر قولی وفعلی احادیث کثرت سے آئی ہیں۔
حدیث قدسی ہے کہ اللہ پوچھیں گے کہ تم نے میری عیادت نہیں کی ، بندہ کہے گا کہ یا اللہ تجھے عیادت کی کیا ضرورت ہے تو ان چیزون سے بے نیاز ہے ، اللہ کہیں گے کہ میرا فلاں بندہ بیمار تھا تو نے اس کی عیادت اور مزاج پرسی نہیں کی ، اگر تو اس بندہ کی عیادت کرتا تو تُو مجھے اس کے قریب پاتا، اس روایت سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ بیماری کی حالت میں بندہ اللہ سے قریب ہوتا ہے اور وہ اپنے مرض کی شدت پر جو صبر کرتا ہے اور صحت کی حالت پر جو شکر ادا کرتا ہے اس کی وجہ سے اسے اللہ کی قربت حاصل ہوتی ہے ، اسی لیے بعض روایتوں میں مریض کی دعاکے مقبول ہونے کی بات بھی کہی گئی ہے ، ظاہر ہے اس کی وجہ قربت خدا وندی ہی ہے ۔
یہاں یہ بات بھی ذہن نشیں رہنی چاہئے  کہ اسلام میں عیادت کی بنیاد مذہبی نہیں، انسانی ہے ، اس لیے مریض کسی بھی مذہب کا ماننے والا ہو اس کی عیادت کرنی چاہیے تاکہ اس کے دل میں اسلام کی عظمت جاگزیں ہو اور مسلمانوں سے نفرت کا احساس کم ہو سکے ، جو بعض داخلی اور خارجی وجوہات کی وجہ سے اس کے دل ودماغ اور سوچ وفکر کا خاص طور پر حصہ بن گیے ہیں، مشہور روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بڑھیا کی عیادت کی جو آپ کے جسم اطہر پر گرد وغبار ڈالا کرتی تھی اور راستے میں کانٹے بچھاتی تھی۔ آج کے نفرت کے اس ماحول میں غیر مذاہب والوں کی عیادت کی اہمیت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے ۔
 ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ہم دوسرے اعمال کی طرح اس کام میں بھی انتہائی کاہل اور سست واقع ہوئے ہیں، ہمارے پڑوس میں ہمارا بھائی رہتا ہے ، لیکن ہم اس بیمار بھائی اور پڑوسی کی عیادت کے لیے حاضر نہیں ہو پاتے ، حا کموں کا حال ما تحتوں کے سلسے میں آقا کا حال نوکر اور مزدورں کے سلسلے میں تو اور بھی نا گفتہ بہہ ہے ، انہیں فون پر دریافت حال کی بھی فرصت نہیں ہوتی ، اس سے مستثنی صرف اپنے بیوی بچے ہو تے ہیں ذرا سی چھینک آن پڑی اور سر درد کی خبر آئی نہیں کہ ہم بے چین ہو اٹھتے ہیں،لیکن دوسرے کہ جاں بلب ہو نے کی خبر پر بھی ہمارے جسم پر جوں تک نہیں رینگتی، یہ حال ہم مسلمانوں کا مسلمانوں کے ساتھ ہے ، جو ایک مسلمان کا دوسرے پر حق ہے ، دیگر مذاہب والوں کی عیادت کا تو ہمیں خیال بھی نہیں آتا ۔حا لانکہ آج کل ذرائع ابلاغ نے اتنی وسعت حاصل کر لی ہے کہ مریض کی عیادت کے لیے سفر کر نا بھی ضروری نہیں ہے ، اب تو ویڈیو کانفرنسنگ اور کالنگ کے ذریعہ دور دراز سے آمنے سامنے بات ہو سکتی ہے ، لیکن سہولتیں جس قدر ہیں ہماری بے اعتنائی بھی اسی قدر ہے ، عیادت کر نے والے بعض افراط کے بھی شکار ہو تے ہیں ، بعض لوگ شب وروز فون کرکے اتنی بار خیریت دریافت کرنا شروع کر تے ہیں کہ طبیعت گراں بار ہوجاتی ہے اور بعض لوگ مریض کی اس قدر ان دیکھی کرتے ہیں کہ شریعت کے حکم کے پاس ولحاظ نہ رکھنے کا احساس ہونے لگتا ہے ۔
جیسا کہ پہلے مذکور ہوا، اسلام میں عیادت صرف مزاج پرسی کا نام نہیں ہے ، بلکہ ہمدردی ، غم گساری، دل جوئی اور دلداری کا نام ہے ، اس کے بھی اصول وآداب ہیں، ہدایت دی گئی ہے کہ مریض کے سامنے اس کی درازی عمر کی بات کی جائے ، ایسی باتوں سے وقت مقررہ تو بدلے گا نہیں، لیکن مریض کو مرض سے لڑنے کا حوصلہ ملے گا۔ حدیث میں ’’لا باس طھور انشاء اللہ‘‘ وغیرہ کے الفاظ سے یہی معلوم ہوتا ہے ، اسی طرح بعض لوگ آتے تو عیادت کے لیے ہیں، لیکن آداب عیادت نہ معلوم ہونے کی وجہ سے کہنے لگتے ہیں کہ یہ مرض تو بڑا سخت ہے ، فلاں شخص کی موت اسی مرض میں ہو گئی تھی، ایسے جملوں سے ہر حال میں احتراز کرنا چاہیے ، تاکہ مریض اپنی زندگی سے مایوس نہ ہو جائے ، اس کے سامنے امید افزا جملے کہے جائیں تاکہ وہ اپنے دل میں خوشی محسوس کرے اور مرض کو ہلکا سمجھے اس سے اس کی قوت مدافعت میں اضافہ ہوگا، ہم سب جانتے ہیں کہ بعض مرض صرف قوت مدافعت ختم ہونے کی وجہ سے موت کی نیند سلا دیتے ہیں۔
عیادت کے لیے آنے والوں کے ذہن میں یہ بات بھی رہنی چاہیے کہ مریض کی ضروریات مختلف ہوتی ہیں، اسے دوا کھانا ہے ، قضائے حاجت کا تقاضہ ہے ، دوسری خدمات درکار ہیں، ظاہر ہے اگر عیادت کرنے والا دیر تک بیٹھا رہے گا تو مریض کی بہت ساری ضرورتوں کی تکمیل میں رکاوٹ ہو سکتی ہے ، اس لیے مریض کے پاس مختصر قیام کرنا چاہیے ، سوائے اس کہ جب اس کی طویل نشست مریض کے لیے انسیت کا سبب ہو اور وہ عیادت کرنے والوں کے بیٹھنے سے تقویت محسوس کرے ، ایسے میں مریض کی دل جوئی کے لیے بیٹھنے میں حرج نہیں ہے ، اسی لیے جو مستقل تیمار دار ہے وہ اس اصول سے مستثنیٰ ہے کیوں کہ وہ مریض کی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے ہی اس کے پاس فروکش رہتا ہے ، یہاں پر ایک لطیفہ ذہن میں آگیا ۔ ایک مریض کی عیادت کے لیے ایک صاحب گیے ، گھنٹوں بیٹھے رہے ، مریض سے رہا نہ گیا اس نے کہا لوگوں کے دیر تک بیٹھنے کی وجہ سے مجھے پریشانی کا سامنا ہے ، ان صاحب نے کہا کہ اگر اجازت دیں تو دروازہ بند کر دیں، مریض نے کہا ضرور، لیکن باہر سے ، یہ لطیفہ بتاتا ہے کہ کبھی کبھی یہ معاملہ کس قدر پریشان کن ہوجاتا ہے ۔
بخاری اور مسلم کی روایت حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی مریض کی عیادت کو جاتے تو مریض کے لیے دعا فرماتے کہ پروردگار! اس بندے کی تکلیف دور کرکے شفا فرمادے تو ہی شفا دینے والا ہے ، ایسی شفا عطا فرما دے جو بیماری کا اثر بالکل زائل کر دے ۔ حدیث میں اور بھی دعائیں عیا دت کے وقت منقول ہیں یاد ہو تو اس کا پڑھنا بھی مریض کے لیے فائدہ مند ہو گا۔

دونوں شہروں میں ماہ رمضان کی رونقیں بحال بازار متاثر

دونوں شہروں میں ماہ رمضان کی رونقیں بحال بازار متاثر

عوام کی قوت خرید میں کمی ۔ تاجرین میں تشویش ۔ آئندہ دنوں میں صورتحال میں بہتری کی امید

حیدرآباد۔5اپریل۔ (اردو دنیا نیوز۷۲) دونوں شہروں میں رمضان المبارک کی رونقیں بحال ہوچکی ہیں لیکن بازاروں میں رونق نظر نہیں آرہی ہے ۔ شہریوں کی قوت خرید متاثر نظرآنے لگی ہے۔ ماہ رمضان المبارک کے پہلے اور دوسرے روزہ کے دوران شہریوں کی خریداری میں گراوٹ کے سلسلہ میں تاجرین بالخصوص ہوٹل ذمہ داروں کا کہناہے کہ گذشتہ دو برس کے دوران لاک ڈاؤن اور حالیہ عرصہ میں گرانی میں اضافہ کے بازاروں پر شدید اثرات ہیں۔ حیدرآبادو سکندرآباد میں ماہ رمضان کے ساتھ حلیم کے کاروبار کے علاوہ میوہ جات کی فروخت میں بھی اضافہ ریکارڈ کیا جاتا تھا اور اس ماہ مقدس کے پہلے دہے کے دوران مجموعی اعتبار سے یہی کاروبار چلا کرتے تھے لیکن ابتدائی ایام میں ان پر بھی منفی اثرات دیکھے جا رہے ہیں ۔ کہا جا رہاہے کہ شہری گرانی کے سبب پریشان ہیں اورگذشتہ چند یوم سے پٹرول قیمتوں میں اضافہ سے حالات مزید ابتر ہونے لگے ہیں ۔ شہر کے ٹھوک میوہ فروشوںکو توقع ہے کہ ابتدائی ایام میں کاروبار پر منفی اثرات کم ہونگے اور بہتری آئے گی اور یہ حالات مسلسل برقرار نہیں رہیں گے ۔ میوہ فروشوں کا کہناہے کہ مہنگائی کے سبب عوام کی قوت خرید کمزور ہوئی ہے ۔ اسی طرح ریستوراں مالکین بھی حلیم کی پہلے دن کی فروخت سے پریشان ہیں اور ان کا کہناہے کہ ابتدائی ایام میں حلیم کی فروخت میں جو توقع تھی ویسی فروخت نہیں کی گئی ہے جس کی کئی وجوہات ہیں جن میں مہنگائی کے ساتھ گرمی شامل ہے۔ ہوٹل مالکین کا کہناہے کہ حالات ابتر ہیں لیکن اب احساس ہونے لگا ہے کہ عوام کی قوت خرید کمزور ہوئی ہے ۔ بتایاجاتا ہے کہ کئی سرکردہ حلیم تیارکنندگان کی جانب سے قیمتوں میں بھی تبدیلی پر غور کیا جانے لگا ہے تاکہ عوام کو مقوی غذاء کی جانب سے راغب کیا جاسکے۔ دونوں شہروں میں ماہ رمضان کے دوران تلن کی اشیاء کے علاوہ حلیم و دیگر غذائی اشیاء اور میوہ جات کی فروخت میں اضافہ ہوتا ہے ۔ بعض تاجرین کا کہنا ہے کہ شہر کے وسعت حاصل کرنے اور گاہکوں کے علاقہ کے اعتبار سے منقسم ہونے کے سبب گہما گہمی نظر نہیں آرہی ہے لیکن مجموعی اعتبار سے کہا جا رہاہے کہ عوام کفایت شعاری سے کام لینے لگے ہیں اور ان کی قوت خرید میں کمی آئی ہے۔ 

اتوار, اپریل 03, 2022

آج سے ایک سال قبل آسمان دنیا کا ایک بے باک و بے مثال ستارہ 3/اپریل 2021کو ہمیشہ ہمیش کے لیے غروب ہوگیا

‎آج سے ایک سال قبل آسمان دنیا کا ایک بے باک و بے مثال ستارہ 3/اپریل 2021کو ہمیشہ ہمیش کے لیے غروب ہوگیا،جسے دنیا امیر شریعت سابع حضرت مولانا سید محمد ولی صاحب رحمانی رحمہ اللہ کے نام سے جانتی اور پہچانتی ہے،جنہیں مجھ کو حضرت دادا کہنے کا شرف حاصل رہا۔ اس مرد درویش کے حیات زندگی بالخصوص عصری تعلیمی میدان میں ان کی اور خانوادہ رحمانی کی خدمات پر ایک مختصر سا مضمون تحریر کرنے کی کوشش کی ہے۔ ملاحظہ فرمائیے۔ 
فضل رحماں رحمانی
(ایچ او ڈی) شعبہ صحافت، جامعہ رحمانی مونگیر
خانوادہ رحمانی اور ان کا نظریہ تعلیم
"ایں خانہ ہمہ آفتاب است" کا مقولہ ہوش سنبھالنے کے بعد سے سنتا رہا ،مگر عملاً آنکھوں نے جس خانوادے کے آفتاب وماہتاب کوقریب سے دیکھا ،ان میں خانوادہ رحمانی کو ممتاز پایا ،یوں تو دوصدیوں پر محیط  اس خانوادے کی ہمہ جہت خدمات کا ایک ایک پہلو قابل تذکرہ ہے ،تاہم تعلیمی ،تدریسی ،اصلاحی پہلو نیز خانوادہ رحمانی کا نظریہ تعلیم کئی جہتوں سے فکر وتحقیق کا موضوع ہے ۔اگر  زیادہ دور جائے بغیر صرف قطب عالم حضرت مولانا محمد علی مونگیری رحمہ اللہ کے تعلیمی ونصابی جد وجہد سے خانوادہ رحمانی کے نظریہ تعلیم کا جائزہ لیا جائے تویہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ خانوادہ رحمانی نے دارالعلوم ندوۃ العلماء کے پلیٹ فارم سےجو نظریہ تعلیم پیش کیا ،زمانے چوٹی کے علماء و دانشوران قوم وملت نے اس کو سراہا اور اس کا زبردست خیر مقدم کیا۔ حضرت نے مونگیر آنے سے قبل کانپور میں  ”اسلامیہ یتیم خانہ“ کی بنیاد رکھی تھی جس کے زیر اثر مسیحی پادری جو مسلم بچوں اور بچیوں کی غربت و مفلسی اور یتیمی کا ناجائز فائدہ اٹھا کر ان بچوں کا مذہب تبدیل کرتا تھا ۔آپ نے ان بچوں کو پادریوں  سے  بچایا۔اس یتیم خانہ کی خصوصیت یہ تھی کہ اس میں بچوں کی تعلیم کے انتظام کے ساتھ انہیں مختلف ہنر سکھانے کا بھی نظم کیا گیا تھا، تاکہ وہ خود کفیل بن سکیں اور زندگی میں کسی کے محتاج نہ رہیں۔
آپؒ کے سلسلہ میں یہ باتیں عام ہیں کہ آپ نے دعوت و تبلیغ کی راہ میں سد سکندری کا کام کیا لیکن تعلیمی میدان میں بھی آپ کی خدمات اس زمانہ کا تجدیدی کارنامہ تھا جسے سمجھنا بہت آسان ہو جاتا ہے جب آپ ندوۃ العلماء لکھنؤ پر اپنی نگاہ ڈالتے ہیں۔دارالعلوم ندوۃالعلماء لکھنؤ مولانا مونگیریؒ کی کوشش اور جدو جہد کا اہم اور ناقابل فراموش باب ہے۔اس تحریک کو حاجی امداداللہ مہاجر مکیؒ، شیخ الہند مولانا محمود حسن، مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا محمد حسین الہ آبادی، سید محمد شاہ محدث رام پوری،مولانا لطف اللہ علی گڑھی، مولانا الطاف حسین حالی، مولانا عبدالحق حقانی، مولانا شاہ محمد سلیمان پھلواروی، مولانا ثناء اللہ امرتسری، مولانا خلیل احمد سہارنپوری، مولانا حکیم سید عبدالحی حسنی اور مولانا حبیب الرحمٰن خان شیروانی رحمتہ اللہ علیہم جیسے اکابرین کی تائید حاصل رہی بلکہ ان میں سے بعض مشائخ حضرت مولانا مونگیریؒ کے تعلیمی مشن میں دست راست رہے۔ آپ اس وجہ سے بھی سبھوں کے محبوب نظر اور مقبول عام تھے کیوں کہ آپ نے مسلکی اختلافات سے پرے رہ کر اپنی تعلیمی سرگرمیوں کو آگے بڑھایا۔ یہ وسعت ذہنی آپ کو مرشد معظم مولانا فضل رحمٰں گنج مرآدابادی سے ملی تھی۔ 
مولانا مونگیریؒ کی تعلیمی پالیسی میں دینی، معاشی، تبلیغی اور علمی تمام طرح کی ضرویات شامل ہیں۔ مولانا مونگیریؒ نے علم کےساتھ دین داری، تربیت، سنجیدگی اور تزکیہ نفس کو ضروری قرار دیا ہے۔ آپؒ نے نہ صرف نصاب تعلیم کو مرتب کیا بلکہ نظام تعلیم پر بھی خصوصی روشنی ڈالی ہے۔ آپ نے ندوۃ العلماء کی صرف تحریک نہیں چلائی بلکہ اسی خاکہ پر عملی طور پر ادارہ کی بنیادرکھی۔ معاشی ضروریات کے لیے فنون صناعیہ کے حصول سمیت تمام جزیات کا احاطہ کیا ہے۔ کثیر الجہتی اور تمام جزیات پرخصوصی نگاہ مولانا مونگریؒ کے نظریہ تعلیم کی خصوصیت و انفرادیت ہے۔ 
؎مولانا مونگیریؒ نے جدید علوم اور جدید زبانوں کے حصول کی تائید کی اور وہ صرف اس لیے کہ انہیں حاصل کر کے تبلیغ دین و اشاعت دین کا اہم فریضہ زیادہ موثر طریقہ سے انجام دیا جا سکتا ہے۔مدارس کے فارغین شکوک و شبہات کا ازالہ اور مضبوط حوالوں کے ساتھ دین کی روشنی میں اسی وقت موثر و کارآمد گفتگو کر سکتے ہیں جب انہیں معلوم ہو کہ غیر مسلموں کے اعتراضات یا شکو ک و شہبات کیا ہیں اور اس کی کیا بنیادیں ہیں۔خلاصہ یہ کہ حضرت مولانا مونگیریؒ نے دینی، معاشی، سماجی، معاشرتی اور اقتصادی تمام ضروریات کو سامنے رکھ کر ان مسائل کے حل کے لیے ایک منظم اور کامیاب نظام تعلیم اور نصاب تعلیم تشکیل دی ہے۔ 
انہیں اصلاحات اور تصورات کو امیر شریعت رابع مولانا منت اللہ رحمانی اور مولانا ولی رحمانی رحمتہ اللہ علیہما نے تعلیمی تحریکات، اصلاحات اور اقدامات کی شکل میں پروان چڑھایا اور اب ان بزرگان دین کے لگائے ہوئے پودوں کو سینچنے، سنوارنے اور منظم کرنے کا کام موجودہ امیر شریعت اور خانقاہ رحمانی کے سجادہ نشیں حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی دامت برکاتہم بحسن خوبی انجام دے رہے ہیں۔
امیر شریعت رابعؒ کا نظریہ تعلیم 
امیر شریعت رابع مولانا منت اللہ رحمانیؒ بھی اپنے والد کی طرح تعلیمی امور کے ماہر اور تعلیمی جہتوں پر خصوصی نگاہ رکھنے کا مزاج رکھتے تھے۔آپ کے تعلیمی نظریہ میں بھی تواز ن و اعتدال ہے۔ آپ قدیم صالح اور جدید نافع کے قائل تھے۔ ان کی دلی تمنا تھی کہ ہر مسلمان کے لیے بنیادی دینی تعلیم کے حصول کا بہترین انتظام ہونا چاہیے اور ضروری دینی تعلیم بھی عام ہونی چاہیے۔اسی بنا پر انہوں نے آسان نصاب کی پیروی کی ہے۔ وہ چاہتے تھے کہ علماء کی ایسی جماعت تیار ہو جس میں علوم دینیہ کی گہرائی و گیرائی ہو تاکہ ملت کی ضرورت پوری ہو سکے۔ 
حضرت قاضی مجاہد الاسلام قاسمی ؒ ان کے تعلیمی نظریات پر یوں اپنا اظہار خیال کرتے ہیں:
                  ”حضرت مولانا کا نقطہء نظر یہ تھا کہ دینی تعلیم کے دو میدان کار منتخب کیے جانے چاییں۔ پہلا میدان کار دین سےمتعلق بنیادی اور ضروری علم ہر مسلمان کے لیے۔ دوسرے علوم دینیہ میں محققین اور متبحر علماء پیدا کرنا۔ وہ کہا کرتے تھے مسلمانوں کو زندگی کے ہر میدان میں نظر آنا چاہیے۔ اس لیے ہر مسلمانوں کو بخاری شریف تک پڑھانا ضروری نہیں ہے۔ بنیادی تعلیم عام ہونی چاہیے۔ البتہ ایک طبقہ ضرور علوم دینیہ میں ماہر ہونا چاہیے۔“
                                                              (امیر شریعت رابع کی حیات و خدمات، ص 27)
حضرت امیر شریعت سابعؒ کا نظریہ تعلیم
اسی طرح اپنے دادا اور والد بزرگوار کے نقش قدم پر چلتے ہوئے 3اپریل سنہ 2021کو اس دنیائے فانی کو الوداع کہنے والے امیرشریعت سابع مولانا محمد ولی رحمانیؒ نے بھی تعلیمی میدان میں بے شمار تجدیدی اور تخلیقی کارنامے انجام دئے ہیں جس کی طرف دور دور تک اچھے اچھے مفکر و مدبر کا ذہن تک نہیں جاتا۔ وہ ایک مؤقر عالم دین، مفکر اسلام و شریعت اور معروف اسلامی اسکالر تھے۔مختلف شعبوں میں انہوں نے ملت اسلامیہ کی بے پناہ خدمات انجام دیں۔ تعلیمی میدان میں ان کے کارنامے اور حصولیابیاں خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔
مولانا محمد ولی رحمانیؒ نے 1974 سے 1996 تک بہار قانون ساز کونسل کے رکن کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ وہ اپنے والد ماجد حضرت مولانا منت اللہ رحمانی رحمۃ اللہ علیہ کی وفات 1991 کے بعد سے خانقاہ رحمانی مونگیر کے سجادہ نشین اور جامعہ رحمانی مونگیر کے سرپرست رہے۔ تعلیمی شعبے میں حضرت مولانامحمد ولی رحمانیؒ کے ذریعہ قائم کیے گئے رحمانی 30 ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ وہ پلیٹفارم ہے جہاں عصری تعلیم کے متعدد شعبوں میں معیاری اعلی تعلیم و قومی مقابلا جاتی امتحانات کے لیے طلبہ کو تیار کیا جاتا ہے۔رحمانی 30 سے ہر سال نیٹ اور جے ای ای میں 100 سے زائد طلبہ منتخب ہوتے ہیں۔ حضرت مولاناسید محمد ولی رحمانیؒ نے اپنی زندگی میں ہی رحمانی 30 کی باگ ڈور اپنے چھوٹے صاحب زادہ جناب انجینئر حامد ولی فہد رحمانی کو سونپی تھی جو آج الحمدللہ اپنے بڑے بھائی اور امیر شریعت ثامن حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی مدظلہ کی معیت میں رحمانی 30 کی تمام ذمہ داریاں بحسن خوبی انجام دے رے ہیں۔
حضرت امیر شریعت سابعؒ عوامی تقریر، اپنی شخصیت و ملی مسائل میں جرأت، صاف گوئی و بے باکی سمیت تعلیم کے لیے مشہور تھے۔ ان کا ماننا تھا کہ کسی کو ایک وقت میں دونوں طرح کی تعلیم یعنی دینی اور دنیاوی تعلیم حاصل کرنی چاہیے اور کسی بھی چیز سے پہلے انسان کو انسان ہی ہونا چاہیے۔یوں تو قطب عالم حضرت مولانا محمد علی مونگیری رحمتہ اللہ علیہ نے 1927 میں جامعہ رحمانی قائم کیا لیکن 1934 کے ہولناک اور قیامت خیز زلزلے میں جامعہ رحمانی کو بند کرنا پڑا جو نئے سرے سے 1942 میں شروع ہوا اور الحمدللہ اب تک پوری کامیابی و کامرانی اور اپنی انفرادیت کے ساتھ وقفہ وقفہ سے نئے فکر و نظر کے ساتھ باصلاحیت اور جدیدیت سے با خبر علما تیار کر رہا ہے۔ یہ ادارہ امت کے لیے بانی ندوۃ العلما لکھنؤ حضرت اقدس قطب عالم حضرت مولانا سیدمحمد علی مونگیر رحمتہ اللہ علیہ اور بانی آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ حضرت مولانا سید منت اللہ رحمانی نوراللہ مرقدہ کی جانب سے ایک بہت بڑا عطیہ ہے۔جب صدی کے دو عظیم اور صاحب قلب و نظر عالم دین کے مبارک ہاتھوں یہ پودہ لگا اور پروان چڑھا اور  پھر جب اس پودے کو تناور درخت بنانے کا مرحلہ آیا تو صدی کے بے مثال عالم دین مفکر اسلام حضرت مولانا سید محمد ولی صاحب رحمانی رحمتہ اللہ علیہ کا حسن تنظیم جدو جہد اور تعلیم کے میدان میں مثالی فکر و نظر کام آئی۔ یہ ادارہ اب حضرت مولانا احمدولی فیصل رحمانی دامت برکاتہ کے زیر سایہ مخلص اسا تذہ کی محنت سے تیز رفتاری کے ساتھ بڑھتا جا رہا ہے۔ پھلتا اور پھولتاجا رہا ہے اور آئے دن پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعہ جامعہ رحمانی کی کارکرگی اور کاموں کی خبریں پڑھنے اور دیکھنےکو ملتی رہتی ہیں۔
جامعہ رحمانی کے موجودہ نظام تعلیم میں جدید تکنیک یعنی کمپوٹر پراجکٹر اور انٹرنیٹ سے استفادہ کیا جاتا ہے۔خاص طور پر عربی اور علوم الہٰیہ کے تعلیم میں ان جدید آلات کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ یہاں جدید انداز درس کے ساتھ نئی نسل کےذہن و مزاج کے تربیت کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ان کے اندر ہدایت ربانی اور ارشادات نبوی کو محفوظ کرنے کا ذوق پیدا کیا جاتا ہے۔حفظ قرآن، تفسیر اور حدیث فقہ عربی اور اردو زبان و ادب کی مشق و تمرین کی اس نئی جدو جہد کی کامیابی کو آپ یوں دیکھ سکتے ہیں کہ اب جامعہ رحمانی کے ماحول میں حفظ کے طلبا روانی کے ساتھ عربی میں بات کرتے نظر آتے ہیں۔جامعہ رحمانی کی کامیابی اور بڑھتے اقدام کا ایک حسین منظر 14 اکتوبر 2017 کو سامنے آیا جب دنیا کے ممتاز ترین یونیورسٹی جامعہ اظہر مصر اور بھارت کے مایہ ناز ادارہ جامعہ رحمانی کا الحاق عمل میں آیا۔
جامعہ رحمانی کے فارغین اور مولانا محمد ولی رحمانی رحمتہ اللہ علیہ کے پروڈکٹس کی فہرست میں صرف اسکول اور مدرسوں میں پڑھانے والے اور مساجد میں امامت کرنے والے اماموں کے نام شامل نہیں ہیں بلکہ اس فہرست میں بین الاقوامی سطح پر کام کرنے والے بےشمار نام شامل ہیں جس کی تفصیل اس چھوٹے سے مضموں میں نہیں پیش کی جا سکتی۔ان کی خدمات میں جامعہ رحمانی کو عروج بخشنا، رحمانی کمپیوٹر سینٹر کا قیام، رحمانی بی ایڈ کالج،رحمانی اسکول آف ایکسیلینس اور رحمانی 30 کو قائم کرنا قابل ذکر ہے۔حضرت مولانا محمدولی رحمانی رحمتہ اللہ علیہ کی مخلصانہ اور بے لوث کوشش و محنت اور مشہور ماہر تعلیم فزکس کے اعلی درجہ کے استاذ آئی پی ایس افسر اور بہار پولیس کے سب سے اعلی افسر ابھیانند جی کی انتھک محنت اور لگن کے نتیجہ میں رحمانی 30 کا قیام عمل میں آیا اور کامیابی کے ساتھ رواں دواں ہے۔بلا شبہ دین کے لیے حضرت رحمتہ اللہ علیہ کی 70 سالہ خدمات نئی نسل کے لیے اثاثہ ہے۔ آپ کی شخصیت ملک و ملت کا اہم اثاثہ تھی۔ 
حضرت امیر شریعت ثامن کا تعلیمی نظریہ
اپنے خانوادہ کی تعلیمی نظریہ کو عروج بخشتے ہوئے موجودہ امیر شریعت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی دامت برکاتہم سجادہ نشیں خانقاہ رحمانی مونگیر کا کارواں کامیابی کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے اور ہر دن ایک نئے کارنامہ اور کاوش کی خبر منظرعام پر آ رہی ہے۔ حضرت مدظلہ نے بہت کم وقت میں اپنی خدمات کا ایسا چھاپ چھوڑا کہ لوگوں نے انہیں 9 اکتوبر سنہ 2021کواتفاق رائے کے ساتھ اپنا امیرشریعت منتخب کیا۔
آپ نے جن اداروں میں تعلیم حاصل کی ہے، اور اللہ پاک نے آپ کے اندر جو صلاحتیں رکھی ہیں، اور جتنی دنیا آپ نے دیکھی ہے، جن تعلیمی اداروں میں آپ نے خدمات انجام دی ہیں اگر ان سب کو سامنے رکھ کر یہ بات کہی جائے کہ آپ کا تعلیمی نظریہ قدیم صالح اور جدید نافع کا سنگم اور امتزاج ہے تو سو فیصد درست ہوگا۔ آپ بانی دارالعلوم ندوۃ العلماء قطب عالم حضرت مولانا سید محمد علی مونگیری رحمۃاللہ علیہ کے تعلیمی نظریے کو پڑھ جائیے جس کا بہت ہی مختصر ذکر راقم الحروف نے زیر نظر مضمون کی ابتدا میں کیا ہے تو آپ کو حضرت والا کی سوچ و فکر کا اندازہ بخوبی ہو جایئے گا۔آپ بھی حالات اور زمانے سے ہم آہنگ ہوکر تعلیمی میدان میں خدمات انجام دینے کا جذبہ اور حوصلہ رکھتے ہیں، آپ یہ چاہتے ہیں کہ  مدرسے میں پڑھنے والا ایک طالب علم جن علوم کو حاصل کر رہا ہے اس کو اصل ماخذ سے جاننے کے لیے عربی زبان میں مضبوطی لائے، آپ یہ چاہتے ہیں کہ وہ طلبہ جن کی عمر آٹھ سے دس برس کے درمیان ہے وہ حفظ قرآن مجید کے ساتھ عربی زبان بھی سیکھیں اور بولیں تاکہ قرآن مجید کے تراجم میں ان کو آسانی ہو، کم از کم وہ مفہوم کے سمجھنے پر قدرت حاصل کریں، آپ یہ چاہتے ہیں کہ مدارس کے طلبہ عربی زبان میں درس و تدریس کے عادی ہوں، آپ چاہتے ہیں کہ یہ طلبہ عربی زبان کے ساتھ کم از کم پانچ زبانوں پر قدرت حاصل کر سکیں تاکہ مذہب اسلام کی ترجمانی میں انہیں آسانی ہو اور خوب تقویت ملے، آپ چاہتے کہ طلبہ جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ بھی ہوں تاکہ اس ترقی یافتہ دور میں وہ پیچھے نہ رہ جائیں؛ لیکن ان تمام چیزوں کے باوجود آپ اس کے قائل نہیں ہیں کہ درس نظامی کے نصاب میں تبدیلی ہو بلکہ ان کاموں کے لیے مستقل ایک شعبہ ہو جن میں یہ چیزیں پڑھائی جائیں، طلبہ کے صوابدید پر ہے وہ جس نظام اور جس نصاب کو پڑھنا چاہیں بخوشی پڑھیں تاکہ وہ ہر میدان میں کارہائے نمایاں انجام دے سکیں اس کے لیے آپ نے والد ماجد رحمۃ اللہ علیہ کے مشورے سے مستقل ایک شعبہ قائم فرمایا جس کا نام بغداد اور حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کے '' بیت الحکمت '' کے نام پر '' دارالحکمت '' رکھا گیا۔ (جانشین مفکر اسلام شخصیت اور فن، بقلم: مولانا عبدالعلیم رحمانی)
دارالحکمت کے بعد موجود امیر شریعت کے کارہائے نمایاں میں شعبہ صحافت اور شعبہ تخصص فی الافتاء کا قیام قابل ذکر ہے۔
 رواں برس 15دسمبر سنہ 2021کو امیرشریعت ثامن حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی دامت برکاتہم سجادہ نشیں خانقاہ رحمانی مونگیر نے جامعہ رحمانی میں باضابطہ شعبہ صحافت کا آغاز فرمایا۔ اس موقعہ پر انہوں نے واضح الفاظ میں فرمایا تھا کہ چونکہ صحافتی میدان میں تحقیق کا مزاج رکھنے والے صحافیوں کی کمی ہے اور خاص کر صحافتی میدان میں مسلم صحافی بالخصوص علما طبقہ نہ کے برابر ہے۔ جس کی وجہ سے علما کا صحافی بننا اور تحقیقی مزاج کے ساتھ میدان عمل میں اترنا نہایت ضروری اور اہم ہے۔
احقر راقم الحروف کے لیے یہ سعا دت کی بات ہے کہ اسی موقعہ پر انہوں نے مجھے شعبہ صحافت کا ایچ او ڈی بنانے کا اعلان کیا تھا اور باضابطہ جامعہ رحمانی کے پلیٹ فارم سے صحافتی سرگرمیوں کا بگل بجایا۔ 
 شعبہ صحافت کے زیر اہتمام بنیادی طور پر فی الحال دو کام شروع کئے گئے ہیں جس میں ایک یہ کہ جامعہ رحمانی میں زیر تعلیم سال ششم، ہفتم اور ہشتم عربی کے طلبا کو ابلاغ عامہ اور صحافت کا ڈپلومہ کورس کرانا اور دوسرا فکر و نظر آفیشئل کے نام سے ایک یو ٹیوب چینل شروع کیا گیا ہے۔ جس پر ابھی تجرباتی دور میں طلبا بڑی محنت اور لگن کے ساتھ کا م کر رہے ہیں۔اس چینل پر طلبا اردو کے ساتھ عربی زبان میں بھی خبر اور تجزیہ پیش کرتے ہیں جو قابل ذکر اور قابل تعریف ہے۔ تازہ ترین صورت حال کےمطابق فکر و نظر آفیشئل چینل نے تین ماہ کے اندر 6ہزار5سو20سبسکرائبرز بنا لئے اور اس چینل کو اب تک 6لاکھ35ہزار134افرادنے دیکھا ہے اور چینل روز بروز حضرت امیر شریعت کی سرپرستی اور دعا سے ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔
ساتھ ہی رواں برس 27نومبر 2021ء کو جامعہ رحمانی کے سالانہ اجلاس کے موقعہ پر حضرت مدظلہ نے جامعہ رحمانی میں شعبہ تخصص فی الافتا قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔حضرت کا مقصد ہے کہ یہاں سے روایتی طرز کے مفتیان نہ تیار ہوں بلکہ ان کے اندر ایسی صلاحیت و لیاقت پیدا کی جائے کہ وہ جدید دور میں درپیش تمام مسائل کا ازالہ شرعی نقطہ نظر سے مضبوط و مدلل اورمفصل انداز میں پیش کریں۔ 
مختصر سے مضمون میں ان عظیم خانوادہ کا عظیم تعلیمی نظریہ پیش کرنا سمندر کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے۔ تاہم اس مضمون میں مختصراً تمام بزرگان دین کی تعلیمی خدمات پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اللہ ہم سب کو خانقاہ رحمانی اور یہاں کے بزرگوں سے فیض حاصل کرنے کی توفیق بخشے۔ آمین یا رب العالیمن۔

دبستان خیر آباد مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

دبستان خیر آباد 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
خیر آباد دوران طالب علمی ہی سے میرے ذہن ودماغ پر چھایا رہا ہے، عربی دوم کے سال مرقات نصاب کا جز تھا، جس کے مصنف مولانا فضل امام خیر آبادی (۱۸۲۱) ہیں، استاذ نے مصنف کے احوال وکوائف سے آگاہ کیا تو خیر آباد کی محبت دل میں بیٹھ گئی، پھر ان کے نامور صاحب زادے علامہ فضل حق خیر آبادی کی علمی خدمات تک رسائی ہوئی، جد وجہد آزادی میں ان کی قربانی سے واقفیت ہوئی تو خیر آباد کی عظمت دل میں بیٹھی اور ا ب ان دنوں خیر آباد کے میرے مخلص وکرم فرما عارف علی انصاری نے میرے دل ودماغ پر قبضہ جما رکھا ہے، انہیں کی دعوت پر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈکے کانپور اجلاس کے موقع سے خیرآباد کی زیارت کا شرف حاصل ہوا، اپنوں کے ستائے ہوئے عارف علی انصاری اکابر کے معتقد، علم کے شیدائی، محبت کے پیکر ہیں، متوسط قد ان کے معتدل مزاج ہونے کی غماز ہے، چہرے پر داڑھی اور پیشانی پر زمانہ کے نرم وگرم ،نشیب وفراز کی سلوٹیں ان کی شناخت ہیں،علم لوگوں تک پہونچا نے کے لیے کتاب کی تجارت کرتے ہیں، میں خیر آباد سے واپس ہونے لگا تو ان پر رقت طاری ہو گئی، کتابوں کا اچھا خاصہ ہدیہ دیا، ان میں ایک کتاب ’’دبستان خیر آباد‘‘ بھی تھی۔
 خیر آباد عربی، فارسی اور اردو شعر وادب کا ممتاز مرکز رہا ہے، اس مرکزیت کو واضح کرنے اور شعراء کو زندگی نَوعطاکرنے کے لیے فرید بلگرامی نے دبستان خیر آباد کی تصنیف کی ہے، اس میں ۱۵۰۰ء سے تا حال خیر آباد کے دو سو ستہتر مسلم اور دس غیر مسلم شعراء کو جگہ دی گئی ہے، اس فہرست میں نامور اور گم نام مبتدی اور استاذشعراء کا ذکر نمونۂ کلام کے ساتھ مذکور ہے، کتاب کا انتساب انہوںنے اپنی والدہ ہاجرہ بیگم بلگرامی، مفتی سید نجم الحسن رضوی ، عبد الشاہد شیروانی، ڈاکٹر رابعہ بصری (بسوانی) کے نام کیا ہے، جن کی کتابوں سے فرید بلگرامی نے فائدہ اٹھایا اور اسے ماخذ کے طور پر استعمال کیا ہے، کتاب کے شروع میں ظفر علی قادری نے ’’دعائیں‘‘، ڈاکٹر عزیز خیر آبادی نے ’’جام نو میں شراب کہن‘‘، پروفیسر سید احسن رضوی نے ’’حرفے چند‘‘ اور ڈاکٹر رابعہ بصری نے ’’حرف حرف معتبر‘‘ کے عنوان سے کتاب کی اہمیت وافادیت ، دبستان خیر آباد کی خصوصیت اور تاریخ کے مختلف ادوار میں خیر آباد کی ادبی خدمات سے قارئین کو روشناش کرایا ہے، اسی باب میں فرید بلگرامی نے بھی خیر آباد میں ادب کا ارتقا، خیر آباد کے ادب کے فروغ میں کایستھوں کا حصہ ، امیر مینائی اور دبستان خیر آباد، خیرآباد کی صحافتی خدمات ، خیر آباد کے ناول نگار، شعراء خیر آباد کی اصناف سخن ، خیر آباد کی محفلیں ، خیرآبادیوں کی تصانیف وتالیفات کے عنوان سے انتہائی تحقیقی مقالہ لکھا ہے، اسے اس کتاب کا مقدمہ سمجھنا چاہیے، یہ تفصیلات نہ ہوتیں تو قارئین خیر آباد کے در وبست سے واقف نہیں ہو پاتے۔
 دوسرے باب میں خیر آباد کے شعراء وادباء کا تذکرہ مع نمونۂ کلام درج کیا گیا ہے، جن کو بڑی محنت کے ساتھ تلاش کرکے کتاب کا حصہ بنا دیا گیا ہے، کہنا چاہیے کہ یہ ’’کار‘‘ نہیں ’’کارنامہ‘‘ ہے، چیونٹی کے منہہ سے دانہ دانہ جمع کرنا آسان کام نہیں ہوتا، اس قسم کی کتابوں کی ترتیب میں مواد جمع کرنے کا عمل بڑا جاں گسل ہوتا ہے اور لطف کی بات یہ ہے کہ دبستان خیر آباد پر جو کچھ لکھا گیا ہے اس کے لیے ماخذ ومواد اس قدر جمع کیے گیے کہ پوری لائبریری بن گئی ، چنانچہ کتابیات کی فہرست میں آپ دیکھیں گے کہ جہاں سے مواد لیا گیا ہے وہ سب فرید بلگرامی کی ذاتی لائبریری میں موجود ہیں، صرف ایک کتاب انہوں نے خدیجہ لائبریری کی استعمال کیا ہے، جس کے بانی ہمارے کرم فرما عارف علی انصاری ہیں۔ اس کتاب کی تصنیف میں جو پریشانی ان کو اٹھانی پڑی اور جن مراحل اور کرب سے مصنف کو گذرنا پڑا، اس کا اظہار انہوں نے ان جملوں میں کیا ہے ، لکھتے ہیں: میرا خیال ہے کہ تذکرہ قسم کی کتاب لکھنا دریوزہ گری یاگدا گری سے زیادہ مختلف نہیں ہے، میں اس کام کے لیے دروازے دروازے گیاہوں اور کئی کئی بار گیا ہوں، کچھ نے تو میرے دامن میں وہ سب کچھ ڈال دیا جو ان کے پاس تھا، کچھ نے بہت بخل سے کام لیا۔ (صفحہ ۲۶)
 جن شعراء کی تصویریں ملیں ان کو شامل کتاب کیا گیا ہے، فہرست میں پہلے تخلص پھر پورا نام بھی درج کیا گیا ہے، جس سے اصلی اور قلمی نام تک ایک نظر میں قارئین پہونچ جاتے ہیں، مختلف شعراء کے مجموعۂ کلام کے سرورق کی عکسی تصویر نے بھی کتاب کی اہمیت وافادیت میں چار چاند لگا دیا ہے۔
یہ سارا ذخیرہ سید فرید الدین احمد فرید بلگرامی (ولادت ۱۸؍ ستمبر ۱۹۵۲)کی کاوش دل پذیر کا نتیجہ ہے، ان کی کئی کتابیں پہلے بھی طبع ہو کر مقبول ہو چکی ہیں، ان کتابوں میں حکیم عابد علی کوثر خیر آبادی ، بلگرام کی شعری وادبی خدمات ، آقائے سخن وسیم خیر آبادی ، متاع وسیم خیرآبادی ، اردو اور بلگرام ’’راجنیتک ایوم ساہتیک اتہاس‘‘ ہندی میں خاص طور پر قابل ذکر ہیں، فرید بلگرامی کی تحریرمیں ساد گی اور سلیقہ مندی وافر مقدار میں موجود ہے۔
چار سو چھ صفحہ کی یہ کتاب نعمانی پرنٹنگ پریس سے چھپی ہے، سرورق دیدہ زیب ہے عارف عزیز خیر آبادی نے کمپوزنگ اور اس کی ڈیزائننگ کی ہے اور چاروں طرف مختلف شعراء کے تخلص کو ایک خاص ترتیب سے سجا کر سرورق کی معنویت میں اضافہ کیا ہے، اتنی تحقیقی اور ضخیم کتاب کی قیمت چار سو پچاس روپے زائد نہیں ہے، خصوصا اس صورت میں جب کتاب فروشوں کو اچھی خاصی کمیشن بھی دینی پڑ رہی ہو ، ملنے کے پتے تین ہیں، آپ چاہیں تو عارف علی انصاری بک سیلر لطیف مارکیٹ خیرآباد ضلع سیتا پور سے اسے حاصل کر سکتے ہیں، لکھنؤ میں ہوں تو دانش محل ، امین الدولہ پارک، امین آباد لکھنؤ اور خود مصنف کے پتہ بلگرام بلڈنگ میاں سرائے، خیر آباد سیتاپور سے بھی یہ کتاب مل سکتی ہے۔ڈاکٹر عزیز خیر آبادی کے ان جملوں پر اپنا یہ تبصرہ ختم کرتا ہوں ، لکھتے ہیں کہ ’’مجھے یقین ہے کہ آپ اس کتاب کو قدر کی نگاہ سے دیکھیں گے اور خیر آباد سے متعلق تحقیقی کام کرنے والوں کے لیے یہ کتاب مشعل راہ ثابت ہوگی‘‘۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...