Powered By Blogger

اتوار, اگست 07, 2022

प्रकाशनार्थपुपरी /07-08-22-------------------------------अतिपिछड़ा वर्ग का चिन्तन बैठक संपन्न।------------------------

प्रकाशनार्थ
पुपरी /07-08-22
-------------------------------
अतिपिछड़ा वर्ग का चिन्तन बैठक संपन्न।
-------------------------------
(Urduduniyanews72)
     उपेक्षित एवं अत्यंत पिछड़ा वर्ग संघ प्रखंड इकाई पुपरी का चिंतन बैठक स्थानीय पंचेश्वर मंदिर प्रांगण पुपरी में जिला संयोजक राजेंद्र महतो की अध्यक्षता में हुई।
     बैठक में उपेक्षित एवं अति पिछड़ा वर्गों की विभिन्न समस्याओं पर विचार विमर्श किया गया। चिंतन बैठक को संबोधित करते हुए विनोद बिहारी मंडल सामाजिक चिंतक ,ने कहा कि आबादी का लगभग 46% अति पिछड़ा वर्ग की जातियां संवैधानिक अधिकारों से वंचित है। जननायक का वास्तविक अति पिछड़ा के सभी अधिकारो के साथ हकमारी  एक साजिश के तहत  किया जा रहा है। राष्ट्रीय स्तर पर अति पिछड़ा वर्ग की पहचान नहीं होने के कारण संवैधानिक सुविधाओं से वंचित है। वोट हमारा सब कोई लेता हक हमारा कोई ना देता। जब हक की बात आती है तो हमे  शासक वर्ग साज़िश के तहत्  हमारे अधिकारों से वंचित रखे हुआ है। उन्होंने अति पिछड़ा के सभी नौजवानों से अपने अधिकारों की रक्षा के लिए एकजुट होने की अपील की।
      कार्यक्रम संयोजक राम आशीष महतो ने कहा कि जिन उद्देश्यों के लिए आरक्षण की व्यवस्था हमारे महापुरुषों ने कमजोर वर्गों के लिए किया था वह शासक वर्गों की साजिश के कारण तार तार हो गया। उन्होंने समाज के सभी लोगों से अपने अधिकार को बचाने के लिए संघर्ष करने का आह्वान किया।
      रामबाबू शर्मा ने कहां की आजादी की लड़ाई में हमारे महापुरुषों ने जान की बाजी लगाकर देश को आजाद कराया ,लेकिन देश, समाज ने हमारे महापुरुषों की शहादत को भुला दिया। अपने महापुरुषों के सहादत समारोह घर घर में मनाने का आह्वान किया।
      सुरेश महतो ,पंचायत समिति सदस्य ने कहा कि पंचायतों में अति पिछड़ों का आरक्षण जनसंख्या के अनुपात में 35% बढ़ाने की तथा अति पिछड़ा वर्ग के जनप्रतिनिधियों को संरक्षण देने की मांग की।
     रामधारी महतो अनुमंडल अध्यक्ष ,पुपरी ने कहा कि अधिकार मांगने से नहीं मिलता है अधिकार छीनना पङता है। हमारा जो अधिकार हनन कर रहा है उससे एकजुट होकर वापस लेने का आह्वान किया।
     राकेश चंद्रवंशी ने कहां की राष्ट्रीय स्तर पर अति पिछड़ा वर्ग की अलग पहचान नहीं होने के कारण संवैधानिक अधिकारों से कोसों दूर है।
उमेश राउत ,अधिवक्ता ने कहा कि न्यायिक सेवा आयोग के गठन किए बिना सामाजिक न्याय का सपना पूरा नहीं हो सकता है।
  रामदेव पंडित ने  उपेक्षित अत्यंत पिछड़ा वर्ग के लड़कियों के लिए हर जिले में माता सावित्रीबाई फुले छात्रावास निर्माण करने की मांग की।
 बैठक में पुपरी प्रखंड स्तरीय उपेक्षित एवं अत्यंत पिछड़ा वर्ग संघ के तदर्थ कमेटी का गठन रामबाबू शर्मा के संयोजकत्व में किया गया। जिसके संयोजक मंडल सदस्य सोनू मंडल, महेश महतो ,राम कैलाश मंडल ,सुरेश महतो, सुबोध मंडल ,मदन महतो ,उमेश राउत, दिनेश महतो ,कपूरचंद महतो, रामेश्वर मुखिया, समीर ठाकुर, एवं राम देव पंडित को बनाया गया।
   चिंतन बैठक में सीताराम मालाकार योगेंद्र महतो ,रामदेव पंडित, शंकर पंडित, राम लाल महतो ,श्री राम महतो, हरिश्चंद्र महतो, महेंद्र महतो, शिवनाथ महेश महतो, उपेंद्र महतो, मदन कुमार महतो ,रामजस महतो, शंभू महतो, हरिराम पंडित ,पंचू कुमार महतो, सत्येंद्र महतो,भोला कुमार, राम प्रसाद महतो, संजय कुमार, राजकुमारी देवी, पितांबर महतो सहित दर्जनों लोग उपस्थित थे।

الیکٹرک گاڑیوں سے پھیلتی آلودگی

الیکٹرک گاڑیوں سے پھیلتی آلودگی 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھند
(اردو دنیا نیوز۷۲)
=========================
ڈیزل پٹرول کے مہنگے ہونے اور غیر ملکوں سے بر آمدگی پر انحصار کی وجہ سے الیکٹرک اور بیٹری والی گاڑیوں کو تیزی سے رواج مل رہا ہے ، گیس سے چلنے والی گاڑیوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے ، سوسائٹی آف ایرارتھ کا کہنا ہے کہ ایک الکٹرک کا ر بنانے میں سنتاون (۵۷) کلو کچا مال لگتا ہے، جس میں آٹھ کلو لیتھی یم ، پینتیس (۳۵) کلو نِکل، چودہ کلو کو بالٹ ہوتا ہے، ان مادوں کو زمین سے نکالنے میں چار ہزار دو سو پچہتّر(۴۲۷۵) کلو ایسڈ کچڑا اور سنتاون کلو ریڈیو ایکٹیوپیدا ہوتا ہے، اس کے علاوہ الکٹرک گاڑیوں کے بنانے میں (۹) ٹن کاربن نکلتا ہے، جب کہ پٹرول میں یہ ۶ء ۵؍ ٹن ہی پیدا ہوتا ہے، یہی حال پانی کے استعمال کا ہے، الیکٹرک گاڑیوں کی تیاری میں تیرہ ہزار پانچ سو لیٹر پانی لگتا ہے، جب کہ پٹرول کار میں صرف چار ہزار لیٹر پانی کا استعمال ہوتا ہے، اب اگر الیکٹرک گاڑیوں کو کوئلے سے بنی بجلی سے چار ج کریں تو ڈیڑھ لاکھ کلو میٹر چلنے پر پٹرول کا ر کی بہ نسبت بیس (۲۰) فی صد کم کاربن نکلے گا۔
ہندوستان میں ستر فی صد بجلی کی پیداوار کوئلے کے ذریعہ ہی ہوتی ہے اس لیے ہم الکٹرک گاڑیوں کے ذریعہ صرف بیس فیصد فضائی آلودگی کو کم کر سکتے ہیں، یہاں یہ بھی یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ ہم ہندوستان کا مقابلہ یورپین ممالک سے نہیں کر سکتے، کیون کہ وہاں الکٹرک گاڑیاں ۶۹؍ فی صد کم کاربن پیدا کرتی ہیں، کیوں کہ وہاں ساٹھ (۶۰) فی صد بجلی بغیر کوئلے کی مدد کے پیدا کی جاتی ہے ۔
 مرکزی حکومت کا ہدف یہ ہے کہ ۲۰۳۰ء تک ستر فی صد کمرشیل کاریں، تیس (۳۰) فیصد نجی کاریں، چالیس (۴۰) فی صد بائیک، موٹر سائکل اور اسکوٹر نیز اسی (۸۰) فی صد اوٹو گاڑیوں کو الکٹرک انجن میں بدل دیا جائے، اس سے فضائی آلودگی کم ہوگی ، لیکن پھر بھی ہندوستان میں آلودگی کا مسئلہ بر قرار رہے گا، کیوں کہ ہمارے یہاں آلودگی صرف گاڑیوں سے نہیں پھیلتی، اس سے زیادہ دوسرے ذرائع سے ہماری فضا آلودہ ہوتی ہے، جب تک درختوں کی کٹائی رکے گی نہیں ، گندی نالیوں کا گرنا دریاؤں میں بند نہیں ہو گا ، آتش بازی اور پٹاخوں کے شور کو کم نہیں کیا جا ئے گا تب تک فضا آلودہ ہوتی رہے گی اور آلودہ فضا سے جانداروں کو نقصان پہونچتا رہے گا، آج ساری دنیا پر فضائی آلودگی کا مہیب سایہ ہے اور ہمارے سائنس داں اسے دور کرنے میں اب تک کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔

غمِ حُسینؑذکیؔ احمد(چندن پٹّی،دربھنگہ)

غمِ حُسینؑ
ذکیؔ احمد(چندن پٹّی،دربھنگہ)
(اردو دنیانیوز۷۲)
غمِ حُسینؑ وسیلہ تھا رہنمائی کا
بہانہ اس کو بناڈالا خودنُمائی کا
خلوصِ دل سے عزائے حُسینؑ برپا ہو
توحق ادا ہو محمدؑکی ہمنوائی کا
وہ سادہ لوح عزاداراب کہاں ملتے ہیں 
ہماراگریہ بھی باعث ہے جگ ہنسائی کا
نکل کے شوق سے کچھ مومنات بے پردہ
مذاق اُڑاتی ہیں زینبؑ کی بے روائی کا
حصولِ زرکا ذریعہ بنایا منبرکو
لبادہ اوڑھ کے حسینؑ کے فدائی کا
بندھی بندھائی ہوئی ذاکری کی اجرت میں 
گوارامجھ کو نہیں فرق اک پائی کا
زباں پہ تذکرئہ فقرِ بوذرؓوسلماں ؓ
مگرشہیدزرومال کی خدائی کا
میں ذکروفکر میں اپنا خیال رکھتاہوں 
مجھے خیال نہیں قوم کی بھلائی کا
ملول رہتے ہیں جب دوست آشنا مجھ سے 
میں کیسے دعویٰ کروں شہؑ سے آشنائی کا
ذکیؔ میں دعوئہ حُبّ حُسینؑ کرتا ہوں 
یہ اوربات ہے،دشمن ہوں اپنے بھائی کا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مُرسلہ:
سلمان احمد
چندن پٹّی،دربھنگہ

الحمدللہ تحفظ شریعت کی طرف سے مسلسل ماہ محرامحرام ۱۴۴۴ھ پروگرام سلسہ وار ابھی تک چل رہا ہے

الحمدللہ تحفظ شریعت کی طرف سے مسلسل ماہ محرامحرام ۱۴۴۴ھ پروگرام سلسہ وار ابھی تک چل رہا ہے 
(اردو دنیا نیوز ۷۲)
ماشاءاللہ جامع مسجد بھیبھرا کا پروگرام کامیاب رہا
زیر صدارت حضرت مولانا عبدالوارث مظاہری سکریٹری تحفظ شریعت
تلاوت قاری محمد مظفر صباء انجم
نعت پاک شاعر اسلام مولانا فیاض احمد راہی صاحب سونا پور
مقرر خصوصی حضرت مولانا و مفتی مجیب صاحب صدر مدرس مدرسہ یتیم خانہ انوار العلوم کاشی باڑی ، مولانا تنزیل الرحمن صاحب عرفانی ، ماسٹر ابو البشر صاحب ڈہٹی پلاسی ، مفتی محمد اطہر حسین صاحب قاسمی ، مولانا محمد مزمل صاحب قاسمی ، قاری عبدالرحیم صاحب ، اور پروگرام میں شریک رہے محمد مسعود بھائی ، سمیتی محمد فیروز ، مولانا محمد ارشاد صاحب قاسمی ، مولانا عبدالرزاق صاحب ، سابق مکھیا حافظ محمد ساجد صاحب وغیرہ موجود رہے پروگرام کی نگرانی حافظ عبدالقدوس صاحب کربلا فرما رہے تھے ، اور مولانا عبدالرزاق صاحب کی دعاء پر مجلس اختتام ہوئی

ہفتہ, اگست 06, 2022

مولاناگل محمدواقعی اسم بامسمی تھے

مولاناگل محمدواقعی اسم بامسمی تھے
(اردو دنیا نیوز ۷۲)
   مدرسہ شمس العلوم چکنی گریا شہر ارریہ سے ۱۳/کلومیٹر فاصلہ پر واقع ہے، اس ادارہ کے بانی ومہتم جناب مولانا گل محمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ ہیں، ابھی کچھ ہی دنوں پہلے حضرت کی وفات ہوئی ہے،اسی نسبت پر مدرسہ کےاحاطہ میں ایک تعزیتی نشست منعقد کی گئی، مولانا مرحوم کے متعلقین ومحبین اور شاگردوں کے ایک بڑی جماعت اس پروگرام میں شریک ہوئی، مجھے بھی مذکورہ پروگرام میں حاضر ہونےکا موقع نصیب ہواہے، تعزیتی نشست کے عنوان پر میں نےاتنی بڑی جمعیت دیہات کےعلاقہ میں نہیں دیکھی ہےجو خالص مرحوم کے محاسن وخدمات اور ایصال ثواب کے لیے منعقد کی گئی ہو،یہاں پہونچ کریہ بھی معلوم ہوا کہ موصوف کا جنازہ بھی اپنی کثرت تعداد کی وجہ سے قرب وجوارمیں مثالی بن گیا ہے، مولانا گل محمد کے انتقال پر پورا علاقہ سوگوار ہے،ہرآدمی اسے اپنا ذاتی خسارہ اور نقصان کہ رہا ہے، گویا ایک عالِم کی موت ایک عالم کی موت کا نقشہ یہاں نظر آگیا ہے، بقول شاعر؛
        موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس 
       یوں تو دنیا میں سبھی آتے ہیں مرنے کے لیے 
آخر یہ محبت وعقیدت اور محبوبیت ومقبولیت کا راز کیا ہے؟ اس بھاگ دوڑ کے زمانہ میں بھی یہ قیمتی لوگ اپنا قیمتی وقت مرحوم کے لیے وقف کیوں کیے ہوئے ہیں؟      یہ وہ سوالات تھے جو خود میرے ذہن میں پیداہوئے،
پروگرام شروع ہوا،باری باری علماء کرام اور مولانا مرحوم کے فرزند ارجمند قاری شاہد صاحب مظاہری اورمولانا کے شاگردوں نے حیات وخدمات پر روشنی ڈالنی شروع کی تو سب کے جوابات مل گئےاورمولانا کے بارے میں یہ باتیں میرے علم میں آئیں کہ؛مرحوم نےاپنی پوری زندگی کو علم دین کےاشاعت کےلیے وقف کردی ،آپ مولانا منت اللہ رحمانی رحمۃ اللہ کے مرید تھے، مدرسہ کو ہی اپنا اوڑھنا اور بچھونا بنالیا، قریب میں اپنا گاؤں تھا، بہت ہی مختصر وقت کے لیے گھرتشریف لے جاتے،ایسا محسوس ہوتا جیسے بڑی جلدی میں ہیں، مدرسہ واپس ہوتے تو پھر سکون کی کیفیت میں آجاتے،اپنی عمر کی تقریبا پچاس سالہ زندگی آپ نے مدرسہ کی نذرکردی، آپ مدرسہ مفتاح العلوم چکنی کے بھی بانی ہیں، پاؤں سے معذور ہوتے ہوئے بھی اپنے سر پر مٹی کی ٹوکری رکھ کرکمرہ میں ڈالتے ہوئے لوگوں نے دیکھا ہے،اسی محنت ومحبت کو دیکھ کر گریا والوں نے اپنی ۹۹/ڈسمل قیمتی زمین آپ کے حوالہ کردی، 
۱۹۹۶ءمیں مدرسہ شمس العلوم گریا کی بنیاد ڈالی گئی ،تاوفات مرحوم اس ادارہ سے وابستہ رہے،کتنے غیر مسلم حضرات مولانا کے پاس آتے اور یہاں سے دعا لیکر جاتے ،گویا آپ نے اپنے نام کی پوری زندگی لاج رکھی، قرآن کریم میں عالم کو نبی کا جانشین کہا گیا ہے، سنت نبوی کو اپنی زندگی میں زندہ کرنے کی حتی المقدورآپ نے سعی کی، 
حضرت علی میاں رحمۃ اللہ کی زبان میں عالم جہاں بھی ہو وہ ایک قبلہ نما کی حیثیت رکھتا ہے، وہ قبلہ بتلاتا ہے، رہبری ورہنمائی کا کام کرتا ہے، مولانا مرحوم اپنی خدمت شہر سے دور رہ کر اس فرض منصبی کو انجام دیتے رہے، اور صفہ نبوی سے وابستہ ان  اداروں کی آبیاری کرتےرہے،اس کی برکت ظاہر ہوئی،اورآپ کی محبت زمین پر پھیلادی گئی، آج یہ چاہنے والوں کی ایک بڑی جماعت کھڑی ہوگئی ہے،
خداکی مدد شامل حال ہوگئی، آپ نے مرنے کے بعد بھی زندگی کے تینوں کام انجام دیے ہیں،گرانقدر خدمات اور کئی ادارہ کی شکل میں صدقہ جاریہ کا کام آپ نےکیاہے،شاگردوں کی شکل میں علمی سلسلہ قائم کردیاہے،قاری شاہد صاحب مظاہری کی شکل میں نیک وصالح فرزند چھوڑ کر اس دار فانی سے رخصت ہوئےہیں، حدیث کی زبان میں یہ تینوں کام دراصل زندگی کا نام ہے،مولانا گل محمد صاحب رحمۃ اللہ ہمارے لیے نمونہ چھوڑ گئے ہیں، اللہ حضرت کے درجات بلند فرمائے، واقعی آپ اسم بامسمی تھے، 
      کون کہتا ہےکہ موت آئی تو مرجاؤں گا 
    میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں گا 

ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ
۷/محرم الحرام ۱۴۴۴ھ

روئیں وہ جو منکر ہیں شہادت حسین کے ۔شمشیر عالم مظاہری دربھنگویامام جامع مسجد شاہ میاں روہوا ویشالی بہار

روئیں وہ جو منکر ہیں شہادت حسین کے ۔
شمشیر عالم مظاہری دربھنگوی
امام جامع مسجد شاہ میاں روہوا ویشالی بہار 
(اردو دنیا نیوز۷۲)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دوسرے نواسے اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ و حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کے چھوٹے صاحبزے حضرت حسین کی ولادت شعبان چار (4) ہجری میں ہوئی رسولِ خدا ﷺ نے ہی ان کا نام حسین رکھا ،ان کو شہد چٹایا، ان کے منہ میں اپنی زبان مبارک داخل کرکے لعاب مبارک عطا فرمایا اور ان کا عقیقہ کرنے اور بالوں کے 
 ہم وزن چاندی صدقہ کرنے کا حکم دیا ۔ حضرت فاطمہ نے ان کے عقیقہ کے بالوں کے برابر چاندی صدقہ کی اپنے بڑے بھائی حضرت حسن کی طرح حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ بھی رسول اللہ ﷺ کے مشابہ تھے اور آپ ﷺ کو ان سے بھی غیر معمولی محبت اور تعلق تھا جب رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوئی تو حضرت حسین کی عمر صرف چھ یا سات سال تھی لیکن یہ چھ سات سال آپ کی صحبت اور محبت و شفقت میں گزرے رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر اور حضرت عمر نے خاص لطف و کرم اور محبت کا برتاؤ کیا حضرت عمر کے آخری زمانۂ خلافت میں آپ نے جہاد میں شرکت شروع کی ہے اور پھر بہت سے معرکوں میں شریک رہے حضرت عثمان غنی کے زمانہ میں جب باغیوں نے ان کے گھر کا محاصرہ کر لیا تھا تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اپنے دونوں بیٹوں حسن اور حسین کو ان کے گھر کی حفاظت کے لیے مقرر کر دیا تھا حضرت علی کی شہادت کے بعد حضرت حسن نے جب حضرت معاویہ سے مصالحت کرکے خلافت سے دستبرداری کے ارادہ کا اظہار کیا تو حضرت حسین نے بھائی کی رائے سے اختلاف کیا لیکن بڑے بھائی کے احترام میں ان کے فیصلہ کو تسلیم کر لیا البتہ جب حضرت حسن کی وفات کے بعد حضرت معاویہ نے یزید کی خلافت کی بیعت لی تو حضرت حسین اس کو کسی طرح برداشت نہ کرسکے اور یزید کے خلیفہ بن جانے کے بعد آپ نے بہت سے مخلصین کی رائے ومشورہ کو نظر انداز کرکے جہاد کے ارادہ سے مدینہ طیبہ سے کوفہ کے لیے تشریف لے چلے ابھی مقام کر بلاء ہی تک پہنچے تھے کہ واقعہ کربلا کا پیش آیا اور آپ وہاں شہید کر دیئے گئے رضی اللہ عنہ، وارضاہ۔  تاریخ وفات دس (10)محرم اکسٹھ (61) ہجری ہے اس وقت عمر شریف تقریباً پچپن (55) سال تھی
امام ترمذی نے حضرت یعلی بن مرہ کی روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ  نے فرمایا ۔  حسین  منی و انا من حسین احب اللہ من احب حسینا حسین سبط من الاسباط (جامع ترمذی) 
 ترجمہ۔ حسین میرے ہیں اور میں حسین کا، جو حسین سے محبت کرے اللہ اس سے محبت کرے حسین میرے ایک نوا سے ہیں ۔
حسین زندہ ہیں جنت میں چین کرتے ہیں ،
حسد ہے ان کو جو شور شین کرتے ہیں ۔
شہادت تو ایسی چیز نہیں کہ اس پر رنج و غم کا اظہار کیا جائے ماتم کیا جائے یا انگاروں پر رقص بسمل کیا جائے ۔
حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ لشکرِ کفار کو خطاب کرکے کہا کرتے تھے ظالمو تمہیں شراب ا تنی محبوب نہیں جتنی ہمیں اللہ کے راستے میں موت محبوب ہے ۔
شہید کی موت 
ایک شہید کی موت پر ذرا غور کیجئے ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ ایک مردِ مجاہد میدان جہاد میں زخم کھا کر گھوڑے سے گر پڑا اور اس کی روح پرواز کر گئی ہم نے اس کی موت کا یقین کر لیا اس کی نمازِ جنازہ پڑھی گئی اور وہ قبر میں دفن کردیاگیا ساری دنیا نے مان لیا اور اعلان کردیا کہ وہ مر گیا ‌۔  لیکن عالم الغیب والشہادہ  کا اس کے بارے میں یہ اعلان اور فرمان ہے ۔
مفہوم ! راہ خدا کے شہیدوں کو یہ نہ سمجھ لو کہ وہ مر گئے فنا ہو گئے نہیں بلکہ وہ خدا کے پاس ایک بہترین زندگی میں جی رہے ہیں اور یہی نہیں کہ وہ دل بہلاوے کی برائے نام زندگی ہو نہیں بلکہ وہ وہاں روزیاں دیئے جا رہے ہیں اور وہ بھی خدا کی طرف سے۔  سنو جو فضل خدا انہیں وہاں حاصل ہے اس پر وہ خوشیاں منا رہے ہیں بلکہ اس راہ کے اور رہروؤں کو بھی وہ وہیں سے یہ خوشخبریاں پہنچا رہے ہیں کہ وہ بھی نہ ترساں ہوں نہ ہراساں ہوں بے خوف رہیں بے غم رہیں یہ شہداء خود بھی خوشیوں میں ہیں اور آنے والے شہداء کو بھی خوشیاں پہنچا رہے ہیں کہ اللہ تعالی کا فضل اور اللہ کی نعمت انہیں ملنے والی ہے۔  یہ تو یقینی بات ہے کہ کسی ایماندار کے کسی عمل کا اجر خداوند ذوالجلال ضائع نہیں کرتا پھر شہداء جو اپنے خون میں راہ للہ نہا چکے ان کے اجر وہ ارحم الراحمین خدا کیسے کھودے گا ؟ 
حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ  نے ایک دن صحابہ کے مجمع کے سامنے بیان فرمایا کہ جس دن جنگ احد کے موقع پر تمہارے ساتھی شہید ہوئے جنابِ باری تبارک و تعالی نے ان کی روحوں کو سبز رنگ کے پرندوں کے جسموں میں کردیا جنت کی نہروں کا وہ پانی پئیں اور جنت کے میوے اور پھل پھول کھائیں اور راتوں کو عرش تلے کی سونے کی قندیلوں میں رہیں سہیں جب ایسی بہترین جگہ اور اتنی نفیس غذا انہیں ملی تو یہ آپس میں کہنے لگے کہ کیا اچھا ہوتا جو کوئی یہ خبر ہمارے زندہ بھائیوں کو بھی پہنچا دیتا کہ ہم یہاں زندہ ہیں اور اس عیش و عشرت میں چین کر رہے ہیں تاکہ وہ بھی یہاں پہنچنے کی کوشش کریں لڑائی میں سست نہ پڑجائیں اور جنت کی طمع میں بڑھ جائیں ان کی اس آرزو کو دیکھ کر جناب باری تعالیٰ نے فرمایا میں تمہاری اس خواہش کو پوری کردیتا ہوں اسی وقت حضرت جبریلِ امیں کو یہ آیتیں دے کر بھیجا (و لا تحسبن الذین قتلوا فی سبیل اللہ امواتا بل احیاء عند ربھم یرزقون) (ابو داؤد)
شہادت کی موت کا جو عظیم رتبہ اور بلند مرتبہ ہے ہماری دنیا کی زندگی اس عظمت نشان موت کے مقابلے میں بھلا کیا حقیقت رکھتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ تمام مقبولان بارگاہ الہی میں ہمیشہ شہادت کی تمنا کرتے رہے بلکہ خود دونوں عالم کے تاجدار محبوب پروردگار ﷺ  نے بار بار اس کی تمنا کرتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا ۔ مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے قبضۂ  قدرت میں میری جان ہے کہ یہ میری تمنا ہے کہ میں خدا کی راہ میں قتل کیا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر قتل کیا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر قتل کیا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر قتل کیا جاؤں، (مشکوٰۃ)
رحمتِ عالم ﷺ یہ تمنا  فرما رہے ہیں کہ مجھے شہادت کی موت نصیب ہو پھر اس کے بعد مجھے نئی نئی زندگی ملے اور ہر زندگی کے بعد میں خدا کی راہ میں قتل کیا جاؤں یہ میری آرزو ہے ۔
روئیں وہ جو منکر ہیں شہادت حسین کے ۔
ہم زندہ جاوید کا ماتم نہیں کرتے

اسلام اور مسلمان (جلد دوم)

اسلام اور مسلمان (جلد دوم)
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھند
=========================
( اردو دنیانیوز۷۲)
چند ماہ قبل امیر شریعت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی دامت برکاتہم کے ہاتھوں امارت شرعیہ کی میٹنگ روم میں پروفیسر ڈاکٹر محمد یونس حسین حکیم (ولادت ۲۲؍جولائی ۱۹۴۳ئ؁) بن سخاوت علی کی کتاب’’ اسلام اور مسلمان حصہ دوم‘‘ کا اجراء عمل میں آیا، جو عقیدۂ رسالت مع سیرۃ النبی کے موضوع پر ہے، اس کتاب کی اشاعت دینی تعلیمی مرکز گرین دھرم پورسمستی پور سے ہوئی ہے، کمپوزنگ سیف اللہ ندوی علی گڑھ کی ہے، جس میں سلیقگی ہے، ٹائٹل پر گنبد خضرا مع مسجد نبوی کے مینار کی شمولیت نے اسے دیدہ زیب بنا دیا ہے، تین سو اٹھائیس(۳۲۸) صفحہ کا ہدیہ تین سو روپے ہے، ہدیہ اجباری نہیں ہوتا، لیکن جب یہ قیمت کے معنی میں آتا ہے تو اس کے حقیقی معنی متروک ہوجاتے ہیں، تین سو روپے دیجئے اور کتاب حاصل کیجئے، کتاب حاصل کرنے کا پتہ گرین لینڈ اسکول ہے اور پتہ ناشر کے ذیل میں اوپر درج کیا گیا ہے، رابطہ نمبر 9661754509 پر رابطہ کرلینے سے شاید مفت ملنے کی شکل بھی نکل آئے، طلب کی دونوں قسم ہے، ہدیۃً بھی اور مجاناً بھی، آپ طلب کرکے تو دیکھئے۔
’’عقیدہ رسالت اور مضامین سیرۃ النبی‘‘ سے پہلے آپ کو نصف درجن ان علماء کے تاثرات بھی پڑھنے ہوںگے، جو کتاب کی قدر وقیمت کو واضح کرنے کے لئے ابتداء کتاب میں شامل کیے گیے ہیں، حرف آغاز جو خود مؤلف کتاب کی طرف سے ہے، اس کو شامل کرلیں تو یہ تعداد سات ہوجاتی ہے، حرف آغاز کے بعد مقدمہ مولانا انیس الرحمن قاسمی سابق ناظم امارت شرعیہ، تقریظ پروفیسر شمیم الدین احمد منعمی، کلمات تحسین مولانا ڈاکٹر ابو الکلام قاسمی شمسی تأثرات پروفیسر فاروق احمد صدیقی، اظہار رحمانی، جناب امتیاز احمد کریمی اور تعارف مولانا محمد خالد ضیا صدیقی ندوی کا ہے، ان حضرات نے اپنی تحریروں میں کتاب کے خصائص اور صاحب کتاب کے وسعت مطالعہ کی د ا دی ہے، بعض نے کتاب کے اقتباس نقل کرکے اپنی تحریر کو طویل کیا ہے، مولانا انیس الرحمن قاسمی لکھتے ہیں: ’’یہ کتاب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا بہتر مرقع پیش کرتی ہے۔۔۔ ہمیں امید ہے کہ یہ کتاب عند اللہ بھی مقبول ہوگی اور عند الناس بھی (صفحہ ۲۴) پروفیسر سید شاہ شمیم الدین احمد منعمی نے اس اقرار کے بعد کہ وہ عدیم الفرصتی کی وجہ سے پوری کتاب کا مطالعہ خاطر خواہ طورپر نہ کرسکے، لکھا ہے کہ ’’ایک سرسری نظر میں ان کی کاوش صحت مند محسوس ہوئی، لب ولہجہ آسان اور گفتگو واضح ہے، جس سنجیدگی اور توجہ کے ساتھ انہوں نے سیرت کے مطالعے اور پھر حاصل مطالعہ کے اس قدر ضخیم اظہار کے لیے اپنی علمی وسیاسی مصروفیت کے باوجود وقت نکالا وہ قابل حیرت بھی ہے اور لائق آفریں بھی، (صفحہ۲۷) مولانا ڈاکٹر ابو الکلام قاسمی کی رائے کہ ’’عقیدہ رسالت مع سیرۃ النبیؐ نہایت ہی اہم کتاب ہے، کتاب کی زبان سادہ اور سلیس ہے، یہ کتاب اپنے موضوع پر محیط ہے (صفحہ۲۹) پروفیسر فاروق احمد صدیقی لکھتے ہیں ’’ہر مقام پر ان کا قلم بے حد محتاط اور مؤید من اللہ رہا ہے (صفحہ۳۱) امتیاز احمد کریمی لکھتے ہیں: ’’یہ کتاب سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر طویل کوششوں کا سرمایہ ہے اور سیرت نبوی کے سلسلے میں مفصل رہنمائی کرتی ہے، مولانا محمد خالد ضیا صدیقی ندوی نے اس کتاب کا تعارف پیش کیا ہے، ان کا خیال ہے کہ ’’کتاب جہاں مواد ومباحث اور حسن ترتیب کے لحاظ سے امتیازی شان وشوکت رکھتی ہے، وہیں اپنے اسلوب بیان کے لحاظ سے بھی منفرد مقام رکھتی ہے، پوری کتاب انتہائی سہل، عام فہم، مگر شگفتہ وشائستہ اسلوب کی نمائندگی کرتی ہے، ہر خاص وعام آسانی سے استفادہ کر سکتا ہے، انہوں نے اس کتاب میں پوری دیانت داری کے ساتھ حوالہ کا بھی اہتمام کیا ہے‘‘۔
ان اساطین علم وادب کی تحریروں کے بعد لکھنے کو بچ ہی کیا جاتا ہے، یقینا ڈاکٹریونس حکیم صاحب کی دلچسپی اسلامیات ودینیات سے قابل رشک ہے، وہ سائنس کے طالب علم رہے ہیں اور ایک زمانہ تک اسے پڑھایا بھی ہے، اس لیے ان کے انداز بیان میں حشو وزوائد کا گذر نہیں ہے، انہیں دو اور دو چار کی طرح اپنی بات رکھنے کا فن آتا ہے، اس لیے مشکل مباحث بھی ان کی تحریروں سے قاری کی ذہنی گرفت سے گریزاں نہیں ہوتے، بات عقیدۂ رسالت کی ہو یا سیرت کے واقعات کی وہ بہت سادہ لفظوں میں حقیقت بیان کردیتے ہیں، وہ اسلوب اور تعبیر میں اس کا خیال رکھتے ہیں کہ بات متنازع امور کے دائرے میں نہ جائے، جو متفقہ امور، عقائداور سیرت پاک کے صحیح اور سچے واقعات ہیں، ان کا انتخاب انہوں نے اس کتاب میں پیش کیا ہے اور بہت سارے رطب ویابس سے دامن کشاں گذر گئے ہیں انتخاب واقعات اور عقیدہ کے اس طریقہ کی وجہ سے یہ کتاب سب کے لئے قابل قبول بن گئی ہے، کتاب کے آخر میں حدیث وسیرت کے جن حوالہ جاتی کتب کا ذکر ہے ان میں عربی واردو دونوں زبانوں کی کتابیں ہیں، غالب گمان یہ ہے کہ انہوں نے عربی کتب کے اردو تراجم سے استفادہ کیا ہوگا، حالاں کہ پروفیسر صاحب قرآن کی تفسیر بھی ہر ہفتہ بیان کرتے ہیں، جن میں ان کے مریدین متوسلین اور معتقدین کثرت سے شریک ہوتے ہیں، پروفیسر یونس حسین حکیم صاحب صوفی شہباز علی قادری چشتی کے خلیفہ ہیں، جنہیں سید نور الدین احمد قادری جیلانی سے خلافت ملی تھی، اس حوالہ سے بھی کالج واسکول کے طلبہ اور شاگردوں کی اصلاح کا کام کرتے ہیں، وہ ایک فعال اور متحرک شخص ہیں، عمر کی اس منزل میں جب ان کی زندگی کا سفینہ اسی(۸۰) کی دہائی کراس کرنے والا ہے، وہ انتہائی مستعد اور چاق وچوبند نظر آتے ہیں، وہ چیرمین بہار اسٹیٹ مدرسہ بورڈ بھی رہے ہیں اور ابھی حال ہی میں بہار ریاستی اقلیتی کمیشن کے چیرمین کے عہدے سے سبکدوش ہوئے ہیں اور دونوں عہدے پر رہتے ہوئے جو کچھ ان سے بن پڑا کرنے سے دریغ نہیں کیا، ماضی قریب میں جو مدارس ملحقہ باتنخواہ ہوئے اور جو بقیہ کے لئے کوشش ہورہی ہے، اس کی داغ بیل بھی انہوں نے اپنے وقت میں ہی ڈالی تھی، گذشتہ کئی برسوں سے درس قرآن دینا، دینی کتابوں کا مطالعہ کرنا اور مذہبی جلسوں میں تقریر کرنا ان کا محبوب مشغلہ ہے، اللہ سے ان کی کتاب کی مقبولیت کے ساتھ موصوف کی محبوبیت اور اخروی زندگی میں مغفرت کی بھی دعا کرنی چاہئے، ہماری خواہش تو یہی ہے کہ وہ اپنے عمر کی سنچری لگا لیں اور جب تک رہیں صحت وعافیت کے ساتھ رہیں۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...