Powered By Blogger

منگل, مئی 17, 2022

پریس ریلیز سیوان :تنظیم ابنائے ندوہ بہار کا پانچواں انتخابی و مشاورتی اجلاس آج مدرسہ انوارالعلوم مادھو پور،سیوان میں منعقد ہوا.

پریس ریلیز 
سیوان :تنظیم ابنائے ندوہ بہار کا پانچواں انتخابی و مشاورتی اجلاس آج مدرسہ انوارالعلوم مادھو پور،سیوان میں منعقد ہوا. جس میں گوپال گنج, سیوان اور چھپرہ کے ندوی حضرات شریک ہوۓ. پروگرام کا آغاز حافظ محمد عاطف کے تلاوت قرآن کریم سے ہوا . عبد السمیع ندوی نے نعت پیش کیا اسکے بعد شاداب انور ندوی اور عبد السمیع نے ندوہ کے خاص لہجہ میں ترانہ ندوہ پیش کیا، جس سےتھوڑی دیر کیلیے سارے سامعین کواپنے ندوہ کی طالبعلمی کے دور کی یاد تازہ ہوگئی اور شرکاء اجلاس ایسا محسوس کرنے لگے گویا وہ ندوہ کے کیمپس میں اپنے اساتذہ اور ساتھیوں کے درمیان کسی پروگرام میں بیٹھے ہوں۔ ترانۂ ندوہ کے بعد اس اجلاس سے متعلق مجلس استقبالیہ کے روح رواں الفلاح اسکول سیوان کے مینیجر مولانا تنویر عالم ندوی نے پر مغز خطبۂ استقبالیہ پیش کیا۔ جسے گوپال گنج کے نوجوان ندوی فاضل ڈاکٹر صفدر عالم ندوی حال مقیم دہلی نے تیار کیا تھا لیکن بعض ناگذیر مجبوری کے تحت وہ شریک اجلاس نہ ہوسکے۔
خطبہ استقبالیہ کے بعد  شرکاء مجلس کے مابین تعارفی سیشن ہوا جسمیں سبہوں نے اپنے تعارف کے ساتھ ہی مختصر میں اپنی تعلیمی،ملی و سماجی سرگرمیوں کا تذکرہ کیا۔ جس سے یہ بات سامنے آئی کہ اس علاقہ ندوی فضلاء مختلف اہم میدانوں میں نمایاں طور پر سماج کو فائدہ پہونچانے میں سرگرم عمل ہیں۔
اس کے بعد لکھنؤ سے خصوصی طور پر اس پروگرام کیلیے تشریف لائے تنظیم کے جوائنٹ کنوینر اور معروف ملی و سماجی کارکن مولانا نجیب الرحمن ململی ندوی نے تنطیم ابنائے ندوہ بہار کے اغراض ومقاصد اور اب تک کی کارکردگی کی تفصیلی روداد پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہماری تنظیم کا بنیادی مقصد تحریک ندوہ کے پیغام اور مونگیری و شبلی کے مشن کے ساتھ ہی علی میاں ندوی کی فکری و تحریکی شعور کو ریاست بہار و جھارکھنڈ کے ساتھ ہی ملک کے گوشہ گوشہ تک پہونچانا اور اس نہج پر ملت میں عملی اقدامات کی فضاء قائم کرنا ہے۔ اور الحمدللہ اسکا آغاز ہوچکا ہے اور سینکڑوں ندوی فضلاء اس کام میں عملی شرکت کیلئے ہر طرح کی قربانی کے جذبہ کے ساتھ عزم مصمم کرچکے ہیں۔ اور فرد سے کارواں کی  شکل بنا چکے ہیں۔
انہوں نے معھد دارالعلوم ندوۃ العلماء کے نصاب کو بہت مفید بتاتے ہوئے کہا کہ اس تنظیم نے ہدف طے کیا ہیکہ معہد اور بہار مدرسہ بورڈ کے نصاب کو سامنے رکھتے ہویے دسویں کلاس کے معیار تک کا ایک نیا نصاب مرتب کرکے پہلے مرحلہ میں پورے بہار میں اسکو رائج کیاجائیگا اور اس نصاب کو عملی جامہ پہنانے کیلئے بہار کے مختلف علاقوں میں جہاں تعلیمی اداروں کی کمی ہے۔ ندوہ کے نظام و نہج پر نئے تعلیمی ادارے قائم کئے جائیں گے۔
 گورکھپور سے تشریف لائے ہوئے تنظیم کنوینر مولانا طارق شفیق ندوی شرکاء کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیـں "وما خلقت الجن الانس" کی زندہ تعبیر ہونا چاہیے اور برادر وطن کو اپنے قریب لانے کی , اپنی تقریبات شامل کرنے کی اور اپنے اخلاق سے انہیں متاثر کرنے کی ضرورت ہے. انہوں نے کہا کہ مولانا علی میاں ندوی علیہ الرحمہ فرمایا کرتے تھے کہ ہر ریاست میں معین الندوہ ہونا چاہئے۔ ہم انکی چاہت کو عملی جامہ پہنانے کیلئے معین الندوہ بنانے اور آپس میں مربوط کرنے نکلے ہیں۔ اس سے ہمارے مادر علمی کے پیغام و مشن کو فروغ ملنے کے ساتھ ہی ادارہ کو بھی ہر لحاظ سے تقویت حاصل ہوگی۔


اس کے بعد مفتی آصف انظار ندوی نے"تحریک ندوہ کا پیغام اور ابنائے ندوہ کی ذمہ داریاں" کے موضوع پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ تحریک ندوہ کے نتیجے میں تعلیمی ادارے تو بہت قائم ہوئے مگر تحریک سست پڑگئی جس کی معاون تحریک کی شکل میں تنظیم ابنائے ندوہ بہار ابھر کر سامنے آئی ہے۔ تاکہ پھر سے تحریک ندوہ میں روح پھونکی جا سکے .
انہوں نے کہا کہ مدارس کے اسناد کو عصری اداروں کے اسناد کے مساوی قرار دئے جانے کی سمت میں بھی کام ہونا چاہیے.. صدر جلسہ مولانا عادل حسین ندوی جو تقریبآ چالیس قبل ندوہ سے فارغ ہوئے اور اسکے بعد سے اپنے وطن گوپال گنج میں رہ کر سنت نبوی کے مطابق تجارت کے میدان میں نمایاں مقام حاصل کرکے دینی اداروں کو تقویت پہونچانے کا کام کررہے ہیں۔ انہوں نے اپنے دور کے ندوہ کی یادوں کا تذکرہ کرتے ہوئے اس دور کے ممتاز اساتذہ اور ندوہ کی علمی شخصیات کا ذکر کیا۔ اور شرکاء سے کہا کہ ہمیـں مخلص ہوکر کام کرنا چاہیے. انہوں نے تنظیم کے ذمہ داران کے اس مشن کو لیکر چلنے پر بے پناہ مسرت کا اظہار کیا اور اپنی جانب سے ہر طرح کے تعاون کی یقین دھانی بھی کرائی۔
 اس کے بعد تنظیم کی کمشنری سطح کی انتخابی کاروائی عمل میں آئی ۔ جس میں اتفاق رائے سے صدر کے عہدے کے لیے مولانا تنویر عالم ندوی سیوان، اور نائب صدر صفدر امام ندوی گوپال گنج کو منتخب کیا گیا.  ڈاکٹر محمد شفیع الزمان ندوی گوپال گنج کو جنرل سکریٹری اور انور قیوم ندوی کو معاون جنرل سکریٹری اور خازن مولانا شاداب انور ندوی کو منتخب کیا گیا. اور پوری کمشنری سے 41 ندوی فضلاء پر مشتمل اراکین مجلس عاملہ کا بھی انتخاب عمل میں آیا۔
جلسہ کی نظامت کے فرائض ماسٹر انور قیوم ندوی نے انجام دیا.
آخر میں ڈاکٹر محمد شفیع الزمان ندوی نے تمام شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔ اس موقع پر مہمان خصوصی کے طور پر موجود علاقہ کے سینیر ترین عالم دین مولانا ہارون رشید ندوی اور جناب علی اختر ناظم مدرسہ انوار الاسلام نے بھی خطاب کیا.

پیر, مئی 16, 2022

بی جے پی دارالحکومت میں 63 لاکھ لوگوں کے گھروں پر بلڈوز چلانے کی تیاری کر رہی ہے : کیجریوال

بی جے پی دارالحکومت میں 63 لاکھ لوگوں کے گھروں پر بلڈوز چلانے کی تیاری کر رہی ہے : کیجریوالنئی دہلی، 16 مئی (یو این آئی) دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال نے کہا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) دارالحکومت میں 63 لاکھ لوگوں کے گھروں اور دکانوں پر بلڈوزر چلانے کی تیاری کر رہی ہے، جو آزاد ہندوستان کی سب سے بڑی تباہی ہوگی پیر کو یہاں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مسٹر کیجریوال نے کہا کہ پچھلے کچھ ہفتوں سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ بی جے پی کی حکومت والی میونسپل کارپوریشن دہلی کے اندر راجدھانی میں کئی مقامات پر بلڈوزر چلا رہی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ اب کئی مہینوں تک بلڈوزر چلائے جائیں گے۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ ہم دہلی سے تمام تجاوزات ہٹانے جارہے ہیں۔ تمام ناجائز تجاوزات اور غیر قانونی تعمیرات کو ہٹایا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہم خود بھی تجاوزات کے خلاف ہیں۔ ہم نہیں چاہتے کہ تجاوزات ہوں۔ ہم نہیں چاہتے کہ غیر قانونی عمارتیں بنیں لیکن اس میں دو چیزیں اہم ہیں۔ پہلی بات دہلی کو جس طرح سے پچھلے 75 سالوں میں بنایا گیا ہے وہ منصوبہ بند طریقے سے نہیں بنایا گیا ہے۔ جس طرح سے دہلی بنی ہے، دہلی کا 80 فیصد سے زیادہ حصہ تجاوزات کی زد میں آئے گا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اب دہلی کا 80 فیصد حصہ توڑا جائے گا؟

اعلان داخله مدرسہ احمدیہ فيض القرآن کھتوڑ ہ ضلع بجنور ( یوپی )علاقے کا مشہور و معروف ادارہ ہے

اعلان داخله مدرسہ احمدیہ فيض القرآن کھتوڑہ ضلع بجنور ( یوپی )علاقے کا مشہور و معروف ادارہ ہے ، جہاں دینی وعصری تعلیم دی جاتی ہے ، جہاں  کی رات و دن کی محنتوں کا نتیجہ تھا ، بہر کیف مدرسہ ہٰذا میں درجات عربی ، فارسی ، دوم ،حفظ و ناظرہ و تجوید پڑھانے کے لئے جید علماء وقراء حضرات ، ماہر ونتی اسا تذ و مخلص واہل علم ذمہ داران ، بزرگ ہستیاں تعلیم وتربیت کا معیاری ماحول اور طعام و رہائش گاہ و غیر و کا مناسب نظم ہے ۔ لہذا اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا بچہ ما ہر حافظ ومولوی بنے اور بچہ کامستقبل روشن و تابناک ہو اور طالب علم کو تعلیم سے مستحکم نظم کے ساتھ تربیت کے لئے عمدہ اسلامی ماحول مل سکے تو دا خلے کے لئے فوری رابطہ کر میں ورنہ تاخیر کرنے کی صورت میں داخلہ نہیں ہو سکے گا۔خواہش مند طلباء ۲ عددفوٹو اور سرکاری آئی ڈی ، پہچان پتر ضرور اپنے ساتھ لائیں ۔ جدید و قدیم طلباء کے لئے ۱۰مئی بروز ہفتہ سے داخلہ شروع ہوچکا ہے 
 فوری رابطہ کرے نمبر 95403 94914
حضرت مولانا اقرار بیگ صاحب ناظم اعلیٰ مدرسہ احمدیہ فیض القرآن کھتوڑہ پوسٹ بھنیڑہ تحصیل نجیب آباد ضلع بجنور (یوپی)

گیان واپی مسجد میں مسلسل تیسرے دن ہوگا سروے، اب تک 80 فیصد کام مکمل

گیان واپی مسجد میں مسلسل تیسرے دن ہوگا سروے، اب تک 80 فیصد کام مکمل

وارانسی کی گیان واپی مسجد کمپلیکس میں آج مسلسل تیسرے دن سروے کا کام کیا جائے گا۔ قبل ازیں اتوار کو بھی مسجد کمپلیکس کے سروے کا کام مکمل نہیں ہو سکا تھا۔ بتایا جا رہا ہے کہ اب تک سروے کا 80 فیصد کام مکمل ہو چکا ہے اور باقی 20 فیصد سروے کا کام آج مکمل کر لیا جائے گا۔

مسلمانوں کی تعلیمی صورت حالمفتی محمد ثناء الہدی قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

مسلمانوں کی تعلیمی صورت حال
مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
=====================================
 مسلمانوں کی آبادی اور اقلیتی فرقوں کی تعلیمی حالات کی جو رپورٹ ۲۰۱۱ء کی مردم شماری کے تناظر میں شائع کی گئی ہے ، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی آبادی اس ملک میں صرف تیرہ فیصد ہے، جن میں صرف 2.76فی صد گریجویٹ ہیں، تکنیکی اور غیر تکنیکی تعلیم میں ڈپلوما حاصل کرنے والے 0.44 بارہویں کلاس تک تعلیم پانے والے مسلمانوں کی تعداد 4.44فی صد، دسویں تک تعلیم حاصل کرنے والے6.33اور 16.8فی صد مسلمانوں نے صرف پرائمری کی تعلیم حاصل کی ہے، عورتوں میں خواندگی کاتناسب مجموعی گریجویٹ2.76فی صد میں 36.65ہے، تینتالیس فی صد مسلمانوں نے کبھی اسکول کا منہ نہیں دیکھا ،یہ سرکاری اعداد وشمار ہیں، اور ان کی صحت پر سوالات اٹھتے رہے ہیں، لیکن ہمارے پاس احوال کے جاننے کاکوئی اور ذریعہ نہیں ہے، اس لیے ان اعداد وشمار پرہی اعتماد کرنا پڑتا ہے، تھوڑے بہت کا فرق ہو تب بھی مسلمانوں کا تعلیمی گراف بہت اونچا نہیں جا سکتا ، کیوں کہ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے جوتعلیمی اعداد وشمار ہیں وہ بہت آگے ہیں،ہندوستان گیر سطح پر دیکھیں تو جین مذہب کے ماننے والے سب سے زیادہ تعلیم یافتہ ہیں، ان کی خواندگی کا تناسب 86فی صد اور غیر خواندہ13.75فی صد ہیں،ہندؤوں میں غیر خواندہ لوگوں کی تعداد 36.40سکھوں میں 32.49بودھوں میں 28.17عیسائیوں میں تقریبا25.66فی صد ہے،مجموعی طور پر پورے ملک کی خواندگی کا تناسب دیکھیں تو صرف 5.63فی صد لوگ ہی بی اے یا اس سے زیادہ تعلیم یافتہ ہیں، اعلیٰ تعلیم میں پورے ملک میں 61.6فی صد مرد اور 38.4فی صد خواتین ہیں۔ان اعداد وشمار میں آئندہ مردم شماری کی جو رپورٹ آئے گی اس میں بڑی تبدیلی کا امکان ہے، جب تک اگلی مردم شماری کا عمل مکمل نہیں ہوتا ۲۰۱۱ء کی رپورٹ ہی ہمارے لیے بحث وتحقیق اور تجزیہ کے لیے استعمال ہوتا رہے۔
 اس طرح غور کریں تو معلوم ہوگا کہ خواندگی کا تناسب پورے ملک میں کمزور ہے ، لیکن مسلمان سماجی اورمعاشی طور پرکمزور ہونے کے ساتھ ساتھ  سیاسی طورپربھی کمزور ہیں سترہ کڑوڑ کی مسلم آبادی میں پارلیامنٹ میں مسلم ممبروں کی تعداد کم از کم پچھہترہونی چاہیے تھی، جو نہیں ہے۔
اس وقت ہمارا موضوع مسلمانوں کی تعلیمی صورت حال ہے ، یہ امت جو تعلیم کے نام پر برپاکی گئی ، جس کے لیے قرآن کریم کا پہلا جملہ ’’اقرائ‘‘  پڑھو نازل ہوا ،جس کے لئے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بارے میں اعلان کیاکہ وہ معلم بنا کر بھیجے گیے ہیں، جس کے لیے قرآن کریم نے اعلان کیاکہ ایمان اور علم ،رفع درجات کا سبب ہے ، جن کے یہاں طلب علم کو فرض قرار دیا گیا ، اتنی ترغیب کے با وجود مسلمان تعلیم میں کیوں پیچھے ہیں، عام رجحان یہ ہے کہ تعلیم مہنگی ہو گئی ہے ،اور مسلمانوں کے پاس اس مہنگی تعلیم کے حصول کے لیے وسائل کی کمی ہے ،معاشی پس ماندگی کیوجہ سے ہمارے بچے تعلیم جاری نہیں رکھ پاتے ہیں اس لیے ڈراپ آؤٹ کا تناسب ان کے یہاں بہت ہے ، ان باتوں کی صداقت سے کلیۃً انکار نہیں کیا جاسکتا ، لیکن اگر حوصلہ اور اولو العزمی کی نظر سے دیکھیں تو معلوم ہو گا کہ ان حالات پر قابو پانا قطعا دشوار نہیں ہے، آج سرکاری اور غیر سرکاری تنظیموں کی طرف سے ملنے والے اسکالر شپ اور قرض ہماری مالی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے تیار ہیں ، اگر حوصلہ ہو اور پڑھنے کا پختہ ارادہ ہو تو راستے میں رکاوٹیں حائل نہیں ہوتیں، حضرت امیر شریعت سادس مولانا سید نظام الدین ؒ فرمایا کرتے تھے کہ آج تعلیم کے حصول میں رکاوٹ بے کسی اور بے بسی نہیں بلکہ ہماری بے حسی ہے جس کی وجہ سے ہمارے بچے تعلیم میں آگے نہیں بڑھ پاتے ہیں، یہ بے حسی کبھی تو گارجین کی طرف سے ہوتی ہے اور کبھی لڑکوں کی طرف سے ، بعض لڑکے زیادہ خرچا لو ہوتے ہیں وہ اپنے گارجین کی مالی حیثیت کا غلط اندازہ لگاتے ہیں  اورمختلف عنوانات سے ضروری اور غیر ضروری اخراجات کرکے گارجین کوپریشان کرتے ہیں،کھی بچوں کایہ رویہ بھی گارجین کو اس کی تعلیم بندکرنے پر آمادہ کر دیتا ہے، کبھی صورت حال اس سے بھی زیادہ مضحکہ خیز ہوتی ہے، ہمارے ایک ملنے والے کے پوتے نے ایک کوچنگ میں داخلہ کے لیے گارجین پر دباؤ ڈالا ، گارجین اس پوزیشن میں نہیں تھا کہ وہ پچپن ہزار روپے کوچنگ کی فیس ادا کر سکے، لڑکے نے خودکشی کی دھمکی دی ، ماں ،دادی سب نے اپنے زیور گروی رکھ کر اس کی پسند کے کوچنگ میں داخلہ دلوا دیا ، دور روز کے بعد لڑکے نے انکار کر دیا کہ ہم وہاں نہیں پڑھیں گے ، وجہ جو بھی رہی ہو لیکن صورت حال یہ بنی کہ اب ماں دادی کی خود کشی کی نوبت آگئی کیونکہ جو روپے کوچنگ میں جمع ہو گیے، وہ عام حالات میں تو واپس ملنے سے رہے، ایسے میں گارجین کے پاس چارہ کا ر ہی کیا رہ جاتا ہے، اس لیے اگر ہمیں تعلیمی پس ماندگی کو دور کرنا ہے اور اعلیٰ تعلیم کے تناسب کو بڑھا نا ہے تو ضروری ہے کہ لڑکے اور گارجین میں خاص قسم کا تال میل ہو ، دونوں ایک دوسرے کی ضرورت اور مجبوری کو سمجھیں اور اس بے حسی کو دور کریں ،جو ہمارے سماج کا حصہ بن گیاہے ۔
اس سلسلہ میں بہار ، اڈیشہ وجھارکھنڈ کی حد تک امیر شریعت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی امارت شرعیہ کے ذریعہ مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی دور کرنے کے لیے کوشاں ہیں، امارت شرعیہ کے ذریعہ قائم کردہ امارت پبلک اسکول اب برانڈیڈ نیم بن گیا ہے، اسی طرح ٹکنیکل انسٹی چیوٹ کے قیام کے ذریعہ پیشہ وارانہ تعلیم کو فروغ اور نو جوانوں کو معاش سے جوڑنے کی جد وجہد مثالی بھی ہے ، اور قابل تقلید بھی ۔ ضرورت پورے ہندوستان میں علم دوست حضرات کو آگے بڑھ کر تعلیم کے فروغ کے لیے اپنی صلاحیت ، توانائی اور سرمایہ لگانے کی ہے ، ملک کے موجودہ حالات میں ہماری پوری توجہ تعلیم کی طرف ہونی چاہیے اور جس طرح ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں ناکامی اور شاملی کے میدان میں شکست کے بعد ہمارے بڑوں نے اپنی ترجیحات بدل کر تعلیم کے فروغ میں لگ گیے تھے ، ویسے ہی اس وقت تعلیم کے فروغ کے لیے ترجیحی طور پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات

علی گڑھ : اجتماعی شادی اسکیم کی شادیوں کا رجسٹریشن رجسٹرار کے دفتر میں ہونا چاہیے : وزیر مملکت

علی گڑھ : اجتماعی شادی اسکیم کی شادیوں کا رجسٹریشن رجسٹرار کے دفتر میں ہونا چاہیے : وزیر مملکت

ابوشحمہ انصاری، علی گڑھ

ریاستی حکومت کے سماجی بہبود، درج فہرست ذاتوں اور عوامی بہبود کے وزیر مملکت (آزادانہ چارج) عاصم ارون نے کہا کہ یوگی حکومت زیرو ٹالرینس کے ساتھ کام کر رہی ہے۔ ہر افسر کو ایمانداری سے کام کرنا چاہیے۔ سرکاری اسکیموں کا فائدہ آخری فرد تک پہنچایا جائے۔ ٹیکنالوجی سے بھی بھرپور استفادہ کیا جائے۔ اجتماعی شادی اسکیم میں فراڈ کو روکنے کے لیے رجسٹرار آفس میں شادیوں کی رجسٹریشن کرائی جائے۔

وہ جمعہ کو یہاں آگرہ روڈ پر مکند پور میں واقع ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر IAS-PCS پری ایگزامینیشن ٹریننگ سنٹر میں علی گڑھ ڈویژن کے افسران کے ساتھ ایک جائزہ میٹنگ کر رہے تھے۔انہوں نے کہا کہ اسکیموں کا فائدہ دینے کے لیے صرف اہل لوگوں کا انتخاب کیا جانا چاہیے۔

پچھلی حکومتوں میں افسران نااہلوں کو چن کر ٹالتے رہے ہیں۔اب احتساب ہو گا۔ بہت سے اہل ابھی بھی بڑھاپے کی پنشن سے محروم ہیں۔اس اسکیم کا فائدہ بڑھاپے گھروں میں رہنے والے لوگوں کی اہلیت کی جانچ کرکے دیا جانا چاہئے۔ پوسٹ ڈسموٹر اسکالرشپ اسکیم میں بائیو میٹرکس کی بنیاد پر 75 فیصد حاضری والے طلبہ کے رجسٹریشن میں آنے والی خامیوں کو دور کیا جائے۔

اتوار, مئی 15, 2022

مولانا حسرت موہانی، ایک عہد ساز شخصیت (یومِ وفات پر خصوصی پیشکش)

مولانا حسرت موہانی، 
ایک عہد ساز شخصیت 
(یومِ وفات پر خصوصی پیشکش)
تحریر: خرّم ملک کیتھوی،
رابطہ: 930426009

مصنف، شاعر، صحافی، اسلامک اسکالر، سماجی خدمت گزار، 
اور ۱۹۲۱ میں آزادئ کامل (پرن سوراج) کی مانگ کرنے والے اور انقلاب زندہ باد کا نعرہ دینے والے آزادی کے سپاہی حسرت موہانی صاحب کی يوم وفات پر خراج عقیدت،

آپ کا پورا نام سید فضل الحسن حسرت موہانی مسعودی تھا،
آپ کی پیدائش ۱ جنوری ۱۸۷۵ کو برطانیہ کے زیر اقتدار ہندوستان کے اناؤ ضلع کے موہان گاؤں میں ہوئی تھی،

آپ کے والد کا نام سید اظہر حسین تھا۔ ابتدائی تعلیم گھر پر ہی حاصل کی۔ ۱۹۰۳ء میں علی گڑھ سے بی اے کیا۔ عربی کی تعلیم مولانا سید ظہور الاسلام فتحپوری سے اور فارسی کی تعلیم مولانا نیاز فتح پوری کے والد محمد امیر خان سے حاصل کی تھی ۔ حسرت سودیشی تحریک کے زبردست حامیوں میں سے تھے اور انہوں نے آخری وقت تک کوئی ولایتی چیز کو ہاتھ نہیں لگایا۔ شروع ہی سے شاعری کا ذوق تھا۔ اپنا کلام تسنیم لکھنوی کو دکھانے لگے۔ ۱۹۰۳ءمیں علی گڑھ سے ایک رسالہ ”اردوئے معلی“ جاری کیا۔ اسی دوران شعرائے متقدمین کے دیوانوں کا انتخاب کرنا شروع کیا۔ سودیشی تحریکوں میں بھی حصہ لیتے رہے چنانچہ علامہ شبلی نے ایک مرتبہ کہا تھا۔”تم آدمی ہو یا جن، پہلے شاعر تھے پھر سیاست دان بنے اور اب بنئے ہو گئے ہو۔“ حسرت پہلے کانگرسی تھے۔ گورنمنٹ کانگریس کے خلا ف تھی۔ چنانچہ ۱۹۰۷میں ایک مضمون شائع کرنے پر جیل بھیج دیے گئے۔ ان کے بعد ۱۹۴۷ ءتک کئی بار قید اور رہا ہوئے۔ اس دوران ان کی مالی حالت تباہ ہو گئی تھی۔ رسالہ بھی بند ہو چکا تھا۔ مگران تمام مصائب کو انہوں نے نہایت خندہ پیشانی سے برداشت کیا اور مشق سخن کو بھی جاری رکھا۔ آپ کو ‘رئیس المتغزلین‘بھی کہا جاتا ہے- مولانا حسرت موہانی کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے بانیوں میں سے ایک تھے۔ حسرت موہانی نے ۱۳حج کیے ۔ پہلا حج ۱۹۳۳میں کیا اور آخری حج ۱۹۵۰میں ادا کیا ۔ ۱۹۳۸میں حج کے بعد ایران، عراق اور مصر بھی گئے، کہتے تھے ۔۔۔ 
(وکی پیڈیا سے ماخوذ)


جب ہمارے ملک ہندوستان پر انگریز سامراج کا تسلط تھا تو اس وقت ملک کی آزادی کی خاطر کئی الگ الگ نعروں کا ظہور ہو رہا تھا، اُسی کڑی میں ایک نعرہ جس نے ملک کی آزادی میں اہم کردار ادا کیا، وہ "انقلاب زنده باد" کا نعرہ بھی آپ نے ہی دیا تھا،
۱۹۲۱ میں احمد آباد کے کانگریس میٹنگ میں عظیم مجاہد آزادی شہید اشفاق اللہ خان، رام پرساد بسمل کے ساتھ تھے،
 وہ ہندوستانی تاریخ میں پہلے ہندوستانی تھے جنہوں نے انگریزوں سے پوری آزادی (آزادئ کامل) کی مانگ کی تھی،
انہوں نے ہندوستان کی آزادی کے بعد اپنے ملک میں رہنے کو ترجیح دی اور غزل
 (چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے)
 جسے غلام علی صاحب نے اپنی آواز دی تھی، آپ نے ہی لکھا ہے،
اگر ان کی شخصیت کی بات کی جائے  تو پاکستان کے کراچی میں حسرت موہانی میموریل سوسائٹی، حسرت موہانی میموریل لائبریری، ہال، ٹرسٹ کا قیام اُن کی شخصیت کی عکاسی کرتا ہے،
مولانا کے یوم وفات پر ہر سال یہ ٹرسٹ ان کی یاد میں پروگرام کرتا ہے ہے اسی طرح پاکستان کے کراچی شہر کے اورنگی ٹاؤن میں میں ان کے نام کی ایک کالونی اور روڈ بھی ہے،
 اسی طرح بھارت کے شہر کان پور میں مولانا حسرت موہانی ہاسپٹل، مولانا حسرت موہانی روڈ ہے، اسی طرح کانپور میں واقع بتھر⁦ میں حسرت موہانی گیلری ہے، کلکتہ کے مٹیابرج میں حسرت موہانی میموریل گرلز ہائر سیکنڈری اسکول ہے،

آپ ایک بہترین شاعر بھی تھے، اسی لیے آپ کو رئیس المتغزلین بھی کہا جاتا ہے،
جب ہم آپ کی شاعری کا جائزہ لیتے ہیں تو پاتے ہیں کہ

آپ اردو غزل گوئی کی تاریخ میں ایک ممتاز حیثیت رکھتے ہیں۔ اردو شاعری کے ارتقاءمیں ان کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ ان کے خیال اور انداز بیان دونوں میں شخصی اور روایتی عناصر کی آمیزش ہے۔ حسرت موہانی کو قدیم غزل گو اساتذہ سے بڑا ہی ذہنی و جذباتی لگائو تھا۔ اور یہ اسی لگائو کا نتیجہ تھا کہ کلاسیکل شاعروں کا انہوں نے بڑی دقت نظر سے مطالعہ کیا تھا۔ اور اپنی طبیعت کے مطابق ان کے مخصوص رنگوں کی تقلید بھی کی۔ قدیم اساتذہ کے یہ مختلف رنگ حسرت کی شاعری میں منعکس دکھائی دیتے ہیں۔ اور خود حسرت کو اس تتبع کا اعتراف بھی ہے، 
آپ نے صرف ایک ہی صنف کی شاعری نہیں کی، 
بلکہ آپ نے الگ الگ موضوعات پر لکھا ہے اور کیا خوب لکھا ہے، آپ نے عشقیہ شاعری کے ساتھ ساتھ سیاسی شاعری بھی خوب کی، چوں کہ آپ کا سیاست سے گہرا لگاؤ تھا اس لیے آپ نے اس میدان میں بھی اپنی شاعری کے جوہر دکھائے ہیں، کچھ اشعار سے اسے سمجھا جا سکتا ہے،

کٹ گیا قید میں رمضاں بھی حسرت
گرچہ سامان سحر کا تھا نہ افطاری کا

ہم قول کے صادق ہیں اگر جان بھی جاتی
واللہ کہ ہم خدمتِ انگریز نہ کرتے

آپ نے کئی کتابیں تصنیف کیں ہیں،
آپ کی تحریر کردہ کچھ کتابوں کے نام یہ ہیں،
۱ کلیات حسرت موہانی 
۲ شہر کلام غالب 
۳ نکاتِ سخن
۴ مشاہدات زندہ
انہوں نے اپنے کلام میں حب الوطنی اصلاح معاشرہ قومی ایکتا مذہبی اور سیاسی نظریات پر روشنی ڈالی ہے،
۲۰۱۴ میں ہندوستانی حکومت نے ان کے اعزاز میں ایک ڈاک ٹکٹ جاری کیا تھا،



حسرت موہانی نے ۷۲ سال کی عمر میں ۱۳ مئی ۱۹۵۱ء کو لکھنؤ میں وفات پائی،

آج مولانا حسرت موہانی کو گزرے ہوئے۷۲ سال ہو گئے، ان گزرے سالوں میں آپ کو جو عزت اور احترام ملنا چاہیے تھا شاید نہیں ملا، آپ دل سے کانگریسی تھے،  لیکِن۸۲ سال تک کانگریس نے اقتدار میں ہوتے ہوئے آپ کو کبھی وہ عزت نہیں دی جس کے وہ حقدار تھے،اگر اس تحریر کے بعد آپ کو وہ عزت اور احترام ملتا ہے تو اس تحریر کا حق ادا ہو جائے گا، 

ہے مشق سخن جاری چکی کی مشقت میں.
 اک طرفہ تماشہ ہے حسرت کی طبیعت بھی.

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...