Powered By Blogger

جمعہ, اپریل 08, 2022

مکیش سہنی کی چُھٹیمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھند پھلواری شریف پٹنہ

مکیش سہنی کی چُھٹی
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھند پھلواری شریف پٹنہ 
 وی آئی پی کے بانی وصدر جناب مکیش سہنی کی وزارت سے چھٹی ہو گئی ہے، وہ حکومت بہار میں وزیر ماہی پروری وآب پاشی تھے، حال ہی میں ان کی پارٹی کے سبھی تین ارکان اسمبلی نے وی آئی پی چھوڑ کر بی جے پی میں شمولیت اختیار کر لی تھی اور ان کی پارٹی کا نام ونشان اسمبلی میں ختم ہو گیا تھا، مکیش سہنی جو اپنے کو ’’سن آف ملاح‘‘، کہلوانا پسند کرتے ہیں، بی جے پی کوٹے سے وزیر بنے تھے اور بی جے پی نے اپنے حصہ کی سیٹ انہیں مہیا کرائی تھی، ایسے میں اخلاقی طور پر انہیں خود سے مستعفی ہوجانا چاہیے تھا، لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا، مجبورا وزیر اعلیٰ کو بھاجپا کے دباؤ میں ان کی چھٹی کے لیے گورنر سے درخواست کرنی پڑی اور گورنر نے انہیں وزارت سے بر طرف کر دیا، اسے کہتے ہیں بڑے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے۔
 مکیش سہنی جواں سال سیاست داں ہیں، دو ایک جلسہ ذات کی بنیاد پر گاندھی میدان میں کرکے سیاست میں داخل ہوئے، تیزی سے ابھرے، اپنی جگہ بنائی، ایم ایل سی بنے، وزارت کی کرسی تک پہونچے اور پھر اسی تیزی سے بی جے پی سے پَنگالے کر آسمان سے زمین پر آگرے، تجربات کی کمی اور سیاست میں کچھ بھی ہو جانے کی قدیم روایت نے انہیں یہ دن دکھایا، وہ ایم ایل سی ہیں اور ظاہر ہے وہ بھی انہیںبی جے پی کی مہربانی سے حاصل ہوئی ہے، لیکن وہ اس بات کو نہیں مانتے، ان کا کہنا ہے کہ ہم ایم ایل سی ’’انوکمپا‘‘ کی بنیاد پر نہیں بنے ہیں۔
 مکیش سہنی سیاست میں اس وقت اپنے وجود اور بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں،جنگ میں فتح وشکست کے امکانات ہوا کرتے ہیں، ایسا ممکن ہے کہ اس شکست کے بعد وہ دو بارہ ابھرنہ پائیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ توڑ جوڑ کی سیاست میں پھر سے وہ اپنا مقام بنانے میں کامیاب ہو جائیں، ملاح برادری کے لوگ انہیں اپنا لیڈر مانتے ہیں اورہو سکتا ہے کہ اگلے انتخاب تک ووٹ کی سیاست میں ’’سن آف ملاح‘‘ کی اہمیت بڑھ جائے۔

پردھان منتری آواس یوجنا کے تحت تین کروڑ سے زائدمکانات کی تعمیر: مودی

 

پردھان منتری آواس یوجنا کے تحت تین کروڑ سے زائدمکانات کی تعمیر: مودی

نئی دہلی: وزیر اعظم نریندر مودی نے جمعہ کو کہا کہ ملک کے ہر غریب کو پکا مکان دینے کے عزم کے تحت عوامی شراکت سے تین کروڑ سے زیادہ مکانات تعمیر کیے گئے ہیں۔ 

 نے ٹویٹ کیا،’ہم نے ملک کے ہر غریب کو پکا مکان دینے کے عزم میں ایک پڑاؤ طے کیا ہے۔ تین کروڑ سے زائد گھروں کی تعمیر عوام کی شراکت سے ہی ممکن ہوئی ہے۔

بنیادی سہولیات والے یہ گھر آج خواتین کو بااختیار بنانے کی علامت بھی بن چکے ہیں‘۔

مسٹر مودی نے ٹویٹ کے ساتھ ایک تصویر بھی شیئر کی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ پردھان منتری آواس (گرامین) یوجنا کے تحت اب تک 2.52 کروڑ مکانات تعمیر کیے جا چکے ہیں اور اس کے لیے 1.95 لاکھ کروڑ روپے کی مرکزی امداد جاری کی گئی ہے۔

پردھان منتری اجولا یوجنا کے تحت ہر مستفید شخص کو ایل پی جی کنکشن کی سہولت بھی دی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس اسکیم کے تحت اب تک شہری علاقوں میں 58 لاکھ مکانات تعمیر کیے جا چکے ہیں۔

اس کے لیے 1.18 لاکھ کروڑ روپے کی مرکزی امداد جاری کی گئی ہے۔ اس اسکیم کے تحت گھرکی خاتون رکن یا مشترکہ نام پر ملیکت ہوتی ہے۔ ہر گھر میں کچن، بیت الخلا اور پانی کی سہولت دی جاتی ہے۔(ایجنسی)


جمعرات, اپریل 07, 2022

مولانا ڈاکٹر اقبال نیر ؒمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

مولانا ڈاکٹر اقبال نیر ؒ
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
 امارت شرعیہ بہار اڈیشہ کی مجلس شوریٰ کے رکن، مدرسہ خیر العلوم بالو ماتھ ضلع لاتی ہار کے مہتمم ، جامعہ رشید العلوم چترا جھارکھنڈ کی مجلس شوریٰ کے صدر اور مؤطین کے استاذ، آل انڈیا ملی کونسل کے رکن، ماہر طبیب، مشہور داعی، نامور مقرر مولانا ڈاکٹر محمد اقبال نیر بن خورشید عالم (م ۱۹۹۲) بن محی الدین کا رانچی کے ایک ہوسپیٹل میں ۱۸؍ مارچ ۲۰۲۲ء مطابق ۱۴؍ شعبان ۱۴۴۳ھ شب جمعہ دو بجے انتقال ہو گیا، وہ بہت دنوں سے صاحب فراش تھے، برین ہیمریج کے پہلے حملے نے ایک طرف کے اعضا کو متاثر کیا تھا اور مفلوج سے ہو گیے تھے، ایک ہفتہ قبل دو بارہ برین ہیمریج ہوا، اسپتال لے جائے گئے، علاج پر بھر پور توجہ دی گئی، لیکن وہ اس دوسرے حملہ کی تاب نہ لاسکے اور داعی اجل کو لبیک کہا، ان کی نماز جنازہ ان کے بڑے صاحب زادہ حافظ الفاتح نے بعد نماز جمعہ کوئی ساڑھے تین بجے پڑھائی، اور مقامی قبرستان میں تدفین عمل میں آئی، پس ماندگان میں اہلیہ تین لڑکے اور پانچ لڑکیوں کو چھوڑا، ایک لڑکی اور دو لڑکے ابھی غیر شادی شدہ ہیں۔
 ڈاکٹر اقبال نیر صاحب کی ولادت ۱۹۵۸ء میں ان کے آبائی گاؤں بالو ماتھ موجودہ ضلع لا تی ہار میں ہوئی، ابتدائی تعلیم مقامی مکتب میں حاصل کرنے کے بعد وہ اپنی نانی ہال چترا آگیے، مولانا سراج رشیدی ان کے ناناتھے، انہوں نے جامعہ رشید العلوم چترا میں ان کا داخلہ کرا دیا، چنانچہ پوری دل جمعی کے ساتھ  متوسطات تک کی تعلیم یہیں حاصل کی ، وہاں سے مظاہر علوم سہارن پور تشریف لے گیے اور وہیں سے ۱۹۷۸ء میں سند فراغ حاصل کیا، ۱۹۷۹ء میں انہوں نے دار العلوم دیو بند کا رخ کیا اور طب کی تعلیم کے لیے دار العلوم کے طبیہ کالج میں داخلہ لیا اور یہاں سے چار سالہ طب کا کورس مکمل کیا اور ۱۹۸۲ء میں فراغت حاصل کی دار العلوم کے قیام کے آخری سال میں وہ سجاد لائبریری کے صدر منتخب ہوئے اور میںنے ان کے ساتھ ناظم کی حیثیت سے کام کیا، فراغت کے بعد وہ اپنے گاؤں بالو ماتھ لوٹ آئے اور یہاں اپنا مطب کھول کر مریضوں کی خدمت کرنے لگے، اللہ نے دست شفا دیا تھا اس لیے جلد ہی آپ کا شمار علاقہ کے بہترین ڈاکٹروں میں ہونے لگا، اس طرح خدمت کے ساتھ معاشی استحکام بھی حصے میں آگیا، ۱۹۸۳ء میں آپ نے چترا کی ایک یتیم بچی سے نکاح کرلیا، اورازدواجی زندگی سے وابستہ ہو گیے، ۱۹۸۴ء میں آپ مدرسہ خیر العلوم بالو ماتھ کے مہتمم منتخب ہوئے اور اپنی جد وجہد اور کامیاب قیادت سے اس مدرسہ کو ترقی کی طرف گامزن کیا، ہرجمعہ کو بالو ماتھ کی جامع مسجد میں آپ کا خطاب ہوتا، ڈاکٹر صاحب کے خطاب سے علاقہ میں اصلاح معاشرہ کا بڑا کام ہوا، انہوں نے جامع مسجد میں درس قرآن کا سلسلہ شروع کیا اور اسے پایۂ تکمیل تک پہونچا کر دم لیا۔ تزکیہ نفس کے لیے انہوں نے حضرت مولانا ابو الحسن علی ندوی ؒ کا ہاتھ تھاما تھا، ان کے بتائے ہوئے اوراد وظائف پر وہ سختی سے عامل تھے، صحت اچھی تھی تو اوراد واذکار کے ساتھ تلاوت قرآن اور نوافل نمازوں کا اہتمام بھی خوب کرتے تھے، ان کے اندرمسلکی شدت نہیں تھی، ان کی تقریریں طویل ہوتی تھیں، لیکن معلومات کی فراوانی، بولنے کے انداز، تجزیہ کی صلاحیت کی وجہ سے لوگ اُوبتے نہیں تھے، ان کے مطالعہ میں گہرائی اور گیرائی تھی ، ان کی مجلسی گفتگو زعفران زار ہوتی تھی،وہ اپنی بات کہنے کے عادی تھے، دوسروں کی بُرائی اور غیبت سے پر ہیز کرتے تھے۔انہوں نے اپنے علاقہ میں رجال سازی پر بھی توجہ دی اور مختلف میدان میں افرادِ کار تیار کیے۔
 تقریر کے ساتھ اللہ نے ا نہیں لکھنے کا بھی ملکہ عطا کیا تھا، مطب کی پیشہ وارانہ مشغولیت کے ساتھ انہوں نے تصنیف وتالیف کا کام بھی جاری رکھا، ان کی مشہور کتابوں میں سیرت سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت (مولانا ذو الفتار صاحب) کی یادیں، مولانا رحمت اللہ ؒ حالات زندگی کا شمار ہوتا ہے۔
 مولانا اقبال نیر مرحوم سے میری ملاقات دوران طالب علمی ہی سے تھی، مظاہر علوم سے فراغت کے بعد جب انہوں نے دیو بند کے طبیہ کالج میں داخل لیا تو ۱۹۸۱ء میں وہ سجاد لائبریری کے صدر منتخب ہوئے اور مجھے ناظم چنا گیا، یہ زمانہ دار العلوم کے طلبہ وانتظامیہ کے لیے آزمائش کا تھا، اس لیے بہت بڑے پیمانے پر کام کی شکل تو نہیں بن سکی، لیکن سجاد لائبریری کی سر گرمیوں کو باقی رکھنے کا کام ہم لوگوں نے کیا، اگلے سال وہ گھر لوٹ گیے اور میں ان کی جگہ سجاد لائبریری کا صدر چن لیا گیا اور سجاد لائبریری کے لیے زمین کی خریداری اور تعمیر کا کام میرے دور صدارت میں شروع ہوا۔
مولانا کو اللہ رب العزت نے علمی رسوخ، انتظامی صلاحیت کے ساتھ قدورقامت اور چہرے مہرے کے اعتبار سے بھی انتہائی وجیہ بنایا تھا، وہ بغیر کالر کا کرتا اور اس پر کرتے کے رنگ کی دیدہ زیب اور خوشنما صدری پہنا کرتے تھے، ٹوپی عموما کھڑی پٹی کی مخملی یا بال والی پہنتے ، بہت کم میں نے انہیں گول ٹوپی میں دیکھا، ڈاڑھی ہلکی اور بہت بڑی نہیں تھی، سفیدی آنے کے بعد لال مہندی کا خضاب ڈاڑھی اور سر کے بالوں میں لگا یا کرتے تھے، پیشانی کشادہ ، آنکھ بڑی اور چہرہ روشن تھا، کہنا چاہیے کہ وہ خوش خصال، خوش جمال اور خوش لباس تھے، بعض لوگوں کی رائے ہے کہ خوش خوراک بھی تھے۔
 دیو بند سے آنے کے بعد نہ جانے کتنی میٹنگوں اور جلسوں میں ہم لوگ ساتھ ساتھ رہے، امارت شرعیہ، آل انڈیا ملی کونسل اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی میٹنگوں میں بھی وہ مختلف حیثیت اور جہتوں سے شریک ہوتے اور ہر جگہ اپنی اصابت رائے کا نقش جمیل چھوڑتے ، وہ بات کے دھنی نہیں ، کام کے آدمی تھے، ملی سر گرمیوں میں وہ پیش پیش رہتے تھے، غریبوں کی مدد اور یتیموں کی کفالت کے سلسلے میں بھی وہ بہت حساس تھے، ان کا چلا جانا ملی اور علمی خسارہ ہے۔ اللہ رب العزت مرحوم کی مغفرت اور پس ماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین ۔ للہ ما اخذ ولہ ما اعطیٰ وکل شئی عندہ لاجل مسمیٰ

بدھ, اپریل 06, 2022

روزے کے آداب 1: ذوق و شوق اور ایمانی کیفیت کیساتھ روزہ رکھنا۔

روزے کے آداب 

 1: ذوق و شوق اور ایمانی کیفیت کیساتھ روزہ رکھنا۔ 
          روزے کے عظیم اجر اور عظیم فائدوں کو نگاہ میں رکھ کر پورے ذوق و شوق کے ساتھ روزہ رکھنے کا اہتمام کیجیے۔ یہ ایک ایسی عبادت ہے جس کا بدل کوئی دوسری عبادت نہیں ہوسکتی۔ یہی وجہ ہے کہ روزہ ہر امت پرفرض رہا ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:           
        ”ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے جس طرح تم سے پہلے کے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تا کہ تم متقی اور پرہیز گار بن جاؤ۔“(البقره ۱۸۳ )   
         نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے روزے کے اس عظیم مقصد کو یوں بیان فرمایا:
        ”جس شخص نے روزہ رکھ کر بھی جھوٹ بولنا اور جھوٹ پرعمل کرنا نہ چھوڑا تو خدا کو اس کے بھوکا اور پیاسا رہنے سے کوئی دلچسپی نہیں“۔ (بخاری)
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
         *”جس شخص نے ایمانی کیفیت اور احتساب کے ساتھ رمضان کا روزہ رکھا تو خدا اس کے ان گناہوں کو معاف فرما دے گا جو پہلے ہو چکے ہیں۔“* (بخاری)

*2: بغیر عذر شرعی کے روزہ نہ چھوڑنا:* 
            رمضان کے روزے پورے اہتمام کے ساتھ رکھیے اور کسی شدید بیماری با عذر شرعی کے بغیر کبھی روزہ نہ چھوڑیے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
          ”جس شخص نے کسی بیماری یا شرعی عذر کے بغیر رمضان کا ایک روزہ بھی چھوڑا تو عمر بھر کے روزے رکھنے سے بھی اس ایک روزے کی تلافی نہ ہو سکے گی۔“ (ترمذی) 

3: ریاکاری اور دکھاوے سے بچنا:     
             روزے میں ریا کاری اور دکھاوے سے بچنے کے لیے معمول کے مطابق ہشاش بشاش اور اپنے کاموں میں لگے رہیے اور اپنے انداز و اطوار سے روزے کی کمزوری اور سستی کا اظہار نہ کیجیے۔ حضرت ابو ہریرہ کا ارشاد ہے:   
         ”آدمی جب روزہ رکھے تو چاہیے کہ حسب معمول تیل لگائے کہ اس پر روزے کے اثرات نہ دکھائی دیں

منگل, اپریل 05, 2022

حرمین شریفین میں دس رکعت تراویح پر دارالعلوم دیوبند برہم

حرمین شریفین میں دس رکعت تراویح پر دارالعلوم دیوبند برہم 
سعودی حکومت سے سابقہ معمول کے مطالبہ سنت تراویح رائج رکھنے کامطالبہ، ملی تنظیموں سے سعودی سفارت خانے کو میمورنڈم بھیجنے کی اپیل 
دیوبند۔ ۵؍اپریل: (ایس چودھری) 

حرمین شریفین میں نماز تراویح کی 20؍رکعات کے بجائے 10؍رکعات تراویح باجماعت پڑھائے جانے پر عالم اسلام کی ممتاز دینی درسگاہ دارالعلو م دیوبند نے تشویش کا اظہار کیاہے اور کہاکہ اب پوری دنیا سے کووڈ کا بحران ختم ہونے کے ساتھ سعودی عرب میں بھی تمام پابندیاں ختم کی جاچکی ہیں لیکن اس کے باوجود حرمین شریفین میں 20؍رکعات نماز تراویح کے بجائے 10؍رکعات باجماعت پڑھایا جانا پورے عالم اسلام کے لئے نہایت فکر مندی کی بات ہے ۔دارالعلوم دیوبند نے سعودی عرب حکومت سے فوری طور پر سابقہ معمول کے مطابق حرمین شریفین میں 20؍رکعات نماز تراویح باجماعت ادا کرائے جانے مطالبہ کیاہے۔دارالعلوم دیوبند کے قائم مقام مہتمم مولانا عبد الخالق مدراسی نے جاری بیان میں کہاکہ دارلعلوم دیوبند اس بات سے فکر مند اور برہم ہے کہ حرمین شریفین میں نماز تراویح کی 20؍رکعات کے بجائے 10؍رکعات باجماعت پڑھائی جارہی ہیں۔مولانا عبد الخالق مدراسی نے کہا ہے کہ حرمین شریفین عالم کے تمام مسلمانوں کا مرکز محبت وعقیدت ہے،ان مقامات مقدسہ میں ہمیشہ سے باجماعت نماز تراویح 20؍رکعات ہوتی رہی ہیں،حکومت سعودی عربیہ نے گذشتہ دو برسوں میں کووڈ بحران کے حوالہ سے رکعات کی تعداد میں تخفیف کی اور محض 10؍رکعات نماز تراویح پر اکتفا کیا،اس وقت بھی دارالعلوم دیوبند نے اس سلسلہ میں ایک مکتوب مورخہ 28؍اپریل 2021؁ء کو بھی حکومت سعودی عربیہ کو ارسال کیا تھا جس میں مذکورہ تخفیف کو ختم کرنے کی اپیل کی گئی تھی۔الحمد للہ! اب ساری دنیا کووڈ بحران سے نکل چکی ہے،ہر جگہ پابندیاں اور تحدیدات کا سلسلہ ختم ہوتا جارہا ہے،سعودی عربیہ میں بھی کووڈ کی تمام پابندیاںختم کی جارہی ہیں اس کے باوجود حرمین شریفین میں20؍رکعات تعامل کے بجائے 10؍رکعات نماز تراویح پڑھائی جانے کا سلسلہ جاری ہے جو بلاشبہ سوہانِ روح ہے،حرمین شریفین میں دیگر حق پرست مسالک اور مکاتب فکر کا خیال رکھنا اور صرف کسی ایک سخت رخ پر عمل پیرا ہونا کسی بھی طرح مناسب نہیں ہے،اسلئے ہم سعودی حکومت سے اپیل کرتے ہیں کہ سابقہ معمول کے مطابق حرمین میں 20؍رکعات نماز تراویح کی سنت کو فوری طور پر جاری کرے،چونکہ سعودی حکومت کے اس نار واطرز عمل سے بر صغیر ہندو پاک اور دنیا کے بہت سے زائرین کو ذہنی اذیت کاسامنا ہے اسلئے بعجلت ممکنہ اس جانب توجہ دی جائے۔مولانا عبد الخالق مدراسی نے دیگر ملی تنظیموں کو بھی اس مسئلہ کی جانب توجہ دلاتے ہوئے کہا ہے کہ سعودی سفارتخانہ کے ذریعہ حکومت سعودی عربیہ کو اس بابت میمورنڈم بھیجے جائیں۔

عیادت: ہم دردی ، غم گساری اور دل جوئی کا نبوی طریقہ

عیادت: ہم دردی ، غم گساری اور دل جوئی کا نبوی طریقہ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
صحت انسانی زندگی کے لیے  اللہ کی بڑی نعمتوں میں سے ایک ہے ،اس پر جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہے لیکن صحت ہمیشہ نہیں رہتی زندگی میں بہت بار آدمی بیمار ہو تا ہے ۔دردوالم کی کیفیت سے گذرتا ہے اور صبر کرتا ہے ۔وہ سوچتا ہے کہ اللہ رب العزت نے بیشتر ایام صحت کے ساتھ رکھا تو اس کا شکر تو ادا نہیں ہو پایا ،اب چند ایام بیماری کے ہیں تو کیوں شکوہ کناں رہوں،یہ احساس اس کے اندر برداشت کی غیر مرئی قوت پیدا کرتا ہے ، اس کی وجہ سے اس کے لیے دکھ اور تکلیف کا بر داشت کرنا آسان ہو جاتا ہے ،بیماری میں پریشانی اور غم کو کم کر نے ،ہمدردی غمگساری اور دلجوئی کا نبوی طریقہ عیادت ہے اسی لیے بیماری چھوٹی ہو یا بڑی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عیادت کا حکم دیا ۔ اور اس کے فضائل کثرت سے بیان کیے اور اسے اللہ کی رضا اور جنت کے حصول کا ذریعہ اور جہنم سے بُعد اور دوری کا سبب قرار دیا ، بخاری ، مسلم، ترمذی، ابو داؤد وغیرہ میں بہت ساری صحیح روایات موجود ہیں، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مریض کی عیادت کا بڑا ثواب ہے ، بعض روایتوں میں اسے ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر حق قرار دیا گیا ہے ، ایک روایت میں اسے قرب خدا وندی کا ذریعہ بتا یا گیا ، یہ قرب خداوندی اسی وقت حاصل ہوگی، جب عیادت صرف اللہ کی رضا اور خوشنودی کے حصول کے لیے کی جائے، کوئی دنیاوی غرض اس میں پوشیدہ نہ ہو، عیادت کرنے والا اس خوف سے عیادت نہ کررہا ہو کہ اگر عیادت نہیں کیا تو لوگ کیا کہیں گے ، اس سلسلے میں ایک روایت حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے مروی ہے،جسے ترمذی نے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشا د فرمایا کہ جو مسلمان کسی مسلمان بھائی کی عیادت کے لیے صبح کو جاتا ہے تو ستر (۷۰) ہزار فرشتے شام تک اس کے حق میں رحمت کی دعائیں کرتے ہیں، اور جنت میں عیادت کرنے والوں کے لیے ایک باغ اس پر مستزاد ہوگا، حضرت ثوبان ؒ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بھی نقل کرتے ہیں کہ جب مسلمان اپنے مسلمان بھائی کی عیادت او رمزاج پرسی کرتا ہے تو واپسی تک جنت کے باغوں اور پھلوں کے درمیان رہتا ہے ، یہ روایت صحیح مسلم شریف میں موجود ہے ، خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول مریضوں کی عیادت کرنے کا تھا، حضرت جابر بن عبد اللہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں بیمار ہو گیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابو بکر صدیق ؓ میری عیادت کے لیے تشریف لائے، اس وقت مجھ پر غشی طاری تھی ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور وضو کے بچے ہوئے پانی سے میرے اوپرچھینٹیں ماری تو مجھے ہوش آگیا ، ان روایتوں کی بنیاد پر علماء نے عیادت کو سنت قرار دیا ہے ، کیوں کہ عیادت کی فضیلت پر قولی وفعلی احادیث کثرت سے آئی ہیں۔
حدیث قدسی ہے کہ اللہ پوچھیں گے کہ تم نے میری عیادت نہیں کی ، بندہ کہے گا کہ یا اللہ تجھے عیادت کی کیا ضرورت ہے تو ان چیزون سے بے نیاز ہے ، اللہ کہیں گے کہ میرا فلاں بندہ بیمار تھا تو نے اس کی عیادت اور مزاج پرسی نہیں کی ، اگر تو اس بندہ کی عیادت کرتا تو تُو مجھے اس کے قریب پاتا، اس روایت سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ بیماری کی حالت میں بندہ اللہ سے قریب ہوتا ہے اور وہ اپنے مرض کی شدت پر جو صبر کرتا ہے اور صحت کی حالت پر جو شکر ادا کرتا ہے اس کی وجہ سے اسے اللہ کی قربت حاصل ہوتی ہے ، اسی لیے بعض روایتوں میں مریض کی دعاکے مقبول ہونے کی بات بھی کہی گئی ہے ، ظاہر ہے اس کی وجہ قربت خدا وندی ہی ہے ۔
یہاں یہ بات بھی ذہن نشیں رہنی چاہئے  کہ اسلام میں عیادت کی بنیاد مذہبی نہیں، انسانی ہے ، اس لیے مریض کسی بھی مذہب کا ماننے والا ہو اس کی عیادت کرنی چاہیے تاکہ اس کے دل میں اسلام کی عظمت جاگزیں ہو اور مسلمانوں سے نفرت کا احساس کم ہو سکے ، جو بعض داخلی اور خارجی وجوہات کی وجہ سے اس کے دل ودماغ اور سوچ وفکر کا خاص طور پر حصہ بن گیے ہیں، مشہور روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بڑھیا کی عیادت کی جو آپ کے جسم اطہر پر گرد وغبار ڈالا کرتی تھی اور راستے میں کانٹے بچھاتی تھی۔ آج کے نفرت کے اس ماحول میں غیر مذاہب والوں کی عیادت کی اہمیت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے ۔
 ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ہم دوسرے اعمال کی طرح اس کام میں بھی انتہائی کاہل اور سست واقع ہوئے ہیں، ہمارے پڑوس میں ہمارا بھائی رہتا ہے ، لیکن ہم اس بیمار بھائی اور پڑوسی کی عیادت کے لیے حاضر نہیں ہو پاتے ، حا کموں کا حال ما تحتوں کے سلسے میں آقا کا حال نوکر اور مزدورں کے سلسلے میں تو اور بھی نا گفتہ بہہ ہے ، انہیں فون پر دریافت حال کی بھی فرصت نہیں ہوتی ، اس سے مستثنی صرف اپنے بیوی بچے ہو تے ہیں ذرا سی چھینک آن پڑی اور سر درد کی خبر آئی نہیں کہ ہم بے چین ہو اٹھتے ہیں،لیکن دوسرے کہ جاں بلب ہو نے کی خبر پر بھی ہمارے جسم پر جوں تک نہیں رینگتی، یہ حال ہم مسلمانوں کا مسلمانوں کے ساتھ ہے ، جو ایک مسلمان کا دوسرے پر حق ہے ، دیگر مذاہب والوں کی عیادت کا تو ہمیں خیال بھی نہیں آتا ۔حا لانکہ آج کل ذرائع ابلاغ نے اتنی وسعت حاصل کر لی ہے کہ مریض کی عیادت کے لیے سفر کر نا بھی ضروری نہیں ہے ، اب تو ویڈیو کانفرنسنگ اور کالنگ کے ذریعہ دور دراز سے آمنے سامنے بات ہو سکتی ہے ، لیکن سہولتیں جس قدر ہیں ہماری بے اعتنائی بھی اسی قدر ہے ، عیادت کر نے والے بعض افراط کے بھی شکار ہو تے ہیں ، بعض لوگ شب وروز فون کرکے اتنی بار خیریت دریافت کرنا شروع کر تے ہیں کہ طبیعت گراں بار ہوجاتی ہے اور بعض لوگ مریض کی اس قدر ان دیکھی کرتے ہیں کہ شریعت کے حکم کے پاس ولحاظ نہ رکھنے کا احساس ہونے لگتا ہے ۔
جیسا کہ پہلے مذکور ہوا، اسلام میں عیادت صرف مزاج پرسی کا نام نہیں ہے ، بلکہ ہمدردی ، غم گساری، دل جوئی اور دلداری کا نام ہے ، اس کے بھی اصول وآداب ہیں، ہدایت دی گئی ہے کہ مریض کے سامنے اس کی درازی عمر کی بات کی جائے ، ایسی باتوں سے وقت مقررہ تو بدلے گا نہیں، لیکن مریض کو مرض سے لڑنے کا حوصلہ ملے گا۔ حدیث میں ’’لا باس طھور انشاء اللہ‘‘ وغیرہ کے الفاظ سے یہی معلوم ہوتا ہے ، اسی طرح بعض لوگ آتے تو عیادت کے لیے ہیں، لیکن آداب عیادت نہ معلوم ہونے کی وجہ سے کہنے لگتے ہیں کہ یہ مرض تو بڑا سخت ہے ، فلاں شخص کی موت اسی مرض میں ہو گئی تھی، ایسے جملوں سے ہر حال میں احتراز کرنا چاہیے ، تاکہ مریض اپنی زندگی سے مایوس نہ ہو جائے ، اس کے سامنے امید افزا جملے کہے جائیں تاکہ وہ اپنے دل میں خوشی محسوس کرے اور مرض کو ہلکا سمجھے اس سے اس کی قوت مدافعت میں اضافہ ہوگا، ہم سب جانتے ہیں کہ بعض مرض صرف قوت مدافعت ختم ہونے کی وجہ سے موت کی نیند سلا دیتے ہیں۔
عیادت کے لیے آنے والوں کے ذہن میں یہ بات بھی رہنی چاہیے کہ مریض کی ضروریات مختلف ہوتی ہیں، اسے دوا کھانا ہے ، قضائے حاجت کا تقاضہ ہے ، دوسری خدمات درکار ہیں، ظاہر ہے اگر عیادت کرنے والا دیر تک بیٹھا رہے گا تو مریض کی بہت ساری ضرورتوں کی تکمیل میں رکاوٹ ہو سکتی ہے ، اس لیے مریض کے پاس مختصر قیام کرنا چاہیے ، سوائے اس کہ جب اس کی طویل نشست مریض کے لیے انسیت کا سبب ہو اور وہ عیادت کرنے والوں کے بیٹھنے سے تقویت محسوس کرے ، ایسے میں مریض کی دل جوئی کے لیے بیٹھنے میں حرج نہیں ہے ، اسی لیے جو مستقل تیمار دار ہے وہ اس اصول سے مستثنیٰ ہے کیوں کہ وہ مریض کی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے ہی اس کے پاس فروکش رہتا ہے ، یہاں پر ایک لطیفہ ذہن میں آگیا ۔ ایک مریض کی عیادت کے لیے ایک صاحب گیے ، گھنٹوں بیٹھے رہے ، مریض سے رہا نہ گیا اس نے کہا لوگوں کے دیر تک بیٹھنے کی وجہ سے مجھے پریشانی کا سامنا ہے ، ان صاحب نے کہا کہ اگر اجازت دیں تو دروازہ بند کر دیں، مریض نے کہا ضرور، لیکن باہر سے ، یہ لطیفہ بتاتا ہے کہ کبھی کبھی یہ معاملہ کس قدر پریشان کن ہوجاتا ہے ۔
بخاری اور مسلم کی روایت حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی مریض کی عیادت کو جاتے تو مریض کے لیے دعا فرماتے کہ پروردگار! اس بندے کی تکلیف دور کرکے شفا فرمادے تو ہی شفا دینے والا ہے ، ایسی شفا عطا فرما دے جو بیماری کا اثر بالکل زائل کر دے ۔ حدیث میں اور بھی دعائیں عیا دت کے وقت منقول ہیں یاد ہو تو اس کا پڑھنا بھی مریض کے لیے فائدہ مند ہو گا۔

دونوں شہروں میں ماہ رمضان کی رونقیں بحال بازار متاثر

دونوں شہروں میں ماہ رمضان کی رونقیں بحال بازار متاثر

عوام کی قوت خرید میں کمی ۔ تاجرین میں تشویش ۔ آئندہ دنوں میں صورتحال میں بہتری کی امید

حیدرآباد۔5اپریل۔ (اردو دنیا نیوز۷۲) دونوں شہروں میں رمضان المبارک کی رونقیں بحال ہوچکی ہیں لیکن بازاروں میں رونق نظر نہیں آرہی ہے ۔ شہریوں کی قوت خرید متاثر نظرآنے لگی ہے۔ ماہ رمضان المبارک کے پہلے اور دوسرے روزہ کے دوران شہریوں کی خریداری میں گراوٹ کے سلسلہ میں تاجرین بالخصوص ہوٹل ذمہ داروں کا کہناہے کہ گذشتہ دو برس کے دوران لاک ڈاؤن اور حالیہ عرصہ میں گرانی میں اضافہ کے بازاروں پر شدید اثرات ہیں۔ حیدرآبادو سکندرآباد میں ماہ رمضان کے ساتھ حلیم کے کاروبار کے علاوہ میوہ جات کی فروخت میں بھی اضافہ ریکارڈ کیا جاتا تھا اور اس ماہ مقدس کے پہلے دہے کے دوران مجموعی اعتبار سے یہی کاروبار چلا کرتے تھے لیکن ابتدائی ایام میں ان پر بھی منفی اثرات دیکھے جا رہے ہیں ۔ کہا جا رہاہے کہ شہری گرانی کے سبب پریشان ہیں اورگذشتہ چند یوم سے پٹرول قیمتوں میں اضافہ سے حالات مزید ابتر ہونے لگے ہیں ۔ شہر کے ٹھوک میوہ فروشوںکو توقع ہے کہ ابتدائی ایام میں کاروبار پر منفی اثرات کم ہونگے اور بہتری آئے گی اور یہ حالات مسلسل برقرار نہیں رہیں گے ۔ میوہ فروشوں کا کہناہے کہ مہنگائی کے سبب عوام کی قوت خرید کمزور ہوئی ہے ۔ اسی طرح ریستوراں مالکین بھی حلیم کی پہلے دن کی فروخت سے پریشان ہیں اور ان کا کہناہے کہ ابتدائی ایام میں حلیم کی فروخت میں جو توقع تھی ویسی فروخت نہیں کی گئی ہے جس کی کئی وجوہات ہیں جن میں مہنگائی کے ساتھ گرمی شامل ہے۔ ہوٹل مالکین کا کہناہے کہ حالات ابتر ہیں لیکن اب احساس ہونے لگا ہے کہ عوام کی قوت خرید کمزور ہوئی ہے ۔ بتایاجاتا ہے کہ کئی سرکردہ حلیم تیارکنندگان کی جانب سے قیمتوں میں بھی تبدیلی پر غور کیا جانے لگا ہے تاکہ عوام کو مقوی غذاء کی جانب سے راغب کیا جاسکے۔ دونوں شہروں میں ماہ رمضان کے دوران تلن کی اشیاء کے علاوہ حلیم و دیگر غذائی اشیاء اور میوہ جات کی فروخت میں اضافہ ہوتا ہے ۔ بعض تاجرین کا کہنا ہے کہ شہر کے وسعت حاصل کرنے اور گاہکوں کے علاقہ کے اعتبار سے منقسم ہونے کے سبب گہما گہمی نظر نہیں آرہی ہے لیکن مجموعی اعتبار سے کہا جا رہاہے کہ عوام کفایت شعاری سے کام لینے لگے ہیں اور ان کی قوت خرید میں کمی آئی ہے۔ 

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...