Powered By Blogger

جمعہ, جون 03, 2022

پٹرول پمپ ملازمین کسٹمر کے ساتھ کر رہے ہیں دھوکہ دہی ، جانئے کس طرح جھونک رہے آنکھوں میں دھول

پٹرول پمپ ملازمین کسٹمر کے ساتھ کر رہے ہیں دھوکہ دہی ، جانئے کس طرح جھونک رہے آنکھوں میں دھولعام لوگ پہلے ہی پٹرول کی قیمتوں سے پریشان ہیں۔ پٹرول پمپوں پر اس کے ساتھ ہونے والا فراڈ ان کی مشکلات میں اضافہ کر رہا ہے۔ کچھ پٹرول پمپ ملازمین مختلف طریقوں سے صارفین کو بے وقوف بنا کر اپنی جیبیں گرم کر رہے ہیں۔ اگر ہم کرناٹک کی راجدھانی بنگلورو کی بات کریں تو یہاں کے پٹرول پمپ ملازمین نے دھوکہ دہی کا ایک الگ طریقہ نکالا ہے۔ صارفین کی آنکھوں میں دھول جھونک کر یہ ملازمین بڑی آسانی سے انہیں لوٹ رہے ہیں۔ دھاندلی والے میٹر (Rigged Meters) ایک ایسا ہی طریقہ ہے جس کی مدد سے پٹرول پمپ کے ملازمین لوگوں کو دھوکہ دینے کا کام کر رہے ہیں۔ دکن ہیرالڈ کی ایک رپورٹ کے مطابق جب کوئی کسٹمر اپنی گاڑی میں پٹرول بھروانے آتا ہے تو پمپ کا ملازم ایندھن بھرنے کے دوران پیٹرول کا بہاؤ روک دیتا ہے۔ آپ اسے اس طرح سمجھ سکتے ہیں۔ اگر کوئی کسٹمر 1000 روپے کا پٹرول مانگتا ہے تو پمپ کا ملازم پہلے 400 روپے کا پیٹرول ڈالتا ہے۔ پھر اس دوران وہ گاہک کو بتاتا ہے کہ بجلی چلی گئی ہے یا کوئی اور مسئلہ آ گیا ہے۔ اس لیے پٹرول گاڑی کی ٹنکی میں نہیں جا رہا ہے۔ پھر کچھ دیر بعد وہ وہاں سے دوبارہ پٹرول ڈالنا شروع کر دیتا ہے اور 600 روپے پر رک جاتا ہے، جب کہ اسے زیرو سے شروع کرنا چاہیے تھا۔ اس کے بدلے وہ کسٹمر سے 1000 روپے لیتا ہے جبکہ حقیقت میں وہ صرف 600 روپے کا پٹرول ڈالتا ہے۔ باقی 400 روپے پیٹرول پمپ کا ملازم اپنی جیب میں رکھتا ہے۔ خام تیل 10ڈالر سستا، کیا Petrol۔Diesel کی قیمتیں بھی ہوئیں کم، جانئے آج کے نئے دام

چانچ ہوئی تیز
ایک حکام کا کہنا ہے کہ پچھلے دو سالوں میں ریاست میں پٹرول پمپس پر دھوکہ دہی کے معاملات میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ افسر کا کہنا ہے کہ کورونا وبا کے دوران پیٹرول پمپ کے معائنہ کے کام میں کمی آئی تھی جس کا فائدہ پمپ کے ملازمین نے اٹھایا تاہم اب دوبارہ تحقیقات تیز کردی گئی ہیں۔



پمپ آپریٹر نے کیا کہا؟
وہیں پیٹرول پمپ آپریٹرز petrol pump operators کا کہنا ہے کہ ملازمین کی دھوکہ دہی کی وجہ سے ان پر اکثر جرمانے لگائے گئے ہیں۔ آل کرناٹک فیڈریشن آف پٹرولیم ٹریڈرس کے صدر کے ایم۔ بسوے گوڑا کا کہنا ہے کہ الیکٹرانک میٹر کی وجہ سے دھوکہ دہی کا امکان بہت کم ہو گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر پیرول پمپ چلانے والوں نے 25 ملی لیٹر پلس یا مائنس کا غلط استعمال کیا ہے تو اس پر کوئی کارروائی نہیں کی جاسکتی۔ لیکن حکام صرف 10 ملی لیٹر کی کمی پر ہی مقدمہ درج کرلیتے ہیں۔ پٹرول پمپ آپریٹرز نے گزشتہ سال بھی اس کی مخالفت کی تھی۔

یوپی کے یوگی___ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

یوپی کے یوگی___
 مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
یوپی کی یوگی حکومت مرکزکی مودی حکومت سے مسلم مخالف فیصلے لینے اور کرنے میں آگے بڑھنا چاہتی ہے، تاکہ وہ فرقہ پرست تنظیموں اور آر ایس ایس کی منظور نظر بن جائے، اور ریاست سے مرکز تک پہونچنے کا خواب حقیقت کا روپ دھارن کر سکے، اس کے لیے پہلا فرمان اپنے پہلے دور حکومت میں مدارس اسلامیہ کے لیے یوگی جی نے جاری کیا کہ مدارس والے اپنی معلومات ویب پورٹل پر اپ لوڈ کریں، مدارس کے ذمہ داران بھی اپنے طرز پر جینے کے عادی ہیں، اس لیے اپ لوڈ کرنے کی تاریخ میں توسیع کے با وجود اس کام کو کرکے نہیں دیا ۔
اتر پردیش میں حکومت سے منظور شدہ مدارس کی تعداد ۱۹۱۴۳ہے، حکومت سے امداد صرف پانچ سو ساٹھ مدارس کو ملتی ہے، ڈاٹا اپ لوڈ کرنے کا حکم منظور شدہ سبھی مدارس کے لیے تھا ، ۱۶۴۶۱ مدارس نے ہی اس حکم کو تسلیم کیا ، ۲۶۸۲ مدارس کی تفصیلات اپ لوڈ نہیں ہوئیں، جن میں عالیہ سطح کے ۸۳۶ غیر امدادیافتہ مدارس بھی شامل ہیں، جب کہ عالیہ سطح کے منظور شدہ مدارس کی تعداد وہاں ۴۵۳۶ ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ صرف ۳۷۰۰ نے ہی ان میں سے ڈاٹا آن لائن اپ لوڈ کیا ہے۔ خبر ہے کہ وزیر تعلیم نے ایک بار پھر ڈاٹا فراہم کرنے کی تاریخ میں توسیع کر دی ہے اور کہا ہے کہ مدارس کو سہولیات فراہم کرنے کے لیے حکومت کے پاس تفصیلات کا ہونا ضروری ہے ، اس کا مطلب ہے کہ حکومت کی نیت صاف ہے ، اللہ کرے ایسا ہی ہو۔ہمیں تو کچھ دال میں کالا ہی نظر آتا ہے ، اور اس کو تقویت اس فرمان سے ملتی ہے جس میں مدارس کو حب الوطنی کے ثبوت کے طور پر ۲۶؍ جنوری اور ۱۵؍ اگست کے پروگرام کی دیڈیو گرافی کرکے بھیجنے کو کہا گیا تھا۔اپنی نئی پاری میں یوگی جی نے نئے مدارس کو منظور ی دینے سے صاف انکار کر دیا ہے، اب کسی نئے مدرسہ کا الحاق نہیں ہوگا، اور نہ تنخواہ دی جائے گی۔
 مدارس والوں کو پریشان کرنے کے لیے یوگی حکومت نے ایک دوسرا فرمان یہ جاری کیا ہے کہ مدارس اسلامیہ میں بھی دوسرے مذاہب کے تہواروں کے موقع سے چھٹی دی جائے گی، اس کے لیے مدارس کی معمولات والی تعطیلات میں کٹوتی کرکے نئے سال کے لیے فرصت کی فہرست سازی کی گئی ہے،  اور ۹۲ سے گھٹا کر ۸۶ کر دیا گیا ہے، اس کی وجہ سے رمضان ، عید، بقرعید کی چھٹیاں کم ہو گئی ہیں اور درگا پوجا، دیوالی، ہولی پر مدارس بند رکھنے کا فرمان جاری کیا گیا ہے، ایسا کسی دوسری ریاست میں نہیں ہے، یوگی حکومت کی مسلم مخالفت کا یہی حال رہا تو ممکن ہے آسام کی طرح جمعہ کی چھٹی منسوخ کرکے اتوار کو تعطیل کا دن نہ قرار دے دیا جائے، حالاں کہ اتوار بھی ہندو تو کے لیے کوئی ’’شبھ‘‘ دن تو ہے نہیں، اس فرمان پر مدارس والوں نے احتجاج درج کرایا تو اعلان آیا ہے کہ چھٹیاں کم نہیں کی گئی ہیں، بڑھا دی گئی ہیں، لیکن اس بڑھانے کے نتیجے میں تعلیم وتدریس کے ایام مزید کم ہوجائیں گے ، اور طلبہ کا سخت تعلیمی نقصان ہوگا، جو پہلے ہی اساتذہ کے غیر تدریسی کاموں میں مشغول ہو نے کی وجہ سے نصابی تعلیم کی تکمیل میں رکاوٹ کا سبب رہا ہے۔ 
تیسرا فرمان عدالت کے حکم کی روشنی میں مذہبی مقامات پر لاؤڈ اسپیکرسے متعلق آیا ہزاروں مسجدوں سے لاؤڈ اسپیکر کے ذریعہ آواز کی ترسیل کے چونگے اتار لیے گیے ہے اس فرمان کا اثر دوسرے مذاہب پر تو ہونے سے رہا ، وہ مثل مشہور ہے کہ ’’سیاں بھئے کوتوال اب ڈرکاہے کا‘‘ ان کے لیے تو یہی معاملہ ہوگا، رہ گیے مسلمان تو اس حکم کا اطلاق اس سختی سے مسلمانوں پر ہوگا، کہ مسجد کے منارے مائیک سے خالی ہو جائیں گے اورمحلہ کے لوگ اذان کی آواز سننے کے لیے ترس جائیں گے، دوسری اقلیتوں کو بھی فوری طور پر اس کام کے لیے تگ ودو شروع کرنی چاہیے، تاکہ بعد میں ان کے لیے مسائل نہ کھڑے ہوں، یہ توقع کرنا کہ یوگی جی کا یہ فرمان آخری ہے، بیوقوفوں کی دنیا میں رہنے کے مترادف ہوگا،کیوں کہ خود ان کی اپنی ذہنیت فرقہ واریت کے جراثیم سے تیار ہوئی ہے، دوسرے وہ اپنے آقا کو خوش کرنے کے لیے کوئی بھی حکم دے سکتے ہیں اور چوں کہ وہ بھاری اکثریت سے یوپی کی گدی پر براجمان ہوئے ہیں، اس لیے ان کا فرمان نافذ العمل بھی ہوگا۔اب اتر پردیش کی صور ت حال یہ ہے کہ سڑکوں پر جمعہ اور عیدین کی نمازوں پر بھی پابندی لگی ہوتی ہے ۔
ضرورت مسلمانوں کو تحمل برداشت کے ساتھ حالات سے مقابلہ کرنے کی ہے، وہاں کے علماء اور تنظیم کے ذمہ داروں کو بہت سوچ سمجھ کر منصوبہ بندی کرنی چاہیے، تاکہ مسلمانوں میں جو مایوسی پائی جا رہی ہے اس کو دور کیا جا سکے، اور اس بات کی کوشش کی جائے کہ مسلمانوں کے لیے وہاں عرصۂ حیات تنگ نہ ہو، مسلمانوں نے انتخاب کے موقع سے منصوبہ بندی نہیں کی، اس کی سزا وہ بھگت رہے ہیں، کم از کم جینے اور زندگی گزارنے کی منصوبہ بندی تو ایسی کرلیں کہ نئی نسلوں کے ایمان کی حفاظت ہو سکے، اور وہ پورے مذہبی اقدار کے ساتھ زندگی گذارنے کے لائق رہ سکیں۔

جمعرات, جون 02, 2022

ہندوستانی فوٹو گرافر کے کیمرے سے 115 سال قبل حج کے مناظر

ہندوستانی فوٹو گرافر کے کیمرے سے 115 سال قبل حج کے مناظر

ریاض : شاہ عبدالعزیز پبلک لائبریری نے نئی کتاب شائع کی ہے جس میں 115 سال قبل حرمین شریفین کے حالات اور ماحول کو تصاویر کی شکل میں اجاگر کیا گیا ہے۔ العربیہ کے مطابق انڈین فوٹو گرافر احمد مرزا نے سوا صدی پیشتر حج کے موقعے پر حرمین شریفین کی تصاویر لیں جنہیں اب ایک کتاب کی شکل میں شائع کیا گیا ہے۔

کتاب کو 'مناظر حرمین شریفین اور حج کے مظاہر الحاج احمد مرزا کے کیمرے کی آنکھ سے' کا عنوان دیا گیا ہے۔ یہ کتاب عالم دین ڈاکٹر اعظمی ندوی نے ترتیب دی اور اس کا پہلا ایڈیشن شائع کیا گیا ہے۔ کتاب 240 صفحات پر مشتمل ہے جس میں حرمین شریفین کے نقشوں، خاکوں اور قدیم ڈرائنگ سے آغاز کیا گیا ہے۔

کتاب میں انڈین فوٹو گرافر کی حرمین شریفین اور مشاعر مقدسہ کی بنائی گئی تصاویر شامل ہیں۔ سوا صدی قبل حرمین شریفین کی یادگاروں پر مشتمل اس کتاب کو چار ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ کتاب کا پہلا باب 'جدید ہندی طباعتی ثقافت میں حرمین شریفین' کےعنوان سے ترتیب دیا گیا ہے جس میں فوٹو گرافر احمد مرزا کی تیار کردہ تصاویر شامل ہیں۔

کتاب کا ایک حصہ الحاج احمد مرزا کی تصاویر کے مجموعے کے سائنسی بنیاد پر مطالعے، تجزیے اور علمی نگرانی سے بھی متعلق ہے جنہیں 1907ء میں حج پر آنے والا پہلا پیشہ ور ہندوستانی فوٹو گرافر سمجھا جاتا ہے۔ انہوں نے مکہ معظمہ میں اپنے قیام سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حرم مکی شریف کی تصاویر حاصل کیں۔

الحاج احمد مرزا کو 1907ء میں حج پر آنے والا پہلا پیشہ ور ہندوستانی فوٹو گرافر سمجھا جاتا ہے


ہندوستان واپسی کے بعد انہوں نے ان تصاویر کو (دہلی میں) اپنی فوٹوگرافی لیب میں پرنٹ کیا۔ انہوں نے وہ تصاویر اور کارڈ مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں آنے والے حجاج کو فروخت کئے۔ محقق اعظمی ندوی ہندوستان میں مغلوں پراپنے ڈاکٹریٹ کے مقالے کے آغاز سے ہی مرزا کے تصویری مجموعے سے کیا۔

تلاش کے دوران انہیں تصاویر اور کارڈز اور البم ملے جو حاجی احمد مرزا کے سٹوڈیو سے چھاپے اور شائع کئے گئے تھے۔ احمد مرزا کی لی گئی تصاویر میں حرم مکی شریف کے اندر موجود حجاج کرام کو دکھایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ مسجد نبوی، مسجد حرام، جبل عرفات، باب العنبریہ، مسجد الخیف، منیٰ، المعلاۃ اور جنۃ البقیع قبرستان، مسجد قبا اور حجاج کی زیارت کے دیگر مقامات کوکیمرے کی آنکھ میں محفوظ کیا گیا۔

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ علماء دیوبند عظیم کارنامہ " پانی والی مسجد مسجد کی حقیقت کچھ اس طرح ہے کہ ۔۔۔۔ ضلع شکار پور کی تحصیل گڑھی یاسین کے گاؤں امروٹ شریف سے دو کلومیٹر کی دوری پر ایک مسجد قائم ہے

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ علماء دیوبند عظیم کارنامہ " پانی والی مسجد مسجد کی حقیقت کچھ اس طرح ہے کہ ۔۔۔۔ ضلع شکار پور کی تحصیل گڑھی یاسین کے گاؤں امروٹ شریف سے دو کلومیٹر کی دوری پر ایک مسجد قائم ہے جسے پانی والی مسجد کہا جاتا ہے ۔ گاه یہ مسجد کھیر تھر کینال کے بیچ میں ہے اور یہ صرف ایک عبادت نہیں بلکہ ایک طرح سے تحریک آزادئ ہند کی اہم یادگار ہے اور ایک موقع پر اسی مسجد نے دین اسلام پر مر مٹنے والوں کا جذبہ اور اللہ کے راستے میں جان بان کرنے کی سچی آرزو بھی دیکھی ہے ۔>> اس مسجد کو شمالی سندھ میں انگریزوں کے خلاف ایک سیاسی قوت کے طور پر بھی یاد کیا جاتا 1932 میں برطانوی راج میں جب سکھر بیراج اور کینال پراجیکٹ کا کام شروع کیا گیا تو بلوچستان تک نہری پانی پہنچانے کے لیے کھیر تھر کینال کی کھدائی کی جانے لگی ۔ اس وقت یہ چھوٹی سی مسجد کھیر تھر کینال کے منصوبے کی تکمیل میں رکاوٹ سمجھی گئی اور انگریز سرکار نے منہدم کرنے اور کینال پراجیکٹ کو اسی جگہ سے آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا ، مگر حضرت مولانا تاج محمود امروٹی نے جو ایک عالم اور نہایت دین دار شخص مانے جاتے تھے ، انھوں نے کینال کا رخ تبدیل کرنے مشورہ دیتے ہوئے مسجد کو شہید نہ کرنے کا کہا ۔ انگریز انتظامیہ نے ان کا مشورہ مسترد کر دیا تو مولانا امروٹی نےمتعلقہ امور کے ماہرین اور افسران کو تحریری طور پر اس مسئلے آگاہ کیا اور اپنا مشورہ ان سے کے سامنے رکھا ، لیکن کوئی خاطر خواہ جواب نہ ملا ۔ تب مولانا امروٹی نے انگریز سامراج سے مقابلہ کرنے کا اعلان کردیا ۔ ان کی آواز پر ہزاروں لوگ جمع ہو گئے اور ایک ایسی دینی اور سیاسی تحریک شروع ہوئی کہ برطانوی سرکار مشکل میں پڑ گئی ۔ مولانا صاحب کے حکم پر مسجد کی حفاظت کے لیے سیکڑوں لوگ گھروسے نکل آئے ۔ نوجوانوں نے مختلف اوقات میں مسجد پہرہ دینے کی ذمہ داری اٹھا لی ۔ مسلمانوں کو یوں اکٹھا ہوکر مسجد کی حفاظت کرتا دیکھ کر انگریز انتظامیہ نے فیصلہ ترک کر کا دیا ۔ ماہرین سے مشاورت اور منصوبے کے انجینئر کی ہدایت پر کھیر تھر کینال کو مسجد کے دونوں اطراف گزارا گیا اور یوں مسجد پانی آگئی ۔ سے کے بیچ میں ں ۔ یہی وجہ ہے کہ اسے پانی والی مسجد بھی کہا جاتا ہے

10 ہزارکیلئے پورا خاندان جان دینے پرہوا مجبور ۔ تحقیقات میں انکشاف

10 ہزارکیلئے پورا خاندان جان دینے پرہوا مجبور ۔ تحقیقات میں انکشاف

حیدرآباد: پرانا شہرسے تعلق رکھنے والے ایک ہی خاندان کے چارافراد کی خودکشی کے معاملہ میں معلوم ہوا ہے کہ 10ہزارروپئے کیلئے انھوں نے یہ انتہائی اقدام کیا ہے۔ واضح رہے کہ حیدرآباد کے سنتوش نگرسے تعلق رکھنے والے 37 سالہ قدوس نے اپنی بیوی 28 سالہ فاطمہ اوردونوں بچوں 9 سالہ مہر 6 سالہ فردوس کے ساتھ کل زہرپینے کے بعد تالاب می چھلانگ لگا کرخودکشی کرلی تھی۔

تحقیقات کے دوران پولیس کومعلوم ہوا کہ پیشہ سے ویلڈرقدوس نے 20 ہزارروپئے بطورقرض حاصل کئے تھے، قرض کی واپسی کیلئے ان پردباو ڈالا جارہا تھا، انھوں نے اپنے سسرالی رشتہ دارسے 10 ہزارروپئے طلب کئے تاکہ قرض کی رقم لوٹا سکیں،تاہم وہ اس کا انتظام نہیں کرسکے۔ اس مسئلہ پرشوہربیوی کے درمیان جھگڑا ہوا اورانھوں نے بچوں کے ساتھ ملکرخودکشی کرلینے کا فیصلہ کیا۔

بدھ, جون 01, 2022

مضمون نگار، مشتاق احمد قاسمی گنگولی صاحب*ہرنفس کو موت کا مزہ چجھناہے

مضمون نگار، مشتاق احمد قاسمی گنگولی صاحب*ہرنفس کو موت کا مزہ چجھناہے*
دنیامیں جو آیا اسے جاناہے,ہربقا کو فنا ہے سواءے اللہ کے ,"مال کء چاہت نے تمییں غافل کردیا یہانتک کہ تم قبرستان جاپہنچے," )سورہ تکاثر) -- مال کی چاہت ایسی چیز یے کہ حضرت انسان اس میں لگ کر آخرت کو بالکل بھولا دیتا ہے اور یہ چاہت ختم ہونے والی چیز نہیں ,ہاں جسے اللہ بچاءے ,موت ایک اٹل حقیقت ہے جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا,ہم آءے دن اپنے رشتہ دار,پڑوسی,اہل تعلق,اور دیگر اہل ایمان کے جنازوں میں آءے دن شریک ہوتے رہتے ہیں مگر عبرت حاصل نہیں کرتےیعنی آخرت کی تیاری سے غافل ہیں,--# حدیث میں آتاہیکہ کل قیامت کے دن آدمی کے قدم آگے نہیں بڑھ سکتا جبتک پانچ سوالوں کے جواب نہ مل جاءے,عمر کہاں لگایا,مال کہاں سے کمایا,کہاں خرچ کیا,جوانی کہاں بیتائ اور جتنا جانتاتھا کتنا عمل کیا,؟؟ # رسول اللہ علیہ السلام نےایک آدمی کو نصیحت کرتے ہوءے فرمایا" پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت سمجھو,اپنی جوانی کو اپنے بڑھاہے سے پہلے,صحت کو مرض سے پہلے,اپنے مالدار کو اپنی محتاجی سے پہلے,اپنی فراغت کو مصروفیت سے پہلے اور زندگی کو موت سے پہلے "(مشکوۃ/ترمذی)---#فرمایا رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے" دنیا اسکا گھر ہے جسکا کوئ گھر نہیں,اسکا مال ہے جسکا کوءی مال نہیں,اور اس دنیا کے لیے وہی جمع کرتاہے جو عقلمند نہیں"(مشکوۃ/ احمد/بیہقی) # جب فوت ہونے والا فوت ہوتاہے تو فرشتےکہتے ہیں اس نے اعمال میں سے آگے کیا بھیجا؟ اور انسان کہتایے کہ اس نے مال میں سے کیا چھوڑا,
مذکورہ باتیں گزشتہ (30/5/022) سیتامڑھی ضلع کے جعفرپور گاؤں میں ایک دینی پروگرام محمد خلیل صاحب جعفر پور کی اہلیہ کے انتقال کے موقع پر مولانا مشتاق احمد قاسمی گنگولوی نے کہی,
# حدیث میں فرمایاگیاہے کہ مرنے والے کی خوبیوں کو بیان کرو اور براءیوں کو نظ انداز ,یعنی برائیوں کا تذکرہ مت کرو, ---- گنگولوی نے مزید فرمایاکہ دینی پروگرام کے ذریعے ایمان میں تازگی پیدا کیجیے اور آخرت کی فکر و تیاری,
آگے فرمایا آخرت (قبر ) کے سوالوں کا پرچہ آؤٹ ہوچکاہے اسی کے مطابق تیاری کریں,دنیا میں امتحان کا پرچہ آؤٹ ہوتاہے تو اسے سزاءیں ملتی ہے مگر اللہ نے آخرت کا پرچہ حضرت انسان پر رحم کیاکہ آؤٹ کرکے تیاری کرنے کو کہا,

ہم عصر شعری جہات " میرے مطالعہ کی روشنی میں

"ہم عصر شعری جہات " میرے مطالعہ کی روشنی میں 

✍️قمر اعظم صدیقی ، بانی و ایڈمن ایس آر میڈیا ، 9167679924

زیر مطالعہ کتاب " ہم عصر شعری جہات " ڈاکٹر بدر محمدی کی تازہ ترین تصنیف ہے ۔ ڈاکٹر بدر محمدی صاحب ادبی دنیا میں کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں ۔ اس تصنیف کے قبل بھی آپ کی تین تصانیف " بنت فنون کا رشتہ " (مجموعہ غزل) " امعان نظر" (تبصرے) اور "خوشبو کے حوالے" (مجموعہ غزل) بھی منظر عام پر آ کر داد و تحسین کے مرحلے سے گزر چکی ہیں ۔ " ہم عصر شعری جہات" (تنقیدی مضامین )کا مجموعہ ہے جو چوبیس مضامین پر مشتمل ہے ۔ 
بدر محمدی صاحب کی تحریروں کے مطالعہ کے بعد اس بات کا اندازہ بھی بخوبی ہوتا ہے کہ آپ کی فکری صلاحیت ادبی ہونے کے ساتھ ساتھ دینی بھی ہے جس بات کا اندازہ ان کی تحریر "جہت اول" سے ہوتا ہے ۔ 
"تنقید کا تخلیق سے دیرینہ رشتہ ہے ۔ دونوں کے مابین اٹوٹ نسبت روز ازل سے قائم ہے ۔ خالق کائنات نے جب تخلیق آدم کا اعلان کیا تو فرشتوں نے تائید کے بجائے اپنی محدود فکر و فہم کے مطابق تنقید کی ۔ فرشتوں کے ذریعہ شروع کیا گیا یہ سلسلہ انسانوں نے اپنایا اور آج تک اسے برقرار رکھے ہوئے ہیں ۔زندگی کا کوئی لمحہ ایسا نہیں گزرتا جس میں ہم تنقیدی فیصلے نہیں کرتے ہوں ۔ ہر مقام پر ہر بات میں تنقیدی صلاحیت ہماری رہنمائی کرتی ہے ۔ " ہم عصر شعری جہات" (صفحہ 7) 
بدر محمدی کے حوالے سے ڈاکٹر اسلم حنیف لکھتے ہیں : 
 " بدر محمدی امتزاج پسند تخلیق کار بھی ہیں اور ناقد بھی ۔ ان کی زیر بحث تنقیدی کتاب کا عنوان" ہم عصر شعری جہات " اس بات کا مظہر ہے کہ انہوں نے تنقید کے لئے جن شخصیات کا انتخاب کیا ہے وہ ان کے عہد سے تعلق رکھتے ہیں اور ان سب کا تعلق شاعری سے ہے ۔ 
بدر محمدی کی کتاب میں چوبیس شاعر شامل ہیں زیادہ تر شعرا کی غزل گوئی کو موضوع بحث بنایا گیا ہے مگر غزل کے علاوہ حمد نعت رباعی' قطعہ' دوہا اور نثری رشحات ( نظم ) پر توجہ دینے والوں کو نظر انداز نہیں کیا گیا ہے۔ بدر محمدی نے نے جس صنف کے حوالے سے شعر پر گفتگو کی ہے وہ اس کے ادبی مقام کے تعین میں کامیاب نظر آتے ہیں ۔ "
(صفحہ 14)
" ہم عصر شعری جہات" کے حوالے سے مشہور و معروف ادیب جناب حقانی القاسمی نے" نقد شعر اور بدر محمدی" کے عنوان سے بہت ہی جامع تفصیلی اور معلوماتی تحریر رقم کی ہے جس میں تنقید کے حوالے سے بھی گہرائی میں ڈوب کر سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے ۔ اور مصنف کے حوالے سے بھی طویل گفتگو موجود ہے جو کہ گیارہ صفحات پر مشتمل ہے ۔ کتاب کے حوالے سے حقانی القاسمی یوں رقم طراز ہیں : 
" ان کے اس تنقیدی مضامین کے مجموعہ میں بیشتر وہ شعرا شامل ہیں جنہیں بڑے ناقدین کی بہت کم سطریں نصیب ہوتی ہوں گی بلکہ بعض تو وہ ہیں جن سے بڑے ناقدین تو دور کی بات ہے متوسط درجے کے ناقدین بھی واقف نہیں ہیں ۔ اس خصوص میں دیکھا جائے تو بدر محمدی نے بہت سے ذروں کو آفتاب و مہتاب بنانے کی کوشش کی ہے ۔ اور اس میں کوئ شک نہیں کہ یہ شعرا اپنی تخلیقی قوتوں کی بنیاد پر عظمتوں ، شہرتوں کے حقدار بھی ہیں ۔ بدر محمدی نے ان شعرا کی شعری تشکیلات اور تخلیقی تفاعلات سے ایک بڑے طبقہ کو روبرو یا روشناس کرانے کی عمدہ کوششکی ہے ۔‌" ( صفحہ 18 )
ڈاکٹر آفاق عالم صدیقی بدر محمدی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ : 
" بدر محمدی جب تفہیم شعر و ادب کی وادی میں شہسواری کا مظاہرہ کرتے ہیں تو قطعی محسوس نہیں ہوتا ہے کہ کوئ شاعر جو اپنی شاعرانہ افتاد کا مظاہرہ کرتا ہوا اتفاق سے تفہیم شعر و ادب کی وادی میں آگیا ہے ۔ اور نثری جملے تراشتے ہوئے شاعرانہ مکر سے کام لے رہا ہے ۔ یہی وہ خوبی ہے جو ان کے ناقدانہ کردار کو اجالتا ہے اور ہمیں یہ احساس دلاتا ہے کہ بدر محمدی آسان راستوں کا مسافر نہیں ہے ان کی زیر طبع کتاب " ہم عصر شعری جہات " کے دیکھنے سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں ادب کے میدان میں مہم جوئی کا شوق ہے ۔ اور وہ تفہیم شعر و ادب کے لیے کسی بھی طرح کا جوکھم اٹھانے کو تیار ہیں۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو وہ اپنے ہمعصروں کو اپنے مطالعہ کا حصہ نہیں بناتے ۔ " (صفحہ26)

 ڈاکٹر بدر محمدی نے" سعید رحمانی" کے حمد کے مختلف اشعار کی تشریح بہت ہی عمدہ انداز میں کی ہے جس کے چند اشعار اور تشریح ملاحظہ فرمائیں : 

"(وہ دور ہو کے بھی نزدیک تر ہے شہ رگ سے 
 ہمارے قریٔہ جاں میں قیام اس کا ہے )

 ( اس کے زیر نگیں ہیں تمام ارض و سما
     ہر اک مقام پہ جاری نظام اس کا ہے)

 (اس کی یاد کے پرتو سے زندگی روشن
 یہ میرا دل بھی تو گویا مکاں اسی کا ہے ) "

تشریح : کہا جاتا ہے کہ خدا دکھائی نہیں دیتا ہے ۔ خدا کیسے دکھائی نہیں دیتا ہے ۔ جب کوئی دکھائی نہیں دیتا ہے تو خدا ہی دکھائی دیتا ہے ۔ خدا شہ رگ سے بھی نزدیک ہے ۔ وہ قریٔہ جاں میں قیام کرتا ہے ۔ وہ بلند و بالا ہے ۔ بشر کی سونچ سے اس کا مقام اونچا ہے ۔ سعید رحمانی نے خدا کو جاننے اور پہچاننے کا کام کیا ہے ۔ ( صفحہ 35 )
ظفر انصاری ظفر کے تعلق سے بدر محمدی لکھتے ہیں : 
" ظفر انصاری ظفر ایک زمانے سے حسینہ غزل کے گیسو سنوارنے میں مصروف ہیں ۔ انہوں نے خود کو تبعاً اور فطرتاً شاعر ٹھہرایا ہے اور شاعری سے اپنا تعلق دیرینہ بتاتے ہوئے اسے بچپن کا ساتھی کہا ہے ۔ ظفر انصاری کی غزل گوئی سے دلچسپی ہونے اور اچھی غزلیں کہنے کا اعتراف متعدد صاحبان نظر نے کیا ہے ۔ ان کے یہاں موضوعات کی فراوانی ہے مگر سارے خیالات غزل کے لیے موزوں نہیں لہذا انہوں نے دوہا کی طرف رجوع کیا ۔
 ( صفحہ 90 )
عطا عابدی کی" زندگی زندگی اور زندگی" کے عنوان سے ڈاکٹر بدر محمدی نے بہت ہی تفصیل کے ساتھ عطا عابدی کے حالات اور ان کی شاعری خصوصاً نظم نگاری کے حوالے سے عنوان کے ساتھ اس کے پہلو کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے ۔ عطا عابدی کے تعلق سے بدر محمدی لکھتے ہیں : 
" ان میں خود اعتمادی اور جواں عزم و حوصلہ ہے۔ عطا عابدی کا شمار نامساعد حالات میں نکھرنے والے شعرا میں ہے ۔ ان کی حقیقت یہ ہے کہ وہ خوابوں کی طرح ٹوٹے ہوۓ ہیں تاہم ان کی سالمیت برقرار ہے ۔ انہوں نے اپنی زندگی کے صحت مند تجربات کو ہنر مندی سے پیش کیا ہے ان کی شاعری تجربات کی شاعری ہے شخصیت اور زندگی کا منظر نامہ ہے ۔ وہ اپنے جگر میں جہاں کا درد رکھتے ہیں ۔ ( صفحہ 114 )
" حمید ویشالوی بحیثیت استاد شاعر " کے عنوان سے اپنی تحریر میں بدر محمدی لکھتے ہیں کہ : " ویشالی کو کسی زمانہ میں شعر وادب کی ایک زرخیز زمین ہونے کی حیثیت حاصل تھی۔یہاں عبدالطیف اوج کے علا وہ ریاض حسن خاں خیال ، حکیم حادی حسن نایاب ، احسان حسن خاں احسان ، جمیل سلطان پوری ، خیر وسطوی ، حسرت نعمانی اور شیدا وسطوی جیسے شعراء  گلشن شعر و شخن کی آبیاری کر چکے ہیں ۔  اس گلستان سخن کو سرسبز و شاداب کرنے والوں میں اور  بھی نام اہم ہیں مگر ان میں خصوصیت کا حامل جو نام ہے وہ حمید ویشالوی کا ہے ۔ ویشالی میں اگر داغ کے شاگرد کی  سکونت رہی ہے تو حمید ویشالوی جیسے   استاد کا تعلق بھی اس دیار سے رہا ہے ۔ لفظیات و موضوعات دونوں اعتبار سے ندرت اور جدت ان کے کمال ہنر سے عبارت ہے لیکن افسوس کہ انہیں وہ شہرت نہ مل سکی جس کے وہ حقدار تھے ۔ " ( صفحہ 135 )
چھوٹی سی تحریر میں یہ ممکن نہیں ہے کہ تمام تحریروں کا احاطہ کیا جاۓ اس لیے قارئین بقیہ مضامین کے عنوانات ملاحظہ فرمائیں : 
فرحت حسین خوشدل کی دعائیہ نظمیں ، نوید کی نثری نعتوں پر ایک نظر ، طالب القادری کی نعتیہ شاعری ، ناوک حمزہ پوری کی نظمیہ رباعیات ، حافظ کرناٹکی کی قطعات نگاری ، ف س اعجاز کی چند پابند نظمیں ، اندھیرے میں نور کی نظمیں ، ظہیر صدیقی کا شاعرانہ اختصاص ، شگفتہ سہسرامی کی شعری شگفتگی ، صبا نقوی کی شعری جمالیات، ضیا عظیم آبادی کی شاعرانہ ضیاپاشی ، اوج ثریا کے شاعر کا زمینی وابستگی ، علیم الدین علیم کی غزلوں کا رنگ و آہنگ ، ساۓ ببول کے ، اور اظہر نیر ، لفظ لفظ آئینہ اور اسکی تصویر ، تیکھے لہجے کا شاعر : ظفر صدیقی ، اشرف یعقوبی کا شعری آہنگ ، منظور عادل کا سرمایہ سخن ، مینو بخشی کی اردو شاعری ، "کرب نارسائی" کی شاعرہ : شہناز سازی  ان تمام عنوان سے اس کتاب میں مضامین شامل ہیں ۔ 
ہم عصر شعری جہات میں بدر محمدی نے معروف کم معروف اور غیر معروف تمام طرح کے شعرا اور ان کے کلام کے حوالے سے بات کی ہے اور  ان کو قارئین سے رو برو کرا کر ایک بڑا کارنامہ انجام دیا ہے جس کے لیے بدر محمدی صاحب مبارکباد کے مستحق ہیں ۔ ان کی اس کاوش کو ادبی دنیا میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جایے گا اور باقی دوسری کتابوں کی طرح یہ کتاب بھی مقبول ہوگی ۔ 
216 صفحات پر مشتمل یہ کتاب قومی کونسل کے مالی تعاون سے شائع ہوئی ہے جس کی قیمت صرف 138 روپیہ ہے ۔ کتاب کا سر ورق بھی دلکش ہے بیک کاور پر پروفیسر نجم الہدی ، سابق صدر شعبہ اردو بہار یونیورسٹی مظفرپور کے تاثرات قلمبند ہیں ۔ پہلے فلیپ پر بدر محمدی کے " کوائف " موجود ہیں جبکہ دوسرے فلیپ پر شفیع مشہدی ، صدر نشین صابق اردو مشاورتی کمیٹی حکومت بہار کے تاثرات درج ہیں ۔ کتاب کا انتساب ڈاکٹر بدر محمدی نے ان بہی خواہوں کے نام کیا ہے جنہوں نے ان کو تنقید کی طرف راغب کیا ہے ۔ حصول کتاب کے لیے مندرجہ ذیل پتے پر قارئین رجوع کر سکتے ہیں ۔ 
بک امپوریم سبزی باغ پٹنہ 4 ، منظور عادل 28 بی میکلو ڈاسٹریٹ کولکاتا 17، تنظیم ارباب ادب چاند پور فتح ویشالی یا پھر مصنف کے موبائل نمبر  9939311612 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے ۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...