Powered By Blogger

ہفتہ, اپریل 09, 2022

*ذرا ٹھہرئیے امام صاحب!*تراویح کی نماز میں ایک نمازی نے اپنے امام صاحب سے یہ گذارش کی ہے

*ذرا ٹھہرئیے امام صاحب!*
تراویح کی نماز میں ایک نمازی نے اپنے امام صاحب سے یہ گذارش کی ہے کہ؛ اللہ کے لیے مجھ پر رحم کیجیے،میں ثناء نہیں پڑھ پاتا ہوں اور نہ رکوع وسجود کی تسبیح مکمل ہوپاتی ہے۔لہذا تکبیر تحریمہ کے بعد تھوڑا رکیےتاکہ ثنا پڑھ لوں، اور رکوع وسجدے میں کچھ دیر ٹھہر جائیے تاکہ تسبیح تین مرتبہ مکمل کرسکوں۔
یہ ایک نمازی کی طرف سے کی گئی گذارش ہے مگریہ ہر نمازی کے دل کی آوازہے۔
اس تعلق سے واقعی بڑی بے اعتدالی دیکھنے میں آتی ہے۔
ایک امام کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم فرمایا ہے کہ نماز میں نمازی کے لیےامام تخفیف کرے، اور نماز کو ہلکی پڑھائے،بیماروں ،کمزوروں اور بوڑھوں کا خیال کرے،یہ بخاری شریف کی حدیث ہے۔
تراویح کی نماز میں افسوس کی بات تو یہ ہےکہ جہاں تخفیف ہونی چاہئے وہاں معاملہ لمبا اور طویل کردیا جاتا ہے، اور جہاں گنجائش نہیں ہے وہیں تخفیف کردی جاتی ہے۔
تخفیف زیادہ قرأت اور لمبی رکعت میں ہونی چاہئے مگر وہاں کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جارہا ہے بلکہ زیادہ سے زیادہ قرآن پڑھاجاتا ہے تاکہ جلد قرآن مکمل ہوجائے اور نماز کے مکمل ہونے کا بالکل خیال نہیں کیا جاتا ہے۔جماعت کے ساتھ اس نماز کو پڑھتے ہیں مگر جماعت کا مقصدبھی فوت ہورہا ہے۔فقہ کی مشہور کتاب شامی میں یہ مسئلہ لکھا ہوا ہے کہ جماعت والی نماز میں تعداد کی کثرت زیادہ قرأت اور لمبی رکعت سے افضل ہے۔پھر یہ مذکورہ حدیث کی کھلی ہوئی خلاف ورزی بھی ہے کہ نمازی کے لیے اس تراویح کی نماز کو مشکل اور سخت بناکر پیش کیا جارہا ہے، بلکہ دیکھنے میں تو یہ آتا ہے کہ کچھ لوگ مسجد کے طہارت خانے کی طرف ہوا خوری کررہے ہوتے ہیں، جب امام صاحب رکوع میں جاتے ہیں توایسے لوگ نماز میں شامل ہوتے ہیں،یہ عمل کسی بھی نمازی کے لیے مناسب نہیں ہے،یہ منافقوں والا عمل ہے،یہ سب کچھ اپنی جگہ پر مگر کہیں نہ کہیں ایک امام کی جوابدہی بھی قائم ہوتی ہے کہ اس کی نوبت کیوں آرہی ہے کہ لوگ نماز کو مشکل سمجھ رہے ہیں، صحیح جگہ نماز میں تخفیف کی یہی ہے کہ قرآن نمازیوں کی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے پڑھا جائے، جتنی رغبت ہو مقتدیوں کی اتنی ہی تلاوت کی جائے، اس کا مطلب یہ ہرگز نہ لیا جائے کہ اتنی رعایت بھی نہ کی جائے کہ پورے رمضان میں ایک ختم بھی نہ ہوسکے۔
بلکہ تراویح میں ختم قرآن ستائیسویں رمضان کی شب میں افضل ہے۔آج کی تاریخ میں اس کا مزاج ومذاق پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔یہ افضل وقت کو پانے کا ذریعہ بھی ہوگا اور جماعت کی نماز کا مقصد بھی اس سےمکمل حاصل ہوسکےگا اور آقائے مدنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تعمیل بھی ہوگی۔ یہ کرنے کی چیز ہے اسے نہ کرکے نماز میں جہاں کمی نہیں کرسکتے ہیں، وہاں تخفیف کا عمل نماز تراویح میں ہورہی ہےجویہ سنت شریعت سے ہٹی ہوئی یے، ایک امام قرآن مکمل کرنے کی فکر میں نماز ادھوری پڑھتےہیں اور پڑھاتے ہیں، یہ واقعی افسوسناک امر ہے۔
نماز میں ثناء پڑھنا مسنون ہے۔رکوع اور سجود کی تسبیح تین بار پڑھنا یہ بھی مسنون ہے۔تراویح کی نماز بھی سنت ہے،ایک سنت کے لیے دوسری سنت کو چھوڑنا کبھی جائز نہیں ہے۔
یہاں پر حیرت وتعجب کی بات تو یہ بھی ہے کہ تکبیر تحریمہ کے بعد مقتدی کو ثنا پڑھنے کا موقع نصیب نہیں ہورہا ہے وہاں امام صاحب کو پھر تعوذ اور بسم اللہ کا وقت کیسے دستیاب ہورہا ہے؟
جبکہ قرینہ اور قیاس تو صاف یہ کہتا ہے کہ بغیر تعوذ اور بسم اللہ کے قرأت ہورہی ہے، اس کی بھی حیثیت نماز میں سنت کی ہے،فقہ وفتاوی کی کتابوں میں جان بوجھ کر ایسا کرنے والے کو گنہ گار کہا گیا ہے اور اس کی نماز کو کراہت والی نماز سے تعبیر کیا گیا ہے۔
ستم بالائے ستم تو یہ ہےکہ کچھ حفاظ سے جلدی پڑھنے کے چکر میں قرآن کے حروف کٹتے ہیں، یہ عمل اگر جان بوجھ کر ہورہا ہے تو نماز فاسد ہورہی ہے۔فقہ کی کتابوں میں لکنت کی وجہ سے اگر حروف کٹتے ہوں تو گنجائش لکھی گئی ہے بصورت دیگر کوئی گنجائش نہیں ہے۔اس طرف بھی توجہ کی شدید ضرورت ہے۔
ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ 
رابطہ، 9973722710

پُر امن زندگی___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھند پھلواری شریف پٹنہ

پُر امن زندگی___
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھند پھلواری شریف پٹنہ 
اسلام اخوت ومحبت، رافت وحمت،شفقت ومروت ،امن وآشتی، مدارات ومواسات کا مذہب ہے، وہ یکجہتی کی ان تمام کوششوں کوسراہتا ہے، جوا سلامی عقائد ونظریات سے متصادم نہ ہوں، اورجن سے دوسرے ادیان کی مشابہت لازم نہ آتی ہو، اس کے برعکس وہ فتنہ وفساد کی ہر کوشش اور اس کے برپا کرنے کو مذموم قرار دیتا ہے، اس سلسلہ میں اس کا بہت صاف اور واضح اعلان ہے:فتنہ قتل سے بڑی چیز ہے ۔اللہ فساد کو پسندنہیں کرتا۔زمین کی اصلاح کے بعد اس میں فساد نہ کرو۔ایک دوسری آیت میں ان قوموں کاتذکرہ کرتے ہوئے جنھوں نے فتنہ وفساد کو اپنا شعار بنالیا، ارشاد فرمایا:جب کبھی لڑائی کی آگ بھڑکاناچاہتے ہیں،اللہ تعالیٰ اس کو فرو کردیتے ہیں، اوروہ ملک میں فساد کرتے پھرتے ہیں اوراللہ تعالیٰ فساد کرنے والوں کو محبوب نہیں رکھتے۔ایک اورآیت میں حضرت آدمؑ کے دوبیٹو کا قصہ بیان کرکے جن میں سے ایک نے دوسرے کو قتل کیاتھا۔ ارشاد فرمایا:جوکوئی کسی کی جان لے بغیر اس کے کہ اس نے کسی کی جان لی ہو، یا زمین میں فساد کیاہو، تو گویا اس نے تمام انسانوں کاخون کیا، اورجس نے کسی کی جان بچائی تو گویا اس نے تمام انسانوں کوبچایا۔
اس آیت میں اگر غور کریں تو پتہ چلے گا کہ انسانی جان کی حرمت وعظمت کا معیار قلت وکثرت پر اسلام نے نہیں رکھا، بلکہ ایک ایک فرد کوپوری سوسائٹی کے قائم مقام بنادیا، اس لیے کہ ایک ایک جان انسانیت کی متاع عزیز ہے اور اس کا ضیاع انسانیت کی ضیاع کے مترادف ہے۔
فساد پھیلانے والے چوں کہ انسانی جان کے ساتھ املاک کوبھی تباہ کردیاکرتے ہیں، پھر ان کے ساتھ حکومت کی مشنری بھی شامل ہوجائے تو یہ فساد اپنے ساتھ اوربھی تباہی لاتا ہے، اس لیے اللہ رب العزت نے ایسی حاکمانہ قوت وطاقت کی بھی مذمت کی، جو اچھے مقاصد میں استعمال ہونے کے بجائے ظلم وستم اورغارت گری کے لیے استعمال کیاجارہا۔ ارشاد فرمایا:اور جب وہ حاکم بنتا ہے تو زمین میں فساد پھیلانے کی کوشش کرتاہے،اور کھیتوں اور نسلوں کو تباہ کرتاہے اوراللہ فساد کو ہرگز پسندنہیں کرتا۔
احادیث میں بھی تاجدار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قسم کے ارشادات کثرت سے پائے جاتے ہیں، جن میں بے گناہوں کے خون بہانے کو بدترین گناہ کہا گیاہے، حضرت انسؓ بن مالک کی ایک روایت ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بڑے گناہوں میں سب سے بڑا گناہ اللہ کے ساتھ شرک کرنااور قتل نفس ہے۔
ایک دوسری حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:مؤمن اپنے دین کے دائرے میں اس وقت تک  رہتا ہے جب تک وہ حرام خون نہیں بہاتا۔قیامت کے دن بندے سے سب سے پہلے جس چیزکا حساب لیاجائے گا وہ نمازہے اور پہلی چیز جس کافیصلہ لوگوں کے درمیان کیاجائے گاوہ خون کے دعوے ہیں۔اسلام نے قتل سے اپنی ناپسند یدگی کا اظہار کرنے کے بعد ان اخلاقی قدروں پرزورد یا جن پر عمل پیرا ہونے سے فساد کا اندیشہ ہی باقی نہیں رہتا، اس سلسلے میں فساد کے تین اہم ذرائع زر، زن، زمین کی محبت واہمیت انسانی قلوب سے نکالنے کی کوشش کی، چنانچہ اللہ رب العزت ارشادفرماتا ہے:مال اور اولاد دنیاوی زندگی کی ایک رونق ہیں۔ایک دوسری آیت میں ارشاد فرمایا:تمہارے اموال اوراولاد تمہارے لیے ایک آزمائش کی چیزہیں۔
ایک اور آیت میں انسان کوامراء اورسرمایہ داروں کی طرف حریصانہ نگاہ ڈالنے سے منع کیا اوراسے عارضی بہار قراردیا اور فرمایا:اور اپنی نگاہیں ہرگز ان چیزوں کی طرف نہ دوڑانا، جو ہم نے ان میں سے مختلف لوگوں کوآرائش دنیا کی دے رکھی ہیں تاکہ انھیں اس سے آزمالیں، تیرے رب کا دیا ہوا ہی(بہت) بہتر اوربہت باقی رہنے والاہے۔

جمعہ, اپریل 08, 2022

مکیش سہنی کی چُھٹیمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھند پھلواری شریف پٹنہ

مکیش سہنی کی چُھٹی
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھند پھلواری شریف پٹنہ 
 وی آئی پی کے بانی وصدر جناب مکیش سہنی کی وزارت سے چھٹی ہو گئی ہے، وہ حکومت بہار میں وزیر ماہی پروری وآب پاشی تھے، حال ہی میں ان کی پارٹی کے سبھی تین ارکان اسمبلی نے وی آئی پی چھوڑ کر بی جے پی میں شمولیت اختیار کر لی تھی اور ان کی پارٹی کا نام ونشان اسمبلی میں ختم ہو گیا تھا، مکیش سہنی جو اپنے کو ’’سن آف ملاح‘‘، کہلوانا پسند کرتے ہیں، بی جے پی کوٹے سے وزیر بنے تھے اور بی جے پی نے اپنے حصہ کی سیٹ انہیں مہیا کرائی تھی، ایسے میں اخلاقی طور پر انہیں خود سے مستعفی ہوجانا چاہیے تھا، لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا، مجبورا وزیر اعلیٰ کو بھاجپا کے دباؤ میں ان کی چھٹی کے لیے گورنر سے درخواست کرنی پڑی اور گورنر نے انہیں وزارت سے بر طرف کر دیا، اسے کہتے ہیں بڑے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے۔
 مکیش سہنی جواں سال سیاست داں ہیں، دو ایک جلسہ ذات کی بنیاد پر گاندھی میدان میں کرکے سیاست میں داخل ہوئے، تیزی سے ابھرے، اپنی جگہ بنائی، ایم ایل سی بنے، وزارت کی کرسی تک پہونچے اور پھر اسی تیزی سے بی جے پی سے پَنگالے کر آسمان سے زمین پر آگرے، تجربات کی کمی اور سیاست میں کچھ بھی ہو جانے کی قدیم روایت نے انہیں یہ دن دکھایا، وہ ایم ایل سی ہیں اور ظاہر ہے وہ بھی انہیںبی جے پی کی مہربانی سے حاصل ہوئی ہے، لیکن وہ اس بات کو نہیں مانتے، ان کا کہنا ہے کہ ہم ایم ایل سی ’’انوکمپا‘‘ کی بنیاد پر نہیں بنے ہیں۔
 مکیش سہنی سیاست میں اس وقت اپنے وجود اور بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں،جنگ میں فتح وشکست کے امکانات ہوا کرتے ہیں، ایسا ممکن ہے کہ اس شکست کے بعد وہ دو بارہ ابھرنہ پائیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ توڑ جوڑ کی سیاست میں پھر سے وہ اپنا مقام بنانے میں کامیاب ہو جائیں، ملاح برادری کے لوگ انہیں اپنا لیڈر مانتے ہیں اورہو سکتا ہے کہ اگلے انتخاب تک ووٹ کی سیاست میں ’’سن آف ملاح‘‘ کی اہمیت بڑھ جائے۔

پردھان منتری آواس یوجنا کے تحت تین کروڑ سے زائدمکانات کی تعمیر: مودی

 

پردھان منتری آواس یوجنا کے تحت تین کروڑ سے زائدمکانات کی تعمیر: مودی

نئی دہلی: وزیر اعظم نریندر مودی نے جمعہ کو کہا کہ ملک کے ہر غریب کو پکا مکان دینے کے عزم کے تحت عوامی شراکت سے تین کروڑ سے زیادہ مکانات تعمیر کیے گئے ہیں۔ 

 نے ٹویٹ کیا،’ہم نے ملک کے ہر غریب کو پکا مکان دینے کے عزم میں ایک پڑاؤ طے کیا ہے۔ تین کروڑ سے زائد گھروں کی تعمیر عوام کی شراکت سے ہی ممکن ہوئی ہے۔

بنیادی سہولیات والے یہ گھر آج خواتین کو بااختیار بنانے کی علامت بھی بن چکے ہیں‘۔

مسٹر مودی نے ٹویٹ کے ساتھ ایک تصویر بھی شیئر کی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ پردھان منتری آواس (گرامین) یوجنا کے تحت اب تک 2.52 کروڑ مکانات تعمیر کیے جا چکے ہیں اور اس کے لیے 1.95 لاکھ کروڑ روپے کی مرکزی امداد جاری کی گئی ہے۔

پردھان منتری اجولا یوجنا کے تحت ہر مستفید شخص کو ایل پی جی کنکشن کی سہولت بھی دی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس اسکیم کے تحت اب تک شہری علاقوں میں 58 لاکھ مکانات تعمیر کیے جا چکے ہیں۔

اس کے لیے 1.18 لاکھ کروڑ روپے کی مرکزی امداد جاری کی گئی ہے۔ اس اسکیم کے تحت گھرکی خاتون رکن یا مشترکہ نام پر ملیکت ہوتی ہے۔ ہر گھر میں کچن، بیت الخلا اور پانی کی سہولت دی جاتی ہے۔(ایجنسی)


جمعرات, اپریل 07, 2022

مولانا ڈاکٹر اقبال نیر ؒمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

مولانا ڈاکٹر اقبال نیر ؒ
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
 امارت شرعیہ بہار اڈیشہ کی مجلس شوریٰ کے رکن، مدرسہ خیر العلوم بالو ماتھ ضلع لاتی ہار کے مہتمم ، جامعہ رشید العلوم چترا جھارکھنڈ کی مجلس شوریٰ کے صدر اور مؤطین کے استاذ، آل انڈیا ملی کونسل کے رکن، ماہر طبیب، مشہور داعی، نامور مقرر مولانا ڈاکٹر محمد اقبال نیر بن خورشید عالم (م ۱۹۹۲) بن محی الدین کا رانچی کے ایک ہوسپیٹل میں ۱۸؍ مارچ ۲۰۲۲ء مطابق ۱۴؍ شعبان ۱۴۴۳ھ شب جمعہ دو بجے انتقال ہو گیا، وہ بہت دنوں سے صاحب فراش تھے، برین ہیمریج کے پہلے حملے نے ایک طرف کے اعضا کو متاثر کیا تھا اور مفلوج سے ہو گیے تھے، ایک ہفتہ قبل دو بارہ برین ہیمریج ہوا، اسپتال لے جائے گئے، علاج پر بھر پور توجہ دی گئی، لیکن وہ اس دوسرے حملہ کی تاب نہ لاسکے اور داعی اجل کو لبیک کہا، ان کی نماز جنازہ ان کے بڑے صاحب زادہ حافظ الفاتح نے بعد نماز جمعہ کوئی ساڑھے تین بجے پڑھائی، اور مقامی قبرستان میں تدفین عمل میں آئی، پس ماندگان میں اہلیہ تین لڑکے اور پانچ لڑکیوں کو چھوڑا، ایک لڑکی اور دو لڑکے ابھی غیر شادی شدہ ہیں۔
 ڈاکٹر اقبال نیر صاحب کی ولادت ۱۹۵۸ء میں ان کے آبائی گاؤں بالو ماتھ موجودہ ضلع لا تی ہار میں ہوئی، ابتدائی تعلیم مقامی مکتب میں حاصل کرنے کے بعد وہ اپنی نانی ہال چترا آگیے، مولانا سراج رشیدی ان کے ناناتھے، انہوں نے جامعہ رشید العلوم چترا میں ان کا داخلہ کرا دیا، چنانچہ پوری دل جمعی کے ساتھ  متوسطات تک کی تعلیم یہیں حاصل کی ، وہاں سے مظاہر علوم سہارن پور تشریف لے گیے اور وہیں سے ۱۹۷۸ء میں سند فراغ حاصل کیا، ۱۹۷۹ء میں انہوں نے دار العلوم دیو بند کا رخ کیا اور طب کی تعلیم کے لیے دار العلوم کے طبیہ کالج میں داخلہ لیا اور یہاں سے چار سالہ طب کا کورس مکمل کیا اور ۱۹۸۲ء میں فراغت حاصل کی دار العلوم کے قیام کے آخری سال میں وہ سجاد لائبریری کے صدر منتخب ہوئے اور میںنے ان کے ساتھ ناظم کی حیثیت سے کام کیا، فراغت کے بعد وہ اپنے گاؤں بالو ماتھ لوٹ آئے اور یہاں اپنا مطب کھول کر مریضوں کی خدمت کرنے لگے، اللہ نے دست شفا دیا تھا اس لیے جلد ہی آپ کا شمار علاقہ کے بہترین ڈاکٹروں میں ہونے لگا، اس طرح خدمت کے ساتھ معاشی استحکام بھی حصے میں آگیا، ۱۹۸۳ء میں آپ نے چترا کی ایک یتیم بچی سے نکاح کرلیا، اورازدواجی زندگی سے وابستہ ہو گیے، ۱۹۸۴ء میں آپ مدرسہ خیر العلوم بالو ماتھ کے مہتمم منتخب ہوئے اور اپنی جد وجہد اور کامیاب قیادت سے اس مدرسہ کو ترقی کی طرف گامزن کیا، ہرجمعہ کو بالو ماتھ کی جامع مسجد میں آپ کا خطاب ہوتا، ڈاکٹر صاحب کے خطاب سے علاقہ میں اصلاح معاشرہ کا بڑا کام ہوا، انہوں نے جامع مسجد میں درس قرآن کا سلسلہ شروع کیا اور اسے پایۂ تکمیل تک پہونچا کر دم لیا۔ تزکیہ نفس کے لیے انہوں نے حضرت مولانا ابو الحسن علی ندوی ؒ کا ہاتھ تھاما تھا، ان کے بتائے ہوئے اوراد وظائف پر وہ سختی سے عامل تھے، صحت اچھی تھی تو اوراد واذکار کے ساتھ تلاوت قرآن اور نوافل نمازوں کا اہتمام بھی خوب کرتے تھے، ان کے اندرمسلکی شدت نہیں تھی، ان کی تقریریں طویل ہوتی تھیں، لیکن معلومات کی فراوانی، بولنے کے انداز، تجزیہ کی صلاحیت کی وجہ سے لوگ اُوبتے نہیں تھے، ان کے مطالعہ میں گہرائی اور گیرائی تھی ، ان کی مجلسی گفتگو زعفران زار ہوتی تھی،وہ اپنی بات کہنے کے عادی تھے، دوسروں کی بُرائی اور غیبت سے پر ہیز کرتے تھے۔انہوں نے اپنے علاقہ میں رجال سازی پر بھی توجہ دی اور مختلف میدان میں افرادِ کار تیار کیے۔
 تقریر کے ساتھ اللہ نے ا نہیں لکھنے کا بھی ملکہ عطا کیا تھا، مطب کی پیشہ وارانہ مشغولیت کے ساتھ انہوں نے تصنیف وتالیف کا کام بھی جاری رکھا، ان کی مشہور کتابوں میں سیرت سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت (مولانا ذو الفتار صاحب) کی یادیں، مولانا رحمت اللہ ؒ حالات زندگی کا شمار ہوتا ہے۔
 مولانا اقبال نیر مرحوم سے میری ملاقات دوران طالب علمی ہی سے تھی، مظاہر علوم سے فراغت کے بعد جب انہوں نے دیو بند کے طبیہ کالج میں داخل لیا تو ۱۹۸۱ء میں وہ سجاد لائبریری کے صدر منتخب ہوئے اور مجھے ناظم چنا گیا، یہ زمانہ دار العلوم کے طلبہ وانتظامیہ کے لیے آزمائش کا تھا، اس لیے بہت بڑے پیمانے پر کام کی شکل تو نہیں بن سکی، لیکن سجاد لائبریری کی سر گرمیوں کو باقی رکھنے کا کام ہم لوگوں نے کیا، اگلے سال وہ گھر لوٹ گیے اور میں ان کی جگہ سجاد لائبریری کا صدر چن لیا گیا اور سجاد لائبریری کے لیے زمین کی خریداری اور تعمیر کا کام میرے دور صدارت میں شروع ہوا۔
مولانا کو اللہ رب العزت نے علمی رسوخ، انتظامی صلاحیت کے ساتھ قدورقامت اور چہرے مہرے کے اعتبار سے بھی انتہائی وجیہ بنایا تھا، وہ بغیر کالر کا کرتا اور اس پر کرتے کے رنگ کی دیدہ زیب اور خوشنما صدری پہنا کرتے تھے، ٹوپی عموما کھڑی پٹی کی مخملی یا بال والی پہنتے ، بہت کم میں نے انہیں گول ٹوپی میں دیکھا، ڈاڑھی ہلکی اور بہت بڑی نہیں تھی، سفیدی آنے کے بعد لال مہندی کا خضاب ڈاڑھی اور سر کے بالوں میں لگا یا کرتے تھے، پیشانی کشادہ ، آنکھ بڑی اور چہرہ روشن تھا، کہنا چاہیے کہ وہ خوش خصال، خوش جمال اور خوش لباس تھے، بعض لوگوں کی رائے ہے کہ خوش خوراک بھی تھے۔
 دیو بند سے آنے کے بعد نہ جانے کتنی میٹنگوں اور جلسوں میں ہم لوگ ساتھ ساتھ رہے، امارت شرعیہ، آل انڈیا ملی کونسل اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی میٹنگوں میں بھی وہ مختلف حیثیت اور جہتوں سے شریک ہوتے اور ہر جگہ اپنی اصابت رائے کا نقش جمیل چھوڑتے ، وہ بات کے دھنی نہیں ، کام کے آدمی تھے، ملی سر گرمیوں میں وہ پیش پیش رہتے تھے، غریبوں کی مدد اور یتیموں کی کفالت کے سلسلے میں بھی وہ بہت حساس تھے، ان کا چلا جانا ملی اور علمی خسارہ ہے۔ اللہ رب العزت مرحوم کی مغفرت اور پس ماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین ۔ للہ ما اخذ ولہ ما اعطیٰ وکل شئی عندہ لاجل مسمیٰ

بدھ, اپریل 06, 2022

روزے کے آداب 1: ذوق و شوق اور ایمانی کیفیت کیساتھ روزہ رکھنا۔

روزے کے آداب 

 1: ذوق و شوق اور ایمانی کیفیت کیساتھ روزہ رکھنا۔ 
          روزے کے عظیم اجر اور عظیم فائدوں کو نگاہ میں رکھ کر پورے ذوق و شوق کے ساتھ روزہ رکھنے کا اہتمام کیجیے۔ یہ ایک ایسی عبادت ہے جس کا بدل کوئی دوسری عبادت نہیں ہوسکتی۔ یہی وجہ ہے کہ روزہ ہر امت پرفرض رہا ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:           
        ”ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے جس طرح تم سے پہلے کے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تا کہ تم متقی اور پرہیز گار بن جاؤ۔“(البقره ۱۸۳ )   
         نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے روزے کے اس عظیم مقصد کو یوں بیان فرمایا:
        ”جس شخص نے روزہ رکھ کر بھی جھوٹ بولنا اور جھوٹ پرعمل کرنا نہ چھوڑا تو خدا کو اس کے بھوکا اور پیاسا رہنے سے کوئی دلچسپی نہیں“۔ (بخاری)
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
         *”جس شخص نے ایمانی کیفیت اور احتساب کے ساتھ رمضان کا روزہ رکھا تو خدا اس کے ان گناہوں کو معاف فرما دے گا جو پہلے ہو چکے ہیں۔“* (بخاری)

*2: بغیر عذر شرعی کے روزہ نہ چھوڑنا:* 
            رمضان کے روزے پورے اہتمام کے ساتھ رکھیے اور کسی شدید بیماری با عذر شرعی کے بغیر کبھی روزہ نہ چھوڑیے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
          ”جس شخص نے کسی بیماری یا شرعی عذر کے بغیر رمضان کا ایک روزہ بھی چھوڑا تو عمر بھر کے روزے رکھنے سے بھی اس ایک روزے کی تلافی نہ ہو سکے گی۔“ (ترمذی) 

3: ریاکاری اور دکھاوے سے بچنا:     
             روزے میں ریا کاری اور دکھاوے سے بچنے کے لیے معمول کے مطابق ہشاش بشاش اور اپنے کاموں میں لگے رہیے اور اپنے انداز و اطوار سے روزے کی کمزوری اور سستی کا اظہار نہ کیجیے۔ حضرت ابو ہریرہ کا ارشاد ہے:   
         ”آدمی جب روزہ رکھے تو چاہیے کہ حسب معمول تیل لگائے کہ اس پر روزے کے اثرات نہ دکھائی دیں

منگل, اپریل 05, 2022

حرمین شریفین میں دس رکعت تراویح پر دارالعلوم دیوبند برہم

حرمین شریفین میں دس رکعت تراویح پر دارالعلوم دیوبند برہم 
سعودی حکومت سے سابقہ معمول کے مطالبہ سنت تراویح رائج رکھنے کامطالبہ، ملی تنظیموں سے سعودی سفارت خانے کو میمورنڈم بھیجنے کی اپیل 
دیوبند۔ ۵؍اپریل: (ایس چودھری) 

حرمین شریفین میں نماز تراویح کی 20؍رکعات کے بجائے 10؍رکعات تراویح باجماعت پڑھائے جانے پر عالم اسلام کی ممتاز دینی درسگاہ دارالعلو م دیوبند نے تشویش کا اظہار کیاہے اور کہاکہ اب پوری دنیا سے کووڈ کا بحران ختم ہونے کے ساتھ سعودی عرب میں بھی تمام پابندیاں ختم کی جاچکی ہیں لیکن اس کے باوجود حرمین شریفین میں 20؍رکعات نماز تراویح کے بجائے 10؍رکعات باجماعت پڑھایا جانا پورے عالم اسلام کے لئے نہایت فکر مندی کی بات ہے ۔دارالعلوم دیوبند نے سعودی عرب حکومت سے فوری طور پر سابقہ معمول کے مطابق حرمین شریفین میں 20؍رکعات نماز تراویح باجماعت ادا کرائے جانے مطالبہ کیاہے۔دارالعلوم دیوبند کے قائم مقام مہتمم مولانا عبد الخالق مدراسی نے جاری بیان میں کہاکہ دارلعلوم دیوبند اس بات سے فکر مند اور برہم ہے کہ حرمین شریفین میں نماز تراویح کی 20؍رکعات کے بجائے 10؍رکعات باجماعت پڑھائی جارہی ہیں۔مولانا عبد الخالق مدراسی نے کہا ہے کہ حرمین شریفین عالم کے تمام مسلمانوں کا مرکز محبت وعقیدت ہے،ان مقامات مقدسہ میں ہمیشہ سے باجماعت نماز تراویح 20؍رکعات ہوتی رہی ہیں،حکومت سعودی عربیہ نے گذشتہ دو برسوں میں کووڈ بحران کے حوالہ سے رکعات کی تعداد میں تخفیف کی اور محض 10؍رکعات نماز تراویح پر اکتفا کیا،اس وقت بھی دارالعلوم دیوبند نے اس سلسلہ میں ایک مکتوب مورخہ 28؍اپریل 2021؁ء کو بھی حکومت سعودی عربیہ کو ارسال کیا تھا جس میں مذکورہ تخفیف کو ختم کرنے کی اپیل کی گئی تھی۔الحمد للہ! اب ساری دنیا کووڈ بحران سے نکل چکی ہے،ہر جگہ پابندیاں اور تحدیدات کا سلسلہ ختم ہوتا جارہا ہے،سعودی عربیہ میں بھی کووڈ کی تمام پابندیاںختم کی جارہی ہیں اس کے باوجود حرمین شریفین میں20؍رکعات تعامل کے بجائے 10؍رکعات نماز تراویح پڑھائی جانے کا سلسلہ جاری ہے جو بلاشبہ سوہانِ روح ہے،حرمین شریفین میں دیگر حق پرست مسالک اور مکاتب فکر کا خیال رکھنا اور صرف کسی ایک سخت رخ پر عمل پیرا ہونا کسی بھی طرح مناسب نہیں ہے،اسلئے ہم سعودی حکومت سے اپیل کرتے ہیں کہ سابقہ معمول کے مطابق حرمین میں 20؍رکعات نماز تراویح کی سنت کو فوری طور پر جاری کرے،چونکہ سعودی حکومت کے اس نار واطرز عمل سے بر صغیر ہندو پاک اور دنیا کے بہت سے زائرین کو ذہنی اذیت کاسامنا ہے اسلئے بعجلت ممکنہ اس جانب توجہ دی جائے۔مولانا عبد الخالق مدراسی نے دیگر ملی تنظیموں کو بھی اس مسئلہ کی جانب توجہ دلاتے ہوئے کہا ہے کہ سعودی سفارتخانہ کے ذریعہ حکومت سعودی عربیہ کو اس بابت میمورنڈم بھیجے جائیں۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...