Powered By Blogger

اتوار, جولائی 03, 2022

مہتمم اور مدارس کے ذمہ دران متوجہ۔*

*مہتمم اور مدارس کے ذمہ دران متوجہ۔* 
 *مہتمم صاحب یہ ظلم ہے* 
 *مدارس کے مہتمم کے نام* 
(اردو دنیا نیوز۷۲)
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ كُلُّكُمْ رَاعٍ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ فَالْإِمَامُ رَاعٍ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ وَالرَّجُلُ فِي أَهْلِهِ رَاعٍ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ وَالْمَرْأَةُ فِي بَيْتِ زَوْجِهَا رَاعِيَةٌ وَهِيَ مَسْئُولَةٌ عَنْ رَعِيَّتِهَا وَالْخَادِمُ فِي مَالِ سَيِّدِهِ رَاعٍ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ))
آج جس حالات سے ہم سب دو چار ہیں خصوصا مدارس کے حالات اس وقت کسی اچھے عالم دین کسی اچھے حافظ یا قاری کو مدرسہ میں لا لینا مہتمم کے لئے شرف کا باعث ہوتا ہے۔ ناظم اور منتظمین مدرسہ مہتمم صاحب کو واہ واہ کہتے نہیں تھکتے ہیں ۔ آج کے دور میں ایک بہت بڑا سوال ہمارے سامنے ابھر کر آتا ہے کہ *ایک بہترین حافظ و قاری بہترین عالم دین مدارس سے دور کیوں ہیں* ؟
آخر کوئی وجہ تو ضرور ہوگی جس کی وجہ سے بہترین عالم مدارس میں جانے سے کتراتے ہیں۔ جی وجہ ہے ورنہ یوں ہی کوئی  بے وفائی نہیں کرتا۔
مدارس کے مہتمم حضرات کو اس بات پہ غور کرنا چاہئے ۔ چلیے میں مہتمم حضرات اور دیگر منتظمین مدارس کے کچھ حرکتوں کی طرف مختصر روشنی ڈال دوں تاکہ یہ صاحب پتہ لگا سکے کہ اصل غلطی کہاں سے سرزد ہو رہی ہے۔ سب سے پہلے دیکھتے ہیں کہ مہتمم صاحب مدارس میں پڑھانے کے لئے کسی استاذ سے بات کیسے کرتے ہیں ان کا طریقئہ گفتگو کیا ہوتا ہے؟ تو بات یوں شروع کرتے ہیں مولانا صاحب غریب مدرسہ ہے اس لئے ہمیں بہت ہی محنتی استاد کی ضرورت ہے۔ *ایسے استاد کی ضرورت ہے جو اردو انگریزی ہندی اور فارسی بھی جانتا ہو۔ ساتھ ہی رمضان و بیساکھ کا چندہ بھی کر لیتا ہو* استاد ان سب باتوں میں ہاں بھر دیتا ہے پھر اس جیسی بہت ساری باتیں ہونے کے بعد یہ پہلا سیشن ختم ہوتا ہے۔
دوسرا سیشن یہاں سے شروع ہوتا ہے۔ مولانا صاحب کہتے ہیں اچھا محترم ذرا یہ تو بتا دیجیے کہ میری ماہانہ تنخواہ کیا ہوگی؟ اس وقت *مہتمم حضرات جو جواب دیتے ہیں وہ سننے کے لائق ہے۔ پہلے تو ایک لمبی چوڑی تقریر کرتے ہیں رزق کا مالک تو ﷲ ہے ﷲ سب کو رزق دیتا ہے  ساری اخلاص صرف اور صرف استاذ پر تھوپتاہےوغیرہ۔* پھر کہتے ہیں کہ اجی تنخواہ کا کیا معاملہ وہ تو آپ کے لئے ٹھیک ٹھاک متعین کر دینگے۔معقول تنخواہ رہےگی  بے چارہ مولوی صاحب دبے ہوئے الفاظ میں کہتا ہے کہ محترم آپ واضح طور پہ بتا ہی دیجیے نا کہ میری تنخواہ کتنی ہوگی۔ تب مہتمم صاحب ایک ٹھنڈی سانس لیتے ہیں اور کہتے ہیں دیکھو یہ غریب مدرسہ ہے اس لئے ابھی 5000 روپیے سے شروع کرتے ہیں۔ایک چند مہینہ میں اضافہ کردیا جائے گا *۔(جب اضافہ کا وقت ہوتا ہے تو مدرس کی مدرسہ سے چھٹی کردیا جاتاہے اور ہر سال نئے مدرس کی بحالی کرتے ہیں )* اور ہاں سال میں ایک مرتبہ حساب ہوگا۔ آپ تو رمضان میں چندہ کرنے جائیں گے ہی جو رقم لائینگے اسی میں سے آپ کو تنخواہ دے دی جائے گی۔ ظلم کی بھی ایک انتہا ہوتی ہے لیکن یہاں تو معاملہ ہی کچھ اور ہے۔ ایک تو پانچ ہزار روپے کی تنخواہ وہ بھی مہینہ میں نہیں اس پہ بھی ایک سال کی قید کہ حساب عید میں ہوگا۔ وہ بھی اسی پیسہ میں جو آپ خود چندہ کرکے لائینگے۔ یہ ظلم نہیں تو اور کیا ہے؟
کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ یہ سب شرطیں لگانے والے کون ہیں وہ خود کیا کرتے ہیں؟ اگر آپ نے غور کیا ہوگا تو آپ کو معلوم ہوگا کہ یہ وہی ہیں جو اپنا حساب روزانہ کرتے ہیں۔ بلکہ بلا مبالغہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہر گھنٹے کرتے ہیں۔ یہ وہی مہتمم حضرات ہیں جو دس دس بارہ بارہ لاکھ روپیے کی گاڑی میں گھومتے ہیں،۔زمین خریدتے ہیں فیملی کے ساتھ رہتے ہیں اور کرایہ مدرسہ سے لیتے ہیں، اور اس پر بھی انصاف تو دیکھیے کہ یہ سالانہ رپورٹیں کس انداز سے پیش کرتے ہیں۔ ناظم یا صدر صاحب کو مخاطب کرتے ہیں کہ آپ کو تو معلوم ہے میرا گھر یہاں سے 15 کیلو میٹر دور ہے آنے جانے میں مہینہ کا 7000 ہزار روپیے کا گاڑی میں تیل ڈالنا پڑتا ہے۔ مدرسہ کا پانی اچھا نہیں ہے مہینہ میں 2000 روپیہ پانی والے کو دینا ہوتا ہے۔ موبائل کا بھی مسئلہ ہے کبھی آپ کو فون کرتا ہوں کبھی دوسرے اساتذہ سے بات کرتا ہوں مہینہ کا 5000 ہزار روپیے کا بل تو آہی جاتا ہے۔ مہتمم صاحب کے اس بھاشن سے آپ کو لگتا ہوگا کہ شاید مہتمم صاحب تنخواہ نہیں لیتے ہونگے۔ جی نہیں صاحب ان کے مہینہ کی تنخواہ بھی طے ہے جو 20000 ہزار روپیے ہے اور تو اور ان کا حساب سال میں نہیں تو مہینہ میں جی نہیں صاحب ہفتہ میں ہوا کرتا ہے۔ چونکہ ان کے بال بچے بھی ہیں گھر کی بہت ساری ضرورتیں ہیں تو ہفتہ میں حساب تو دینا ہی ہوگا۔ گاڑی میں تیل بھی ڈالنا ہوتا ہے Petrol puMp والا تو ادھار دےگا نہیں۔ آپ کہیں گے کہ کیا وہ اساتذہ جو دن رات بچوں کی تربیت پر محنت کرتے ہیں جن کی Salery پانچ ہزار روپیہ ہے کیا انکے بال بچے ,ماں باپ ,بھائ بہن, نہیں ہیں؟ کیا ان کو گھر کی ضرورتیں پیش نہیں آتیں؟ کیا انکی کچھ آرزو اور تمنائیں نہیں ہیں؟ میرے خیال سے ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ لیکن پتہ نہیں مہتمم حضرات کا اس بارے میں کیا خیال ہے؟ شاید ان کا خیال یہ ہو کہ رزق تو ﷲ دیتا ہے اور مجھے بھی اس بات سے کوئی اختلاف نہیں ہے۔ لیکن یہ بات کرنے والے وہ حضرات ہیں جن کو اپنے رزق کمانے کی فکر ہمیشہ لگی رہتی ہے۔ یہ وہی مہتمم ہیں جن کو اپنے رزق کی توقع ﷲ رب العزت سے نہیں لیکن دوسروں کے رزق کی توقع ضرور ہے۔
مہتمم صاحب میں آپ سے بس اتنا کہنا چاہوں گا کہ اگر ﷲ تعالی نے آپ کو ذمہ دار بنایا ہے تو یقینا وہ سخت حساب بھی لے گا۔ ذرا سوچیے آپ ﷲ کے حضور کیا جواب دیں گے؟ ایسا ہرگز نہیں ہے کہ جو اساتذہ آپ کے یہاں پڑھاتے ہیں ان کو مدرسہ سے محبت نہیں ہے اور آپ نے اپنا گھر بار چھوڑ کر اپنے آپ کو مدرسہ کے لئے وقف کر دیا ہو۔ بلکہ سب برابر محنت کرتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ آپ پر کچھ ذمہ داریاں ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ آپ اس طرح کا طریقہ کار اختیار کریں۔
بعض دفعہ تو ایسا دیکھنے کو ملا ہے کہ مولانا صاحب تمام انٹرویو میں پاس ہوجاتے ہیں لیکن جب بات تنخواہ کی آتی ہے تو مولانا کہتے ہیں کہ مجھے 8000 روپیہ چاہیئے مہتمم صاحب مانتے نہیں ہیں کہ کیسے 8000 دے دیں آخر کار معاملہ ناظم یاصدر صاحب کہ عدالت میں پہونچتا ہے۔ پھر وہاں مہتمم صاحب ناظم صاحب آپس میں مشورہ کرتے ہیں۔ آخرکار فیصلہ یہی ہوتا ہے کہ مولانا صاحب سے کہ دیا جائے دوسرا مدرسہ دیکھ لیں۔ 3000 ہزار روپیہ کی وجہ سے ایک بہترین عالم دین کو نہ رکھنے والے یہ دونوں حضرات وہ ہیں جن کے خود کی تنخواہ 25000 اور 30000 ہزار کے قریب ہے
اب اخیر میں مہتمم حضرات کان کھول کر سن لیں ان تمام چیزوں کے ذمہ دار آپ ہیں۔ خدا کے سامنے ان سب کاموں کا حساب آپ کو ضرور دینا پڑے گا۔۔۔ یاد رکھیں ان بطش ربک لشدید۔
  میں یہ نہیں کہتا کہ تمام مہتمم حضرات ایسے ہی ہیں لیکن ہاں اکثریت ان ہی مہتمم حضرات کی ہے
 *یہ بات بھی واضح رہے کہ میرا اس مضمون کو لکھنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ مہتمم حضرات کی برائی بیان کروں* بلکہ امت مسلمہ ہونے کے ناتے یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ظلم کے خلاف آواز اٹھاؤں۔ اگر اس مضمون کو پڑھ کے ایک مہتمم بھی اپنا احتساب کرنا شروع کر دے تو میرا مضمون لکھنے کا مقصد پورا ہو جائے گا
                          فقط والسلام۔

الحمدللہ آج بتاریخ/ ۳/جولائی بروز اتوار بوقت /۱۰ بجے دن کٹمب ایپ کے ممبران کے درمیان پہلی بارایک مٹینگ رکھی گئی

الحمدللہ آج بتاریخ/ ۳/جولائی بروز اتوار بوقت /۱۰ بجے دن کٹمب ایپ کے ممبران کے درمیان پہلی بارایک مٹینگ رکھی گئی
(اردو دنیا نیوز۷۲)
تحفظ شریعت ویلفیئر سوسائٹی جوکی ہات ارریہ
جوبیحدکارگرثابت ہوئی جس میں مہمان خصوصی کے طورپر حضرت مولانامجاہدالاسلام صاحب قاسمی بھاگلپوری اور قاری محبوب رحمانی صاحب وقاری عظمت اللہ صاحب منصوری وقاری توصیف صاحب وقاری شاداب صاحب دہلوی وشاعراسلام قاری ابراردانش صاحب ومولانا عبداللہ سالم قمرقاسمی چترویدی صاحب وتحفظ کے کارگرسکریٹری جناب مولاناعبدالوارث صاحب مظاہری پروگرام کوکامیاب بنانےمیں پیش پیش رہے   .ناچیزفیاض احمدراھی کی بھی شرکت مستقل رہی اللہ آنے والے دوسری مٹینگ کوکامیاب کرےآمین یارب العالمین.

ادے پور میں چھٹے دن کرفیو میں دس گھنٹے کی نرمی


ادے پور میں چھٹے دن کرفیو میں دس گھنٹے کی نرمی
(اردو دنیا نیوز۷۲)
ادے پور: راجستھان کے ادے پور شہر میں کنہیا لال قتل کیس کے بعد پیدا ہوئی کشیدگی کے بعد آج چھٹے دن مختلف تھانہ علاقوں میں نافذ کرفیو میں دس گھنٹے کی نرمی کی گئی۔ شہر کے دھان منڈی، گھنٹہ گھر، ہاتھی پول، امباماتا، سورج پول، ساوینا، بھوپال پورہ، گووردھن ولاس، ہیرن مگری اور پرتاپ نگر میں آج صبح 8 بجے سے شام 6 بجے تک کرفیو میں نرمی کی گئی۔
اس دوران لوگوں کو ان علاقوں میں کھلی دکانوں پر اپنی ضرورت کے سامان کی خریداری کرتے دیکھا گیا۔ ڈھیل کے دوران بازار کھلنے کی وجہ سے کافی چہل پہل نظر آئی۔

واضح رہے کہ 28 جون کو ادے پور شہر کے دھان منڈی تھانہ علاقے میں کنہیا لال کے تیز دھار ہتھیاروں سے قتل کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کے پیش نظر شہر کے ان تھانہ علاقوں میں اس دن رات آٹھ بجے سے لے کر اگلے دن تک کرفیو نافذ کر دیا گیا تھا۔

ہفتہ, جولائی 02, 2022

واٹس ایپ اور فون کالز کے نئے مواصلاتی اصول کل سے لاگو ہوں گے:-*

*واٹس ایپ اور فون کالز کے نئے مواصلاتی اصول کل سے لاگو ہوں گے:-*
(اردو دنیا نیوز۷۲)
  01. تمام کالیں ریکارڈ کی جائیں گی۔
  02. تمام کال ریکارڈنگ محفوظ ہو جائیں گی۔
  03. واٹس ایپ، فیس بک، ٹویٹر اور تمام سوشل میڈیا کی نگرانی کی جائے گی۔
  04. جو نہیں جانتے ان کو بتائیں۔
  05. آپ کے آلات منسٹری سسٹم سے منسلک ہوں گے۔
  06. محتاط رہیں کہ کسی کو غلط پیغام نہ بھیجیں۔
  07. اپنے بچوں، بھائیوں، رشتہ داروں، دوستوں، جاننے والوں کو بتائیں کہ آپ ان کا خیال رکھیں اور سوشل سائٹیں شاذ و نادر ہی چلائیں۔
  08. سیاست یا موجودہ حالات پر حکومت یا وزیر اعظم کے سامنے اپنی کوئی پوسٹ یا ویڈیو نہ بھیجیں۔
  09. فی الحال کسی سیاسی یا مذہبی موضوع پر پیغام لکھنا یا بھیجنا جرم ہے... ایسا کرنے سے بغیر وارنٹ گرفتاری ہو سکتی ہے۔
  10. پولیس نوٹیفکیشن جاری کرے گی... پھر سائبر کرائم... پھر کارروائی ہوگی، یہ بہت سنگین ہے۔
  1  آپ سب، گروپ ممبرز، ایڈمنسٹریٹر،... برائے مہربانی اس معاملے پر غور کریں۔
  12. محتاط رہیں کہ غلط پیغام نہ بھیجیں اور سب کو بتائیں اور موضوع پر توجہ دیں۔
  13. براہ کرم اسے شیئر کریں۔

  گروپوں کو زیادہ ہوشیار اور چوکنا ہونا چاہیے۔

   *گروپ ممبران کے لیے واٹس ایپ کے بارے میں اہم معلومات...*
 
  *واٹس ایپ پر معلومات:*
  *1۔  ✔ = پیغام بھیجا گیا*
  *2۔  ✔✔ = پیغام پہنچ گیا*
  *3۔  دو نیلے ✔✔ = پیغام پڑھیں*
  *4۔  تھری بلیو = حکومت نے پیغام کا نوٹس لے لیا*
  *5۔  دو نیلے اور ایک سرخ - گورننس + حکومت آپ کے خلاف کارروائی کر سکتی ہے*
  *6۔  ایک نیلا اور دو سرخ = حکومت تحقیقات کر رہی ہے، آپ کی معلومات*
  *7۔  کشور لال ✔✔✔ = حکومت نے آپ کے خلاف کارروائی شروع کر دی ہے، اور آپ کو جلد ہی عدالتی سمن موصول ہوں گے۔*
  *ذمہ دار شہری بنیں اور اپنے دوستوں کے ساتھ شئیر کریں* ..
  *اہم بات یہ ہے کہ اگلے گروپ کو جلدی بھیجیں...*

مولانامحمدعلی مونگیری کے تعلیمی نظریات ' کاتجزیاتی مطالعہ - شاہ عمران حسن


مولانامحمدعلی مونگیری کے تعلیمی نظریات ' کاتجزیاتی مطالعہ - شاہ عمران حسن
(اردو دنیا نیوز۷۲)
اردو زبان کے وہ صحافی جو حالات حاضرہ پر گہری نظر رکھتے ہیں اورمستقل لکھتے رہتے ہیں، ان میں ایک اہم نام مولاناشارب ضیاء رحمانی کاہے۔مولانا شارب ضیاء رحمانی نے جامعہ رحمانی مونگیر کے زمانہ طالب علمی سے ہی تحریری زندگی کی ابتدا کر دی تھی، بعد کو وہ قومی درالحکومت نئی دہلی منتقل ہوئے تو پیشہ ورانہ طور پر انہوں نے اس میدان میں قدم رکھا۔ اور اس میں وہ بہت کامیاب بھی دکھائی دیتے ہیں۔ مولاناشارب ضیاء رحمانی کو نہ صرف لکھنے سے دل چسپی ہے بلکہ وہ پڑھنا اور تحقیق کرنابھی جانتے ہیں۔انھوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے باضابطہ جرنلزم کاکورس کیاہے جس میں انھیں گولڈ میڈل ملا تھا۔وہ مفکراسلام حضرت مولانامحمدولی رحمانی ؒ کے تربیت یافتہ عزیزوںمیں ہیں۔مولانا نے ان کی تحریر کو جلا بخشی اورحوصلہ افزائی کرتے رہے۔ خود مولانا شارب ضیاء رحمانی نے اپنے مضمون ''امیرشریعت مولانامحمدولی رحمانی کی صحافتی اورادبی خدمات'' میں لکھاہے : ''آپ برابرتاکیدکرتے کہ لگاتارلکھیے، زیادہ فاصلہ ہو جاتا ہے۔ ہر ہفتہ یاکم ازکم دوہفتے پرمضمون لکھیے۔مضامین کی اشاعت پرفون پر رائے دیتے اورحوصلہ افزائی کرتے ۔آپ نے راقم الحروف کے ایک مضمون کی اصلاح کرتے ہوئے تحریرفرمایا؛سہل مت لکھیے،آسان لکھیے، عربی کے فلاں فلاں الفاظ عام طورپرلوگ نہیں سمجھ پاتے،جملے مختصرہوں،کلمات حصرکااستعمال کم سے کم ہوناچاہیے ،جوکچھ آپ لکھیں،ان کے اعدادوشمارواضح طور پر لکھیں،سینکڑوں،ہزاروں کی بات نہ ہو۔بات اگرمکمل اعدادکہی جائے گی تومستندہوگی۔'' مولاناشارب ضیا ء رحمانی نے گذشتہ برس ایک تحقیقی کتاب ''مولانامحمد علی مونگیری اور تعلیمی اصلاحات'' شائع کی، جو پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ اس کتاب کے اندر انہوں نے مولانا محمد علی مونگیری کے نظریۂ تعلیم و ترجیحات پر بحث کی ہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اگر مولانا محمد علی مونگیری کے نظریۂ تعلیم کو اپنایا جاتا تو اس کے دور رس نتائج سامنے آتے۔ اس کتاب میں انہوں نے یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ مولانا سید محمد علی مونگیری جہاں دین کی تعلیم کو ضروری سمجھتے تھے وہیں وہ عصری تعلیم اور انگریزی تعلیم کے حصول کی اہمیت کے بھی معترف ہیں تاکہ اشاعت دین کا کام مزید وسعت کے ساتھ کیا جا سکے۔بعد کے دنوں میں مولانا محمد علی مونگیری کے خانوادے نے ان کے نظریۂ تعلیم کو نہ صرف آگے بڑھایا بلکہ عصری تقاضوں کے پیش نظر اس میں جدت بھی لائی۔ کتاب کے نام کے اعتبار سے ایسا لگتا ہے کہ اس کتاب میں مولانا شارب ضیا ء رحمانی نے صرف مولاناسید محمد علی مونگیری کے تعلیمی نظریات پر گفتگو کی ہے مگر انہوں نے گذشتہ صدی کی کئی اہم شخصیات کے تعلیمی نظریات کاتجزیاتی مطالعہ کیاہے۔انھوں نے اس میں سرسید احمد خان، علامہ شبلی نعمانی، مولانا ابوالکلام آزاد،مولانا مناظر احسن گیلانی اور مولانا ابوالاعلیٰ مودودی رحمھم اللہ کے تعلیمی تصورات نیزمولانامحمدعلی مونگیریؒ کی اولادواحفادمیںمولانامنت اللہ رحمانی ومولانامحمدولی رحمانی رحمتہ اللہ علیھما کی تعلیمی اصلاحات اورعملی اقدامات پر تجزیاتی گفتگو کرکے نئی بحث کاآغازکیا ہے، جو کہ دل چسپ بھی ہے اور قارئین کو دعوت فکر بھی ہے کہ اس پہلو پر مفید گفتگو کی جا سکتی ہے۔ یہ کتاب پہلی اشاعت میں ۱۰۶صفحات پرمشتمل تھی،اب وہ جلداس کااضافہ شدہ ایڈیشن لارہے ہیں،جوتقریباََڈیڑھ سوصفحات پرمشتمل ہوگی۔ان شاء اللہ۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ یہ کتاب نہ صرف طلبا کے لیے اہم ہے بلکہ ذمہ داران مدارس اورتعلیمی اصلاحات کی فکررکھنے والے بھی اس سے استفادہ کر سکتے ہیں۔

آج بھی ہو جو ابراہیم سا ایماں پیداشمشیر عالم مظاہری دربھنگوی

آج بھی ہو جو ابراہیم سا ایماں پیدا
شمشیر عالم مظاہری دربھنگوی
امام جامع مسجد شاہ میاں روہوا ویشالی بہار 
قارئینِ کرام
(اردو دنیا نیوز۷۲)
بقرہ عید کی قربانیوں کی نسبت آپ کو معلوم ہوگا کہ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔اسی مناسبت سے 
زیر نظر واقعہ بالتفصیل ملاحظہ فرمائیں ۔
خلیل الرحمن حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خدا کا حکم ہوتا ہے، اور آپ اپنی بیوی حضرت ہاجرہ رضی اللہ تعالی عنہا کے دودھ پیتے اکلوتے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ملک شام سے سرزمین عرب میں لے  کر جاتے ہیں۔ اور ایک لق و دق سنسان بیابان میں بیٹھا دیتے ہیں۔ایک چھاگل میں تھوڑا سا پانی اور کچھ چھوارے دے کر بغیر کچھ کہے سنے پیٹھ پھیر کر چل دیتے ہیں حضرت ہاجرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا متعجب اور بیتاب ہو کر دریافت فرماتی ہیں خلیل اللہ آپ ہمیں تنہا چھوڑ کر کہاں چلے؟مگر جواب تو کجا آپ نے مڑ کر دیکھا بھی نہیں پکڑنے کو اٹھیں مگر آپ دوڑنے لگے نا چار ہوکر فرمایا اچھا یہ تو فرمائیے کہ کیا ہم سے ناراضگی ہے یا خدا کا اس طرح کا آپ کو حکم ہوا ہے ؟ فرمایا ہاں مجھے میرے رب کا یہی حکم ہوا ہے حضرت ہاجرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو تسکین ہو گئی اور فرمانے لگیں شوق سے تشریف لے جائیے جب ہم اس کے فرمان پر کاربند ہیں تووہ ہمیں ہرگز ضائع نہیں کرے گا الٹے پاؤں واپس چلی آئیں اور صبر و شکر کے ساتھ اطاعتِ خداوندی میں اپنے ننھے سے گود کے بچے کے ساتھ دل بہلانے لگیں یہاں تک کہ وہ ناکافی تو شہ چند کھجوریں اور چند گھونٹ پانی ختم ہوگیا۔ بھوک پیاس کا غلبہ ہوا ہائے بے بسی اور کسم پرسی،  چٹیل میدان کی تنہائی، جہاں کوسوں دور تک آدمی چھوڑ جانور کا بھی نام و نشان نہیں حد نظر تک کوئی سایہ دار درخت تک نہیں سوائے ریت کے تودوں اور غیر مسلسل ناہموار پہاڑیوں کے کچھ دکھائی نہیں دیتا پانی تو کہاں دور دور تک تری بھی نہیں ۔ ہو کا عالم ہے ،غضب کا سناٹا ہے ،نہ کوئی مونس ہے نہ غمخوار ، نہ یار و مددگار ، جان سے زیادہ عزیز بچے کا برا حال ہے ، اس کا پھول سا چہرہ مر جھا رہا ہے ، ہونٹوں پر پیڑیاں جم گئ ہیں ، سانس رک رک کر چل رہا ہے ، نبضیں چھوٹی ہوئی ہیں ، زبان اینٹھ رہی ہے ، حلق خشک ہو رہا ہے ، گلے میں کانٹے پڑ رہے ہیں ، ٹانگیں رگڑ رہا ہے ، دم توڑ رہا ہے ، مامتا بھری ماں سامنے بیٹھی منہ تک رہی ہے ، ٹکٹکی لگائے ہوئے ہے، دنیا ساری آنکھوں تلے اندھیری ہو رہی ہے ، خاوند کی دوری ، وطن کی مہجوری ، بچہ کی جان کنی اور بے بسی ، بھوک ، اور پیاس ، ریت اور دھوپ ، تنہائی اور بیابان ، آہ اس ننھی سی جان کا، اپنی بھولی بھالی بولی میں اماں اماں پکارنا اور بے بس اور دکھیا اماں کا صدقے اور نثار ہونا ، بچے کا پانی مانگنا اور ماں کی آنکھوں سے موسلادھار آنسو بہانا اور کلیجہ مسوس کر رہ جانا عجیب عبرت ناک منظر تھا ۔ اپنے کلیجے کے ٹکڑے اپنی آنکھوں کے نور،  اپنے دل کے سرور،  معصوم لاڈلے اور اکلوتے پیارے فرزند کی یہ حالت دیکھی نہیں جاتی، بیتاب ہو کر کھڑی ہو جاتی ہیں اور آس پاس نظریں دوڑاتی ہیں کہ کہیں پانی دیکھ لوں، یا کوئی ہم جنس نظر آ جائے مگر سوائے مایوسی کے کچھ نہیں۔ صفا پہاڑی پر چڑھتی ہیں،  پھر وہاں سے اتر کر مروہ پہاڑی پر چڑھتی ہیں مگر بے سود۔  تھک کر آسمان کی طرف دیکھتی ہیں اتنے میں ایک غیبی آواز آتی ہے تم کون ہو؟  جواب دیتی ہیں میں ابراہیم کے صاحبزادے اسماعیل کی والدہ ہوں فرشتہ پوچھتا ہے ابراہیم اس بے پناہ جنگل میں تمہیں کس کے سپرد کر گئے ہیں ؟ فرماتی ہیں وہ ہمیں خدا کو سونپ گئے ہیں جبرئیل علیہ السلام فرماتے ہیں پھر کوئی حرج نہیں خدا کافی ہے اسے سونپی ہوئی چیز برباد نہیں ہوتی وہیں جبرئیل علیہ السلام بحکم خداوندی اپنی ایڑی زمین پر رگڑتے ہیں اور صاف شفاف پانی کا چشمہ ابلنے لگتا ہے یہی چاہ زمزم ہے جس کا پانی بہت مبارک اور متبرک ہے حضرت ہاجرہ خدا کا شکر بجا لاتی ہیں یہ پانی انہیں غذا کا کام بھی دیتا ہے اور پانی کا بھی بچے کی جان بھی بچ جاتی ہے! 
تازہ ہے چمن عبد خداۓ دوجہاں کا ؛ کچھ دخل نہیں گلشنِ قدرت میں خزاں کا ۔
اب پانی کی وجہ سے کچھ اور لوگ یہاں آبسے اور ایک چھوٹی موٹی سی آبادی ہوگئی (اسی بستی کا نام مکہ مکرمہ ہے جو آج مسلمانوں کا قبلہ ہے) 
بہرحال حضرت ابراہیم علیہ السلام خواب میں دیکھتے ہیں کہ گویا اپنے لختِ جگر پیارے بچے کو راہِ خدا میں قربان کر رہے ہیں تعمیل  ارشاد کے لئے فوراً تیار ہو جاتے ہیں بیٹے سے کہتے ہیں،  بچے سیر کو  چلو، رسی اور چھری بھی لے لو،  جنگل سے لکڑیاں بھی کاٹ لائیں گے، ماں خوشی خوشی بچے کو نہلا دھلا کر اچھے کپڑے پہنا کر باپ کے ساتھ کر دیتی ہیں،  بچہ ہنسی خوشی کھیلتا کودتا میٹھی میٹھی باتیں کرتا ہوا چلا جا رہا ہے۔  شیطان لعین ایک بھلے مانس کی شکل میں ماں کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے نیک بخت تمہارا بچہ کہاں گیا ؟جواب دیتی ہیں کہ وہ اپنے باپ کے ساتھ سیر کو گیا ہے شیطان کہتا ہے اے بھولی عورت کہاں کی سیر وہ تو اسے ذبح کرنے کے لئے لے گئے ہیں آپ فرماتی ہیں سبحان اللہ آج تک کسی باپ نے بھی بیٹے کو ذبح کیا ہے؟  وہ ایسا کیوں کرنے لگے؟ شیطان نے کہا وہ یوں کہتے ہیں کہ خدا کا انہیں یہی حکم ہوا ہے جواب دیتی ہیں اگر خدا کا یہ حکم ہے تو ایک بیٹا کیا ہزاروں بیٹے تصدق ہیں یہاں سے مایوس و نامراد ہو کر شیطان بچہ کے پاس آتا ہے کہتا ہے  صاحبزادے کہاں جا رہے ہو؟جواب دیتے ہیں اباجی کے ساتھ تفریح کے لئے جا رہا ہوں لعین کہتا ہے کیسی تفریح وہ تو تمہیں ذبح کرنے کے لئے لے جارہے ہیں فرماتے ہیں کیوں کہا اس لئے کہ خدا کا انہیں حکم ہے فرمایا پھر کیا ہے ایک کیا ہزاروں جانیں بھی اس کے پاک نام پر قربان ہیں اب باپ کے پاس آکر کہتا ہے ابراہیم یہ بے رحمی تم اپنے چاند سے بیٹے کو اپنے ہاتھ سے ذبح کرنے کے لیے کون سا جگر لاؤ گے کیا تمہارا خون سفید ہوگیا ہے آپ فرماتے ہیں بھلا میں اسے کیوں ذبح کرنے لگا کہتا ہے تمہیں خیال ہے کہ خدا کا یہ حکم ہے آپ فرماتے ہیں پھر کیا حکم خداوندی سے بیٹا زیادہ عزیز ہے اسی کا عطیہ ہے اسی کے نام پر قربان ہوگا اب ناکام ہو کر ملعون خائب و خاسر لوٹتا ہے ۔
منی میں پہنچ کر باپ بیٹے میں گفتگو شروع ہوتی ہے ابراہیم علیہ السلام فرماتے ہیں میرے لاڈلے مجھے تمہیں قربان کرنے کا حکم ہوا ہے تم کیا کہتے ہو
حضرت اسماعیل علیہ السلام فرماتے ہیں والد محترم فوراً تعمیل ارشاد کیجئے (چھری لیجیۓ گردن حاضر ہے) انشاءاللہ صبر و شکر کے ساتھ خالق کی اطاعت بجا لاؤں گا ہاں میرے مہربان باپ میرے ہاتھ پاؤں باندھ دیجئے کہیں ایسا نہ ہو کہ تڑپوں اور خدا کے ہاں بے صبر گنا جاؤں یا آپ کے کپڑوں پر خون کے چھینٹیں اڑیں اور میری امان جان انہیں دیکھ کر بے قرار ہوں مجھے الٹے منہ زمین پر گرانا کہیں ایسا نہ ہو کہ وقتِ ذبح میری صورت دیکھ کر آپ کو محبت آجائے چھری تیز کر لیجئے کہ فوراً مالک کو جان سونپ دو ہاں میرے پیارے ابا گھر جاکر میری امی جان سے میرا آخری سلام کہہ دینا انہیں تسلی و تشفی دینا کہیں ان کے دل پر صدمہ نہ گزرے یہ میرا کپڑا بطور نشانی کے  دے دینا۔ ابا جی رخصت بسم اللہ کیجئے ۔ باپ اپنے پیارے فرزند کو گلے سے لگا لیتے ہیں اور آخری پیار کرکے فرماتے ہیں۔ جان پدر میں بہت خوش ہوں کہ تم اپنے مالک کے نام پر  سر فروشی کے لیے تیار ہو بیٹا تمہیں خدا کو سونپا اپنے سینے پر صبر کی سل رکھ کر اپنے کلیجے پر داغ جدائی دے کر اپنے نور نظر کے ساتھ وہ کرتا ہوں جو کسی نے نہ کیا ہو پھر ہاتھ پاؤں باندھتے ہیں کرتا اتار لیتے ہیں پھر ذبیح اللہ  کو منہ کے بل زمین پر گرا کر تیز چھری حلق پر پھیرنے لگتے ہیں رحمت ایزدی جوش میں آتی ہے دریائے کرم لہریں مارنے لگتا ہے اور رب العالمین  آواز دیتا ہے اے میرے ا براہیم بس امتحان ہو چکا تم میرے حکم کی تعمیل کر چکے تمہارا اجر ثابت ہوگیا میں تم دونوں باپ بیٹوں سے خوش ہو گیا جبرئیل علیہ السلام نے حکم خداوندی سے نبی زادے کو اٹھا لیا اور ان کے بدلے میں ایک بہشتی دنبہ رکھ دیا جو ذبح ہوا
محترم بھائیو ۔ جانوروں کی قربانیاں بھی کرو اور ان سے بھی بڑھ کر یہ ہے کہ خواہشاتِ نفس کی قربانیاں کرو اپنے مال،  جان، عزت، آبرو سب کو راہِ خدا میں قربان کرنے کا حوصلہ اپنے اندر پیدا کرو
آج بھی ہو جو ابراہیم سا ایماں پیدا
 آگ کرسکتی ہے انداز گلستاں پیدا

مناسک حج وعمرہ مع چہل احادیث__

مناسک حج وعمرہ مع چہل احادیث__
(اردو دنیا نیوز۷۲)
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ، پھلواری شریف پٹنہ
مناسک حج وعمرہ اور اس سے متعلق آیات واحادیث پر مشتمل کتابیں سینکڑوں کی تعداد میں موجود ہیں، ہر مصنف اور مؤلف نے اپنے اپنے انداز میں کتاب کے خد وخال بنانے اور اس کے مطابق کتاب میں رنگ بھرنے کا کام کیاہے،حج کے مسائل پر جو کتابیں اب تک تصنیف کی گئی ہیں، ان کی تفصیل بیان کروں تو بات لمبی ہوجائے گی ، احادیث وفقہ کی تمام کتابوں میں ’’کتاب الحج‘‘ موجود ہے، ہمارے دور میں جو چند کتابیں رہنمائی کے لئے موجود ہیں، اور مقبول ہیں ان میں مولانا قاری مولانا سعید احمد مظاہری کی ’’معلم الحجاج‘‘، مولانا مرغوب احمد لاجپوری کی ’’تحفۂ حجاج‘‘ ، مولانا رفعت قاسمی کی ’’مکمل ومدلل مسائل حج وعمرہ‘‘، مفتی شبیر احمد قاسمی کی ’’انوار مناسک‘‘، مفتی عبد الحئی قاسمی کی ’’رہبر حج‘‘، حاجی محمود عالم کی ’’رہنمائے حج وزیارت ‘‘اور راقم الحروف (محمد ثناء الہدیٰ قاسمی) کی کتاب ’’عمرہ حج وزیارت ، سفر محبت وعبادت‘‘ وغیرہ کو خاص اہمیت حاصل ہے۔
 اسی سلسۃ الذھب کی ایک کڑی ، مولانا پروفیسر آفتاب عالم صاحب قاسمی (ولادت یکم اپریل ۱۹۶۶ئ) بن طفیل احمد (م ۱۶؍ جولائی ۲۰۱۰ئ) بن ایوب علی بن عبد الغفار ساکن بیل پکونہ ضلع مظفر پور حال مقام مدنی نگر مہوا ویشالی کی تصنیف ’’مناسک حج وعمرہ مع چہل احادیث‘‘ ہے۔
مولانا آفتاب عالم صاحب دا رالعلوم دیو بند سے فارغ ہیں، حج وعمرہ کے مسائل پر ان کی نظر ہے، جزئیات کااستحضار ہے، فراغت کے بعد انہوں نے یونیورسٹی سے ایم اے ،فارسی واردو میں کیا ہے اور معاصرین میں ممتاز رہے، مختلف اوقات میں مکتب کی معلمی ، مدرسہ کی تدریس ونظامت اور کالج میں لکچرر ہونے کے ساتھ ساتھ انہوں نے مہوا میں تجارت شروع کیا اور ظروف کی خرید وفروخت کو اپنا یا، اللہ نے اس کام میں برکت دی اور اب ان کا شمار مہوا کے کامیاب تاجروں میں ہوتا ہے، ان دنوں وہ مدنی مسجد مہوا کے صدر بھی ہیں۔اس حوالہ سے بھی ان کی محنت قابل ستائش ہے۔
 مولانا موصوف نے اس کتاب میں قرآن واحادیث کے حوالہ سے حج وعمرہ کے طریقے اور دعاؤں کا ذخیرہ جمع کیا ہے اور بڑی حد تک حج وعمرہ اور اس کی ادائیگی کے طریقے کی جزئیات کا احاطہ کیا ہے، کتاب چار ابواب پر مشتمل ہے، جن کی تفصیلات کتاب کے شروع میں مؤلف کے قلم سے ہے اور کافی وشافی ہے۔
کتاب کے اخیر میں ’’میرے شب وروز‘‘ کے عنوان سے مولانا کی آپ بیتی، اس میں انہوں نے اپنی زندگی کے واقعات ، مخلصین، محبین اور اپنے اہل خانہ کا تذکرہ داستانی انداز میں کیا ہے، یہ ’’لذیذ بود حکایت درازترگفتم‘‘ کے مصداق طویل ہو گیا ہے، اس مضمون میں جن لوگوں کا شکریہ ادا کیا  ہے ان کی تعداد ایک درجن سے کم نہیں ہے، من لم یشکر النساس لم یشکر اللہ کہ جو لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا وہ اللہ کا شکر گذار بھی نہیں ہو سکتا کی وجہ سے یہ ضروری بھی تھا۔
انتساب کے بعد اس  کتاب پر ’’حرف چند‘‘ راقم الحروف (محمد ثناء الہدیٰ قاسمی) ’’کلمات تحسین ‘‘  مولانا ڈاکٹر ابو الکلام قاسمی شمسی اور’’ نگاہ اولیں‘‘ مولانا محمد سراج الہدیٰ ندوی ازہری کا ہے، اس کے بعد مولانا نے’’ آئینۂ کتاب‘‘ کے عنوان سے تفصیلی طور پر اس کتاب کا خلاصہ قاری کے سامنے رکھ دیا ہے ، یہ طویل ہے، لیکن کتاب میں کیا کچھ ہے اس سے ابتدائی اور اجمالی واقفیت کے لیے اس کا مطالعہ ضروری ہے۔ اس باب کے اخیر میں مولانا نے داستانی انداز میں اپنی آپ بیتی شروع کر دی ہے اور بہت سارے لوگوںکا نام ذکر کرکے اس باب کو اختتام تک پہونچایا ہے، یقینا بہت سارے کام ’’بمد خوش کرنی‘‘ کرنے ہوتے ہیں،نہ کیجئے تو آدمی خود بھی دخیل ہو کے کر، کرا لیتا ہے، کبھی کبھی تو یہ دخیل ہونے والے لووگ اس قدر جری ہوتے ہیں کہ اپنی مدح وستائش کا پورا پورا پیراگراف بڑھادیتے ہیں، کبھی معاملہ اس سے آگے بڑھ جاتا ہے اور ٹائٹل تک پر تصرف سے باز نہیں آتے، صاحب کتاب کا قصور صرف اتنا ہوتا ہے کہ اس نے کسی صاحب پر اعتماد کرکے طباعت کا کام اس کے حوالہ کر دیا، یہ ایک اوچھی گھنونی حرکت ہے، اور صاحب کتاب کے اعتماد کو ٹھیس پہونچانے والی بات ہے، ناموں کی بھیڑ میں یہ تمیز کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے کہ اس طویل فہرست میں کون کون خارج سے داخل ہو گیا۔ اس غیر ضروری دخول کی وجہ سے بعض ناموں میں تکرار ہوجاتا ہے، حالاںکہ اس میں تکرار سے بچنا ضروری ہوتا ہے،سہرے او رمضامین میں ناموں کی لمبی فہرست سے قاری کوبوریت محسوس  ہوتی ہے، اگر وہ شروع میں ہی بور ہو گیا تو بغیر پڑھے کتاب رکھ دے گا۔جو یقینا بڑا نقصان ہے۔
 اس باب میں داستان کا دوسرا حصہ ’’زیارت حرمین اور دل کی باتیں ‘‘ ہیں، یہ مختصر ہے،اوراصلاً سفر نامۂ عمرہ ہے۔جس میں مولانا نے واردات قلبی کو الفاظ کا پیرہن بخشا ہے،یہ داستان دل پذیر ہے اور قارئین کے شوقِ حج وزیارت کو مہمیز کرنے والی ہے۔
 کتاب کا پہلا باب حج کے بیان میں ہے، اس میں مولانا نے قرآن کریم میں جتنی آیات میں حج کا لفظ آیا ہے اس کا احاطہ کیا ہے اور احادیث کی روشنی میں حج کی فضیلت بیان کی ہے، اس کے بعد فرائض وواجبات حج پر روشنی ڈالی ہے اور مختلف عمل کے کرتے وقت جو دعائیں احادیث میں آئی ہیں اس کا ذکر کیا ہے۔ عمرہ کا بیان مولانا نے دوسرے باب میں حج کے بعد رکھا ہے، ہندوستان کے جو عازمین ہوتے ہیں وہ تمتع کرتے ہیں اور تمتع میں پہلے عمرہ ہوتا ہے اس لیے عمرہ کا ذکر پہلے ہونا چاہیے تھا، اس سے ایک دوسرا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ احرام ، طواف، سعی اور حلق کے مسائل سے پہلے مرحلہ میں واقفیت بہم پہونچ جاتی ہے اور حج کے بیان میں مصنف ان امور کے ذکر کا حوالہ دے کر وقوف منی، عرفہ، مزدلفہ، رمیٔ جمرات اور طواف زیارت کے ذکر پر تفصیلی گفتگو کرپاتا ہے، باتوں کو رکھنے اور سمجھانے کے لیے یہ طریقہ شاٹ کٹ ہے، اس کی وجہ سے یہاں بھی تکرار کا امکان کم رہتا ہے۔
 اس کتاب کے مختلف حصے اور ابواب میں مولانا نے مقامات مقدسہ مکہ مکرمہ او ر مدینہ طیبہ کا ذکر کیا ہے، جس کے پڑھنے سے شوق دید ابھر آتا ہے، طواف کی مختلف قسموں اور بعض جنایات کے سلسلے میں بھی تفصیلی کلام کیا ہے۔
 مولانا نے اس کتاب کے آخر میں حج وعمرہ سے متعلق چالیس احادیث کو جمع کر دیا ہے، اعراب اور ترجمہ کرکے عام قاری کے لیے اسے نفع بخش بنا دیا ہے، کسی کو یاد کرنا ہو تو بآسانی کر سکتا ہے اور ترجمہ کے ذریعہ اس کے معنی ومطالب کو سمجھ سکتا ہے۔ یہ ایک مفید اضافہ ہے جو مولانا نے کیا ہے ، عموما حج وزیارت سے متعلق کتابوں میں متعلقہ احادیث کو جمع کرنے کا اہتمام نہیں کیا جا تا ، مولانا نے شروع کتاب میں ان آیات قرآنی کو جمع کر دیا ہے، جس میں حج کا ذکر ہے اور آخر میں احادیث کا ذکر کیا ہے اور وہ بھی چالیس کی تعداد میں، ان احادیث کو یاد کرکے وہ فضیلت حاصل کی جا سکتی ہے، جن کا ذکر مذکور ومنقول ہے، کہنا چاہیے کہ یہ کتاب کا ’’مسک الختام ‘‘ ہے۔ زبان صاف ستھری اور باتیں واضح انداز میں رکھی گئی ہیں، جس سے کم پڑھا لکھا بھی فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
۲۰۸؍ صفحات کی یہ کتاب مفت دستیاب ہے، آپ اسے نور اردو لائبریری حسن پور گھنگھٹی ، بکساما، ویشالی، قاسمی منزل وارڈ نمبر ۲۳، مدنی نگر مہوا ویشالی اور امارت شرعیہ سے حاصل کر سکتے ہیں۔
 کتاب عازمین کے لیے مفید ہے، نہ بہت طویل ہے اور نہ بہت ہی مختصر، اس کی وجہ سے کتاب کا مطالعہ آسان اور اس پر عمل آسان تر ہے، اللہ کرے مولانا کی دوسری خدمات کی طرح یہ خدمت بھی قبول عام وتام پائے، مولانا کا سفر حج بھی شروع ہے، حج مبرور کی دعا پر اپنی بات ختم کرتا ہوں

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...