Powered By Blogger

اتوار, جون 26, 2022

انقلاب ضرور آۓ گا

انقلاب ضرور آۓ گا (اردو دنیا نیوز۷۲)
ہندوستان میں حالیہ کچھ سالوں میں اچانک شروع ہوئی مذہبی و طبقاتی منافرت نے اب تک نہ جانے کتنے گھروں کو اُجاڑ دیا ہے اور نہ جانے کتنے معصوموں کو یتیم کر دیا ہے باوجود اس کے خود کو 'دیش بھکت' کہنے والا اکثریتی طبقہ اپنے ذہن اور دلوں پر قفل جڑ کر انسانیت کو زندہ دفن کرنے پرآمادہ رہا، یہاں تک کہ جب بی جے پی زیر حکمرانی ریاستوں میں مسلمانوں کی املاک پر بلڈوزر چلایا جا رہا تھا اس وقت تو اور بھی زیادہ چٹخارے لے کر 'بابا' کا گُن گان کرتے ہوئے ہندوستانیوں کو پاکستان بھیجنے کا نعرہ لگا کر اپنی منافرت کا اظہار کرتا رہا، مسجد-مندر کے نام پر مسلمانوں کو خوب ستایا گیا لیکن اب جب ان کے شخصی مفادات پر آنچ آئی ہے تب ان کے مردہ ضمیر نے انگڑائیاں لی ہیں۔

محمد اسرائیل مکیا ضلع مدھوبنی کی تصویر ہے

محمد اسرائیل مکیا ضلع مدھوبنی کی تصویر ہے - آ ج تقریباً تین بجے مصر اولیاء ،اورائی مظفرپور اپنے ایک رشتہ دار کے گھر سے لوٹتے ہوئے دھرم پور  کے نزدیک تین بدمعاشوں نے بائیک چھیننے کی کوشش کی ، نہ دینے پر گولی مارکر زخمی کردیا - فی الحال مظفر پور میڈیکل اسپتال میں زیر علاج ہے-
دعاء ہیکہ اللہ تعالیٰ خیر کا معاملہ فرمائے اور شفاء کلی عطاء فرمائے ( آمین )
 واضح رہے کہ گزشتہ تین سالوں سے مدرسہ احمدیہ کریمیہ مصراولیا اورائی مظفرپور میں زیر تعلیم تھا، امسال مدرسہ نہیں آ یا تھا، گھر ہی پرتھا، اس کے والد اس دنیاء میں نہیں ہے -
یہ بچہ عظیم مجاہد آزادی حضرت مولانا عبد الرزاق مکیاوی کا پرپوتاہے
حضرت مولانا عبد الرزاق مکیاوی حضرت شیخ الہند کے شاگرد اور حضرت شیخ منظور احمد نقشبندی مصراولیاوی کے خسر تھے-

ترے جنوں کا خدا سلسلہ دراز کرےکامران غنی صبا

ترے جنوں کا خدا سلسلہ دراز کرے
کامران غنی صبا
........... 
حسن امام قاسمی کا مجموعہ کلام’جنوں آشنا‘ میرے سامنے ہے۔ حسن امام قاسمی صاحب سے میرے مراسم بہت پرانے نہیں ہیں لیکن مختصر سی مدت میں ہی انہوں نے اپنی شخصیت کا جو نقش میرے دل پر قائم کیا ہے ، وہ اب تازندگی مٹ نہیں سکتا ہے(ان شاء اللہ)۔ آج کے عہد میں ایسے مخلص، پرعزم، قوم و ملت کا درد رکھنے والے اور سب سے بڑھ کر نام و نمود اور ستائش کی تمنا سے بے نیاز لوگ کہاں ملتے ہیں؟ حسن امام قاسمی کے نام سے ہی ظاہر ہے کہ آپ ’مدرسہ بیک گرائونڈ‘ سے تعلق رکھتے ہیں لیکن مجھے یہ کہنے دیجیے کہ حسن امام صاحب میں ’مدرسہ والوں‘ کی عمومی خصوصیات کا ایک معمولی سا عکس بھی نظر نہیں آتا۔ میں یہاں موضوع سے ہٹ کر دوسری بحث چھیڑنا نہیں چاہتا لیکن حسن امام قاسمی صاحب کی شخصیت کے حوالے سے گفتگو شروع ہوئی ہے تو میں یہ کہنے کا حق رکھتا ہوں کہ مدارس اسلامیہ میں آج بھی حسن امام قاسمی جیسے نوجوان موجود ہیں جن کے یہاں زیورِ علم کے ساتھ ساتھ ’حُسنِ عمل‘ بھی نظرآتا ہے۔ قصور ہماری نظروں کا ہے جو ایسے لعل و گہر کو ڈھونڈ نہیں پاتیں اور مدارس اسلامیہ بدنام ہوتے ہیں کہ یہاں نہ زندگی ہے، نہ معرفت اور نہ نگاہ    ؎
اٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے نمناک
نہ زندگی، نہ محبت، نہ معرفت، نہ نگاہ
(اقبال)
میں خود کو خوش قسمت محسوس کرتا ہوں کہ میرے حلقۂ احباب میں حسن امام قاسمی جیسے مخلص اور بے ریا دوست موجود ہیں۔ حسن امام قاسمی سے میری قربت ہوئی تو میں نے محسوس کیا کہ وہ ایک شرمیلے، کم سخن لیکن پر عزم انسان ہیں۔ ان کی طبیعت میں سوز ہے، عشق ہے۔ وہی عشق جو بندے کو بندگانِ خدا سے بے نیاز کرتا ہے۔ وہی عشق جو بندے کو خدا سے ہم کلام کرتا ہے۔ میں نے محسوس کیا کہ حسن امام قاسمی میں دنیاداری برائے نام بھی نہیں ہے۔ مجھے معلوم ہو اکہ وہ شاعری بھی کرتے ہیں لیکن کس کے لیے کرتے ہیں انہیں خود بھی نہیں معلوم۔میرے اندر بہت حد تک دنیاداری بھی ہے اور میں یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ میں نام و نمود کی تمنا سے بالکل بے نیاز ہوں لیکن اس طرح کے لوگوں سے ملنا، ان سے دوستی کرنا، ان کی خوبیوں کو رشک بھری نگاہوں سے دیکھنا مجھے پسند ہے۔ حسن امام قاسمی صوبۂ بہار کے مشہور ادارہ جامعہ اسلامیہ قرآنیہ سمرا میں ایک عرصے تک استادرہے، گزشتہ سال ان کا تقرر چمپارن کے ہی ایک سرکاری مدرسہ میں ہو گیا ہے ۔ جامعہ اسلامیہ قرآنیہ سمرا، حفظ قرآن کی تعلیم کے لیے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ میری ایک عرصے سے خواہش تھی کہ اس ادارے کو قریب سے دیکھوں۔ حسن امام بھائی سے قربت ہوئی تو اس ادارے کو دیکھنے کا شرف حاصل ہوا۔ اسی بہانے حسن امام قاسمی کو اور بھی قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ میرے دل میں ان کی عقیدت گھر کر گئی۔ میں نے سمرا میں ہی پہلی بار ان کی شاعری بغور سنی۔ سمرا سے واپس ہونے لگا تو حسن امام بھائی مسکراکر اپنے آنسوؤں کو چھپانے کی ناکام کوشش کر رہے تھے۔ وہ منظر میں کبھی نہیں بھول سکتا۔یا خدا! آج بھی ایسی محبت کرنے والے لوگ موجود ہیں؟واپسی میں بس میں بیٹھے بیٹھے کبھی میں حسن امام بھائی کی باوضو آنکھوں میں اور کبھی ان کے اس شعر میں کھو جا رہا تھا   ؎
گدائے عشق ہوں کیا اس کے ماسوا دوں گا
وفورِ شوق سے دیکھوں گا مسکرا دوں گا
میری وابستگی مختلف اخبارات و رسائل سے ہے۔ اس حوالے سے اکثر احباب اپنے مضامین اور تخلیقات بغرض اشاعت ارسال کرتے رہتے ہیں۔ کچھ تو بے تکلفی کی ساری حدیں پار کر جاتے ہیںاور اشاعت تک پیچھا ہی نہیں چھوڑتے۔ کچھ دوست ایسے بھی ہیں جو خود سے کبھی نہیں بھیجتے، ان سے مانگنا پڑتا ہے۔ ایسے دوستوں کو میں ذہن میں رکھتا ہوں اور جب زیادہ عرصہ گزر جاتا ہے تو ان سے رابطہ کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ کسی کی نیت پر شک کرنا اچھی بات نہیں لیکن مجھے معلوم ہے کہ کچھ لوگ تو صرف اس وجہ سے دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہیں کہ چھپنے چھپانے میں آسانی ہو۔ حسن امام بھائی کو اس معاملہ میں بھی میں نے بہت مختلف پایا۔ اول تو از خود وہ اپنی کوئی چیز اشاعت کے لیے بھیجتے نہیں۔ میں ان سے زبردستی مانگتا ہوں توبس حقِ دوستی ادا کرنے کے لیے یا میری خواہش کے احترام میں وہ کچھ بھیج دیتے ہیں۔ ان کی اسی ادا نے مجھے ان کا گرویدہ بنایا ہوا ہے۔
کچھ ماہ قبل میں نے حسن امام بھائی سے اپنی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اب آپ کا شعری مجموعہ منظر عام پر آجانا چاہیے۔ خدا کا شکر ہے کہ وہ تیارتو ہو گئے لیکن بار بار یہ بھی کہتے رہے کہ طبیعت پوری طرح آمادہ نہیں ہو پارہی ہے۔ میں ان کے مزاج سے اچھی طرح واقف ہوں۔مجھے ایسا محسوس ہوا کہ اگر ان کا مجموعہ کلام منظر عام پر آ جائے گا تو ان کی شاعری کا ایک کھلا ہوا روپ ناقدین فن کے سامنے ہوگا۔ ان کی شاعری پر کھل کر گفتگو کی جا سکے گی۔’’جنوں آشنا‘ کی صورت میں حسن امام قاسمی صاحب کی شعری کائنات آپ کے سامنے ہے۔ اگر آپ اسے ان کی ابتدائی کاوش کے طور پر دیکھیں گے تو آپ کو ان کے یہاں امکانات کی ایک وسیع دنیا نظر آئے گی۔ مجھے نہیں معلوم کہ حسن امام بھائی نے اپنے اولین شعری مجموعہ کا نام ’’جنوں آشنا‘‘ کیوں رکھا ہے لیکن ان کے مزاج کو ذہن میں رکھتے ہوئے مجھے روش صدیقی کا یہ شعر ضرور یاد آرہا ہے :
جو راہ اہلِ خرد کے لیے ہے لا محدود
جنونِ عشق میں وہ چند گام ہوتی ہے
منزلِ عشق کا راہی راہ کی صعوبتوں سے کبھی گھبراتا نہیں بلکہ مصائب و آلام اس کے عزم و حوصلے کو نئی امنگ عطا کرتے ہیں   ؎
ان آبلوں سے پائوں کے گھبرا گیا تھا میں
جی خوش ہوا ہے راہ کو پر خار دیکھ کر
(غالبؔ)
حسن امام قاسمی صاحب کی شاعری میں یہی جنون ہمیں مختلف کیفیتوں میں نظرآتا ہے۔ یہ ’جنونِ عشق‘ نہیں تو اور کیا ہے کہ اپنی انا کو ٹھوکر مار کر شاعر دشمن کی آواز پر صرف انسانیت کے ناطے دوڑا چلا جا رہا ہے   ؎
تقاضا تھا یہی انسانیت کا ایسی ساعت میں
جو دشمن بھی ہمیں آواز دیتا دوڑ کر جاتے
یہی جنونِ عشق جب اہلِ دل کی محفلوں میں داخل ہوتا ہے تو رموز کائنات منکشف ہوتے ہیں۔ جو معرفت بے شمار کتابوں کے مطالعہ سے حاصل نہ ہو وہ اہلِ دل یعنی اہلِ جنوں کی صعوبتوں سے حاصل ہو جاتی ہے   ؎
منکشف ہوں گے کبھی تم پر بھی رمزِ کائنات
اہلِ دل کی محفلوں میں دو گھڑی بیٹھا کرو
یہی ’جنوں‘ لہجے کو شائستگی عطا کرتاہے۔جنوں یعنی خدا تک رسائی کا جنوں۔ اس جنوں کے نتیجے میں نفس کشی، عفو درگز، ذاتی مفادات سے بے نیازی، جھوٹی انا سے گریز، بند گان خدا کی دلآزاری سے گریز جیسی صفتیں پیدا ہوتی ہیں۔ ان صفات سے متصف شخص اشاروں کی زبان سے بھی کسی کے دل کو ٹھیس نہیں پہنچا سکتا۔ اس شعر کے بین السطور تک پہنچ کر شاعر کے لطیف حس کی داد دیجیے   ؎
پسِ الفاظ جو بغض و عداوت سے مزین ہو
ہماری بزم میں وہ گفتگو کب معتبر ہوگی
یہی ’جنوں‘ کبھی آئینہ بن کر حقیقت کو تصویر بنا کر پیش کرتا ہے اور شاعر اپنے گرد وپیش کے سچ کو اپنے حوالے سے پیش کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ پس الفاظ بغض و عداوت اس کی سرشت میں داخل نہیں۔ اس لیے متکلم بن کر وہ سچائی کا برملا اظہار کرنے سے بھی نہیں چوکتا   ؎
ہے ایک زہر یہ پندارِ پارسائی بھی
اسے میں اپنی شرائین سے بہا دوں گا
یہی ’جنوں‘ شاعر کے اعتماد کو کمزور ہونے سے بچاتا ہے۔ وہ نامساعد حالات سے گھبراتا نہیں۔ کشتی شکستہ حال سہی، اسے دریا پار کرنے کی ضد ہے  ؎
مری پتوار ٹوٹی ہے، شکستہ حال کشتی بھی
حسن پھر بھی مجھے ضد ہے کہ دریا پار کرنا ہے
ذاتِ باری پر کامل ایمان شاعر کے ’جنون‘ کو مستحکم کرتا ہے۔ وقت کی تیرگی اس کے اٹھے ہوئے قدم کو روک نہیں سکتی۔ کیوں کہ نورِ خدا اس کا پیشوا ہے۔ یہی نورِ خدا اس کے جنوں کی پیشوائی کرتا ہے  ؎
کیا تیرگی ڈرائے گی مجھ کو حسن امام
رکھوں اگر جو پیشوا نورِ خدا کو میں
’جنوں آشنا‘ کی صورت میں حسن امام قاسمی کا’جنوں‘ آپ کے سامنے ہے۔ میں زیادہ مثالیں پیش کر کے اپنے مضمون کو بوجھل کرنا نہیں چاہتا۔ دعا ہے کہ حسن امام قاسمی صاحب کی ’جنوں آشنائی‘ کا سلسلہ دراز رہے۔ مجموعہ کی اشاعت پر صمیم قلب سے انہیں مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
.............

بُلڈوزر کلچر -آمریت کی بد ترین شکل ___

بُلڈوزر کلچر -آمریت کی بد ترین شکل ___
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ، پھلواری شریف پٹنہ
ہندوستان میں عدلیہ کا مضبوط نظام ضلعی سطح سے اوپر تک قائم ہے ، ملزموں کے داروگیر اور مجرموں کو سزا دینے دلانے کا  طریقہ کار دستور میں مذکور ہے، جب تک اس کی پاسداری کی گئی ، لوگوں کو انصاف ملتا رہا اور بہت سارے موقوں ںسے عدلیہ کے فیصلے پر تنقید کے باوجود آج بھی اس پر عام لوگوں کا اعتبار واعتماد قائم ہے ، عدالت ظلم کو دور کرنے اور مظلوم کو انصاف دینے کا مضبوط ذیعہ ہے ، دستور میں اسے یہ بھی اختیار دیا گیا ہے کہ اگر ظلم ہواور عوام کے دستوری حقوق پامال کیے جا رہے ہوں تو وہ اس کی ان دیکھی نہیں کر سکتی ، وہ بغیر کسی مدعی کے اپنی طور پر بھی مظلوم کو انصاف دلانے کے لیے متعلقہ شخص اور حکومت کو عدالت میں طلب کر سکتی ہے ، اور اس کی وضاحت سے مطمئن نہ ہو تو دستور کے مطابق سزا بھی دے سکتی ہے ۔
 ہندوستان ایک لمبی مدت تک برطانیہ کی نوآبادی رہا ہے، انگریزوں کے ذریعہ جو ظلم ڈھائے گئے ، اس کی صداقت سے انکار نہیں کیاجا سکتا ، لیکن ان کے یہاں بھی عدالتوں میں پیشی ہوتی تھی، گواہی اور بیانات گذرتے تھے، پھر فیصلہ ہوتا تھا کہ اس کو کا لا پانی بھیج دیا جائے، پھانسی دیدی جائے یا محصور کر دیا جائے، ہندوستان کی آزادی کی پوری تاریخ اس قسم کے واقعات سے بھری پڑی ہے ، پھر جن کو وہ سزا دیتے تھے ان کے گھر اور املاک کو تباہ کرنے کا عام رجحان نہیں تھا، اگر ایسا ہوتا تو گاندھی نہرو، بھگت سنگھ وغیرہ کے مکانوں کو منہدم کر دیا جاتا، حالاں کہ ایسا کبھی نہیں ہوا۔
 لیکن آزاد ہندوستان میں وہ ہو رہا ہے، جو انگریزوں نے بھی نہیں کیا، اب ہندوستان میں بلڈوزر کلچر نے رواج پا لیا ہے ، نہ مقدمہ نہ سماعت، نہ گواہیاں اور نہ ہی بیانات، جس کے گھر پر پایا بلڈوزر دوڑا دیا ، جمعہ کو نوٹس دیا اور سنیچر کو گھر منہدم ، کوئی سنوائی کا موقع نہیں، اس لیے کہ سنیچر اتوار کو عدالت بند رہتی ہے ، اس کلچر کو رواج اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ آدتیہ ناتھ یوگی نے دیا، دھیرے دھیرے یہ پورے ہندوستان میں پھیلتا جا رہا ہے ، جو آدمی حکومت کے خلاف ہے اس کا مکان تجاوزات کے دائرہ میں آجاتا ہے، اور اس کا ہی نہیں اس کی بیوی کا مکان بھی توڑ دیا جاتا ہے ، الٰہ آباد میں جاوید پمپ کے جس مکان کو زمین بوس کیا گیا ، وہ جا وید کا نہیں، جاوید کی بیوی کا تھا، اس کا پانی اور بجلی بل بھی اس کے نام تھا، پھر بھی اس کو توڑ دیا گیا، کیا جواز تھا اس کا؟ اب اس کی بیوی اور بیٹی سب گھر کی چھت سے محروم ہو گیے ، سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی گئی ، سماعت کے لیے قبول بھی ہو گئی ، لیکن انہدام کے بعد عدالت کیا کر سکتی ہے ، بہت کرے گی تو کہے گی کہ یہ غیر قانونی عمل تھا اور سرکار معاوضہ ادا کرے، معاوضہ کا تخمینہ بھی حقیقی نہیں ہوتا، اور پھر پورا معاوضہ مل بھی جائے تو مکان بنانا کوئی آسان کام ہے، ایک تعمیری منصوبہ کو زمین پر اتارنے میں برسوں لگ جاتے ہیں، ذہنی کوفت اور پریشانی الگ ۔ 
 اس سے بھی بڑا لمیہ یہ ہے کہ جو اصل مجرم ہے اس کو گرفت میں نہیں لایا جا رہا ، گرفتار وہ ہو رہا ہے جس نے نو پور شرما اور جندال کے خلاف آواز اٹھائی، پولیس کی گولی کا شکار وہ ہو رہے ہیں، جو اپنے دستوری حق کا استعمال احتجاج اور مظاہرے کی شکل میں کر رہے ہیں، یہ حق کی آواز دبانے کی مذموم کوشش ہے ، ایسا جمہوریت میں نہیں آمریت میں ہوتا ہے کہ حاکم کے زبان سے نکلنے والے الفاظ ہی قانون ہوا کرتے ہیں، ہندوستان میں یہی کچھ ہو رہا ہے ، یہ آمریت کی بد ترین شکل ہے، اور دنیا منتخب حکومت کے ذریعہ سارے قاعدے قانون بالا ئے طاق رکھ کر آمریت کے وہ نمونے دیکھ رہی ہے جو ہٹلر اور مسولینی کے دور میں دیکھنے کو ملتے تھے۔
 ہندوستان کو آمریت کے اس نئے حملے سے نکالنے کے لیے تمام محبان وطن کو سامنے آنا ہوگا، یہ راستہ کانٹوں بھرا ہے ، اقتدار میں وہ لوگ ہیں جو ہندوستان کی ساری تہذیبی ، ثقافتی اور تاریخی روایتوں کو کچلنے کے درپے ہیں، ان کے پشت پر آر ایس ایس کی طاقت ہے، اور وہ اس طاقت کے بل پر جو من میں آئے کر گذرنے کو تیار ہیں، ہمارے وزیر اعظم نے اس سارے واقعات وحادثات پر ’’چُب مائی کا روزہ‘‘ رکھ رکھا ہے، ان کی زبان ان مسائل ومعاملات پر نہیں کھلتی اور ان کی خاموشی سے سب کو لگتا ہے کہ ان کی مرضی بھی ان امور میں شامل ہے، آمریت پسند لوگ ان کی منشا سمجھ کر اور آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں اور سیکولر طبقہ کواس صورت حال سے سخت مایوسی کا سامنا ہے، جب کہ اس ملک کو ایک اور آزادی کی ضرورت ہے اور وہ ہے نفرت بھرے ماحول سے ، آمرانہ کردار سے ، بد عنوانی اور ظلم سے، اس کے بغیر یہ ملک ماضی کی روایت کو باقی نہیں رکھ سکتا۔

مسجد نبویﷺ کے سابق امام الشیخ محمود خلیل القاری انتقال کرگئے

مسجد نبویﷺ کے سابق امام الشیخ محمود خلیل القاری انتقال کرگئے 

ریاض:کل ہفتے کے روز مسجد نبوی کے سابق امام اور خطیب اور مسجد قبلتین کے سابق امام الشیخ محمود خلیل القاری طویل علالت کے بعد انتقال کرگئے۔ الشیخ محمود خلیل کو چند روز قبل تکلیف کے بعد سعودی عرب کے ایک اسپتال کے انتہائی نگہداشت وارڈ میں داخل کیا گیا تھا جہاں وہ کل ہفتےکی شام خالق حقیقی سے جا ملے۔

وزیر مذہبی امور کا اظہار افسوس مسجد نبوی ﷺ کے سابق امام الشیخ محمود القاری کی وفات پرسعودی عرب کے وزیر برائے مذہبی امور ڈاکٹر عبداللطیف آل الشیخ نے تعزیت کا اظہار کیا۔ انہوں نے "ٹویٹر" پر اپنے اکاؤنٹ کے ذریعے کہا کہ "ہمیں انتہائی افسوسناک خبر ملی کہ ممتاز عالم دین الشیخ محمود القاری انتقال کرگئے ہیں۔ مرحوم نے پوری زندگی مسجد نبوی اور مسجد قبلتین میں امامت اور خطابت میں بسر کی۔ وزیر مذہبی امور نے مرحوم کی مغفرت، درجات کی بلندی اور ان کے لواحقین کے لیے صبر جمیل کی دعا کی۔

قابل ذکر ہے کہ محمود خلیل القاری مسجد نبوی کے امام اور مدینہ کی مسجد قبلتین کے امام رہے ہیں۔ وہ مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔

الشیخ ابو ابراہیم کنیت اختیار کی اور دس سال کی عمر قرآن کریم حفظ کرلیا۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے والد قاری خلیل القاری سے قرآن پاک کی سند حاصل کی۔ مدینہ میں تحفیظ القرآن پرائیویٹ اسکولوں میں ابتدائی، مڈل اور ثانوی تعلیم حاصل کی۔ انہوں نےفیکلٹی آف ہولی قرآن اینڈ اسلامک اسٹڈیز میں بیچلر کی تعلیم مکمل کی اور مسجد نبوی میں امامت کی ذمہ داریوں سے وابستہ ہوگئے۔

یوپی:یوگی کے ہیلی کاپٹر سے ٹکرایا پرندہ، ایمرجنسی لینڈنگ

یوپی:یوگی کے ہیلی کاپٹر سے ٹکرایا پرندہ، ایمرجنسی لینڈنگ

وارانسی۔ اتر پردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کے ہیلی کاپٹر سے پرندے کے ٹکرانے کا واقعہ اتوار کو سامنے آیا ہے۔

اس کے بعد وارانسی کی پولیس لائن میں سی ایم یوگی کے ہیلی کاپٹر کی ایمرجنسی لینڈنگ کی گئی ہے۔

ان کے ہیلی کاپٹر نے پولیس لائن سے سلطان پور کے لیے ٹیک آف کیا تھا لیکن پرندے سے ٹکرانے کے بعد پولیس لائن میں ہی اس کی ہنگامی لینڈنگ کی گئی۔

ہیلی کاپٹر کا تکنیکی ٹیسٹ کیا جا رہا ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ سرکاری طیارہ لکھنؤ سے وارانسی کے لیے روانہ ہوا ہے۔

اب سی ایم یوگی سرکاری جہاز سے جائیں گے۔ سی ایم یوگی کے ہیلی کاپٹر کے بحفاظت اترنے کے بعد سبھی نے راحت کی سانس لی۔ وزیر اعلیٰ بابت پور ہوائی اڈے سے لکھنؤ کے لیے روانہ ہو گئے ہیں۔

ایمرجنسی لینڈنگ کے بعد سی ایم یوگی کار سے سرکٹ ہاؤس پہنچ گئے ہیں۔ واقعہ کے منظر عام پر آنے کے بعد ضلعی انتظامیہ میں کھلبلی مچ گئی۔

ہفتہ, جون 25, 2022

مدھوبنی : 25 جون 022 کوضلع کے بینی پٹی لیلادھرہاءی اسکول کے ٹیچر ماسٹر محمد ہارون صاحب ( باشندہ گنگولی گاؤں )

مدھوبنی : 25 جون 022 کوضلع کے بینی پٹی لیلادھرہاءی اسکول کے ٹیچر ماسٹر محمد ہارون صاحب ( باشندہ گنگولی گاؤں ) بینی پٹی انومنڈل سطح پر مادھمک شکچھک سنگھ کے سکریٹری عہدہ پر کامیابی حاصل کیا, واضح ہوکہ سنگھ کی بیٹھک میں 6 امیدواروں میں موصوف واحد مسلم چہرہ تھا,
اس عہدے پر براجمان ہونے پر دوست و احباب اور متعلقین میں خوشی کا ماحول ہے نیز ڈھیرساری دعاءیں بٹور رہے ہیں,ساتھ ہی اساتذہ کے ہر طرح کے مساءل کو جمہوری طریقہ پر حل کرنے و کرانے کی جدوجہد کرتے رہیں گے,یہ کہناہے ماسٹر محمد ہارون صاحب کا- یاد ریے کہ موصوف کی ایلیہ محترمہ بھی ہاءی اسکول کی ٹیچر ہیں, (م- احمد گنگولوی)

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...