Powered By Blogger

منگل, جنوری 17, 2023

سیاسی ”یاترائیں“ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

سیاسی ”یاترائیں“
اردو دنیا نیوز٧٢ 
مفتی  محمد  ثناء  الہدیٰ  قاسمی  
 نائب  ناظم  امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
 راہل گاندھی کی ”بھارت جوڑو یاترا“ کا دوسرا دور شروع ہو گیا ہے، نفرت کے بازار میں ”محبت کی دوکان سجانے“ کے نام پر نکلی اس ”یاترا“ کا چرچا پرنٹ میڈیا ، الکٹرونک میڈیا پر خوب ہوتا رہا ہے، ملک میں اس کی وجہ سے کانگریس کی مقبولیت اور راہل گاندھی کی محبوبیت میں اضافہ ہوا ہے، راہل گاندھی نے اپنی اور اپنی پارٹی کی سیاسی بقا کے لیے اس ”یاترا“ کی شروعات کی تھی ، شاہزادہ کا ہزاروں میل پیدل چلنا آسان کام نہیں تھا، اور اس پر سخت ٹھنڈ میں صرف ایک شرٹ پہن کر ، زندگی کو خطرات بھی بہت تھے، کیوں کہ ان کا سفر نفرت کے بازار ہو کر ہوتا رہا ہے، ان کے تحفظ پر سوالات بھی اٹھتے رہے ہیں، کانگریس ان کے حفاظتی حصار میں چوک کا چرچا کرتی رہی ہے، جب کہ پولیس والوں کو ان کے ذریعہ حفاظتی حصار خود توڑنے کا شکوہ ہے، وزارت داخلہ کو محکمہ پولیس کے ذریعہ یہی رپورٹ سونپی گئی ہے۔
 راہل گاندھی کی یہ ”یاترا“ گذشتہ سال 7 ستمبر 2022ءکو کنیا کماری سے شروع ہوئی تھی، اب تک وہ نو ریاست کے چھیالیس (46)اضلاع کی ”پد یاترا“ کر چکے ہیں،مختلف ریاستوں سے گذر کر ایک سو پچاس دن میں یہ ”یاترا“ کشمیر پہونچے گی، اور تقریبا تین ہزار پانچ سو ستر(3570) کلو میٹر کا سفر پیدل طے کرے گی۔
 راہل گاندھی کی یہ سیاسی یاتر اپہلی یاترا نہیں ہے، اس سے قبل بھارت کے سابق وزیر اعظم سماجوادی قائد چندر شیکھر نے 6 جنوری سے 25جون 1983تک کنیا کماری سے راج گھاٹ نئی دہلی تک کا پیدل سفر کیا اور 4200کلو میٹر کی دوری پیدل طے کی تھی، یہ سفر کنیا کماری سے اس دن شروع ہوا، جس دن ان کی جنتا پارٹی نے کرناٹک میں شاندار جیت درج کی تھی، اس سفر کا اختتام ایمرجنسی کی آٹھویں سالگرہ پر کیا گیا ، اسی دن بھارت نے پہلی بار کرکٹ کا ورلڈ کپ بھی جیتا تھا۔
اس سفر نے چندر شیکھر کو سیاست میں نیا مقام دیا، پہلے وہ ایک جوان لیڈر کی حیثیت سے جانے جاتے تھے، جن کی ہندوستانی سیاست میں کوئی پکڑ نہیں تھی، اس سفرکے بعد سیاست میں ان کی اہمیت محسوس کی جانے لگی، راجیو گاندھی کی حکومت کے اختتام کے بعد 1989ءمیں وہ وزیر اعظم کے دعویدار بنے اور بالآخر وی پی سنگھ کی حکومت کے بعد وہ وزیر اعظم بننے میں کامیاب ہو گیے، ایک ایسے وزیر اعظم جو اس سے قبل کبھی کسی حکومت میں وزیر بھی نہیں رہ چکے تھے۔
سیاسی یاتراوں میں لال کرشن اڈوانی کی ”رام رتھ یاترا“ بھی تھی، یہ یاترا پیدل نہیں ایک بس کے ذریعہ 25 ستمبر سے 23 اکتوبر 1990ءتک چلی، مذہبی رنگ کی یہ یاترا منڈل کمیشن کی رپورٹ کے لاگو ہونے سے بھاجپا کو ہونے والے نقصان کی تلافی اور رام مندرتحریک تک کو تیزتر کے لیے سومناتھ مندر سے شروع ہوئی تھی، اسے اجودھیا پہونچنا تھا، لیکن اس وقت کے وزیر اعظم وی پی سنگھ کی ہدایت پر بہار کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ لالو پرشاد یادو نے اڈوانی کو سمستی پور میں گرفتار کر کے تاریخ رقم کر دی ، اس سفر کا فائدہ بھاجپا اور اڈوانی دونوں کو پہونچا، بھاجپا پہلی بار قومی پارٹی بننے کی پوزیشن میں آئی، پارلیامنٹ میں اس کی سیٹیں بڑھیں، وہ سیدھے ایک سو بیس(120)سے ایک سو پچپن(155)پر پہونچ گئی، اور اڈوانی اس سفر سے ملک گیر لیڈر بن گیے، وہ اٹل بہاری باجپائی سے آگے تو نہیں بڑھ سکے، لیکن نائب وزیر اعظم کے عہدے تک پہونچنے میں کامیاب ہو گیے، اس درمیان آر ایس ایس نے گجرات فساد کے بعد نریندر مودی کو وزیر اعظم کی حیثیت سے پیش کیا، وزیر اعظم کی کرسی تک پہونچنے کی لالچ نے اڈوانی کو ان کی مخالفت پر آمادہ کیا، یوں بھی نریندر مودی اڈوانی کی رتھ یاترا میں تقریر کرتے وقت ان کا مائیک پکڑے ہوتے تھے، مودی نے اس مخالفت کے نتیجے میں ان کو ”مارگ درشک منڈل“ میں داخل کر کے سیاسی طور پر الگ تھلگ کر دیا، ان کوانتخاب میں ٹکٹ بھی نہیں دیا، اڈوانی صدر جمہوریہ بننے کے خواہش مند تھے، وہ آرزو بھی ان کی پوری نہیں ہوئی، لالو پرساد یادو نے اپنی ایک تقریر میں اڈوانی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ آپ نے بابری مسجد توڑوائی ہے آپ کبھی وزیر اعظم نہیں بن سکتے، لالو پر ساد کی یہ پیشین گوئی حرف بحرف پوری ہوئی، آج اڈوانی زندہ تو ہیں،لیکن ہندوستانی سیاست میں ان کا وجود اور عدم برابر ہے۔
 ”سیاسی یاترائیں“ صوبائی بھی ہوتی رہی ہیں، صوبائی ”یاتراوں“ میں راجستھان میں وسندھرا راجے کی ”پربو رتن یاترا“ غیر منقسم آندھرا پردیش میں راج شیکھر ریڈی کی ”پرجا پرستھانم یاترا“ اور چندر ا بابو نائیڈو کی ”واستو نامی کی ہیم پدیاترا“ (میں آپ کے لیے آ رہا ہوں) کو خاص اہمیت حاصل ہے، ان یاتراوں کے ذریعہ ان لیڈروں کاوزیر اعلی کی کرسی تک پہونچنا آسان ہو گیا۔
 راجستھان میں وسندھرا راج نے اس وقت کے بھاجپا کے جنرل سکریٹری پرمود مہاجن کی ہدایت اور تحریک پر 2003میں گاڑی کے ذریعہ ”پریورتن یاترا“ کے نام سے تقریبا تیرہ ہزار (1300)کلو میٹر کا سفر کیا، اس سفر سے وسندھرا کی ریاست میں سیاسی لیڈر کے طور پر شناخت بنی ، اس سفر کے ذریعہ وسندھرا عوام کے قریب ہوئیں اور راجستھان کی دوسو اسمبلی سیٹوں میں سے ایک سوبیس (120)سیٹیں لے کر ریاست کی پہلی خاتون وزیر اعلیٰ بنیں۔
 غیر منقسم آندھرا پردیش میں سیاسی طور پر کانگریس کا زوال ہوا، اور تیلگو دیشم پارٹی حکومت پر دس سال تک قابض رہی ، ایسے میں کانگریس کے لیڈر وائی ایس راج شیکھر ریڈی نے 2003ءمیں ”پر جا پرستھانم یاترا“ شروع کی، دو ماہ تک سخت گرمی کے موسم میں انہوں نے پندرہ سو کلو میٹر سے زیادہ کا سفر کیا، عوام سے جُڑے ، عوام کی محبت انہیں ملی اور 2004ءاور 2009ءکے اسمبلی انتخاب میں انہوں نے تیلگو دیشم پارٹی پر بڑی فتح حاصل کی اور دوبارہ آندھرا پردیش کے وزیر اعلیٰ کی کرسی تک پہونچے، حالاں کہ جلدمیں ہی وہ ایک حادثہ میں آنجہانی ہو گیے تھے۔
 راج شیکھر ریڈی کی پدیاترا نے کانگریس کو اقتدار تک پہونچا دیا تھا، اور چندر ا بابو نائیڈو اقتدار سے بے دخل ہو گیے تھے، اس لیے نائیڈو نے راج شیکھر ریڈی والا نسخہ اقتدار میں پہونچنے کے لیے استعمال کیا اور 2013ءمیں ”واستو نامی کوسم“ کے نام سے ”پد یاترا “ شروع کی، دو سو آٹھ (208)دنوں میں انہوں نے دو ہزار آٹھ سو (2800)کلو میٹر کا پیدل سفر کیا، نو سال تک اقتدار سے باہر رہنے کے بعد اس ”پدیاترا“ کی برکت سے 2014ءکے اسمبلی انتخاب میں ایک دو سو (102)سیٹیں حاصل کرکے ان کی پارٹی نے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور چندرا بابو نائیڈو وزیر اعلیٰ کی کرسی تک پہونچ گیے۔
ہمارے وزیر اعلیٰ نتیش کمار بھی ”سیاسی یاترا“ کرنے میں ماہر ہیں، وہ اب تک بہت ساری ”یاترائیں“ کر چکے ہیں، ان میں ادھیکار یاترا، سیوا یاترا، نیائے یاترا، پرواس یاترا، دھنواد یاترا، وشواش یاترا، سماج سدھار یاترا اور سمادھان یاترا خاص طور پر قابل ذکر ہیں، ان یاتراوں سے ان کی پارٹی کو مضبوطی ملی، حکومت کو استحکام عطا ہوا، ترقیاتی کاموں کا زمینی جائزہ ممکن ہوا، اور کام میں کوتاہی برتنے والے کی تادیبی کارروائی کی گئی، پدیاتراووں کا ذکر مکمل نہیں ہوگا اگر 2 اکتوبر 2022ءسے جاری پرشانت کشور کی سوراج پدیاترا کا ذکر نہ کیا جائے، جو تمام سیاسی پارٹیوں کے خلاف ہو رہی ہے۔
 راہل گاندھی ان سیاسی یاتراوں کو تسلسل عطا کر رہے ہیں، ان کے ذہن میں ہے کہ یہ نسخہ ہندوستانی سیاست میں کم از کم پارٹی کو اقتدار تک پہونچانے میں کبھی فیل نہیں ہوا، ہے، اس لیے ”پد یاترا“ میں راہل گاندھی سخت اصول وضابطہ ہونے کے باوجود بڑی بھیڑ جمع کر پا رہے ہیں، جس سے کانگریس پارٹی کو اچھی توقعات ہیں، لیکن یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ بھیڑ جمع کرنا بڑی بات ہے،لیکن اس بھیڑ کو ووٹ میں تبدیل کرالینا بالکل دوسری بات۔

پیر, جنوری 16, 2023

کربِ آگہی __مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

کربِ آگہی __
اردو دنیا نیوز٧٢ 
مفتی  محمد  ثناء  الہدیٰ  قاسمی  
 نائب  ناظم  امارت  شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
 حال ہی میں سابق وزیرمشہور سیاسی قائد جناب عبد الباری صدیقی کے ایک بیان کی وجہ سے سیاسی گلیاروں میں بھونچال آگیا، انہوں نے ایک کانفرنس میں کہہ دیا تھا کہ ”ہندوستان اب رہنے کے لائق نہیں رہا، فرقہ وارانہ کشیدگی کا خطرناک وخوفناک ماحول تیزی سے پھیل رہا ہے ، اب یہاں امن پسند لوگوں کے لیے جینا محال ہو گیا ہے ، اس لیے میں نے اپنے بچوں سے( بیٹا جو امریکہ میں رہتا ہے اور بیٹی جو لندن میں رہتی ہے) کہا ہے کہ وہیں رہیں اور وہاں کی شہریت مل جائے تو وہاں کی شہریت بھی لے لیں۔“
 اس بیان پر جو تبصرے آئے اس میں غیروں نے دل کی بھڑاس نکالی اور انہیں پاکستان چلے جانے تک کا مشورہ دے دیا ، عظیم اتحاد کے بعض رہنماؤں نے اسے بز دلی سے تعبیر کیا اور انہیں اس ملک میں ان کی ذاتی حصولیابیاں گنائیں، یعنی انہیں اس ملک نے ایم ایل اے بنایا، وزیر بنایا وغیرہ وغیرہ، سب نے ان کے بیان کے ”اب“ کو نظر انداز کر دیا ، عبد الباری صدیقی کی قدر ومنزلت اور عہدے مناصب انہیں یہیں ملے، یہ ٹھیک ہے،لیکن وہ اس نفرت بھرے ماحول اور فرقہ واریت کی بات کر رہے ہیں، جو ”اب“ پیدا ہو گیا ہے، او ریہ کوئی ایسی بات نہیں ہے، جسے انہوں نے پہلی بار کہا ہے، اس ملک کے فلم ادا کار ، دانشور اور سیاست داں پہلے بھی اس بات کو با ربار کہہ چکے ہیں، ہر بار اس ملک میں ایسے بیان پر طوفان کھڑا ہوا ہے، راہل گاندھی بھارت جوڑو یاترا کے درمیان جب بار بار یہ کہتے ہیں کہ ”میں نفرت کے بازار میں محبت کی دوکان کھولنے نکلا ہوں“ تو وہ عبد الباری صدیقی کے فکر وخیال کی تائید ہی تو کر رہے ہیں، عبد الباری صدیقی محسوس کرتے ہیں کہ نفرت کی سودا گری اس ملک میں بڑھتی جا رہی ہے اور شاید ملک پر انی روش پر لوٹ نہیں پائے گا، اس لیے اپنے بچوں کو محفوظ مستقبل کے لیے ایک مشورہ دے ڈالتے ہیں جس کا انہیں پورا حق ہے، یہ صحیح بھی ہے کہ ایسا مشورہ انہیں نہیں دینا چاہیے تھا اور دیا تھا تو بر ملا اعلان نہیں کرنا چاہئے تھا، یقینا انہوں نے حق بات کہی، جیسا محسوس کیا ؛لیکن ساری حق بات کہہ دی جائے اس کا مکلف کوئی نہیں ہے، یقینا جب بولیں، حق بولیں، لیکن سارے حقائق بیان کر دینے کے ہم پابند نہیں ہیں، شاید اسی وجہ سے ہر بڑے عہدے میں رازداری کا حلف دلایا جاتا ہے اور چھوٹے دفاتر میں کارندوں سے راز مخفی رکھنے کی توقع کی جاتی ہے ۔
جناب عبد الباری صدیقی نے جو کچھ کہا ، اور جو کچھ ان کی زبان سے نکلا وہ ان کا کربِ آگہی ہے جو جملوں کی شکل میں ڈھل گیا اور بر سر عام نکل پڑا، در اصل با خبری انسان کو ہر معاملہ میں حساس بنا دیتی ہے، گھر میں بڑا سے بڑا حادثہ ہوجائے، بچے کھیلتے رہتے ہیں، پاس پڑوس بے خبر ہے تو اس پر بھی کوئی اثر نہیں ہوتا؛ لیکن خاندان کے ایسے افراد جو موت کے بعد کی جدائی اور حالات کی سنگینی سے با خبر ہوتے ہیں، ان کا دل روتا ہے، آنکھوں سے اشک بہتے ہیں اور ذہن ودماغ پر غم کی آندھیوں کا بسیرا ہوجاتا ہے، با خبری کے اچھے اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں، خوشی کی خبر پر ہر موئے تن سے مسرت کی لہر چلتی ہے اور طربیہ لمحات کے کیف وسرور میں آدمی ڈوب جاتا ہے، اس مثبت اثرات کو اللہ تعالیٰ نے بیان کیا اور فرمایا : اللہ کے بندوں میں علم والے ہی اللہ سے ڈرتے ہیں ، اللہ کی عظمت وجلال کا علم جس قدر بندوں کو ہوتا ہے ، اللہ کا خوف ، خشیت اسی قدر بندوں پر غالب ہوتا ہے، جو اللہ کی کبریائی اور قدرت سے نا واقف ہے اس پر یہ کیفیت طاری نہیں ہوتی ۔
 جناب عبد الباری صدیقی ہندوستان کے موجودہ حالات سے اچھی طرح واقف ہیں، اس لیے اس کے مضر اثرات نے انہیں کرب میں مبتلا کر رکھا ہے ، اور کرب کا بیانیہ جچے تلے جملے اور الفاظ میں نہیں ہوا کرتا وہ تو کبھی آہ کی شکل میں بھی نکل جاتا ہے، عبد الباری صدیقی کے حالیہ بیان کو اسی پس منظر میں دیکھا جا نا چاہیے۔

اتوار, جنوری 15, 2023

ایک قابل رحم انسانی آبادی

ایک قابل رحم انسانی آبادی 
اردو دنیا نیوز٧٢ 
آپ قومی شاہراہ نمبر۵۷ کے ذریعہ ارریہ ضلع ہیڈ کوارٹرآرہے ہیں تو شہر سے پہلے ٹول پلازہ ہےجہاں آپ کی گاڑی کچھ دیر کے لئے کھڑی ہوجاتی ہے، سامنے شہرارریہ ہے، بائیں جانب سڑک سے متصل ایک قابل رحم انسانی آبادی واقع ہے،ڈھائی سو برادران وطن جگی جھونپڑی میں رہتے ہیں ،مرد وخواتین سرپرہاتھ رکھےاپنےخیالات کی دنیا میں گم رہتےہیں،کوئی ان کا پرسان حال نہیں ہے،دیکھنے والی نظر کے لئے یہ بہت ہی تکلیف دہ منظر ہے، لوگ ان سے قریب ہوتے ہیں اور نہ ہی وہ  لوگوں سے قریب ہوسکتے ہیں، حکومت کوبھی ان کی فکر نہیں ہے، یہ سبھی جذام کی بیماری میں مبتلا ہیں۔
 ۱۹۸۴ء میں ریاستی حکومت نے انہیں شہر سے باہر لاکر یہاں آباد کیا تھا،جبھی سے یہیں آباد ہیں،  اس جگہ کو سبھی" کشٹ روگی محلہ"سے موسوم کرتے ہیں ،جبکہ اس گاؤں کا اصل نام "مدرٹریسانگر ہریابارہ،ارریہ" ہے۔
یہاں ہاسپٹل کی ایک عمارت بھی موجود ہےجو نہایت مخدوش ہےاور جلاون سے بھرا پڑا ہے، یہاں ڈاکٹر ہیں نہ علاج کا کوئی بندوبست ہے،عام لوگ تو ان جذامیوں سے دور تھے ہی اب یہ محسوس ہورہا ہے کہ حکومت بھی ان سے گھن کرنے لگی ہےاور فاصلہ بنا رہی ہے۔
پیام انسانیت فورم ارریہ نے انتظامیہ کو اس جانب متوجہ بھی کیا ہے۔صدر اسپتال ارریہ کےسول سرجن سے ملکر طبی خدمات بحال کرنے کی مانگ بھی کی ہے،موصوف نے وعدہ کیا ہے کہ ایک ڈاکٹر وہاں موجود رہیں گے۔خدا کرے کہ  ان متاثرین کےرستے ہوئے زخم پر مرہم رکھنے والا کوئی مسیحاجلد ہی انہیں نصیب ہو،آمین۔
 پچھلے چار پانچ سالوں سے پیام انسانیت فورم ارریہ خبر وخیریت لینے مدر ٹریسا نگر پہونچ رہی ہے،موسم کے لحاظ سے کپڑے،کمبل ادویات سے تعاون کررہی ہے،بچوں کی تعلیم کے لئے ایک چھوٹی سی جگہ متعین کی گئی ہے،اور مختصر پیمانے پر تعلیم کا انتظام بھی کیا گیا ہے، یہ سب کچھ جیب خاص سے کیا جارہا ہے۔جشن جمہوریہ وجشن آزادی کی خوشی کو پچھلے تین سالوں سےپیام انسانیت کے صدر جناب دیویندر مشرجی اور سکریٹری جناب مولانا مصور عالم صاحب ندوی مل بانٹ کر ان جذامیوں کےدرمیان ہی منارہے ہیں،امداد ہی نہیں بلکہ خبر وخیریت کی دریافت کےلئے بھی پیام انسانیت کی ٹیم مدر ٹریسا نگر پہونچ جاتی ہے، ملنا جلنا، گفت وشنید کرنا،حال واحوال پوچھنا بھی ان متاثرین کی مدد اورتعاون ہے، یہی وجہ ہے کہ جب ان کی خبر وخیریت پوچھتے ہیں تو انہیں بڑا تعجب ہوتا ہے،اور اپنے انسان ہونے کا شاید خیال انکے دل میں مضبوط ہوتا ہے،زبان سے یہ تاثر نہیں دے پاتے ہیں مگر انکی نمناک آنکھیں مکمل تصویر بیاں کرتی ہیں، بقول شاعر 
                 پھر مری آنکھ ہوئی نمناک 
              پھر کسی نے مزاج پوچھا ہے 
ارریہ پیام انسانیت فورم کے لئے یہ بھی خوشی کامقام ہے کہ انسان اور انسانیت کی ہمدردی رکھنے والے برادران وطن کی ایک قیمتی ٹیم بھی اس کے حصہ میں آئی ہے،ان کے ساتھ کام کرنے سے انسانیت کی جہاں خدمت کی جاسکتی ہے،وہیں  ملک سے نفرت کا بھی خاتمہ کیا جاسکتا ہے،ساتھ ہی مذہب اسلام کی صاف اور سچی تصویربھی پیش کی جاسکتی ہے، 
ترمذی شریف کی مشہور حدیث موجود ہے، ایک موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ باتیں گنائیں جنمیں ایک یہ تھی کہ" لوگوں کے لئے وہی چاہو جو تم اپنے لئے چاہتے ہو تو مسلمان بن جاؤگے"
عموما ہم یہی کہتے ہیں کہ مسلمان انسان کا ہمدرد ہوتا ہے، آج اس بات میں وہ دم اور زیر وبم نہیں ہے جو مذکورہ بالا حدیث کہتی ہے، یہاں مسلمان بننے کا باضابطہ ایک نسخہ بیان کیا گیا ہے،اور یہ صاف اعلان کیا گیا ہے کہ تمام انسانوں کی بھلائی کا جذبہ اپنے دل میں پیدا کرنا ایک مسلمان بننے کے ضروری ہے، اگر ایسا نہیں ہے تو یہ مسلمان ہونے کی راہ میں ایک بہت بڑی کمی ہے۔
آج ملک میں سب سے بڑی بھول ہم سے یہی ہورہی ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہم پر رحم وکرم اور پیار وشفقت کا معاملہ کیا جائے، مگرہم اپنی زندگی کا جائزہ لے رہےہیں اور نہ اپنا محاسبہ کررہے ہیں کہ ہم نے اس سلوک کے حقدار ہونے کے لئے انسانیت کی کونسی خدمت کی ہے اورکیاتیاریاں کی ہیں؟؟
 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ صاف فرمادیا ہے کہ جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا ہے،اس بات کی نصیحت بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو کی ہے کہ خدائی وآسمانی خاص مدد کو حاصل کرنے کے لئے زمینی کوشش ضروری ہے،پہلے مخلوق خدا پر رحم کرو پھرآسمان والا تم  پر مہربان ہوجائےگااور تمہاری محبت کو اس روئے زمین پر پھیلا دے گا۔
واقعی اس موقع پر حضرت علی میاں رحمۃ اللہ علیہ کی فراست ایمانی سمجھ میں آتی ہے کہ کتنا اہم اور قیمتی عنوان" تحریک پیام انسانیت " کاحضرت نے ہمارے حوالہ کیا ہے، آج اس بات کو محسوس کرنے کی بھی ضرورت ہے ،پیام انسانیت تحریک موجودہ وقت میں بھارت کے مسلمانوں کی شدید ترین ضرورت ہے۔ہم اس بات کو نہیں سمجھتے ہیں اور اپنی توانائی فضول جگہوں پر خرچ کررہے ہیں،جس کا حاصل کچھ بھی نہیں ہے،
دوسروں کے بیان پر اپنا سردھنتے ہیں کہ فلاں نے کیا کہا،کہ "فلاں مذہب کےلوگ خطرہ میں ہے"،اس بات کو ماننے کے لئے برادران وطن بھی تیار نہیں ہیں، ہم سب ملکر ایک ساتھ حضرت علی میاں کی زبان میں یہ کہیں کہ:آج انسانیت خطرہ میں ہے،اس بات کو ماننے کے لئے سبھی تیار ہیں ، انسانی ہمدردی کے نام پر اپنا مال اور اپنی جان لیکر  برادران وطن بھی ہمارے شانہ بشانہ چلنے کو تیار ہیں، ذرا انہیں آواز تو دیجئے!!!

             نہ تھی امید ہمدردی کی جن سے
              وہی تقدیر سے ہمدرد نکلے

ہمایوں اقبال ندوی 
ترجمان؛آل انڈیاپیام انسانیت فورم، ارریہ 
رابطہ؛9973722710

آتش بیانی __مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

آتش بیانی __
اردو دنیا نیوز٧٢ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی  
نائب  ناظم  امارت  شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
آتش بازی اور آتش بیانی دونوں پر ہندوستانی عدالت نے بعض شروط وقیود کے ساتھ پابندی لگا رکھی ہے، لیکن نہ تو آتش بازی رک پا رہی ہے اور نہ ہی آتش بیانی، آتش بازی کے اثرات فضائی آلودگی کی شکل میں ہماری زندگی کے لیے خطرات پیدا کر رہے ہیں، اور آتش بیانی نے اس ملک کے ماحول کو نفرت انگیز بنا دیا ہے ، جس سے یہاں کی جمہوریت ، سیکولزم اور ملک کی یک جہتی کو نقصان پہونچ رہا ہے ، جس طرح فضائی آلودگی سے سانس لینا دشوار ہوجاتا ہے اسی طرح نفرت انگیز ماحول میں زندگی گذارنا مشکل ہوتا ہے ۔
 خطابت میں جوش بیان مطلوب ہوتا ہے ،اور عوام بھی ایسی تقریروں سے متاثر ہوتی ہے؛ لیکن اس جوش بیان کا تعلق جب نفرت انگیز مواد سے جڑ جاتا ہے تو وہ آتش بیانی بن جاتی ہے ؛جس سے خرمن امن وسکون جل کر خاکستر ہو جاتا ہے۔ کرناٹک کے شیو موگا میں بھوپال سے رکن پارلیمان پرگیہ ٹھاکر نے جو تقریر کی وہ اسی ذیل میں آتی ہے، وہ وہاں ”ہندوجاگرن ویدیکے“ کے ایک جلسہ سے خطاب کر رہی تھی، پرگیہ ٹھاکر 2008ءمیں مالی گاؤں بم دھماکہ کی خاص ملزمہ ہے، جس میں چھ افراد ہلاک اور ایک سو سے زائد زخمی ہوئے تھے۔ وہ خود کو سادھوی کہتی ہے اور یہ کہہ کر وہ ہندوازم میں سادھوی کے تقدس کو پامال کرنے کا کام کرتی رہی ہے۔واقعہ یہ ہے کہ ہندوستان میں اب یوگی، سادھو، سادھوی سب نے سیاست میں آکر اقتدار پر اپنی رہبانیت کا” بھوگ“ چڑھا دیا ہے۔
 پرگیہ ٹھاکر نے اپنے بیان میں ہندوؤں کو گھروں میں ہتھیار رکھنے کا مشورہ دیتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر ہتھیار ممکن نہ ہو تو اپنے گھروں میں سبزی کاٹنے والے چاقو کی دھار تیز کر الیں ؛تاکہ سبزی کاٹنے کے ساتھ اس سے دشمنوں کا سر بھی کاٹا جاسکے، سب جانتے ہیں کہ پرگیہ جب دشمن کا لفظ استعمال کرتی ہے تو اس کا اشارہ مسلمان اور بعض اقلیتوں کی طرف ہوتا ہے، اور وہ مسلمانوں کے خلاف ہندوؤں کو ابھارنے اور جوش وولولہ پیدا کرنے کا کام پہلے بھی کرتی رہی ہے، اس کا پارلیامنٹ تک پہونچنا مسلمانوں کے خلاف اسی نفرت پھیلانے کا شاخسانہ ہے، وہ بابری مسجد کو فضلہ، نا تھو رام گوڈسے کو قابل تعریف اور دگ وجے سنگھ کو دہشت گرد قرار دے چکی ہے۔
 عدالت کے فیصلے کے مطابق اس قسم کے نفرت انگیز بیانات کاپولیس کو از خود نوٹس لے کر ایف آئی آر درج کرنا چاہیے، لیکن جب پولیس نے از خود نوٹس نہیں لیا تو ترنمول گانگریس کے ترجمان ساکیت گوکھلے اور سیاسی قائد تحسین پونا والا نے کرناٹک پولیس کو باقاعدہ تحریری شکایت کی، لیکن شموگا کے اس پی ، جی کے متھن کمار نے جسمانی طور پر حاضر ہو کر ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا، بڑی مشکل سے پرگیہ ٹھاکر کے خلاف ایف آئی آردرج ہو سکا اور اب کرناٹک پولیس نے تحسین پونے والا کو تحقیق میں شامل ہونے کا حکم دیا ہے، دیکھیے آگے آگے ہوتا ہے کیا۔
 اس معاملہ میں چوں کہ پولیس نے از خود اس نفرت آمیز تقریر کا نوٹس نہیں لیا ہے اسی لئے یہ سپریم کورٹ کے فیصلہ کی مخالفت اور عدالت کی توہین کے مترادف ہے،اس لیے ہتک عدالت کے قانون کے تحت معززججوں کوپولیس کوعدالت میں طلب کرنا چاہیے، کیونکہ اس قسم کے معاملات پر روک عدالت کی سختی سے ہی لگ سکتی ہے، بھاجپا حکومت سے ایسے معاملات میں کوئی توقع رکھنا فضول ہے۔

ہفتہ, جنوری 14, 2023

یادوں کے چراغ جلد سوم ___✍️مولانا رضوان احمد ندوی

یادوں کے چراغ جلد سوم ___
اردو دنیا نیوز٧٢ 
✍️مولانا رضوان احمد ندوی 
مولانا مفتی محمد ثناءالہدیٰ صاحب قاسمی، امارت شرعیہ بہار، اڈیشہ وجھارکھنڈ کے نائب ناظم، ہفتہ وار نقیب کے مدیر مسؤل، اردو کے مشہور صاحب قلم اور شگفتہ زبان مقرر وخطیب ہیں، ان کے قلم سے چار درجن سے زائد کتابیں شائع ہو کر مقبول ہو چکی ہیں، پیش نظر کتاب ”یادوں کے چراغ“ کی تیسری جلد منصہ شہود پر آئی ہے ، جس میں انہوں نے ان معاصر شخصیات پر اپنے احساسات وتاثرات کو قلمبند کیا ہے، جو سب زیر خاک جا چکے ہیں، ان میں کچھ بزرگ بھی ہیں، کچھ خورد بھی، عالی جناب اور عالی مقام شخصیتیں بھی ہیں اور کچھ ایسے بھی ہیں جن کو یاد رکھنے والے مفتی صاحب جیسے چند با وضع وباوفا اس دنیا میں رہ گئے ہیں۔
اس طرح اس مجموعہ میں ہر رنگ اور ہر میدان کے لوگ ہیں، اس لئے مفتی صاحب نے ان اصحاب کے وہی پہلو بیان کئے ہیں جو پسندیدہ اور قبول عام کے مستحق ہیں اس لحاظ سے کتاب کی ایک تاریخی حیثیت بھی ہو گئی ہے ، ان میں متعدد نام ایسے ہیں جن کی یاد اس مجموعہ کے ذریعہ باقی رہے گی، کتاب کے آغاز میں مصنف نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے تحریر کیا کہ ”یہ کتاب جو ابھی آپ کے ہاتھ میں ہے، ان میں بہت سارے نامور حضرات کی کتاب زندگی کو مختصر خاکوں کی شکل میں پیش کیا گیا ہے، بعض گمنام لوگوں کے بھی اوراق حیات کو پلٹا گیا ہے، تاکہ عام لوگوں کی زندگی میں جو روز مرہ کے معاملات ومشاہدات ہیں، ان سے بھی سبق حاصل کیا جا سکے“۔ (صفحہ ۸)
 اس مجموعہ میں جناب ڈاکٹر قاسم خورشید ماہر تعلیم وسابق ہیڈلینگویجز ایس سی ای آرٹی بہار کا فاضلانہ پر مغز مقدمہ ” مفتی محمد ثناءالہدیٰ قاسمی - آدھی ملاقات اور یادوں کے چراغ کی روشنی میں“ کے عنوان سے بڑا ہی گرانقدر ہے ، جس میں انہوں نے لکھا کہ ”مفتی صاحب متعدد شخصیتوں کے حصار میں رہے، ان کے اثرات بھی قبول کئے اور بڑی بات یہ بھی ہے کہ جس شخص سے رشتہ قائم کیا، پوری شدت کے ساتھ نبھاتے بھی رہے اور مستقل یادوں کے چراغ بھی روشن کرتے رہے، ہنوز یہ سلسلہ قائم ہے ۔ (صفحہ ۱۱)
اس لئے جب بھی کسی ممتاز شخصیت کے سانحہ ارتحال کی خبر گردش کرتی ہے، مفتی صاحب کا قلم حرکت میں آجاتا ہے، اور کبھی کبھی تو ایسا شبہ ہونے لگتا ہے کہ گویا مضمون پہلے سے تیار تھا، یہ ان کے کمال درجہ کی فنی مہارت کی علامت ہے۔
بہر حال زیر تبصرہ مجموعہ کے بیشتر سوانحی خاکے ہفتہ وار نقیب پٹنہ کے علاوہ دوسرے جرائد ورسائل کی زینت بن چکے ہیں، جنہیں اب کتابی صورت میں طبع کر دیاگیا ہے، مصنف نے کتاب کو چار ابواب وفصول میں تقسیم کیا ہے، باب اول میں علماءومشائخ کے احوال وآثار کا تذکرہ ہے ، ان میں حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب قاسمی ، حضرت مولانا ابو سلمہ شفیع، علامہ محمد حسن باندوی ، قاضی جسیم الدین رحمانی، شیخ ثانی حضرت مولانا عبد الحق اعظمی، مولانا محمد یونس جونپوری سمیت 32اصحاب فضل وکمال کا ذکر ہے، باب دوم میں شعراء، ادباءسیاست داں اور ماہرین تعلیم جیسے پروفیسر لطف الرحمن ، جناب محمد عبد الرحیم قریشی ، ڈاکٹر سید حسن ، الحاج محمد شفیع قریشی، بیکل اتساہی، ڈاکٹر ثوبان فاروقی ، انور جلال پوری کی ادبی ، فکری اور عملی کارناموں کو بیان کیا گیا ہے، باب سوم میں 4 بھولے بسرے لوگوں جناب محمد ہاشم انصاری، حاجی محمد اسلم آرزو ، حاجی محمد اسلم (اڈیشہ) اور ایک خدا ترس خاتون (والدہ مولوی ممتاز احمد امارت شرعیہ) کو شریک اشاعت کیا گیا ہے، اور آخری باب میں داغہائے سینہ کے عنوان سے مفتی صاحب نے اپنے والد ماجد حاجی محمد نور الہدیٰ رحمانی اور برادر اکبر ماسٹر محمد ضیاءالہدیٰ رحمانی کی سیرت، کردار وعمل پر سیر حاصل گفتگو کی ہے، اس طرح یہ مجموعہ ہر لحاظ سے قابل دید اور سیرت وسوانح سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔
کتاب کا دوسرا رخ، خوگر حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے کہ اس مجموعہ کی طباعت دسمبر ۲۲۰۲ءمیں ہوئی اور ان میں جن مرحومین کے تذکرہ کے ذیل میں کسی زندہ شخصیت کا ذکر آیا ان میں بعض ایسے لوگ ہیں جو داغ مفارقت دے چکے ہیں، ان کے نام کے آگے زندوں کے القاب وآداب تحریر ہیں، جس سے قارئین کو شبہ ہو سکتا ہے کہ کیا ابھی بھی وہ بقید حیات ہیں، اس لئے کتاب کی ترتیب وتدوین اور تسوید کے وقت اس پہلو پر نظر رہنی چاہئے تھی جس کی طرف بے توجہی برتی گئی ، گرچہ اردو میں چھپنے والی کتابوں میں اس طرح کی غلطی کوئی نئی چیز نہیں ہے، جس کا شکوہ کیا جائے، مگر سونے کے تاروں سے بنی چادروں پر معمولی داغ بھی نگاہوں میں کھٹکنے لگتا ہے۔
 بہر حال کتاب اپنے موضوع پر عمدہ اور قابل قدر کاوش ہے اوراس کے لیے ناشر کتاب حضرت مولانا مفتی مبین احمد قاسمی بانی مدرسہ طیبہ قاسم العلوم بردی پور، سمری، دربھنگہ (بہار) بھی بجا طور پر شکرے کے مستحق ہیں کہ انہوں نے کتاب کو اپنے ادارہ کی طرف سے طبع کراکر مفتی صاحب کے ذہنی الجھن کو ہلکا کر دیا،ویسے بھی مفتی صاحب کو اس فن میں کمال درجہ کی مہارت حاصل ہے کہ کونسی کتاب کہاں سے اور کیسے شائع کروانی ہے، ہم جیسوں کے لیے یہ درس عبرت ہے، بہر کیف ہم ان دونوں بزرگوں کی صحت وعافیت کے لئے دعاءخیر کرتے ہیں کہ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ ہو، طابع کو مزید وسعت عطا فرمائے۔ آمین ۔
232 صفحات پر مشتمل اس کتاب کا گیٹ اپ وشیٹ اپ جاذب نظر ، کاغذ معیاری اور گرد پوش پرکشش ہے، جس کی قیمت 400روپے طبع ہے، ضرورت مند وخواہش مند اصحاب ذوق مکتبہ امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ یا براہ راست مصنف کتاب کے موبائل نمبر 9304919720پر رابطہ کرکے طلب کر سکتے ہیں۔

نیپال کی نئی حکومت ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمینائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف

نیپال کی نئی حکومت ___
اردو دنیا نیوز٧٢ 
مفتی  محمد  ثناء  الہدیٰ  قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف  
 نیپال میں وزیر اعظم کے طور پر پشپ کمال داہال عرف پر چنڈ نے نئی حکومت کی باگ ڈور سنبھال لی ہے ، انہوں نے حکومت بنانے کے لیے سابق وزیر اعظم کے پی شرما او لی سے ایک سمجھوتہ کیا ، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ڈھائی سال پر چنڈ حکومت میں رہیں گے اور اس کے بعد نیپال میں سی پی ایم+ یو ایم ای کی حکومت بنے گی ، جس کے سر براہ اُولی بھی بن سکتے ہیں۔
 پر چنڈ کی بحیثیت وزیر اعظم یہ تیسری تاج پوشی ہے، پہلی بار 2008ءمیں وہ وزیر اعظم بنے تھے، لیکن یہ مدت کار صرف ایک سال رہی ، دوسری بار2016ءمیں وزیر اعظم بنے، لیکن ایک سال میں ہی وزیر اعظم کی کرسی انہیں چھوڑنی پڑی، اب تیسری باری ہے اور بظاہر سمجھوتے کے مطابق مدت کا ر ڈھائی سال ہو گی ، اس درمیان اتار چڑھاؤ اور اُتھل پُتھل سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا، ہندوستان میں ہم مایا وتی اور بی جے پی کے درمیان نصف نصف مدت کے لئے اقتدار کے سمجھوتے کے اثر کو دیکھ چکے ہیں، جب مایا وتی نے نصف مدت گذرنے کے بعد اقتدار کی منتقلی سے انکار کر دیا تھا، ہم نے محبوبہ مفتی اور بی جے پی کے بے جوڑ اشتراک کا حشر بھی دیکھا ہے ، اس لیے یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ پر چنڈ آسانی سے اس سمجھوتہ پر عمل کے لیے تیار ہوجائیں گے ، اس قسم کے اشتراک کے پیچھے پر چنڈ کی یہ منشا بھی ہو سکتی ہے کہ ابھی تو خیر سے گذرتی ہے آگے کی خبر خدا جانے ۔
پر چنڈ کے اسی خیال کی وجہ سے ان کا وزیر اعظم بننے کا خواب پورا ہوا، ور نہ صحیح اور سچی بات تو یہ ہے کہ نیپالی کانگریس کے شیر بہادر دیو باکو وزیر اعظم ہونا چاہیے تھا؛ کیوں کہ دو سو پچھہتر(275)ارکان کی نیپالی پارلیمان میں دیوباکی پارٹی کو نواسی (89)سیٹیں ملی تھیں جب کہ پر چنڈ کی ماؤں وادی کمیونسٹ پارٹی صرف بتیس (32)سیٹیں ہی حاصل کر پائی تھی، انتخاب میں پرچنڈ اور دیو با کی پارٹی کا اتحاد بھی تھا، پر چنڈ بضد تھے کہ وزیر اعظم وہی بنیں گے اور صدر بھی انہیں کی پارٹی کا ہوگا، یہ بات دیو با نہیں مان سکتے تھے، اس لیے پر چنڈ اپنے پرانے کمیونسٹ ساتھی اُولی کے گھر پہونچ گیے اور وہاں ان کی دال گل گئی اور وہ وزیر اعظم کی کرسی پر براجمان ہو گیے۔اس واقعہ کو ہندوستانی سیاسی پس منظر میں دیکھیں تو جس طرح مہاراشٹر میں شیو سینا اور بھاجپا نے ساتھ الیکشن لڑا تھا؛لیکن کافی اتار چڑھاؤ کے بعد مہا اگھاری وکاس کی حکومت بن گئی اور وہ بھی شیو سینا کے ایک حصہ کی بغاوت کی وجہ سے ٹوٹ گئی، نیپال میں بھی ایسا ہی ہوا کہ الیکشن پر چنڈنے دیو با کے ساتھ لڑا اور حکومت اُولی کے ساتھ بنایا۔
ہندوستان کی طویل سر حد نیپال سے لگتی ہے ، پاسپورٹ کے بغیر آمد ورفت کی سہولت کی وجہ سے ہندو نیپال کی عوام کے رشتے ایک دوسرے سے انہتائی مضبوط ہیں اور کہنا چاہیے کہ ان کے درمیان بیٹی، روٹی کا رشتہ ہے، یعنی رشتہ داریاں اور تعلقات خوب ہیں، اور معاشی اعتبار سے ایک کا دوسرے سے رشتہ بھی مضبوط ہے، حکومتی سطح پر در آمد ، بر آمد کا تناسب اس قدر ہے کہ ہندوستان ، نیپال کا سب سے بڑا تجارتی شریک ہے ، 2021ءمیں نیپال جن اشیاءکی سپلائی غیر ملکوں میں کرتا ہے، اس کا 53.1فی صد ہندوستان کو برآمد کیا تھا، اور ہندوستان سے اس نے 68.3فی صد در آمد کیا تھا۔
1996سے 2006تک نیپال خانہ جنگی کا شکار تھا، ہندوستان نے اس بد ترین صورت حال کو درست کرنے میں اہم رول ادا کیا تھا، نومبر 2006میں نیپال کی حکومت اور سات ماؤنواز پارٹیوں کے درمیان نئی دہلی میں ایک معاہدہ پر دستخط کے نتیجے میں وہاں پھر سے جمہوری حکومت کے قیام اور استحکام کی راہ ہموار ہوئی تھی اور اس کا سارا سہرا ہندوستان کو جاتا ہے ؛ لیکن پر چنڈ اور اُولی ہندوستان کی اس جد وجہد کو ماضی میں فراموش کرتے رہے ہیں، ان کا جھکاؤ چین کی طرف زیادہ ہے، انہوں نے اپنے سابقہ دور میں ہندوستان کے کالا پانی ، لییو لیکھ لمپا دھورا پر اپنا دعویٰ پیش کر دیا تھا اور نیپال کے نقشہ میں ان علاقوں کو شامل کر دیا تھا، ہند نزاد نیپالی شہری مدھیشی کا معاملہ بھی ان کے دور میں گرمایا تھا، اگر ان کے نظریات میں تبدیلی ہوئی تو ہندوستان سے تعلقات اچھے رہیں گے ، اور اس کی ہمہ جہت ترقی کی راہ ہموار ہو سکے گی اور اگر نیپال نے چین کا رخ کیا تو یقینی طور پر ہندوستان سے تعلقات بگڑ یں گے ، کیوں کہ ہند، چین تنازعہ ان دنوں شباب پر ہے اور دشمن کے دوست کو دشمن سمجھنے کی روایت قدیم ہے، اس کا خمیازہ نیپال کو بھگتنا پڑے گا ، کیوں کہ چین کی پالیسی ملکوں کو قرض کے جال میں پھنسا کر اسے بے بس کرنے کی رہی ہے، اسے سری لنکا کے حالات وواقعات سے سبق سیکھنا چاہیے، ہندوستان سے دوستی نیپال کے لیے ہر حال میں خیر کا باعث ہوگا۔وزیر اعظم نریندر مودی کا پر چنڈ کو سب سے پہلے مبارک باد دینے کی یہی معنویت ہے۔

جمعہ, جنوری 13, 2023

ایس آر میڈیا کے ایڈمن قمر اعظم صاحب سے علیزے نجف کی ایک ملاقات

ایس آر میڈیا کے ایڈمن قمر اعظم صاحب سے علیزے نجف کی ایک ملاقات
اردو دنیا نیوز٧٢ 
۔
معاشرے کی روایت و ثقافت اور انسانی اقدار و کردار کو بہترین اعلی اسلوب پیش کرنے کو ادب کہا جاتا ہے، تمام زبانوں کی طرح اردو ادب کی بساط پہ بھی طبع آزمائی کا سلسلہ سالہا سال پہ محیط ہے جو کہ آج بھی جاری و ساری ہے، ایسے میں ضروری نہیں کہ ادب صرف وہی تخلیق کرتے رہے ہیں جنھوں نے اپنے شب و روز کو کتابوں کی نذر کر دیا ہے، ادب کی اپنی خاصیت یہ بھی ہے کہ اس کی چاشنی نے ہر شعبے کے لوگوں کو اپنا اسیر بنایا ہے، فکر معاش انھیں ادب سے غافل نہیں کر سکی، اس ضمن میں بےشمار شخصیات کے ساتھ قمر اعظم کا بھی نام لیا جا سکتا ہے جن کا اردو کے تئیں والہانہ رویہ قابل قدر ہے۔
قمر آعظم صاحب کا تعلق ہندوستان کی زرخیز سرزمین بہار سے ہے ان کی شخصیت کے کئی رخ ہیں جس میں وہ نشیب و فراز سے گذرے، زندگی کو اپنی شرط پہ جینے کی کوشش میں انھیں کئی طرح کے تلخ تجربات کا بھی سامنا کرنا پڑا  اس کے باوجود انھوں نے تیرگی کی چادر اوڑھ کر گمنامی میں کھونے کے بجائے زندگی کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا، بنیادی طور پہ وہ ایک تاجر ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک ادیب، شاعر و صحافی بھی ہیں ان کے فکر و علم کو متاثر کرنے والے یوں تو کئی شخصیات تھے لیکن ان میں ان کے والد، نانا، ماموں نے ایک اہم کردار ادا کیا ان کے سایہء عاطفت میں رہ کر ایک شاگرد کی طرح اپنی فنی صلاحیتوں کو مہمیز دی، آج ان کی تحریریں متعدد پلیٹ فارم پہ اپنے قاری پیدا کر چکی ہیں، لکھنے پڑھنے کے علاوہ دیگر ذرائع سے وہ اردو کی ترویج و ارتقاء کے لئے بھی ہمہ وقت کوشش کرتے رہتے ہیں اس کی ایک بہترین مثال ان کا فیسبک پیج 'ایس آر میڈیا' ہے جس کے ذریعے وہ نامور ادیبوں کی تحریروں کو ان کے قارئین تک پہنچانے کا کام کر رہے ہیں  خاص طور سے نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کی کوشش کر رہے ہیں ان کا یہ پلیٹ فارم  اردو ادبی دنیا میں اپنی ایک شناخت قائم کر چکا ہے۔
اس وقت قمر اعظم صاحب میرے سامنے ہیں میرے پاس ہمیشہ کی طرح سوالات کی ایک لمبی فہرست ہے یہ وہ سوالات ہیں جو ان کے حوالے سے اکثر قاری کے ذہن میں پیدا ہوتے ہیں، اس لئے اب ہم مزید ان کے بارے میں انھیں سے جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

علیزے نجف: سب سے پہلے میں چاہتی ہوں کہ آپ ہمیں خود سے متعارف کروائیں اور یہ بھی بتائیں کہ آپ کہاں سے تعلق رکھتے ہیں اور اس وقت کہاں مقیم ہیں؟

قمر اعظم:  احقر کا اصل نام قمر اعظم اور قلمی نام قمر اعظم صدیقی ہے ۔ تجارتی تعلق سے دکانداروں کے درمیان اعظم بھائ کے نام سے جانا جاتا ہوں ۔ میرے والد کا اسم گرامی شہاب الرحمن صدیقی ہے ۔ جنکی تعلیمی لیاقت ایم اے اردو ہے ۔ آپ گورنمنٹ ہائ اسکول میں اردو کے استاد‌ تھے ۔ اور ماضی قریب میں ہی سبکدوش ہوۓ ہیں ۔ میری والدہ ایک گھریلو خاتون ہیں ۔ جن کا اسم گرامی شاکرہ خاتون ہے ۔ اور آپ محمد داؤد
 حسن مرحوم ، حسن پور وسطی، مہوا ،  ویشالی کی صاحبزادی ہیں ۔ میرا آبائ وطن ریاست بہار کے تاریخی ضلع ویشالی میں شہر حاجی پور سے 10 کیلومیٹر کی دوری  پر  بدوپور بلاک کے موضع بھیرو پور میں واقع ہے ۔ یہاں ہندو مسلم دونوں آپسی پیار و محبت کے ساتھ آباد ہیں ۔ جس طرح کشمیر سیب کے لیے جانا جاتا ہے ٹھیک اسی طرح شہر حاجی پور بھی کیلے کے باغان کے لیے اپنی شناخت رکھتا ہے ۔ حاجی پور سے  مہنار جانے والی سڑک کے دونوں جانب کیلے کے باغان کے درمیان ہی یہ  بستی آباد ہے ۔ اور میں یہیں سکونت پذیر ہوں ۔ موضع میں ایک جامع مسجد اور دوسری قدیمی مسجد موجود ہے ۔ مسلم آبادی کی بات کی جائے تو یہ تقریباً 100 گھڑ  کی آبادی ہے  ۔ سبھی خوش حال ہیں ۔ ذریعہ معاش کےلیے زیادہ تر لوگ دوسرے شہر میں یا تو تجارت سے منسلک ہیں یا پھر ملازمت میں ہیں ۔ چند افراد کھیتی پر بھی منحصر ہیں ۔ چند لوگ گھر پر رہ کر ہی تجارت کو انجام دے رہے ہیں ۔ سرکاری ملازمت کی بات کی جائے تو میرے خانوادے سے ہی پانچ حضرات تھے جس میں دو اللہ کو پیارے ہو گۓ اور بقیہ تین ریٹائر ہو چکے ہیں ۔ اسکے علاوہ پورے موضع سے پانچ افراد سرکاری ملازمت  میں تھے جس میں ابھی دو ملازمت کر رہے ہیں ۔ 

علیزے نجف:  آپ کی تعلیمی لیاقت کیا ہے اس تعلیمی سفر کا آغاز کہاں سے ہوا اور اس سفر کو آپ نے کس طرح طئے کیا؟

قمر اعظم:  میں نے اردو سے" ایم اے " تک کی تعلیم حاصل کی ہے ۔ میرے تعلیمی سفر کا آغاز والد صاحب کے ذریعہ ہی ہوا ۔ الف ، با حرف تہجی کی شروعات والد صاحب نے ہی کرائ اور کلام پاک بھی والد صاحب کے زیر نگرانی مکمل ہوا ۔ پھر گاؤں کے ہی اردو مکتب میں داخلہ ہوا جہاں پر کچھ دن تعلیم حاصل کی پھر ایک کانونٹ میں داخلہ کرا دیا گیا ۔ پانچویں سے آٹھویں تک کی تعلیم موضع کے مڈل اسکول میں حاصل کی ۔ نویں اور دسویں کے تعلیم کے لیے موضع سے 3 کیلومیٹر کی دوری پر " جنتا اچ ودھیالیہ پانا پور دھرمپور " میں داخل ہو گیا وہیں سے میٹرک تک کی تعلیم مکمل ہوئ ۔ راج نارائن کالج حاجی پور سے آئ ۔ ایس ۔ سی بایولوجی کے ساتھ فرسٹ کلاس سے پاس ہوا ۔ لیکن آئ ایس سی کے درمیان میں ہی ایک واقعہ نے مجھے اس فیصلے پر مجبور کر دیا کہ اب مجھے نہیں پڑھنا ہے ۔ واقعہ کچھ یوں تھا کہ میں سائینس کے سبھی سبجیکٹ کا ٹیوشن کلاس کرتا تھا ۔ روزانہ گھر سے 10 کیلو میٹر کی مسافرت سائیکل سے ہی کرتا اور شہر حاجی پور میں کلاس کرتا تھا ۔ انہیں دو سالوں کے درمیان ایک بار تمام ہائ اسکول کے اساتذہ ہڑتال پر چلے گۓ اور یہ ہڑتال نو 9 ماہ رہ گیا ۔ ذریعہ معاش والد صاحب کی سیلری کے علاوہ اور کچھ تو تھا نہیں ۔ اس لیے مزید تین چار ماہ بعد ٹیوشن والے ٹیچر کی جانب سے پیسے کی مانگ آنے لگی تو میں نے تمام ٹیچر کو اپنی پریشانی بتائ ۔ الحمداللہ تین ٹیچر تو غیر مسلم تھے وہ سب میری مجبوری سمجھ گۓ اور اس کے بعد انہوں نے دوبارہ فیس اس وقت تک نہیں مانگی جب تک کہ ہڑتال ختم نہیں ہوا ۔ لیکن ایک ٹیچر مسلم تھے میں ان کا نام تو نہیں لوں گا لیکن انہوں نے مجھے فیس کے لیے بہت پریشان کیا ۔ جب کہ وہ خود بھی ہڑتال  پر تھے اور میرے والد سے بخوبی واقف بھی تھے ۔ لیکن الحمداللہ انکے کوچنگ کا معاملہ ایسا تھا کہ وہ اسی سے موٹی رقم اکٹھا کر لیتے تھے ۔ میرے تمام واجب اعتراضات کے باوجود ایک دن وہ سخت ہو گۓ اور فیس نہ لانے کی صورت میں کلاس میں نہ آنے کی بات کہ دی وہ بھی کلاس روم میں ہی سبھوں کے سامنے ۔ یہ بات مجھے بہت بری لگی اور میرے دل و دماغ میں ایسی پیوست کر گئ کہ میں نے اسی دن مکمل ارادہ کر لیا کہ انٹر کی تعلیم کے بعد نہیں پڑھنا ہے ۔ بہر صورت تمام باتیں والد صاحب کو بتائیں انہوں نے کسی سے قرض لے کر ان کا فیس ادا کرنے کو مجھے دیا ۔ تب میں اگلے دن کلاس میں گیا ۔ لیکن میرے ذہن و فکر میں یہ بات رہتی تھی کہ سرکاری ملازمت میں بہت زیادہ کچھ نہیں عزت کے ساتھ دال روٹی سے کسی طرح گزر ہو جاتا ہے اس لیے کوئ تجارت کروں گا اور والد صاحب کا سہارا بنوں گا ۔ ایسا سوچ کر میں نے انٹر کے بعد کسی کی بھی ایک نہ سنی ۔ والد صاحب نے ہر ممکن کوشش کی حتیٰ کہ دوسرے رشتہ داروں کا بھی سہارا لیا کہ کسی کی بھی بات مان لے اور تعلیم جاری رکھے ۔ لیکن میں بچپن سے ہی ضدی تھا اس لیے اپنے فیصلے پر اٹل رہا ۔ میرے اس فیصلے سے تمام لوگوں کو کافی ناراضگی بھی ہوئ ۔ پھر ایک سال آئ ٹی آئ میں وقت برباد کیا ۔ ایک سال بعد پھر والد صاحب ، تمام ماموں خصوصاً مجھلے ماموں ، نانا جان مرحوم کے بہت کاوشوں کے بعد این سی پی یو ایل کے ذریعہ چلایا جانے والا ایک سالہ کمپیوٹر ڈپلومہ جس کا مطالعہ مرکز امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ میں تھا اسے کرنے پر مجبور ہو گیا ۔ میرے شامل مامو زاد بھائی مناظر حسن بھی اس کورس کو کر رہے تھے ۔ قیام وہیں پھلواری میں ہی تھا ۔ لیکن مجھے اس میں بھی دلچسپی نہیں تھی ۔ کورس مکمل کر لیا اسکے بعد ذریعہ معاش کے لیے کچھ دن ادھر ادھر ٹھوکریں کھاتا رہا اور تمام رشتہ داروں کی کڑوی کڑوی باتیں بھی سنتا رہا ۔ ان سب کے درمیان جب کچھ رقم اپنے ہاتھ آئ تو مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد کے ذریعہ چلایا جانے والا فاصلاتی تعلیم ( بی اے ) میں داخلہ لیا جس کا مطالعہ مرکز  مظفر پور تھا ۔ شکیل چشتی صاحب اس کے کو آرڈینیٹر تھے ۔ وقت مقررہ پر آکر امتحان میں شامل ہوتا تھا ۔ اس طرح بی اے اور پھر ایم اے اردو تک کی تعلیم وہیں سے مکمل ہو گئ ۔ لیکن باضابطہ طور پر جس طریقے سے علم حاصل کرنا تھا وہ میں نہیں کر پایا ۔ جس کا ملال اب ہوتا ہے کہ کاش وقت پر والدین اور بڑوں کی بات مان لی ہوتی تو آج میں بھی کامیاب ہوتا ‌۔ لیکن شاید یہی میرا مقدر تھا ایسا سوچ کر دل کو تسلی دیتا ہوں ۔ 

علیزے نجف: ہر پتے کی پہچان درخت سے ہوتی ہے اسی طرح انسان کی پہچان میں اس کے خاندان کا ایک کردار ہوتا ہے میں چاہتی ہوں آپ اپنے خاندان کے بارے میں بھی بتائیں آپ کی شخصیت سازی میں آپ کے خاندان کی کن شخصیات نے کس طرح کا کردار ادا کیا؟

قمر اعظم: جی بالکل میری شخصیت سازی میں میرے والدین کا اہم رول ہے ۔ بچپن سے ہی والدین نے اچھے برے ، حلال و حرام ، جائز ناجائز ، خلوص و محبت ، چھوٹوں پر شفقت بڑوں کی عزت ، مہمانوں کا اکرام ، علماؤں کی قدر ، پڑوسیوں کے حقوق ، حق گوئی ، ایمانداری ، شکرگزاری ، صبر کی تلقین ، رشتہ داروں اور بھائ بہنوں کے ساتھ بہتر تعلقات رکھنا ، غرباء و مساکین کی مدد کرنا حتیٰ کہ تمام مثبت چیزیں سکھائیں جو انسان کے زندگی میں ہونی چاہیے۔ کئ ایسے مواقع میری زندگی میں آۓ جس پر بر وقت میری اصلاح کر دی گئ جس کے بعد دوبارہ میں نے اس کام کو نہیں کیا ۔ بچپن میں ایک دفعہ میں نے ایک پتھر اٹھا کر کتے کو مار ڈالا والد صاحب نے غالبًا دیکھ لیا کچھ دیر بعد اچانک میرے قریب آکر بغیر کچھ پوچھے میرے بالوں کو پکڑ کر زور سے کھینچا میری چیخ نکل گئی ۔ میں انہیں حیرت سے دیکھنے لگا اور پوچھا کہ میں نے کیا کیا ہے ؟ ۔ تب انہوں نے کہا کہ کتے نے کیا بگاڑا تھا کہ اسے پتھر مار ڈالا اسے بھی اسی طرح درد محسوس ہوا ہوگا ۔ میں سمجھتا ہوں اگر وہ مجھے بغیر درد محسوس کراۓ منع کرتے تو ممکن ہے اس بے زبان کے درد کا احساس نہیں ہوتا ۔ بچپن میں کسی دوسرے بچوں کے ساتھ کوئ لڑائ جھگڑا ہو جاۓ تو مجال ہے کہ والدہ یہ کہیں کہ اُس کی غلطی ہوگی ہمیشہ اپنے بچوں کو ہی بولتیں اور کہتیں کہ تمہاری ہی غلطی رہی ہوگی ۔ کبھی دوسرے بچوں سے پوچھا تک نہیں کہ کیوں ہوا ،  تم نے کیوں مارا ۔ انہوں نے اس طرح ہمیشہ عفو و در گزر کرنا سکھایا ‌۔ اس طرح کے بہت سارے واقعات نے تربیت عطا کیے ۔

 والدین کے علاوہ دادا دادی ، نانا نانی، چچا، ماموں اور استاد کا بھی میری شخصیت سازی میں حصہ رہا ہے ۔ لیکن والدین کے بعد ان تمام لوگوں میں سب سے زیادہ اہم کردار میرے نانا جان کا ہے ۔ میرے نانا جان ایک تعلیم یافتہ ، شریف النفس ، ایماندار ، با اخلاق ، مہمان نواز اور غریب پرور انسان تھے ۔ مہوا رجسٹری آفس میں آپ وثیقہ نویسی کے پیشے سے منسلک تھے ۔ پوری زندگی آپ نے اپنے پیشے میں رہ کر رزق حلال کو اپنایا ۔ حرام لقمہ کو کبھی اپنے نزدیک پھٹکنے نہیں دیا ۔ طالب علمی کے زمانے میں میں تعطیل کے زیادہ تر اوقات اپنے نانیہال حسن پور وسطی ، مہوا میں گزارتا تھا اور اپنے نانا جان کے پاس بیٹھ کر ان سے بہت ساری علمی ، مذہبی اور اخلاقی باتیں سنتا اور ان سے رہنمائ حاصل کرتا ۔ آپ چونکہ ادب نواز شخصیت کے مالک تھے اس لیے آپ سے بہت کچھ ادب بھی سیکھنے کا موقع ملا ۔ اسی طرح بڑے ماموں جناب انوار الحسن وسطوی صاحب کے ہمراہ بچپن سے ہی ادبی محفلوں میں شرکت کرتا تھا جس سے مجھے ادبی ذوق پیدا ہونے لگا اور یہی وجہ ہے کہ میں ادبی سرگرمیوں میں حصہ لینے لگا جس کے نتیجے میں گاہے گاہے کچھ لکھنے پڑھنے لگا ۔ ان کی رہنمائی اور حوصلہ افزائی کے باعث ہی میرا ادبی سفر جاری و ساری ہے ۔

علیزے نجف:  آپ فارمل تعلیم کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں اور انفارمل تعلیم کو کس قدر ضروری خیال کرتے ہیں اور اس کا اہتمام کرتے وقت کن بنیادی باتوں کا خیال رکھنا چاہئے؟

قمر اعظم:  ابتدائی تعلیم کی بات کی جائے تو انٹر تک یا اگر مدرسے کے بچوں کی بات کی جائے تو فوقانیہ تک کی تعلیم کو فارمل تعلیم ہی ہے ۔ اس کے اوپر کی تعلیم کے لیے بچوں کے ذہن اور ان کی دلچسپی کو دیکھتے ہوۓ ان کے گارجین کو یہ طۓ کرنا چاہیے کہ وہ اپنا کیرئیر کس جانب لے جانا پسند کر رہے ہیں ۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ فارفل تعلیم کے مقابلے انفارمل تعلیم حاصل کرنے کے بعد بچوں کے لیے غیر سرکاری اداروں میں ملازمت کے زیادہ امکانات رہتے ہیں خواہ وہ ٹیکنکل ہوں یا پروفیشنل دونوں جانب راستے ہموار ہیں ۔ بڑی بڑی پرائیویٹ کمپنیاں تو کالج سے ہی پلیسمینٹ کر لیتی ہیں اور ان کے بہتر پرفارم کو دیکھ کر ان کے سیلری  میں بھی اضافہ ہوتا رہتا ہے ۔ لیکن اسکا مطلب یہ بالکل بھی نہیں ہے کہ فارمل تعلیم کے بعد میں بچوں کا کیرئیر ڈارک ہے ۔ آج بھی بہت سارے طالب علم فارمل تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ مقابلہ جاتی امتحانات کی تیاری میں مصروف رہتے ہیں اور پھر حکومت کے مختلف محکموں میں جاب حاصل کر رہے ہیں ۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ حکومت کی لا پرواہی اور بڑھتی آبادی کی وجہ کر تمام طلبا کو وقت پر صحیح ملازمت نہیں مل پاتی ہے۔ بہر صورت مسلم بچوں کو خواہ وہ فارمل تعلیم حاصل کریں یا ان فارمل ساتھ میں دینی تعلیم تو حاصل کرنی ہی چاہیے تاکہ ان کے اندر حلال حرام ، جائز ناجائز ، اچھے برے ، پاکی ناپاکی ،شرعی غیر شرعی ، چھوٹے بڑوں کی تمیز آجاۓ ۔ ان ہی سب باتوں کا پورا پورا خیال رکھنا چاہیے ۔ 

علیزے نجف:  آپ کا پروفیشن کیا ہے اس پروفیشن کے ساتھ آپ ادبی سرگرمیوں کے لئے کیسے وقت نکالتے ہیں کیا آپ کے اندر کبھی یہ خیال پیدا ہوا کہ کاش میرا پروفیشن علم و ادب سے وابستہ ہوتا تو میں اس سے بہتر طریقے سے ادب کی خدمت کر پاتا ؟

قمر اعظم:  میرا ذریعہ معاش تجارت ہے ۔ میں ایک چھوٹے سے تجارت سے منسلک ہوں ۔ باتھ فٹنگ ( پلمبر ) کے چھوٹے سامان کی سپلائی کرتا ہوں ۔ اس کے لیے میری اپنی کوئ دکان دستیاب نہیں ہے ۔ ایک روم میں سامان مہیا رہتا ہے ۔ دکانداروں کے درمیان میں اپنے سامان کا نمونہ دکھا کر آرڈر لیتا ہوں اور پھر ان سامانوں کو وہاں تک پہنچاتا ہوں ۔ یہ تمام کام مجھے خود ہی کرنے پڑتے ہیں۔ یہی چھوٹا سا ذریعہ معاش ہے ۔ جب سے میں نے " ایس آر " میڈیا پیج بنایا مصروفیت بڑھ گئ کیوں کہ چھوٹے بڑے ، ادیب ،  شاعر ، صحافی ، دوست احباب ، علماء ، سماجی رہنماؤں اور تنظیموں سے جڑے لوگ ، نۓ قلمکاروں کی تحریریں اور نیوز سب آتی رہتی ہیں ۔ ان سب کو دیکھنا پڑھنا پھر اسے شائع کرنا آۓ ہوے کال کو رسیوں کرنا ۔ ان سے اطمینان بخش باتیں کرنا بہت مشکل امر ہے لیکن محبت اردو اور مخلصین کی محبتوں اور دعاؤں کی وجہ کر ہی یہ سب ممکن ہو پاتا ہے ‌۔ اس کے بعد جو وقت مل پاتا ہے اس میں کچھ آری ترچھی تحریریں لکھ لیتا ہوں ۔  

یہ خیال اکثر آتا ہے کہ کسی تعلیمی ادارے یا درس و تدریس سے جڑا ہوتا تو کاش اردو کے لیے زیادہ کچھ کر پاتا کیوں کہ میرے پاس وقت کی فراہمی زیادہ ہوتی ۔ ریسورس ہوتے ، رقم کی بھی فراہمی ہوتی تو شاید اور بھی بہتر انداز میں اردو کی خدمت کر پاتا‌ ۔ ابھی تو ریسورس کی اتنی کمی ہے کہ " ایس آر میڈیا " کے پاس سوائے موبائل کے ایک لائپ ٹاپ ،کمپیوٹر بھی موجود نہیں ہے جس سے بھی اردو ادب کا کافی نقصان ہے کیوں کہ زیادہ تر لوگوں کی تحریر میل پر ان پیج اردو میں آتے ہیں اور موبائل میں ان پیج اردو کھلنے کی کؤی شکل موجود نہیں ہے ۔ اس لیے بہت سے لوگوں کے پوسٹ " ایس آر میڈیا "  پیج پر شائع کرنے سے قاصر ہوں۔ ایس آر میڈیا پیج صرف اور صرف خدمت اردو اور محبت اردو کے لیے چلاتا ہوں نہ تو میری اس سے کوئ آمدنی ہے اور نہ ہی اس کو چلانے کے لیے کہیں سے کوئ مالی تعاون حاصل ہے ۔ ایک بار میں نے چند قارئین سے  ان کے واٹس ایپ نمبر پر مالی فنڈنگ کے سلسلےمیں مشورہ کیا تھا کہ اگر فنڈنگ ہو تو اردو کو فروغ دینے کے لیے کچھ زمینی سطح پر ایس آر میڈیا کے بینر تلے کام شروع کیا جاۓ ۔ لیکن لوگوں کی دلچسپی نہیں دیکھی اس لیے میں مزید ادب کی خدمت میں آگے قدم نہیں بڑھا سکا ۔  

 علیزے نجف: آپ کے اندر مطالعہ سے شغف پیدا کرنے میں کن عوامل نے اہم کردار ادا کیا کیا مطالعہ کرنے کا کوئی اصول بھی ہوتا ہے مشاہدہ کے تئیں آپ کا کیا نظریہ ہے کیا فقط دیکھنا ہی مشاہداتی صلاحیت کے ارتقاء کے لئے کافی ہے؟

قمر اعظم: دوران طالب علمی سے ہی میرے اندر ادبی ذوق کی وجہ میرے آیڈیل میرے بڑے ماموں جناب انوار الحسن وسطوی رہے ۔ کیوں کہ وہ غالباً چار دہائیوں سے اردو ادب سے وابستہ ہیں اور اس درمیان کئ تنظیموں سے منسلک رہے اور اب بھی ہیں ۔ بہت دنوں تک انجمن ترقی اردو ضلع ویشالی کے جنرل سیکرٹری کے عہدے پر فائز رہے اور فروغ اردو کے لیے دیوانے کی طرح کام کرتے رہے ۔ ابھی وہ کاروان ادب حاجی پور کے جنرل سیکرٹری ہیں ۔ انکی آٹھ تصانیف منظر عام پر آچکی ہیں ۔ وہ کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں ۔ ان ہی کو دیکھ کر ان سے سیکھ کر مجھے تحریک ملی اور دوران طالب علمی سے ہی کچھ تحریریں ، شعر و شاعری میں بھی طبع آزمائی کی پھر اسے خیر باد کہہ دیا ۔ لیکن نثر کی دنیا میں گاہے گاہے کچھ لکھتا پڑھتا رہتا ہوں ۔ 

میں نے اب تک کوئ بھی ایسی کتاب کا مطالعہ نہیں کیا جس سے کہ آپ کو بتا سکوں کہ کون سا وصول درست اور صحیح ہوتا ہے ۔ آپ کے اندر جزبہ ہو تو دیکھ کر بھی آپ بہت کچھ کر سکتے ہیں ۔ بس ارادہ نیک اور خلوص سے بھر پور ہونا چاہیے۔ " ایس آر میڈیا " پیج بنانے کے بعد میرا مشاہدہ یہ کہتا ہے کہ ارادہ سچا اور پکا ہو تو کامیابی خود بخود منزل چھو لیتی ہے ۔ الحمداللہ سترہ ماہ کے اس ادبی سفر میں مجھے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا ۔ بڑے ادیبوں ، شاعروں ، علماؤں ، سماجی رہنماؤں سے شناسائی ہوئ ہے ۔ اس سے قبل نہ میں کسی کو جانتا تھا اور نہ ہی لوگ مجھے جانتے تھے ۔ آج میری پہچان ایس آر میڈیا پیج کی وجہ سے ہوئ ہے نہ کہ میری تخلیق سے اس لیے آپ کچھ ایسا کریں جس سے دوسروں کو بھی استفادہ ہو ۔ آج الحمداللہ ایس آر میڈیا کے پلیٹ فارم سے ہزاروں قارئین اردو پڑھ لکھ رہے ہیں اور ان کے علم میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ انسان شہرت کی خواہش چھوڑ کر خلوص کے ساتھ کام کرے تو اس کام میں کامیابی تو یقینی ملتی ہے اور آپ کے کام کی خوشبو آپ کو خود بخود شہرت کی منزل تک پہنچا دےگی ۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ شہرت کی چاہ چھوڑ کر آج زمینی سطح پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

علیزے نجف:  آپ مطالعہ کرنے کے لئے کس طرح کتابوں کا انتخاب کرتے ہیں اور کن موضوعات پہ پڑھنا آپ کی پہلی ترجیح ہوتی ہے اور کیا ایسی کتابیں بھی ہیں جو آپ کی پسندیدہ ہیں جسے آپ بار بار پڑھ کے بھی تشنگی محسوس کرتے ہیں؟

قمر اعظم:  مطالعہ کے لیے کسی خاص کتابوں کی درجہ بندی نہیں ہے ۔ سچ تو یہ ہے کہ اپنی الجھنوں میں پڑھنے کا وقت ہی نہیں ہے لیکن مختصر وقت میں جو کتاب میسر ہوتی ہے پڑھ لیتا ہوں ۔ خصوصاً مخلصین کے ذریعہ بھیجے گۓ کتابوں کو پہلی فرصت میں پڑھ لینے کی کوشش کرتا ہوں ۔ بعض دفعہ اس میں بھی کافی وقت لگ جاتا ہے جس کے سبب کتابوں پر اپنا اظہار خیال نہیں کر پاتا ہوں ۔ جس کی لوگوں کو دلشکنی بھی ہوتی ہوگی ۔ لہذا آپ کے اس انٹرویو کے ذریعہ ان لوگو سے معزرت کا اظہار کر رہا ہوں ۔

علیزے نجف:  آپ ایسے ادیب کے طور پہ جانے جاتے ہیں جو اردو سے والہانہ محبت کرتے ہیں اس وقت اردو ادب کو جو مسائل درپیش ہیں اس کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے کیا اردو کی تنزلی کی وجہ حکومت کی عدم توجہی ہے یا یہ خود اردو داں طبقے کی بے رغبتی سے اس حال کو پہنچی ہے؟

قمر اعظم:  سب سے پہلے تو میں یہ واضح کر دوں کہ نہ میں کوئ ادیب ہوں ، نہ صحافی ہوں ، نہ شاعر ہوں ، نہ افسانہ نگار ہوں ۔ بس ایک ادنی سا ادب کا طالب علم ہوں ۔ یہ سب لقب تو آپ جیسے مخلصین نے دے دیا ہے ورنہ احقر کا ان سب سے دور دور کا بھی واسطہ نہیں ہے ۔ بس گاہے گاہے کچھ لکھ پڑھ لیتا ہوں ۔ رہی بات اردو ادب کے زبوں حالی کی تو غیروں سے کیا شکوہ اور کیا رونا 

کافی مشہور شعر ہے : 

" خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی 
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا " 

حکومت کا رونا تو ہم بعد میں روینگے پہلے ہم اردو والے اپنی ذات سے کیا کچھ کر رہے ہیں ؟ 

نہ تو ہمارے گھروں میں اردو بول چال کی زبان ہے ۔ نہ تو اپنے بچوں کو ابتدائی تعلیم اردو میں دلوائی جاتی ہے ۔ نہ ہی ہما رے گھروں میں اردو اخبارات ، رسائل خریدے جاتے ہیں ۔ نہ ہی تقریبات کے دعوت نامے اردو میں چھپواۓ جاتے ہیں ۔ نہ ہی ہمارے گھروں پر نیم پلیٹ اردو میں موجود ہے ۔ نہ ہی ہم سوشل میڈیا پر اپنے پیغامات اردو میں بھیجتے ہیں ۔ نہ ہی موبائل کے اندر لوگوں کے نام اردو میں لکھتے ہیں ۔ نہ ہی ہم دفتروں میں درخواست اردو میں دیتے ہیں ۔ معاف کیجیے گا اب تو بہت سارے گھروں میں عربی کی تعلیم ( قرآن کریم ) سےبھی محرومی ہے ۔ اب آپ ہی بتائیں کہ اتنی ساری خامیاں تو میرے اندر موجود ہیں تو حکومت سے شکوہ کیسا ؟ 

اوپر میں درج تمام مسائل کو درست کرکے عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے تب اپنی فریاد لے کر حکومت کے پاس جائیں ۔ 

اردو کے فروغ کے نام پر پورے ہندوستان کا جائزہ لیں تو ہزاروں کی تعداد میں تنظیمیں موجود ہیں اور اردو کے فروغ کے نام پر کڑوروں روپیہ پانی کی طرح بہا دیا جاتا ہے ۔ جس کا حاصل سواۓ شہرت ، ناموری ، عہدہ کی لالچ کے کچھ بھی نہیں ہے ۔ میں یہ نہیں کہتا کہ تمام کے تمام ادارے اور تنظیمیں غلط ہی ہیں ۔ چند ایسے بھی ہیں جو اپنے تئیں بہت بہتر کام کر رہے ہیں ۔ اردو کے فروغ کے نام پر شاندار مشاعروں کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔ درجنوں شعراء کرام کو مدعو کیا جاتا ہے اور محض چند گھنٹوں کے لیے ان کو دس ہزار سے لے کر لاکھوں روپیے نذرانے کے طور پر دیا جاتا ہے ۔ اور اس طرح ایک ہی رات میں ایک پروگرام کو سجانے میں لاکھوں روپیے برباد کر دیے جاتے ہیں ۔ معاف کیجیے اس میں چند تو شاعر اور شاعرات کے نام پر گویّا ہوتے ہیں ۔ معاف کیجیے گا میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ اس طرح کے پروفیشنل شاعروں کے ذریعہ کس طرح اردو کو فروغ حاصل ہو سکتا ہے ؟ کاش کہ ان سب پیسوں کا استعمال مسلم معاشرے کے غریب بچوں کی تعلیم پر کیا جاتا تو اس قوم کی اتنی بدتر حالت نہیں ہوتی ۔ اسی طرح کہیں جلسے جلوس کے نام پر تو کہیں عرس کے نام پر تو کہیں سمینار اور کانفرنس کے نام پر ، خصوصاً شادی کی تقریبات میں لاکھوں لاکھ غیر ضروری خرچ کر دیا جاتا ہے ان سب کا صحیح استعمال کر کے مسلم معاشرے کی تعلیم پر کر دیا جاۓ تو ایک انقلاب برپا ہو جاتا ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ بغیر نام و نمود کے خلوص کے ساتھ زمینی سطح پر کام کیا جاۓ ۔ شہرت اور اخبارات میں نام شائع کرانے کے لیے تو بہت کام ہو چکا ۔ ان سب کاموں کے لیے نئ نسل کو آگے آنے کی ضرورت ہے ۔

علیزے نجف: زبانیں انسان کی ضرورت کے لئے پیدا ہوئی ہیں اور اسے انسانوں نے ہی پروان چڑھایا ہے زبان بھی نشیب و فراز سے گزرتی ہے اس وقت زبان کی سطح پہ جو بگاڑ پیدا ہو رہا ہے اس کو روکنے کے لئے کس طرح کی حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے؟

قمر اعظم: میں سمجھتا ہوں کہ اوپر کے تفصیلی جوابات کے بعد مزید اس سوال کا جواب الگ سے دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ اوپر کے تمام باتوں پر عمل پیرا ہو کر اپنے زبان کو باقی رکھا جا سکتا ہے ۔ ہمیں اپنے زبان کی حفاظت کے لیے خود ہی آگے آنا ہوگا حکومت کی گندی پالیسی اور بد نیتی کا واضح طور پر ہم لوگ مشاہدہ کر رہے ہیں ۔ ہمیں آگے آنا ہوگا تبھی ہماری زبان بھی زندہ رہے گی اور ایک صاف و شفاف معاشرے کی تشکیل عمل میں آسکتی ہے ۔

علیزے نجف: آپ نے اردو ادب کی بساط پہ اب تک مختلف موضوعات پہ بہت کچھ لکھا ہے آپ کی ایک کتاب بھی اشاعت کے مراحل میں ہے میرا سوال یہ ہے کہ ادب معاشرے کو کس طرح متاثر کرتا ہے ادب کے ذریعے معاشرتی روایتوں کو کس طرح زندہ رکھا جا سکتا ہے کیا موجودہ دور میں تخلیق کیا جانے والا ادب بدلتے زمانے کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرنے میں کامیاب ہے؟

قمر اعظم: ادب معاشرے کو بڑی حد تک متاثر کرتا ہے۔دراصل ایک جانب ادب معاشرے کو متاثر کرتا ہے اوردوسری جانب معاشرہ ادب کو متاثر کرتاہے۔ ہر عہد میں آپ دیکھیں گے کہ اس عہد کا ادب اس عہد سے کہیں نہ کہیں متاثر ہے۔سماج و معاشرے کے اندر ملک و قوم کے اندر اور ملک و بیرون ملک جو بھی فضا قائم ہوتی ہے ادب میں اس کا عکس نظر آتا ہے ۔ اپنے عہد کی ترجمانی کیے بغیر کوئی ادب بہت دور تک نہیں جاسکتا ۔ اس کی حیات بھی بہت لمبی نہیں ہوسکتی ۔ رہی بات ادب کے ذریعہ معاشرتی روایتوں کو زندہ رکھنے کی تو یہ معاملہ فنکار کی حسّیت سے تعلق رکھتا ہے ۔ ہمارا فنکار چاہے وہ فکشن نگار ہوکہ شاعر یا پھر ناقد وہ اپنے معاشرتی روایتوں کو کس انداز میں جذب کررہا ہے یہ اس کے ثواب دید پر منحصر ہے ۔ آپ کے سوال کا آخری حصہ کہ کیا موجودہ دور میں تخلیق کیا جانے والا ادب بدلتے زمانے کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرنے میں کامیاب ہے؟ ایک چبھتا ہوا سوال ہے ۔ یہ سوال اتنا اہم ہے کہ اس پر گفتگو ہونی چاہیے ۔ اگر آپ میرا نقطۂ نظر جاننے کی کوشش کریں گی تومیں یہ کہوں گا کہ ہمارا آج کا ادب بدلتے زمانے میں ٹیکنولوجی کے اعتبار سے تو زمانے کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرنے میں کامیاب ضرور ہے ۔ لیکن مسائل مواد معاملات موضوعا ت وغیرہ کے اعتبار سے یہ زمانے سے پیچھے چل رہا ہے ۔ زمانہ نے جس انداز میں کروٹ لی ہے ہمارا ادب اس انداز میں اپنے تیور دکھانے میں ذرا پیچھے ہے۔ملک و بیرن ملک سماجی ناہمواری سماجی طبقہ بندی اورزبان کو لسانیات کے تعلق سے جو اختلافات گاہے گاہے سر اٹھاتے رہتے ہیں ان کی سرکوبی کے لیے فی الوقت ہمارا ادب اس اندازمیں پیش پیش نہیں ہے۔

علیزے نجف: آپ ایک صحافی بھی رہے ہیں اس ضمن میں آپ نے بہت کچھ لکھا بھی ہے صحافی بننے کے لئے کن خوبیوں کا ہونا ضروری ہوتا ہے صحافت اور ادب میں آپ کن قدروں کو مشترک پاتے ہیں کیا ایک صحافی کے لئے اعلی ادبی اسلوب کا حامل ہونا ضروری ہے؟

قمر اعظم:  آپ کا سوال بجا ہے ۔ صحافی بننے کے لیے بس یوں سمجھیے کہ اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کر جاناہے ، اگر واقعی صحافی بننا ہے تو ۔  اور اگر جوتے چاٹنے ہیں تب توپھر کوئی بات نہیں ۔ کسی لیاقت کسی صلاحیت کسی ہمت کسی دلیری کسی بے باکی کی کوئی اور قطعی ضرورت نہیں ہے۔صاحب اقتدار کی چوکھٹ پر سجدہ کیجئے صاحب ثروت کی قصیدہ خوانی کیجئے اوربڑے صحافی ہونے کا تمغہ لے کر گھومتے رہیے۔دراصل صحافت وہ ہے جو سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ لکھ سکے ۔ زہرہلاہل کو شکرقند کہنے والے کچھ اور تو ہو سکتے ہیں صحافی نہیں ہوسکتے ۔ جہاں تک صحافت اور ادب میں قدروں کے مشترک ہونے کی بات ہے تو کوئی بھی ادب صحافت کے زینے کو چڑھ کر ہی اونچائی تک پہنچتا ہے ۔ ادب لکھنے میں بھی جو سچائی اورحقیقت نگاری کی ضرورت ہوتی ہے وہ صحافت کے ذیل میں ہی آتی ہے۔جہاں تک ایک صحافی کے لئے اعلی ادبی اسلوب کا حامل ہونا ضروری ہونے کی بات ہے تو یہ کہوں گا کہ اس سلسلے میں میری ذاتی رائے دوسروں سے ذرا مختلف ہے ۔ یہ تو صحیح  ہے کہ بغیر اسلوب کہ کوئی بات نہ تو کہی جاسکتی ہے اورنہ لکھی جاسکتی ہے ۔ اسلوب ہی تووہ چیز ہے جو ذرہ کو آفتاب بناتی ہے۔اسلوب کی چاشنی ہی کسی فنکار کو کوئی مقام دلاتی ہے اور اسلوب کی شگفتگی اور بے ساختگی کسی صحافی کو مقبول بناتی ہے ۔ دراصل اسلوب کا کام کشش پیدا کرنا ہے ۔ ایک صحافی کے لیے بھی اسلوب بڑی اہمیت کا حامل ہے ۔ لیکن صحافتی اسلوب اور ادبی اسلوب میں ذرا فرق ہے ۔ ادب میں جو اسلوب اختیار کیاجاتا ہے وہ ادب میں ادبیت کو برتر بنانے کے لیے کیاجاتا ہے ۔ صحافت میں راست گوئی زیادہ ہوتی ہے ۔ یہاں ادبی چاشنی پیدا کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی ہے ۔ اس لیے صحافت کے میدان میں اعلیٰ ادبی اسلوب کی ضرورت میرے نزدیک اہمیت نہیں رکھتی ہے ۔ سادہ صاف ستھری اور راست گوئی صحافت کا اصل ہتھیار ہے۔

علیزے نجف:  آپ نے شاعری کی بساط پہ بھی طبع آزمائی کی ہے آپ کی غزلیں مختلف رسائل و جرائد کی زینت بھی بنیں پھر کیا وجہ تھی کہ فن شاعری میں ذوق اور صلاحیت رکھنے کے باوجود آپ نے درمیان سفر شاعری کو خیرآباد کہہ دیا کیا مستقبل میں شاعری کی طرف متوجہ ہونے کا کوئی ارادہ رکھتے ہیں؟

قمر اعظم: جی ہاں یہ سچ ہے کہ میں نے دوران طالب علمی شاعری بھی کی اور وہ روزنامہ کی زینت بھی بنی ۔ میرے شاعری کی شروعات حمد سے ہوئ ۔ سچ پوچھیں تو صنف شاعری کوئ آسان کام نہیں ہے ۔ ردیف ، قافیہ اور پھر اسکی تختی وزن ملانا یہ سب بہت ہی مشکل امر ہے ۔ اس کے لیے ایک شاعر کے اندر قابلیت سے زیادہ جنون کا ہونا بھی بہت اہم ہے ۔ کیوں کہ جب شاعر شعر کہتا ہے تو اس پر جنون کی سی کیفیت طاری رہتی ہے ۔ اس کے فکر و خیالات اپنے معاشرے کے ارد گرد گھومتے رہتے ہیں تب جا کر وہ اسکی پوری پوری عکاسی اپنے شعر کے اندر پیرونے میں کامیاب ہوتا ہے ۔ میں تو کہتا ہوں کہ صنف شاعری قابلیت سے نہیں بلکہ یہ ایک خدا داد تحفہ ہے کیوں کہ شعر و شاعری کا معاملہ قابلیت پر مبنی ہوتا تو تمام پڑھے لکھے لوگ شاعری کرتے لیکن ایسا نہیں ہے ۔ بڑے سے بڑا دقاق چاہ کر بھی ایک شعر نہیں کہ سکتا ۔ میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ تھا کہ ایک دن رات کے وقت اچانک کچھ اشعار ذہن میں آنے لگے جسے میں نے قلمبند کر لیا اور پھر اصلاح کے لیے استاد محترم جناب قوص صدیقی صاحب کو بزریعہ ڈاک بھیج دیا ۔ اصلاح کی ہوئ حمد موصول ہوئ کئ جگہ غلطیوں کی نشاندہی کی گئ تھی بہر صورت اصلاح کی ہوئ حمد کے جو اشعار تھے اس کے معنی و مقاصد کو تبدیل نہیں کیا گیا تھا ۔ استاد محترم نے حوصلہ افزائی بھی کی تھی اور یہ تلقین بھی کی تھی کہ خوب پڑھو ۔ پڑھتے پڑھتے ہی صلاحیت پیدا ہو گی اور اشعار کو گنگناؤ اس سے اس کے وزن کا اندازہ ہوگا ۔ اور پھر اس طرح گاہے گاہے کئ سالوں تک سلسلہ چلتا رہا اس درمیان کئ غزلیں اور دو تین نظمیں بھی کہیں ۔ ایک دفعہ کچھ دنوں کے لیے احمدآباد جانے کا اتفاق ہوا کسی تقریب میں ایک عالم دین سے ملاقات کا شرف ہوا انہوں نے میرے تعلق سے جانکاری حاصل کی ۔ ان کو جب میں نے اپنے بارے میں بتایا اسی بیچ شعر وشاعری سے شغف کا بھی ذکر ہوا تو انہوں نے منع کر دیا کہ غزل گوئی اچھی چیز نہیں ہے اس سے گریز کریں ۔ ہاں اگر اتنا ہی شوق ہے تو نعت شریف لکھیں نعت میرے بس کا نہ تھا اس لیے میں نے مکمل شاعری ہی بند کر دی ۔ مستقبل میں شاعری کی طرف متوجہ ہونے کا کوئی ارادہ بھی نہیں رکھتا ہوں ۔

علیزے نجف:  آپ کی اردو زبان و ادب سے حد درجہ محبت اب کسی تعارف کی محتاج نہیں رہی " ایس آر میڈیا " کے نام سے آپ کا فیس بک صفحہ کافی مقبولیت حاصل کر چکا ہے اس صفحے کی بنیاد رکھتے ہوئے آپ کی سوچ کیا تھی آپ محب اردو ہیں پھر کیا وجہ ہے کہ آپ نے اس کا نام انگریزی میں رکھا ؟

قمر اعظم: جی آپ نے درست فرمایا کہ " ایس آر میڈیا " پیج ہر روز اپنی بلندیوں کی جانب رواں دواں ہے اس کی خوشبو اپنے ملک ہندوستان سے کافی دور ساحلوں کو پار کرتی ہوئ بیرون ممالک تک پہنچ چکی ہے ۔ اس کے چاہنے والے اور پڑھنے والے یور پ ممالک تک میں موجود ہیں ۔ اور میری یہ دعا ہے کہ یہ پیج ملک کے کونے کونے تک مقبول ہوجاۓ تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس پر شائع تحریروں سے استفادہ حاصل کر سکیں ۔ اسکی بنیاد رکھنے کی وجہ خالص خدمت اردو اور نۓ قلمکاروں کی حوصلہ افزائی کرنا مقصود تھا جس سے اردو کا زیادہ سے زیادہ فروغ ہو سکے ۔ جس میں الحمداللہ میں کامیاب ہوتا بھی نظر آ رہا ہوں ۔ کئ نۓ قلمکاروں نے تو اب اپنا اردو ویب سائٹ بھی بنا لیا اور اس سے بھی اردو کا فروغ ہو رہا ہے ۔ یہ بھی کامیابی کی ضمانت ہے ۔

اس کا نام سنے میں تو انگریزی ضرور معلوم ہوتا ہے لیکن اس کی لکھاوٹ اردو میں کی گئ ہے ۔ " ایس آر میڈیا " در اصل دو نام کے ایک ایک حرف کو لے کر بنایا گیا ہے ۔ میری والدہ کا نام Shakra Khatun ہے تو میں نے ان کے نام کے پہلے حرف سے  ( S ) اور والد کا نام Shahabur  Rahman  ہے تو والد کے نام سے ( R ) کو لیا ۔ گویا اسی مناسبت پر " ایس آر میڈیا نام رکھا گیا ہے ۔ ایس آر نام سے قبل بھی میں نے اپنے دکان کا بورڈ " S R Lather " لکھوایا ۔ اور موجودہ تجارت  کا جی ایس ٹی رجسٹریشن بھی " S R Enterprises " سے ہی موجود ہے ۔ اسی نام سے بینک اکاؤنٹ بھی موجود ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ میرے جوابات سے آپ مطمئین ہو گئ ہونگی ۔ 

علیزے نجف:  ایس آر میڈیا کے ذریعے آپ اردو ادب کی جو خدمت کر رہے ہیں قابل ستائش ہے اس پلیٹ فارم پہ آپ نئے لکھنے والوں کی کھلے دل سے حوصلہ افزائی کرتے ہیں ان کی تحریروں کو پڑھتے ہوئے آپ کو اردو ادب کا مستقبل کیسا معلوم ہوتا ہے نئے لکھنے والوں میں کلاسیکی ادب کی چنگاری ملتی ہے یا وہ محض شہرت اور اشاعت کی غرض سے یو ہی لکھ دیتے ہیں؟

قمر اعظم: جی بالکل میں ایس آر میڈیا پیج کے ذریعہ نۓ لکھنے والوں کی رہنمائی کر رہا ہوں ۔ خوش آئیند بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے آنے کے بعد اردو لکھنے پڑھنے والوں کی تعداد کچھ بڑھی ہے لیکن اس کی تعداد بس اتنی ہی ہے جیسے سبزی میں نمک کی مقدار کیوں کہ فیس بک رپورٹ کے مطابق ایس آر میڈیا پیج پر 18 سے 24 کی عمر والے قارئین کی تعداد صرف 19.2٪ فیصد ہے ۔ اور 25 سے 34 کے عمر والوں کی تعداد 40٪ فیصد ہے ۔ عمر کے لحاظ سے دیکھا جائے تو نئ نسل ابھی اردو سے کافی دور ہے ۔ اور اگر ان لوگوں کی دلچسپی نہیں رہی تو دھیرے دھیرے یہ زبان زوال کی جانب چلی جاۓ گی ۔ بہر حال نئ نسل جو بھی لکھ رہی ہے کلاسیکی ادب موجود نہ صحیح لیکن ان کی صحیح رہنمائی ، حوصلہ افزائی کی گئ اور جو بچے بالکل ابتدائی دور میں ہیں ان کو حرف تہجی پڑھنے کے دور سے ہی دلچسپی دلائ جاۓ وقتا فوقتا ان کو انعام و اکرام سے نوازا جائے ، لکھنے پڑھنے اور بولنے کی مشق کرائی جاۓ تب جاکر اردو زبان پر عبور حاصل کرنا ممکن ہے ۔

علیزے نجف:  افسانے کی صنف میں بھی آپ کو کافی دلچسپی ہے آپ نے خود افسانے لکھے بھی ہیں آپ کو کیا لگتا ہے کیا ہمارے یہاں لکھے جانے والے افسانے زیادہ تر فینٹسی کی تخلیق کرتے ہیں جس سے قاری تصورات کی دنیا میں رہتے ہوئے کاملیت کی طرف مائل ہو جاتا ہے یا یہ زندگی کی تلخ حقیقتوں کی منظر کشی بھی کرتے ہیں آپ نے اپنے افسانوں میں زندگی کے کن پہلوؤں کو سمونے کی ازحد کوشش کی ہے؟

 

قمر اعظم:  میں نے بہت افسانے نہیں لکھے لیکن افسانہ لکھنے کا آئیندہ بھی ارادہ رکھتا ہوں ۔ انشاء اللہ جلد ہی کوئ نیا افسانہ بھی لکھوں گا ۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایک کامیاب افسانہ نگار وہ ہے جو اپنی کہانیوں کے ذریعہ معاشرے کی برائیوں اور خوبیوں کو اجاگر کرتا ہو اور اپنی کہانیوں کے ذریعہ بگرے ہوۓ معاشرے کو اچھائ کی راہ پر لانے کی کوشش کرتا ہو ۔ آسان اور سہل جملے میں لکھا گیا افسانہ جسے ہر قاری پڑھ کر ایسا محسوس کرتا ہو کہ یہ درد اس کا اپنا ہے ۔ اور جب کسی بھی انسان کو خود کا درد محسوس ہوتا ہے تبھی وہ دوسروں کے درد کو سمجھ سکتا ہے ۔ 

میں نے اپنے ایک افسانے میں غریب والدین کے درد کو بیان کیا ہے جس میں وہ اپنی جوان بیٹی کی شادی کو لےکر پریشان حال ہے ۔ قبل سے بھی بڑی بیٹی کی شادی کرنے کے بعد قرض کے بوجھ میں دبا ہے ۔ رقم نہ ہونے کی صورت اور لڑکے والوں کی فرمائش کی وجہ کر دوسری بیٹی کی شادی نہیں ہو پا رہی ہے ۔ قریبی رشتہ دار ، دوست احباب بھی اس کی مدد کو آگے نہیں آرہے ہیں ۔

علیزے نجف:  آپ کی ایک کتاب " غنچہء ادب "  دوسری آپ کی مرتب کردہ کتاب " برگ ہائے ادب " زیر اشاعت ہے ان دونوں کتابوں کے متعلق آپ ہمارے قارئین کو بتائیں اور یہ بھی بتائیں کہ لکھنے کی تحریک آپ کو کہاں سے ملی تھی اور اسے کتاب کی صورت دینے کے لئے آپ نے کس طرح کی جدوجہد کی؟

قمر اعظم: جی بےشک ان دونوں کتابوں کا مسودہ جمع ہے ۔ اسے شائع کر کے  منظر عام پہ لانے کی تیاری میں ہوں امید قوی ہے کہ منظوری مل جائے گی اور انشاءاللہ جلد ہی شائع ہوکر منظرعام پر آجاۓ گی ۔ پہلی کتاب" برگ ہاۓ ادب " کو میں نے ترتیب دینے کا کام کیا ہے ۔ اس میں 33 مضامین شامل ہیں اور تمام کے تمام ایس آر میڈیا پیج پر شائع شدہ ہیں ۔ جسے میں نے یکجا کر کے کتابی شکل دے دی ہے ۔ برگ ہاۓ ادب کے تعلق سے دربھنگہ ٹائمز کے اڈیٹر  منصور خوشتر لکھتے ہیں کہ : 

" کتاب میں جتنے بھی مضامین شامل کیے گۓ ہیں وہ بھرتی کے نہیں بلکہ مطالعہ طلب ہیں ۔ اردو قارئین کے معلومات میں بھی اضافہ کا سبب بن سکتے ہیں " 

دوسری کتاب " غنچہ ادب " ہے جس میں تمام وہ مضامین شامل ہیں جسے میں نے کسی نہ کسی موقع سے لکھا ہے ۔ یہ مضامین تین حصوں پر مشتمل ہے پہلا حصہ شخصیات ، دوسرا صحافت اور تیسرا حصہ تبصرہ ہے ۔ لکھنے کی تحریک اپنے بڑے ماموں جناب انوار الحسن وسطوی سے ملی ہے اور ان کی حوصلہ افزائی و رہنمائی بھی شامل رہتی ہے ۔ 

کتابی شکل دینے میں بہت زیادہ دشواریوں کا سامنا مجھے نہیں کرنا پڑا کیوں کہ برگ ہاۓ ادب کےتمام مضامین ایس آر میڈیا پر موجود تھے پھر بھی میں نے مضمون نگار سے اجازت لے لی اور ان سے " انپیج اردو " میل پر حاصل کر لیا ۔ جن کو انپیج دینا مشکل تھا اسے میں نے  خود ہی کمپوز کرا لیا اور پھر تمام کی کتابی سیٹنگ مفتی عرفان صاحب نے کر دی ۔ دونوں کتابوں کی ترتیب سیٹنگ ، پروف ریڈنگ سے لے کر مسودہ جمع کرنے تک کے مراحل میں میرے ماموں زاد بھائی عارف حسن وسطوی اور بڑے ماموں جناب انوار الحسن وسطوی پیش پیش رہے ۔ میں ان لوگوں کا ممنون و مشکور ہوں ۔ 

علیزے نجف:  زندگی گزارنا ایک فن ہے جسے بعض اوقات سیکھا بھی جا سکتا ہے آپ کو کیا لگتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں لوگ زندگی گزارتے ہیں یا زندگی انہیں گزارتی ہے کیا وجہ ہے کہ لوگ زندگی کا حق ادا نہیں کر پاتے اور اپنی پوری زندگی سعی لا حاصل کی تگ و دو میں گزار دیتے ہیں ؟

قمر اعظم:  اس تعلق سے اپنی رائے پیش کرنا بہت مشکل ہے کیوں کہ سبھوں کے زندگی گزارنے کے اپنے اپنے طور طریقے ہیں ۔ معاشرے میں غریب امیر متوسط طبقہ کے لوگ ، مہذب غیر مہذب ، دیندار بد دین ، سبھی رہتے ہیں اور سب کے جینے اور رہنے کا طریقہ ایک نہیں ہو سکتا ۔ مثال کے طور پر ایک بہت امیر شخص ہے لیکن غیر مہذب ہے تو اسے کوئ فرق نہیں پڑتا کہ اس کے جینے کے انداز سے ، اس کے حرکات و سکنات سے گھر والوں کو پڑوسیوں کو معاشرے کو دقت محسوس ہو رہی ہے ۔ وہ تو اپنی زندگی میں مست ہے ۔ 

دوسری جانب ایک مہذب اور غیرت مند انسان ہو لیکن وہ غریبی میں زندگی گزار رہا ہو تو وہ اپنی پریشانی ، فاقہ کشی ، بیماری اور حالات کو عین ممکن ہے کہ اپنے چہار دیواری کے باہر نہ جانے دے ۔ ٹھیک اسی طرح ایک ہی گھر میں الگ الگ مزاج کے لوگ ہوں ۔ ایک اگر شرافت کا شیوہ اختیار کیے ہوۓ ہے تو دوسرا اسکی شرافت کا ناجائز فائدہ اٹھا کر اسکا استحصال کر رہا ہوتا ہے ۔ اور پھر اسی طرح انسان  پوری زندگی سعی لا حاصل کی تگ و دو میں گزار دیتا ہے ۔  یہ بھی سچ ہے کہ زندگی گزارنا ایک فن ہے ۔ زندگی گزارنے کے طریقے کو سیکھنے کے لیے ہم لوگوں کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا مطالعہ کرنا  چاہیے ۔ ان سے بہتر  ہم لوگوں کے لیے دوسرا کوئ رہنما اور پیشوا  ہو ہی نہیں سکتا ۔

علیزے نجف: سوشل میڈیا ایک ایسا میڈیم بن چکا ہے جس کے ذریعے لوگ بڑی تیزی سے جڑ رہے ہیں اسکرین کی دنیا میں رشتے اور تعلق کی بہتات بآسانی دیکھی جا سکتی ہے وہیں دوسری طرف حقیقی زندگی میں تشنگی اور تنہائی بڑھتی جا رہی ہے آپ اس پورے منظر نامے کو کس طرح دیکھتے ہیں اور اس مشکل کا سد باب کیسے ممکن ہے؟

قمر اعظم:  یہ بات بالکل صحیح ہے کہ سوشل میڈیا کے آنے کے بعد خصوصاً پچھلے پانچ سالوں میں اسکرین کے سامنے زیادہ وقت گزارنے کی وجہ سے رشتے اور تعلقات کی بہتات میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ 

حقیقی زندگی میں تشنگی اور تنہائی بڑھنے کی وجہ صرف اور صرف موبائل کا زیادہ سے زیادہ استعمال ہی ہے ۔ اس کے لیے موبائل کے استعمال کو کم کرنا ہوگا۔ اور اپنے تمام معمول میں وقت کی پابندی لازمی کرنی ہوگی ۔ گھر والوں کے درمیان بیٹھ کر ان سے بات چیت کو لازمی بنانا ہوگا ۔ چند لمحے اپنے خویش و اقارب سے بھی گفتگو کے لیے نکالنے ہونگے ۔ 

علیزے نجف:   تفریح انسانی مشغلے کا ہی ایک حصہ ہے خالی اوقات میں جس کے لئے لوگ اہتمام کرتے ہیں آپ کا تفریحی مشغلہ کیا ہے کیا اس کے لئے آپ باقاعدہ وقت نکالتے ہیں یا اب تفریحی مشغلے مصروفیت کی نذر ہو چکے ہیں؟

قمر اعظم: جی میں آپ کی باتوں سے اتفاق کرتا ہوں کہ تفریح بھی زندگی کا ایک اہم حصّہ ہے اور اس کے لیے بھی وقت نکالنا چاہیے ۔ چند لوگ سیر و تفریح کو جاتے ہیں ۔ تو کؤی کھیل کے لیے وقت نکالتا ہے تو کوئ پارکوں میں وقت گزارتے ہیں ۔ میں باضابطہ طور پر اس کے لیے وقت نہیں نکال پاتا ہوں ۔ اور یہ سچ ہے کہ میرا خالی وقت سوشل میڈیا کی نذر ہو جاتا ہے ۔ 

علیزے نجف: ایک آخری سوال یہ انٹرویو دیتے ہوئے آپ کے احساسات کیا تھے سوالات کے متعلق کیا کہنا چاہیں گے اس کے ذریعے کوئی بات جو کافی دنوں سے آپ کے دل میں ہے کہنا چاہیں گے ؟

قمر اعظم:  پہلی دفعہ یہ موقع میسر ہوا کہ کسی کے انٹرویو کے جوابات دیے ہیں ۔ وہ بھی سوالات خود میں ایک جوابی کاپی کی مانند کیوں کہ ایک ساتھ بیس سوالوں کا جواب دینا وہ بھی روایتی انٹرویو سے جداگانہ الگ ہٹ کر ایک ہی سوال میں کئ کئ سوالات میرے لیے مشکل امر تھا وہ بھی اپنی مصروفیات کے درمیان لیکن علیزے نجف کی بار بار کی یاد دہانی اور محبتوں نے مجھے جوابات دینے پر مجبور کر دیا ۔ خیر مجھے آپ کو اپنا انٹرویو دے کر اچھا لگا کہ آپ نے زندگی کے بہت سارے شعبے پر اظہار و خیال کرنے کا موقع عنایت فرمایا ۔ اور میں نے ان تمام پہلوؤں پر اپنے دل کی آواز کو قلمبند کر دیا۔ لیکن یہ کوئ ضروری نہیں کہ تمام قاری میری باتوں سے اتفاق کرلیں کیوں کہ سب کے اپنے اپنے زاویے الگ الگ ہیں ۔
آپ کے تعلق سے اتنا کہنا چاہوں گا کہ محترمہ علیزے نجف نے ادیبوں شاعروں ، محققین سے جو انٹرویو کا سلسلہ شروع کیا ہے وہ اردو ادب کے لیے بہت ہی کارآمد ثابت ہوگا ۔ آپ کے اس تحقیق کو قدر کی نگاہوں سے دیکھا جانا چاہیے اور اس کی ستائش بھی ہونی چاہیے ۔ خدا کرے آپ اسی طرح کامیابی کی جانب گامزن رہیں ۔ خدا آپ کے حصے میں تمام وہ خوشیاں عطا کر دے جس کی آپ متمنی ہیں ۔ 

انٹرویو نگار : علیزےنجف

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...