Powered By Blogger

ہفتہ, جولائی 30, 2022

نئے ہجری سال کا پیغام ہجری کلنڈر کو رواج دیجئے

نئے ہجری سال کا پیغام ہجری کلنڈر کو رواج دیجئے 
اردو دنیا نیوز ۷۲
        ایم رحمانی
مدرسہ اسلامیہ بیت العلوم چمپارن 

        آج ہجری تقویم کے اعتبار سے سال کا آخری دن ہے اور آخری تاریخ  ہے ، آج کا سورج جیسے ہی غروب ہوگا نئے اسلامی ہجری سال کا آغاز ہوجائے گا ۔ اور ہم سب نئے اسلامی سال میں داخل ہو جائیں گے یعنی ۱۴۴۳ھج ختم ہوکر۱۴۴۴ھج کی شروعات ہوجائے گی ۔ ایمان والوں کے لئے ہجری اسلامی سال اور تاریخ کی بڑی اہمیت ہے ۔ واقعہ ہجرت سے اسلامی سال اور تاریخ کی شروعات بہت ہی معنی خیز ہے ۔ اس لئے کہ ہجرت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا وہ مبارک واقعہ ہے، جو نہ صرف مسلمانوں کی ایثار اور جانثاری و فداکاری کا اوج کمال ہے ، بلکہ یہ اسلام کے ظہور و غلبہ کا نقطئہ آغاز بھی ہے ،اسی بنا پر حضرات صحابہ کرام نے اسلامی کلینڈر کے لئے اسی واقعہ کو بنیاد و اساس بنایا اور یہ ہجری کلینڈر ھجری تقویم سے موسوم ہوا ۔ علماء اور حضرات اہل علم نےلکھتے ہیں،،کہ مسلم معاشرہ میں ھجری تقویم کے رواج کو باقی رکھنا فرض کفایہ کی حیثیت اور درجہ رکھتا ہے اس لئے کہ اس سے متعدد عبادتیں متعلق ہیں ،،۔ 
مگر افسوس افرنگیوں کی تقلید میں ہم ایسے اندھے ہو گئے ہیں اور مغربی تہذیب کے سیل رواں میں ایسے بہہ گئے ہیں اور مسلمانون کی مرعوبیت اور اس طوفان کے مقابلے سپر اندازی نے نوبت یہاں تک پہچا دی ہے کہ آج زیادہ تر مسلمان نوجوان بلکہ بوڑھے اور ادھیڑ ھجری مہینوں کے نام سے بھی واقف نہیں اور یہ جاننے والے تو اور کم ہیں کہ اسلامی تقویم کی بنیاد کیا ہے ؟ یہ کیوں کر وجود پذیر ہوئی اور واقعئہ ہجرت ہی سے اس کلینڈر کی ابتداء کرنے میں کیا حکمت اور پیغام ہے ؟ 
اس بے توجھی بے التفاتی اور نا آگہی کا نتیجہ ہے کہ جتنے کلینڈر جنتریاں اور ڈائریاں چھپتی ہیں وہ سب بھی مسیحی عیسوی تقویم کا لحاظ کرتے ہوئے ۔ 
ضرورت ہے کہ ہم مسلمان ھجری تاریخ کی اہمیت کو جانیں اور سمجھیں اور بلا ضرورت شدیدہ اس تقویم اور سنہ کو چھوڑ کر دوسرے سنہ کو فوقیت اور ترجیح نہ دیں، الا یہ کہ جہاں ہم مجبور ہیں غیروں کے ماتحت اور پابند ہیں،یا جہاں دفتری نظام شمسی کلنڈر کے مطابق انجام دینا مجبوری ہو۔
ہم کو یہ یاد رکھنا اور سمجھنا چاہیے کہ ھجری تاریخ سے سنہ کی ابتداء اور آغاز کا فیصلہ ۱۷ ھج میں ہوا اس وقت سے اب تک صحابئہ کرام اور ہمارے اسلاف قمری مہینوں اور سنہ ہجری کا اہتمام کرتے رہے ہیں اور مسلمانون کو بھی اس کے التزام کی تعلیم دیتے رہے ہیں کیونہ من جملہ شعائر اسلام سے ہے ۔ قمری مہینوں کے نام زبان وحی و نبوت سے ادا ہوئے ہیں اور سنہ ہجری کے بارے میں معلوم ہو کہ ایک مہتم بالشان واقعہ کی یاد گار ہے ۔

حج عشق الٰہی کا مظہر اور ایک جامع عبادت

حج عشق الٰہی کا مظہر اور ایک جامع عبادت
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ
(اردو دنیانیوز۷۲)
حضرت مولانا نور الحق رحمانی استاذ المعہد العالی امارت شرعیہ کو اللہ رب العزت نے علم وعمل کی دولت سے مالا مال کیا ہے، فقہ، حدیث اور عربی زبان وادب پر ان کی گہری نظر ہے ، عرصہ دراز سے فقہی کتابوں کا درس ان کے ذمہ رہاہے ان دنوں وہ تدریب افتاوقضاء کے طلبہ کو مختلف علوم وفنون کا درس دیا کرتے ہیں، وہ استاذ الاساتذہ ہیں اللہ رب العزت نے ان کے وقت میں بڑی برکت عطا فرمائی ہے ، لغویات سے دو راور فضولیات سے نفور کی وجہ سے ان کا سارا وقت مطالعہ، تدریس، اصلاح معاشرہ کے خطابات وغیرہ میں گذرتا ہے، وقت میں برکت کی وجہ سے ہی، ڈیڑھ درجن سے زائد کتابیں انکی طبع ہو چکی ہیں، جن میں موسوعۃ فقہیہ کا اردو ترجمہ، اسلامی عدالت کا عربی ترجمہ ، نظام قضاء الاسلامی بھی شامل ہے، خواتین پر ان کی تین کتابیں سیرت عائشہ ، عورت اسلامی شریعت میں، نیز تعدد ازدواج حقائق کے آئینے میں طبع ہو کر مقبول ہو چکی ہیں۔
 مولانا کی تازہ ترین تالیف’’ حج عشقِ الٰہی کا مظہر اور ایک جامع عبادت‘‘ ہے، نام تھوڑا طویل ہو گیا ہے ، لیکن اس طوالت کی وجہ سے نام سے کتاب کے مندرجات تک اجمالی رسائی ہو جاتی ہے ،’’ عشق ‘‘کا لفظ اتنا سو قیانہ ہو گیا ہے کہ اللہ، رسول اور متعلقہ عبادت کے ساتھ جوڑنے میں مجھے انشراح نہیںہوتا ، عشق کے سوقیانہ لفظ ہونے کی وجہ سے ہی ، اس حقیر کے ناقص مطالعہ میں قرآن واحادیث میں یہ لفظ استعمال میں نہیں آیا، حالاں کہ صحابہ کرام سے زیادہ جاں سپاری اور محبت میں وارفتگی کس کے پاس ہو سکتی ہے ۔
 کتاب کے شروع میں کلمات تبریک امیر شریعت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی دامت برکاتہم ، حرف چند نائب امیر شریعت حضرت مولانا محمد شمشاد رحمانی اور مقدمہ مولانا مفتی سعید الرحمن قاسمی مفتی امارت شرعیہ اور مولانا محمد ایوب نظامی ناظم مدرسہ صورت القرآن دانا پور کا ہے ، ان حضرات کی تحریروں میں مولانا کی علمی خصوصیات اور اس کتاب کی اہمیت کا ذکر ملتا ہے ، جس سے کتاب پڑھنے سے پہلے قاری کے ذہن میں اس کتاب کی اہمیت اور قدر ومنزلت بیٹھ جاتی ہے۔
کتاب در اصل پانچ مضامین کا مجموعہ ہے ، پہلا مضمون حج عشق الٰہی کا مظہر ، دوسرا حج ایک جامع عبادت، تیسرا سفر حج کا توشہ اور چوتھا عمرہ کا عملی طریقہ ہے، ان میں کے دو مضامین سفر حج کا توشہ اور حج ایک جامع عبادت نقیب میں طبع ہو چکا ہے ۔اور اس کے قاری کے لیے گاہے گاہے باز خواں کی طرح ہے۔
 اس کتاب میں حج کے فضائل ومسائل پر تفصیلی مواد موجود ہے، اس سے عازمین حج کو حج کی ادائیگی میں سہولت ہوگی اور بہت سارے اعمال میں وہ غلطیوں سے بچ جائیں گے ، اس کتاب میں ایک چھٹا مضمون مدینہ منورہ کی زیارت کے حوالہ سے ہے جو مولانا کے صاحب زادہ مولانا فیض الحق قاسمی استاذ مدرسہ تحفیظ القرآن سمن پورہ ، راجا بازار پٹنہ کے قلم سے ہے اور قیمتی ہے، کاش مولانا مکہ میں جن مقامات کی زیارت کی خواہش ہوتی ہے، اس پر بھی روشنی ڈال دیتے تو تشنگی باقی نہیں رہتی ، یقینا شرعی طور پر وہ حج کا حصہ نہیں ہیں، لیکن آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس سے جُڑے سارے مقامات ہمارے لیے اہمیت کے حامل ہیں اور خواہش ہوتی ہے کہ سر کے آنکھو ں سے ان کی بھی زیارت ہوجاتی۔
 مولانا نور الحق رحمانی صاحب چوں کہ زمانہ دراز سے عازمیں حج کی تربیت بھی کرتے رہے ہیں، اس لیے اس کتاب میںمولانا کی گفتگو کا بڑا محور وہ تجربات ہیںجو انہوں نے خود حج کے سفر سے حاصل کیے اور لوگوں کو مسائل سمجھانے کے درمیان جس کی ضرورت انہوں نے محسوس کی ، اس طرح یہ کتاب مختصر اور جامع ہے اور اس کی اہمیت وافادیت مسلم ہے، یہ عازمین کے لیے توشۂ حج اور مولانا کے لیے توشۂ آخرت ہے۔
 کتاب کی اس اہمیت وافادیت کی وجہ سے کتاب کی ترتیب، پروف ریڈنگ اور سیٹنگ پر خصوصی توجہ کی ضرورت تھی، عموما کتاب میں مؤلف کا پیش لفظ پہلے اور تقریظ وتاثرات پر مشتمل مضامین بعد میں ہوتے ہیں، اس کتاب میں پیش لفظ درمیان میں آگیا ہے، شروع میں حضرت امیر شریعت اور نائب امیر شریعت کے کلمات تبریک اور حرف چند ہیں، پھر پیش لفظ کے بعد مولانا محمد ایوب نظامی کی تقریظ ہے، نائب امیر شریعت کے حرف چند میں ان کا نام مضمون کے آخر میں درج ہونے سے رہ گیا ہے ، سیٹنگ کے نقص کی وجہ سے کتاب کا حوض اور حاشیہ کا تراش وخراش بھی کم وبیش ہو گیا ہے ، پروف ریڈنگ میں اغلاط کثرت سے رہ گیے ہیں، اس کا آغاز صفحہ ۲؍ سے ہوتا ہے ، جہاں صفحات کی تعداد حروف میں ایک سو بتیس اور عدد میں ایک سو چھتیس درج ہے، مفتی سعید الرحمن صاحب کے مقدمہ اور کتاب کے دوسرے مندرجات میں بھی اغلاط کی کثرت ہے ،بعض جگہوں پر مولانا اس طرح کھوجاتے ہیں کہ انہیں اپنا سفر حج یاد آجاتا ہے اور وہ ایک جملہ لکھ کر دوسری بات شروع کر دیتے ہیں۔ اس عبارت کو دیکھیے۔
’’ ہر حاجی بسوں کا کرایہ پہلے ادا کرچکا ہوتا ہے پھر منی سے طواف زیارت کے لیے مکہ آمد ورفت بھی سرنگ ہی کے ذریعہ ہوئی اور آسانی سے دس ذی الحجہ کو چاروں عمل رات باہ بجے تک انجام پا گیے، پھر دس ذی الحجہ کا دن ‘‘۔( صفحہ ۶۵) اس طرح کی عبارتیں اس کتاب میں کئی ہیں، مولانا لکھتے لکھتے کھو جاتے ہیں، اپنے سفر حج کا تذکرہ کرنے لگتے ہیں، پھر معا خیال آتا ہے تو آگے بات شروع کر دیتے ہیں، یہ معاملہ جذب وکیف کا ہے، اس طرح کی عبارتوں کو اسی پس منظرمیں دیکھنا چاہیے، اس کا ایک دوسرا رخ اپنے تجربہ کا ذکر بھی ہے، پچاس روپے دے کر مکتبہ القاضی پھلواری شریف قاضی نگر سے اس کتاب کو حاصل کیا جا سکتا ہے۔

یو پی سے 5گنا زیادہ انکاؤنٹر کریں گے

یو پی سے 5گنا زیادہ انکاؤنٹر کریں گے


(اردو دنیا نیوز ۷۲)

حکومت کرناٹک کا انتباہ ' اترپردیش مثالی ریاست۔ چیف منسٹر بومئی کے بعد ریاستی وزیر تعلیم نرائن کا غیر ذمہ دارانہ بیان

بنگلورو : چیف منسٹر کرناٹک بسواراج بومئی جنھیں ایک بی جے پی ورکر کی ہلاکت پر فرقہ پرست قوتوں کے خلاف یوگی (آدتیہ ناتھ) ماڈل کو استعمال کرنے کی دھمکی دینے پر مختلف گوشوں سے برہمی کا سامنا ہونے کے آج ایک روز بعد، ریاستی وزیر اشوت نرائن نے اعلان کیاکہ ریاستی حکومت ملزمین کو نشانہ بناتے ہوئے انکاؤنٹرس کرسکتی ہے اور اِس معاملہ میں وہ اترپردیش سے پانچ قدم آگے جائیں گے۔ ریاستی وزیر تعلیم نرائن نے کہاکہ ملزمین کو گرفتار کیا جائے گا لیکن ہمارے ورکرس اور عوام کی خواہش ہے کہ اِس طرح کے واقعات کا اعادہ نہیں ہونا چاہئے۔ اُن کی خواہش کے مطابق کارروائی ضرور کی جائے گی اور خاطیوں کو پکڑا جائے گا، اُنھیں کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔ یہ عمل چاہے انکاؤنٹر کی شکل میں پورا ہو یا کچھ دیگر کارروائی کرنی پڑے، ہم اترپردیش سے پانچ قدم آگے جائیں گے۔ ہم یوپی کے مقابل بہتر ماڈل پیش کریں گے۔ نرائن کا دعویٰ ہے کہ کرناٹک ترقی پسند ریاست ہے اور دوسروں کے لئے نمونہ ہے۔ ہمیں کسی کی بھی تقلید کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ گزشتہ روز بی جے پی کے نوجوان لیڈر پراوین نیتارو کے قتل پر اپنے پارٹی والوں کے غم و غصہ کا سامنا کرنے کے بعد چیف منسٹر بومئی نے جوش میں یا جذبات میں کہہ دیا تھا کہ وہ فرقہ پرست قوتوں کے خلاف یوگی ماڈل کو استعمال کرنے کے لئے تیار ہیں بشرطیکہ صورتحال اِس کی متقاضی ہو۔ چند گھنٹوں بعد چیف منسٹر نے اپنا تبصرہ بدل دیا اور کہاکہ ایسے معاملوں میں یوگی ماڈل یا کرناٹک ماڈل اختیار کیا جاسکتا ہے۔ پراوین کو نامعلوم حملہ آوروں نے ضلع دکشنا کرناٹک میں منگل کو قتل کیا تھا جبکہ وہ اپنی پولٹری شاپ بند کرکے واپس ہورہا تھا۔ اِس کیس میں 2 افراد گرفتار کئے جاچکے ہیں جن کے پاپولر فرنٹ آف انڈیا سے روابط بتائے گئے، جو کٹر مسلم تنظیم سمجھی جاتی ہے۔ چیف منسٹر نے یہ کیس ملک کے اعلیٰ انسدادی دہشت گردی ادارہ این آئی اے کے حوالہ کردیا ہے۔ بی جے پی اور دائیں بازو کے کئی گروپوں نے ایک سال پرانی بومئی حکومت کو مورد الزام ٹھہرایا ہے کہ وہ ہندو ورکرس کی جانوں کی حفاظت میں ناکام ہوئی ہے۔ خود اپنی پارٹی کی طرف سے بڑھتے دباؤ نے آخرکار چیف منسٹر کو مجبور کیا اور اُنھوں نے گزشتہ روز اپنے اترپردیش کے ہم منصب کے طریقہ کار کا حوالہ دیا۔ چیف منسٹر کے بیان کے اندرون 24 گھنٹے ریاست کے وزیر تعلیم نرائن کا کھلے طور پر انکاؤنٹرس کا ذکر کرنا نہایت غیر ذمہ دارانہ رویہ ہے۔ یہ کرناٹک کے عوام کے لئے ہرگز ٹھیک نہیں ہوسکتا۔

تحفظ شریعت ویلفیئر سوسائٹی جوک ہات ارریہ محرم الحرام کا سلسلہ وار پروگرام جاری ہے

تحفظ شریعت ویلفیئر سوسائٹی جوک ہات ارریہ محرم الحرام کا سلسلہ وار پروگرام جاری ہے
(اُردو دنیا نیوز۷۲)
ماشاءاللہ سلسلہ وار پروگرام کا آج رحیمی جامع مسجد سنگورا میں منعقد ہوئی زیر صدارت حضرت قاری محمد الیاس صاحب مہتمم مدرسہ محمودیہ ہاٹ گاؤں مقرر خصوصی حضرت مولانا محمد کونین صاحب مظاہری ، و مفتی محمد نعیم صاحب قاسمی ، و مفتی محمد مبشر صاحب مظاہری ، اور مفتی محمد صدام حسین صاحب ماہ محرم الحرام کے متعلق فضائل ،  بدعت وخرافات پر مدلل بیان فرمایا اس پروگرام میں شریک رہے ، مولانا محمد ذوالفقار ، مولانا محمد تنزیل الرحمان ، قاری عبدالقدوس ،قاری محمد شاہد صاحب ،حافظ انوار الحق ،مولانا محمد وثیق ،قاری اسامہ ،حافظ شہباز ، وغیرہ موجود رہے

جمعہ, جولائی 29, 2022

ہندوستان کی نئی صدر جمہوریہ ___

ہندوستان کی نئی صدر جمہوریہ ___
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
(اردو دینا نیوز ۷۲)
بالآخر دروپدی مرمو ہندوستان کی نئی صدر جمہوریہ منتخب ہو گئیں، انہوں نے اپنے حریف اور حزب مخالف کے متفقہ امیدوار یشونت سنہا کو بھاری اکثریت سے شکست دی، جمہوریت میں صلاحیتوں کی قدر نہیں ہوتی، فیصلے سروں کو گن کر کیے جاتے ہیں، اور سر گننے کے عمل میں دروپدی مرمو جیت گئیں، یہ در اصل صلاحیت پر طبقہ واریت کی جیت ہے، ذات پات، قبائلیت اور ووٹ کی سیاست کی جیت ہے، ورنہ صحیح اور سچی بات یہ ہے کہ صلاحیت اور سیاست میں وزن کے اعتبار سے یشونت سنہا ہر اعتبار سے دروپدی مرمو پر فائق تھے، لیکن اب امیدوار جن چیزوں کو سامنے رکھ کر منتخب کیاجاتا ہے ، یشونت سنہا اس کسوٹی پر پورا اتر نہیں پائے اور انہیں ہار کا منہہ دیکھنا پڑا۔
 دروپدی مرمو صدر جمہوریہ ہونے کے ساتھ ہندوستان کی خاتون اول بھی بن گئی ہیں، صدر کے عہدہ کی وجہ سے اب ان کی رہائش پارلیامنٹ ہاؤس کے سامنے والے پہاڑی پر واقع ساڑھے چار ایکڑ اراضی پر پھیلے اس عمارت میں ہوگی، جس میں تین سو چالیس کمرے، چون بیڈ روم، دفاتر، باورچی خانے، پوسٹ آفس دنیا بھر میں مشہور مغل گارڈن ، کھیل کے میدان اور دربار ہال ہیں، دربار ہال تک پہونچنے کے لیے بتیس زینے چڑھنے پڑتے ہیں، مرکزی حصہ کے اوپر واقع اس کا گنبد ایک سو ستہر (۱۷۷) فٹ بلند وبالا ہے۔
 دروپدی مرمو کی ولادت جون ۱۹۵۸ء میں اڈیشہ کے ضلع میور بھنج کے ایک چھوٹے سے سنتھالی گاؤں اوپر بیڈا میں ہوئی، ان کی تعلیم بی اے تک ہے، ان کے آنجہانی شوہر شیام چرن مرمو تھے، جو اپنے بیٹے کے حادثاتی موت کا صدمہ برداشت نہیں کر سکے اوردنیا سے سدھارے، دروپدی مرمو بھی اپنے دو بیٹیوں ، شوہر، ماں اور بڑے بھائی کی ایک سال کے اندر مر جانے سے ٹوٹ گئی تھیں، لیکن انہوں نے خود کو سنبھالا ورزش کے مختلف طریقوں کو اپنا کر اعصاب مضبوط کیے اور سیاسی ، سماجی میدان کار کو اپنے لیے منتخب کیا۔
 انہوں نے اڈیشہ کے سکریٹریٹ میں کلرک کی نوکری سے اپنے کیریر کا آغاز کیا، اس میں طبیعت نہیں جمی تو انہوں نے اسکول میں معلمی کا پیشہ اختیار کیا، ۱۹۹۷ء میں وہ اڈیشہ کے رائے رنگ پور ضلع میں بی جے پی کے ٹکٹ پر کونسلر منتخب ہوئیں، تین سال بعد بی جے پی کے ٹکٹ پر اسمبلی پہونچیں، ۲۰۰۰ء میں بھاجپا اور بیجو جنتا دل کی مخلوط حکومت میں وہ پہلی بار وزیر بنیں، ۲۰۱۵ء میں وہ مودی حکومت کی جانب سے جھارکھنڈ کی پہلی خاتون گورنر بنائی گئیں، اور اب ۲۰۲۲ء میں صدارتی محل ان کے استقبال کے لیے تیار ہے ۔
دروپدی مرمو کھانے پینے کے اعتبار سے سبزی خور ہیں، ان کا نفسیاتی مطالعہ کرنے والوں کا کہنا ہے کہ وہ ایک جذباتی خاتون ہیں، لیکن موقع کے اعتبار سے انہیں اپنے فیصلے پر جمنا بھی آتا ہے، اللہ کرے وہ ہندوستان کے روایتی ربر اسٹامپ صدر کی فہرست میں سر فہرست نہ بنیں، فی الوقت نیک خواہشات ہی پیش کی جا سکتی ہیں، وقت بتائے گا کہ وہ کیسی صدر جمہوریہ ہیں؟
صدر جمہوریہ کا جو عہدہ ہے وہ مذکر اور مؤنث دونوں کے لیے اردو میں استعمال ہوتا ہے، اسی طرح راشٹر پتی ایک قانونی اصطلاحی ہے، جسے لفظ مذکر مؤنث کے خانہ میں نہیں بانٹا جاتا ، اس کا مطلب یہ ہ کہ خاتون راشٹر پتی کو بھی راشٹر پتی ہی کہا جائے گا۔

تنظیم تحفظ شریعت ویلفیئر سوسائٹی جوکی ہاٹ و پلاسی کی جانب سے ماہِ محرم الحرام کے حقائق، فضائل اور خرافات و بدعات کے عنوان سے پروگراموں کا سلسلہ جاری ہے.

تنظیم تحفظ شریعت ویلفیئر سوسائٹی جوکی ہاٹ و پلاسی کی جانب سے ماہِ محرم الحرام کے حقائق، فضائل اور خرافات و بدعات کے عنوان سے پروگراموں کا سلسلہ جاری ہے
(اردو دنیا نیوز ۷۲)
. ان پروگراموں کا مقصد اصلیہ بالکل صاف اور واضح ہے.  عوام الناس کو اس مہینے کے متعلق صاف صاف لفظوں میں حقائق کو بیان کرنا اور بتلانا ہے. چشمہ شریعت کو نچوڑ کر اس کا خلاصہ پیش کرنا ہے. کسی شاعر نے کہا ہے کہ " حقیقت روایات میں کھو گئی، یہ امت خرافات میں کھو گئی. 
آج مدرسہ امدادالعلوم عیدگاہ ہردار بھیلا گنج کا پروگرام اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی.  جلسہ میں علاقائی علماء کے ساتھ ساتھ دور دراز سے علماء کرام تشریف لائے جنہوں نے مسلمانوں کی ایک جم غفیر کو خطاب کیا. پروگرام کے کنوینر جناب مولانا عبدالوارث مظاہری صاحب نے نامہ نگاروں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تنظیم کی جانب سے ہر سال تقریباً دس سے پندرہ پروگرام خصوصاً ان علاقوں میں کیا جاتا ہے جہاں پر لوگوں میں ناواقفیت اور کم خواندگی ہے. پروگراموں کے تاریخوں کا تعین پہلے ہی کر دیا جاتا ہے اور سوشل میڈیا کے ذریعہ تاریخوں کا اعلان نکال دیا جاتا ہے جس سے لوگوں میں پہلے سے ہی مزاج بنا ہوا ہوتا ہے. اور شوق اور جذبہ کے ساتھ شریک ہر کر  مثبت اثرات کے حامل ہوتے ہیں. ان پروگراموں سے عوام الناس میں محرم الحرام کے مہینے سے قبل ہی ایک حقیقی پیغام پہنچ جاتا ہے جس کے بہترین نتائج ملتے ہیں.  آج کے پروگرام میں خصوصاً
 حضرت مولانا محمد سلمان کوثر صاحب مظاہری دولت پور ، مولانا محمد طاہر صاحب مظاہری دھنپورہ ، مولانا محمد کونین صاحب مظاہری بارا استمبرار ، حافظ محمد عابد راہی ،مفتی محمد اطہر حسین قاسمی صاحب محمد پور  مولانا محمد تنزیل الرحمن ، قاری مظفر صباء  قاری محمد امتیاز ، قاری عبدالقدوس ، مولانا محمد مسری بارااستمبرار قاری محمد ابوذر غفاری مہتمم مدرسہ امداد العلوم عیدگاہ ہردار بھیلا گنج حافظ عبدالسلام ، مولانا محمد عابد صاحب مظاہری ، مولانا محمد منہاج ، اور تنظیم کے اکثر ممبران موجود تھے

سال نوکی آمد -مرحبامفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

سال نوکی آمد -مرحبا
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
(اردو دنیا نیوز ۷۲)
۱۴۴۳ھ گذر ا جا رہا ہے اور ہم ۱۴۴۴ھ میں داخل ہونے والے ہیں، یعنی نئے سال کا سورج ہماری زندگی کے مہہ وسال سے ایک سال اور کم کرنے والا ہے ، ہم موت سے اور قریب ہو گیے ، انسان بھی کتنا نادان ہے وہ بڑھتی عمر کا جشن مناتا ہے، مبارک بادپیش کرتا ہے ، قبول کرتا ہے اور بھول جاتا ہے کہ ہماری عمر جس قدر بڑھتی ہے ، موت اور قبر کی منزل قریب ہوتی رہتی ہے اور بالآخر وقت موعود آجاتا ہے اور آدمی قبر کی آغوش میں جا سوتا ہے۔ جو لوگ صاحب نظر ہیں اور جن کے ذہن میں فکر آخرت رچی بسی ہوئی ہے، وہ گذرے ہوئے سال سے سبق لیتے ہیں ، اعمال کا محاسبہ کرتے ہیں، نئے سال کا استقبال تجدید عہد سے کرتے ہیںکہ آئندہ ہماری زندگی رب مانی گذرے گی ، من مانی ہم نہیں کریں گے ، اس عہد پر قائم رہ کر جو زندگی وہ گذارتے ہیں وہ رب کی خوش نودی کا سبب بنتا ہے اور اس کے نتیجے میں بندہ جنت کا مستحق ہوتا ہے۔
 نئے سال کی آمد پر ہم لوگ نہ محاسبہ کرتے ہیں اور نہ ہی تجدید عہد ، بلکہ ہم میں سے بیش تر کو تو یاد بھی نہیں رہتاکہ کب ہم نئے سال میں داخل ہو گیے، عیسوی کلینڈر سب کو یادہے، بچے بچے کی زبان پر ہے، انگریزی مہینے فرفر یاد ہیں ، چھوٹے چھوٹے بچے سے جب چاہیے سن لیجئے؛ لیکن اسلامی ہجری سال ، جو اسلام کی شوکت کا مظہر ہے، اس کا نہ سال ہمیں یاد رہتا ہے اور نہ مہینے ، عورتوں نے اپنی ضرورتوں کے لئے کچھ یاد رکھا ہے، لیکن اصلی نام انہیں بھی یاد نہیں بھلا ،بڑے پیراور ترتیزی ، شب برأت، خالی، عید ، بقرعید کے ناموں سے محرم صفر ، ربیع الاول ، ربیع الآخر، جمادی الاولیٰ ، جمادی الآخر، رجب ، شعبان، رمضان ، شوال ذیقعدہ اور ذی الحجہ جو اسلامی مہینوں کے اصلی نام ہیں ، ان کو کیا نسبت ہو سکتی ہے ، ہماری نئی نسل اور بڑے بوڑھے کو عام طور پر یا تو یہ نام یاد نہیں ہیں اور اگر ہیں بھی تو ترتیب سے نہیں ، اس لیے ہمیں اسلامی مہینوں کے نام ترتیب سے خود بھی یاد رکھنا چاہیے اور اپنے بچوں کو بھی یاد کرانا چاہیے، یاد رکھنے کی سب سے بہتر شکل یہ ہے کہ اپنے خطوط اور دوسری تحریروں میں اسلامی کلینڈر کا استعمال کیا جائے۔پروگرام اور تقریبات کی تاریخوں میں بھی اس کا استعمال کیا جائے ، کیونکہ بعض اکابر اسے شعار اسلام قرار دیتے ہیں اور شعار کے تحفظ کے لیے اقدام دوسری عبادتوں کی طرح ایک عبادت ہے۔
 ہجری سال کی تعیین سے پہلے، سال کی پہچان کسی بڑے واقعے سے کی جاتی تھی ۔ جیسے قبل مسیح ،عام الفیل ، عام ولادت نبوی وغیرہ، یہ سلسلہ حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے وقت تک جاری تھا ، حضرت عمر ؓ نے اپنے عہد خلافت میں مٰنمجلس شوریٰ میں یہ معاملہ رکھا کہ مسلمانوں کے پاس اپنا ایک کلینڈر ہونا چاہیے ۔ چنانچہ مشورہ سے یہ بات طے پائی کہ اسلامی کلینڈر کا آغاز ہجرت کے واقعہ سے ہو، چنانچہ سال کا شمار اسی سال سے کیاجانے لگا، البتہ ہجرت کا واقعہ ربیع الاول میں پیش آیا تھا ،لیکن سال کا آغاز محرم الحرام سے کیا گیا ، کیونکہ یہ سال کا پہلا مہینہ زمانہ جاہلیت میں بھی تھا۔اس طرح اسلامی ہجری سال کا آغاز محرم الحرام سے ہوتا ہے۔
 محرم الحرام ان چا ر مہینوں میں سے ایک ہے ، جس کا زمانہ جاہلیت میں بھی احترام کیا جاتا تھا، اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا کہ مہینوں کا شمار اللہ کے نزدیک بارہ ہیں اور یہ اسی دن سے ہیں، جس دن اللہ رب ا لعزت نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا ، ان میں چار مہینے خاص ادب کے ہیں ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان چار مہینوں کی تفصیل رجب ، ذیقعدہ ، ذی الحجہ اور محرم بیان کی ہے ، پھر حضرت ابو ذر غفاری ؓ کی ایک روایت کے مطابق اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سوال کے جواب میں فرمایا کہ تمام مہینوں میں افضل ترین اللہ کا وہ مہینہ ہے جس کو تم محرم کہتے ہو ، یہ روایت سنن کبریٰ کی ہے ، مسلم شریف میں ایک حدیث مذکور ہے کہ رمضان کے بعد سب سے افضل روزے ماہ محرم کے ہیں ، اس ماہ کی اللہ کی جانب نسبت اور اسے اشہر حرم میں شامل کرنا اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اس مہینے کی فضیلت شہادت حسین کی وجہ سے نہیں ، بلکہ بہت پہلے سے ہے ۔ 
 اسی مہینے کی دس تاریخ کو یوم عاشوراء کہا جاتا ہے ، رمضان المبارک کے روزے کی فرضیت کے قبل اس دن کا روزہ فرض تھا ، بخاری شریف کی ایک روایت کے مطابق قریش بھی زمانۂ جاہلیت میں عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے، خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس روزہ کا اہتمام فرماتے تھے، یہودیوں کے یہاں اس دن کی خاص اہمیت ہے ، کیوں کہ اسی دن بنی اسرائیل کو فرعون سے نجات ملی تھی، حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ ہجرت کرکے تشریف لے گیے تو یہودیوں کو یوم عاشوراء کا روزہ رکھتے دیکھا ، معلوم ہوا کہ یہودی فرعون سے نجات کی خوشی میں یہ روزہ رکھتے ہیں ، آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ہم یہودیوں سے زیادہ اس کے حقدار ہیں کہ روزہ رکھیں ، لیکن اس میںیہودیوں کی مشابہت ہے ، اس لیے فرمایا کہ تم عاشورا کا روزہ رکھو اور یہود کی مخالفت کرو ، اس طرح کہ عاشوراء سے پہلے یا بعد ایک روزہ اور رکھو۔ علامہ عینی کے مطابق اسی دن حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی ،حضرت یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ سے اور حضرت یوسف علیہ السلام کنویں سے باہر آئے، حضرت یعقوب علیہ السلام کی بینائی اسی دن واپس ہوئی ، حضرت داؤد علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام دنیا میں تشریف لائے، حضرت ایوب علیہ السلام کو مہلک بیماری سے نجات ہوئی، حضرت سلیمان علیہ السلام کو خصوصی حکومت ملی ، اور ہمارے آقا مولیٰ صلی اللہ  علیہ وسلم کو اسی دن ’’ غفر لہ ما تقدم من ذنبہ ‘‘کے ذریعہ مغفرت کا پروانہ عطا کیا گیا ۔ اس طرح دیکھیں تو یہ سارے واقعات مسرت وخوشی کے ہیں اور اس دن کی عظمت وجلالت کو واضح کرتے ہیں،اس لیے اس مہینے کو منحوس سمجھنا ، اوراس ماہ میں شادی بیاہ سے گریز کرنا نا واقفیت کی دلیل ہے اور حدیث میں ہے کہ بد شگونی کوئی چیز نہیں ہے ۔ 
یقینا اس دن حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی اہل خاندان کے ساتھ شہادت تاریخ کا بڑاا لم ناک، کرب ناک اور افسوس ناک واقعہ ہے، جس نے اسلامی تاریخ پر بڑے اثرات ڈالے ہیں، اس کے باوجود ہم اس دن کو بُرا بھلا نہیں کہہ سکتے اور نہ ہی ماتم کر سکتے ہیں، اس لیے کہ ہمارا عقیدہ ہے حضرت حسین ؓ اور ان کے خانوادے اللہ کی راہ میں شہید ہوئے ، حق کی سر بلندی کے لیے شہید ہوئے اور قرآن کریم میںان حضرات کے بارے میں ارشاد ہے کہ جو اللہ کے راستے میں قتل کردیے گئے انہیں مردہ مت کہو ، بلکہ وہ زندہ ہیں، البتہ تم ان کی زندگی کو سمجھ نہیں سکتے ، قرآن انہیں زندہ قرار دیتا ہے ، اور ظاہر ہے ہمیں تومُردوں پر بھی ماتم کرنے ، گریباں چاک کرنے ، سینہ پیٹنے اور زور زور سے آواز لگا کر رونے سے منع کیا گیاہے، پھر جو زندہ ہیں، ان کے ماتم کی اجازت کس طور دی جا سکتی ہے ۔ ایک شاعر نے کہا ہے   ؎
روئیں وہ، جو قائل ہیں ممات شہداء کے ہم زندۂ جاوید کا ماتم نہیں کرتے
اس دن حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی یاد میں تعزیے نکالے جاتے ہیں، تعزیہ نکالنے کی اجازت تو شیعوں کو چھوڑ کر کسی کے یہاں نہیں ہے ، پھر جس طرح تعزیہ کے ساتھ نعرے لگائے جاتے ہیںیاعلی، یا حسین ؓ یہ تو ان حضرات کے نام کی توہین لگتی ہے ، حضرت علی ، کے نام کے ساتھ کرم اللہ وجہہ اور حضرت حسین کے نام کے ساتھ رضی اللہ عنہ لگانا عظمت صحابہ کا تقاضہ اور داماد رسول اور نواسہ رسول کے احترام کا ایک طریقہ ہے ۔ لیکن جلوس میں اس کی پرواہ کس کو ہوتی ہے ، اس طرح ان حضرات کا نام ٹیڑھا میڑھا کرکے لیتے ہیں کہ ہمارے باپ کا نا م اس طرح بگاڑ کرکوئی لے تو جھگڑا رکھا ہوا ہے ، بے غیرتی اور بے حمیتی کی انتہا یہ ہے کہ اسے کار ثواب سمجھا جا رہا ہے ، دیکھا یہ گیا ہے کہ اس موقع سے جلوس کے ساتھ بعض جگہوں پر رقاصائیں رقص کرتی ہوئی چلتی ہیں، عیش ونشاط اور بزم طرب ومسرت کے سارے سامان کے ساتھ حضرت حسین کی شہادت کا غم منایا جاتا ہے، اس موقع سے شریعت کے اصول واحکام کی جتنی دھجیاں اڑائی جا سکتی ہیں، سب کی موجودگی غیروں کے مذاق اڑانے کا سبب بنتی ہے ، اور ہمیں اس کا ذرا بھی احساس وادراک نہیں ہوتا ۔
جلوس کے معاملہ میں ہمیں ایک دوسرے طریقہ سے بھی غور کرنے کی ضرورت ہے ، تاریخ کے دریچوں سے دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ حضرت حسین رضی اللہ علیہ کی شہادت کے بعد اس خانوادہ میں بیمار حضرت زین العابدین اور خواتین کے علاوہ کوئی نہیں بچا تھا ،یہ ایک لٹا ہوا قافلہ تھا ، جس پریزیدی افواج نے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے تھے، ان کے پاس جلوس نکالنے کے لیے کچھ بھی نہیںبچا تھا، تیر ،بھالے ، نیزے اورعَلم تو یزیدی افواج کے پاس تھے، حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا سر نیزے پر تھا اوریزیدی بزعم خود اپنی فتح وکامرانی کاجلوس لیکر یزیدکے دربار کی طرف روانہ ہوئے تھے، ہمارے یہاںجلوس میں جو کروفراور شان وشوکت کا مظاہرہ کیا جاتا ہے ، یہ کس کی نقل کی جا رہی ہے؟ ذرا سوچئے کھلے ذہن سے سوچیے تو معلوم ہوگا کہ ہم کسی اور کی نقل کر رہے ہیں، حسینی قافلہ کی تو اس دن یہ شان تھی ہی نہیں، اس لیے مسلمانوں کو ایسی کسی بھی حرکت سے پر ہیز کرنا چاہیے ، ایسے جلوس میں نہ خود شامل ہوں اور نہ اپنے بچوںکو اس میں جانے کی اجازت دیں۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...