Powered By Blogger

ہفتہ, اکتوبر 01, 2022

آزادی کے بعد : بہار کے اردو ادبی رسائل

آزادی کے بعد : بہار کے اردو ادبی رسائل 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مبصر : فخرالدین عارفی 
محمد پور ، شاہ گنج ۔ پٹنہ 800006
 بہار کی  سرزمین علم و ادب اور شعر و سخن کی لیےء ہمیشہ زر خیز رہی ہے ۔ یہاں افکار کی کاشتکاری ہوتی ہے اور فلسفے کے پھول کھلتے رہے ہیں ۔ بہار کی راجدھانی پٹنہ (عظیم آباد ) کو ہم اگر اہل جنوں کا شہر کہیں تو شائد غلط نہ ہوگا ، جنوں کے بطن سے ہی خرد کا جنم ہوتا ہے ۔ عظیم آباد میں جب رات ہوتی ہے تو ادب کے جگنو اس کو منوّر کردیتے ہیں اور جب آسمان کا سورج غروب ہوجاتا ہے تو آدھی رات کو یہاں ادب کا سورج طلوع ہوتا ہے اور پھر شعور و احساس کا ایک کارواں آگے بڑھتا ہے ۔ اس کارواں میں ہر شخص کی حیثیت "میر کارواں " کی ہوتی ہے ۔ ہر ذرہ مثل آفتاب و ماہتاب ہوتا ہے ۔  گویا ایک کہکشاں ہوتی ہے جو ہمیں سمتوں کا پتہ دیتی ہے ، ہمارا سفر جاری رہتا ہے اور ہمارے قدم کبھی پا بہ زنجیر نہیں ہوتے ہیں ۔ 
عطا عابدی بنیادی اور فطری طور ایک شاعر ہیں ۔ وہ پندرہ کتابوں کے مصنف ہیں ، جن میں زیادہ تر کتابیں شعر و سخن سے تعلق رکھتی ہیں ، لیکن ان کی چند کتابیں ایسی بھی ہیں جن کا رشتہ تنقید و تحقیق سے جڑا ہوا اور وابستہ نظر آتا ہے ۔ ان کی ایسی ہی ایک کتاب "آزادی کے بعد بہار کے اردو ادبی رسائل " ہے ، جو "اردو ڈائریکٹوریٹ محکمہ کابینہ سکریٹریٹ حکومت بہار " کے مالی تعاون سے شائع ہوئی ہے ۔ کتاب کا موضوع بہت خشک اور دقّت  طلب ہے ۔ لیکن عطا عابدی نے اس مشکل کام کو آسان کرکے یہ ثابت کردیا ہے کہ آدمی اگر ٹھان لے تو پھر وہ سب کچھ کرسکتا ہے ۔ آزادی کے بعد بہار کے ادبی رسائل پر کام کرنا ، بہت مشکل کام تھا ، اس لیےء کہ آزادی کے بعد ریاست میں ان گنت رسائل مختلف شہروں سے نکلے اور بند ہوئے ، آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے ۔ سب کی ایک مکمل اور جامع فہرست بنانا اور ان رسائل کے حوالے سے مکمل معلومات فراہم کرانا کوئی آسان کام یقیناً نہیں تھا ، اس کام کو انجام دینے میں عطا عابدی صاحب کو کتنی محنت کرنی پڑی ہوگی یہ وہی جانتے ہوں گے ۔ 
اس وقت میرے پیش نظر ان کا یہ تحقیقی کارنامہ زیر مطالعہ ہے ۔ جو 320 صفحات پر محیط ہے اور اس میں 222 ایسے رسالوں کی مکمل فہرست اور ان رسائل کے سلسلے میں ضروری تفصیلات کو مصنف نے یکجا کیا ہے جن کا تعلق بہار سے ہے اور جن کی اشاعت آزادی کے بعد عمل میں آئ تھی ۔ کتاب میں مناظر عاشق ہرگانوی ، ڈاکٹر سیّد احمد قادری ، ڈاکٹر محسن رضا رضوی کے علاوہ خود کتاب کے مصنف عطا عابدی کی تحریریں شامل ہیں ، جن کے مطالعے سے ہمارا مکمل تعارف کتاب کے مواد سے ہوجاتا ہے اور کتاب کا مطالعہ کرنے کا جواز بھی یہ تحریریں ہمیں فراہم کردیتی ہیں ۔ اس کتاب کو ایجوکشنل پبلشنگ ہاوٴس نیء دہلی نے شائع کیا ہے ۔ کمپوزنگ اچھی ہے ، کاغذ بھی عمدہ استعمال کیا گیا ہے ۔ قیمت پانچ سو روپے ہے اور سال اشاعت 2022 ہے ۔ کتاب پٹنہ میں بک امپوریم ، سبزی باغ پٹنہ 800004 سے حاصل کی جاسکتی ہے ۔

مسجد عمر فاروق متصل مدرسہ اختر العلوم جلال آباد میں منعقد ہونے والے پانچ روزہ اجلاس بعنوان سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تیسری نشست اختتام پذیر ۔

مسجد عمر فاروق متصل مدرسہ اختر العلوم جلال آباد میں منعقد ہونے والے پانچ روزہ اجلاس بعنوان سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تیسری نشست اختتام پذیر ۔
الحمدللہ،
 مسجد عمر فاروق متصل مدرسہ اختر العلوم جلال آباد میں منعقد ہونے والے پانچ روزہ اجلاس بعنوان سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم   کی  تیسری نشست اختتام پذیر ۔
حضرت قاری محمد قاسم شاملی دامت برکاتہم استاذ دار العلوم جامعہ الفلاح نجیب  آباد کی تلاوت اور شاعر اسلام مداح خیر الانام حضرت مولانا محمد سعد صاحب سعد امروہوی دامت برکاتہم کی نعت سے پروگرام کا آغاز ہوا،  مفتی محمد ذاکر شیخ الحدیث جامعہ عائشہ القدس جلال آباد نے نظامت کے فرائض انجام دیئے

اِس نشست کے مہمانِ خصوصی حضرت مولانا مفتی محمد رفاقت صاحب دامت برکاتہم العالیہ استادِ حدیث جامعہ اسلامیہ جامع مسجد امروہہ  نے "آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدنی زندگی " کے عنوان پر پُر مغز اور سبق آموز خطاب کیا ۔
حضرت والا نے اپنے خطاب کے میں فرمایا کہ ہمیں اپنے آقا کی سیرت کو پڑھنے سمجھنے اور اس سے سبق حاصل کرکے اس کو اپنی زندگی میں لانے کی کوشش کرنی چاہئے ۔
حضرت والا کی مستجاب دعاء پر مجلس کا اختتام ہوا ۔۔۔

اعلان: آج بہ تاریخ 01 اکتوبر 2022بروز سنیچر کی نشست کے مہمانِ خصوصی حضرت مولانا مصلح الدین صاحب دامت برکاتہم العالیہ استاد فقہ و ادب دار العلوم دیوبند  "آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازدواجی زندگی" پر روشنی ڈالیں گے۔  
ان شاءاللہ
اپیل: آپ سے شرکت کی پُر خلوص درخواست ہے

انس حسامی بجنوری
خادم مدرسہ اختر العلوم جلال آباد بجنور 

جمعہ, ستمبر 30, 2022

مشتاق دربھنگوی یادوں کے حوالے سےڈاکٹر عطا عابدی (پٹنہ)

مشتاق دربھنگوی یادوں کے حوالے سے
ڈاکٹر عطا عابدی (پٹنہ)
اردو دنیا نیوز٧٢
مشتاق دربھنگوی سے میری ملاقات محلہ املی گھاٹ (دربھنگہ) میں ہوئی تھی، جہاں میرا قیام ہوا کرتا تھا۔ یہ غالباً 1982-83 ءکی بات ہے۔ اُنہوں نے اپنے شعری مجموعہ ”غمِ جاناں“ سے نوازا۔ ’غمِ جاناں‘ کی شاعری غمِ جاناں سے عبارت تھی۔ اُس وقت اُن کی نوجوانی کا عالم تھا، میں خود بھی طفلِ مکتب تھا (آج بھی طفلِ مکتب ہی ہوں) اور یہ شاعری اچھی لگی تھی۔ مجموعہ کا سائز اور انداز ”حلقہ¿ فکر و فن“ کے گلدستہ ”وادی¿ نشاط“ جیسے تھے۔ اُس وقت وہ اپنی رومانی شاعری سے مطمئن نہیں تھے۔ اُن کے ذہن و دل میں فکر و فن کے کچھ الگ حوالے کسمساتے رہتے تھے۔ وہ اِس کسمساہٹ کو کوئی نام نہیں دیتے تھے لیکن اِس کیفیت کے سبب اچھے سے اچھا لکھنے کے عزم کا اظہار ضرور کرتے۔ اُن کی غزل کا مطلع دیکھیں:
کیا ضروری ہے کہ ہر بات پہ آنسو نکلے
جیسے ہر پھول سے ممکن نہیں خوشبو نکلے
اس ملاقات کے بعد ”حلقہ¿ فکر و فن“ کی نشستوں میں اُن سے ملاقاتیں رہیں۔ شعر و شاعری کا دور رہا اور اب اُن کی غزلوں میں غمِ جاناں سے زیادہ غمِ دوراں کی صورت نظر آتی ہے۔ اُسی دور کے آس پاس وہ کسی مقامی کالج میں انسٹرکٹر کے طور پر کام کرنے لگے تھے۔ برسوں اس ذمہ داری سے وابستہ رہنے کے بعد جب اقتصادی مسائل کے حل کی اُمید نہ رہی تو اُنہوں نے اپنی فکر و صلاحیت کے بموجب صحافت کو پناہ گاہ بنائی۔ صحافت کی راہوں میں قلمی و تکنیکی خدمات کے ساتھ ساتھ اُن کا ادبی مشغلہ جاری رہا۔ اس مشغلہ میں اُنہوں نے اپنے جنون کو شامل کرلیا اور پھر اردو ادب کی خدمت کا بالکل نیا اور منفرد طور اپنایا۔ متنوع عنوانات کے تحت کتابوں کی ترتیب و تہذیب کے سبب وہ دور دور تک اپنے نام اور کام کو منوانے میں کامیاب ہوئے۔ اس ضمن میں شمع فروزاں، سمندر کی لہریں، ہنسی کے پھول، پہیلیاں، اقوالِ زریں، میر بھی ہم بھی، لاالہ الاللہ، صل علیٰ محمد، اسوہ¿ رسول، جانِ غزل، عندلیبان طیبہ، غزالانِ حرم، لوریاں، گوش بر آواز اور اردو شاعری میں زمزم کتابیں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔
مشتاق دربھنگوی شاعری میں مشہور ترقی پسند شاعر و ادیب اویس احمد دوراں سے اصلاح لیا کرتے تھے۔ اُن دنوں میں بھی دوراں صاحب سے شاعری پر اصلاح لیا کرتا تھا، لہٰذا ہم دونوں ایک دوسرے سے ذہنی لگاﺅ محسوس کرتے تھے۔ مشتاق دربھنگوی کئی ادبی انجمنوں سے وابستہ رہے۔ ان کے گاﺅں چندن پٹی کی ”ادبی مجلس“ ہو یا ”حلقہ¿ فکر و فن“ یا اور کوئی انجمن، وہ ہر جگہ اپنی شرکت سے اپنے ادبی ذوق و شوق کا ثبوت دیتے رہے ہیں۔ کولکاتا جانے کے بعد اُن کے اشہبِ ذوق کو پَر لگ گئے اور نئی سمت و رفتار کے ساتھ قلمی سفر طے کرتے رہے اور ایک منفرد شناخت قائم کرنے میں کامیاب ہوئے۔
”غمِ جاناں“ کے بعد مشتاق دربھنگوی کا شعری مجموعہ شائع نہیں ہوا۔ یہ مختصر مجموعہ بھی اب نایاب ہے۔ یہ مجموعہ ہوتا تو معلوم ہوتا کہ اُن کی شاعری اس وقت کس فکر و انداز کی حامل تھی۔ اُن کی ابتدائی غزلیںجیسا کہ قبل ذکر آیا، رومانوی جذبات و احساسات کی ترجمانی کرتی تھیں:
یاد ہے اب تک نظر کا زلف و رُخ سے کھیلنا
دل میں تازہ ہے بہارِ عشرتِ رفتہ ابھی
چھپا رکھا تھا رازِ عشق میں نے اپنے سینے میں
مگر ہو ہی گئی سب کو خبر آہستہ آہستہ
اُن کی دو چار غزلیں جو حال میں مختلف جگہوں پر نظر سے گزریں، وہ متذکرہ غزلوں کی فکر سے الگ ہیں۔ ان غزلوں میں عصری شعور کے جلوے ہیں، وقت کی آوازیں ہیں، حیات کے بصیرت افروز اشارے ہیں اور دعوتِ فکر دیتے ہوئے حقائق بھی۔ ان سب کے باوجود جمالیاتی افکار و اطوار کی ادائیں گُم نہیں ہوئی ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ اب ان اداﺅں میں زندگی کے سنجیدہ تیور بھی جگہ رکھتے ہیں۔ ایک غزل کے چند اشعار ملاحظہ ہوں:
تشنگی میری بھلا کیسے بجھاتا دریا
سامنے تھا جو مرے پیاس کا مارا دریا
آپ نے خونیں مناظر کے سنے ہیں قصّے
میری آنکھوں نے تو دیکھا ہے لہو کا دریا
صحرا صحرا اُسے جب ڈھونڈ کے ہم ہار گئے
پھر اُسے ڈھونڈتے پھرتے رہے دریا دریا
یہ سچ ہے کہ ایک غزل سے کوئی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا لیکن ابتدائی غزلوں کے رنگ و آہنگ سے بعد کی غزلیں کس قدر واضح طور پر الگ ہےں، یہ آسانی سے محسوس کیا جاسکتا ہے۔ امید ہے، اطلاع کے بموجب مشتاق دربھنگوی کا شعری مجموعہ عنقریب منظر عام پر آئے گا اور اُنہیں منفرد شعری شناخت عطا کرے گا۔

جھارکھنڈ کے مولانا عطااللہ کا قتل، نعش جلادی گئی۔بجرنگ دل ملوث

جھارکھنڈ کے مولانا عطااللہ کا قتل، نعش جلادی گئی۔بجرنگ دل ملوث

اردو دنیا نیوز٧٢

نئی‌دہلی : مدھیہ پردیش کے شاہڈول ضلع میں 26 ستمبر کو جنگلاتی‌علاقہ سے مولانا عطاء اللہ قاسمی کی‌ نعش جھلسی ہوئی حالت میں دستیاب ہوئی۔ اس دوران جامعہ ٹائمز نے ٹویٹ کیا اور لکھا،جھارکھنڈ کے رہنے والے مولانا عطاء اللہ قاسمی کو بجرنگ دل کے کارکن نے جلا کر جنگل میں پھینک دیا۔عطاء اللہ قاسمی جھارکھنڈ کے پلامو ضلع کے رہنے والے تھے، قاسمی 21 ستمبر سے لاپتہ تھے اور انہیں آخری بار اپنے جاننے والے کی موٹرسائیکل پر شہڈول ضلع کے گاؤں پدمنیا کی طرف جاتے دیکھا گیا تھا۔ اگلے دن (22 ستمبر 2022) کو تھانہ گوہپارو میں عطاء اللہ کی گمشدگی کی رپورٹ درج کرائی گئی۔ 26 ستمبر 2022 کو شہڈول ضلع کے سنگھ پور تھانے کے تحت گائوں پدمنیا کے جنگل میں عطا اللہ خان کی آدھی جلی ہوئی لاش برآمد ہونے کے بعد پولیس نے اس معاملے میں شیوشنکر یادو نامی شخص کو گرفتار کیا تھا۔ پولیس نے کہا کہ شیوشنکر یادو (28 سال) نے پوچھ گچھ کے دوران اپنا جرم قبول کر لیا ہے۔ مجرم نے بدلہ لینے کے لیے عطاء اللہ خان کو قتل کیا تھا۔ میڈیا رپورٹس میں مقتول پر الزام‌ لگاتے ہوئے ان کی کردار کشی کی جارہی ہے۔


مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ بیرسٹر اسد الدین اویسی نے ٹویٹ کر کے پوچھا کہ کیا مودی حکومت اس گروپ پر پابندی لگائے گی؟


Will the Modi government Ban this Group ? https://t.co/fBpp1WAMpx


- Asaduddin Owaisi (@asadowaisi)

Will the Modi government Ban this Group ?

تکبر کی مذمت قرآن وحدیث میںشمشیر عالم مظاہری دربھنگویجامع مسجد شاہ میاں روہوا ویشالی بہارتکبر کیا ہے

تکبر کی مذمت قرآن وحدیث میں
شمشیر عالم مظاہری دربھنگوی
جامع مسجد شاہ میاں روہوا ویشالی بہار
تکبر کیا ہے ؟
اردو دنیا نیوز٧٢
کسی دینی یا دنیاوی کمال میں اپنے کو دوسروں سے اس طرح بڑا سمجھنا کہ دوسروں کو حقیر سمجھے گویا تکبر کے دو جز ہیں :
(1) اپنے آپ کو بڑا سمجھنا (2)  دوسروں کو حقیر سمجھنا ۔ تکبر بہت ہی بری بیماری ہے قرآن و حدیث میں اس کی اتنی برائی آئی ہے کہ پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں آج ہم سے اکثریت اس بیماری میں مبتلا ہے ۔
کائنات میں جو سب سے پہلا گناہ کیا گیا وہ تکبر اور حسد تھا ابن منذر رحمۃ اللہ علیہ نے عبادہ بن ابی امیہ رحمۃ اللہ علیہ  سے ایک روایت بیان کی ہے کہ اس کائنات میں سب سے پہلا گناہ حسد تھا جو ابلیس نے آدم علیہ السلام پر کیا ،  اس سے یہ سبق بھی ملتا ہے کہ تکبر اور حسد کا مرض اچھے اچھے لوگوں کو لاحق ہو سکتا ہے اور انہیں ایمان تک سے محروم کرسکتا ہے شیطان بڑا عبادت گذار تھا حضرت یحییٰ منیری رحمۃ اللہ علیہ خواجہ نظام الدین اولیاء کے خلیفہ اور بڑے پاۓ کے عالم اور بزرگ تھے انہوں نے اپنے مکتوبات میں لکھا ہے کہ ابلیس نے سات لاکھ سال اللہ تعالی کی عبادت کی تھی لیکن اس نے اپنے آپ کو بڑا سمجھا اور آدم علیہ السلام کے مقام اور مرتبہ کو دیکھ کر جل بھن گیا اس چیز نے اسے بارگاہ الہی میں مردود اور مغضوب بنا دیا ۔
قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔
مفہوم  :۔   اور جب  ہم نے فرشتوں کو حکم دیا تھا کہ آدم کے آگے سر بسجود ہو جاؤ وہ جھک گئے مگر ابلیس کی گردن نہیں جھکی اس نے نہ مانا اور گھمنڈ کیا اور حقیقت یہ ہے کہ وہ کافروں میں سے تھا  (سورۃ البقرہ)
اللہ تعالی اگرچہ عالم الغیب اور دلوں کے بھیدوں سے واقف ہیں اور ماضی حال استقبال سب ان کے لئے یکساں ہیں مگر اس نے امتحان و آزمائش کے لئے ابلیس (شیطان) سے یہ سوال کیا
 مفہوم :۔   کس بات نے تجھے جھکنے سے روکا جب کہ میں نے حکم دیا تھا ؟ 
ابلیس کا جواب :۔   اس بات نے کہ میں آدم سے بہتر ہوں تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے  ( سورۃ الأعراف)
شیطان کا مقصد یہ تھا کہ میں آدم سے افضل ہوں اس لیے کہ تو نے مجھے آگ سے بنایا اور آگ  بلندی اور رفعت چاہتی ہے اور آدم مخلوق خاکی۔  بھلا خاک کو آگ سے کیا نسبت ،  اے خدا پھر تیرا یہ حکم کہ ناری خاکی کو سجدہ کرے  کیا انصاف پر مبنی ہے،  میں ہر حالت میں آدم سے بہتر ہوں لہذا وہ مجھے سجدہ کرے نہ کہ میں اس کے سامنے سربسجود ہوں مگر شیطان اپنے غرور و تکبر میں یہ بھی بھول گیا کہ جب تو اور آدم دونوں خدا کی مخلوق ہو تو مخلوق کی حقیقت خالق سے بہتر خود وہ مخلوق بھی نہیں جان سکتی وہ اپنی تمکنت اور گھمنڈ میں یہ سمجھنے سے قاصر رہا کہ مرتبہ کی بلندی و پستی اس مادہ کی بناء پر نہیں ہے جس سے کسی مخلوق کا خمیر تیار کیا گیا ہے بلکہ ان صفات پر ہے جو خالق کائنات نے اس کے اندر ودیعت کی ہیں ۔
تکبر عقل پر پردہ ڈال دیتا ہے یہاں تک کہ بعض اوقات متکبر انسان اللہ تعالی کے مقابل میں بھی آجاتا ہے۔  فرعون،  قارون،  ہامان،  اور شداد جیسوں کو تکبر ہی نے اپنے خالق و مالک کے مقابلے میں لا کھڑا کیا تھا اور یہ ایسا خبیث اور دقیق مرض ہے کہ بسا اوقات انسان اس میں مبتلا ہوتا ہے لیکن اسے پتہ ہی نہیں چلتا کہ میں اس مرض میں مبتلا ہوں بہت سارے لوگ ہیں جو اپنے آپ کو خاکسار، عاجز، لاشئ، حقیر اور فقیر کہتے ہیں حالانکہ ان کے باطن میں تکبر کے جراثیم ہوتے ہیں ۔ 
قرآن و سنت میں متکبروں اور تکبر کی شدید مذمت کی گئی ہے اللہ تعالی کا فرمان ہے ۔
مفہوم:۔   میں ان لوگوں کو اپنی آیات سے پھیر دوں گا جو زمین پر ناحق تکبر کرتے ہیں ( سورۃ الأعراف)
آج (قیامت کے دن) تمہیں ذلت کا عذاب دیا جائے گا اس وجہ سے کہ تم زمین پر ناحق تکبر کرتے تھے ( سورۃ الاحقاف)
بے شک جو لوگ میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں وہ جہنم میں ذلت کے ساتھ داخل ہونگے (سورہ غافر)
کیا جہنم میں متکبرین کا ٹھکانہ نہیں ہے (سورۃ الزمر)
بیشک وہ ( اللہ تعالیٰ) تکبر کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا  ( سورۃ النحل)
اور لوگوں کے سامنے اپنے گال نہ پھلا اور زمین پر اترا (اکڑ) کر نہ چل کسی تکبر کرنے والے شیخی خورے کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں فرماتا (سورۂ لقمان)
تکبر کی مذمت احادیث میں ۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کیا میں تمہیں جہنمیوں کے بارے میں نہ بتاؤں ( یاد رکھو) ہر وہ شخص جو جھوٹی بات پر سخت جھگڑا کرے، مال جمع کرے، اور بخل کرے،  اور متکبر ہو (بخاری و مسلم)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ نے آپ کی ایک حدیث یوں بیان فرمائی ہے رسول ﷺ  نے فرمایا ہے جس شخص کے دل میں رائی برابر بھی ایمان ہوگا وہ ہمیشہ کے لئے  دوزخ میں داخل نہ ہو گا، اور جس کے دل میں رائی برابر بھی تکبر ہو گا وہ جنت میں نہیں جاۓ گا (مسلم)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے تکبر کے بارے میں آپ ﷺ  کا ارشاد نقل فرمایا ہے کہ رسول ﷺ نے  فرمایا اللہ تعالی فرماتا ہے تکبر ( ذاتی بزرگی) میری چادر ہے اور عظمت ( صفاتی بزرگی) میرا تہبند ہے جو شخص ان دونوں میں سے کسی ایک کو مجھ سے چھینے (ذات اور صفات کے اعتبار سے تکبر کرے) اسے جہنم میں ڈال دوں گا اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ میں اسے جہنم میں پھینک دوں گا ( مسلم)
تکبر کرنے والے کو اللہ تبارک تعالیٰ نیچے گرا دیتا ہے پھر اس کا کوئی مقام نہیں ہوتا  دنیا کے لوگوں کی نگاہوں میں حقیر سے حقیر تر ہو جاتا ہے پھر اس کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی وہ اپنے آپ کو سمجھنے کی خوش فہمی میں مبتلاء ہو جاتا ہے ہر شخص اس کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے یہاں تک کہ تمام انسانوں کے سامنے اس کی حیثیت کتے اور خنزیر سے بھی بدتر ہوجاتی ہے (شعب الایمان للبیہقی)
حق تبارک و تعالیٰ ہم مردوں اور عورتوں کو تکبر سے بچائے اور تواضع نصیب فرمائے ۔ تکبر صرف شایانِ شان خدا ہے ہم مٹی کے بنے ہوئے انسانوں کو تکبر سے کیا کام تکبر کرنا یہ حیوانوں کا شیوہ ہے عقلمند انسان کبھی تکبر نہیں کرتا کیونکہ اس کی نظر اپنی کمزوریوں پر رہتی ہے وہ اپنی حقیقت کو کبھی فراموش نہیں کرتا

جمعرات, ستمبر 29, 2022

مسجد عمر فاروق متصل مدرسہ اختر العلوم جلال آباد میں منعقد پانچ روزہ اجلاس بعنوان سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی نشست اختتام پذیر

مسجد عمر فاروق متصل مدرسہ اختر العلوم جلال آباد میں منعقد پانچ روزہ اجلاس بعنوان سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی نشست اختتام پذیر
اردو دنیا نیوز٧٢
الحمدللہ مسجد عمر فاروق متصل مدرسہ اختر العلوم جلال آباد میں منعقد ہونے والے پانچ روزہ اجلاس بعنوان سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا پہلا پروگرام بہت کامیاب رہا
حضرت مولانا شاہنواز صاحب مد ظلہ ناظمِ تعلیمات مدرسہ اختر العلوم جلال آباد کی تلاوت اور مولوی محمد سمیرمتعلم سلمہ مدرسہ اختر العلوم جلال آباد کی نعت سے پروگرام کا آغاز ہوا، مفتی احمد شجاع صاحب مد ظلہ اُستاد مدرسہ اختر العلوم جلال آباد نے نظامت کے فرائض انجام دیئے
حضرت مفتی محمد ذاکر  صاحب مد ظلہ شیخ الحدیث جامعہ عائشہ القدس جلال آباد نے "نکاح کی اہمیت اور طلاق کی قباحت "کے عنوان سے مختصراً خطاب کیا 
درمیان میں ایک طالب علم نے نعت خوانی کرکے محفل کی چاشنی میں اضافہ کیا 
اِس نشست کے مہمانِ خصوصی حضرت مولانا آصف محمود صاحب دامت برکاتہم العالیہ امام و خطیب انشاء اللہ مسجد چوہان بانگر دہلی نے "آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندانی پس منظر، ولادت با سعادت اور آپ کا شاندار بچپن" کے عنوان پر پُر مغزاور مفصل خطاب کیا ۔
حضرت والا  ہی کی مستجاب دعاء پر مجلس کا اختتام ہوا ۔۔۔

 اعلان: آج بہ تاریخ 29 ستمبر 2022بروز جمعرات کی نشست کے مہمانِ خصوصی حضرت مولانا مفتی محمد عفان صاحب ناظمِ تعلیمات جامع مسجد امروہہ "آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی" پر روشنی ڈالیں گے ان شاءاللہ
 اپیل :آپ سے شرکت کی پُر خلوص درخواست ہے

انس حسامی بجنوری
خادم مدرسہ اختر العلوم جلال آباد بجنور 

منگل, ستمبر 27, 2022

عارف اقبال-چھوٹی عمر کا بڑا صحافی



عارف اقبال-چھوٹی عمر کا بڑا صحافی
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
             نائب ناظم امارت شرعیہ بہار، اڈیشہ جھارکھنڈ
اردو دنیا نیوز٧٢
عارف اقبال کو میں عرصہئ دراز سے جانتا ہوں، وہ مجھ سے پہلی بار ”باتیں میر کارواں“ کی تالیف کے وقت ملے تھے، امیر شریعت سادس مولانا سید نظام الدین صاحبؒ نے اس کتاب کے سوانحی حصہ پر مجھے نظر ثانی کاحکم دیا تھا۔ نظرثانی کے مختلف مراحل میں طرح وہ میرے قریب آتے گئے، پھر ان کی دوسری کتاب نقوش و تاثرات آئی، اس میں بھی کچھ نہ کچھ مشورے اور معاونت کا موقع ملا۔ اس وقت ان کا عنفوان شباب تھا، مونچھ کی لکیریں چہرے پر آنے لگی تھیں۔لیکن ہم جیسے عمر دراز لوگوں کے لئے ان کی حیثیت عزیز کی طرح تھی، کہتے ہیں کہ ”پوت کے پاؤں پالنے میں نظر آتے ہیں“ میں نے اس پوت کے پاؤں کو چھوٹی عمر میں ہی محسوس کیا، میرے دل میں ارتعاش ہوا اور شعور کی تیزرو نے مجھے بتایا کہ یہ لڑکا کچھ کر دکھائے گا، اس لیے کہ اس کے وجدان میں چھپی صلاحیتیں باہر آنے کو مضطرب تھیں اور میں انہیں ابھی سے دیکھ رہاتھا، کسی کے اندر تاک جھانک کر اس کے مستقبل کی تعیین خواہشات نیک کے زمرے میں آتی ہیں، میری نیک خواہشات اور دعائیں آگے کے مہہ و سال میں عارف اقبال کا پیچھا کرتی رہیں اور وہ اپنی منزل تک پہونچنے کے لئے بے تاب رہے، مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم کا بہت مشہور شعر ہے:
قدم ہے راہ الفت میں تو منزل کی ہوس کیسی
یہاں تو عین منزل ہے تھکن سے چور ہوجانا
پھرہوایہ کہ عارف ہر قسم کی پریشانی، تھکن اور مسائل و مصائب کو عین منزل مان کر آگے بڑھتے رہے اور آج وہ چھوٹی عمر کے بڑے اور مشہور صحافی ہیں۔
عارف اقبال نے مدرسہ امدادیہ دربھنگہ اور مدرسہ اسلامیہ جامع العلوم مظفرپور میں مذہبی تعلیم پائی، اعلیٰ اخلاقی اقدار ان بوریہ نشینوں سے سیکھے جو ان دونوں جگہوں پر معلمی کے فرائض انجام دے رہے تھے، عارف اقبال میں تواضع، انکساری، بڑوں کے ادب واحترام کا جو سلیقہ پایاجاتا ہے وہ انہوں نے مدرسہ کی اس چٹائی پر سیکھا جس کا سلسلہئ نسب صفہ اور اصحاب صفہ سے ملتا ہے۔ اس عمر میں انسان تربیت کو قبول کرتا ہے اور اس کے اثرات پوری زندگی میں محسوس اور غیر محسوس طور پر دیکھنے کو ملتے رہتے ہیں۔
مدرسہ کی چٹائی سے اٹھ کر عارف اقبال عصری علوم کی درسگاہ پہونچے، بی اے، بی ایڈکیا، پٹنہ یونیورسٹی سے صحافت کا کورس مکمل کیا، الکٹرونک میڈیا پر کام کرنے کا سلیقہ جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی سے سیکھا، ان دونوں جگہوں میں اساتذہ کے وہ نور نظر رہے، اور جب اساتذہ کی توجہ کسی شاگرد کو مل جائے تو اس میں دُھن بھی پیدا ہوجاتی ہے اور گُن بھی۔ عارف اقبال اساتذہ کی توجہ پانے میں کامیاب تھے، چنانچہ صحافت کی خارزار وادیوں میں داخل ہونے کا انہوں نے سخت فیصلہ لیا، وہ عزم کے دھنی تھے، اس لیے صحافت کی سنگلاخ وادی کو عبور کرنے کے لئے راستے کے  سنگریزوں سے تکلیف پہونچنے کی پرواہ نہیں کی، پرواہ تو انہوں نے ان کنکر پتھروں کی بھی نہیں کی جو سڑک پر نہیں، ان کے موزے کے اندر جا پڑے تھے اور اندر سے ان کے پاؤں کو لہولہان کیے دے رہے تھے، میں نے شروع میں ہی انہیں ایک بار دوران گفتگوبتایا تھا کہ جو ہمالہ کی چوٹی سر کرنا چاہتے ہیں، وہ جوتوں کے گھِسنے کا حساب نہیں لگاتے، اس بات کو انہوں نے اپنی گرہ میں باندھ لیا اور کبھی بھی راستے کی پریشانیوں کا حساب نہیں لگایا۔
عارف اقبال اخباروں کے لیے لکھتے رہے، زندہ لوگوں پر کتابیں مرتب کرتے رہے، ملک کے نامور اہل قلم سے زندہ شخصیات پر مضامین حاصل کرتے رہے۔ یہ ایک دشوار کام تھا، لیکن جب عزم جواں ہوتو راستے میں پہاڑ بھی آجائے تووہ رکاوٹیں کھڑی نہیں کرتا۔ عارف اقبال نے پوری اولو العزمی سے ان مراحل کو طے کیا اور مولانا سید نظام الدین ؒ اور مولانا سید ابواختر مدظلہ پر ملک کے نامور اہل قلم سے مضامین لکھوائے، ان کو سلیقے سے مرتب کیا، کتاب تیار ہوگئی تو اجرا کی تقریب کی اور پھر اہل علم تک پہونچایا، کتابوں کی طباعت کے اخراجات کہاں سے آئیں گے اور کس طرح خسارہ کی تلافی کی جاسکتی ہے۔ یہ فن ان کو پوری طرح معلوم ہے اور وہ اسے کتاب کے مرتب کرنے سے پہلے اور بعد پوری طرح برتتے ہیں۔ اور اس قدر برتتے ہیں کہ وہ نفع کا سودا ہوجاتا ہے۔ کس طرح؟ یہ ایک راز ہے جسے وہ یا ان کا خدا جانتا ہے۔وہ اسے دوسروں پر فاش نہیں کرتے۔
واقعہ یہ ہے کہ زندہ لوگوں پر کام کرنا آسان نہیں ہوتا، معاصرانہ چشمک اور برتری کی سرد جنگ کی وجہ سے اس کام میں بڑی رکاوٹیں آتی ہیں، پھر ہروقت یہ خطرہ رہتا ہے کہ پتہ نہیں کس مضمون میں کوئی کیالکھ دے اور لوگ عقیدت و محبت میں مؤلف و مرتب پر ہی ٹوٹ پڑیں، غالی عقیدت مندوں کی ایک بڑی خرابی یہی ہوتی ہے کہ ان کادماغ گروی ہوتا ہے، غلط سے غلط کاموں کی بھی وہ ایسی تاویل کرتے ہیں کہ بات عقل و خرد سے دور جا پڑتی ہے۔ اس ملک میں مودی بھگت ہی نہیں، کچھ اور بھگت بھی ہیں جو مودی بھگتوں سے کہیں زیادہ خطرناک ہیں۔
اس کے برعکس مُردوں پر لکھنا آسان ہوتا ہے، کیوں کہ بھگتوں کا مرحوم سے کوئی مفاد وابستہ نہیں ہوتا، اس لیے وہ اس طرح حملہ آور نہیں ہوتے، جیسا ان کی زندگی میں ہوا کرتے ہیں، رہ گئے وہ مرحومین جن پر لکھا گیا تو ان کی ہڈی اس دنیا میں جھگڑا کرنے کے لئے آنے سے رہی۔
عارف اقبال نے کتابوں کے مرتب کرنے اور ان کی شخصیات کے انتخاب میں ان خطرات کی پرواہ نہیں کی اور مردانہ وار میدان میں کود پڑے اور کم ازکم تین کتابیں علمی دنیاکو دیں، وہ خطرات کے کھلاڑی ہیں اور انہیں خطرات سے کھیلنے میں مزہ آتا ہے۔ ایڈونچر کے شائقین کے لیے عارف اقبال کی زندگی میں عبرت و موعظت کے خاصے سامان ہیں۔
کتابوں کے ساتھ عارف اقبال نے کالم نگاری کا کام بھی کیا اور کم و بیش دوسال تک قومی تنظیم پٹنہ میں اپنی خدمات پیش کیں، وہ فری لانسر کی حیثیت سے دوسرے اخبارات کے لیے بھی لکھتے رہے، ان کے تعلقات ملک کے نامور صحافیوں سے رہے اور ان سے انہوں نے پرنٹ میڈیا کے رموز ونکات سیکھے اور فنی حیثیت سے اخباروں اور کالموں میں اسے برتا، اس طرح وہ پرنٹ میڈیا کے مقبول کالم نگار بن گیے۔
لیکن اخبارات کی دنیا محدود ہوتی ہے، اس کے قارئین کا حلقہ بھی محدود ہوتا ہے،بلکہ اردو اخبارات کا حلقہ اور سمٹتا جارہا ہے، اردو اخبارات کے مالکان کو قارئین کے گم ہونے کا شکوہ ہے۔ ایسے میں عارف اقبال کو پرواز کے لیے ایک نیا آسمان چاہیے تھا۔ نواز دیوبندی کا مشہور شعر ہے:
انجام اس کے ہاتھ ہے آغاز کرکے دیکھ
بھیگے ہوئے پروں سے ہی پرواز کر کے دیکھ
اس نئے آسمان میں پرواز کے لیے انہوں نے الکٹرونک میڈیا سے اپنا رشتہ جوڑا، یہاں کام کا بڑا میدان ہے۔ یہاں صحافی خود کو چھپاکر نہیں رکھتا،بلکہ کیمرے کے سامنے آتا ہے اور برقی لہروں سے گذر کر اس کی تصویریں اور پروگرام ملک و بیرون ملک تک پہونچ جاتی ہیں۔ اس سے صحافی کا دائرہ بھی وسیع ہوتا ہے اور خود کو شناخت کرانے کی مہم بھی کامیابی سے ہم کنار ہوجاتی ہے۔
عارف اقبال نے”ای ٹی وی بھارت اردو“ جوائن کیا، پہلی تقرری سیمانچل کے ضلع ارریہ میں ہوئی، پٹنہ اور دہلی میں زندگی گذارنے والے عارف اقبال کے لیے یہ ایک آزمائش تھی، چیلنج تھا، انہوں نے اس چیلنج کو قبول کیا اور رپورٹر کے ساتھ کنٹنٹ ایڈیٹر بن کر ارریہ چلے گئے، وہاں انہوں نے ارریہ کے کھیت کھلیان میں کام کرنے والے مزدوروں، بیل گاڑی اور کشتی کے ذریعہ نقل و حمل کے مسائل پر فیچر اور کہانیاں بنائیں اور اقلیتوں کے مسائل پر فوکس کیا، وہاں کے خوابیدہ سیاسی رہنماؤں کو بیدار کیا، یہ کچھ انہیں کا حصہ تھا، کورونا کے دور میں بھی وہ اپنی ذمہ داری نبھاتے رہے، چنانچہ کورونا نے ان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا، رپورٹ پوزٹیو آئی، کیمپوں میں رہنا پڑا، لیکن کورونا کے جراثیم نے بھی سوچا کہ یہاں دال گلنے والی نہیں ہے، اکابر کی دعائیں بھی انہیں ملیں، چنانچہ انہوں نے کورونا کو مات دے دیا اور صحت یاب ہوکر واپس ہوئے۔
ارریہ کی ثقافتی جھلکیاں بھی عارف اقبال کی توجہ کا مرکز رہیں، انہوں نے وہاں کے مخصوص پکوان، طارق بن ثاقب کی خطاطی کو بھی ناظرین کے سامنے پیش کیا، تین سال میں ”ای ٹی وی بھارت اردو“کے ذریعہ عارف اقبال نے ارریہ کی طرف توجہ مبذول کرانے کا کام کیا اور وہ اس میں پوری طرح کامیاب رہے، تین سال بعد واپسی ہوئی تو عارف اقبال وہاں کے صحافیوں میں سب سے محبوب و مقبول صحافی بن چکے تھے، الوداعیہ کی تقریب باوقار بھی تھی اور پررونق بھی، وہاں جو محبت انہیں ملی وہ مثالی تھی، آج بھی عارف اقبال وہاں کا تذکرہ کرتے ہوئے دور خلاؤں میں گم ہوجاتے ہیں، جیسے وہ کچھ تلاش رہے ہوں۔ماضی کی خوش گوار یادیں کب پیچھا چھوڑتی ہیں۔
ان کی محنت، لگن، کام کی طرف توجہ اور مسائل و معاملات پر گہری نظر کی وجہ سے ان کا تبادلہ ای ٹی وی بھارت کے ذمہ داروں نے پٹنہ کردیا، حیثیت وہی کنٹنٹ ایڈیٹر کی ہی رہی، پٹنہ بڑا شہر ہے یہاں صحافیوں کی بھرمار ہے، ان قدیم اور با اثر صحافیوں کے بیچ میں جہاں ان کے اساتذہ بھی موجود ہوں جگہ بنانا آسان نہیں تھا، پٹنہ میں مختلف چینلوں کے اینکر سے ان کا مقابلہ تھا، ایسے میں پٹنہ یونیورسیٹی میں صحافت کا کورس اور جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی سے الکٹرونک میڈیا کا کورس کام آیا، عارف اقبال نے پوری فنی مہارت اور کامل اعتماد کے ساتھ پٹنہ میں کام شروع کیا، مذہبی ادارے، اسلامی شخصیات، سیاسی قائدین، ملی تنظیموں، تاریخی عمارتوں کے بارے میں وہ لوگوں کو بتاتے رہے اور جلد ہی یہاں بھی وہ اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوگئے، انہوں نے رپورٹنگ، منظر کشی،  فیچر، کہانی ملکی اور ریاستی احوال و واقعات کو پورے اعتماد کے ساتھ لوگوں تک پہونچایا، عارف اقبال نے رپورٹنگ کیلئے  ان میدانوں کا انتخاب کیا، جہاں تک دوسرے صحافیوں کی نظر نہیں گئی تھی۔ فنی اور صحافیانہ صلاحیت کے ساتھ ان کی خوش اخلاقی، مرنجا اور سب کو ساتھ لے کر چلنے کے ہنر نے بھی اپنا اثر دکھایا، ان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ کی جو غیر مرئی اور کبھی کبھی مرئی لکیریں ہوتی ہیں وہ بھی گرویدہ بنانے میں بڑے کام آتی ہیں، عارف اقبال خوش دل اور خوش گوارموڈ کے آدمی ہیں، مسکرانا ہی نہیں، ہنسنا بھی خوب جانتے ہیں، ہنسنا ان کی ضرورت بھی ہے۔ جب فوٹو گرافر مردے کی تصویر کشی کے وقت بھی ”پلیز اسمائیل“ کہنا نہیں بھولتا تو اپنے چہرے پر ہنسی سجانے کو وہ کس طرح بھول سکتے ہیں۔
عارف اقبال نے نور اردو لائبریری حسن پورگنگھٹی، بکساما، ویشالی کی بھی عکس بندی کی، کہانی بنائی اور دور دیہات میں واقع ویشالی ضلع کی سب سے بڑی غیر سرکاری لائبریری کی طرف لوگوں کی توجہ مبذول کرانے کا کام کیا، یہ فکرمندی اور محنت، پیشہ وارانہ صحافت سے اوپر کی چیز ہے۔ عارف اقبال صحافت کو پیشہ نہیں، خدمت کا ذریعہ سمجھتے ہیں، ان کی کوشش ہے کہ جمہوریت کا یہ چوتھا ستون گودی میڈیا کے دست برد سے کسی طرح باہر نکلے اور اپنا فرض منصبی ادا کرے۔
عارف اقبال کی انہیں خصوصیات اور جد و جہد بھری زندگی کو دیکھ کر میں انہیں چھوٹی عمر کا بڑا انسان اور بڑا صحافی سمجھتا ہوں، صحافت زندگی کا ایک گوشہ حصہ اور ہے۔ اس میں انسان جیسی جامعیت نہیں ہے جو زندگی کے ہر پہلو کو سمیٹ لے۔ عارف اقبال اپنی تمام خوبیوں کے باوجود انسان ہی ہیں فرشتہ نہیں ان کے بارے میں جنید و شبلی کی طرح سوچنا ان کے اوپر زیادتی ہوگی البتہ وہ چھوٹی عمر کے بڑے انسان اور بڑے صحافی ہیں جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...