Powered By Blogger

اتوار, ستمبر 18, 2022

میم سرور پنڈولوی کے اعزاز میں شعری نششت

میم سرور پنڈولوی کے اعزاز میں شعری نششت 
اردو دنیا نیوز٧٢
پھلواری شریف پٹنہ پریس ریلیز 18/ستمبر مدھوبنی سے تشریف لائے ملک کے معروف ومشہور شاعر ممیم سرور پنڈولوی کے اعزاز میں ڈاکٹر نصر عالم نصر کے دولت کدہ پر نذر فاطمی کی صدارت میں شعری نششت کا انعقاد ہوا، جس میں شعراء کرام نے بہترین اشعار سناکر سامعین سے داد وصول کیے ، اس نششت میں شامل شعراء کرام کے نام اور اشعار مندرجہ ذیل ہیں، 
اشکوں کی روانی ہے
سب جھوٹی کہانی ہے، 
میں اس کا نہ ہو پایا
جو میری دوانی ہے، 
محمد ضیاء العظیم

سر جھکاتے نہیں ہم لوگ جو درباروں میں
اس لیے نام نہیں آتا ہے اخباروں میں
سلیم شوق پورنوی

بارش میں بھیگنے کا مزہ ہم سے پوچھئے
پھر کتنی کھائی ہم نے دوا ہم سے پوچھئے
نصر عالم نصر

چپکے چپکے مرے کانوں میں صدا دیتا ہے
کون بجھتے ہوئے شعلوں کو ہوا دیتا ہے
میر سجاد

مری قلندری کو گوارا کہاں ہے یہ
مری مدد کو کچھ شہ دربار بولتا ہے
میم سرور پنڈولوی

قصہء عہد وفا یاد نہیں
بھول بیٹھے ہو خدا یاد نہیں
شمیم شعلہ

بہت وزنی ہے ارمانوں کی گٹھری
حیات مختصر ہے اور میں
نذر فاطمی،
نششت کی نظامت  میزبان شاعر نصر عالم نصر نے کی جبکہ آخر میں سلیم شوق پورنوی نے تمام لوگوں کا شکریہ ادا کیا، انہوں نے کہا کہ مہمان جس معیار کے ہوتے ہیں مہمان نوازی بھی اسی معیار کی ہونی چاہیے، جیسا کہ ڈاکٹر نصر عالم نصر صاحب نے اس شعری نششت کا انعقاد کرکے  بہترین مہمان ہونے کا ثبوت پیش کیا ہے اس لیے ہم انہیں مبارکبادی پیش کرتے ہیں، اس کے ساتھ ہی صدر محترم کی اجازت سے اس نششت کے اختتام کا اعلان کرتے ہیں 
 پروگرام کو خوبصورت بنانے میں جن ناموں کی فہرست ہے وہ شبیر عالم، فاطمہ خان، ثناء العظیم، عفان ضیاء شامل رہے

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی میں شعرا کرام کی نظر میں : ایک جائزہ

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی میں شعرا کرام کی نظر میں :  ایک جائزہ

✍️ قمر اعظم صدیقی
              9167679924
اردو دنیا نیوز٧٢
زیر مطالعہ کتاب  " مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی شعراء کرام کی نظر میں "  کے مرتب نوجوان اسکالر اور قلمکار میرے مخلص دوست عبدالرحیم برہولیاوی ہیں ۔  وقتا فوقتاً آپ کے شخصی  مضامین و تبصرے ہندوستان کے مشہور ومعروف اردو روزنامہ اور ویب سائٹ پر شائع ہوتے رہتے ہیں ۔ صحافت میں بھی آپ دلچسپی رکھتے ہیں ۔ آپ العزیز میڈیا سروس کے بانی و ایڈمن ہیں ۔ العزیز میڈیا سروس فیس بک پر چلایا جانے والا ایک فعال اور معیاری اردو ویب پورٹل ہے ۔ جس میں مشاہیر اہل قلم کے ساتھ ساتھ نوجوان قلمکاروں کی بھی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے ۔ عبدالرحیم صاحب معہد العلوم اسلامیہ چک چمیلی میں استاد ہیں ساتھ ہی سراۓ بازار کی مسجد میں امامت کے فرائض بھی انجام  دے رہے ہیں ۔ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی سے آپ کی بے پناہ عقیدت و محبت کی یہ زندہ دلیل ہے کہ آپ نے بہت ہی محنت و مشقت کے ساتھ تمام وہ منظوم کلام جو شعرائے کرام نے مفتی صاحب کی شان میں لکھا تھا اسے یکجا کر کے کتابی شکل دے دی ہے ۔ آپ کی یہ کاوش قابل قدر بھی ہے اور قابل ستائش بھی ۔ ان کے اس عمدہ کاوش پر میں انہیں مبارکباد پیش کرتا ہوں اور یہ امید کرتا ہوں کہ ادبی دنیا میں یہ کتاب قدر کی نگاہوں سے دیکھی جایے گی اور مقبولیت کی منزل تک پہنچے گی ۔ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی کی شخصیت اور ان کے کارنامے ہی کچھ ایسے ہیں کہ جس کا اعتراف قبل میں بھی کیا گیا ہے ۔ موجودہ وقت میں بھی لوگ آپ کی علمیت اور صلاحیت کے قائل ہیں اور آنے والی نسلیں بھی آپ کے کارناموں پر فخر کرے گی  اور فیضیاب ہوگی ۔ مفتی صاحب کی گراں قدر علمی خدمات کے اعتراف میں انہیں پانچ ستمبر 2001 ء کو صدر جمہوریہ ہند کے آر نارائنن کے ہاتھوں صدارتی ایوارڈ سے بھی نوازا جا چکا ہے ۔ 
آپ کو صدارتی اعزاز سے نوازے جانے کے بعد سرزمین ویشالی کی اس وقت کی فعال اور متحرک تنظیم انجمن ترقی اردو ویشالی نے آپ کی علمی و ادبی خدمات کے  موضوع پر مورخہ 21 اکتوبر 2001 ء کو وکالت خانہ حاجی پور کے  ہال میں ایک شاندار سمینار کا انعقاد کیا جس کی صدارت مولانا ابوالکلام قاسمی شمشی پرنسپل مدرسہ اسلامیہ شمش الہدی پٹنہ نے فرمائ تھی اور مہمان خصوصی کی حیثیت سے بہار اردو اکادمی کے سکریٹری ڈاکٹر رضوان احمد ( مرحوم ) ، معروف صحافی ڈاکٹر ریحان غنی  پٹنہ ، مولانا ڈاکٹر شکیل احمد قاسمی ، کہنہ مشق شاعر ذکی احمد دربھنگہ ،  اور جواں سال شاعر و محقق واحد نظیر پٹنہ شریک ہوۓ تھے ۔ جس کی نظامت انجمن ترقی اردو ویشالی کے صدر ڈاکٹر ممتاز احمد خاں نے فرمائ تھی ۔ اس موقع پر  ڈاکٹر ممتاز احمد خاں ، انوار الحسن وسطوی ، نذر الاسلام نظمی ، مصباح الدین احمد اور ڈاکٹر مشتاق احمد مشتاق(مرحوم) نے اپنے اپنے مقالے بھی پیش کیے ۔ جناب ذکی احمد مرحوم اور جناب واحد نظیر نے مفتی صاحب کے تعلق سے اپنے منظوم تاثرات پیش کیے ۔  ( بحوالہ : انجمن ترقی اردو ویشالی کی خدمات مرتبہ انوار الحسن وسطوی صفحہ 96 ) 
آپ کی شخصیت اور کارناموں سے متاثر ہو کر تقریباً بیس سال قبل ڈاکٹر مشتاق احمد مشتاق (مرحوم) نے ایک کتاب ترتیب دی تھی جس کا نام ہے " مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی شخصیت اور خدمات " یہ کتاب اتنی مقبول ہوئی کہ  اس کے دو اڈیشن شائع ہوۓ ۔ آپ کی خدمات کے اعتراف کا دائرہ یہیں تک نہیں روکا بلکہ آپ کی شخصیات پر ڈاکٹر راحت حسین نے متھلا یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کی اور اس مقالے کو کتابی شکل دی جس کا نام ہے " مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی کی ادبی خدمات " جو شائع ہو کر منظر عام پر آچکی ہے ۔ 
کتاب کے حوالے سے جناب عبدالرحیم " اپنی بات " میں لکھتے ہیں کہ : 
" مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی کی حیات و خدمات پر جس طرح نثر نگاروں نے خامہ فرسائی کی ہے اسی طرح شعرائے کرام نے بھی مختلف موقع کی مناسبت سے اپنا اپنا کلام پیش کیا ہے ۔ مجھے خوشی ہے کہ ان نظموں کو ترتیب دے کر ہر خاص و عام کے سامنے پیش کرنے کی سعادت میرے حصے میں آئ ہے "
  ( صفحہ 5 ) 
پیش لفظ میں کامران غنی صبا مفتی ثناء الہدی قاسمی کے تعلق سے لکھتے ہیں : 
" آج دنیا مفتی صاحب کو ایک ہر دل عزیز عالم دین ، مبلغ ، داعی ، خطیب اور ملی رہنما کےطور پر تو جانتی ہے لیکن کم لوگ ہی واقف ہیں کہ مفتی صاحب ایک صاحب طرز ادیب اور انشاء پرداز بھی ہیں ۔ ادبی موضوعات پر ان کے معروضی تاثرات دانشوران ادب کو حیرت میں ڈالتے ہیں ۔ مفتی صاحب کے ادبی مضامین اور تبصرے ان کے ادبی شعور کا اعتراف کرواتے ہیں ۔ ( صفحہ 9 )
دو باتیں کے عنوان سے عطا عابدی اپنے تحریر میں لکھتے ہیں کہ :  شخصیت نگاری خصوصا منظوم شخصیت نگاری کے ذیل میں مدح و
ستائش کا معاملہ مبالغہ آرائی کے بغیر بہت مشکل  بلکہ ناممکن جیسا ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ شعری تولیف کے باب میں مبالغہ آرائی کوفن کا درجہ حاصل ہے ،تعریف و توصیف یعنی قصیدہ کے حوالے سے شاعری کی تاریخ میں حقیقت نگاری سے آگے تخیل آفرینی کو جگہ دی گئی ہے، یہاں پیش کردہ زیادہ تر نظموں میں تخیل اور حقیقت کے امتزاج سے کام لینے کی اچھی کوشش کی گئی ہے۔  ( صفحہ 11 )
مفتی صاحب کے تنظیمی ذمہ داریوں کے تعلق سے محمد انوار الحق داؤد قاسمی کا شعر ملاحظہ فرمائیں : 
کتنی تنظیم کے ہیں حسیں سربراہ
 ان سے آباد ہیں کئی عدد درسگاہ
 سب پہ یکساں نظر ہے گدا ہو کہ شاہ
 دور بیں ان کی فطرت، عقابی نگاہ
رابطہ سب سے رکھتے ہیں وہ من وعن
 ہیں" ثناء الہدی" خود میں اک انجمن
(صفحہ 22)
پروفیسر عبدالمنان طرزی نے مفتی صاحب کی ادبی سرگرمیوں اور تصنیف و تالیف کے حوالے سے کہا ہے : 
سلسلہ ان کی تصنیف وتالیف کا 
گیسوئے یار سے رکھتا ہے رابطہ
 عالم دیں کا ہو ادبی مشغلہ 
شاذ و نادر ہی ایسا ہے دیکھا گیا
 ہاں مگر ہیں جو مفتی ثناء الہدی
 ان کا ہے ان سبھوں سے الگ راستہ 
ان کو دلچسپی ہے اردو تحقیق سے
 ان کے اس میں بھی میں کارنامے بڑے
(صفحہ 30)
مفتی صاحب کی شخصیت کو کامران غنی صبا نے کچھ اس انداز میں پیش کیا ہے : 

ہیں علم شریعت کے وہ راز داں
 خموشی میں جن کی نہاں داستاں

ہے جن کے تبسم میں سنجیدگی
 عجب سی ہے لہجے میں پاکیزگی
 وہ ہیں عالم باعمل 
بالیقیں 
جنہیں کہیے اسلاف کا جانشیں

مفکر ، مدبر کہ دانشوراں

 سبھی ان کے حق میں ہیں رطب اللساں
( صفحہ 39 )
امان ذخیروی نے مفتی صاحب کی صفات کا نقشہ کچھ اس انداز میں کھینچا ہے : 

اک بحر بیکراں ہے ثناء الہدی کی ذات
 ملت کی پاسباں ہے ثناء الہدی کی ذات

ملت کا درد ان کے ہے سینے میں جاگزیں

 اس غم سے سرگراں ہے ثناء الہدی کی ذات

سینے میں ان کے علم کا دریا ہے موجزن 
ساکت نہیں ، رواں ہے ثناء الہدی کی ذات

تحریر لازوال ہے تقریر
 بےمثال 
ماضی کی داستاں ہے ثناء الہدیٰ کی ذات
(صفحہ 62)
اس طرح کے سینکڑوں اشعار مفتی صاحب کی خصوصیات کے تعلق سے کتاب میں بھرے پرے ہیں ۔ لیکن  بخوف طوالت سبھوں کا احاطہ کرنا ممکن نہیں ہے ۔ البت ان تمام شعرا کے نام کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں جن کے کلام اس کتاب میں شامل ہیں وہ ہیں محمد انوارالحق داؤد
قاسمی، مظاہر حسین عماد عاقب قاسمی ، حسن نواب حسن ، عبدالمنان طرزی ، طارق ابن ثاقب ، کامران غنی صبا ، ڈاکٹر منصور خوشتر ، احمد حسین محرم قاسمی ، شمیم اکرم رحمانی ، اشتیاق حیدر قاسمی ، منصور قاسمی ، ذکی احمد ذکی ، محب الرحمن کوثر ، مظہر وسطوی ، زماں بردہوای ، محمد ضیاء العظیم ، محمد مکرم حسین ندوی ، ڈاکٹر امام اعظم ، عظیم الدین عظیم ، کمال الدین کمال عظیم آبادی ، وقیع منظر ، فیض رسول فیض ، ڈاکٹر عبدالودود قاسمی ، امان ذخیروی ، ولی اللہ ولی ، آفتاب عالم آفتاب ، یاسین ثاقب ، مولانا سید مظاہرہ عالم قمر ، محمد بدر عالم بدر ، ثنا رقم مؤی ، فیاض احمد مظطر عزیزی ، عبدالصمد ویشالوی اور تحسین روزی 
قابل مبارکباد ہیں یہ تمام شعرائے کرام جنہوں نے مفتی صاحب کے لیے اپنے بہترین پیغام تہنیت پیش کیے ہیں ۔ 
72 صفحات کی یہ کتاب بہت ہی دلکش اور معیاری ہے ۔ عمدہ قسم کے کاغز کا استعمال کیا گیا ہے۔ کمپوزنگ کا کام مفتی صاحب موصوف کے لائق فرزند مولانا محمد نظر الہدی قاسمی اور راشد العزیزی ندوی نے مل کر انجام دیا ہے ۔ جبکہ اس کی طباعت عالم آفسیٹ پرنٹر اینڈ پبلیشرس ، دریا پور پٹنہ سے ہوئ ہے جسکی قیمت صرف 60 روپیہ ہے جسے مکتبہ امارت شرعیہ پھلواری شریف ، پٹنہ نور اردو لائبریری حسن پور گنگھٹی، بکساما اور ادارہ سبیل الشرعیہ ، آواپور ، سیتا مڑھی سے حاصل کیا جا سکتا ہے ۔ آخری صفحہ پر مرتب کتاب عبدالرحیم برہولیاوی کا مختصر تعارف درج ہے جس کے مطالعہ کے بعد ان کے تعلق سے قاری واقف ہوتا ہے ۔ بیک کور پر مفتی صاحب موصوف کی کتابوں یا ان پر لکھی گئ کتابوں کی تصویر درج ہے۔ کتاب کے سلسلے میں مزید معلومات کے لیے، مرتب کتاب سے رابطہ کیا جا سکتا ہے

جمعہ, ستمبر 16, 2022

جہاں جہاں کوئی اردوزبان بولتا ہے وہیں وہیں مرا ہندوستاں بولتا ہے ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ

*اردو "ہندوستانی" ہے*
اردو دنیا نیوز٧٢

اردو اخبار روزنامہ انقلاب کے ذریعہ یہ خبر مل رہی ہے کہ محکمہ صحت کےجوائنٹ ڈائریکٹر تبسم خان کو معطل کر دیا گیا ہے،معطلی کی وجہ  وہی حکمنامہ ہے جو ابھی کچھ دنوں پہلے محکمہ صحت کی طرف سے جاری ہوا تھا، اور اسمیں ہسپتالوں کے نام ،ڈاکٹروں کے نام ہندی کے ساتھ اردو میں بھی لکھنے کی ہدایت دی گئی تھی، 
ملک بھر میں اس فیصلہ کی بڑی پذیرائی ہوئی، لوگوں نے یوپی حکومت کے اس فیصلے کو دوسری سرکاری زبان اردو کے ساتھ انصاف قراردیا، اورحکومت کا شکریہ بھی ادا کیاگیاہے، اب یہ معاملہ برعکس نظر آرہا ہے، ڈاکٹر تبسم خان پر یہ الزام ہے کہ انہوں نے حکمنامہ جاری کرنے میں پروسیز کا خیال نہیں کیا ہے، لہذا اب  معطلی کے ساتھ ساتھ یہ حکمنامہ بھی قابل عمل نہیں رہا ہے۔
اس تعلق سے لکھنؤ یونیورسٹی کی سابق وائس چانسلر روپ ریکھا ورما جی کابیان واقعی قابل تعریف ہے، موصوفہ کہتی ہیں کہ" کارروائی افسوسناک ہے، ہمیشہ یوپی میں روایت رہی ہے کہ محکموں میں ہندی کے ساتھ اردو کا استعمال ہوتا رہا ہے، اردو اسی ملک کی زبان ہےاور اس کا کسی مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے ،قانون کے مطابق ہر محکمہ میں ہندی کے ساتھ اردو کا استعمال ہونا چاہیے "
یہ بیان واقعی قابل تعریف ہے اور تاریخی حقائق پر مبنی بھی ہے، جولوگ اردو زبان سے ادنی بھی واقفیت رکھتے ہیں، یہ دونوں موٹی موٹی باتیں بخوبی جانتے ہیں کہ اردو کی جائے پیدائش ہندوستان ہے،اور یہ بھی کہ اردو کسی خاص مذہب یا کسی ایک قوم کی زبان نہیں ہے،بلکہ مختلف زبانوں اور لوگوں کے میل جول کا نتیجہ اردو ہے،علامہ سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں:
"اردو زبان کا پیدا ہونا کسی ایک قوم یا قوت کا کام نہیں بلکہ مختلف قوموں اور زبانوں کے میل جول کا ایک ناگزیر اور لازمی نتیجہ ہے"( نقوش سلیمانی )
معروف ومشہور کتاب "باغ وبہار" کے دیباچہ میں میر امن دہلوی نے یہ تحریر کیا ہے:"حقیقت اردو زبان کی بزرگوں کے منھ سے یوں سنی ہے کہ جب اکبر بادشاہ تخت پر بیٹھے،تب چاروں طرف کے ملکوں سے سب قوم قدردانی اور فیض رسانی اس خاندان لاثانی کی سن کر، حضور میں آکر جمع ہوئے،لیکن ہر ایک کی گویائی اور بولی جدی جدی تھی، اکٹھے ہونے سے آپس میں لین دین، سودا سلف،سوال جواب کرتے ایک زبان اردو کی مقرر ہوئی "۔(باغ و بہار )
ان تاریخی حقائق کو آج فراموش کیا جارہا ہے ، اس میل جول اور پیار ومحبت کی زبان کو صرف مسلمانوں کی زبان کہ کر نفرت پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔اور اب یہ اردو ریاستی حکومت کی دوسری سرکاری زبان ہوتے ہوئے سیاست کا ایک عنوان بن گئی ہے،اور اس کی قانونی حیثیت سے بھی روگردانی کی جارہی ہے، 
ع۰۰  اپنی اردو تو محبت کی زبان تھی پیارے
       اب سیاست نے اسے جوڑدیا مذہب سے 
دوسری سازش اردوزبان کے خلاف یہ ہورہی ہے کہ،عام ذہنوں میں یہ باور کرایا جارہا ہے کہ، اردو دراصل فارسی زبان سے بنی ہے،اور یہ غیر ملکی زبان ہے،اسے باہری زبان کہ کر ہر جگہ سے باہر کا راستہ دکھادیا جائے،یہ سوچ جہالت پرمبنی ہے،بابائے اردو مولوی عبدالحق رقم طراز ہیں:
"بزرگان دین نے اہل ملک سے ارتباط اور میل جول بڑھانے اور ان کو اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کی، اس نظر سے انہوں نے ان کی اور اپنی زبان کو ملانا شروع کیا، اس میل اور ارتباط سے خود بخود ایک نئی زبان بنی، جو نہ ہندی تھی اور نہ فارسی بلکہ ایک نئی مخلوط زبان بنی جسے اب ہم اردو یا ہندوستانی کہتے ہیں "(اردو کی ابتدائی نشو ونما میں صوفیاء کرام ۰۰)
مذکورہ بالا اقتباس سے جہاں اس بات کی نفی ہوتی ہے کہ اردو فارسی زبان سے نہیں بنی ہے وہیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اردو کا دوسرا نام "ہندوستانی"  ہے۔اب کوئی طاقت اس ملک میں یہ کوشش کرے کہ" ہندوستانی" کو ہندوستان سے باہر کردے، یہ قیامت کی صبح تک نہیں ہونے جارہا ہے، البتہ یہ پیغام ان لوگوں تک ضرور جانا چاہئے جو اردو دشمنی کا مظاہرہ کرتے ہیں، جہاں کسی شہر اور گاؤں کا نام اردو الفاظ سے بنے ہوں، اسے بدلنے کی کوشش کرتے ہیں، اگر وہ چاہیں تو اردو کا نام بدل کر ہندوستانی رکھ سکتے ہیں، شاید اردو داں طبقہ کو اس کا بالکل افسوس نہیں ہوگا، بلکہ اردو پر ہم ہندوستانیوں کو فخر بھی اسی لئے ہے کہ آج پوری دنیا میں یہ زبان بولی جارہی ہے، اور جہاں کوئی اردو بولتا ہے، وہاں دراصل ہندوستان بول رہا ہے، 
ع ۰۰  جہاں جہاں کوئی اردوزبان بولتا ہے 
       وہیں وہیں مرا ہندوستاں بولتا ہے 

ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ 
۱۶/ستمبر ۲۰۲۲ء

تلبینہ کے قدرتی فوائد:-⇩*

تلبینہ کے قدرتی فوائد:-⇩*
اردو دنیا نیوز٧٢
*✧ ضعف اور کمزوری کو دور کرتا ہے.*
*✧ خون میں ہیموگلوبین کی کمی کو دور کرتا ہے.*
*✧ بڑھا ہوا کولیسٹرول کو کم کرتا ہے.*
*✧ امراضِ قلب میں مفید ہے.*
*✧ کینسر کے جراثیم کو ختم کرتا ہے.*
*✧ ہائی بلڈپریشر کو قابو کرتا ہے.*
*✧ ذیابطیس (شوگر) سے ہونے والی کمزوری دور کرتا ہے.*
*✧ جوڑوں کے درد کو دور کرتا ہے.*
*✧ جسمانی تھکان اور سستی کو دور کرتا ہے.*
*✧ کمر کے درد کو دور کرتا ہے.*
*✧ تھائرائیڈ کے مریضوں کیلئے مفید ہے.*
*✧ دل و دماغ کو تقویت بخشتا ہے.*
*✧ حاملہ اور دودھ پلانے والے خواتین کے لئے فائدہ مند ہے.*
*✧ بچوں کی غذائی ضرورت کو پورا کرکے نشونما بہتر کرتا ہے.*
*✧ عورتوں میں بانجھ پن لیکوریا کی شکایت کو دور کرتا ہے.*
*✧ ان کے علاوہ دیگر بے شمار امراض میں مفید ہے.*

*طریقہ استعمال:- ⇩*
*①* 200 ملی لیٹر دودھ میں تین سے چار چائے کا چمچہ تلبینہ ڈال کر اچھی طرح ملا لیں.
*②* دودھ کو ہلکی آنچ پر چار سے پانچ منٹ تک پکالیں.
*③* حسب ذائقہ شہد یا شکر ملالیں (اگر آپ کو شگر نہ ہو)

............

*برائے مہربانی زیادہ سے زیادہ شیئر کیجئے.*
حاصل کرنے کے لئے رابطہ کریں
مولانا منیر الاسلام قاسمی امام مسجد شیخ مراد علی متصل مدرسہ مدینۃ العلوم نگینہ بجنور
انس حسامی بجنوری مدرسہ اختر العلوم جلال آباد بجنور
9927175860
8791491284

جمعرات, ستمبر 15, 2022

ڈھیکلی والی مسجد محلہ انصاریان قصبہ ساھن پور تحصیل نجیب آباد ضلع بجنور میں ایک روزہ تبلیغی و اصلاحی پروگرام

ڈھیکلی والی  مسجد محلہ انصاریان قصبہ ساھن پور  تحصیل نجیب آباد ضلع بجنور میں ایک روزہ  تبلیغی و اصلاحی پروگرام 
اردو دنیا نیوز٧٢
بتاریخ: ۱۹صفر المظفر ۱۴۴۴ہجری مطابق ۱۷ستمبر ۲۰۲۲عیسوی بروز ہفتہ
بوقت: بعد نمازِ مغرب 
حضرت مولانا مفتی محمد عثمان قاسمی صاحب دامت برکاتہ کی زیرِ نگرانی  پوری شان و شوکت کے ساتھ منعقد ہو رہا ہے 
جس میں بطور مہمان خصوصی  صوفی با صفا پیکر اخلاص و وفا  حضرت اقدس حضرت مولانا آدم مصطفی صاحب مد ظلہ العالی فروز آبادی  خلیفہ شیخ یونس جون پوری رحمہ اللہ تشریف لا رہے ہیں
تمام اہلِ ایمان سے عموماً اور علماء و ائمہ حضرات  سے خصوصًا شرکت کی درخواست ہے
المعلن : انس حسامی بجنوری 

آوازۂ لفظ و بیاں‘ ایک مطالعہ(مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی کی عمدہ پیشکش) ڈاکٹر احسان عالمپرنسپل الحراء پبلک اسکول، دربھنگہ

”آوازۂ لفظ و بیاں‘ ایک مطالعہ
(مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی کی عمدہ پیشکش)
     ڈاکٹر احسان عالم
پرنسپل الحراء پبلک اسکول، دربھنگہ
موبائل:9431414808
اردو دنیا نیوز٧٢
    مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی سرزمین بہار کے ایک ایسے عالم دین ہیں جو تصنیف و تالیف کے کام بہت ہی دلجمعی کے ساتھ لگے ہیں۔ مذہبی موضوعات کے ساتھ وہ ادبی موضوعات پر بھی قلم فرسائی کرتے ہیں۔ ان کے تصنیفات وتالیفات کی تعداد تقریباً چالیس (۰۴) ہے۔ پیش نظر کتاب ”آوازۂ لفظ و بیاں“ ۲۲۰۲ء میں منظر عا م پر آئی ہے۔ ۴۰۳ صفحات پر مشتمل کتاب کو مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نے چار ابواب میں تقسیم کیا ہے۔ وہ چار ابواب اس طرح ہیں:
    باب اول:     مذہبی
    بام دوم:         ادبی
    باب سوم:     تاریخی
    باب چہارم:     تعلیمی
    چاروں ابواب کافی اہم ہیں۔یہ ابواب ۳۰۱ مضامین سے مزین ہیں۔ 
    ”آوازۂ لفظ وبیاں“ کے حوالے سے مفتی صاحب لکھتے ہیں:
”آوازۂ لفظ و بیاں“ میرے ان مضامین کا مجموعہ ہے جو میں نے مختلف حضرات اور متنوع عنوانات پر لکھی گئی کتابوں پر تعارف،تبصرے، مقدمہ، پیش لفظ اور تنقید کے طور لکھے، یہ سارے مضامین امارت شرعیہ کے ترجمان  ہفت روزہ نقیب میں ”کتابوں کی دنیا“ کے ذیل میں اشاعت پذیر ہوئے، بعد میں مختلف اخبارات و رسائل میں بھی ان کو جگہ مل گئی۔“(ص:۸)
    پروفیسر صفدر امام قادری نے ”مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی: مبصر کی حیثیت سے“ عنوان کے تحت بہت ہی جامع تاثرات بیان کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:”گذشتہ برسوں میں مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی کی تصنیفات سلسلے وار طریقے سے سامنے آتی رہی ہیں۔ ادبی اور علمی موضوعات کو انہوں نے مذہبی امور کے شانہ بہ شانہ قائم رکھا۔ امار ت شرعیہ کے ترجمان ”نقیب“ کی ادارت سے بھی ان کے تصنیفی کاموں میں ایک باقاعدگی پیدا ہوئی۔ ان کی خدمات کے اعتراف کا سلسلہ شروع ہوا اور مختلف یونیورسٹیوں میں ان کے کارناموں کے حوالے سے تحقیقی مقالے لکھے گئے۔“
    کتاب کے آغاز میں مفتی ثنا ء الہدیٰ قاسمی نے ۵۵/ مذہبی کتابوں پر تاثراتی مضامین شامل کئے ہیں۔ یہ مضامین مختصر لیکن جامع انداز میں تحریر کئے گئے ہیں۔ پہلی کتاب ”خیر السیرفی سیرۃ خیر البشر“ کے عنوان سے ہے جس پر تبصرہ کرتے ہوئے موصوف لکھتے ہیں:”خیر السیر فی سیرۃ خیر البشر“ والی اللہ عبدالسبحان ولی عظیم آبادی کی سیرت رسول پر منظوم کتاب ہے۔ جس کے ہر شعر سے ان کے قادر الکلامی اور محبت رسول کی جھلک ملتی ہے، ان کی یہ کتاب تاریخ اسلام میں حفیظ جالندھری کی ”شاہنامہ اسلام“ اورڈاکٹر عبدالمنان طرزی کی مشہور و معروف منظوم ”سیرت الرسول“ کے کام کو تسلسل عطا کرتی ہے۔ 
    ”مقام محمود“ مولانا مفتی اختر امام عادل صاحت کی کتاب ہے۔ اس کے سلسلہ میں مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی لکھتے ہیں:”مقا م محمود سیرت نبی ﷺ کی امتیازات و خصوصیات پر مشتمل مقالات کا مجموعہ ہے، جسے موضوع کی یکسانیت کی وجہ سے یک جا کتاب کی شکل دے دی گئی ہے۔ پوری کتاب سات ابواب ’اسوۂ انسانیت، عالمی نبوت بین الاقوامی پیغمبر، عالمی رحمت، بے مثال صبر و عزیمت، عالمی انقلاب، عالمی پناہ گاہ اور عالمی دعوت کے عنوان سے ہے۔“
    اسی طرح کئی مذہبی کتاب مثلاً ”پیارے نبی کی سنتیں، تصوف کا اجمالی جائزہ، سجدہ سہو کے مسائل، اسلام کا قانون طلاق، موت سے قبر تک کے احکام و مسائل، اسلام ہی کیوں؟، درس حدیث، ایمان کے شعبے، رسول اللہ کی بیٹیاں، داماد اور نواسے، نواسیاں، حجاب کے فوائد اور بے حجابی کے نقصانات، خطبات جمعہ، خطبات سبحانی، شرح در مختار، شراب: ایک تجزیاتی مطالعہ، قرآن کریم کا تاریخی معجزہ، دین اسلام اور اس کے پیغامات، پیارے نبی کی پیاری باتیں، ازدواجی زندگی، عبادت کا آسان طریقہ اور تصویر کشی فتاویٰ کی روشنی میں“ پر مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی صاحب نے تاثراتی مضامین قلم بند کئے ہیں۔ ان مضامین میں کتاب کی جھلک قارئین کے سامنے پیش کر دی گئی ہیں۔ 
    ”آوازۂ لفظ و بیاں“ کا دوسرا باب ادبی کتابوں پر تاثراتی مضامین سے مزین ہے۔ اس باب کا پہلا مضمون ”سِیرَ الصالحین“سے تعلق رکھتا ہے۔ شمالی بہار میں سلسلہ نقشبندیہ کے بافیض بزرگ پیر طریقت حضرت مولانا حافظ الحاج شمس الہدیٰ دامت برکاتہم نے اس کتاب کو اپنے قلم سے سنورا ہے۔ اس کتاب کے سلسلہ میں مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی لکھتے ہیں:
”اس کتاب کا وہ حصہ سب سے دلچسپ لگا جہاں سے خود حضرت نے اپنی زندگی کے نشیب و فراز کا ذکر کیا ہے، یہ حصہ اصلاً حضرت کے اسلوب نگارش، قدرت کلام، الفاظ کے مناسب انتخاب و استعمال کا بہترین نمونہ ہے، بعض جملے اور تعبیرات اس قدر بلیغ ہیں اور معنی کی ترسیل میں اس قدر تیز بھی کہ بے اختار داد دینے کو جی چاہتا ہے۔“(ص:۲۵۱)
    ”سرمایہئ ملت کے نگہبان“ محتر م جناب مولانا عزیز الحسن صدیقی کی تخلیق ہے۔ وہ مشہور صاحب قلم ہیں۔ ان کی انتظامی صلاحیت بھی مضبوط ہے۔ ان کے قلم سے نکلے مضامین، تجزیے، سوانحی خاکے پورے ملک میں دلچسپی سے پڑھے جاتے ہیں۔ اس کتاب میں شخصیتوں کے انتخاب میں اس بات کا پورا خیال رکھا ہے کہ انہیں ہی موضوع بنائیں، جنہیں مولانا نے قریب سے دیکھا، برتا اور مختلف تحریکات میں ان حضرات کے ساتھ کام کرنے اور خدمت انجام دینے کاموقع ملا۔ 
    ”یادوں کے جھروکوں سے“ مولانا عبدالعلی فاروقی لکھنوی کی زندگی کے واقعات، حادثات اور تجربات پر مبنی تلخ و شیریں یادوں اور کم و بیش پچاس برسوں پر مشتمل یادوں پر مشتمل ایک کتاب ہے۔ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی مولانا عبدالعلی فاروقی اور ان کی کتاب کے تعلق سے لکھتے ہیں کہ مولانا عبدالعلی فاروقی کو اللہ رب العزت نے تقریر و تحریر دونوں میں زبان وبیان پر بے پناہ قدرت بخشی ہے، وہ تقریر کرتے ہیں تو موتیاں رولتے ہیں اور لکھتے ہیں تو قاری پر ایسا سحر طاری کرتے ہیں کہ وہ ان کا گرویدہ ہوجاتا ہے انہوں نے مدرسہ اور یونیورسٹی دونوں سے کسب فیض کیا ہے۔ فاضل دیوبند بھی ہے اور ایم بھی۔
    کتاب ”تخلیق کی دہلیز پر“ فاروق اعظم قاسمی کے تنقیدی مضامین کامجموعہ ہے۔ اس کتاب پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی لکھتے ہیں کہ فاروق صاحب کی یہ کتاب چھ ابواب پر مشتمل ہے، انہوں نے ابواب کے عنوان کے بجائے ابجد و ہوز کے الف، با وغیرہ کا عنوان لگایا ہے۔ اس کا فائدہ انہیں یہ ملا کہ وہ مختلف انداز کے مضامین کو ا س ضمن میں سمیٹ پائے۔
    ”پیام صباؔ“ کامران غنی صبا“ کا پہلا مجموعہئ کلام ہے۔ وہ فی الحال نتیشور کالج، مظفرپور میں اسسٹنٹ پروفیسر کے عہدہ پر فائز ہیں۔ ان کی شعری اور نثری دونوں تخلیقات بہت ہی جامع ہوا کرتی ہے۔ مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی نے کامران غنی صباؔ کی صلاحیتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے:”کامران غنی صباؔ نے اس کم عمری میں جو کچھ لکھ دیا ہے اس سے ان کی اٹھان کا پتہ چلتا ہے، مشق، ریاضت اور تجربات کی وسعت سے فکر و نظر اور فن میں پائیداری آتی ہے۔“
    مولانا احمد سجاد ساجدؔ قاسمی کا مجموعہ کلام ”غبار شوق“ پر اپنے خیالات کا اظہار مفتی صاحب نے ان الفاظ میں کیا ہے:
”غبار شوق ساجد قاسمی کا پہلا مجموعہئ کلام ہے جو زیور طبع سے آراستہ ہوکر منظر عام پر آیا ہے۔ ساجد قاسمی دور طالب علمی سے شاعر کرتے رہے، لیکن انہوں نے اسے کبھی بھی ذریعہئ عزت نہیں بنایا اور نہیں سمجھا۔ انہوں نے پوری زندگی اس کش مکش میں گذار دیا کہ جو کچھ لکھا ہے اسے چھپوایا بھی جائے یا نہیں، ہم لوگوں کے پیہم اصرار پر انہوں نے یہ ہمت جٹائی کہ یہ متاع گراں مایہ قاری کے حوالے کر سکیں۔“(ص:۷۸۱)
    ”چہرہ بولتا ہے“ ظفر صدیقی کا شعری مجموعہ ہے جو ۰۴۲/ صفحات پر محیط ہے۔ ان کی کتاب کے تعلق سے مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی لکھتے ہیں:”چہرہ بولتا ہے“ کی شاعری میں چہرہ بولے یا نہ بولے، زندگی بولتی، اچھلتی، کودتی، مچلتی نظر آتی ہے، اور زندگی کا یہ رخ کسے پسند نہیں ہے۔ اس لیے بجا طور پر یہ امید کی جاتی ہے کہ چہرہ بولتا ہے شعر وادب کی دنیا میں مقبول ہوگا۔“
    
    فرد الحسن فرد کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ ان کی تخلیق ”بے چار ے لوگ“ تحقیق، تنقید اور تاریخ کا مرقع بن چکی ہے۔ اس کتاب میں موصوف نے تنقید کے اصولوں کو برتنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ فرد الحسن فرد صاحب کے ا س مجموعہ میں ۴۱/ مضامین شامل ہیں۔ وہ مضامین انجم عظیم آبادی، فریاد شیر گھاٹوی، نصیر الدین حسین نصیر، وصی بلگرامی، مولانا عبدالرحمن، عبدالکریم، شین منظر پوری، ناوک حمزہ پوری، شبنم کمالی، قمر شیرگھاٹوی، مسلم عظیم آبادی، صادق شیر گھاٹوی، قسیم الحق گیاوی، اسلم سعدی پوری جیسے شعر اء و ادبا پر ہیں۔ 
    ”ادبی میزان“ مغربی بنگال کی جانی پہچانی شخصیت عشرت بیتاب کے تنقیدی و تحقیقی مضامین کامجموعہ ہے۔ اس کتاب کے تعلق سے مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی لکھتے ہیں:”عشرت بیتاب صرف نقاد ہی نہیں، افسانہ نگار اورکہانی کار بھی ہیں، ادبی میزان میں انہوں نے پوری تنقیدی بصیرت کا ثبوت دیا ہے، ان کی تنقیدیں عملی تنقید کا بہترین نمونہ ہیں، وہ شاعر بھی ہیں، اس لیے تنقید کرتے وقت فنی تقاضوں کو بھی ملحوظ رکھتے ہیں۔ انہیں الفاظ کی صوتی ہم آہنگی اور خیالات کی ترسیل کا بھی پورا پورا خیال رہتا ہے۔“
    ”سہرے کی ادبی معنویت“ ڈاکٹر امام اعظم کی تحقیق و ترتیب ہے۔ اس کتاب پر اپنے خیالات رقم کرتے ہوئے مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی لکھتے ہیں:
”اس کتاب کے بارے میں ڈاکٹر امام اعظم نے اپنے لیے ترتیب و تہذیب کا عنوان لگایا ہے، یہ ان کی خاکساری ہے ورنہ یہ کتاب سہرے کی تاریخ بھی ہے اور تحقیق بھی۔ آپ اسے سہر ہ نگاران کی جامع ڈائرکٹری کہہ سکتے ہیں۔ جامع ا س لیے کہ اس میں ایک دو سہرہ کہنے والے بھی ان کی نگاہ سے بچ نہیں پائے ہیں۔“(ص:۷۳۲)
    پروفیسر عبدالمنان طرزی کا شمار ہندوستان کے قدآور اور زود گو شاعروں میں ہوتا ہے۔ ان کی شہرت عالمی پیمانے پر بھی ہے۔ صدر جمہوریہ ایوارڈ سے سرفراز ہوچکے پروفیسر طرزی کی ایک کتاب ”دیدہ وران بہار“ پر اپنے تاثرات پیش کرتے ہوئے مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی لکھتے ہیں:
”پانچ سو اکانوے صفحات پر مشتمل یہ ’دیدہ وران بہار‘ کا دوسرا ایڈیشن ہے۔ پہلے اس کے مشمولات چار جلدوں کو محیط تھے، اب یہ چاروں جلدیں اس ایک جلد یں سماگئی ہیں۔ ان چاروں جلدوں کے مشمولات پر بھی اچھا خاصا اضافہ کیا ہے۔ پہلے ایڈیشن میں جن حضرات کا تذکرہ چاروں جلد میں سے کسی میں نہیں آسکا تھا، ان کے تذکرے کو بھی اس میں شامل کرلیا گیا ہے۔ اس کتاب میں علماء، شعرا، ادبا، نقاد، صحافی، قائدین، محققین، نامور اور گمنام سبھی جگہ پاگئے ہیں۔“(ص:۱۴۲)
    ”دُردِتہ جام“ ڈاکٹر ممتاز احمد خاں سابق ایسوسی ایٹ پروفیسر بی آر اے بہار یونیورسٹی مظفرپور کی تخلیق ہے۔ ان موصوف کی آخری کتاب ہے۔ ڈاکٹر ممتاز احمد خاں کی تخلیقی صلاحیتوں پر روشنی ڈالتے ہوئے مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی لکھتے ہیں:”کتاب دو حصوں پر مشتمل ہے۔ دونوں حصوں میں ڈاکٹر ممتاز احمد خاں صاحب کی تنقیدی بصیرت اور اصناف سخن پر گہری نظر کا عکس جمیل دیکھنے کو ملتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے پوری زندگی صالح ادب برائے زندگی، بلکہ اسلامی ادب کو فروغ و پروان چڑھانے اور ان لوگوں کی قدردانی میں لگادی جو ا س کاز اور کام کے لیے سرگرم عمل رہے۔ انہوں نے چن چن کر ایسی شخصیات اور تصنیفات کو ہی بحث کا موضوع بنایا ہے جو ان کی اصلاحی اور اسلامی فکر سے قریب تر تھے۔“
    باب سوم کے تحت دو مضامین ”درسگاہ اسلامی۔ فکر و نظر کی بستی“ (ڈاکٹر عبدالودود قاسمی) اور ”تاریخ جامعہ عربیہ اشرف العلو م کنہواں“ ہیں۔ 
    باب چہارم میں تعلیمی مضامین ہیں۔ اس باب کا پہلا تاثراتی مضمون کتاب ”قرآنی حقائق اور سائنسی انکشافات“ سے متعلق ہے۔ یہ کتاب ڈاکٹر محامد عبدالحی کی تخلیق ہے۔ اس پر روشنی ڈالتے ہوئے مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی اپنے منفرد انداز میں رقم طراز ہیں:
”۲۵۱/ صفحات کی اس کتاب میں علم فلکیات، علم طب، علم الارضیات، علم الایجاد، علم حیوانات، قرآن اور نفسیات، قرآن اور نظریہ ارتقاء پر اکاسی عنوانات کے تحت تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے اور ثابت کیا گیا ہے کہ سائنسی انکشافات قرآنی حقائق سے متصادم نہیں ہیں، بلکہ سائنس داں جہاں تک برسوں کے تحقیقات کے بعد آج پہونچے ہیں، قرآن نے ان حقائق کو چوہ سو انتالیس سال پہلے بیان کردیا تھا۔“(ص:۷۸۲)
    اس باب کے دیگر مضامین ”تعلیم و تعلم۔ آداب و طریقے“، ”تحقیق و تحشیہ صفوۃ المصادر“، ”مدارس اسلامیہ اور جدید کاری کے تصورات“، ”شرح نایاب“ اور ”مسلم معاشرہ میں خواتین کا علمی وادبی ذوق“ کتابوں سے تعلق رکھتے ہیں جو مفتی محمد ثنا ء الہدیٰ قاسمی صاحب کی تحریری صلاحیتوں کا بین ثبوت ہے۔ 
    اس طرح پیش نظر کتاب ”آوازۂ لفظ و بیاں“ مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی صاحب کی مذہبی، ادبی، تعلیمی، تاریخی کتابوں کے پیش لفظ، تقاریظ، تاثرات، تبصرات اور عملی تنقید پر مشتمل ہیں۔ یہ کتاب اردو شائقین کے ذریعہ پسند کی جائے گی۔ اس کتاب کی اشاعت کے لئے مفتی صاحب کو دل کی عمیق گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ 
٭٭٭

بدھ, ستمبر 14, 2022

بے قابو ٹرک چائے کی دکان پر پلٹا ، تین کی موقع پر ہی موت

(اردودنیانیوز۷۲) Urduduniyanews72

سلطانپور،14ستمبر:اترپردیش کے سلطانپور کے کورے بھار قصبے میں بدھ کی صبح ایک خوفناک سڑک حادثہ پیش آیا۔ جہاں تیز رفتار ٹرک چائے کی دکان پر الٹ گیا۔ ایک آٹو رکشہ بھی اس کے نیچے آگیا۔ اس حادثے میں 3 افراد کی موقع پر ہی موت ہو گئی، جبکہ 7 زخمی ہو گئے۔ زخمیوں کو ضلع اسپتال میں داخل کرایا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی مرنے والوں کی لاشوں کو پوسٹ مارٹم کے لیے بھیجا جا رہا ہے۔بتایا جا رہا ہے کہ یہ حادثہ صبح تقریباً 5.00 بجے اس وقت پیش آیا جب پریاگ راج سے ایودھیا جا رہا ایک گٹی سے بھرا ٹرک بیلوائی مارگ سے ہالیا پور کی طرف جا رہے بھرے ٹرک سے ٹکرا گیا۔ جس کی وجہ سے وہ بے قابو ہو کر چوک پر واقع چائے کی دکان پر الٹ گیا۔ جس کی وجہ سے آٹو ڈرائیور راجن تیواری ساکنہ چمورکھا ساکنہ چمورکھا، راجیش اگرہری ساکنہ مقامی قصبہ، دکان پر چائے پی رہے راکیش کاسووندھن ٹرک کے نیچے آکر ہلاک ہوگئے۔ جبکہ سات دیگر زخمی ہوئے ہیں۔ زخمیوں میں شبھم، رام کیلاش، رادھے شیام، عقیل، دکاندار پون، مہیش پانڈے اور ٹرک سے ٹکرانے والے ٹرک کا ایک نامعلوم ڈرائیور شامل ہیں۔حادثے کی اطلاع ملتے ہی دو تھانوں کی پولیس فورس مقامی لوگوں کی مدد سے راحت اور بچاؤ کے کاموں میں لگی ہوئی ہے۔ حادثے کے بعد جام ہے۔ پولیس ملبہ اور حادثے کا شکار گاڑیوں کو ہٹانے اور ٹریفک کو بحال کرنے میں مصروف ہے۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...