Powered By Blogger

بدھ, مئی 18, 2022

قانون بغاوت ہند کے استعمال پر عبوری روکمفتی محمد ثناء الہدی قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

قانون بغاوت ہند کے استعمال پر عبوری روک
مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
=====================================
سپریم کورٹ (عدالت عظمیٰ) نے ایک اہم فیصلہ میں قانون بغاوت ہند کے استعمال پر روک لگادی ہے، چیف جسٹس این وی رمنا، جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس ہیما کولی کی سہ نفری کمیٹی نے سرکار سے کہا ہے کہ اس قانون کے تحت اب کوئی اف آئی آر درج نہیں ہوگی، اور جو لوگ اس قانون سے ماخوذ ہوئے اور جیلوں میں محبوس ہیں، ان کی ضمانت کی درخواست قابل سماعت ہوگی، اور وہ عدالت میں ضمانت کی عرضی لگا سکتے ہیں، یہ روک اس وقت تک رہے گی جب تک حکومت دفعہ ۱۲۴ ؍اے اور اس کے متعلقات پر نظر ثانی نہیں کرلیتی، اس طرح کہنا چاہیے کہ یہ عبوری روک ہے، عدالت چاہتی ہے کہ اس متنازع قانون کے ختم کرنے کی راہ ہموار کی جائے۔
ہندوستانی قانون آئی پی سی کی دفعہ ۱۲۴؍اے کے مطابق اگر کوئی شخص اپنی تقریر ، تحریر، اشارے او رمنظر کشی کے ذریعہ قانونی طور پر منتخب حکومت کے خلاف نفرت اور بے اطمینانی کی فضا پیدا کرتا ہے یاا س کی کوشش کرتا ہے تو اسے عمر قید یا تین سال قید اور جرمانے کی سزا دی جا سکتی ہے ۔
 یہ قانون ہندوستان میں برطانیہ سے بر آمد کیا گیاہے، برطانیہ میں۱۸۳۷ء میں تھامس بیبگٹن میکالے نے یہ قانون ’’ویسٹ منسٹر قانون‘‘ کی زد سے باد شاہ کو بچانے کی غرض سے بنایا تھا، پھر اس قانون پر نظر ثانی کا کام۱۸۶۰ء میں ہوا اور اسے باقی رکھا گیا ۔ ۱۸۷۰ء میں جیمس فِٹوج جیمس اسٹیفن کی تجویز پریہ قانون آئی پی سی میں جوڑا گیا، انگریز حکومت میں چوں کہ فرد کی آزادی کا تصور نہیں تھا، اس لیے دور غلامی میں یہ قانون آزادی کے متوالوں کے خلاف استعمال کیا جاتا رہا ،۱۹۲۱ء میں جب انگریزوں کے خلاف ترک موالات کا فیصلہ دوبارہ شائع ہوا، جس میں انگریزوں کی جانب سے دیے گیے خطابات ، عہدے، کونسل کی ممبری، فوج کی ملازمت ، تجارتی تعلقات، سرکاری تعلیم، حکومتی امداد اور مقدمات کی پیروی کے بائیکاٹ کی بات کہی گئی تھی، تو انگریز حکومت نے اس قانون کا استعمال کیا،چنانچہ شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی، مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی، ڈاکٹر سیف الدین کچلو، پیر غلام مجددی سندھی، مولانا نثار احمد کانپوری اور جگت گرو شنکر آچاریہ پر اسی دفعہ کے تحت مقدمہ چلایا گیا جو کراچی مقدمہ کے نام سے مشہور ہے۔اسی قانون کے تحت لوک مانیہ تلک اور مہاتما گاندھی کوجیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا، ہندوستان کی آزادی کے بعد ۱۹۶۲ء میں سپریم کورٹ نے اس قانون کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ اس قانون کا نفاذ صرف اس شکل میں ہوگا جب تشدد کے لیے اُکسانا یا پُرتشدد طریقے سے منتخب سرکار کو اکھاڑ پھینکنا مقصد ہو۔ اس تشریح سے یہ بات واضح ہو گئی کہ سرکار کی مذمت یا اس کے خلاف پُر امن تحریک چلانا اس قانون کے تحت نہیں آتا، لیکن ہر دور میں حکومتوں نے اس تشریح کی ان دیکھی کی اور مخالفین کو جیلوں میں بند کیا۔ اس سے قبل ۱۸۹۸ئ، ۱۹۳۷ئ، ۱۹۴۸ئ، ۱۹۵۰ء اور ۱۹۵۱ء میں اس قانون میں وقتا فوقتا جزوی تبدیلیاں کی جاتی رہیں، ۱۹۵۸ء میں الٰہ آباد ہائی کورٹ نے اپنے ایک فیصلہ رام نندن بنام ریاست میں اس قانون کو کلیۃً رد کر دیا تھا، اس کے بعد ۱۹۶۲ء میں سپریم کورٹ نے اس قانون کی جو تشریح کی اس کا ذکر اوپر آچکا ہے۔
۱۹۷۳ء میں اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے اپنے دور حکومت میں اس قانون کے اطلاق پر غیر ضمانتی وارنٹ جاری کرنے کا اضافہ کیا، اس طرح یہ قانون اور سخت ہو گیا، اور ۱۸۹۸ء میں کی گئی ترمیم کے سارے خد وخال بدل ڈالے گیے۔
اب جب کہ ہر پانچ سال کے بعد انتخاب ہو رہا ہے، او رحکومتیں الٹ پلٹ ہوتی رہتی ہیں، ایسے میں حکومت کے خلاف بولنا ملک سے غداری اور بغاوت کس طرح قرار دیا جا سکتا ہے ، المیہ یہ ہے کہ برطانیہ میں ۲۰۰۹ء میں ہی اسے کالعدم قرار دے دیا گیا ، لیکن ہندوستان میں یہ آج بھی بر قرار ہے اور حکومت کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو اس کے ذریعہ نہ صرف ڈرایا دھمکایا جا رہا ہے؛ بلکہ اس کا استعمال کرکے حق کی آواز کو دبانے کی کوشش بھی کی جاتی رہی ہے ، قانون دانوں کا خیال ہے کہ یہ پورے جمہوری نظام کے لیے ایک چیلنج ہے ، اب عدالت عظمیٰ (سپریم کورٹ) نے بھی کہا ہے کہ اس قانون کی تشریح کا وقت آگیا ہے، اس قانون پر پہلے بھی اعتراضات کیے جاتے رہے ہیں، گاندھی جی نے کہا تھا کہ اس قسم کے کالے قانون کی طاقت سے سرکار کے تئیں محبت کا ماحول نہیں پیدا کیا جا سکتا، غلام ہندوستان میں ڈاکٹر شیاما پرساد مکھرجی ، رام منوہر لوہیابھی اس قانون کے خلاف تھے، ڈاکٹر راجندر پرشاد کی رائے تھی کہ باہری طور سے پابندیاں لگا کر حب الوطنی پیدا نہیں کی جا سکتی، اس لیے نئے ایوان کی تشکیل کے بعد اس قسم کے قانون کو رد کیا جا نا چاہیے۔
لیکن ہر دور میں حکومت کی یہ خواہش رہی کہ حکومت کے خلاف اٹھنے والی آواز کو غداریٔ وطن اوربغات کا مترادف قرار دیا جائے، حالاں کہ یہ بالکل سامنے کی بات ہے کہ حکومت کے خلاف آواز اٹھانا اور ملک سے غداری دونوں الگ الگ چیزیں ہیں، لیکن قانونی کمیٹی (ودھی آیوگ) نے ۱۹۷۱ء میں اپنی تینتالیسویں رپورٹ میں حکومت اور وطن کی غداری کو ایک قرار دے دیا، اس نے اس قانون میں سرکار کے ساتھ، دستور، مقننہ اور عدلیہ کو شامل کرنے کی بے تُکی سفارش کر ڈالی، جس کی ضرورت اس لیے نہیں تھی کہ ان امور کی حفاظت کے لیے دستور اور آئی پی سی میں پہلے ہی سے الگ الگ دفعات موجود ہیں، ملک کی سالمیت ، تحفظ کے ساتھ کھلواڑ کرنے ملک مخالف اور دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے یو اے پی اے، مکوکا جیسے قانون پہلے ہی سے موجود ہیں، ایسے میں حکومت اور ملک سے غداری اور بغاوت کے فرق کو ختم کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ دونوں کو ایک ماننے کی حماقت دستور اور ملک دونوں کے ساتھ دھوکہ ہی کہا جائے گا، سرکار کے خلاف اور غداری وطن کے اس قانون کو ۱۹۵۱ء میں پہلی دستوری ترمیم کے موقع سے دفعہ (۲) ۱۹؍ کے ذریعہ مضبوط کیا گیا، حزب مخالف نے سرکار مخالف تحریک کو غداری اور بغاوت ملک ووطن سے جوڑ کر دیکھنے کی ہر دور میں مخالفت کی ، چنانچہ ۲۰۱۱ء میں کمیونسٹ رکن پارلیان ڈی راجہ نے ایک نجی بل پارلیامنٹ میںاس کے خلاف پیش کیا؛ لیکن حکومت نے اس پرکوئی توجہ نہیں دی، بھاجپا سرکار آنے کے بعد خود کانگریس کا رخ بدلا ، چنانچہ کانگریس کے رکن پارلیمان ششی تھرور نے ایک دوسرا بل پیش کیا، لیکن اس کا حشر وہی ہوا جو کانگریسی دور حکومت میں ڈی راجہ کے ذیعہ پیش کردہ بل کا ہوا تھا، بعد میںکانگریس نے اسے اپنا انتخای مُدّا بنایا اور وعدہ کیا کہ ہماری حکومت آئے گی تو ہم اس قانون کو ختم کر دیں گے، حکومت بھاجپا کی آگئی اور بھاجپا والے جنہوں نے اس قانون کے تحت اذیتیں جھیلی تھیں اپنا کرب بھول کر ملکی مفاد کے عنوان سے اسے باقی رکھنے کے اپنے ارادے کا اعلان کردیا،واقعہ یہ ہے کہ ہر دور میں حکومتوں نے اپنے تحفظ کے لیے اس قانون کی عصمت کو تار تار کیاہے ۔
مشہور وکیل کپل سبل نے سپریم کورٹ کو موجودہ صورت حال کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ اس وقت پورے ملک میں آٹھ سو سے زیادہ مقدمات عدالتوں میں زیر التوا ہیں اور تیرہ ہزار لوگ آئی پی سی دفعہ ۱۲۴؍اے کے تحت جیلوں میں بند ہیں، اس قانون کے غلط استعمال کے واقعات اس قدر زائد ہیں کہ ان کا احاطہ کرنا مشکل ہے، اس قانون کا استعمال ڈرامہ میں شامل چھوٹے نا بالغ بچوں ، فیس بُک پوسٹ کو پسند کرنے، سنیما گھروں میں قومی ترانہ بجائے جانے کے وقت کھڑے نہ ہونے پر بھی کیا گیاہے۔ 
۲۰۱۲ء میں کوڈن کولم میں ایٹمی تنصیبات کی مخالفت کرنے والوں پر اجتماعی طور پر اس قانون کے سہارے ایف آئی آر درج کیا گیا، نوسو لوگ اس کی زد میں آئے، ۲۰۱۷ء میں پتھل گڑی تحریک جھارکھنڈسے جڑے دس ہزار لوگوں کو اس قانون کے سہارے مقدمہ سے گذرنا پڑا، تحریک کاروں میں ارون دھتی رائے، وینایک سین، ہاردک پٹیل، دشاروی، سدھا بھاردواج،کنہیا کمار، عمر خالد، عائشہ سلطانہ کے ساتھ ذرائع ابلاغ کے کئی لوگ اس قانون کی گرفت میں آئے جن میں اسیم ترویدی منال پانڈے، راجدیپ سرڈیسائی ، ونود دا کے نام خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
صرف ۲۰۱۵ء سے ۲۰۲۰ء کے درمیان چھ سال میں بغاوت اور غداری کے اس قانون کے تحت پانچ سو اڑتالیس(۵۴۸) افراد پر مقدمات کیے گیے اور تین سو چھپن (۳۵۶)افراد کو گرفتار کیا گیا، لطیفہ یہ ہے کہ ان میں سے سات(۷) مقدمات میں صرف بارہ(۱۲) آدمی پر ہی جرم ثابت ہو سکااور وہ سزا یاب ہوئے، اعداد وشمار کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ۲۰۱۵ء میں تیس(۳۰) ۲۰۱۶ء میں پینتیس(۳۵)  ۲۰۱۷ء میں اکاون (۵۱) ۲۰۱۸ء میں ستر (۷۰) ۲۰۱۹ء میں ننانوے(۹۹) اور ۲۰۲۰ء میں چوالیس(۴۴) افراد گرفتار ہوئے، ۲۰۱۴ء کے بعد سے اس کا استعمال عام طور سے اٹھارہ (۱۸) سے تیس (۳۰) سال کے مسلم نو جوانوں پر کثرت سے کیا گیا، اس کے علاوہ مودی حکومت نے اس قانون کا استعمال اظہار رائے کی آزادی کو سلب کرنے، بی جے پی کے خلاف اٹھنے والی آواز کو دبانے اور آر ایس ایس کی غیر قانونی سر گرمیوں کے خلاف جو لوگ تھے ان کو کچلنے کے لیے کیا اور اس کی زد میں طالب علم، رضا کار تنظیموں کے افراد ، سیاسی مخالفین، صحافی وغیرہ سب آئے، سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے ان لوگوں کو اب راحت ملنے کی امید ہے۔
 یہ صورت حال اس وقت ہے، جب ۱۹۶۲ء میں ہی سپریم کورٹ نے اس قانون کے غلط استعمال پر روک لگانے کے لیے کئی ہدایات دی تھیں، ضرورت ہے کہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ نے مختلف مقدمات میں جو تبصرے کیے ہیں اور ہدایات دی ہیں، اس کی روشنی میں اس قانون کو رد کر دیا جائے؛ تاکہ ملک میں جمہوریت باقی رہ سکے۔

مدرسوں کو اب کوئی مالی امداد حاصل نہیں ہوگی ، یوگی کی کابینہ کا فیصلہ

مدرسوں کو اب کوئی مالی امداد حاصل نہیں ہوگی ، یوگی کی کابینہ کا فیصلہ

لکھنؤ: اتر پردیش میں نئے مدرسوں کو اب کوئی گرانٹ نہیں دی جائے گی۔ وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے اس فیصلے پر مہر ثبت کر دی ہے۔ یوگی حکومت کی سابقہ مدت کار کے دوران بھی مدرسوں کو گرانٹ نہیں دی گئی تھی۔ تاہم اب کابینہ نے باضابطہ طور پر اس تجویز کو منظور کر لیا ہے۔ عدالت میں جانے سے بھی مدارس کو ریلیف نہیں ملے گا۔ اس حکومت نے اکھلیش حکومت کی پالیسی ختم کر دی ہے۔ فی الحال یوپی میں صرف 558 مدارس ایسے ہیں جنہیں سرکاری گرانٹ دی جا رہی ہے۔

اقلیتی بہبود اور وقف کے وزیر دھرم پال سنگھ نے بتایا کہ عالیہ (دسویں) سطح کے مستقل تسلیم شدہ مدارس کو سال 2003 تک گرانٹ لسٹ سے متعلق پالیسی کو ختم کرنے کی تجویز کابینہ میں رکھی گئی تھی۔ اس تجویز کی منظوری کے بعد اب کسی نئے مدرسے کو گرانٹ لسٹ میں شامل نہیں کیا جائے گا۔

یوگی حکومت کی سابقہ مدت کار میں 146 مدرسوں کی جانب سے گرانٹ دینے کی درخواست کی گئی تھی، جن میں سے 100 مدارس کو تو فہرست میں شامل کر لیا گیا تھا، تاہم باقی 46 مدارس کا معاملہ ابھی زیر سماعت ہے۔ وزیر کے مطابق یہ مدارس معیار پر پورا نہیں اتر رہے تھے۔ اب اس پالیسی کو کابینہ میں ختم کر دیا گیا ہے، اس لیے گرانٹ کی فہرست میں کوئی نیا مدرسہ شامل نہیں کیا جائے گا۔

اسلامی مدرسہ ماڈرنائزیشن ٹیچرس ایسوسی ایشن آف انڈیا (آئی ماس) کے قومی صدر اعجاز احمد نے یوگی حکومت کے اس فیصلہ پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مدرسوں کو اگر مالی امداد نہیں دی جائے گی تو ان کی تجدید کا کام ٹھہر جائے گا۔ اس کا سب سے زیادہ اثر ان اساتذہ پر پڑے گا جو ان مدرسوں میں درس و تدریس کا کام انجام دیتے ہیں۔ انہیں اپنا مستقبل محفوظ نہیں لگے گا، جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ بہترین ٹیچرز مدرسوں سے اپنا منہ موڑ لیں گے۔'' اعجاز احمد نے کہا کہ اگر مدرسوں کو مرکزی دھارے میں لانا ہے تو حکومت کو اپنے فیصلہ پر از سر نو غور کرنا چاہئے۔

منگل, مئی 17, 2022

پریس ریلیز سیوان :تنظیم ابنائے ندوہ بہار کا پانچواں انتخابی و مشاورتی اجلاس آج مدرسہ انوارالعلوم مادھو پور،سیوان میں منعقد ہوا.

پریس ریلیز 
سیوان :تنظیم ابنائے ندوہ بہار کا پانچواں انتخابی و مشاورتی اجلاس آج مدرسہ انوارالعلوم مادھو پور،سیوان میں منعقد ہوا. جس میں گوپال گنج, سیوان اور چھپرہ کے ندوی حضرات شریک ہوۓ. پروگرام کا آغاز حافظ محمد عاطف کے تلاوت قرآن کریم سے ہوا . عبد السمیع ندوی نے نعت پیش کیا اسکے بعد شاداب انور ندوی اور عبد السمیع نے ندوہ کے خاص لہجہ میں ترانہ ندوہ پیش کیا، جس سےتھوڑی دیر کیلیے سارے سامعین کواپنے ندوہ کی طالبعلمی کے دور کی یاد تازہ ہوگئی اور شرکاء اجلاس ایسا محسوس کرنے لگے گویا وہ ندوہ کے کیمپس میں اپنے اساتذہ اور ساتھیوں کے درمیان کسی پروگرام میں بیٹھے ہوں۔ ترانۂ ندوہ کے بعد اس اجلاس سے متعلق مجلس استقبالیہ کے روح رواں الفلاح اسکول سیوان کے مینیجر مولانا تنویر عالم ندوی نے پر مغز خطبۂ استقبالیہ پیش کیا۔ جسے گوپال گنج کے نوجوان ندوی فاضل ڈاکٹر صفدر عالم ندوی حال مقیم دہلی نے تیار کیا تھا لیکن بعض ناگذیر مجبوری کے تحت وہ شریک اجلاس نہ ہوسکے۔
خطبہ استقبالیہ کے بعد  شرکاء مجلس کے مابین تعارفی سیشن ہوا جسمیں سبہوں نے اپنے تعارف کے ساتھ ہی مختصر میں اپنی تعلیمی،ملی و سماجی سرگرمیوں کا تذکرہ کیا۔ جس سے یہ بات سامنے آئی کہ اس علاقہ ندوی فضلاء مختلف اہم میدانوں میں نمایاں طور پر سماج کو فائدہ پہونچانے میں سرگرم عمل ہیں۔
اس کے بعد لکھنؤ سے خصوصی طور پر اس پروگرام کیلیے تشریف لائے تنظیم کے جوائنٹ کنوینر اور معروف ملی و سماجی کارکن مولانا نجیب الرحمن ململی ندوی نے تنطیم ابنائے ندوہ بہار کے اغراض ومقاصد اور اب تک کی کارکردگی کی تفصیلی روداد پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہماری تنظیم کا بنیادی مقصد تحریک ندوہ کے پیغام اور مونگیری و شبلی کے مشن کے ساتھ ہی علی میاں ندوی کی فکری و تحریکی شعور کو ریاست بہار و جھارکھنڈ کے ساتھ ہی ملک کے گوشہ گوشہ تک پہونچانا اور اس نہج پر ملت میں عملی اقدامات کی فضاء قائم کرنا ہے۔ اور الحمدللہ اسکا آغاز ہوچکا ہے اور سینکڑوں ندوی فضلاء اس کام میں عملی شرکت کیلئے ہر طرح کی قربانی کے جذبہ کے ساتھ عزم مصمم کرچکے ہیں۔ اور فرد سے کارواں کی  شکل بنا چکے ہیں۔
انہوں نے معھد دارالعلوم ندوۃ العلماء کے نصاب کو بہت مفید بتاتے ہوئے کہا کہ اس تنظیم نے ہدف طے کیا ہیکہ معہد اور بہار مدرسہ بورڈ کے نصاب کو سامنے رکھتے ہویے دسویں کلاس کے معیار تک کا ایک نیا نصاب مرتب کرکے پہلے مرحلہ میں پورے بہار میں اسکو رائج کیاجائیگا اور اس نصاب کو عملی جامہ پہنانے کیلئے بہار کے مختلف علاقوں میں جہاں تعلیمی اداروں کی کمی ہے۔ ندوہ کے نظام و نہج پر نئے تعلیمی ادارے قائم کئے جائیں گے۔
 گورکھپور سے تشریف لائے ہوئے تنظیم کنوینر مولانا طارق شفیق ندوی شرکاء کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیـں "وما خلقت الجن الانس" کی زندہ تعبیر ہونا چاہیے اور برادر وطن کو اپنے قریب لانے کی , اپنی تقریبات شامل کرنے کی اور اپنے اخلاق سے انہیں متاثر کرنے کی ضرورت ہے. انہوں نے کہا کہ مولانا علی میاں ندوی علیہ الرحمہ فرمایا کرتے تھے کہ ہر ریاست میں معین الندوہ ہونا چاہئے۔ ہم انکی چاہت کو عملی جامہ پہنانے کیلئے معین الندوہ بنانے اور آپس میں مربوط کرنے نکلے ہیں۔ اس سے ہمارے مادر علمی کے پیغام و مشن کو فروغ ملنے کے ساتھ ہی ادارہ کو بھی ہر لحاظ سے تقویت حاصل ہوگی۔


اس کے بعد مفتی آصف انظار ندوی نے"تحریک ندوہ کا پیغام اور ابنائے ندوہ کی ذمہ داریاں" کے موضوع پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ تحریک ندوہ کے نتیجے میں تعلیمی ادارے تو بہت قائم ہوئے مگر تحریک سست پڑگئی جس کی معاون تحریک کی شکل میں تنظیم ابنائے ندوہ بہار ابھر کر سامنے آئی ہے۔ تاکہ پھر سے تحریک ندوہ میں روح پھونکی جا سکے .
انہوں نے کہا کہ مدارس کے اسناد کو عصری اداروں کے اسناد کے مساوی قرار دئے جانے کی سمت میں بھی کام ہونا چاہیے.. صدر جلسہ مولانا عادل حسین ندوی جو تقریبآ چالیس قبل ندوہ سے فارغ ہوئے اور اسکے بعد سے اپنے وطن گوپال گنج میں رہ کر سنت نبوی کے مطابق تجارت کے میدان میں نمایاں مقام حاصل کرکے دینی اداروں کو تقویت پہونچانے کا کام کررہے ہیں۔ انہوں نے اپنے دور کے ندوہ کی یادوں کا تذکرہ کرتے ہوئے اس دور کے ممتاز اساتذہ اور ندوہ کی علمی شخصیات کا ذکر کیا۔ اور شرکاء سے کہا کہ ہمیـں مخلص ہوکر کام کرنا چاہیے. انہوں نے تنظیم کے ذمہ داران کے اس مشن کو لیکر چلنے پر بے پناہ مسرت کا اظہار کیا اور اپنی جانب سے ہر طرح کے تعاون کی یقین دھانی بھی کرائی۔
 اس کے بعد تنظیم کی کمشنری سطح کی انتخابی کاروائی عمل میں آئی ۔ جس میں اتفاق رائے سے صدر کے عہدے کے لیے مولانا تنویر عالم ندوی سیوان، اور نائب صدر صفدر امام ندوی گوپال گنج کو منتخب کیا گیا.  ڈاکٹر محمد شفیع الزمان ندوی گوپال گنج کو جنرل سکریٹری اور انور قیوم ندوی کو معاون جنرل سکریٹری اور خازن مولانا شاداب انور ندوی کو منتخب کیا گیا. اور پوری کمشنری سے 41 ندوی فضلاء پر مشتمل اراکین مجلس عاملہ کا بھی انتخاب عمل میں آیا۔
جلسہ کی نظامت کے فرائض ماسٹر انور قیوم ندوی نے انجام دیا.
آخر میں ڈاکٹر محمد شفیع الزمان ندوی نے تمام شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔ اس موقع پر مہمان خصوصی کے طور پر موجود علاقہ کے سینیر ترین عالم دین مولانا ہارون رشید ندوی اور جناب علی اختر ناظم مدرسہ انوار الاسلام نے بھی خطاب کیا.

پیر, مئی 16, 2022

بی جے پی دارالحکومت میں 63 لاکھ لوگوں کے گھروں پر بلڈوز چلانے کی تیاری کر رہی ہے : کیجریوال

بی جے پی دارالحکومت میں 63 لاکھ لوگوں کے گھروں پر بلڈوز چلانے کی تیاری کر رہی ہے : کیجریوالنئی دہلی، 16 مئی (یو این آئی) دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال نے کہا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) دارالحکومت میں 63 لاکھ لوگوں کے گھروں اور دکانوں پر بلڈوزر چلانے کی تیاری کر رہی ہے، جو آزاد ہندوستان کی سب سے بڑی تباہی ہوگی پیر کو یہاں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مسٹر کیجریوال نے کہا کہ پچھلے کچھ ہفتوں سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ بی جے پی کی حکومت والی میونسپل کارپوریشن دہلی کے اندر راجدھانی میں کئی مقامات پر بلڈوزر چلا رہی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ اب کئی مہینوں تک بلڈوزر چلائے جائیں گے۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ ہم دہلی سے تمام تجاوزات ہٹانے جارہے ہیں۔ تمام ناجائز تجاوزات اور غیر قانونی تعمیرات کو ہٹایا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہم خود بھی تجاوزات کے خلاف ہیں۔ ہم نہیں چاہتے کہ تجاوزات ہوں۔ ہم نہیں چاہتے کہ غیر قانونی عمارتیں بنیں لیکن اس میں دو چیزیں اہم ہیں۔ پہلی بات دہلی کو جس طرح سے پچھلے 75 سالوں میں بنایا گیا ہے وہ منصوبہ بند طریقے سے نہیں بنایا گیا ہے۔ جس طرح سے دہلی بنی ہے، دہلی کا 80 فیصد سے زیادہ حصہ تجاوزات کی زد میں آئے گا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اب دہلی کا 80 فیصد حصہ توڑا جائے گا؟

اعلان داخله مدرسہ احمدیہ فيض القرآن کھتوڑ ہ ضلع بجنور ( یوپی )علاقے کا مشہور و معروف ادارہ ہے

اعلان داخله مدرسہ احمدیہ فيض القرآن کھتوڑہ ضلع بجنور ( یوپی )علاقے کا مشہور و معروف ادارہ ہے ، جہاں دینی وعصری تعلیم دی جاتی ہے ، جہاں  کی رات و دن کی محنتوں کا نتیجہ تھا ، بہر کیف مدرسہ ہٰذا میں درجات عربی ، فارسی ، دوم ،حفظ و ناظرہ و تجوید پڑھانے کے لئے جید علماء وقراء حضرات ، ماہر ونتی اسا تذ و مخلص واہل علم ذمہ داران ، بزرگ ہستیاں تعلیم وتربیت کا معیاری ماحول اور طعام و رہائش گاہ و غیر و کا مناسب نظم ہے ۔ لہذا اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا بچہ ما ہر حافظ ومولوی بنے اور بچہ کامستقبل روشن و تابناک ہو اور طالب علم کو تعلیم سے مستحکم نظم کے ساتھ تربیت کے لئے عمدہ اسلامی ماحول مل سکے تو دا خلے کے لئے فوری رابطہ کر میں ورنہ تاخیر کرنے کی صورت میں داخلہ نہیں ہو سکے گا۔خواہش مند طلباء ۲ عددفوٹو اور سرکاری آئی ڈی ، پہچان پتر ضرور اپنے ساتھ لائیں ۔ جدید و قدیم طلباء کے لئے ۱۰مئی بروز ہفتہ سے داخلہ شروع ہوچکا ہے 
 فوری رابطہ کرے نمبر 95403 94914
حضرت مولانا اقرار بیگ صاحب ناظم اعلیٰ مدرسہ احمدیہ فیض القرآن کھتوڑہ پوسٹ بھنیڑہ تحصیل نجیب آباد ضلع بجنور (یوپی)

گیان واپی مسجد میں مسلسل تیسرے دن ہوگا سروے، اب تک 80 فیصد کام مکمل

گیان واپی مسجد میں مسلسل تیسرے دن ہوگا سروے، اب تک 80 فیصد کام مکمل

وارانسی کی گیان واپی مسجد کمپلیکس میں آج مسلسل تیسرے دن سروے کا کام کیا جائے گا۔ قبل ازیں اتوار کو بھی مسجد کمپلیکس کے سروے کا کام مکمل نہیں ہو سکا تھا۔ بتایا جا رہا ہے کہ اب تک سروے کا 80 فیصد کام مکمل ہو چکا ہے اور باقی 20 فیصد سروے کا کام آج مکمل کر لیا جائے گا۔

مسلمانوں کی تعلیمی صورت حالمفتی محمد ثناء الہدی قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

مسلمانوں کی تعلیمی صورت حال
مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
=====================================
 مسلمانوں کی آبادی اور اقلیتی فرقوں کی تعلیمی حالات کی جو رپورٹ ۲۰۱۱ء کی مردم شماری کے تناظر میں شائع کی گئی ہے ، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی آبادی اس ملک میں صرف تیرہ فیصد ہے، جن میں صرف 2.76فی صد گریجویٹ ہیں، تکنیکی اور غیر تکنیکی تعلیم میں ڈپلوما حاصل کرنے والے 0.44 بارہویں کلاس تک تعلیم پانے والے مسلمانوں کی تعداد 4.44فی صد، دسویں تک تعلیم حاصل کرنے والے6.33اور 16.8فی صد مسلمانوں نے صرف پرائمری کی تعلیم حاصل کی ہے، عورتوں میں خواندگی کاتناسب مجموعی گریجویٹ2.76فی صد میں 36.65ہے، تینتالیس فی صد مسلمانوں نے کبھی اسکول کا منہ نہیں دیکھا ،یہ سرکاری اعداد وشمار ہیں، اور ان کی صحت پر سوالات اٹھتے رہے ہیں، لیکن ہمارے پاس احوال کے جاننے کاکوئی اور ذریعہ نہیں ہے، اس لیے ان اعداد وشمار پرہی اعتماد کرنا پڑتا ہے، تھوڑے بہت کا فرق ہو تب بھی مسلمانوں کا تعلیمی گراف بہت اونچا نہیں جا سکتا ، کیوں کہ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے جوتعلیمی اعداد وشمار ہیں وہ بہت آگے ہیں،ہندوستان گیر سطح پر دیکھیں تو جین مذہب کے ماننے والے سب سے زیادہ تعلیم یافتہ ہیں، ان کی خواندگی کا تناسب 86فی صد اور غیر خواندہ13.75فی صد ہیں،ہندؤوں میں غیر خواندہ لوگوں کی تعداد 36.40سکھوں میں 32.49بودھوں میں 28.17عیسائیوں میں تقریبا25.66فی صد ہے،مجموعی طور پر پورے ملک کی خواندگی کا تناسب دیکھیں تو صرف 5.63فی صد لوگ ہی بی اے یا اس سے زیادہ تعلیم یافتہ ہیں، اعلیٰ تعلیم میں پورے ملک میں 61.6فی صد مرد اور 38.4فی صد خواتین ہیں۔ان اعداد وشمار میں آئندہ مردم شماری کی جو رپورٹ آئے گی اس میں بڑی تبدیلی کا امکان ہے، جب تک اگلی مردم شماری کا عمل مکمل نہیں ہوتا ۲۰۱۱ء کی رپورٹ ہی ہمارے لیے بحث وتحقیق اور تجزیہ کے لیے استعمال ہوتا رہے۔
 اس طرح غور کریں تو معلوم ہوگا کہ خواندگی کا تناسب پورے ملک میں کمزور ہے ، لیکن مسلمان سماجی اورمعاشی طور پرکمزور ہونے کے ساتھ ساتھ  سیاسی طورپربھی کمزور ہیں سترہ کڑوڑ کی مسلم آبادی میں پارلیامنٹ میں مسلم ممبروں کی تعداد کم از کم پچھہترہونی چاہیے تھی، جو نہیں ہے۔
اس وقت ہمارا موضوع مسلمانوں کی تعلیمی صورت حال ہے ، یہ امت جو تعلیم کے نام پر برپاکی گئی ، جس کے لیے قرآن کریم کا پہلا جملہ ’’اقرائ‘‘  پڑھو نازل ہوا ،جس کے لئے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بارے میں اعلان کیاکہ وہ معلم بنا کر بھیجے گیے ہیں، جس کے لیے قرآن کریم نے اعلان کیاکہ ایمان اور علم ،رفع درجات کا سبب ہے ، جن کے یہاں طلب علم کو فرض قرار دیا گیا ، اتنی ترغیب کے با وجود مسلمان تعلیم میں کیوں پیچھے ہیں، عام رجحان یہ ہے کہ تعلیم مہنگی ہو گئی ہے ،اور مسلمانوں کے پاس اس مہنگی تعلیم کے حصول کے لیے وسائل کی کمی ہے ،معاشی پس ماندگی کیوجہ سے ہمارے بچے تعلیم جاری نہیں رکھ پاتے ہیں اس لیے ڈراپ آؤٹ کا تناسب ان کے یہاں بہت ہے ، ان باتوں کی صداقت سے کلیۃً انکار نہیں کیا جاسکتا ، لیکن اگر حوصلہ اور اولو العزمی کی نظر سے دیکھیں تو معلوم ہو گا کہ ان حالات پر قابو پانا قطعا دشوار نہیں ہے، آج سرکاری اور غیر سرکاری تنظیموں کی طرف سے ملنے والے اسکالر شپ اور قرض ہماری مالی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے تیار ہیں ، اگر حوصلہ ہو اور پڑھنے کا پختہ ارادہ ہو تو راستے میں رکاوٹیں حائل نہیں ہوتیں، حضرت امیر شریعت سادس مولانا سید نظام الدین ؒ فرمایا کرتے تھے کہ آج تعلیم کے حصول میں رکاوٹ بے کسی اور بے بسی نہیں بلکہ ہماری بے حسی ہے جس کی وجہ سے ہمارے بچے تعلیم میں آگے نہیں بڑھ پاتے ہیں، یہ بے حسی کبھی تو گارجین کی طرف سے ہوتی ہے اور کبھی لڑکوں کی طرف سے ، بعض لڑکے زیادہ خرچا لو ہوتے ہیں وہ اپنے گارجین کی مالی حیثیت کا غلط اندازہ لگاتے ہیں  اورمختلف عنوانات سے ضروری اور غیر ضروری اخراجات کرکے گارجین کوپریشان کرتے ہیں،کھی بچوں کایہ رویہ بھی گارجین کو اس کی تعلیم بندکرنے پر آمادہ کر دیتا ہے، کبھی صورت حال اس سے بھی زیادہ مضحکہ خیز ہوتی ہے، ہمارے ایک ملنے والے کے پوتے نے ایک کوچنگ میں داخلہ کے لیے گارجین پر دباؤ ڈالا ، گارجین اس پوزیشن میں نہیں تھا کہ وہ پچپن ہزار روپے کوچنگ کی فیس ادا کر سکے، لڑکے نے خودکشی کی دھمکی دی ، ماں ،دادی سب نے اپنے زیور گروی رکھ کر اس کی پسند کے کوچنگ میں داخلہ دلوا دیا ، دور روز کے بعد لڑکے نے انکار کر دیا کہ ہم وہاں نہیں پڑھیں گے ، وجہ جو بھی رہی ہو لیکن صورت حال یہ بنی کہ اب ماں دادی کی خود کشی کی نوبت آگئی کیونکہ جو روپے کوچنگ میں جمع ہو گیے، وہ عام حالات میں تو واپس ملنے سے رہے، ایسے میں گارجین کے پاس چارہ کا ر ہی کیا رہ جاتا ہے، اس لیے اگر ہمیں تعلیمی پس ماندگی کو دور کرنا ہے اور اعلیٰ تعلیم کے تناسب کو بڑھا نا ہے تو ضروری ہے کہ لڑکے اور گارجین میں خاص قسم کا تال میل ہو ، دونوں ایک دوسرے کی ضرورت اور مجبوری کو سمجھیں اور اس بے حسی کو دور کریں ،جو ہمارے سماج کا حصہ بن گیاہے ۔
اس سلسلہ میں بہار ، اڈیشہ وجھارکھنڈ کی حد تک امیر شریعت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی امارت شرعیہ کے ذریعہ مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی دور کرنے کے لیے کوشاں ہیں، امارت شرعیہ کے ذریعہ قائم کردہ امارت پبلک اسکول اب برانڈیڈ نیم بن گیا ہے، اسی طرح ٹکنیکل انسٹی چیوٹ کے قیام کے ذریعہ پیشہ وارانہ تعلیم کو فروغ اور نو جوانوں کو معاش سے جوڑنے کی جد وجہد مثالی بھی ہے ، اور قابل تقلید بھی ۔ ضرورت پورے ہندوستان میں علم دوست حضرات کو آگے بڑھ کر تعلیم کے فروغ کے لیے اپنی صلاحیت ، توانائی اور سرمایہ لگانے کی ہے ، ملک کے موجودہ حالات میں ہماری پوری توجہ تعلیم کی طرف ہونی چاہیے اور جس طرح ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں ناکامی اور شاملی کے میدان میں شکست کے بعد ہمارے بڑوں نے اپنی ترجیحات بدل کر تعلیم کے فروغ میں لگ گیے تھے ، ویسے ہی اس وقت تعلیم کے فروغ کے لیے ترجیحی طور پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...