Powered By Blogger

پیر, ستمبر 19, 2022

مدارسِ اسلامیہ پر سرکار کی نظر __مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

مدارسِ اسلامیہ پر سرکار کی نظر __
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
اردو دنیا نیوز٧٢
آسام اور اترپردیش سے یہ خبر مسلسل آرہی ہے کہ مدارس اسلامیہ کی عمارت پر بلڈوزر چلایا جا رہا ہے۔ آسام میں چارمدارس کی عمارت منہدم کی جاچکی ہے۔ وہاں کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما کی مسلم دشمنی جگ ظاہر ہے۔اترپردیش سرکار نے تمام مدارس کے سروے کا حکم جاری کردیا ہے اور بہار میں بھی بھاجپا کے مرکزی وزیرگری راج سنگھ نے سروے کا مطالبہ شروع کردیاہے، ٹی وی والے بہار کے مدارس اسلامیہ میں جاکر اساتذہ و طلبہ سے سوالات کرکے وہاں کے معیار تعلیم کو نشانہ بنانے رہے ہیں،ٹی وی اینکر عربی، فارسی اور اردو سے عموماً ناواقف ہوتے ہیں، انہیں انگلش اور ہندی کی شدبُد ہوتی ہے، اس لئے وہ طلبہ سے انگریزی کے سوالات پوچھتے ہیں اور بچے غلطیاں کرتے ہیں، پھر ان کا مذاق اڑایا جاتا ہے، اس عمل سے مدارس اسلامیہ کی تعلیم سے عوام کا اعتمادبھی اٹھ رہا ہے اور سرکار کو مدارس اسلامیہ پر شکنجہ کسنے کا جواز فراہم ہورہا ہے۔
04ستمبر2022 کو آسام کی مختلف ملی تنظیموں کے سربراہ جن میں جمعیت علماء آسام، جمعیت اہل حدیث،جماعت اسلامی، ندوۃ التعمیر وغیرہ شامل ہیں، نے آسام کے وزیر اعلیٰ سے ملاقات کرکے مدارس کے سلسلے میں اپنی بات رکھی اور غور و فکر بحث و تمحیص کے بعدملت ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق یہ طے پایاکہ کوئی بھی مدرسہ آزاد نہیں رہے گا، ان چھ تنظیموں میں سے کسی کے بینر تلے اسے آنا پڑے گا اور اگر دہشت گردی کاکوئی واقعہ کسی مدرسہ میں سامنے آتا ہے تو وہ تنظیم اس کی ذمہ دار ہوگی اور دار و گیر کے مرحلہ سے اس تنظیم کو گزرنا ہوگا، یہ بات بھی طے پائی کہ ان تمام مدرسوں کا جوان تنظیموں کے ذریعہ چلائے جائیں گے ان کا ایک پورٹل ہوگا جس میں اساتذہ و طلبہ کی تفصیل، آمد کی تفصیلات وغیرہ فراہم کرنی ضروری ہوگی، تنظیموں کے ذمہ داران مدرسوں کا جائزہ لے کر چھ مہینوں میں اس کام کو مکمل کرلیں گے، ان تنظیموں نے سرکار کی طرف سے پیش کردہ ان شرائط کو مان لیا۔ وزیر اعلیٰ نے اس بات کی یقین دہانی کرائی کہ جن مدارس کی عمارت منہدم کرائی گئی ہے، سرکار اپنے صرفہ سے اسے تعمیر کرائے گی، آسام میں جو سرکاری مدرسے چل رہے تھے اسے پہلے ہی اسکول میں تبدیل کیا جاچکا ہے۔اگر یہ رپورٹ صحیح ہے تو سرکار اس معاہدہ سے مکر گئی ہے، اس لیے کہ ایک مدرسہ کاانہدام اس معاہد ہ کے بعد ہوا ہے۔
اترپردیش حکومت نے جو سروے فارم جاری کیا ہے اس میں بھی اساتذہ و طلبہ کی تفصیل، آمد و خرچ کا گوشوارہ وغیرہ طلب کیا گیا ہے، اور تمام ضلع مجسٹریٹوں کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ غیر سرکاری مدرسوں کا سروے کرکے حکومت کو رپورٹ پیش کریں،جن پرائیوٹ مدرسوں کی بات کی جارہی ہے ان میں دار العلوم دیوبند، جامعہ اشرفیہ مبارک پور، دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ، مظاہر علوم سہارن پور، مدرسۃ الاصلاح سرائے میر، جامعۃ الفلاح بلیریا گنج، جامعہ سلفیہ بنارس، مدرسۃ الواعظین لکھنؤ، جیسے بڑے مدارس بھی شامل ہیں، جن کی علوم و فنون کی ترویج اور رجال کار کی تیاری کی اپنی تاریخ رہی ہے، انہوں نے غریب بچوں کو علم کی دولت سے آراستہ کرکے باخلاق،باکردار اور دین و دنیا کے کام کا بنایا، اب یہی مدارس بھاجپا حکومت کی آنکھوں میں کھٹک رہے ہیں اور انہیں بند کرنے یا سرکاری شکنجے میں لینے کی تیاری ہورہی ہے، اس وقت اترپردیش میں ایک سروے کے مطابق سولہ ہزار چار سو اکسٹھ (16461)مدارس ہیں ان میں سے صرف پانچ سو ساٹھ کو سرکاری گرانٹ ملتی ہے، گذشتہ چھ برسوں کی بات کریں تو کسی نئے مدرسہ کو کسی قسم کی کوئی سرکاری گرانٹ نہیں ملی ہے، سرکار نے امروہہ میں ایک مدرسہ کو بلڈوزر سے منہدم کرادیا تھا، اور دعویٰ یہ تھا کہ یہ سرکاری زمین پر غیر قانونی طور پر تعمیر کیا گیا تھا، سوال یہ ہے کہ اس غیرقانونی تعمیر کے وقت متعلقہ افسران کہاں تھے؟
ان معاملات  کو دیکھتے ہوئے جمعیت علماء ہند نے مدارس کے ذمہ داروں کی ایک میٹنگ میں اسٹرنگ کمیٹی تشکیل دی ہے ہیلپ لائن جاری کرنے کی تجویز پاس کی ہے اور اعلان کیا ہے کہ مدارس اسلامیہ کے سلسلے میں کوئی سرکاری زور زبردستی کبھی قبول نہیں ہے، دار العلوم دیوبند نے بھی اس صورت حال سے نمٹنے اور لائحہ عمل تیار کرنے کی غرض سے ایک میٹنگ بلائی ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مدارس اسلامیہ کے ذمہ داروں نے اسے سنجیدگی سے لیا ہے۔
بہار میں اس قسم کا ماحول نہیں ہے اور نتیش سرکار سے مسلمانوں کو یہ توقع ہے کہ وہ مدارس کے سلسلے میں اپنے قدیم موقف کو جاری رکھے گی، کمی کوتاہیاں مدرسوں میں بھی ہیں اور عصری درسگاہوں میں بھی؛لیکن ہمارا کوئی مدرسہ دہشت گردی کے کاموں میں نہ پہلے کبھی ملوث رہا ہے اور نہ اب ہے،یہ سرکاری ایجنسیاں اور بھاجپا کے نفرت پھیلانے والے کارکنان ہیں جو اس کو ہوا دے رہے ہیں،ارجن سنگھ کے دور وزارت میں جب بھاجپا والوں نے مدارس کو دہشت گردی کے اڈے کہا تو امیر شریعت سابع حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی رحمۃ اللہ علیہ نے ناموس مدارس کنونشن مونگیر میں بلا کر ان جھوٹے لوگوں کے پروپیگنڈے کی ہوا نکال دی تھی اور ارجن سنگھ نے تسلیم کیا تھا کہ مدارس میں ایسا کچھ نہیں ہے پھر یہ پروپیگنڈہ ٹھنڈا پڑا تھا۔
آج ایک بار پھر مدارس سرکار کے نرغے میں ہیں، ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام ملی تنظیموں کے ذمہ دار سر جوڑ کر بیٹھیں اور کوئی ایسا لائحہ عمل طے کریں کہ مدارس اسلامیہ علم و فن کی ترویج و اشاعت، تعلیم و تربیت کی تاریخی و مثالی خدمات کو باقی رکھ سکیں، یہ ملک و ملت دونوں کے لیے ضروری ہے،اس سلسلہ میں حضرت امیر شریعت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی دامت برکاتہم فکر مند ہیں اور ارباب مدارس کے رابطہ میں ہیں، جلد ہی اس سلسلہ میں کوئی مضبوط لائحہ عمل طے کیا جائے گا،اب وہ زمانہ نہیں رہا کہ صرف دستور میں اقلیتوں کو دیے گئے حقوق کا ذکر کرکے مسائل کو حل کرلیا جائے،دستور، ضوابط اور قانون کی روشنی میں ان مدارس اسلامیہ کے تحفظ کے لیے کوئی خاکہ، کوئی منصوبہ، کوئی ہدف ہونا چاہیے یہ کام کسی ایک تنظیم کے کرنے کا نہیں، مل جل کر کرنے کا ہے، جو آواز متحد ہوتی ہے اس کا وزن ہوتا ہے اور اس گونگی بہری سرکار کو سنانے کے لیے ایسے ہی متحدہ آواز کی ضرورت ہے،الگ الگ میٹنگ کرنا اس مسئلہ کا حل نہیں ہے، ییَالَیْتَ قَوْمِیْ یَعْلَمُوْن اے کا ش میری قوم اسے سمجھ پاتی۔

الحمداللہ کل بروز اتوار شب ٩بجےتحفظ شریعت کے بیزتلے زووم ایپ دوسرا نعتیہ مشاعرہ کا پروگرام منعقد ہوا

الحمداللہ کل بروز اتوار شب ٩بجے
تحفظ شریعت کے بیزتلے زووم ایپ دوسرا نعتیہ مشاعرہ کا پروگرام منعقد ہوا تاریخ 18/09/2022
جس میں مشہور ومعروف شعراء عظام شرکت کی
جلسہ کے فرائض انجام دیۓ
اردو دنیا نیوز٧٢
اس پروگرام آغاز قرآن کریم کے ساتھ ہوی 
قاری شہزاد صاحب رحمانی
نعمت پاک مولانا انوار صاحب نے پرھی 
حضرت مولانا عبد الوارث صاحب مظاہری اور سرپرستی کے عہد ے پر قائم رہے حضرت مولانا عبد اللہ سالم قمر صاحب چترویدی زیر نقابت حضرت مولانا نعمت اللہ رحمانی صاحب زیر انتظام ایم رحمانی صاحب نے کی خصوصی مہمان حضرت مولانا مفتی مجاہد الاسلام مجیبی القاسمی بھاگلپوری
حضرت مولانا عبد السلام عادل صاحب ندوی
شعراۓکرام کوثر آفاق صاحب دانش خوشحال صاحب اعجاز ضیاء صاحب فیاض احمد راہی صاحب حضرت قاری انور غفاری صاحب
 مفتی شہباز اشرفی صاحب قاسمی مولانا فہیم صاحب مولانا صدام صدیقی صاحب مولانا خوش محمد صاحب اور دیگر بہت سارے شعرائے کرام تشریف لائے جس کے اختتام پر قاری کوثر آفاق صاحب نے دعا کی 
اللہ تعالیٰ ہمارے پروگرام کو کامیاب عطاء فرمائے آمین ثم آمین یارب العالمین
ڈاریکٹر ایم رحمانی اردو دنیا نیوز٧٢

اتوار, ستمبر 18, 2022

میم سرور پنڈولوی کے اعزاز میں شعری نششت

میم سرور پنڈولوی کے اعزاز میں شعری نششت 
اردو دنیا نیوز٧٢
پھلواری شریف پٹنہ پریس ریلیز 18/ستمبر مدھوبنی سے تشریف لائے ملک کے معروف ومشہور شاعر ممیم سرور پنڈولوی کے اعزاز میں ڈاکٹر نصر عالم نصر کے دولت کدہ پر نذر فاطمی کی صدارت میں شعری نششت کا انعقاد ہوا، جس میں شعراء کرام نے بہترین اشعار سناکر سامعین سے داد وصول کیے ، اس نششت میں شامل شعراء کرام کے نام اور اشعار مندرجہ ذیل ہیں، 
اشکوں کی روانی ہے
سب جھوٹی کہانی ہے، 
میں اس کا نہ ہو پایا
جو میری دوانی ہے، 
محمد ضیاء العظیم

سر جھکاتے نہیں ہم لوگ جو درباروں میں
اس لیے نام نہیں آتا ہے اخباروں میں
سلیم شوق پورنوی

بارش میں بھیگنے کا مزہ ہم سے پوچھئے
پھر کتنی کھائی ہم نے دوا ہم سے پوچھئے
نصر عالم نصر

چپکے چپکے مرے کانوں میں صدا دیتا ہے
کون بجھتے ہوئے شعلوں کو ہوا دیتا ہے
میر سجاد

مری قلندری کو گوارا کہاں ہے یہ
مری مدد کو کچھ شہ دربار بولتا ہے
میم سرور پنڈولوی

قصہء عہد وفا یاد نہیں
بھول بیٹھے ہو خدا یاد نہیں
شمیم شعلہ

بہت وزنی ہے ارمانوں کی گٹھری
حیات مختصر ہے اور میں
نذر فاطمی،
نششت کی نظامت  میزبان شاعر نصر عالم نصر نے کی جبکہ آخر میں سلیم شوق پورنوی نے تمام لوگوں کا شکریہ ادا کیا، انہوں نے کہا کہ مہمان جس معیار کے ہوتے ہیں مہمان نوازی بھی اسی معیار کی ہونی چاہیے، جیسا کہ ڈاکٹر نصر عالم نصر صاحب نے اس شعری نششت کا انعقاد کرکے  بہترین مہمان ہونے کا ثبوت پیش کیا ہے اس لیے ہم انہیں مبارکبادی پیش کرتے ہیں، اس کے ساتھ ہی صدر محترم کی اجازت سے اس نششت کے اختتام کا اعلان کرتے ہیں 
 پروگرام کو خوبصورت بنانے میں جن ناموں کی فہرست ہے وہ شبیر عالم، فاطمہ خان، ثناء العظیم، عفان ضیاء شامل رہے

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی میں شعرا کرام کی نظر میں : ایک جائزہ

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی میں شعرا کرام کی نظر میں :  ایک جائزہ

✍️ قمر اعظم صدیقی
              9167679924
اردو دنیا نیوز٧٢
زیر مطالعہ کتاب  " مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی شعراء کرام کی نظر میں "  کے مرتب نوجوان اسکالر اور قلمکار میرے مخلص دوست عبدالرحیم برہولیاوی ہیں ۔  وقتا فوقتاً آپ کے شخصی  مضامین و تبصرے ہندوستان کے مشہور ومعروف اردو روزنامہ اور ویب سائٹ پر شائع ہوتے رہتے ہیں ۔ صحافت میں بھی آپ دلچسپی رکھتے ہیں ۔ آپ العزیز میڈیا سروس کے بانی و ایڈمن ہیں ۔ العزیز میڈیا سروس فیس بک پر چلایا جانے والا ایک فعال اور معیاری اردو ویب پورٹل ہے ۔ جس میں مشاہیر اہل قلم کے ساتھ ساتھ نوجوان قلمکاروں کی بھی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے ۔ عبدالرحیم صاحب معہد العلوم اسلامیہ چک چمیلی میں استاد ہیں ساتھ ہی سراۓ بازار کی مسجد میں امامت کے فرائض بھی انجام  دے رہے ہیں ۔ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی سے آپ کی بے پناہ عقیدت و محبت کی یہ زندہ دلیل ہے کہ آپ نے بہت ہی محنت و مشقت کے ساتھ تمام وہ منظوم کلام جو شعرائے کرام نے مفتی صاحب کی شان میں لکھا تھا اسے یکجا کر کے کتابی شکل دے دی ہے ۔ آپ کی یہ کاوش قابل قدر بھی ہے اور قابل ستائش بھی ۔ ان کے اس عمدہ کاوش پر میں انہیں مبارکباد پیش کرتا ہوں اور یہ امید کرتا ہوں کہ ادبی دنیا میں یہ کتاب قدر کی نگاہوں سے دیکھی جایے گی اور مقبولیت کی منزل تک پہنچے گی ۔ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی کی شخصیت اور ان کے کارنامے ہی کچھ ایسے ہیں کہ جس کا اعتراف قبل میں بھی کیا گیا ہے ۔ موجودہ وقت میں بھی لوگ آپ کی علمیت اور صلاحیت کے قائل ہیں اور آنے والی نسلیں بھی آپ کے کارناموں پر فخر کرے گی  اور فیضیاب ہوگی ۔ مفتی صاحب کی گراں قدر علمی خدمات کے اعتراف میں انہیں پانچ ستمبر 2001 ء کو صدر جمہوریہ ہند کے آر نارائنن کے ہاتھوں صدارتی ایوارڈ سے بھی نوازا جا چکا ہے ۔ 
آپ کو صدارتی اعزاز سے نوازے جانے کے بعد سرزمین ویشالی کی اس وقت کی فعال اور متحرک تنظیم انجمن ترقی اردو ویشالی نے آپ کی علمی و ادبی خدمات کے  موضوع پر مورخہ 21 اکتوبر 2001 ء کو وکالت خانہ حاجی پور کے  ہال میں ایک شاندار سمینار کا انعقاد کیا جس کی صدارت مولانا ابوالکلام قاسمی شمشی پرنسپل مدرسہ اسلامیہ شمش الہدی پٹنہ نے فرمائ تھی اور مہمان خصوصی کی حیثیت سے بہار اردو اکادمی کے سکریٹری ڈاکٹر رضوان احمد ( مرحوم ) ، معروف صحافی ڈاکٹر ریحان غنی  پٹنہ ، مولانا ڈاکٹر شکیل احمد قاسمی ، کہنہ مشق شاعر ذکی احمد دربھنگہ ،  اور جواں سال شاعر و محقق واحد نظیر پٹنہ شریک ہوۓ تھے ۔ جس کی نظامت انجمن ترقی اردو ویشالی کے صدر ڈاکٹر ممتاز احمد خاں نے فرمائ تھی ۔ اس موقع پر  ڈاکٹر ممتاز احمد خاں ، انوار الحسن وسطوی ، نذر الاسلام نظمی ، مصباح الدین احمد اور ڈاکٹر مشتاق احمد مشتاق(مرحوم) نے اپنے اپنے مقالے بھی پیش کیے ۔ جناب ذکی احمد مرحوم اور جناب واحد نظیر نے مفتی صاحب کے تعلق سے اپنے منظوم تاثرات پیش کیے ۔  ( بحوالہ : انجمن ترقی اردو ویشالی کی خدمات مرتبہ انوار الحسن وسطوی صفحہ 96 ) 
آپ کی شخصیت اور کارناموں سے متاثر ہو کر تقریباً بیس سال قبل ڈاکٹر مشتاق احمد مشتاق (مرحوم) نے ایک کتاب ترتیب دی تھی جس کا نام ہے " مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی شخصیت اور خدمات " یہ کتاب اتنی مقبول ہوئی کہ  اس کے دو اڈیشن شائع ہوۓ ۔ آپ کی خدمات کے اعتراف کا دائرہ یہیں تک نہیں روکا بلکہ آپ کی شخصیات پر ڈاکٹر راحت حسین نے متھلا یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کی اور اس مقالے کو کتابی شکل دی جس کا نام ہے " مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی کی ادبی خدمات " جو شائع ہو کر منظر عام پر آچکی ہے ۔ 
کتاب کے حوالے سے جناب عبدالرحیم " اپنی بات " میں لکھتے ہیں کہ : 
" مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی کی حیات و خدمات پر جس طرح نثر نگاروں نے خامہ فرسائی کی ہے اسی طرح شعرائے کرام نے بھی مختلف موقع کی مناسبت سے اپنا اپنا کلام پیش کیا ہے ۔ مجھے خوشی ہے کہ ان نظموں کو ترتیب دے کر ہر خاص و عام کے سامنے پیش کرنے کی سعادت میرے حصے میں آئ ہے "
  ( صفحہ 5 ) 
پیش لفظ میں کامران غنی صبا مفتی ثناء الہدی قاسمی کے تعلق سے لکھتے ہیں : 
" آج دنیا مفتی صاحب کو ایک ہر دل عزیز عالم دین ، مبلغ ، داعی ، خطیب اور ملی رہنما کےطور پر تو جانتی ہے لیکن کم لوگ ہی واقف ہیں کہ مفتی صاحب ایک صاحب طرز ادیب اور انشاء پرداز بھی ہیں ۔ ادبی موضوعات پر ان کے معروضی تاثرات دانشوران ادب کو حیرت میں ڈالتے ہیں ۔ مفتی صاحب کے ادبی مضامین اور تبصرے ان کے ادبی شعور کا اعتراف کرواتے ہیں ۔ ( صفحہ 9 )
دو باتیں کے عنوان سے عطا عابدی اپنے تحریر میں لکھتے ہیں کہ :  شخصیت نگاری خصوصا منظوم شخصیت نگاری کے ذیل میں مدح و
ستائش کا معاملہ مبالغہ آرائی کے بغیر بہت مشکل  بلکہ ناممکن جیسا ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ شعری تولیف کے باب میں مبالغہ آرائی کوفن کا درجہ حاصل ہے ،تعریف و توصیف یعنی قصیدہ کے حوالے سے شاعری کی تاریخ میں حقیقت نگاری سے آگے تخیل آفرینی کو جگہ دی گئی ہے، یہاں پیش کردہ زیادہ تر نظموں میں تخیل اور حقیقت کے امتزاج سے کام لینے کی اچھی کوشش کی گئی ہے۔  ( صفحہ 11 )
مفتی صاحب کے تنظیمی ذمہ داریوں کے تعلق سے محمد انوار الحق داؤد قاسمی کا شعر ملاحظہ فرمائیں : 
کتنی تنظیم کے ہیں حسیں سربراہ
 ان سے آباد ہیں کئی عدد درسگاہ
 سب پہ یکساں نظر ہے گدا ہو کہ شاہ
 دور بیں ان کی فطرت، عقابی نگاہ
رابطہ سب سے رکھتے ہیں وہ من وعن
 ہیں" ثناء الہدی" خود میں اک انجمن
(صفحہ 22)
پروفیسر عبدالمنان طرزی نے مفتی صاحب کی ادبی سرگرمیوں اور تصنیف و تالیف کے حوالے سے کہا ہے : 
سلسلہ ان کی تصنیف وتالیف کا 
گیسوئے یار سے رکھتا ہے رابطہ
 عالم دیں کا ہو ادبی مشغلہ 
شاذ و نادر ہی ایسا ہے دیکھا گیا
 ہاں مگر ہیں جو مفتی ثناء الہدی
 ان کا ہے ان سبھوں سے الگ راستہ 
ان کو دلچسپی ہے اردو تحقیق سے
 ان کے اس میں بھی میں کارنامے بڑے
(صفحہ 30)
مفتی صاحب کی شخصیت کو کامران غنی صبا نے کچھ اس انداز میں پیش کیا ہے : 

ہیں علم شریعت کے وہ راز داں
 خموشی میں جن کی نہاں داستاں

ہے جن کے تبسم میں سنجیدگی
 عجب سی ہے لہجے میں پاکیزگی
 وہ ہیں عالم باعمل 
بالیقیں 
جنہیں کہیے اسلاف کا جانشیں

مفکر ، مدبر کہ دانشوراں

 سبھی ان کے حق میں ہیں رطب اللساں
( صفحہ 39 )
امان ذخیروی نے مفتی صاحب کی صفات کا نقشہ کچھ اس انداز میں کھینچا ہے : 

اک بحر بیکراں ہے ثناء الہدی کی ذات
 ملت کی پاسباں ہے ثناء الہدی کی ذات

ملت کا درد ان کے ہے سینے میں جاگزیں

 اس غم سے سرگراں ہے ثناء الہدی کی ذات

سینے میں ان کے علم کا دریا ہے موجزن 
ساکت نہیں ، رواں ہے ثناء الہدی کی ذات

تحریر لازوال ہے تقریر
 بےمثال 
ماضی کی داستاں ہے ثناء الہدیٰ کی ذات
(صفحہ 62)
اس طرح کے سینکڑوں اشعار مفتی صاحب کی خصوصیات کے تعلق سے کتاب میں بھرے پرے ہیں ۔ لیکن  بخوف طوالت سبھوں کا احاطہ کرنا ممکن نہیں ہے ۔ البت ان تمام شعرا کے نام کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں جن کے کلام اس کتاب میں شامل ہیں وہ ہیں محمد انوارالحق داؤد
قاسمی، مظاہر حسین عماد عاقب قاسمی ، حسن نواب حسن ، عبدالمنان طرزی ، طارق ابن ثاقب ، کامران غنی صبا ، ڈاکٹر منصور خوشتر ، احمد حسین محرم قاسمی ، شمیم اکرم رحمانی ، اشتیاق حیدر قاسمی ، منصور قاسمی ، ذکی احمد ذکی ، محب الرحمن کوثر ، مظہر وسطوی ، زماں بردہوای ، محمد ضیاء العظیم ، محمد مکرم حسین ندوی ، ڈاکٹر امام اعظم ، عظیم الدین عظیم ، کمال الدین کمال عظیم آبادی ، وقیع منظر ، فیض رسول فیض ، ڈاکٹر عبدالودود قاسمی ، امان ذخیروی ، ولی اللہ ولی ، آفتاب عالم آفتاب ، یاسین ثاقب ، مولانا سید مظاہرہ عالم قمر ، محمد بدر عالم بدر ، ثنا رقم مؤی ، فیاض احمد مظطر عزیزی ، عبدالصمد ویشالوی اور تحسین روزی 
قابل مبارکباد ہیں یہ تمام شعرائے کرام جنہوں نے مفتی صاحب کے لیے اپنے بہترین پیغام تہنیت پیش کیے ہیں ۔ 
72 صفحات کی یہ کتاب بہت ہی دلکش اور معیاری ہے ۔ عمدہ قسم کے کاغز کا استعمال کیا گیا ہے۔ کمپوزنگ کا کام مفتی صاحب موصوف کے لائق فرزند مولانا محمد نظر الہدی قاسمی اور راشد العزیزی ندوی نے مل کر انجام دیا ہے ۔ جبکہ اس کی طباعت عالم آفسیٹ پرنٹر اینڈ پبلیشرس ، دریا پور پٹنہ سے ہوئ ہے جسکی قیمت صرف 60 روپیہ ہے جسے مکتبہ امارت شرعیہ پھلواری شریف ، پٹنہ نور اردو لائبریری حسن پور گنگھٹی، بکساما اور ادارہ سبیل الشرعیہ ، آواپور ، سیتا مڑھی سے حاصل کیا جا سکتا ہے ۔ آخری صفحہ پر مرتب کتاب عبدالرحیم برہولیاوی کا مختصر تعارف درج ہے جس کے مطالعہ کے بعد ان کے تعلق سے قاری واقف ہوتا ہے ۔ بیک کور پر مفتی صاحب موصوف کی کتابوں یا ان پر لکھی گئ کتابوں کی تصویر درج ہے۔ کتاب کے سلسلے میں مزید معلومات کے لیے، مرتب کتاب سے رابطہ کیا جا سکتا ہے

جمعہ, ستمبر 16, 2022

جہاں جہاں کوئی اردوزبان بولتا ہے وہیں وہیں مرا ہندوستاں بولتا ہے ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ

*اردو "ہندوستانی" ہے*
اردو دنیا نیوز٧٢

اردو اخبار روزنامہ انقلاب کے ذریعہ یہ خبر مل رہی ہے کہ محکمہ صحت کےجوائنٹ ڈائریکٹر تبسم خان کو معطل کر دیا گیا ہے،معطلی کی وجہ  وہی حکمنامہ ہے جو ابھی کچھ دنوں پہلے محکمہ صحت کی طرف سے جاری ہوا تھا، اور اسمیں ہسپتالوں کے نام ،ڈاکٹروں کے نام ہندی کے ساتھ اردو میں بھی لکھنے کی ہدایت دی گئی تھی، 
ملک بھر میں اس فیصلہ کی بڑی پذیرائی ہوئی، لوگوں نے یوپی حکومت کے اس فیصلے کو دوسری سرکاری زبان اردو کے ساتھ انصاف قراردیا، اورحکومت کا شکریہ بھی ادا کیاگیاہے، اب یہ معاملہ برعکس نظر آرہا ہے، ڈاکٹر تبسم خان پر یہ الزام ہے کہ انہوں نے حکمنامہ جاری کرنے میں پروسیز کا خیال نہیں کیا ہے، لہذا اب  معطلی کے ساتھ ساتھ یہ حکمنامہ بھی قابل عمل نہیں رہا ہے۔
اس تعلق سے لکھنؤ یونیورسٹی کی سابق وائس چانسلر روپ ریکھا ورما جی کابیان واقعی قابل تعریف ہے، موصوفہ کہتی ہیں کہ" کارروائی افسوسناک ہے، ہمیشہ یوپی میں روایت رہی ہے کہ محکموں میں ہندی کے ساتھ اردو کا استعمال ہوتا رہا ہے، اردو اسی ملک کی زبان ہےاور اس کا کسی مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے ،قانون کے مطابق ہر محکمہ میں ہندی کے ساتھ اردو کا استعمال ہونا چاہیے "
یہ بیان واقعی قابل تعریف ہے اور تاریخی حقائق پر مبنی بھی ہے، جولوگ اردو زبان سے ادنی بھی واقفیت رکھتے ہیں، یہ دونوں موٹی موٹی باتیں بخوبی جانتے ہیں کہ اردو کی جائے پیدائش ہندوستان ہے،اور یہ بھی کہ اردو کسی خاص مذہب یا کسی ایک قوم کی زبان نہیں ہے،بلکہ مختلف زبانوں اور لوگوں کے میل جول کا نتیجہ اردو ہے،علامہ سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں:
"اردو زبان کا پیدا ہونا کسی ایک قوم یا قوت کا کام نہیں بلکہ مختلف قوموں اور زبانوں کے میل جول کا ایک ناگزیر اور لازمی نتیجہ ہے"( نقوش سلیمانی )
معروف ومشہور کتاب "باغ وبہار" کے دیباچہ میں میر امن دہلوی نے یہ تحریر کیا ہے:"حقیقت اردو زبان کی بزرگوں کے منھ سے یوں سنی ہے کہ جب اکبر بادشاہ تخت پر بیٹھے،تب چاروں طرف کے ملکوں سے سب قوم قدردانی اور فیض رسانی اس خاندان لاثانی کی سن کر، حضور میں آکر جمع ہوئے،لیکن ہر ایک کی گویائی اور بولی جدی جدی تھی، اکٹھے ہونے سے آپس میں لین دین، سودا سلف،سوال جواب کرتے ایک زبان اردو کی مقرر ہوئی "۔(باغ و بہار )
ان تاریخی حقائق کو آج فراموش کیا جارہا ہے ، اس میل جول اور پیار ومحبت کی زبان کو صرف مسلمانوں کی زبان کہ کر نفرت پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔اور اب یہ اردو ریاستی حکومت کی دوسری سرکاری زبان ہوتے ہوئے سیاست کا ایک عنوان بن گئی ہے،اور اس کی قانونی حیثیت سے بھی روگردانی کی جارہی ہے، 
ع۰۰  اپنی اردو تو محبت کی زبان تھی پیارے
       اب سیاست نے اسے جوڑدیا مذہب سے 
دوسری سازش اردوزبان کے خلاف یہ ہورہی ہے کہ،عام ذہنوں میں یہ باور کرایا جارہا ہے کہ، اردو دراصل فارسی زبان سے بنی ہے،اور یہ غیر ملکی زبان ہے،اسے باہری زبان کہ کر ہر جگہ سے باہر کا راستہ دکھادیا جائے،یہ سوچ جہالت پرمبنی ہے،بابائے اردو مولوی عبدالحق رقم طراز ہیں:
"بزرگان دین نے اہل ملک سے ارتباط اور میل جول بڑھانے اور ان کو اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کی، اس نظر سے انہوں نے ان کی اور اپنی زبان کو ملانا شروع کیا، اس میل اور ارتباط سے خود بخود ایک نئی زبان بنی، جو نہ ہندی تھی اور نہ فارسی بلکہ ایک نئی مخلوط زبان بنی جسے اب ہم اردو یا ہندوستانی کہتے ہیں "(اردو کی ابتدائی نشو ونما میں صوفیاء کرام ۰۰)
مذکورہ بالا اقتباس سے جہاں اس بات کی نفی ہوتی ہے کہ اردو فارسی زبان سے نہیں بنی ہے وہیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اردو کا دوسرا نام "ہندوستانی"  ہے۔اب کوئی طاقت اس ملک میں یہ کوشش کرے کہ" ہندوستانی" کو ہندوستان سے باہر کردے، یہ قیامت کی صبح تک نہیں ہونے جارہا ہے، البتہ یہ پیغام ان لوگوں تک ضرور جانا چاہئے جو اردو دشمنی کا مظاہرہ کرتے ہیں، جہاں کسی شہر اور گاؤں کا نام اردو الفاظ سے بنے ہوں، اسے بدلنے کی کوشش کرتے ہیں، اگر وہ چاہیں تو اردو کا نام بدل کر ہندوستانی رکھ سکتے ہیں، شاید اردو داں طبقہ کو اس کا بالکل افسوس نہیں ہوگا، بلکہ اردو پر ہم ہندوستانیوں کو فخر بھی اسی لئے ہے کہ آج پوری دنیا میں یہ زبان بولی جارہی ہے، اور جہاں کوئی اردو بولتا ہے، وہاں دراصل ہندوستان بول رہا ہے، 
ع ۰۰  جہاں جہاں کوئی اردوزبان بولتا ہے 
       وہیں وہیں مرا ہندوستاں بولتا ہے 

ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ 
۱۶/ستمبر ۲۰۲۲ء

تلبینہ کے قدرتی فوائد:-⇩*

تلبینہ کے قدرتی فوائد:-⇩*
اردو دنیا نیوز٧٢
*✧ ضعف اور کمزوری کو دور کرتا ہے.*
*✧ خون میں ہیموگلوبین کی کمی کو دور کرتا ہے.*
*✧ بڑھا ہوا کولیسٹرول کو کم کرتا ہے.*
*✧ امراضِ قلب میں مفید ہے.*
*✧ کینسر کے جراثیم کو ختم کرتا ہے.*
*✧ ہائی بلڈپریشر کو قابو کرتا ہے.*
*✧ ذیابطیس (شوگر) سے ہونے والی کمزوری دور کرتا ہے.*
*✧ جوڑوں کے درد کو دور کرتا ہے.*
*✧ جسمانی تھکان اور سستی کو دور کرتا ہے.*
*✧ کمر کے درد کو دور کرتا ہے.*
*✧ تھائرائیڈ کے مریضوں کیلئے مفید ہے.*
*✧ دل و دماغ کو تقویت بخشتا ہے.*
*✧ حاملہ اور دودھ پلانے والے خواتین کے لئے فائدہ مند ہے.*
*✧ بچوں کی غذائی ضرورت کو پورا کرکے نشونما بہتر کرتا ہے.*
*✧ عورتوں میں بانجھ پن لیکوریا کی شکایت کو دور کرتا ہے.*
*✧ ان کے علاوہ دیگر بے شمار امراض میں مفید ہے.*

*طریقہ استعمال:- ⇩*
*①* 200 ملی لیٹر دودھ میں تین سے چار چائے کا چمچہ تلبینہ ڈال کر اچھی طرح ملا لیں.
*②* دودھ کو ہلکی آنچ پر چار سے پانچ منٹ تک پکالیں.
*③* حسب ذائقہ شہد یا شکر ملالیں (اگر آپ کو شگر نہ ہو)

............

*برائے مہربانی زیادہ سے زیادہ شیئر کیجئے.*
حاصل کرنے کے لئے رابطہ کریں
مولانا منیر الاسلام قاسمی امام مسجد شیخ مراد علی متصل مدرسہ مدینۃ العلوم نگینہ بجنور
انس حسامی بجنوری مدرسہ اختر العلوم جلال آباد بجنور
9927175860
8791491284

جمعرات, ستمبر 15, 2022

ڈھیکلی والی مسجد محلہ انصاریان قصبہ ساھن پور تحصیل نجیب آباد ضلع بجنور میں ایک روزہ تبلیغی و اصلاحی پروگرام

ڈھیکلی والی  مسجد محلہ انصاریان قصبہ ساھن پور  تحصیل نجیب آباد ضلع بجنور میں ایک روزہ  تبلیغی و اصلاحی پروگرام 
اردو دنیا نیوز٧٢
بتاریخ: ۱۹صفر المظفر ۱۴۴۴ہجری مطابق ۱۷ستمبر ۲۰۲۲عیسوی بروز ہفتہ
بوقت: بعد نمازِ مغرب 
حضرت مولانا مفتی محمد عثمان قاسمی صاحب دامت برکاتہ کی زیرِ نگرانی  پوری شان و شوکت کے ساتھ منعقد ہو رہا ہے 
جس میں بطور مہمان خصوصی  صوفی با صفا پیکر اخلاص و وفا  حضرت اقدس حضرت مولانا آدم مصطفی صاحب مد ظلہ العالی فروز آبادی  خلیفہ شیخ یونس جون پوری رحمہ اللہ تشریف لا رہے ہیں
تمام اہلِ ایمان سے عموماً اور علماء و ائمہ حضرات  سے خصوصًا شرکت کی درخواست ہے
المعلن : انس حسامی بجنوری 

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...