Powered By Blogger

بدھ, اگست 24, 2022

مدرسہ ضیاء العلوم البا کالونی پھلواری شریف پٹنہ(زیر اہتمام ضیائے حق فاؤنڈیشن

مدرسہ ضیاء العلوم البا کالونی پھلواری شریف پٹنہ(زیر اہتمام ضیائے حق فاؤنڈیشن) میں آزادی کا امرت مہوتسو 75ویں یوم آزادی کے موقع پر امرت مہوتسو سیریز کا انعقاد ، 

پھلواری شریف پٹنہ 23/اگست (پریس ریلیز اردو دنیا نیوز٧٢) 
مدرسہ ضیاء العلوم البا کالونی پھلواری شریف پٹنہ میں 75ویں یوم آزادی،آزادی کا امرت مہوتسوکے موقع پر پروگرام امرت مہوتسو سیریز کا انعقاد ۔

پروگرام کا آغازقومی پرچم لہرانے کی رسم سے ہوا۔مدرسہ کے نگراں محمد ضیاء العظیم، اور مشہور استاذ، سماجی کارکن ماسٹر محمد نیاز صاحب اور بھی دیگر شخصیات کے ساتھ ساتھ مدرسہ کے اساتذہ اور بڑی تعداد میں طلبہ وطالبات  کی موجودگی میں یہ رسم انجام دی گئی۔۔مدرسہ ضیاء العلوم کے نگراں مولانا محمد ضیاء العظیم قاسمی  نے بھی یوم آزادی کے حوالے سے تقریب کو خطاب کیا اور ہندوستانی آزادی کی جدو جہد اور عظیم مجاہدین آزادی کے کردار کے بارے میں عوام سے خطاب کیا، انہوں نے کہا کہ ہم لوگ مجاہدین آزادی کے دکھائے ہوئے راستے پر وطن عزیز کی تعمیر میں نمایاں کردار ادا کریں۔آزادی کے حوالے سے لوگوں کو معلومات فراہم کریں، اور آج کے دن کے حوالے سے کہا کہ15اگست کا دن بہت اہم دن ہے۔ ملک میں رہنے والے سبھی مذاہب کا قومی تہوار  ہے انہوں نے عوام کو یوم آزادی کی پرخلوص مبارکبادی پیش کی ۔یوم آزادی کی تقریب میں مدرسہ کے طلباء وطالبات نے آزادی مہوتسو سریز کی پہلی کڑی پورے جوش وخروش کے ساتھ پیش کیا، مہوتسو کی پہلی کڑی میں محب وطن پر نظم پیش کی، اور کچھ طلباء وطالبات نے انگریزی اور ہندی میں یوم آزادی کے حوالے سے تقریر پیش کی ساتھ ہی مختلف رنگا رنگ پروگرام پیش کیا۔تقریر پیش کرنے والوں میں جو طلباء وطالبات شامل تھیں ان کا نام اس طرح سے ہے
افضل، طلحہ شمس  نور جہاں، عالیہ پروین ،فقیھہ روشن، صادقین، شاداب خان، 
نظم پیش کرنے والوں میں شہزاد، مہدی حسن، علی شیر، نور جہاں، ثاقب خان، زویہ ملک، کا نام شامل ہے،
جبکہ قومی ترانہ ایک ساتھ بہت خوبصورت انداز میں شہزاد، مہدی حسن، شہزاد خرد،زینب فاطمہ، زاہرہ، انشاء ریاض نے پیش کیا،
 اس کے بعد قاری عبد الواجد صاحب نے پر اثر انداز میں حب الوطنی سے سرشار ہو کر نظم پیش کیا، واضح رہے کہ مدرسہ ضیاء العلوم یہ ملک کی مشہور ومعروف تنظیم ضیائے حق فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام چل رہا ہے، جہاں طلباء وطالبات اپنی تعلیمی پیاس بجھا رہے ہیں،آخر میں مدرسہ ضیاء العلوم کے ڈائریکٹر اور ضیائے حق فاؤنڈیشن پٹنہ کے برانچ اونر محمد ضیاء العظیم قاسمی نے تمام طلباء وطالبات کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے، مہمانوں کے شکریہ کے ساتھ پروگرام کے اختتام کا اعلان کیا،
اس پروگرام  کو بہتر اور خوبصورت بنانے میں ماہر اقبالیات، ضیائے حق فاؤنڈیشن کی چیئرپرسن واسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو سمستی پور کالج ڈاکٹر صالحہ صدیقی صاحبہ نے اپنا بھر پور تعاون پیش کی، انہوں نے ہی اس سیریز کی تربیت دی، جس کی پہلی کڑی پیش کی گئی، عمومی طور پر قاری ابو الحسن، قاری عبد الماجد، حافظ شارق خان، مولانا نورالعظیم، حافظ ثناء العظیم، فاطمہ خان نے اپنا تعاون دیا،

فریب : نہ دیجئیے اور نہ کھائیے __

فریب : نہ دیجئیے اور نہ کھائیے ___

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
اردو دنیا نیوز٧٢
انسانی سماج میں جن چند برائیوں نے مضبوط جگہ بنا لی ہے ، اور انہیں برائی اور گناہ سمجھنے کا تصور دن بدن ختم ہو تا جا رہا ہے ان میں ایک ’’فریب ‘‘ ہے’’ فریب‘‘ کے معنی لغت میں دھوکہ کے آتے ہیں ، دھوکہ دینے والے کو فریبی ، مکار ، عیار دغا بازاور دھوکہ باز کہتے ہیں ، فریب کی جو چند قسمیں سماج میں پائی جاتی ہیں ان میں’’ فریب نفس ‘‘سب سے اہم ہے ، آدمی اپنی ذات کے بارے میں فریب میں مبتلا رہتا ہے ، وہ اپنے کو بڑا اسکالر سمجھتا ہے ، حالانکہ وہ شیر او رشٖیر میں فرق نہیں کرپاتا ہے ، وہ اپنے کو بڑا عالم سمجھتا ہے، حالانکہ حقیقتاً اسے علم کی ہوا نہیں لگی ، وہ معمولی بس کا ڈرائیور ہے؛ لیکن پائلٹ لکھ کراپنے کو فریب دے رہا ہے۔وہ معمولی کلرک ہے ، لیکن اپنے کو ادارہ کے ذمہ داروں سے بھی بڑا سمجھتا ہے۔
 فریب نفس کی ہی ایک قسم یہ ہے کہ آدمی اپنی صحت ، جوانی ، عہدے ، مال اور جاہ ومنصب میں اس طرح کھوجاتا ہے، گویا یہ چیزیں ہمیشہ ہمیش اس کے پاس رہنے والی ہیں ، حالانکہ موت اور بسا اوقات احوال وحوادثات ان چیزوں کو آسانی سے جدا کردیتے ہیں اور فریب نفس کا شکار آدمی ٹوٹ کر رہ جاتا ہے ، وہ چلتا پھرتا ، کھا تا پیتا ، ہنستا بولتا ہے؛ لیکن حقیقت میں ’فریب نفس‘ کے بت کے پاش پاش ہونے کی وجہ سے مردہ کی طرح ہوجاتا ہے اور زندگی میں ہی اسے فریب خوردہ ہونے کا عذاب مل جاتا ہے ، جمیل مظہری نے اس فلسفہ کو ایک شعر میں پیش کیا ہے   ؎
بقدر پیمانۂ تخیل سُرور ہردل میں ہے خودی کا اگر نہ ہو یہ فریب پیہم تو دم نکل جائے آدمی کا 
انسان فریب پیہم میں مبتلا رہتا ہے ، اور موت اسے آخری نیند سلا دیتی ہے، فریب کا طلسم ٹوٹ جاتا ہے، لیکن اب حقیقت کی دنیا میں آنے کا وقت نہیں رہتا ،اب تو آخرت کے حقائق سے اس کا سامنا ہوتا ہے ،جس کے لئے اس نے کچھ تیاری نہیں کی تھی۔ فریب نفس کی ایک دوسری قسم ، اپنے بارے میں دوسروں کو دھوکہ میں ڈالنا ہے ، اس مرض کا شکار آدمی جیسا ہو تا ہے ویسا نظر نہیں آتا، اورجیسا نظر آتا ہے ویسا ہوتا نہیں ہے ، وہ اپنے کو ایماندار، شریف اور متواضع بنا کر سماج کے سامنے پیش کرتا ہے ، حالانکہ ان چیزوں سے اس کا دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا ۔ پروفیسر لطف الرحمن کا ایک بڑا ہی بلیغ شعر ہے   ؎
عجب طرز انا ہے یہ خاکساری بھی قریب سے جو دیکھا تو خدا نکلا
گویا کہ خاکساری اور تواضع صرف دکھاوے کا ہے ،حقیقت میں وہ اتنا متکبر اور اس قدر فخر وغرور رکھتا ہے کہ بزعم خود ،خدا سے مقابلہ کر رہا ہے ۔ یہ دو رُخی زندگی اگر ایمان وعقیدہ کا جز بن جائے تو یہ فریب نفسی انسان کومنافق بنادیتی ہے ، وہ سوچتا ہے کہ میں دوسروں کو دھوکہ دیتا ہوں؛ حالانکہ وہ خود فریب خوردہ ہوتا ہے ، اللہ تعالیٰ نے اسی حقیقت کو واضح کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ اللہ اور ایمان والوں کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں حالانکہ وہ خود دھوکہ کھا رہے ہیں جس کا انہیں احساس تک نہیں ہے ۔ یُخٰدِعُوْنَ اللّٰہَ وَ الَّذِیْنَ آمَنُوْ وَمَایَخْدَعُوْنَ اِلَّا اَنْفُسَھُمْ وَمَا یَشْعُرُوْن۔ دوسری جگہ ارشاد فرمایا  یُخٰدِعُوْنَ اللّٰہَ وَ ھُوَ خَادِعُھُم۔
 فریب کی یہ قسم خاص طور پر قابل مذمت ہے ، اس سے بڑے مفاسد جنم لیتے ہیں ،آدمی جن لوگوں پر اعتماد کرتا ہے اور جن کے ظاہری حرکات وسکنات سے ان پر اعتماد کرنے کو جی چاہتا ہے وہی دھوکہ پراتر آتے ہیں اور معاملہ جن پر تکیہ تھا، وہی پتے ہوا دینے لگے کا ہوجاتا ہے ، ایک شاعر نے اچھے انداز میں اس کی ترجمانی کی ہے  ؎
دیکھا جو تیر کھا کے کمین گاہ کی طرف 
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی 
 یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کا مقام جہنم کے نچلے طبقے میں رکھا ہے ۔ ارشاد فرمایا:اِنَّ المُنَافِقِینَ فِِیْ الدَّرْکِ الأسْفَلِ مِنَ النَّارِ۔ 
فریب کی ایک قسم فریب نظر بھی ہے ، اس میں آدمی خود دھوکہ کھا جاتا ہے ، سامنے والے کی نیت دھوکہ دینے کی نہیں ہوتی ، یہ فریب نظر ہے ، تپتے ہوئے صحرا میں زمین کی حرارت سے اٹھ رہی لہر پانی نظر آتا ہے، حالانکہ وہاں ریت ہی ریت ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کَسَرَابِ بِقیعۃ یَحْسَبُہُ الظَمْاٰنُ مَائَ اً ، حَتّٰی اِذَا جَائَہُ لَمْ یَجِدْہُ شَیْئاً۔ جیسے صحرا کا سراب کہ پیاسا اسے پانی سمجھتا ہے اور جب قریب جاتا ہے تو کچھ نہیں پاتا ہے ، اسی بنیاد پر کہا جاتا ہے کہ ہر چمکتی ہوئی چیز سونا نہیں ہوتی ،شاعر نے کہا ہے  ؎ 
نہ جا ظاہر پرستی پر اگر کچھ عقل ودانش ہے
چمکتا جو نظر آتا ہے سب سونا نہیں ہوتا
غالب کا فریب نظر کے سلسلے میں مشہور شعر ہے   ؎
ہیں کو اکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا
عملی اورمعاملاتی زندگی میں بھی ان دنوں فریب اور دھوکہ کی کثرت ہو گئی ہے ، وعدہ کرکے پورا نہ کرنا دھوکہ کی ہی ایک قسم ہے ، آپ نے کسی سے کسی تقریب میں شرکت کا وعدہ کیا ، مال ودولت فراہم کرانے کی یقین دہانی کرائی اور عین وقت پر مکر گئے، یہ بھی دھوکہ ہے ، اسی وجہ سے وعدہ خلافی کو منافق کی علامتوں میں سے ایک علامت قرار دیاگیاہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اذا وعد اخلف فرمایا کہ جب وعدہ کرے تو  اس کی خلاف ورزی کرے، خیانت بھی فریب کی ایک قسم ہے ، کسی نے آپ کے یہاں امانت رکھ دیا ، آپ نے اس کی امانت واپس کرنے سے انکار کر دیا یا اس میں تصرف کرکے اسے نیست ونابود کر دیا یہ بھی عملی فریب ہے اور اسی وجہ سے اس کو بھی منافق کی علامتوں میں سے ایک قرار دیا گیا ہے ، اذأتمن خان، جب امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔
دھوکہ اور فریب کی ایک قسم یہ بھی ہے کہ معاملات میں جو کچھ طے ہوا ہے اس کی خلاف ورزی کی جائے ، کاروبار میں اچھا مال دکھا کر سودا کیا جائے اور خراب مال سپلائی کر دیا جائے ، پھٹے ہوئے تھان کو اچھا تھان کہہ کر بیچ دیا جائے ، گول مرچ میں پپیتے کے بیج کی ملاوٹ کر دی جائے اور گول مرچ کہہ کر بیچ دیا جائے، اللہ کے رسول صلی اللہ وعلیہ وسلم نے ایسے لوگوں کو اپنی جماعت سے خارج قرار دیا ہے ، فرمایا من غش فلیس منا ، جس نے دھوکہ دیا وہ ہم میں سے نہیں ہے ، اس سلسلے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت ہے کہ اگر اوپر کا گیہوں ہوا لگنے سے خشک ہوگیا ہو اور اندر کا تر ہو تو نکال کر دکھاؤ کہ اندر کا گیہوں بھیگا ہے ، امام اعظم ابو حنیفہ ؒ کے تذکرے میں لکھا ہے کہ ایک تھان میں کچھ نقص تھا ، خادم نے بغیر بتائے ہوئے بیچ دیا تو اس دن کی ساری آمدنی صدقہ کر دیا ۔ 
اسلام نے ہر قسم کے فریب کی مذمت کی ہے تاکہ ایک ایسے سماج کی تشکیل کی جا سکے، جس میں کوئی کسی سے بلکہ خود سے بھی دھوکہ نہ کھائے اور معاشرہ میں ایک دوسرے پر اعتبار واعتماد کی ایسی فضا بنے کہ کسی بھی پریشانی اور مشقت کے وقت انسان ایک دوسرے کا دست وبازو بن سکے۔
دراصل فریب کی وجہ سے جوبے اعتمادی پیدا ہوئی ہے، اس سے سماج میں انسان کا مرتبہ تو کم ہوتاہی ہے، اس سے انسان بہت ساری اخلاقی برائیوں میں مبتلا ہوجاتا ہے، دھوکہ دینا آسان ہے، لیکن جب انسان دھوکہ کھاتا ہے تو اس کی کراہیں نکل آتی ہیں۔ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس سے ہماری عزت بڑھتی ہے ، یہ خیال بھی ایک فریب ہے، جو شیطان انسانوں کے دماغ میں ڈالتا ہے۔ 
تجربہ کا ر لوگوں کے مشورہ کے بغیر جو کام کیا جاتا ہے اس میں دھوکہ اور فریب کھانے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ دھوکہ دینے سے وقتی لذت وفائدہ کا حصول ہو سکتا ہے، لیکن جیسے ہی وقتی لذت ختم ہوتی ہے، انسان بے سکونی میں مبتلا ہوجاتا ہے، اسے یہ ڈر ستانے لگتا ہے کہ اگر ہمارا یہ فریب لوگوں پر کھل گیا تو کیسی رسوائی ہوگی، اس کے علاوہ اگر فریب اور دھوکہ کا معاملہ کسی پر نہ بھی ظاہر ہوا تو بھی وہ کراماً کاتبین سے چھپا ہوا نہیں رہ سکتا، اور آخرت کی رسوائی، دنیا کی رسوائی سے زیادہ سخت ہے۔
 ہمارے زمانہ میں فریب اور دھوکہ دہی کی بعض ایسی صورتیں بھی نکل آئی ہیں، جس کا کوئی تصور ماضی میں نہیں تھا، اب بینک میں کلیرنس کے نام پر دھوکہ دینے والوں کی پوری فوج موجود ہے، آپ کے موبائل پر فون آتا رہتا ہے کہ آپ کو اتنی رقم انعام میں ملی ہے، بینک کی تفصیلات بھیجئے اور اپنے اکاؤنٹ میں جمع کرائیے، بہت سارے واقعات میں دیکھا گیا ہے کہ زمین کے دلال دوسرے کی زمین کو آپ کے ہاتھ بیچ دیتے ہیں اوپیسہ لے کر فرار ہوجاتے ہیں، سرکاری زمینوں کو بیچ دینے کا چلن تو عام ہے، اسی طرح غیر ملک میں نوکری دلانے کے نام پر موٹی موٹی رقمیں وصول کر کے لے بھاگنا عام سی بات ہے، لڑکیوں کو محبت کے جال میں پھنسا کر شادی کرنے کے عزم کا اظہار کرکے ناجائز جنسی تعلق کے بعد شادی سے مکر جانا ،یہ سب فریب اور دھوکہ کی ہی مختلف شکلیں ہیں، اس لیے دھیان رکھئے نہ فریب دیجئے اور نہ فریب کھائیے، دنیا وآخرت کی بھلائی اسی میں ہے ۔

منگل, اگست 23, 2022

بی جے پی نیتا ٹی راجا پیغمبر اسلامؐ پر توہین آمیز تبصرہ کرنے کے الزام میں گرفتار

بی جے پی نیتا ٹی راجا پیغمبر اسلامؐ پر توہین آمیز تبصرہ کرنے کے الزام میں گرفتار

اردو دنیا نیوز٧٢

حیدرآباد: تلنگانہ سے تعلق رکھنے والے بی جے پی رکن اسمبلی ٹی راجا سنگھ کو منگل کے روز پیغمبر اسلامؐ پر توہین آمیز تبصرے کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔ حیدرآباد ساؤتھ زون کے ڈپٹی کمشنر آف پولیس پی سائی چیتنیا نے کہا کہ ٹی راجا کے خلاف مذہبی عقیدے کی توہین سے متعلق قانون کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

اطلاعات کے مطابق شہر کے پولس کمشنر سی وی آنند کے دفتر اور حیدرآباد کے دیگر حصوں میں پیر کی شب راجا سنگھ کی جانب سے پیغمبر اسلامؐ کے بارے میں توہین آمیز کلیمات والی ایک ویڈیو جاری کرنے کے بعد احتجاجی مظاہرے ہوئے تھے۔ جس کے بعد مقدمہ درج کر کے یہ کارروائی کی گئی ہے۔

مظاہرین کا کہنا تھا کہ راجا سنگھ نے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی ہے، لہذا انہیں فوری طور پر گرفتار کیا جائے۔ چنانچہ پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے ٹی راجا کو گرفتار کر لیا۔ قبل ازیں، حیدرآباد کے گوشا محل سے رکن اسمبلی ٹی راجا سنگھ نے گزشتہ ہفتے ایک کامیڈی شو میں خلل ڈالنے کی کوشش کی تھی۔ اسٹینڈ اپ کامیڈین منور فاروقی کے شو کو منسوخ کرنے کے لیے تقریباً 50 حامیوں کے ساتھ پنڈال تک پہنچنے کی کوشش کے بعد جمعہ کو پولیس نے انہیں احتیاطاً تحویل میں لیا تھا۔

عظیم اتحاد کی نئی وزارت ___مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

عظیم اتحاد کی نئی وزارت ___
مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
اردو دنیا نیوز٧٢
 تینتیس (۳۳) افراد پر مشتمل بہار میں عظیم اتحاد کی نئی وزارت نے حلف برداری کے بعد اپنا کام کاج سنبھال لیا ہے ، نتیش کمار وزیر اعلیٰ ، تیجسوی یادو نائب وزیر اعلیٰ کے ساتھ جنہیں وزیر بنایا گیا ان میں کانگریس سے ایک، جدیو سے ایک ،اور تین راشٹریہ جنتال دل کے کل پانچ مسلمان بھی وزارت تک پہونچ گیے ہیں، مسلم وزراء میں صرف زماں خان پہلی حکومت میں وزیر تھے، بھاجپا کو ٹہ سے شاہنواز حسین بھی تھے، لیکن وہ بی جے پی اتحاد کے ٹوٹنے کی وجہ سے حاشیہ سے بھی باہر چلے گیے، بقیہ چار وزراء کانگریس کے آفاق احمد اور راشٹریہ جنتا دل کے محمد اسرائیل منصوری، محمد شاہ نواز عالم اور ڈاکٹر شمیم احمد صاحب پہلی بار وزارت کی کرسی تک پہونچے ہیں، یہ نئے لوگ ہیں، کام کرنے کا ان میں حوصلہ ہے، نتیش کمار کی قیادت ہے اور تیجسوی ان کے دست وبازو ہیں، سیاسی اتحاد سات پارٹیوں کی مجبوری ہے اور اقتدار تک پہونچنے کی فطری خواہش بھی۔ اس لیے امید کی جاتی ہے کہ یہ اتحاد ۲۰۲۴ء تک  چلا جائے گا۔
 عظیم اتحاد میں شامل بھارتیہ کمیونسٹ پارٹی( مالے) نے حکومت میں شامل ہونے سے انکار کر دیا، جیتن رام مانجھی اپنے بیٹے کو وزیر بنانے میں پہلی حکومت میں بھی کامیاب تھے اور اس بار بھی کامیاب رہے، ایک آزاد ایل ایم اے بھی حق وفاداری میں وزیر بن گیے ہیں، وزارت میں پانچ مسلمانوں کے ساتھ ۱۷؍ او بی سی اور ای بی سی، چھ (۶) اعلیٰ ذات اور پانچ ایس سی سے تعلق رکھنے والے ہیں، اس طرح کوشش کی گئی ہے کہ ہر اعتبار سے معتدل اور متوازن وزارت کی تشکیل کی جائے۔
 یہ مرحلہ تو تمام ہوا، لیکن حکمراں اتحاد کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ بہار ہندوستان میں غربت کے اعتبار سے تیسرے نمبر پر ہے، یہاں ہر دوسرا شخص خط افلاس سے نیچے مقام پر ہے، اس لیے یہاں معیار زندگی کی بلندی کے لیے غذائیت ، صحت، تعلیم کے محاذ پر کام کرنے کی ضرورت ہے، بے روزگاری اور مہنگائی نے ریاست کے باشندوں کی کمر توڑ رکھی ہے ، دوسری طرف صورت حال یہ ہے کہ بہار ان چار ریاستوں میں شامل ہے، جس کا مالیاتی خسارہ مالیاتی کمیشن کے مقررہ حدود سے آگے ہے، یہ ایک اچھی بات ہے کہ تیجسوی یادو نے وزارت ملتے ہی اپنے انتخابی وعدہ دس لاکھ روزگار فراہم کرانے کے وعدہ کو دہرایا ہے اور نتیش کمارنے سرکاری ملازمتوں کے علاوہ غیر منظم سکٹر میں دس لاکھ اور ملازمت دینے کا وعدہ کیا ہے ، یہ وعدے زمین پر اتر جاتے ہیں تو بیروزگاری دور ہوگی اور اگر یہی ایک کام نئی حکومت نے کر دکھایا تو ۲۰۲۴ء کے پارلیمانی زنتخاب میں منظر کچھ اور ہی ہوگا، یہ حکومت کے لیے ایک چیلنج ہے، عظیم اتحاد کی حکومت نے اس چیلنج کو قبول کر لیاہے ۔

الحمداللہ کل بروز سوموار شب ٩بجےتحفظ شریعت کے بیزتلے زووم ایپ ایک نعتیہ مشاعرہ کا پروگرام منعقد ہوا

الحمداللہ کل بروز سوموار شب ٩بجے
تحفظ شریعت کے بیزتلے زووم ایپ ایک نعتیہ مشاعرہ کا پروگرام منعقد ہوا تاریخ ٢٢/٨/٢٠٢٢
جس میں مشہور ومعروف شعراء عظام شرکت کی
جلسہ کے فرائض انجام دیۓ
اردو دنیا نیوز٧٢
حضرت مولانا عبد الوارث صاحب مظاہری اور سرپرستی کے عہد ے پر قائم رہے حضرت مولانا عبد اللہ سالم قمر صاحب چترویدی زیر نقابت حضرت مولانا نعمت اللہ رحمانی صاحب زیر انتظام ایم رحمانی صاحب نے کی خصوصی مہمان حضرت مولانا مفتی مجاہد الاسلام مجیبی القاسمی بھاگلپوری
شعراۓکرام کوثر آفاق صاحب  دانش خوشحال صاحب اعجاز ضیاء صاحب فیاض احمد راہی صاحب  مفتی شہباز اشرفی صاحب قاسمی  مولانا فہیم صاحب مولانا صدام صدیقی صاحب  مولانا خوش محمد صاحب اور دیگر بہت سارے شعرائے کرام تشریف لائے جس کے اختتام پر قاری محبوب صاحب رحمانی نے دعا کی 
اللہ تعالیٰ ہمارے پروگرام کو کامیاب عطاء فرمائے آمین ثم آمین یارب العالمین
ڈاریکٹر ایم رحمانی اردو دنیا نیوز٧٢ 

پیر, اگست 22, 2022

’تن ‘‘ کے ساتھ ’’من‘‘ بھی صاف رکھیے ____مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

’’تن ‘‘ کے ساتھ ’’من‘‘ بھی صاف رکھیے ____
مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
اردو دنیا نیوز٧٢
حفظان صحت کے اصولوں میں جسم ،مکان ماحول کپڑے وغیرہ کی صفائی اورجسمانی ورزش پرزوردیاجاتاہے یقینا انسانی زندگی میں صفائی اورورزش کی اپنی اہمیت ہے،جسم کو صحت مندرکھنے کے لیے ان کی ضرورت بھی ہے ، لیکن دل ودماغ کی صحت اوردرست سمت ورخ پرکام کرنے کے لئے ’’من کی صفائی‘‘ ضروری ہے ،جس طرح ہمارے موبائل میں کچرابھرجاتاہے اور’’جونک ‘‘ہمارے سافٹ ویر کی صلاحیت کوکمزورکردیتے ہیں، جس کی وجہ سے کبھی کبھی یہ موبائل خطرناک حد تک جاپہونچتاہے ۔اسی طرح ہمارے دل ودماغ میں مختلف واقعات حالات،حوادثات اورغیرضروری باتوں کااسٹورہوتاہے، یہ ہمارے دل ودماغ کومتاثرکرتے ہیں ان کے جمع ہونے کی وجہ سے ہمارے اعضاء وجوارح بھی اسی اندازمیں عمل کرنے لگتے ہیں ،بعض باتیں خارج میں نہیں ہوتیں ، لیکن چوںکہ ہمارے دل ودماغ میں جوکچرابھراہواہے وہ اس کاحصہ بن چکا ہوتا ہے ؛اس لیے خارج ہیں وہ ہمیں مجسم نظرآنے لگتاہے جس طرح آئینے میں شیر کوشیر اورگیدڑ کوگیدڑ نظرآتاہے اسی طرح اگر ’’من ‘‘صاف نہ ہوتوسماجی ، خانگی اورملی زندگی تک متاثرہوجاتی ہے اس کانقصان خود اس ’’گندے من‘‘والی ذات کوتوپہونچتاہی ہے، اس کے دوررس اثرات سماج پر بھی پڑتے ہیں، اقبال نے بہت واضح لفظوں میں تن اور من کے فرق کوواضح کیاہے۔ کہتے ہیں کہ 
 من کی دنیامن کی دنیاسوزومستی جذب وشوق
 تن کی دنیاتن کی دنیا سود و سودا مکر وفن
شریعت اسلامیہ میں جسم کی صفائی کے ساتھ روحانی کثافت کودور کرنے پر بھی خاصی توجہ دی گئی ہے ، کینہ کدورت ،بغض وعداوت، بدگمانی وبدمزاجی سے ہمارا’’من ‘‘بیمار ہوجاتاہے ،اس لئے ان چیزوں سے بچنے اوراس سے دل ودماغ کوپاک رکھنے کی ضرورت بتائی گئی ہے، کیونکہ جس قوم یا انسان میں روحانی بیماری پیدا ہوجاتی ہے،وہاں محبت کاگذرنہیں پاتا، جس دل میں کینہ وکدورت نے جگہ بنالیاہواورجوانتقام کی آگ میں سلگ رہا ہو، دل کے ایسے بنجر زمین پر محبت کی فصل نہیں لہلہاسکتی ،انسانی تعلقات کوسب سے زیادہ نقصان پہونچانے والی چیز کینہ ہے ،دل میں دشمنی ،نفرت اورغصہ کوروکے رکھناکینہ کہلاتاہے ۔
اور بعض روایتوں میں آتا ہے کہ کینہ رکھنے والا جنت کی خوشبو سے بھی محروم رہے گا، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسے صحابی کے لیے جنتی ہونے کا اعلان کیا، جو فرائض وواجبات کی ادائیگی کے ساتھ سوتے وقت اپنے دل کو لوگوں کی طرف سے کینہ کدورت سے پاک کرکے سویا کرتا تھا۔
ہم اپنی زندگی کاتجزیہ کریں تومعلوم ہوگاکہ ہم دوقسم کی دنیامیں زندگی گذارتے ہیں ،ایک ہماری داخلی دنیاہے اورایک خارجی دنیااس دنیا کوحالات ،لوگ، جسمانی صحت وغیرہ ہماری خارجی دنیاہے، اس پر ہماری توجہ ہروقت مرکوز رہتی ہے اورہم اسے دیکھتے ہی رہتے ہیں، مفسرین نے ’’عالم کبیر‘‘کہا ہے؛ لیکن اس سے الگ ایک داخلی دنیاہے ،جسے مفسرین اوراہل علم نے ’’عالم صغیر‘‘ سے تعبیر کیاہے،ہمیں اس پرخصوصی توجہ اوردھیان دینے کی ضرورت ہے ،ہماری فکر، ہمارے احساسات، ہمارے خیالادت وجذبات ،یادیں یہ سب ہماری داخلی دنیاکاحصہ ہیں،ان میں ماضی کی باتیں بھی ہیں، ساری باتوں کویادداشت سے نکالناممکن نہیں ہوتا، لیکن ہمیں تجزیہ کرناچاہے کہ کون سی بات فضول (جونک) ہے اورکون سی بات کار آمد،کس کوفضول (جونک)سمجھ کر نکال باہر کرناہے اورکس کواپنی داخلی دنیاکاحصہ بناناہے ، یہ تمیز آجائے توزندگی میں دوسروں سے شکایتیں کم ہونگی اوردل ودماغ روحانی بیمار ی سے پاک ہوجائے گا،باتوں کوپکڑکررکھنے سے ہماری داخلی دنیاکی بیٹری ڈسچارج ہوتی ہے اوربیٹری ڈسچارج ہوجانے کے بعد جس طرح موبائل کام کرنابندکردیتاہے ،ویسے ہی دماغ کی بیٹری ڈسچارج ہونے لگے توکام کرنے کی صلاحیت دھیرے دھیرے کم ہوتی ہے اورپھر ختم ہوجاتی ہے ،صلاحیت کمزورہویاختم ہوجائے توجھنجھلاہٹ پیداہوتی ہے، انسان ٹینشن میں آجاتاہے اورغلط فیصلے لینے لگتاہے ، یہ غلط فیصلے اس کی داخلی دنیاکوبرباد کردیتے ہیں اور خارجی دنیامیں وہ لوگوں کونفرت کامحورومرکزبن جاتاہے،ہمیں یہ بات اچھی طرح یادرکھنی چاہئے کہ ہر آدمی کی الگ الگ صلاحیت ہوتی ہے ، ان صلاحیتوں کے استعمال کے مواقع جس قدرملیں گے ،خارجی دنیاکے ساتھ داخلی دنیابھی بنتی جائے گی اگر ہم صلاحیتوں کی شناخت نہیں کر پاتے توہمارے قریب خوشامدی قسم کے لوگ ہی گھیرابنائے رکھیں گے ، جس سے ہماری دل کی دنیاتواجڑے گی ہی، ہمارے کام کرنے کے طریقوں پر بھی سوالات اٹھیں گے ، اس لئے ’’من ‘‘کو صاف ستھرارکھناانتہائی ضروری ہے ،اگر’’من ‘‘نہیں صاف ہوگاتومثبت نفسیات اورسوچ نہیں بن پائے گی ،مثبت نفسیات یہ ہے کہ ہر کام کے روشن پہلوئوں پر دھیان دیاجائے؛ کیوں کہ اس طرح آپ خود بھی خوش رہیں گے اوردوسروں کوخوش رہنے کے مواقع فراہم کریں گے ، اس سے آپ کی داخلی اورخارجی دل کی دنیاآباد رہے گی آپ پُر سکون اورتنائوسے پاک زندگی گذارسکیں گے،اس کے لئے جس طرح جسم کوصاف ستھرااورتروتازہ رکھنے کے لئے صفائی اورورزش کی ضرورت ہوتی ہے، اس طرح ’’من ‘‘کی صفائی کے لئے بھی ٹریننگ کی ضرورت ہے ،’’تن ‘‘کی صفائی کے ساتھ ’’من ‘‘کوبھی صاف رکھئے ، یہ دنیاوآخرت دونوں کی کامیابی کے لئے انتہائی ضروری ہے، دیکھئے ،اقبال پھر یاد آگئے
من کی دولت ہاتھ آتی ہے تو پھر جاتی نہیں
 تن کی دولت چھاؤں ہے آتا ہے دھن، جاتا ہے دھن
اسی لئے شریعت نے آنکھ پر پہرابٹھایااورخارجی دنیامیں کن چیزوں کونہیں دیکھناہے اس کی نشان دہی کی، اعضاء جوارح سے جوکام نہیں کرنا ہے، اس کوواضح کردیا، اگر آپ نے کسی کی اندرکی کمزوری کودیکھ لیا اور اس کی داخلی زندگی میں تانک جھانک کرنے لگے تودل ودماغ یعنی آپ کی داخلی دنیا اس سے متاثر ہوگی ، اوراس تأثرکے نتیجے میں دماغ میں کچڑابھر تاچلاجائے گا ، اوریہ کچراموقع دیکھتے ہی شعور؛ بلکہ تحت الشورتک سے نکل کرہماری خارجی دنیاکومتاثرکرے گا ، سماج میں پھیلی بُرائی بے راہ روی، آپسی چپقلس دوسرے سے انتقام لینے کاجذبہ یہ سب اسی بیماری کی وجہ سے پروان چڑھتاہے ،اسی لئے داخلی دنیاکی حفاظت کے لئے صوفیانے ’’مراقبۂ موت‘‘ پر زوردیاہے ، یعنی ایک وقت فارغ کرکے تنہائی میں موت کویاد کیاجائے اورسوچاجائے کہ جوکچھ عہدے، مناصب، عزت ،شہرت اوردولت ہم نے حاصل کی ہے وہ سب یہیں رہ جانے والی چیز ہے ،موت کاسفر خارجی دنیاسے خالی ہاتھ ہی ہواکرتاہے، مرنے کے بعد داخلی دنیامیں جوکچھ عمل کیاہے وہی کام آتے ہیں اورقدرت کے اس نظام کوبدلناکسی کے بس میں نہیں ہے۔ اقبال نے بڑی سچی اور پکی بات کہی ہے۔
 عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی 
 یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے، نہ ناری ہے

اتوار, اگست 21, 2022

شوکت کے سلسلے سے قدر شناسی کا کام ادھورا ہے: نقّادوں کی سنجیدہ کوششیں لازمی

شوکت کے سلسلے سے قدر شناسی کا کام ادھورا ہے: نقّادوں کی سنجیدہ کوششیں لازمی
اردو دنیا نیوز٧٢
بزمِ صدف انٹرنیشنل کے قومی سے می نار میں اصحابِ علم کی گزارشات
بنیادی درس گاہوں اور اسکولوں میں اردو زبان کے لیے تحریکی کاوشیں ضروری: ڈاکٹر شکیل احمد خاں

پٹنہ:۱۲؍ اگست: وبائی دور میں اردو کے مشہور افسانہ نگار شوکت حیات کے گزرنے کے بعد عظیم آباد میں پہلی بار اُن کی حیات و خدمات کے حوالے سے ایک قومی سے می نار منعقد ہوا جس کا افتتاح کرتے ہوئے کانگریس کے رُکنِ اسمبلی ڈاکٹر شکیل احمد خاں نے کہا کہ شوکت حیات آنے والے دور کی تشویشات اور خطروں کو نہ صرف یہ کہ سمجھتے تھے بلکہ اپنے افسانوں کے ذریعہ ہمیں باخبر کرتے تھے۔ بڑا لکھنے والا وہی ہوتا ہے جو اپنے زمانے کے مسائل کے ساتھ ساتھ آنے والے وقت کے مسئلوں پر بھی نظر رکھے۔انھوں نے سے می نار کے شرکا سے خاص طَور سے یہ بات کہی کہ ادبی اور علمی کاوشوں کے ساتھ عوامی سطح پر اردو زبان کی تدریس اور خواندگی پر مرکوز ہونے کی ضرورت ہے۔
جناب امتیاز احمد کریمی ، رکن بہار پبلک سروس کمیشن نے شوکت حیات کے تعلق سے اپنے تاثّرات میں بتایا کہ وہ کیسے اندر سے نرم اور ملائم تھے اور باہر سے سخت اور زورآور معلوم ہوتے تھے۔ انھوں نے کہا کہ ہر سچّے فن کار کا دِل اسی طرح نرم اور انسانی ہم دردی سے بھر ہوتا ہے۔ممتاز ناول نگار جناب عبدالصمد نے اپنی پانچ دہائیوں کی رفاقت کے نشیب و فراز پر روشنی ڈالتے ہوئے اس بات کا اقرار کیا کہ ان کی نسل میں ویسا ہُنر وَر کوئی دوسرا نہیں تھا۔ممتاز افسانہ نگار مشتاق احمد نوری نے اپنے دیرینہ تعلّقات کی تفصیل واضح کرتے ہوئے یہ بتایا کہ شوکت حیات چند لمحوں میں پتّھر سے موم بن جاتے تھے۔ یہ تخلیقی فن کار کا ایسا انفراد ہے جس کے بغیر وہ شہہ کار نہیں لکھ سکتا۔ خورشید اکبر نے مہمانِ ذی وقار کی حیثیت سے تقریر کرتے ہوئے یہ بات بتائی کہ سعادت حسن منٹو کے بعد انھیں شوکت حیات کا اسلوب ہی اردو افسانے کا سب سے موزوں اسلوب معلوم ہوتا ہے۔
اس قومی سے می نار کے اغراض و مقاصد بتاتے ہوئے بزمِ صدف انٹرنیشنل کے سربراہ پروفیسر صفدرامام قادری نے واضح الفاظ میں یہ بات کہی کہ شوکت حیات کو اپنی ناقدری کا بہت شدّت کے ساتھ احساس تھا اور اِس کے سبب وہ ہمیشہ مبتلاے غم رہے۔ان کے ہم عصروں نے اور ان کے دوسرے چاہنے والوں نے کبھی اُن کے حق کے مطابق ادبی مقام کے تئیں ماحول نہیں بنایا۔کسی ادارے نے سنجیدگی سے اُن پر کوئی مذاکرہ نہیں رکھا۔ اُن کی کتابیں وقت پر شایع نہ ہو سکیں۔ بہار کے سرکاری اداروں نے بھی اُن پر اِلتفات کی نگاہ نہیں ڈالی۔اِنھی وجوہات سے بزمِ صدف انٹرنیشنل نے ان کی حیات و خدمات کے حوالے سے ایک قومی سے می نار کرنے کا فیصلہ کیا۔انھوں نے بتایا کہ اس سے می نار میں مُلک بھر سے نمایندے تشریف فرما ہیں اور وہ شوکت حیات کی خدمات کے حوالے سے اپنے مقالوں میں گفتگو کریں گے۔انھوں نے یہ بھی بتایا کہ اقبال حسن آزاد کی ادارت میں شایع ہونے والے رسالہ ’ثالث‘ کے شوکت حیات نمبر کا خاص طَور سے اِس اجلاس میں اجرا بھی کیا جائے گا۔پروفیسر آزاد اور نائب مدیرہ محترمہ نشاط پروین بہ نفسِ نفیس اس تقریب میں موجود تھے۔
پہلے جلسے رسالہ ’ثالث‘ کے خصوصی شوکت حیات نمبر کا تعارف کراتے ہوئے پروفیسر اقبال حسن آزاد نے بتایا کہ شوکت حیات کے تعلق سے برسوں سے کچھ خاص کرنے کا اُن کے ذہن میں ارادہ تھا۔ شوکت حیات کی وفات کے بعد وہ اِس مُہم میں جُڑ گئے اور انھوں نے تقریباً پانچ سو صفحات پر مشتمل رسالہ ’ثالث‘ کا شوکت حیات نمبر شایع کردیا۔ سے می نار میں شوکت حیات کی اہلیہ محترمہ ارشاد پروین نے شوکت حیات کی زندگی کے کئی ان جانے پہلوؤں کی طرف توجہ دلائی۔انھوں نے بھی اس بات کا ذکر کیا کہ شوکت حیات کو اپنی ناقدری کا بہت شکوہ تھاجس کی تلافی اِس سے می نار میں ہو رہی ہے۔ شوکت حیات کی صاحب زادی محترمہ اَنا حیات نے اپنی یادوں کی رہ گزر میں اپنے والد کی شبیہہ دیکھتے ہوئے بتایا کہ یہ میرے لیے واقعتا قابلِ فخر بات ہے کہ میرے والد شوکت حیات تھے۔انھوں نے دوسرے مقرّرین کی باتوں کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ وہ اس دکھ کی گھڑی میں اس بات سے سرشار ہیں کہ اُن کے والد کی غیر موجودگی میں بھی اُن نے چاہنے والے شہرِ عظیم آباد میں بھرے پڑے ہیں۔ 
سے می نار کی نظامت ڈاکٹر افشاں بانو نے کی ۔ پہلے جلسے میں جناب محمد مرشد، محترمہ شبنم پروین نے رسالہ ’ثالث‘ کی ادبی اہمیت کے حوالے سے خصوصی مقالے پیش کیے۔دوسرے جلسے میں شوکت حیات پر مشتمل یادداشتوں کے حوالے سے محترمہ نشاط پروین، ڈاکٹر تسلیم عارف اور محترمہ شگفتہ ناز نے اپنے مقالے پیش کیے۔سے می نار کی تیسری نشست میں ڈاکٹر الفیہ نوری نے شوکت حیات کے کُل افسانوں کی تعداد کے حوالے سے اپنی تحقیق کا خلاصہ پیش کیا۔دیگر مقالہ نگاروں میں ڈاکٹر اظہار خضر، ڈاکٹر طیب نعمانی ، ڈاکٹر منی بھوشن کمار، ڈاکٹر سلمان عبدالصمد، ڈاکٹر صالحہ صدیقی، محترمہ نازیہ تبسم، محترم سعدیہ آفرین ، جناب محمد مرجان علی اور جناب محمد شوکت علی نے اپنے مقالات پیش کیے جن سے شوکت حیات کی تحریروں کے گوناگوں پہلوؤں پر روشنی پڑتی تھی۔ان مقالوں سے یہ بات بھی روشن ہوئی کہ شوکت حیات کی افسانہ نگاری میں گہرائی ہے اور ان کی تفہیم کے لیے نقّادوں کو مشقّت اُٹھانی پڑے گی۔
سے می نار کے پہلے اجلاس کی صدارت ڈاکٹر اسلم جاوداں نے کی۔ انھوں نے شوکت حیات کے سلسلے سے اپنی یادداشتوںکے حوالے سے گفتگو کی ۔دوسرے اجلاس کی صدارت ممتاز ہندی ادیب جناب رشی کیش سُلبھ نے فرمائی۔ انھوں نے اپنے دیرینہ تعلّقات کا ذکر کرتے ہوئے واضح کیا کہ شوکت حیات کس طرح ایک شعلۂ مستعجل تھے۔ وہی آگ ان کی تحریروں میں بھی دکھائی دیتی تھی۔ معاشرے اور زمانے کے حالات سے وہ غیر مطمئن تھے اور اِسی کے حوالے سے وہ اپنی تحریروں میں اور ذاتی طَور پر اپنی گفتگو میں اختلاف کرتے تھے۔شوکت حیات سے دوستی میں انھوں نے ادب اور زندگی کے نہ جانے کتنے ابواب سیکھے۔سے می نار کے تیسرے اجلاس کی صدارت پروفیسر علیم اللہ حالی نے کی ۔ تیسرے اجلاس میں مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے شریک پروفیسر شہزاد انجم، سابق صدر شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ ، نئی دہلی نے کہا کہ اب شوکت شناسی کا نیا دور شروع ہونا چاہیے۔ پروفیسر جمشید قمر نے رسالہ ’ثالث‘ کے خصوصی شمارے کو ایک تاریخی اقدام قرار دیا اور اس بات پر زور دیا کہ بزمِ صدف انٹرنیشنل نے ان کی حیات و خدمات کے حوالے سے کئی طرح کے کاموں کاجو خاکا بنا رکھا ہے ، اسے جلد از جلد انجام تک پہنچایا جائے۔ سے می نار میں پروفیسر صفدر امام قادری نے بزمِ صدف کی جانب سے مہمانوں اور دیگر شرکا کا خاص طَور سے شکریہ ادا کیا۔ سے می نار کے تینوں اجلاس میںہال خاص طَو رپر ادیبوں ، شاعروں ،نقّادوں اور ری سرچ اسکالرس سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ شوکت حیات سے عقیدت رکھنے والے قارئین کی بھی اچھّی خاصی تعداد محفل میں موجود تھی۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...