Powered By Blogger

منگل, اگست 23, 2022

بی جے پی نیتا ٹی راجا پیغمبر اسلامؐ پر توہین آمیز تبصرہ کرنے کے الزام میں گرفتار

بی جے پی نیتا ٹی راجا پیغمبر اسلامؐ پر توہین آمیز تبصرہ کرنے کے الزام میں گرفتار

اردو دنیا نیوز٧٢

حیدرآباد: تلنگانہ سے تعلق رکھنے والے بی جے پی رکن اسمبلی ٹی راجا سنگھ کو منگل کے روز پیغمبر اسلامؐ پر توہین آمیز تبصرے کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔ حیدرآباد ساؤتھ زون کے ڈپٹی کمشنر آف پولیس پی سائی چیتنیا نے کہا کہ ٹی راجا کے خلاف مذہبی عقیدے کی توہین سے متعلق قانون کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

اطلاعات کے مطابق شہر کے پولس کمشنر سی وی آنند کے دفتر اور حیدرآباد کے دیگر حصوں میں پیر کی شب راجا سنگھ کی جانب سے پیغمبر اسلامؐ کے بارے میں توہین آمیز کلیمات والی ایک ویڈیو جاری کرنے کے بعد احتجاجی مظاہرے ہوئے تھے۔ جس کے بعد مقدمہ درج کر کے یہ کارروائی کی گئی ہے۔

مظاہرین کا کہنا تھا کہ راجا سنگھ نے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی ہے، لہذا انہیں فوری طور پر گرفتار کیا جائے۔ چنانچہ پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے ٹی راجا کو گرفتار کر لیا۔ قبل ازیں، حیدرآباد کے گوشا محل سے رکن اسمبلی ٹی راجا سنگھ نے گزشتہ ہفتے ایک کامیڈی شو میں خلل ڈالنے کی کوشش کی تھی۔ اسٹینڈ اپ کامیڈین منور فاروقی کے شو کو منسوخ کرنے کے لیے تقریباً 50 حامیوں کے ساتھ پنڈال تک پہنچنے کی کوشش کے بعد جمعہ کو پولیس نے انہیں احتیاطاً تحویل میں لیا تھا۔

عظیم اتحاد کی نئی وزارت ___مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

عظیم اتحاد کی نئی وزارت ___
مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
اردو دنیا نیوز٧٢
 تینتیس (۳۳) افراد پر مشتمل بہار میں عظیم اتحاد کی نئی وزارت نے حلف برداری کے بعد اپنا کام کاج سنبھال لیا ہے ، نتیش کمار وزیر اعلیٰ ، تیجسوی یادو نائب وزیر اعلیٰ کے ساتھ جنہیں وزیر بنایا گیا ان میں کانگریس سے ایک، جدیو سے ایک ،اور تین راشٹریہ جنتال دل کے کل پانچ مسلمان بھی وزارت تک پہونچ گیے ہیں، مسلم وزراء میں صرف زماں خان پہلی حکومت میں وزیر تھے، بھاجپا کو ٹہ سے شاہنواز حسین بھی تھے، لیکن وہ بی جے پی اتحاد کے ٹوٹنے کی وجہ سے حاشیہ سے بھی باہر چلے گیے، بقیہ چار وزراء کانگریس کے آفاق احمد اور راشٹریہ جنتا دل کے محمد اسرائیل منصوری، محمد شاہ نواز عالم اور ڈاکٹر شمیم احمد صاحب پہلی بار وزارت کی کرسی تک پہونچے ہیں، یہ نئے لوگ ہیں، کام کرنے کا ان میں حوصلہ ہے، نتیش کمار کی قیادت ہے اور تیجسوی ان کے دست وبازو ہیں، سیاسی اتحاد سات پارٹیوں کی مجبوری ہے اور اقتدار تک پہونچنے کی فطری خواہش بھی۔ اس لیے امید کی جاتی ہے کہ یہ اتحاد ۲۰۲۴ء تک  چلا جائے گا۔
 عظیم اتحاد میں شامل بھارتیہ کمیونسٹ پارٹی( مالے) نے حکومت میں شامل ہونے سے انکار کر دیا، جیتن رام مانجھی اپنے بیٹے کو وزیر بنانے میں پہلی حکومت میں بھی کامیاب تھے اور اس بار بھی کامیاب رہے، ایک آزاد ایل ایم اے بھی حق وفاداری میں وزیر بن گیے ہیں، وزارت میں پانچ مسلمانوں کے ساتھ ۱۷؍ او بی سی اور ای بی سی، چھ (۶) اعلیٰ ذات اور پانچ ایس سی سے تعلق رکھنے والے ہیں، اس طرح کوشش کی گئی ہے کہ ہر اعتبار سے معتدل اور متوازن وزارت کی تشکیل کی جائے۔
 یہ مرحلہ تو تمام ہوا، لیکن حکمراں اتحاد کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ بہار ہندوستان میں غربت کے اعتبار سے تیسرے نمبر پر ہے، یہاں ہر دوسرا شخص خط افلاس سے نیچے مقام پر ہے، اس لیے یہاں معیار زندگی کی بلندی کے لیے غذائیت ، صحت، تعلیم کے محاذ پر کام کرنے کی ضرورت ہے، بے روزگاری اور مہنگائی نے ریاست کے باشندوں کی کمر توڑ رکھی ہے ، دوسری طرف صورت حال یہ ہے کہ بہار ان چار ریاستوں میں شامل ہے، جس کا مالیاتی خسارہ مالیاتی کمیشن کے مقررہ حدود سے آگے ہے، یہ ایک اچھی بات ہے کہ تیجسوی یادو نے وزارت ملتے ہی اپنے انتخابی وعدہ دس لاکھ روزگار فراہم کرانے کے وعدہ کو دہرایا ہے اور نتیش کمارنے سرکاری ملازمتوں کے علاوہ غیر منظم سکٹر میں دس لاکھ اور ملازمت دینے کا وعدہ کیا ہے ، یہ وعدے زمین پر اتر جاتے ہیں تو بیروزگاری دور ہوگی اور اگر یہی ایک کام نئی حکومت نے کر دکھایا تو ۲۰۲۴ء کے پارلیمانی زنتخاب میں منظر کچھ اور ہی ہوگا، یہ حکومت کے لیے ایک چیلنج ہے، عظیم اتحاد کی حکومت نے اس چیلنج کو قبول کر لیاہے ۔

الحمداللہ کل بروز سوموار شب ٩بجےتحفظ شریعت کے بیزتلے زووم ایپ ایک نعتیہ مشاعرہ کا پروگرام منعقد ہوا

الحمداللہ کل بروز سوموار شب ٩بجے
تحفظ شریعت کے بیزتلے زووم ایپ ایک نعتیہ مشاعرہ کا پروگرام منعقد ہوا تاریخ ٢٢/٨/٢٠٢٢
جس میں مشہور ومعروف شعراء عظام شرکت کی
جلسہ کے فرائض انجام دیۓ
اردو دنیا نیوز٧٢
حضرت مولانا عبد الوارث صاحب مظاہری اور سرپرستی کے عہد ے پر قائم رہے حضرت مولانا عبد اللہ سالم قمر صاحب چترویدی زیر نقابت حضرت مولانا نعمت اللہ رحمانی صاحب زیر انتظام ایم رحمانی صاحب نے کی خصوصی مہمان حضرت مولانا مفتی مجاہد الاسلام مجیبی القاسمی بھاگلپوری
شعراۓکرام کوثر آفاق صاحب  دانش خوشحال صاحب اعجاز ضیاء صاحب فیاض احمد راہی صاحب  مفتی شہباز اشرفی صاحب قاسمی  مولانا فہیم صاحب مولانا صدام صدیقی صاحب  مولانا خوش محمد صاحب اور دیگر بہت سارے شعرائے کرام تشریف لائے جس کے اختتام پر قاری محبوب صاحب رحمانی نے دعا کی 
اللہ تعالیٰ ہمارے پروگرام کو کامیاب عطاء فرمائے آمین ثم آمین یارب العالمین
ڈاریکٹر ایم رحمانی اردو دنیا نیوز٧٢ 

پیر, اگست 22, 2022

’تن ‘‘ کے ساتھ ’’من‘‘ بھی صاف رکھیے ____مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

’’تن ‘‘ کے ساتھ ’’من‘‘ بھی صاف رکھیے ____
مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
اردو دنیا نیوز٧٢
حفظان صحت کے اصولوں میں جسم ،مکان ماحول کپڑے وغیرہ کی صفائی اورجسمانی ورزش پرزوردیاجاتاہے یقینا انسانی زندگی میں صفائی اورورزش کی اپنی اہمیت ہے،جسم کو صحت مندرکھنے کے لیے ان کی ضرورت بھی ہے ، لیکن دل ودماغ کی صحت اوردرست سمت ورخ پرکام کرنے کے لئے ’’من کی صفائی‘‘ ضروری ہے ،جس طرح ہمارے موبائل میں کچرابھرجاتاہے اور’’جونک ‘‘ہمارے سافٹ ویر کی صلاحیت کوکمزورکردیتے ہیں، جس کی وجہ سے کبھی کبھی یہ موبائل خطرناک حد تک جاپہونچتاہے ۔اسی طرح ہمارے دل ودماغ میں مختلف واقعات حالات،حوادثات اورغیرضروری باتوں کااسٹورہوتاہے، یہ ہمارے دل ودماغ کومتاثرکرتے ہیں ان کے جمع ہونے کی وجہ سے ہمارے اعضاء وجوارح بھی اسی اندازمیں عمل کرنے لگتے ہیں ،بعض باتیں خارج میں نہیں ہوتیں ، لیکن چوںکہ ہمارے دل ودماغ میں جوکچرابھراہواہے وہ اس کاحصہ بن چکا ہوتا ہے ؛اس لیے خارج ہیں وہ ہمیں مجسم نظرآنے لگتاہے جس طرح آئینے میں شیر کوشیر اورگیدڑ کوگیدڑ نظرآتاہے اسی طرح اگر ’’من ‘‘صاف نہ ہوتوسماجی ، خانگی اورملی زندگی تک متاثرہوجاتی ہے اس کانقصان خود اس ’’گندے من‘‘والی ذات کوتوپہونچتاہی ہے، اس کے دوررس اثرات سماج پر بھی پڑتے ہیں، اقبال نے بہت واضح لفظوں میں تن اور من کے فرق کوواضح کیاہے۔ کہتے ہیں کہ 
 من کی دنیامن کی دنیاسوزومستی جذب وشوق
 تن کی دنیاتن کی دنیا سود و سودا مکر وفن
شریعت اسلامیہ میں جسم کی صفائی کے ساتھ روحانی کثافت کودور کرنے پر بھی خاصی توجہ دی گئی ہے ، کینہ کدورت ،بغض وعداوت، بدگمانی وبدمزاجی سے ہمارا’’من ‘‘بیمار ہوجاتاہے ،اس لئے ان چیزوں سے بچنے اوراس سے دل ودماغ کوپاک رکھنے کی ضرورت بتائی گئی ہے، کیونکہ جس قوم یا انسان میں روحانی بیماری پیدا ہوجاتی ہے،وہاں محبت کاگذرنہیں پاتا، جس دل میں کینہ وکدورت نے جگہ بنالیاہواورجوانتقام کی آگ میں سلگ رہا ہو، دل کے ایسے بنجر زمین پر محبت کی فصل نہیں لہلہاسکتی ،انسانی تعلقات کوسب سے زیادہ نقصان پہونچانے والی چیز کینہ ہے ،دل میں دشمنی ،نفرت اورغصہ کوروکے رکھناکینہ کہلاتاہے ۔
اور بعض روایتوں میں آتا ہے کہ کینہ رکھنے والا جنت کی خوشبو سے بھی محروم رہے گا، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسے صحابی کے لیے جنتی ہونے کا اعلان کیا، جو فرائض وواجبات کی ادائیگی کے ساتھ سوتے وقت اپنے دل کو لوگوں کی طرف سے کینہ کدورت سے پاک کرکے سویا کرتا تھا۔
ہم اپنی زندگی کاتجزیہ کریں تومعلوم ہوگاکہ ہم دوقسم کی دنیامیں زندگی گذارتے ہیں ،ایک ہماری داخلی دنیاہے اورایک خارجی دنیااس دنیا کوحالات ،لوگ، جسمانی صحت وغیرہ ہماری خارجی دنیاہے، اس پر ہماری توجہ ہروقت مرکوز رہتی ہے اورہم اسے دیکھتے ہی رہتے ہیں، مفسرین نے ’’عالم کبیر‘‘کہا ہے؛ لیکن اس سے الگ ایک داخلی دنیاہے ،جسے مفسرین اوراہل علم نے ’’عالم صغیر‘‘ سے تعبیر کیاہے،ہمیں اس پرخصوصی توجہ اوردھیان دینے کی ضرورت ہے ،ہماری فکر، ہمارے احساسات، ہمارے خیالادت وجذبات ،یادیں یہ سب ہماری داخلی دنیاکاحصہ ہیں،ان میں ماضی کی باتیں بھی ہیں، ساری باتوں کویادداشت سے نکالناممکن نہیں ہوتا، لیکن ہمیں تجزیہ کرناچاہے کہ کون سی بات فضول (جونک) ہے اورکون سی بات کار آمد،کس کوفضول (جونک)سمجھ کر نکال باہر کرناہے اورکس کواپنی داخلی دنیاکاحصہ بناناہے ، یہ تمیز آجائے توزندگی میں دوسروں سے شکایتیں کم ہونگی اوردل ودماغ روحانی بیمار ی سے پاک ہوجائے گا،باتوں کوپکڑکررکھنے سے ہماری داخلی دنیاکی بیٹری ڈسچارج ہوتی ہے اوربیٹری ڈسچارج ہوجانے کے بعد جس طرح موبائل کام کرنابندکردیتاہے ،ویسے ہی دماغ کی بیٹری ڈسچارج ہونے لگے توکام کرنے کی صلاحیت دھیرے دھیرے کم ہوتی ہے اورپھر ختم ہوجاتی ہے ،صلاحیت کمزورہویاختم ہوجائے توجھنجھلاہٹ پیداہوتی ہے، انسان ٹینشن میں آجاتاہے اورغلط فیصلے لینے لگتاہے ، یہ غلط فیصلے اس کی داخلی دنیاکوبرباد کردیتے ہیں اور خارجی دنیامیں وہ لوگوں کونفرت کامحورومرکزبن جاتاہے،ہمیں یہ بات اچھی طرح یادرکھنی چاہئے کہ ہر آدمی کی الگ الگ صلاحیت ہوتی ہے ، ان صلاحیتوں کے استعمال کے مواقع جس قدرملیں گے ،خارجی دنیاکے ساتھ داخلی دنیابھی بنتی جائے گی اگر ہم صلاحیتوں کی شناخت نہیں کر پاتے توہمارے قریب خوشامدی قسم کے لوگ ہی گھیرابنائے رکھیں گے ، جس سے ہماری دل کی دنیاتواجڑے گی ہی، ہمارے کام کرنے کے طریقوں پر بھی سوالات اٹھیں گے ، اس لئے ’’من ‘‘کو صاف ستھرارکھناانتہائی ضروری ہے ،اگر’’من ‘‘نہیں صاف ہوگاتومثبت نفسیات اورسوچ نہیں بن پائے گی ،مثبت نفسیات یہ ہے کہ ہر کام کے روشن پہلوئوں پر دھیان دیاجائے؛ کیوں کہ اس طرح آپ خود بھی خوش رہیں گے اوردوسروں کوخوش رہنے کے مواقع فراہم کریں گے ، اس سے آپ کی داخلی اورخارجی دل کی دنیاآباد رہے گی آپ پُر سکون اورتنائوسے پاک زندگی گذارسکیں گے،اس کے لئے جس طرح جسم کوصاف ستھرااورتروتازہ رکھنے کے لئے صفائی اورورزش کی ضرورت ہوتی ہے، اس طرح ’’من ‘‘کی صفائی کے لئے بھی ٹریننگ کی ضرورت ہے ،’’تن ‘‘کی صفائی کے ساتھ ’’من ‘‘کوبھی صاف رکھئے ، یہ دنیاوآخرت دونوں کی کامیابی کے لئے انتہائی ضروری ہے، دیکھئے ،اقبال پھر یاد آگئے
من کی دولت ہاتھ آتی ہے تو پھر جاتی نہیں
 تن کی دولت چھاؤں ہے آتا ہے دھن، جاتا ہے دھن
اسی لئے شریعت نے آنکھ پر پہرابٹھایااورخارجی دنیامیں کن چیزوں کونہیں دیکھناہے اس کی نشان دہی کی، اعضاء جوارح سے جوکام نہیں کرنا ہے، اس کوواضح کردیا، اگر آپ نے کسی کی اندرکی کمزوری کودیکھ لیا اور اس کی داخلی زندگی میں تانک جھانک کرنے لگے تودل ودماغ یعنی آپ کی داخلی دنیا اس سے متاثر ہوگی ، اوراس تأثرکے نتیجے میں دماغ میں کچڑابھر تاچلاجائے گا ، اوریہ کچراموقع دیکھتے ہی شعور؛ بلکہ تحت الشورتک سے نکل کرہماری خارجی دنیاکومتاثرکرے گا ، سماج میں پھیلی بُرائی بے راہ روی، آپسی چپقلس دوسرے سے انتقام لینے کاجذبہ یہ سب اسی بیماری کی وجہ سے پروان چڑھتاہے ،اسی لئے داخلی دنیاکی حفاظت کے لئے صوفیانے ’’مراقبۂ موت‘‘ پر زوردیاہے ، یعنی ایک وقت فارغ کرکے تنہائی میں موت کویاد کیاجائے اورسوچاجائے کہ جوکچھ عہدے، مناصب، عزت ،شہرت اوردولت ہم نے حاصل کی ہے وہ سب یہیں رہ جانے والی چیز ہے ،موت کاسفر خارجی دنیاسے خالی ہاتھ ہی ہواکرتاہے، مرنے کے بعد داخلی دنیامیں جوکچھ عمل کیاہے وہی کام آتے ہیں اورقدرت کے اس نظام کوبدلناکسی کے بس میں نہیں ہے۔ اقبال نے بڑی سچی اور پکی بات کہی ہے۔
 عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی 
 یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے، نہ ناری ہے

اتوار, اگست 21, 2022

شوکت کے سلسلے سے قدر شناسی کا کام ادھورا ہے: نقّادوں کی سنجیدہ کوششیں لازمی

شوکت کے سلسلے سے قدر شناسی کا کام ادھورا ہے: نقّادوں کی سنجیدہ کوششیں لازمی
اردو دنیا نیوز٧٢
بزمِ صدف انٹرنیشنل کے قومی سے می نار میں اصحابِ علم کی گزارشات
بنیادی درس گاہوں اور اسکولوں میں اردو زبان کے لیے تحریکی کاوشیں ضروری: ڈاکٹر شکیل احمد خاں

پٹنہ:۱۲؍ اگست: وبائی دور میں اردو کے مشہور افسانہ نگار شوکت حیات کے گزرنے کے بعد عظیم آباد میں پہلی بار اُن کی حیات و خدمات کے حوالے سے ایک قومی سے می نار منعقد ہوا جس کا افتتاح کرتے ہوئے کانگریس کے رُکنِ اسمبلی ڈاکٹر شکیل احمد خاں نے کہا کہ شوکت حیات آنے والے دور کی تشویشات اور خطروں کو نہ صرف یہ کہ سمجھتے تھے بلکہ اپنے افسانوں کے ذریعہ ہمیں باخبر کرتے تھے۔ بڑا لکھنے والا وہی ہوتا ہے جو اپنے زمانے کے مسائل کے ساتھ ساتھ آنے والے وقت کے مسئلوں پر بھی نظر رکھے۔انھوں نے سے می نار کے شرکا سے خاص طَور سے یہ بات کہی کہ ادبی اور علمی کاوشوں کے ساتھ عوامی سطح پر اردو زبان کی تدریس اور خواندگی پر مرکوز ہونے کی ضرورت ہے۔
جناب امتیاز احمد کریمی ، رکن بہار پبلک سروس کمیشن نے شوکت حیات کے تعلق سے اپنے تاثّرات میں بتایا کہ وہ کیسے اندر سے نرم اور ملائم تھے اور باہر سے سخت اور زورآور معلوم ہوتے تھے۔ انھوں نے کہا کہ ہر سچّے فن کار کا دِل اسی طرح نرم اور انسانی ہم دردی سے بھر ہوتا ہے۔ممتاز ناول نگار جناب عبدالصمد نے اپنی پانچ دہائیوں کی رفاقت کے نشیب و فراز پر روشنی ڈالتے ہوئے اس بات کا اقرار کیا کہ ان کی نسل میں ویسا ہُنر وَر کوئی دوسرا نہیں تھا۔ممتاز افسانہ نگار مشتاق احمد نوری نے اپنے دیرینہ تعلّقات کی تفصیل واضح کرتے ہوئے یہ بتایا کہ شوکت حیات چند لمحوں میں پتّھر سے موم بن جاتے تھے۔ یہ تخلیقی فن کار کا ایسا انفراد ہے جس کے بغیر وہ شہہ کار نہیں لکھ سکتا۔ خورشید اکبر نے مہمانِ ذی وقار کی حیثیت سے تقریر کرتے ہوئے یہ بات بتائی کہ سعادت حسن منٹو کے بعد انھیں شوکت حیات کا اسلوب ہی اردو افسانے کا سب سے موزوں اسلوب معلوم ہوتا ہے۔
اس قومی سے می نار کے اغراض و مقاصد بتاتے ہوئے بزمِ صدف انٹرنیشنل کے سربراہ پروفیسر صفدرامام قادری نے واضح الفاظ میں یہ بات کہی کہ شوکت حیات کو اپنی ناقدری کا بہت شدّت کے ساتھ احساس تھا اور اِس کے سبب وہ ہمیشہ مبتلاے غم رہے۔ان کے ہم عصروں نے اور ان کے دوسرے چاہنے والوں نے کبھی اُن کے حق کے مطابق ادبی مقام کے تئیں ماحول نہیں بنایا۔کسی ادارے نے سنجیدگی سے اُن پر کوئی مذاکرہ نہیں رکھا۔ اُن کی کتابیں وقت پر شایع نہ ہو سکیں۔ بہار کے سرکاری اداروں نے بھی اُن پر اِلتفات کی نگاہ نہیں ڈالی۔اِنھی وجوہات سے بزمِ صدف انٹرنیشنل نے ان کی حیات و خدمات کے حوالے سے ایک قومی سے می نار کرنے کا فیصلہ کیا۔انھوں نے بتایا کہ اس سے می نار میں مُلک بھر سے نمایندے تشریف فرما ہیں اور وہ شوکت حیات کی خدمات کے حوالے سے اپنے مقالوں میں گفتگو کریں گے۔انھوں نے یہ بھی بتایا کہ اقبال حسن آزاد کی ادارت میں شایع ہونے والے رسالہ ’ثالث‘ کے شوکت حیات نمبر کا خاص طَور سے اِس اجلاس میں اجرا بھی کیا جائے گا۔پروفیسر آزاد اور نائب مدیرہ محترمہ نشاط پروین بہ نفسِ نفیس اس تقریب میں موجود تھے۔
پہلے جلسے رسالہ ’ثالث‘ کے خصوصی شوکت حیات نمبر کا تعارف کراتے ہوئے پروفیسر اقبال حسن آزاد نے بتایا کہ شوکت حیات کے تعلق سے برسوں سے کچھ خاص کرنے کا اُن کے ذہن میں ارادہ تھا۔ شوکت حیات کی وفات کے بعد وہ اِس مُہم میں جُڑ گئے اور انھوں نے تقریباً پانچ سو صفحات پر مشتمل رسالہ ’ثالث‘ کا شوکت حیات نمبر شایع کردیا۔ سے می نار میں شوکت حیات کی اہلیہ محترمہ ارشاد پروین نے شوکت حیات کی زندگی کے کئی ان جانے پہلوؤں کی طرف توجہ دلائی۔انھوں نے بھی اس بات کا ذکر کیا کہ شوکت حیات کو اپنی ناقدری کا بہت شکوہ تھاجس کی تلافی اِس سے می نار میں ہو رہی ہے۔ شوکت حیات کی صاحب زادی محترمہ اَنا حیات نے اپنی یادوں کی رہ گزر میں اپنے والد کی شبیہہ دیکھتے ہوئے بتایا کہ یہ میرے لیے واقعتا قابلِ فخر بات ہے کہ میرے والد شوکت حیات تھے۔انھوں نے دوسرے مقرّرین کی باتوں کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ وہ اس دکھ کی گھڑی میں اس بات سے سرشار ہیں کہ اُن کے والد کی غیر موجودگی میں بھی اُن نے چاہنے والے شہرِ عظیم آباد میں بھرے پڑے ہیں۔ 
سے می نار کی نظامت ڈاکٹر افشاں بانو نے کی ۔ پہلے جلسے میں جناب محمد مرشد، محترمہ شبنم پروین نے رسالہ ’ثالث‘ کی ادبی اہمیت کے حوالے سے خصوصی مقالے پیش کیے۔دوسرے جلسے میں شوکت حیات پر مشتمل یادداشتوں کے حوالے سے محترمہ نشاط پروین، ڈاکٹر تسلیم عارف اور محترمہ شگفتہ ناز نے اپنے مقالے پیش کیے۔سے می نار کی تیسری نشست میں ڈاکٹر الفیہ نوری نے شوکت حیات کے کُل افسانوں کی تعداد کے حوالے سے اپنی تحقیق کا خلاصہ پیش کیا۔دیگر مقالہ نگاروں میں ڈاکٹر اظہار خضر، ڈاکٹر طیب نعمانی ، ڈاکٹر منی بھوشن کمار، ڈاکٹر سلمان عبدالصمد، ڈاکٹر صالحہ صدیقی، محترمہ نازیہ تبسم، محترم سعدیہ آفرین ، جناب محمد مرجان علی اور جناب محمد شوکت علی نے اپنے مقالات پیش کیے جن سے شوکت حیات کی تحریروں کے گوناگوں پہلوؤں پر روشنی پڑتی تھی۔ان مقالوں سے یہ بات بھی روشن ہوئی کہ شوکت حیات کی افسانہ نگاری میں گہرائی ہے اور ان کی تفہیم کے لیے نقّادوں کو مشقّت اُٹھانی پڑے گی۔
سے می نار کے پہلے اجلاس کی صدارت ڈاکٹر اسلم جاوداں نے کی۔ انھوں نے شوکت حیات کے سلسلے سے اپنی یادداشتوںکے حوالے سے گفتگو کی ۔دوسرے اجلاس کی صدارت ممتاز ہندی ادیب جناب رشی کیش سُلبھ نے فرمائی۔ انھوں نے اپنے دیرینہ تعلّقات کا ذکر کرتے ہوئے واضح کیا کہ شوکت حیات کس طرح ایک شعلۂ مستعجل تھے۔ وہی آگ ان کی تحریروں میں بھی دکھائی دیتی تھی۔ معاشرے اور زمانے کے حالات سے وہ غیر مطمئن تھے اور اِسی کے حوالے سے وہ اپنی تحریروں میں اور ذاتی طَور پر اپنی گفتگو میں اختلاف کرتے تھے۔شوکت حیات سے دوستی میں انھوں نے ادب اور زندگی کے نہ جانے کتنے ابواب سیکھے۔سے می نار کے تیسرے اجلاس کی صدارت پروفیسر علیم اللہ حالی نے کی ۔ تیسرے اجلاس میں مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے شریک پروفیسر شہزاد انجم، سابق صدر شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ ، نئی دہلی نے کہا کہ اب شوکت شناسی کا نیا دور شروع ہونا چاہیے۔ پروفیسر جمشید قمر نے رسالہ ’ثالث‘ کے خصوصی شمارے کو ایک تاریخی اقدام قرار دیا اور اس بات پر زور دیا کہ بزمِ صدف انٹرنیشنل نے ان کی حیات و خدمات کے حوالے سے کئی طرح کے کاموں کاجو خاکا بنا رکھا ہے ، اسے جلد از جلد انجام تک پہنچایا جائے۔ سے می نار میں پروفیسر صفدر امام قادری نے بزمِ صدف کی جانب سے مہمانوں اور دیگر شرکا کا خاص طَور سے شکریہ ادا کیا۔ سے می نار کے تینوں اجلاس میںہال خاص طَو رپر ادیبوں ، شاعروں ،نقّادوں اور ری سرچ اسکالرس سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ شوکت حیات سے عقیدت رکھنے والے قارئین کی بھی اچھّی خاصی تعداد محفل میں موجود تھی۔

ضلع ارریہ کے بلاک رانی گنج کے تحت جکتا کھرسائی میں منعقد ہونے والا کل شب کا اجلاس انتہائی تاریخ ساز رہا۔

ضلع ارریہ کے بلاک رانی گنج کے تحت جکتا کھرسائی میں منعقد ہونے والا کل شب کا اجلاس انتہائی تاریخ ساز رہا۔
_______________
اردو دنیا نیوز٧٢
عین مغرب کے وقت تیز بارش اور آندھی کے نتیجے میں ایک طرف پنڈال سے ٹپاٹپ پانی،دوسری طرف زمین کیچڑ سے لت پت اور تیسری طرف مسلمانوں کے ہجوم کا جذباتی انداز ۔۔۔۔
عاجز نے ظالمانہ رسم جہیز پر غالباً ایک گھنٹے کی اپنی گفتگو میں جو کچھ اپنے ٹوٹے پھوٹے الفاظ کے ساتھ دل کے نہاخانے سے کہ سکتا تھا تنکا بھر کسر نہیں چھوڑا۔۔۔
الحمد للّٰہ ہزاروں مسلمانوں نے جس جذباتی انداز میں ہمارے ساتھ اس رسم بد کے خاتمے کے لئے معاہدے کئے اس سے دل وقتی طور پر جھوم جھوم اٹھا،بس شیطان اپنے دام فریب میں نہ پھنسادے،اس کے لئے دعائیں بھی کی۔
جمعیت علماء رانی گنج کے صدر محترم مفتی نعیم الدین ندوی صاحب کی باوقار نظامت اور بلاک سکریٹری مفتی دلشاد احمد نعمانی کی معیت نے اجلاس میں روح پھونکنے کا کام کیا۔
خوشی تب دوبالا ہوگئی جب عاجز کی گفتگو کے بعد مفتی دلشاد احمد صاحب کے واسطے سے ایک بااثر غیرمسلم بھائی نے عاجز اور مفتی نعیم الدین صاحب سے یہ کہتے ہوئے مصافحہ کیا کہ بھگوان نے زندہ رکھا تو موسم کے سازگار ہونے پر ہم اپنی زمین پر رسم جہیز کے خلاف اور مانوتا کے لئے ایک بڑا اجلاس کروائیں گے اور سارے شرکاء کو ہم اپنی طرف سے کھانا کھلائیں گے،خواہ اس میں میرا پانچ دس لاکھ روپے خرچ ہوجائے تو ہوجائے۔۔۔
رب العالمین قبولیت سے سرفراز فرمادے!
مسلسل کئی راتوں کے جگنے کی وجہ سے طبیعت میں بشاشت نہیں ہے۔ ہوئی تو مختصر روداد پیش ضرور کروں گا انشاء اللہ ۔
محمد اطہر القاسمی
                                                             21/08/2022

کی آبادی کا مفہوم، ایک وسیع تر زاویہفیروز عالم ندوی

مسجد کی آبادی کا مفہوم، ایک وسیع تر زاویہ
فیروز عالم ندوی
 معاون ایڈیٹر ماہنامہ پیام سدرہ، چنئی  
اردو دنیا نیوز٧٢
دنیا کے تمام مذاہب میں عبادت گاہیں صرف خاص 
مذہبی رسومات کی ادائیگی کے لیے ہوتی ہیں، وہاں ان کے علاوہ دوسرے امور کی انجام دہی کا یا تو تصور نہیں ہے یا پھر اسے گناہ کے درجے میں شمار کیا جائے گا۔ اسلام کا معاملہ ان سے مختلف ہے۔ اس نے اپنے ماننے والوں کو نہ صرف وہاں روزانہ پانچ وقت پہونچنے کا حکم دیا ہے بلکہ اجتماعی حاضری کو لازمی قرار دیا ہے۔ اسی لیے اسلام میں مسجد صرف ایک عبادت گاہ بھر نہیں بلکہ معاشرہ میں درستگی، اصلاح، راست بازی، پاکیزگی اور خیر کے قیام کا مرکز بھی ہے۔ اس کی حیثیت صرف اتنی نہیں ہے کہ وہاں کچھ رسوم ادا کر لئے جائیں اور بس، بلکہ وہاں سے ایک بلند اخلاق و کردار والے معاشرہ کی تعمیر کا انتظام کیا جائے ۔
نبی کریم صل اللہ علیہ و سلم ہجرت کر کے جیسے ہی مدینہ پہونچے تو سب سے پہلا کام یہ کیا کہ ایک مسجد کی بنیاد رکھی جسے آج ہم مسجد قباء کے نام سے جانتے ہیں۔ پھر مستقل قیام کی نیت سے قبیلہ بنو نجار میں وارد ہوئے اور ایک مسجد کی تعمیر کا انتظام کیا۔ یہ وہی مسجد نبوی ہے جو اسلام کا دوسرا مقدس ترین مقام ہے۔ اسلام تو یثرب میں پہلے ہی سے پھل پھول رہا تھا،  جیسے ہی آپ وہاں پہونچے یہ ہر گھر میں داخل ہو گیا۔ مسجد باضابطہ تعمیر ہو ہی چکی تھی اب معاشرتی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ایک چبوترے (صفہ) کی تعمیر کی گئی جہاں تشنگان علوم چشمہ رسالت سے سیراب ہونے لگے۔
ہجرت کے بعد جیسے جیسے اسلام کا دائرہ بڑھ تا گیا ویسے ہی مسجد نبوی کے دائرہ کار میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ وہ بیک وقت ایک عبادت گاہ، ایک تعلیم گاہ،  ایک تربیت گاہ، ایک دعوتی مرکز، ایک کاؤنسلنگ سینٹر،  ایک فوجی ہیڈ کوارٹر اور ایک دارالقضا جیسی مختلف کاموں اور سرگرمیوں کے لئے استعمال ہوتا رہا۔ وہاں عبادتیں بھی کی جاتی اور زندگی کی دوسری سرگرمیاں بھی انجام پاتیں۔
اسلام کی تاریخ پر اگر ایک نگاہ ڈالیں تو یہ بات واضح طور پر نظر آئے گی کہ مختلف ادوار کے مختلف علاقوں میں جب تک مسلم معاشرہ مسجدوں سے اچھی طرح وابستہ رہا ان کا معاشرہ پھلتا پھولتا رہا اور وہ جیسے ہی اس سے کٹے معاشرتی بیماریوں کے چنگل میں ایسے پھنسے کہ رفتہ رفتہ اپنا وجود کھو بیٹھے۔
معاشرہ مستقل راست بازی پر قائم رہے اور اس راہ میں آگے بڑھتا رہے، اس کے لیے لازمی ہے کہ آنے والی نسلوں کی اچھی تربیت کا انتظام کیا جائے۔ ہم اپنی مسجدوں میں بچوں کو پچھلی صفوں میں کھڑا کر دیتے ہیں، اگر زیادہ شرارت کریں تو مسجدوں سے نکال باہر کرتے ہیں۔ یہ انتہائی ناعاقبت اندیشی پر مبنی رویہ ہے۔ ہم جیسے ہی کسی بچے کو مسجد سے دور کریں گے اسی لمحے ہم اسے کھو دیں گے۔ مساجد سے نونہالوں کی وابستگی کو زیادہ سے زیادہ یقینی بنایا جائے، ان کی تعلیم کے ساتھ تربیت اور تفریح ہر طرح کا سامان کیا جائے۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ ایک صالح معاشرہ نشو نما پائے تو ہمیں مساجد کو مختلف سرگرمیوں کا مرکز بنا ہو گا۔ مثلا: اگر کسی مسجد میں تعلیمی سرگرمی کے لیے مکتب چل رہا ہے تو ہمیں یہ کرنا چاہئے کہ اس نظام کو زیادہ سے زیادہ متنوع بنانے کی کوشش کریں تاکہ بچوں اور ان کے والدین کی مسجد سے وابستگی کو مضبوط سے مضبوط تر کی طرف لے جایا جا سکے۔
صالح معاشرہ کی تعمیر کے لیے ضروری ہے کہ مناسب کاؤنسلنگ کا انتظام ہو۔ انفرادی زندگی کے مختلف دشوار مراحل میں اور اجتماعی امور کے پیچیدہ مواقع پر اس کی سخت ضرورت پڑتی ہے۔ اگر ہم اس کا انتظام مسجد کے اندر کر دیں تو یہ لوگوں کو ایک مرکز سے جوڑنے اور ان کی وابستگی میں اضافہ کرنے کا ایک بہترین ذریعہ ثابت ہو گا ۔
ایک صالح معاشرہ کے لیے ضروری ہے کہ اس کی مائیں تربیت یافتہ، فرض شناس اور بہترین مربی ہوں۔ یہ اسی وقت ممکن ہو سکے گا جب ہم انھیں نہ صرف مسجدوں میں آنے دیں بلکہ ان کی تربیت کے لیے بہترین پروگرام ترتیب دیں۔
مساجد کی آبادی میں ہماری ملی آبادی کا راز پنہاں ہے۔ اس کی حقیقی شادابی ہماری کامرانیوں کی ضامن ہے ۔ مگر اس کے لیے ہمیں بیدار مغز، حقیقت شناس، متحرک اور فعال بننا پڑے گا۔ جامد تقلیدی روش سے ہٹ کر معاملہ فہمی کو راہ دینا ہوگا۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...