Powered By Blogger

جمعرات, ستمبر 15, 2022

ڈھیکلی والی مسجد محلہ انصاریان قصبہ ساھن پور تحصیل نجیب آباد ضلع بجنور میں ایک روزہ تبلیغی و اصلاحی پروگرام

ڈھیکلی والی  مسجد محلہ انصاریان قصبہ ساھن پور  تحصیل نجیب آباد ضلع بجنور میں ایک روزہ  تبلیغی و اصلاحی پروگرام 
اردو دنیا نیوز٧٢
بتاریخ: ۱۹صفر المظفر ۱۴۴۴ہجری مطابق ۱۷ستمبر ۲۰۲۲عیسوی بروز ہفتہ
بوقت: بعد نمازِ مغرب 
حضرت مولانا مفتی محمد عثمان قاسمی صاحب دامت برکاتہ کی زیرِ نگرانی  پوری شان و شوکت کے ساتھ منعقد ہو رہا ہے 
جس میں بطور مہمان خصوصی  صوفی با صفا پیکر اخلاص و وفا  حضرت اقدس حضرت مولانا آدم مصطفی صاحب مد ظلہ العالی فروز آبادی  خلیفہ شیخ یونس جون پوری رحمہ اللہ تشریف لا رہے ہیں
تمام اہلِ ایمان سے عموماً اور علماء و ائمہ حضرات  سے خصوصًا شرکت کی درخواست ہے
المعلن : انس حسامی بجنوری 

آوازۂ لفظ و بیاں‘ ایک مطالعہ(مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی کی عمدہ پیشکش) ڈاکٹر احسان عالمپرنسپل الحراء پبلک اسکول، دربھنگہ

”آوازۂ لفظ و بیاں‘ ایک مطالعہ
(مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی کی عمدہ پیشکش)
     ڈاکٹر احسان عالم
پرنسپل الحراء پبلک اسکول، دربھنگہ
موبائل:9431414808
اردو دنیا نیوز٧٢
    مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی سرزمین بہار کے ایک ایسے عالم دین ہیں جو تصنیف و تالیف کے کام بہت ہی دلجمعی کے ساتھ لگے ہیں۔ مذہبی موضوعات کے ساتھ وہ ادبی موضوعات پر بھی قلم فرسائی کرتے ہیں۔ ان کے تصنیفات وتالیفات کی تعداد تقریباً چالیس (۰۴) ہے۔ پیش نظر کتاب ”آوازۂ لفظ و بیاں“ ۲۲۰۲ء میں منظر عا م پر آئی ہے۔ ۴۰۳ صفحات پر مشتمل کتاب کو مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نے چار ابواب میں تقسیم کیا ہے۔ وہ چار ابواب اس طرح ہیں:
    باب اول:     مذہبی
    بام دوم:         ادبی
    باب سوم:     تاریخی
    باب چہارم:     تعلیمی
    چاروں ابواب کافی اہم ہیں۔یہ ابواب ۳۰۱ مضامین سے مزین ہیں۔ 
    ”آوازۂ لفظ وبیاں“ کے حوالے سے مفتی صاحب لکھتے ہیں:
”آوازۂ لفظ و بیاں“ میرے ان مضامین کا مجموعہ ہے جو میں نے مختلف حضرات اور متنوع عنوانات پر لکھی گئی کتابوں پر تعارف،تبصرے، مقدمہ، پیش لفظ اور تنقید کے طور لکھے، یہ سارے مضامین امارت شرعیہ کے ترجمان  ہفت روزہ نقیب میں ”کتابوں کی دنیا“ کے ذیل میں اشاعت پذیر ہوئے، بعد میں مختلف اخبارات و رسائل میں بھی ان کو جگہ مل گئی۔“(ص:۸)
    پروفیسر صفدر امام قادری نے ”مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی: مبصر کی حیثیت سے“ عنوان کے تحت بہت ہی جامع تاثرات بیان کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:”گذشتہ برسوں میں مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی کی تصنیفات سلسلے وار طریقے سے سامنے آتی رہی ہیں۔ ادبی اور علمی موضوعات کو انہوں نے مذہبی امور کے شانہ بہ شانہ قائم رکھا۔ امار ت شرعیہ کے ترجمان ”نقیب“ کی ادارت سے بھی ان کے تصنیفی کاموں میں ایک باقاعدگی پیدا ہوئی۔ ان کی خدمات کے اعتراف کا سلسلہ شروع ہوا اور مختلف یونیورسٹیوں میں ان کے کارناموں کے حوالے سے تحقیقی مقالے لکھے گئے۔“
    کتاب کے آغاز میں مفتی ثنا ء الہدیٰ قاسمی نے ۵۵/ مذہبی کتابوں پر تاثراتی مضامین شامل کئے ہیں۔ یہ مضامین مختصر لیکن جامع انداز میں تحریر کئے گئے ہیں۔ پہلی کتاب ”خیر السیرفی سیرۃ خیر البشر“ کے عنوان سے ہے جس پر تبصرہ کرتے ہوئے موصوف لکھتے ہیں:”خیر السیر فی سیرۃ خیر البشر“ والی اللہ عبدالسبحان ولی عظیم آبادی کی سیرت رسول پر منظوم کتاب ہے۔ جس کے ہر شعر سے ان کے قادر الکلامی اور محبت رسول کی جھلک ملتی ہے، ان کی یہ کتاب تاریخ اسلام میں حفیظ جالندھری کی ”شاہنامہ اسلام“ اورڈاکٹر عبدالمنان طرزی کی مشہور و معروف منظوم ”سیرت الرسول“ کے کام کو تسلسل عطا کرتی ہے۔ 
    ”مقام محمود“ مولانا مفتی اختر امام عادل صاحت کی کتاب ہے۔ اس کے سلسلہ میں مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی لکھتے ہیں:”مقا م محمود سیرت نبی ﷺ کی امتیازات و خصوصیات پر مشتمل مقالات کا مجموعہ ہے، جسے موضوع کی یکسانیت کی وجہ سے یک جا کتاب کی شکل دے دی گئی ہے۔ پوری کتاب سات ابواب ’اسوۂ انسانیت، عالمی نبوت بین الاقوامی پیغمبر، عالمی رحمت، بے مثال صبر و عزیمت، عالمی انقلاب، عالمی پناہ گاہ اور عالمی دعوت کے عنوان سے ہے۔“
    اسی طرح کئی مذہبی کتاب مثلاً ”پیارے نبی کی سنتیں، تصوف کا اجمالی جائزہ، سجدہ سہو کے مسائل، اسلام کا قانون طلاق، موت سے قبر تک کے احکام و مسائل، اسلام ہی کیوں؟، درس حدیث، ایمان کے شعبے، رسول اللہ کی بیٹیاں، داماد اور نواسے، نواسیاں، حجاب کے فوائد اور بے حجابی کے نقصانات، خطبات جمعہ، خطبات سبحانی، شرح در مختار، شراب: ایک تجزیاتی مطالعہ، قرآن کریم کا تاریخی معجزہ، دین اسلام اور اس کے پیغامات، پیارے نبی کی پیاری باتیں، ازدواجی زندگی، عبادت کا آسان طریقہ اور تصویر کشی فتاویٰ کی روشنی میں“ پر مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی صاحب نے تاثراتی مضامین قلم بند کئے ہیں۔ ان مضامین میں کتاب کی جھلک قارئین کے سامنے پیش کر دی گئی ہیں۔ 
    ”آوازۂ لفظ و بیاں“ کا دوسرا باب ادبی کتابوں پر تاثراتی مضامین سے مزین ہے۔ اس باب کا پہلا مضمون ”سِیرَ الصالحین“سے تعلق رکھتا ہے۔ شمالی بہار میں سلسلہ نقشبندیہ کے بافیض بزرگ پیر طریقت حضرت مولانا حافظ الحاج شمس الہدیٰ دامت برکاتہم نے اس کتاب کو اپنے قلم سے سنورا ہے۔ اس کتاب کے سلسلہ میں مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی لکھتے ہیں:
”اس کتاب کا وہ حصہ سب سے دلچسپ لگا جہاں سے خود حضرت نے اپنی زندگی کے نشیب و فراز کا ذکر کیا ہے، یہ حصہ اصلاً حضرت کے اسلوب نگارش، قدرت کلام، الفاظ کے مناسب انتخاب و استعمال کا بہترین نمونہ ہے، بعض جملے اور تعبیرات اس قدر بلیغ ہیں اور معنی کی ترسیل میں اس قدر تیز بھی کہ بے اختار داد دینے کو جی چاہتا ہے۔“(ص:۲۵۱)
    ”سرمایہئ ملت کے نگہبان“ محتر م جناب مولانا عزیز الحسن صدیقی کی تخلیق ہے۔ وہ مشہور صاحب قلم ہیں۔ ان کی انتظامی صلاحیت بھی مضبوط ہے۔ ان کے قلم سے نکلے مضامین، تجزیے، سوانحی خاکے پورے ملک میں دلچسپی سے پڑھے جاتے ہیں۔ اس کتاب میں شخصیتوں کے انتخاب میں اس بات کا پورا خیال رکھا ہے کہ انہیں ہی موضوع بنائیں، جنہیں مولانا نے قریب سے دیکھا، برتا اور مختلف تحریکات میں ان حضرات کے ساتھ کام کرنے اور خدمت انجام دینے کاموقع ملا۔ 
    ”یادوں کے جھروکوں سے“ مولانا عبدالعلی فاروقی لکھنوی کی زندگی کے واقعات، حادثات اور تجربات پر مبنی تلخ و شیریں یادوں اور کم و بیش پچاس برسوں پر مشتمل یادوں پر مشتمل ایک کتاب ہے۔ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی مولانا عبدالعلی فاروقی اور ان کی کتاب کے تعلق سے لکھتے ہیں کہ مولانا عبدالعلی فاروقی کو اللہ رب العزت نے تقریر و تحریر دونوں میں زبان وبیان پر بے پناہ قدرت بخشی ہے، وہ تقریر کرتے ہیں تو موتیاں رولتے ہیں اور لکھتے ہیں تو قاری پر ایسا سحر طاری کرتے ہیں کہ وہ ان کا گرویدہ ہوجاتا ہے انہوں نے مدرسہ اور یونیورسٹی دونوں سے کسب فیض کیا ہے۔ فاضل دیوبند بھی ہے اور ایم بھی۔
    کتاب ”تخلیق کی دہلیز پر“ فاروق اعظم قاسمی کے تنقیدی مضامین کامجموعہ ہے۔ اس کتاب پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی لکھتے ہیں کہ فاروق صاحب کی یہ کتاب چھ ابواب پر مشتمل ہے، انہوں نے ابواب کے عنوان کے بجائے ابجد و ہوز کے الف، با وغیرہ کا عنوان لگایا ہے۔ اس کا فائدہ انہیں یہ ملا کہ وہ مختلف انداز کے مضامین کو ا س ضمن میں سمیٹ پائے۔
    ”پیام صباؔ“ کامران غنی صبا“ کا پہلا مجموعہئ کلام ہے۔ وہ فی الحال نتیشور کالج، مظفرپور میں اسسٹنٹ پروفیسر کے عہدہ پر فائز ہیں۔ ان کی شعری اور نثری دونوں تخلیقات بہت ہی جامع ہوا کرتی ہے۔ مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی نے کامران غنی صباؔ کی صلاحیتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے:”کامران غنی صباؔ نے اس کم عمری میں جو کچھ لکھ دیا ہے اس سے ان کی اٹھان کا پتہ چلتا ہے، مشق، ریاضت اور تجربات کی وسعت سے فکر و نظر اور فن میں پائیداری آتی ہے۔“
    مولانا احمد سجاد ساجدؔ قاسمی کا مجموعہ کلام ”غبار شوق“ پر اپنے خیالات کا اظہار مفتی صاحب نے ان الفاظ میں کیا ہے:
”غبار شوق ساجد قاسمی کا پہلا مجموعہئ کلام ہے جو زیور طبع سے آراستہ ہوکر منظر عام پر آیا ہے۔ ساجد قاسمی دور طالب علمی سے شاعر کرتے رہے، لیکن انہوں نے اسے کبھی بھی ذریعہئ عزت نہیں بنایا اور نہیں سمجھا۔ انہوں نے پوری زندگی اس کش مکش میں گذار دیا کہ جو کچھ لکھا ہے اسے چھپوایا بھی جائے یا نہیں، ہم لوگوں کے پیہم اصرار پر انہوں نے یہ ہمت جٹائی کہ یہ متاع گراں مایہ قاری کے حوالے کر سکیں۔“(ص:۷۸۱)
    ”چہرہ بولتا ہے“ ظفر صدیقی کا شعری مجموعہ ہے جو ۰۴۲/ صفحات پر محیط ہے۔ ان کی کتاب کے تعلق سے مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی لکھتے ہیں:”چہرہ بولتا ہے“ کی شاعری میں چہرہ بولے یا نہ بولے، زندگی بولتی، اچھلتی، کودتی، مچلتی نظر آتی ہے، اور زندگی کا یہ رخ کسے پسند نہیں ہے۔ اس لیے بجا طور پر یہ امید کی جاتی ہے کہ چہرہ بولتا ہے شعر وادب کی دنیا میں مقبول ہوگا۔“
    
    فرد الحسن فرد کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ ان کی تخلیق ”بے چار ے لوگ“ تحقیق، تنقید اور تاریخ کا مرقع بن چکی ہے۔ اس کتاب میں موصوف نے تنقید کے اصولوں کو برتنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ فرد الحسن فرد صاحب کے ا س مجموعہ میں ۴۱/ مضامین شامل ہیں۔ وہ مضامین انجم عظیم آبادی، فریاد شیر گھاٹوی، نصیر الدین حسین نصیر، وصی بلگرامی، مولانا عبدالرحمن، عبدالکریم، شین منظر پوری، ناوک حمزہ پوری، شبنم کمالی، قمر شیرگھاٹوی، مسلم عظیم آبادی، صادق شیر گھاٹوی، قسیم الحق گیاوی، اسلم سعدی پوری جیسے شعر اء و ادبا پر ہیں۔ 
    ”ادبی میزان“ مغربی بنگال کی جانی پہچانی شخصیت عشرت بیتاب کے تنقیدی و تحقیقی مضامین کامجموعہ ہے۔ اس کتاب کے تعلق سے مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی لکھتے ہیں:”عشرت بیتاب صرف نقاد ہی نہیں، افسانہ نگار اورکہانی کار بھی ہیں، ادبی میزان میں انہوں نے پوری تنقیدی بصیرت کا ثبوت دیا ہے، ان کی تنقیدیں عملی تنقید کا بہترین نمونہ ہیں، وہ شاعر بھی ہیں، اس لیے تنقید کرتے وقت فنی تقاضوں کو بھی ملحوظ رکھتے ہیں۔ انہیں الفاظ کی صوتی ہم آہنگی اور خیالات کی ترسیل کا بھی پورا پورا خیال رہتا ہے۔“
    ”سہرے کی ادبی معنویت“ ڈاکٹر امام اعظم کی تحقیق و ترتیب ہے۔ اس کتاب پر اپنے خیالات رقم کرتے ہوئے مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی لکھتے ہیں:
”اس کتاب کے بارے میں ڈاکٹر امام اعظم نے اپنے لیے ترتیب و تہذیب کا عنوان لگایا ہے، یہ ان کی خاکساری ہے ورنہ یہ کتاب سہرے کی تاریخ بھی ہے اور تحقیق بھی۔ آپ اسے سہر ہ نگاران کی جامع ڈائرکٹری کہہ سکتے ہیں۔ جامع ا س لیے کہ اس میں ایک دو سہرہ کہنے والے بھی ان کی نگاہ سے بچ نہیں پائے ہیں۔“(ص:۷۳۲)
    پروفیسر عبدالمنان طرزی کا شمار ہندوستان کے قدآور اور زود گو شاعروں میں ہوتا ہے۔ ان کی شہرت عالمی پیمانے پر بھی ہے۔ صدر جمہوریہ ایوارڈ سے سرفراز ہوچکے پروفیسر طرزی کی ایک کتاب ”دیدہ وران بہار“ پر اپنے تاثرات پیش کرتے ہوئے مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی لکھتے ہیں:
”پانچ سو اکانوے صفحات پر مشتمل یہ ’دیدہ وران بہار‘ کا دوسرا ایڈیشن ہے۔ پہلے اس کے مشمولات چار جلدوں کو محیط تھے، اب یہ چاروں جلدیں اس ایک جلد یں سماگئی ہیں۔ ان چاروں جلدوں کے مشمولات پر بھی اچھا خاصا اضافہ کیا ہے۔ پہلے ایڈیشن میں جن حضرات کا تذکرہ چاروں جلد میں سے کسی میں نہیں آسکا تھا، ان کے تذکرے کو بھی اس میں شامل کرلیا گیا ہے۔ اس کتاب میں علماء، شعرا، ادبا، نقاد، صحافی، قائدین، محققین، نامور اور گمنام سبھی جگہ پاگئے ہیں۔“(ص:۱۴۲)
    ”دُردِتہ جام“ ڈاکٹر ممتاز احمد خاں سابق ایسوسی ایٹ پروفیسر بی آر اے بہار یونیورسٹی مظفرپور کی تخلیق ہے۔ ان موصوف کی آخری کتاب ہے۔ ڈاکٹر ممتاز احمد خاں کی تخلیقی صلاحیتوں پر روشنی ڈالتے ہوئے مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی لکھتے ہیں:”کتاب دو حصوں پر مشتمل ہے۔ دونوں حصوں میں ڈاکٹر ممتاز احمد خاں صاحب کی تنقیدی بصیرت اور اصناف سخن پر گہری نظر کا عکس جمیل دیکھنے کو ملتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے پوری زندگی صالح ادب برائے زندگی، بلکہ اسلامی ادب کو فروغ و پروان چڑھانے اور ان لوگوں کی قدردانی میں لگادی جو ا س کاز اور کام کے لیے سرگرم عمل رہے۔ انہوں نے چن چن کر ایسی شخصیات اور تصنیفات کو ہی بحث کا موضوع بنایا ہے جو ان کی اصلاحی اور اسلامی فکر سے قریب تر تھے۔“
    باب سوم کے تحت دو مضامین ”درسگاہ اسلامی۔ فکر و نظر کی بستی“ (ڈاکٹر عبدالودود قاسمی) اور ”تاریخ جامعہ عربیہ اشرف العلو م کنہواں“ ہیں۔ 
    باب چہارم میں تعلیمی مضامین ہیں۔ اس باب کا پہلا تاثراتی مضمون کتاب ”قرآنی حقائق اور سائنسی انکشافات“ سے متعلق ہے۔ یہ کتاب ڈاکٹر محامد عبدالحی کی تخلیق ہے۔ اس پر روشنی ڈالتے ہوئے مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی اپنے منفرد انداز میں رقم طراز ہیں:
”۲۵۱/ صفحات کی اس کتاب میں علم فلکیات، علم طب، علم الارضیات، علم الایجاد، علم حیوانات، قرآن اور نفسیات، قرآن اور نظریہ ارتقاء پر اکاسی عنوانات کے تحت تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے اور ثابت کیا گیا ہے کہ سائنسی انکشافات قرآنی حقائق سے متصادم نہیں ہیں، بلکہ سائنس داں جہاں تک برسوں کے تحقیقات کے بعد آج پہونچے ہیں، قرآن نے ان حقائق کو چوہ سو انتالیس سال پہلے بیان کردیا تھا۔“(ص:۷۸۲)
    اس باب کے دیگر مضامین ”تعلیم و تعلم۔ آداب و طریقے“، ”تحقیق و تحشیہ صفوۃ المصادر“، ”مدارس اسلامیہ اور جدید کاری کے تصورات“، ”شرح نایاب“ اور ”مسلم معاشرہ میں خواتین کا علمی وادبی ذوق“ کتابوں سے تعلق رکھتے ہیں جو مفتی محمد ثنا ء الہدیٰ قاسمی صاحب کی تحریری صلاحیتوں کا بین ثبوت ہے۔ 
    اس طرح پیش نظر کتاب ”آوازۂ لفظ و بیاں“ مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی صاحب کی مذہبی، ادبی، تعلیمی، تاریخی کتابوں کے پیش لفظ، تقاریظ، تاثرات، تبصرات اور عملی تنقید پر مشتمل ہیں۔ یہ کتاب اردو شائقین کے ذریعہ پسند کی جائے گی۔ اس کتاب کی اشاعت کے لئے مفتی صاحب کو دل کی عمیق گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ 
٭٭٭

بدھ, ستمبر 14, 2022

بے قابو ٹرک چائے کی دکان پر پلٹا ، تین کی موقع پر ہی موت

(اردودنیانیوز۷۲) Urduduniyanews72

سلطانپور،14ستمبر:اترپردیش کے سلطانپور کے کورے بھار قصبے میں بدھ کی صبح ایک خوفناک سڑک حادثہ پیش آیا۔ جہاں تیز رفتار ٹرک چائے کی دکان پر الٹ گیا۔ ایک آٹو رکشہ بھی اس کے نیچے آگیا۔ اس حادثے میں 3 افراد کی موقع پر ہی موت ہو گئی، جبکہ 7 زخمی ہو گئے۔ زخمیوں کو ضلع اسپتال میں داخل کرایا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی مرنے والوں کی لاشوں کو پوسٹ مارٹم کے لیے بھیجا جا رہا ہے۔بتایا جا رہا ہے کہ یہ حادثہ صبح تقریباً 5.00 بجے اس وقت پیش آیا جب پریاگ راج سے ایودھیا جا رہا ایک گٹی سے بھرا ٹرک بیلوائی مارگ سے ہالیا پور کی طرف جا رہے بھرے ٹرک سے ٹکرا گیا۔ جس کی وجہ سے وہ بے قابو ہو کر چوک پر واقع چائے کی دکان پر الٹ گیا۔ جس کی وجہ سے آٹو ڈرائیور راجن تیواری ساکنہ چمورکھا ساکنہ چمورکھا، راجیش اگرہری ساکنہ مقامی قصبہ، دکان پر چائے پی رہے راکیش کاسووندھن ٹرک کے نیچے آکر ہلاک ہوگئے۔ جبکہ سات دیگر زخمی ہوئے ہیں۔ زخمیوں میں شبھم، رام کیلاش، رادھے شیام، عقیل، دکاندار پون، مہیش پانڈے اور ٹرک سے ٹکرانے والے ٹرک کا ایک نامعلوم ڈرائیور شامل ہیں۔حادثے کی اطلاع ملتے ہی دو تھانوں کی پولیس فورس مقامی لوگوں کی مدد سے راحت اور بچاؤ کے کاموں میں لگی ہوئی ہے۔ حادثے کے بعد جام ہے۔ پولیس ملبہ اور حادثے کا شکار گاڑیوں کو ہٹانے اور ٹریفک کو بحال کرنے میں مصروف ہے۔

مساجد ، مکاتب ، مدارس کا تحفظ اور ان کی سلامتی کی فکر کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت: مولانا محمد شمشاد رحمانی قاسمی*

*مساجد ، مکاتب ، مدارس کا تحفظ اور ان کی سلامتی کی فکر کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت: مولانا محمد شمشاد رحمانی قاسمی* 
اردو دنیا نیوز٧٢
 *مساجد کے نظام کو نبوی فکر کے وسیع تناظر میں دیکھنے کی ضرورت:مولانا محمد شبلی القاسمی* 
 ضلع سیتا مڑھی کے ائمہ مساجد اور مدارس و مساجد کے ذمہ داران کا ایک تربیتی و مشاورتی اجلاس مورخہ 13 ستمبر 2022 کو مدرسہ رحمانیہ مہسول سیتا مڑھی میں حضرت مولانا محمد شمشاد رحمانی قاسمی صاحب نائب امیر شریعت بہار ، اڈیشہ و جھارکھنڈ کی صدارت میں منعقد ہوا ۔ اپنے صدارتی خطاب کے دوران حضرت نائب امیر شریعت نے امارت شرعیہ کے خود کفیل نظام مکاتب کی اہمیت اور موجودہ زمانے میں اس کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ سماج کے ہر شخص خواہ و عورت ہو یا مرد، بچہ ہو یا بوڑھا، لڑکا ہو یا لڑکی کے دین و ایمان کی حفاظت اور ان کو بنیادی دینی تعلیم دلانا جس سے ان کے ایمان و عقیدہ کی حفاظت ہو سکے اور وہ ایک مسلمان بن کر زندگی گزار سکیں بہت ضروری ہے ۔ اس کے لیے ضرورت ہے کہ ہر آبادی میں بنیادی دینی تعلیم کے مکاتب سماج کے لوگ اپنے خرچے پر قائم کریں ۔ جس طرح سے روٹی ، کپڑا اور مکان بنیادی ضرورت ہے اور ہر شخص اس بنیادی ضرورت کی فکر کرتا ہے ، اسی طرح دین کی تعلیم حاصل کرنا بھی بنیادی ضرورت ہے اور اس کی فکر بھی ہر شخص کو خود کرنی چاہئے ۔ آپ نے مسجدوں کے اندر مکتب قائم کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے کہا کہ مسجدیں فقط نماز پنجگانہ اور جمعہ ادا کرنے کے لیے نہیں ہیں ، بلکہ سماج کی دیگر تعلیمی ، معاشرتی اور تہذیبی ضرورتوں کی تکمیل بھی ا ن کے ذریعہ ہونی چاہئے ، اس لیے ہر مسجد کو اشاعت علم دین کا مرکز بنایا جائے ۔انہوں نے کہا کہ آج ہر طرف باطل قوتوں کی یلغار مساجد ،  مکاتب اور مدارس کے خلاف ہو رہی ہے اور ان کے وجود کو مٹانے کی سازشیں ہو رہی ہیں ۔ ایسے میں ان سب دینی و مذہبی اداروں کا تحفظ اور ان کی سلامتی کی فکر کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے ۔ انہوں نے کہا کہ امیر شریعت بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی صاحب نے وقت کے اس اہم موضوع پر توجہ دی ہے اور ان کی فکر ہے کہ تما م مساجد کے ائمہ اور ذمہ داران امارت شرعیہ سے مربوط ہوں تاکہ ہم ایک دوسرے کے مسائل سے واقف ہوں اور مل جل کر مسائل کا حل تلاش کریں ۔انہوں نے ائمہ مساجد کی مالی مشکلات پر ذمہ داران مساجد کی توجہ مبذول کراتے ہوئے کہا کہ ائمہ حضرات مشکل حالات میں قلیل تنخواہوں پر کام کر رہے ہیں ، اس لیے ذمہ داران مساجد کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کی مالی گراں باری کی طرف توجہ کریں اور ان کی تنخواہوں میں اضافہ کریں ۔
جناب مولانا محمد شبلی القاسمی صاحب قائم  مقام ناظم امارت شرعیہ نے اپنے خطاب میں مساجد کے تحفظ اور سماج میں آپسی بھائی چارگی اورمحبت کے فروغ پر زور دیا ۔ آپ نے کہا کہ جس طرح ہم سب اپنے گھروں ، دکانوں اور زمینوں کے تحفظ کی فکر کرتے ہیں اسی طرح اللہ کے گھر کے تحفظ پر بھی توجہ دینی چاہئے ۔ جب بھی سروے کا کام ہو تو مساجد کا بھی ضرورسروے کرائیں اور کاغذ میں واضح طور پر مسجد لکھوائیں ، مسجدوں کی طرح مقابر، مدارس، خانقاہوں ، مکاتب ، امام باڑوں، قبرستانوں اور دیگر مذہبی مقامات کا بھی  زمینی سروے کرا کر  سرکاری دستاویز میں واضح طور پر مسجد، مکتب، قبرستان ، امام باڑہ وغیرہ لکھوایا جائے ۔  انہوں نے کہا کہ مساجد کے نظام کو نبوی فکر کے وسیع تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کے ذریعہ جو جو کام کیا ، کل کے مقابلہ آج زیادہ اس بات کی ضرورت ہے کہ مساجد کو ان مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے۔
انہوں نے کہا آپسی بھائی چارے کے فروغ پر توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ سماج میں مختلف مذہب و مسلک کے ماننے والے لوگ  رہتے ہیں ، ہر ایک کی ضرورت ایک دوسرے سے وابستہ ہے ، اگر ہم ایک دوسرے سے کٹ کر اور نفرت کے ساتھ زندگی گزاریں گے تو ہماری سماجی زندگی مشکل ہو جائے گی ، اس لیے سماج میں محبت  قائم کریں ، اگر کوئی جھگڑا وغیرہ کبھی ہو جائے تو اشتعال میں نہ آئیں بلکہ سمجھدار لوگ بیٹھ کر تنازع کو ختم کریں اور کوشش کریں کہ نفرت اور اشتعال نہ پھیلنے پائے۔ بہت سے شر پسند لوگ لڑانے اور اشتعال دلانے کے لیے افواہیں پھیلاتے ہیں ،افواہوں کے جال میں نہیں پھنسنا ہے ۔ سمجھداری اور ہوشمندی سے کام لینا ہے ۔ محبت کے ذریعہ ہی سماج مضبوط ہو سکتا ہے اور ملک ترقی کر سکتا ہے ۔انہوں نے کہا آج مدارس اسلامیہ شر پسند وں کی نگاہ میں کھٹک رہے ہیں ، اس لیے ان کا تحفظ بہت ضروری ہے ، امیرشریعت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی صاحب کی قیادت میں مدارس کے تحفظ کے لیے امارت شرعیہ جو کوششیں کرسکتی ہے ضرور کرے گی۔
مولانا مفتی محمد سہراب ندوی صاحب نے دار القضاء امارت شرعیہ کی اہمیت و ضرورت پر توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ  دار القضاءکے قیام کا مقصد معاشرہ میں انصاف کو عام کرنا اور انصاف کی راہ کو آسان بنانا ہے ۔ انصاف جس قدر عام ہو گا، معاشرہ میں اسی قدر امن و سکون قائم ہو سکے گا ، اس وقت مختلف جہتوں سے شریعت اسلامی کو داغدار کرنے اور نئی نسل کے ذہن ودماغ کو اپنے دین وشریعت سے بیزار کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں ، ایسے حالات میں ہمیں نئے جذبۂ ایمانی کے ساتھ اپنے دین و شریعت پر عمل کے لیے تیار رہنا چاہئے ۔اور اپنے تنازعات کے حل کے لیے صرف دارا لقضاء سے ہی رجوع کرنا چاہئے۔ان حضرات کے علاوہ مولانا عبد المنا ن قاسمی  مہتمم مدرسہ اشرفیہ راجو پٹی نے اصلاح معاشرہ کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم سب کے لیے لازم ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کےا حکام کی اتباع کریں اور اپنے آپ کو شریعت کا پابند بنائیں ، آج ہم سب جن پریشانیوں میں مبتلا ہیں اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے آپ کو دین اور شریعت سے دور کر دیا ہے ، جب کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری کامیابی و کامرانی اپنے دین اور شریعت کی اتباع میں مضمر رکھی ہے ۔ مولانا اظہار صاحب رکن شوریٰ و مجلس عاملہ امارت شرعیہ نے امارت شرعیہ کے قیام کے پس منظر اور امار ت شرعیہ کے مقاصد و اغراض پر روشنی ڈالی اور بانی امارت شرعیہ حضرت مولانا ابو المحاسن محمد سجاد رحمۃ اللہ علیہ کی فکر اور ان کی دور اندیشی کا تفصیل سے تذکرہ کیا۔مولانا محمد عمران قاسمی قاضی شریعت دار لقضاء امارت شرعیہ بالا ساتھ سیتا مڑھی نے استقبالیہ کلمات پیش کیے اور تمام آنے والوں کا شکریہ ادا کیا۔ اس اجلاس کی نظامت مولانا نصیرا لدین مظاہری نے کی انہوں نے اپنی ابتدائی گفتگو میں ائمہ کرام کے مسائل اور ان کی مالی مشکلات  پر توجہ دلائی، انہوں نے امارت شرعیہ کے شعبہ امور مساجد کا تعارف کراتے ہوئے اس کےا غراض و مقاصد پر بھی روشنی ڈالی ۔ اس اجلاس کو کامیاب بنانے والوں میں ڈاکٹر ساجد علی خان رکن شوریٰ امارت شرعیہ ، مولانا مشتاق صاحب نائب صدرتنظیم ، جناب  ظفر صاحب سکریٹری مدرسہ رحمانیہ مہسول ،اور مدرسہ کے جملہ اساتذہ کرام نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اجلاس میں ضلع سیتا مڑھی کے سیکڑوں علماء کرام و ائمہ مساجد شریک ہوئے ۔ آخر میں حضرت نائب امیر شریعت کی دعا پر اجلاس کا اختتام ہوا۔

دارالعلوم دیوبند : مجلس شوری نےدی 43 کروڑ روپئےکے بجٹ کو منظوری

دارالعلوم دیوبند : مجلس شوری نےدی 43 کروڑ روپئےکے بجٹ کو منظوری
اردو دنیا نیوز٧٢
دیو بند : دارالعلوم دیوبند کی مجلس شوری نے آج اپنا سالانہ بجٹ منظور کر لیا ہے ، شوری کی میٹنگ کا آج دوسرا دن تھا، جس میں بجٹ سمیت کئی اہم امور پر گفت و شنید ہوئی ۔ اس کی اطلاع دیوبند سے مجلس شوری کے رکن مفتی اسماعیل قاسمی نے دی ۔ انہوں نے بتایا کہ آج بجٹ میٹنگ رئیس الجامعہ اشاعت العلوم اکل کوا کے صدر مولانا غلام محمد وستانوی کی صدارت میں میٹنگ منعقد ہوئی جس میں بجٹ منظور کیا گیا۔ یہ بجٹ 43کروڑ 53 لاکھ 80 ہزار روپے کا ہے۔ گزشت تین، چار سال کے تناظر میں اس مرتبہ دارالعلوم دیوبند کے بجٹ میں انصاف کیا گیا ہے۔
مفتی اسماعیل قاسمی نے بتایا کہ شوری کے اس بجٹ اجلاس میں دارالعلوم دیوبند کے نام مولانا مفتی ابوالقاسم بنارسی ، مولانا بدرالدین اجمل، مولانا ابراہیم ملک، مولانا رحمت الله مولانا محمود راجستھان ،مولانا انوار الرحمان بجنوری، حکیم کلیم الله ،مولانا حبیب الله باندہ اور مولانا غلام محمد وستانوی موجود تھے ۔ اس کے دوران دارالعلوم دیوبند سے جڑے اندرونی کئی معاملات و مسائل پر گفتگو کی گئی تعلیمی ، قانونی کمیٹیوں کے معاملات طے کئے گئےگئے۔

حال ہی میں اتر پردیش حکومت کی جانب سے مدارس کا جو سروے شروع کیا گیا ہے ا س پر بھی گفت و شنید ہوئی اور یہ طے پایا کہ 18 ستمبر کو دارالعلوم دیوبند میں اتر پردیش کے 400 سے زائد دینی مدارس کا جو اجلاس کلب کیا گیا ہے اس میں مستقبل کا لائی عمل طے کیا جائے گا۔ اس کے بعد نومبر میں کل ہند رابطه مدارک دین کا اجلاس بھی دیوبند میں طلب کیا گیا ہے جس میں ملک بھر کے مندوبین اور مدارس کے ذمہ داران شرکت کریں گے اور پیداشدہ صورتحال پر غور وخوض کیا جائے گا۔

دارالعلوم دیوبند کی مجلس شوری نے دینی مدارس کے ذمہ داران کو اپنے مدارس کا حساب کتاب اور آڈٹ سمیت ، سالانہ کام کاج شفافیت کے ساتھ ریکارڈ میں محفوظ رکھنے کی بھی صلاح دی ۔

مولانا نسیم اختر شاہ قیصر - خاموش ہو گیا ہے چمن بولتا ہوا

مولانا نسیم اختر شاہ قیصر - خاموش ہو گیا ہے چمن بولتا ہوا
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
اردو دنیا نیوز٧٢
دار العلوم (وقف) دیو بند کے استاذ، نامور ادیب ، بہترین صحافی ، مشہور خاکہ نگار، مایہ ناز مضمون نگار، اچھے مقرر، خلیق وملنسار، خاندانی وراثت کے امین، مولانا نسیم اختر شاہ قیصر بن مولانا سید ازہر شاہ بن علامہ انور شاہ کشمیری رحہم اللہ کا ۱۱؍ ستمبر ۲۰۲۲ء بروز سوموار شام کے ساڑھے پانچ بجے ان کے آبائی مکان واقع خانقاہ محلہ دیو بند میں انتقال ہو گیا، کمر درد اور دوسرے اعذار تو پہلے ہی سے تھے، جس کی وجہ سے اٹھنے بیٹھنے میں تکلیف تھی، لیکن یہ ایسی بیماری نہیں تھی کہ فوری بلاوے کے بارے میں سوچا جاتا، معمول کے مطابق عصر بعد ناشتہ وغیرہ کیا، بات چیت بھی کر رہے تھے، اچانک دل کے درد کی شکایت کی اور پانچ سے سات منٹ کے اندر بیماریِ دل نے ان کا کام تمام کر دیا، زبان پر کلمہ طیبہ جاری تھا اور روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی ، شریعت کا حکم تدفین میں عجلت کا ہے؛ اس لیے وارثوں نے اس کا پورا پورا خیال رکھا اور گیارہ بجے رات میں جنازہ کی نماز معہد انور میں ان کے صاحب زادہ مفتی عبید انور استاذ معہد انور نے پڑھائی اور مزارانوری کے احاطہ میں جو دیو بند عیدگاہ کے پاس ہے ، تدفین عمل میں آئی ، اسی احاطہ میں حضرت علامہ انورشاہ کشمیری کے ساتھ ان کے دونوں نامور صاحب زادے ، مولانا ازہر شاہ قیصرؒ اور حضرت مولانا انظر شاہ کشمیریؒ، ان کی اہلیہ اور خاندان کے دوسرے لوگ دفن ہیں، پس ماندگان میں اہلیہ ، پانچ لڑکیاں اور تین لڑکوں کو چھوڑا ، ایک عالم ، مفتی ، دوسرا انجینئر اور تیسرا ابھی زیر تعلیم ہے۔
مولانا نسیم اختر شاہ قیصر کی پیدائش ۲۱؍ ربیع الاول ۱۳۸۲ھ مطابق ۲۵؍ اگست ۱۹۶۲ء کو دیو بند میں ہوئی، بنیادی دینی تعلیم دار العلوم دیوبند سے حاصل کرنے کے بعد دیو بند ہی میں واقع اسلامیہ اسکول کارخ کیا، لیکن دسویں کلاس تک پہونچتے پہونچتے عصری تعلیم سے طبیعت اوب گئی،چنانچہ انہوں نے دسویں کا امتحان نہیں دیا اور ۱۹۷۶ء میں دا رالعلوم دیو بند میں داخل ہو کر درس نظامی کی کتابیں پڑھنی شروع کیں ۱۴۰۱ھ مطابق ۱۹۸۱ء میں حضرت مولانا نصیر احمد خان ؒ اور دیگر نامور اساتذہ سے دورۂ حدیث کی کتابیں پڑھ کر سند فراغ حاصل کیا، جامعہ اردو علی گڈھ کا امتحان دے کر ادیب، ادیب ماہر اور ادیب کامل کی سند پائی، اس کا دورانیہ ۱۹۷۳سے ۱۹۷۵ تک رہا، اس زمانہ میں مولانا اعجاز صاحب اسلامیہ اسکول کے ہیڈ ماسٹر تھے، جامعہ اردو علی گڈھ کے امتحانات کا مرکز یہیں ہوا کرتا تھا، حضرت مولانا محمد سالم قاسمی ؒ کا ایک ادارہ دیو بند میں جامعہ دینیات تھا،اس کی اسناد بھی بعض یونیورسیٹیوں میں منظور تھیں، چنانچہ مولانا نسیم اختر شاہ قیصر نے ۱۹۷۶ء میں ادھر کا رخ کیا، اور ۱۹۷۸ء تک تین سال میں عالم دینیات، ماہر دینیات اورفاضل دینیات کیا، ۱۹۹۰ء میں انہوں نے آگرہ یونیورسٹی سے ایم اے کر لیا، ۱۹۸۷ء میں دار العلوم وقف دیو بند کے استاذ مقرر ہوئے اور دم واپسیں تک اپنے فرائض انجام دیتے رہے، تدریس سے انہیں فطری مناسبت نہیں تھی، اس لیے عربی درجات کی ابتدائی کتابیں اور ترجمہ قرآن وغیرہ ان کی زیر درس رہا کرتی تھیں۔
 ان کا اصلی مزاج صحافت کا تھا ، جو انہیں اپنے نامور صحافی والد مولانا ازہر شاہ قیصر سے ورثہ میں ملا تھا، مولانا بتیس ، تینتیس سال دارالعلوم دیو بند کے مدیر رہ چکے تھے، چنانچہ صحافت کے اسرار ورموز ، موثر رپوررٹنگ اور ہر قسم کے مضامین لکھنے کے طور طریقے انہوں نے اپنے والد سے سیکھااور صرف تیرہ سال کی عمر میں پہلا مضمون لکھا ، ۱۹۷۹ء میں وہ پندرہ روزہ اشاعت حق کے نائب مدیر بنائے گیے، ۱۹۸۵ء تک اس حیثیت سے کام کرنے کے بعد مدیر کی ذمہ د اری سنبھالی اور ۱۹۹۶ء تک اس عہدہ پر کام کرتے رہے، ۱۹۸۳ء میں انہوں نے ماہنامہ ’’طیب‘‘ جاری کیا، جس کی سر پرستی ان کے نامور والد فرما تے تھے، ماہنامہ ’’طیب‘‘ کے بند ہونے کے بعد دوبارہ پندرہ روزہ اشاعت حق کو اپنی خدمات دیں، لیکن ۱۹۹۳ء میں و ہ بھی بند ہو گیا، زمانہ دراز تک وہ ماہنامہ ندائے دار العلوم کی مجلس ادارت کے رکن رہے، ان کے مضامین ہندو پاک کے تمام مشہور وغیر مشہور رسائل وجرائد میں پابندی سے شائع ہوا کرتے تھے اور قدر ومنزلت کی نگاہ سے پڑھے جاتے تھے، انہوں نے روزنامہ ہندوستان اکسپریس دہلی میں تین سال اور روزنامہ ہمارا سماج دہلی میں دو سال کالم نگاری کا بھی کام کیا ، لیکن ان کو جو شہرت ملی وہ ان کی خاکہ نگاری تھی، ان کے خاکوں کے مجموعے میرے عہدکے لوگ، جانے پہچانے لوگ، خوشبو جیسے لوگ، اپنے لوگ ، کیا ہوتے یہ لوگ خاصے مقبول ہوئے اور ہندوستان بھر کے ادباء نے ان کی خاکہ نگاری کو پسند کیا، ہندوستان کے خاکہ نگاروں کی مختصر سے مختصر فہرست تیار کی جائے گی تو ان کا نام اس میں ضرور شامل ہوگا۔
 ان کی دوسری تصنیفات میں حرف تابندہ ، خطبات شاہی، مقبول تقریریں، سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم واقعات کے آئینے میں، میرے عہد کا دار العلوم، دو گوہر آبدار، شیخ انظر : تاثرات ومشاہدات، اکابر کا اختصاصی پہلو، وہ قومیں جن پر عذاب آیا، اسلام اور ہمارے اعمال ، اعمال صالحہ، اسلامی زندگی، اور اق شناشی کل بائیس کتابیں بشمول خاکوں کے مجموعے مشہور اور معروف ہیں، ان کے علاوہ ان کے ریڈیائی نشریات ہیں، انہوں نے مرکز نوائے قلم قائم کیا، جس میں طلبہ کو مضمون نویسی سکھائی جاتی تھی ،د ار العلوم وقف میں جب شعبہ صحافت قائم کیا گیا تو وہ اس کے ذمہ دار قرارپائے ۔
مولانا مرحوم’’ فقیری‘‘ میں ’’شاہی‘‘ کے قائل تھے، ان کے گھر میں آرائشی زیب وزینت کے سامان کم تھے، چٹائی پر سادگی کے ساتھ بیٹھ جانے میں ان کوتکلف نہیں تھا، سادہ زندگی گذارنے کے عادی تھے، ان کے یہاں لباس کا وہ رکھ رکھاؤ بھی نہیں تھا، جو ان کے چچا محترم اور چچازاد بھائیوں کا امتیاز تھا، ان کا مزاج شاہانہ اس وقت سامنے آتا، جب کوئی مہمان آجاتا، عمدہ قسم کی ضیافت کرتے، خواہش ہوتی کہ ان کے سامنے بہت کچھ پیش کریں، مزاج کا یہ شاہانہ پن ان کے مضامین اور کالموں میں بھی جھلکتا، نثر میں پر شکوہ الفاظ اور ادبی صنعتوں کا استعمال خوب کرتے، لیکن آمد ہی آمد ہوتی، پر تکلف آورد کا دور دور تک پتہ نہیں ہوتا، واقعہ یہ ہے کہ ان کی خوبصورت نثر قاری کو اس طرح گرفت میں لے لیتی ہے کہ وہ ان کا مداح اور کتاب ختم کیے بغیر آزاد ہو ہی نہیں سکتا۔
 مولانا دور طالب علمی میں ہمارے ہم عصر تھے،درسی اعتبار سے ایک سال سینئر تھے اور سندی عمر کے اعتبار سے کم از کم مجھ سے چار سال بڑے، لیکن بے تکلفی کبھی نہیں رہی، مجھے ان کی قہقہہ زار مجلسوں میں باریابی کے مواقع بھی کم ہی ملے، البتہ ۱۹۸۰ء میں بعد نماز عصر سے مولانا ازہر شاہ قیصر ؒ کے دربار میں مغرب تک میری حاضری ہوتی تو مولانا نسیم اختر شاہ قیصر بھی اس مجلس میں شریک رہتے، موقع عربی ششم کے سال میری پہلی تصنیف ’’فضلاء دار العلوم اور ان کی قرآنی خدمات‘‘ پر تصحیح کا ہوتا، اس کتاب پر مقدمہ حضرت مولانا سید انظر شاہ ؒ نے لکھاتھا، اور پیش لفظ مولانا ریاست علی بجنوری ؒ نے، لیکن طالب علمانہ تحریر کو حرفا حرفا پڑھ کر اصلاح کاکام مولانا مرحوم کے والد گرامی قدر نے کیا تھا، اور اس کے لیے کئی ہفتے تک عصر تا مغرب میری حاضری ہوتی رہی تھی، ظاہر ہے اس مجلس میں گھلنے ملنے اور مولانا کی بذلہ سنجی سے مستفیض ہونے کا کوئی موقع نہیں تھا، افتاء کے بعد بہار آگیا تو دیو بند آنا جانا ہی کم ہو گیا اور بہت ملاقات کا موقع نہیں مل سکا۔
مولانا اب ہمارے درمیان نہیں ہیں، انہوں نے بڑی اچھی زندگی گذاری اور اچھی موت پائی، طاب حیا وطاب میتا، اسی کو کہتے ہیں۔ اللہ رب العزت ان کی مغفرت فرمائے اور پس ماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین

منگل, ستمبر 13, 2022

خانگی تشدد میں خواتین کا کردار ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

خانگی تشدد میں خواتین کا کردار ___
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
اردو دنیا نیوز٧٢
 خاندانی نظام اور خاندانی ڈھانچہ میں بیوی کی حیثیت مرکزی ہوتی ہے ، مرد کی قوامیت اپنی جگہ ، لیکن گھر پُر سکون رہ ہی نہیں سکتا ،اگر گھر کی خاتون بد سلیقہ، زبان دراز اور پھوہڑ ہو ، یہ بات عجیب سی لگتی ہے کہ جنوبی ایشیا کے ممالک جہاں خاندان میں مرد کو اہمیت دی جاتی ہے، مسلمان اور اسلامی ممالک جہاں’’اَلرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلٰی النِّسَائِ‘‘ کی جڑیں بہت گہری ہیں وہاں بھی مردوں پر تشدد اور استحصال روز مرہ کی بات ہے، مغربی ممالک میں جو کچھ مردوں کے ساتھ ہو رہا ہے اس کا تو ذکر ہی فضول ہے، برطانیہ کی ایک غیر سرکاری تنظیم مین کائنڈ (Menkind)ہے جس کی ایک رپورٹ کے مطابق گھریلو تشدد کے متاثرین میں ہر تین میں ایک مرد ہوتا ہے، یہ تعداد اس سے کہیں زائد ہو سکتی ہے، اس تنظیم کا یہ بھی ماننا ہے کہ مردوں کا خواتین کے ذریعہ جذباتی ، جسمانی، دماغی اور معاشی استحصال ہوتا ہے، کیوں کہ مردوں میں تشدد بر داشت کرنے کا خاموش مزاج ہوتا ہے، وہ اسے دوستوں کی مجلسوں میں بھی بیان کرنے میں شرم، جھجھک، خوف اور قباحت محسوس کرتے ہیں، کیوں کہ ان واقعات کے بیان کرنے سے دوستوں میں ان کا وزن کم ہوتاہے اوروہ مذاق کا موضوع بن جاتے ہیں۔
 برطانیہ میں مین ریچنگ آؤٹ(Men  reaching out)کے نام سے ایک تنظیم قائم ہے جو مردوں پر کیے جا رہے تشدد پر روک لگانے کے لیے قائم کی گئی ہے ، شروع میں ہر ماہ اس تنظیم سے شکایت کرنے والوں کی تعداد بیس(۲۰) ہوا کرتی تھی، لیکن اب یہ تعداد ماہانہ ساٹھ (۶۰) تک پہونچ گئی ہے ، اس تنظیم میں لوگ ہیلپ لائن کی مدد سے شکایتیں درج کراتے ہیں، تنظیم دونوں کو بلا کر کونسلنگ کرتی ہے، سمجھانے بجھانے کے بعد ممکن ہوتا ہے تو صلح کرادیتی ہے اور کلیۃًدروازہ بند محسوس ہوتا ہے تو مرد کی عورت سے گلو خلاصی کی کوشش کی جاتی ہے ۔
 ہندوستان میں عورتوں کے ذریعہ مردوں پر ہو رہے تشدد کی تعداد برطانیہ سے کم نہیں ہے ، لیکن معاملات کا اندراج اس لیے نہیں ہوتا کہ ہندوستان میں عورتوں پر تشدد روکنے کے لیے تو قوانین موجود ہیں، لیکن مردوں پر تشدد ہونے کی صورت میں اس کو انصاف دلانے کا کوئی قانون موجود نہیں ہے ، ہندوستان میں گھریلو تشدد (Domostic violence)کے لیے جو قانون ہے ، ان کے سارے دفعات خواتین کے تحفظ پر مرکوز ہیں، ہندوستان میں انڈین ویمن کورٹ ۳۲۳ متاثر مرد کو کچھ حقوق ضرور دیتی ہے، لیکن اس کا نفاذ اس لیے نہیں ہوتا کہ مرد تھانوں کا رخ نہیں کرتے اور کرتے بھی ہیں تو ان کے حصہ میں صرف مذاق آتا ہے، یا پھر تھانے والے الٹا عورت کے ذریعہ مرد پر ایک مقدمہ درج کرادیتے ہیں، اور عدالت کا رخ یہ ہوتا ہے کہ عورت ہی ہر حال میں مظلوم ہے۔
 عورتوں کے ذریعہ تشدد کے واقعات کی ایک وجہ شوہر کی مفلسی ہوتی ہے، بقول اکبر الٰہ آبادی ،’’ مفلسی اعتبار کھوتی ہے‘‘‘ اس کی وجہ سے عورت کو محرومیوں کا سامان کرنا پڑتا ہے، جس کی وجہ سے عورتوں کی طرف سے لعن طعن ، لڑنا جھگڑنا شروع ہوجاتا ہے، میاں بیوی کے جھگڑوں میں ضروری نہیں کہ بیوی بیلن ہر روز لے کر دوڑائے، یہاں تشددذہنی، جسمانی، دماغی ایذا رسانی کے معنی میں ہے، ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ بعض موقعوں سے بیلن کی نوبت آجائے۔جو کچن میں بڑی تبدیلیوں کے باوجود عموما ہر گھر میں آج بھی پایا جاتا ہے۔
  مرد کی ’’قوامیت ‘‘کی ایک وجہ اللہ رب العزت نے عورتوں پر ان کے ذریعہ ’’انفاق مال‘‘ کو قرار دیاہے ، اب ایسی بیویاں جو متمول گھرانوں کی ہوتی ہیں یا ملازمت پیشہ ہوتی ہیں، ان کے شوہر ان کی کمائی پر گذارا کرتے ہیں ، اسلام میں عورتوں کا نفقہ بوجہ نکاح مرد پر ہے، لیکن یہاں معاملہ الٹا ہوتا ہے، مرد عورت کے نفقہ پر پلنے لگتا ہے، ایسے میں اس کی حیثیت ’’زر خرید‘‘ غلام کی ہوجاتی ہے، اگر اس نے شادی میں تلک جہیز لیا ہوتا ہے تو اس میں مزید پختگی آجاتی ہے، بیوی سوچتی ہے کہ میرے والدین نے اتنے لاکھ میں مجھے ایک عدد شوہر خریدکر دیا ہے،ایسے شوہر کی مصیبت صرف بیوی تک محدود نہیں رہتی ، بیوی کے سارے خاندان والے موقع بموقع لعن طعن کرتے رہتے ہیں، اور عورت اپنے میکہ والے کے کہنے پر شوہر کے لیے نئی نئی مصیبتیں کھڑی کرتی رہتی ہے اور شوہر کو ’’جو کچھ بیگم صاحبہ نے کہا بر حق ہے‘‘ کہہ کر زندگی گذارنی پڑتی ہے۔
 اللہ رب العزت نے انسانی زندگی میں مرد وعورت کے نکاحی رشتے کو مودت ومحبت اور پر سکون زندگی کا سبب قرار دیا تھا ، لیکن  ہماری بے عملی، بدعملی اور اس رشتے کے احترام کی لازمی اہمیت کے نظر انداز کرنے کی وجہ سے گھر میں سکون وطمانینت جیسی کوئی چیز باقی نہیں رہی، بیش تر گھرانوں کی خانگی زندگی کو آپسی جھگڑے اور غلط فہمیوں نے بر باد کر رکھا ہے ، اس لیے گھر کے نظام کو درست کرنے کی ضرورت ہے، ہماری خانگی زندگی کی بے تربیتی کے اثرات بچوں کی ذہنی نشو ونما پربھی پڑتے ہیں، ہم نے بچوں کی تربیت کا کام اسکولوں اور کنونٹوں کے ذمہ کر دیا ہے، جہاں اعلیٰ اخلاقی اقدار کے فروغ کا کام تمام ہو چکا ہے، مادہ پرستی نے ا نہیں ایک صنعتی کار خانہ بنا دیا ہے، جہاں نصاب پڑھا دیا جاتا ہے ، اقدار نہیں پڑھائے جاتے ،ایسے میں ہماری ذمہ داری کا فی بڑھ گئی ہے، ہمیں اپنے گھر کے نظام کو چست درست رکھنا ہوگا، اور اس کے لیے ملکی قوانین وضوابط کی طرح کچھ اصولوں کو گھر میں بھی رائج کر نا ہوگا ، تاکہ ہماری خانگی زندگی اور گھر یلونظام دوسروں کے لیے بھی اسوہ اور نمونہ بن سکے۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...