Powered By Blogger

بدھ, جنوری 18, 2023

سائبر حملے ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف

سائبر حملے ___
اردو دنیا نیوز٧٢ 
مفتی  محمد  ثناء  الہدیٰ  قاسمی
 نائب  ناظم  امارت شرعیہ پھلواری شریف  
انٹرنیٹ کی سہولت ، ڈیجیٹل انڈیا بنانے کی مہم، کیش لیس کا روبار، مختلف ایپ کے ذریعہ رقم کی لین، دین، رقم منتقل کرنے کی آن لائن سہولتوں نے جرائم کی دنیا میں ایک اور جرم کا اضافہ کر دیا ہے، یہ جرم ہے سائبرحملہ ، اعداد وشمار کی چوری، بینکوں سے اے ٹی ایم کے ذریعہ لوٹ، فون، موبائل، وغیرہ کا ہیک کر لینا ، شاخ در شاخ سائبر حملے کی ہی مختلف قسمیں ہیں، ان حملہ آوروں او رہیکر کا اپنی مہم میں کامیاب ہوتے رہنا بتاتا ہے کہ سائبر تحفظ کے معاملہ میں ہم کافی پیچھے ہیں اور ہمارے نجی راز کی پرائیویسی معرض خطر میں ہے، سوشل سائٹس سے متعلق ایجنسیاں ، کمپنیاں اور ایپس چاہے ہمارے راز کی حفاظت کی جس قدر یقین دہانی کرائیں ،سچائی یہی ہے کہ ہم محفوظ نہیں ہیں۔
جن شعبوں پر سائبرحملہ آوروں کی سب سے زیادہ نظر ہے، ان میں بینکنگ، مالیاتی نظام اور بیمہ(BFSI)سر فہرست ہیں، سرکار نے پارلیامنٹ میں اس حوالہ سے جو تفصیل بیان کی ہے وہ انتہائی تشویشناک ہیں، ان تفصیلات سے سائبر حملوں کے رفتار پکڑنے کی تصدیق ہوتی ہے، اطلاع کے مطابق جون 2018ءسے مارچ 2022ءتک ہندوستانی بینکوں پر مجرمین کے ذریعہ دو سو اڑتالیس (248)سائبر حملے ہوئے، اعداد وشمار کی چوری کے یہ واقعات اکتالیس (41)عوامی دوسو پانچ(205) نجی اور دو(2) واقعات غیر ملکی بینکوں کے ذریعہ درج کرائے گیے، چند ماہ قبل اتر پردیش سائبر پولیس نے لکھنؤ کے عوامی کوپریٹو بینک کے کھاتے سے ایک سو پینتالیس(145)کروڑ رقومات کی غیر قانونی طور پر نکالے جانے کا پردہ فاش کیا تھا، اس معاملہ میں کئی تکنیکی ماہرین اور سابق بینک کارکن کی گرفتاری بھی عمل میں آئی تھی، ڈرینک کے نام سے اینڈ رائیڈ میل ویر نے تو حد کر دی کہ محکمہ ٹیکس کا نام لے لے کر اس نے اٹھارہ بینکوں کو نشانہ بنایا۔ اسی طرح ڈارک ویب پر بی ڈین کیش کے نام سے غیر قانونی ویب سائٹ کا پتہ اس وقت چلا جب ہیکرس نے نوے لاکھ سے زائد افراد کے کریڈٹ کارڈ کی تقسیم، مفت میں اپ لوڈ کر دیا تھا، سنگا پور کی سائبر تحفظ فورم جو کلاوڈسیک کے نام سے کام کرتی ہے، اس نے گذشتہ سال جاری قرطاس ابیض (حقائق پر مبنی رپورٹ) میں کہا ہے کہ امسال جتنے سائبر حملے پوری دنیا پر ہوئے ان میں 7.4فی صد ہندوستان پر کیے گیے، قومی بینکوں، کرپٹو اکسچینج ، والٹس ، این بی ایف سی (NBFC) کی معلومات کا افشا، کریڈٹ کارڈ کے ذریعہ غیر قانونی طور پر رقوم کی نکاسی سب ہندوستان میں سائبر جرائم ہی کا حصہ ہیں۔
 سائبر مجرمین کے لیے آسان نشانہ درمیانی اور نچلے درجے کے کاروباری ہوتے ہیں، کیوں کہ ان کے یہاں سائبر حملوں سے تحفظ کا اچھا انتظام نہیں ہوتا، با خبر ذرائع کے مطابق تینتالیس(43) فی صد سائبر حملے 2022ءمیں چھوٹی اور اوسط درجے کی صنعتوں پر کیے گیے، اپریل سے ستمبر 2022ءکے نصف تک 2.7لاکھ سائبر کرائم مختلف شعبہ حیات سے متعلق محکموں میں ہوئے، ان میں پٹرولیم بھی شامل ہے، یہ اطلاع 2022ءمیں سائبر ایپس کے ذریعہ شائع ایک رپورٹ میں دی گئی ہے، مجموعی طور پر گذشتہ سال ایک کروڑ اسی لاکھ (اٹھارہ ملین) سائبر حملے اور دو لاکھ سائبر سیکوریٹی تھریٹ کے واقعات ہندوستان میں ہوئے۔
 ہندوستان میں سائبر حملوں سے محکمہ صحت بھی محفوظ نہیں رہ سکا، اس پر گذشتہ سال انیس لاکھ سائبر حملے ہوئے ۔ 23 نومبر 2022ءکو حملہ آوروں نے ملک کے مشہور اسپتال ایمس دہلی پر حملہ کر دیا اور اس کے سارے ڈیٹا کو ہیک کر لیا جس کے نتیجہ میں اسپتال کے سارے سرور نے کام کرنا بند کر دیا، مریضوں کی پریشانی دور کرنے کے لیے کئی روز تک کمپیوٹر کے بجائے سارے کام ہاتھ سے کرنے پڑے، اس کے با وجود جو اعداد وشمار اور ڈیٹا چوری ہوگیے، اس کی تلافی مشکل قرار پائی، یہ اسپتال ڈیجیٹل کام کرتے ہیں، حملہ آوروں نے اس کی اس صلاحیت پر ہی حملہ بول دیا۔
 آئندہ اس قسم کے حملے کثرت سے ہوں گے۔ 5Gکے استعمال سے ان واقعات میں اور اضافہ ہوگا، ایک اندازہ کے مطابق 2025ءتک ہندوستان میں اٹھاسی ملین لوگ 5Gاستعمال کر رہے ہوں گے۔ لیکن صرف پندرہ ، سولہ فی صد ہی ایسے ادارے ہوں گے جو ان کو محفوظ رکھنے کی تکنیک سے واقف ہوں گے، ایسے میں سائبر کے تحفظ کے لیے مناسب اقدام کے ساتھ سائبر جرام کرنے والوں کے لیے مضبوط قانون سازی کی بھی ضرورت ہے، حکومت ہندکو ان حملوں سے بچنے کی ضرورت واہمیت پرکے مدنظر خصوصی توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔

منگل, جنوری 17, 2023

سیاسی ”یاترائیں“ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

سیاسی ”یاترائیں“
اردو دنیا نیوز٧٢ 
مفتی  محمد  ثناء  الہدیٰ  قاسمی  
 نائب  ناظم  امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
 راہل گاندھی کی ”بھارت جوڑو یاترا“ کا دوسرا دور شروع ہو گیا ہے، نفرت کے بازار میں ”محبت کی دوکان سجانے“ کے نام پر نکلی اس ”یاترا“ کا چرچا پرنٹ میڈیا ، الکٹرونک میڈیا پر خوب ہوتا رہا ہے، ملک میں اس کی وجہ سے کانگریس کی مقبولیت اور راہل گاندھی کی محبوبیت میں اضافہ ہوا ہے، راہل گاندھی نے اپنی اور اپنی پارٹی کی سیاسی بقا کے لیے اس ”یاترا“ کی شروعات کی تھی ، شاہزادہ کا ہزاروں میل پیدل چلنا آسان کام نہیں تھا، اور اس پر سخت ٹھنڈ میں صرف ایک شرٹ پہن کر ، زندگی کو خطرات بھی بہت تھے، کیوں کہ ان کا سفر نفرت کے بازار ہو کر ہوتا رہا ہے، ان کے تحفظ پر سوالات بھی اٹھتے رہے ہیں، کانگریس ان کے حفاظتی حصار میں چوک کا چرچا کرتی رہی ہے، جب کہ پولیس والوں کو ان کے ذریعہ حفاظتی حصار خود توڑنے کا شکوہ ہے، وزارت داخلہ کو محکمہ پولیس کے ذریعہ یہی رپورٹ سونپی گئی ہے۔
 راہل گاندھی کی یہ ”یاترا“ گذشتہ سال 7 ستمبر 2022ءکو کنیا کماری سے شروع ہوئی تھی، اب تک وہ نو ریاست کے چھیالیس (46)اضلاع کی ”پد یاترا“ کر چکے ہیں،مختلف ریاستوں سے گذر کر ایک سو پچاس دن میں یہ ”یاترا“ کشمیر پہونچے گی، اور تقریبا تین ہزار پانچ سو ستر(3570) کلو میٹر کا سفر پیدل طے کرے گی۔
 راہل گاندھی کی یہ سیاسی یاتر اپہلی یاترا نہیں ہے، اس سے قبل بھارت کے سابق وزیر اعظم سماجوادی قائد چندر شیکھر نے 6 جنوری سے 25جون 1983تک کنیا کماری سے راج گھاٹ نئی دہلی تک کا پیدل سفر کیا اور 4200کلو میٹر کی دوری پیدل طے کی تھی، یہ سفر کنیا کماری سے اس دن شروع ہوا، جس دن ان کی جنتا پارٹی نے کرناٹک میں شاندار جیت درج کی تھی، اس سفر کا اختتام ایمرجنسی کی آٹھویں سالگرہ پر کیا گیا ، اسی دن بھارت نے پہلی بار کرکٹ کا ورلڈ کپ بھی جیتا تھا۔
اس سفر نے چندر شیکھر کو سیاست میں نیا مقام دیا، پہلے وہ ایک جوان لیڈر کی حیثیت سے جانے جاتے تھے، جن کی ہندوستانی سیاست میں کوئی پکڑ نہیں تھی، اس سفرکے بعد سیاست میں ان کی اہمیت محسوس کی جانے لگی، راجیو گاندھی کی حکومت کے اختتام کے بعد 1989ءمیں وہ وزیر اعظم کے دعویدار بنے اور بالآخر وی پی سنگھ کی حکومت کے بعد وہ وزیر اعظم بننے میں کامیاب ہو گیے، ایک ایسے وزیر اعظم جو اس سے قبل کبھی کسی حکومت میں وزیر بھی نہیں رہ چکے تھے۔
سیاسی یاتراوں میں لال کرشن اڈوانی کی ”رام رتھ یاترا“ بھی تھی، یہ یاترا پیدل نہیں ایک بس کے ذریعہ 25 ستمبر سے 23 اکتوبر 1990ءتک چلی، مذہبی رنگ کی یہ یاترا منڈل کمیشن کی رپورٹ کے لاگو ہونے سے بھاجپا کو ہونے والے نقصان کی تلافی اور رام مندرتحریک تک کو تیزتر کے لیے سومناتھ مندر سے شروع ہوئی تھی، اسے اجودھیا پہونچنا تھا، لیکن اس وقت کے وزیر اعظم وی پی سنگھ کی ہدایت پر بہار کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ لالو پرشاد یادو نے اڈوانی کو سمستی پور میں گرفتار کر کے تاریخ رقم کر دی ، اس سفر کا فائدہ بھاجپا اور اڈوانی دونوں کو پہونچا، بھاجپا پہلی بار قومی پارٹی بننے کی پوزیشن میں آئی، پارلیامنٹ میں اس کی سیٹیں بڑھیں، وہ سیدھے ایک سو بیس(120)سے ایک سو پچپن(155)پر پہونچ گئی، اور اڈوانی اس سفر سے ملک گیر لیڈر بن گیے، وہ اٹل بہاری باجپائی سے آگے تو نہیں بڑھ سکے، لیکن نائب وزیر اعظم کے عہدے تک پہونچنے میں کامیاب ہو گیے، اس درمیان آر ایس ایس نے گجرات فساد کے بعد نریندر مودی کو وزیر اعظم کی حیثیت سے پیش کیا، وزیر اعظم کی کرسی تک پہونچنے کی لالچ نے اڈوانی کو ان کی مخالفت پر آمادہ کیا، یوں بھی نریندر مودی اڈوانی کی رتھ یاترا میں تقریر کرتے وقت ان کا مائیک پکڑے ہوتے تھے، مودی نے اس مخالفت کے نتیجے میں ان کو ”مارگ درشک منڈل“ میں داخل کر کے سیاسی طور پر الگ تھلگ کر دیا، ان کوانتخاب میں ٹکٹ بھی نہیں دیا، اڈوانی صدر جمہوریہ بننے کے خواہش مند تھے، وہ آرزو بھی ان کی پوری نہیں ہوئی، لالو پرساد یادو نے اپنی ایک تقریر میں اڈوانی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ آپ نے بابری مسجد توڑوائی ہے آپ کبھی وزیر اعظم نہیں بن سکتے، لالو پر ساد کی یہ پیشین گوئی حرف بحرف پوری ہوئی، آج اڈوانی زندہ تو ہیں،لیکن ہندوستانی سیاست میں ان کا وجود اور عدم برابر ہے۔
 ”سیاسی یاترائیں“ صوبائی بھی ہوتی رہی ہیں، صوبائی ”یاتراوں“ میں راجستھان میں وسندھرا راجے کی ”پربو رتن یاترا“ غیر منقسم آندھرا پردیش میں راج شیکھر ریڈی کی ”پرجا پرستھانم یاترا“ اور چندر ا بابو نائیڈو کی ”واستو نامی کی ہیم پدیاترا“ (میں آپ کے لیے آ رہا ہوں) کو خاص اہمیت حاصل ہے، ان یاتراوں کے ذریعہ ان لیڈروں کاوزیر اعلی کی کرسی تک پہونچنا آسان ہو گیا۔
 راجستھان میں وسندھرا راج نے اس وقت کے بھاجپا کے جنرل سکریٹری پرمود مہاجن کی ہدایت اور تحریک پر 2003میں گاڑی کے ذریعہ ”پریورتن یاترا“ کے نام سے تقریبا تیرہ ہزار (1300)کلو میٹر کا سفر کیا، اس سفر سے وسندھرا کی ریاست میں سیاسی لیڈر کے طور پر شناخت بنی ، اس سفر کے ذریعہ وسندھرا عوام کے قریب ہوئیں اور راجستھان کی دوسو اسمبلی سیٹوں میں سے ایک سوبیس (120)سیٹیں لے کر ریاست کی پہلی خاتون وزیر اعلیٰ بنیں۔
 غیر منقسم آندھرا پردیش میں سیاسی طور پر کانگریس کا زوال ہوا، اور تیلگو دیشم پارٹی حکومت پر دس سال تک قابض رہی ، ایسے میں کانگریس کے لیڈر وائی ایس راج شیکھر ریڈی نے 2003ءمیں ”پر جا پرستھانم یاترا“ شروع کی، دو ماہ تک سخت گرمی کے موسم میں انہوں نے پندرہ سو کلو میٹر سے زیادہ کا سفر کیا، عوام سے جُڑے ، عوام کی محبت انہیں ملی اور 2004ءاور 2009ءکے اسمبلی انتخاب میں انہوں نے تیلگو دیشم پارٹی پر بڑی فتح حاصل کی اور دوبارہ آندھرا پردیش کے وزیر اعلیٰ کی کرسی تک پہونچے، حالاں کہ جلدمیں ہی وہ ایک حادثہ میں آنجہانی ہو گیے تھے۔
 راج شیکھر ریڈی کی پدیاترا نے کانگریس کو اقتدار تک پہونچا دیا تھا، اور چندر ا بابو نائیڈو اقتدار سے بے دخل ہو گیے تھے، اس لیے نائیڈو نے راج شیکھر ریڈی والا نسخہ اقتدار میں پہونچنے کے لیے استعمال کیا اور 2013ءمیں ”واستو نامی کوسم“ کے نام سے ”پد یاترا “ شروع کی، دو سو آٹھ (208)دنوں میں انہوں نے دو ہزار آٹھ سو (2800)کلو میٹر کا پیدل سفر کیا، نو سال تک اقتدار سے باہر رہنے کے بعد اس ”پدیاترا“ کی برکت سے 2014ءکے اسمبلی انتخاب میں ایک دو سو (102)سیٹیں حاصل کرکے ان کی پارٹی نے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور چندرا بابو نائیڈو وزیر اعلیٰ کی کرسی تک پہونچ گیے۔
ہمارے وزیر اعلیٰ نتیش کمار بھی ”سیاسی یاترا“ کرنے میں ماہر ہیں، وہ اب تک بہت ساری ”یاترائیں“ کر چکے ہیں، ان میں ادھیکار یاترا، سیوا یاترا، نیائے یاترا، پرواس یاترا، دھنواد یاترا، وشواش یاترا، سماج سدھار یاترا اور سمادھان یاترا خاص طور پر قابل ذکر ہیں، ان یاتراوں سے ان کی پارٹی کو مضبوطی ملی، حکومت کو استحکام عطا ہوا، ترقیاتی کاموں کا زمینی جائزہ ممکن ہوا، اور کام میں کوتاہی برتنے والے کی تادیبی کارروائی کی گئی، پدیاتراووں کا ذکر مکمل نہیں ہوگا اگر 2 اکتوبر 2022ءسے جاری پرشانت کشور کی سوراج پدیاترا کا ذکر نہ کیا جائے، جو تمام سیاسی پارٹیوں کے خلاف ہو رہی ہے۔
 راہل گاندھی ان سیاسی یاتراوں کو تسلسل عطا کر رہے ہیں، ان کے ذہن میں ہے کہ یہ نسخہ ہندوستانی سیاست میں کم از کم پارٹی کو اقتدار تک پہونچانے میں کبھی فیل نہیں ہوا، ہے، اس لیے ”پد یاترا“ میں راہل گاندھی سخت اصول وضابطہ ہونے کے باوجود بڑی بھیڑ جمع کر پا رہے ہیں، جس سے کانگریس پارٹی کو اچھی توقعات ہیں، لیکن یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ بھیڑ جمع کرنا بڑی بات ہے،لیکن اس بھیڑ کو ووٹ میں تبدیل کرالینا بالکل دوسری بات۔

پیر, جنوری 16, 2023

کربِ آگہی __مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

کربِ آگہی __
اردو دنیا نیوز٧٢ 
مفتی  محمد  ثناء  الہدیٰ  قاسمی  
 نائب  ناظم  امارت  شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
 حال ہی میں سابق وزیرمشہور سیاسی قائد جناب عبد الباری صدیقی کے ایک بیان کی وجہ سے سیاسی گلیاروں میں بھونچال آگیا، انہوں نے ایک کانفرنس میں کہہ دیا تھا کہ ”ہندوستان اب رہنے کے لائق نہیں رہا، فرقہ وارانہ کشیدگی کا خطرناک وخوفناک ماحول تیزی سے پھیل رہا ہے ، اب یہاں امن پسند لوگوں کے لیے جینا محال ہو گیا ہے ، اس لیے میں نے اپنے بچوں سے( بیٹا جو امریکہ میں رہتا ہے اور بیٹی جو لندن میں رہتی ہے) کہا ہے کہ وہیں رہیں اور وہاں کی شہریت مل جائے تو وہاں کی شہریت بھی لے لیں۔“
 اس بیان پر جو تبصرے آئے اس میں غیروں نے دل کی بھڑاس نکالی اور انہیں پاکستان چلے جانے تک کا مشورہ دے دیا ، عظیم اتحاد کے بعض رہنماؤں نے اسے بز دلی سے تعبیر کیا اور انہیں اس ملک میں ان کی ذاتی حصولیابیاں گنائیں، یعنی انہیں اس ملک نے ایم ایل اے بنایا، وزیر بنایا وغیرہ وغیرہ، سب نے ان کے بیان کے ”اب“ کو نظر انداز کر دیا ، عبد الباری صدیقی کی قدر ومنزلت اور عہدے مناصب انہیں یہیں ملے، یہ ٹھیک ہے،لیکن وہ اس نفرت بھرے ماحول اور فرقہ واریت کی بات کر رہے ہیں، جو ”اب“ پیدا ہو گیا ہے، او ریہ کوئی ایسی بات نہیں ہے، جسے انہوں نے پہلی بار کہا ہے، اس ملک کے فلم ادا کار ، دانشور اور سیاست داں پہلے بھی اس بات کو با ربار کہہ چکے ہیں، ہر بار اس ملک میں ایسے بیان پر طوفان کھڑا ہوا ہے، راہل گاندھی بھارت جوڑو یاترا کے درمیان جب بار بار یہ کہتے ہیں کہ ”میں نفرت کے بازار میں محبت کی دوکان کھولنے نکلا ہوں“ تو وہ عبد الباری صدیقی کے فکر وخیال کی تائید ہی تو کر رہے ہیں، عبد الباری صدیقی محسوس کرتے ہیں کہ نفرت کی سودا گری اس ملک میں بڑھتی جا رہی ہے اور شاید ملک پر انی روش پر لوٹ نہیں پائے گا، اس لیے اپنے بچوں کو محفوظ مستقبل کے لیے ایک مشورہ دے ڈالتے ہیں جس کا انہیں پورا حق ہے، یہ صحیح بھی ہے کہ ایسا مشورہ انہیں نہیں دینا چاہیے تھا اور دیا تھا تو بر ملا اعلان نہیں کرنا چاہئے تھا، یقینا انہوں نے حق بات کہی، جیسا محسوس کیا ؛لیکن ساری حق بات کہہ دی جائے اس کا مکلف کوئی نہیں ہے، یقینا جب بولیں، حق بولیں، لیکن سارے حقائق بیان کر دینے کے ہم پابند نہیں ہیں، شاید اسی وجہ سے ہر بڑے عہدے میں رازداری کا حلف دلایا جاتا ہے اور چھوٹے دفاتر میں کارندوں سے راز مخفی رکھنے کی توقع کی جاتی ہے ۔
جناب عبد الباری صدیقی نے جو کچھ کہا ، اور جو کچھ ان کی زبان سے نکلا وہ ان کا کربِ آگہی ہے جو جملوں کی شکل میں ڈھل گیا اور بر سر عام نکل پڑا، در اصل با خبری انسان کو ہر معاملہ میں حساس بنا دیتی ہے، گھر میں بڑا سے بڑا حادثہ ہوجائے، بچے کھیلتے رہتے ہیں، پاس پڑوس بے خبر ہے تو اس پر بھی کوئی اثر نہیں ہوتا؛ لیکن خاندان کے ایسے افراد جو موت کے بعد کی جدائی اور حالات کی سنگینی سے با خبر ہوتے ہیں، ان کا دل روتا ہے، آنکھوں سے اشک بہتے ہیں اور ذہن ودماغ پر غم کی آندھیوں کا بسیرا ہوجاتا ہے، با خبری کے اچھے اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں، خوشی کی خبر پر ہر موئے تن سے مسرت کی لہر چلتی ہے اور طربیہ لمحات کے کیف وسرور میں آدمی ڈوب جاتا ہے، اس مثبت اثرات کو اللہ تعالیٰ نے بیان کیا اور فرمایا : اللہ کے بندوں میں علم والے ہی اللہ سے ڈرتے ہیں ، اللہ کی عظمت وجلال کا علم جس قدر بندوں کو ہوتا ہے ، اللہ کا خوف ، خشیت اسی قدر بندوں پر غالب ہوتا ہے، جو اللہ کی کبریائی اور قدرت سے نا واقف ہے اس پر یہ کیفیت طاری نہیں ہوتی ۔
 جناب عبد الباری صدیقی ہندوستان کے موجودہ حالات سے اچھی طرح واقف ہیں، اس لیے اس کے مضر اثرات نے انہیں کرب میں مبتلا کر رکھا ہے ، اور کرب کا بیانیہ جچے تلے جملے اور الفاظ میں نہیں ہوا کرتا وہ تو کبھی آہ کی شکل میں بھی نکل جاتا ہے، عبد الباری صدیقی کے حالیہ بیان کو اسی پس منظر میں دیکھا جا نا چاہیے۔

اتوار, جنوری 15, 2023

ایک قابل رحم انسانی آبادی

ایک قابل رحم انسانی آبادی 
اردو دنیا نیوز٧٢ 
آپ قومی شاہراہ نمبر۵۷ کے ذریعہ ارریہ ضلع ہیڈ کوارٹرآرہے ہیں تو شہر سے پہلے ٹول پلازہ ہےجہاں آپ کی گاڑی کچھ دیر کے لئے کھڑی ہوجاتی ہے، سامنے شہرارریہ ہے، بائیں جانب سڑک سے متصل ایک قابل رحم انسانی آبادی واقع ہے،ڈھائی سو برادران وطن جگی جھونپڑی میں رہتے ہیں ،مرد وخواتین سرپرہاتھ رکھےاپنےخیالات کی دنیا میں گم رہتےہیں،کوئی ان کا پرسان حال نہیں ہے،دیکھنے والی نظر کے لئے یہ بہت ہی تکلیف دہ منظر ہے، لوگ ان سے قریب ہوتے ہیں اور نہ ہی وہ  لوگوں سے قریب ہوسکتے ہیں، حکومت کوبھی ان کی فکر نہیں ہے، یہ سبھی جذام کی بیماری میں مبتلا ہیں۔
 ۱۹۸۴ء میں ریاستی حکومت نے انہیں شہر سے باہر لاکر یہاں آباد کیا تھا،جبھی سے یہیں آباد ہیں،  اس جگہ کو سبھی" کشٹ روگی محلہ"سے موسوم کرتے ہیں ،جبکہ اس گاؤں کا اصل نام "مدرٹریسانگر ہریابارہ،ارریہ" ہے۔
یہاں ہاسپٹل کی ایک عمارت بھی موجود ہےجو نہایت مخدوش ہےاور جلاون سے بھرا پڑا ہے، یہاں ڈاکٹر ہیں نہ علاج کا کوئی بندوبست ہے،عام لوگ تو ان جذامیوں سے دور تھے ہی اب یہ محسوس ہورہا ہے کہ حکومت بھی ان سے گھن کرنے لگی ہےاور فاصلہ بنا رہی ہے۔
پیام انسانیت فورم ارریہ نے انتظامیہ کو اس جانب متوجہ بھی کیا ہے۔صدر اسپتال ارریہ کےسول سرجن سے ملکر طبی خدمات بحال کرنے کی مانگ بھی کی ہے،موصوف نے وعدہ کیا ہے کہ ایک ڈاکٹر وہاں موجود رہیں گے۔خدا کرے کہ  ان متاثرین کےرستے ہوئے زخم پر مرہم رکھنے والا کوئی مسیحاجلد ہی انہیں نصیب ہو،آمین۔
 پچھلے چار پانچ سالوں سے پیام انسانیت فورم ارریہ خبر وخیریت لینے مدر ٹریسا نگر پہونچ رہی ہے،موسم کے لحاظ سے کپڑے،کمبل ادویات سے تعاون کررہی ہے،بچوں کی تعلیم کے لئے ایک چھوٹی سی جگہ متعین کی گئی ہے،اور مختصر پیمانے پر تعلیم کا انتظام بھی کیا گیا ہے، یہ سب کچھ جیب خاص سے کیا جارہا ہے۔جشن جمہوریہ وجشن آزادی کی خوشی کو پچھلے تین سالوں سےپیام انسانیت کے صدر جناب دیویندر مشرجی اور سکریٹری جناب مولانا مصور عالم صاحب ندوی مل بانٹ کر ان جذامیوں کےدرمیان ہی منارہے ہیں،امداد ہی نہیں بلکہ خبر وخیریت کی دریافت کےلئے بھی پیام انسانیت کی ٹیم مدر ٹریسا نگر پہونچ جاتی ہے، ملنا جلنا، گفت وشنید کرنا،حال واحوال پوچھنا بھی ان متاثرین کی مدد اورتعاون ہے، یہی وجہ ہے کہ جب ان کی خبر وخیریت پوچھتے ہیں تو انہیں بڑا تعجب ہوتا ہے،اور اپنے انسان ہونے کا شاید خیال انکے دل میں مضبوط ہوتا ہے،زبان سے یہ تاثر نہیں دے پاتے ہیں مگر انکی نمناک آنکھیں مکمل تصویر بیاں کرتی ہیں، بقول شاعر 
                 پھر مری آنکھ ہوئی نمناک 
              پھر کسی نے مزاج پوچھا ہے 
ارریہ پیام انسانیت فورم کے لئے یہ بھی خوشی کامقام ہے کہ انسان اور انسانیت کی ہمدردی رکھنے والے برادران وطن کی ایک قیمتی ٹیم بھی اس کے حصہ میں آئی ہے،ان کے ساتھ کام کرنے سے انسانیت کی جہاں خدمت کی جاسکتی ہے،وہیں  ملک سے نفرت کا بھی خاتمہ کیا جاسکتا ہے،ساتھ ہی مذہب اسلام کی صاف اور سچی تصویربھی پیش کی جاسکتی ہے، 
ترمذی شریف کی مشہور حدیث موجود ہے، ایک موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ باتیں گنائیں جنمیں ایک یہ تھی کہ" لوگوں کے لئے وہی چاہو جو تم اپنے لئے چاہتے ہو تو مسلمان بن جاؤگے"
عموما ہم یہی کہتے ہیں کہ مسلمان انسان کا ہمدرد ہوتا ہے، آج اس بات میں وہ دم اور زیر وبم نہیں ہے جو مذکورہ بالا حدیث کہتی ہے، یہاں مسلمان بننے کا باضابطہ ایک نسخہ بیان کیا گیا ہے،اور یہ صاف اعلان کیا گیا ہے کہ تمام انسانوں کی بھلائی کا جذبہ اپنے دل میں پیدا کرنا ایک مسلمان بننے کے ضروری ہے، اگر ایسا نہیں ہے تو یہ مسلمان ہونے کی راہ میں ایک بہت بڑی کمی ہے۔
آج ملک میں سب سے بڑی بھول ہم سے یہی ہورہی ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہم پر رحم وکرم اور پیار وشفقت کا معاملہ کیا جائے، مگرہم اپنی زندگی کا جائزہ لے رہےہیں اور نہ اپنا محاسبہ کررہے ہیں کہ ہم نے اس سلوک کے حقدار ہونے کے لئے انسانیت کی کونسی خدمت کی ہے اورکیاتیاریاں کی ہیں؟؟
 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ صاف فرمادیا ہے کہ جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا ہے،اس بات کی نصیحت بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو کی ہے کہ خدائی وآسمانی خاص مدد کو حاصل کرنے کے لئے زمینی کوشش ضروری ہے،پہلے مخلوق خدا پر رحم کرو پھرآسمان والا تم  پر مہربان ہوجائےگااور تمہاری محبت کو اس روئے زمین پر پھیلا دے گا۔
واقعی اس موقع پر حضرت علی میاں رحمۃ اللہ علیہ کی فراست ایمانی سمجھ میں آتی ہے کہ کتنا اہم اور قیمتی عنوان" تحریک پیام انسانیت " کاحضرت نے ہمارے حوالہ کیا ہے، آج اس بات کو محسوس کرنے کی بھی ضرورت ہے ،پیام انسانیت تحریک موجودہ وقت میں بھارت کے مسلمانوں کی شدید ترین ضرورت ہے۔ہم اس بات کو نہیں سمجھتے ہیں اور اپنی توانائی فضول جگہوں پر خرچ کررہے ہیں،جس کا حاصل کچھ بھی نہیں ہے،
دوسروں کے بیان پر اپنا سردھنتے ہیں کہ فلاں نے کیا کہا،کہ "فلاں مذہب کےلوگ خطرہ میں ہے"،اس بات کو ماننے کے لئے برادران وطن بھی تیار نہیں ہیں، ہم سب ملکر ایک ساتھ حضرت علی میاں کی زبان میں یہ کہیں کہ:آج انسانیت خطرہ میں ہے،اس بات کو ماننے کے لئے سبھی تیار ہیں ، انسانی ہمدردی کے نام پر اپنا مال اور اپنی جان لیکر  برادران وطن بھی ہمارے شانہ بشانہ چلنے کو تیار ہیں، ذرا انہیں آواز تو دیجئے!!!

             نہ تھی امید ہمدردی کی جن سے
              وہی تقدیر سے ہمدرد نکلے

ہمایوں اقبال ندوی 
ترجمان؛آل انڈیاپیام انسانیت فورم، ارریہ 
رابطہ؛9973722710

آتش بیانی __مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

آتش بیانی __
اردو دنیا نیوز٧٢ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی  
نائب  ناظم  امارت  شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
آتش بازی اور آتش بیانی دونوں پر ہندوستانی عدالت نے بعض شروط وقیود کے ساتھ پابندی لگا رکھی ہے، لیکن نہ تو آتش بازی رک پا رہی ہے اور نہ ہی آتش بیانی، آتش بازی کے اثرات فضائی آلودگی کی شکل میں ہماری زندگی کے لیے خطرات پیدا کر رہے ہیں، اور آتش بیانی نے اس ملک کے ماحول کو نفرت انگیز بنا دیا ہے ، جس سے یہاں کی جمہوریت ، سیکولزم اور ملک کی یک جہتی کو نقصان پہونچ رہا ہے ، جس طرح فضائی آلودگی سے سانس لینا دشوار ہوجاتا ہے اسی طرح نفرت انگیز ماحول میں زندگی گذارنا مشکل ہوتا ہے ۔
 خطابت میں جوش بیان مطلوب ہوتا ہے ،اور عوام بھی ایسی تقریروں سے متاثر ہوتی ہے؛ لیکن اس جوش بیان کا تعلق جب نفرت انگیز مواد سے جڑ جاتا ہے تو وہ آتش بیانی بن جاتی ہے ؛جس سے خرمن امن وسکون جل کر خاکستر ہو جاتا ہے۔ کرناٹک کے شیو موگا میں بھوپال سے رکن پارلیمان پرگیہ ٹھاکر نے جو تقریر کی وہ اسی ذیل میں آتی ہے، وہ وہاں ”ہندوجاگرن ویدیکے“ کے ایک جلسہ سے خطاب کر رہی تھی، پرگیہ ٹھاکر 2008ءمیں مالی گاؤں بم دھماکہ کی خاص ملزمہ ہے، جس میں چھ افراد ہلاک اور ایک سو سے زائد زخمی ہوئے تھے۔ وہ خود کو سادھوی کہتی ہے اور یہ کہہ کر وہ ہندوازم میں سادھوی کے تقدس کو پامال کرنے کا کام کرتی رہی ہے۔واقعہ یہ ہے کہ ہندوستان میں اب یوگی، سادھو، سادھوی سب نے سیاست میں آکر اقتدار پر اپنی رہبانیت کا” بھوگ“ چڑھا دیا ہے۔
 پرگیہ ٹھاکر نے اپنے بیان میں ہندوؤں کو گھروں میں ہتھیار رکھنے کا مشورہ دیتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر ہتھیار ممکن نہ ہو تو اپنے گھروں میں سبزی کاٹنے والے چاقو کی دھار تیز کر الیں ؛تاکہ سبزی کاٹنے کے ساتھ اس سے دشمنوں کا سر بھی کاٹا جاسکے، سب جانتے ہیں کہ پرگیہ جب دشمن کا لفظ استعمال کرتی ہے تو اس کا اشارہ مسلمان اور بعض اقلیتوں کی طرف ہوتا ہے، اور وہ مسلمانوں کے خلاف ہندوؤں کو ابھارنے اور جوش وولولہ پیدا کرنے کا کام پہلے بھی کرتی رہی ہے، اس کا پارلیامنٹ تک پہونچنا مسلمانوں کے خلاف اسی نفرت پھیلانے کا شاخسانہ ہے، وہ بابری مسجد کو فضلہ، نا تھو رام گوڈسے کو قابل تعریف اور دگ وجے سنگھ کو دہشت گرد قرار دے چکی ہے۔
 عدالت کے فیصلے کے مطابق اس قسم کے نفرت انگیز بیانات کاپولیس کو از خود نوٹس لے کر ایف آئی آر درج کرنا چاہیے، لیکن جب پولیس نے از خود نوٹس نہیں لیا تو ترنمول گانگریس کے ترجمان ساکیت گوکھلے اور سیاسی قائد تحسین پونا والا نے کرناٹک پولیس کو باقاعدہ تحریری شکایت کی، لیکن شموگا کے اس پی ، جی کے متھن کمار نے جسمانی طور پر حاضر ہو کر ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا، بڑی مشکل سے پرگیہ ٹھاکر کے خلاف ایف آئی آردرج ہو سکا اور اب کرناٹک پولیس نے تحسین پونے والا کو تحقیق میں شامل ہونے کا حکم دیا ہے، دیکھیے آگے آگے ہوتا ہے کیا۔
 اس معاملہ میں چوں کہ پولیس نے از خود اس نفرت آمیز تقریر کا نوٹس نہیں لیا ہے اسی لئے یہ سپریم کورٹ کے فیصلہ کی مخالفت اور عدالت کی توہین کے مترادف ہے،اس لیے ہتک عدالت کے قانون کے تحت معززججوں کوپولیس کوعدالت میں طلب کرنا چاہیے، کیونکہ اس قسم کے معاملات پر روک عدالت کی سختی سے ہی لگ سکتی ہے، بھاجپا حکومت سے ایسے معاملات میں کوئی توقع رکھنا فضول ہے۔

ہفتہ, جنوری 14, 2023

یادوں کے چراغ جلد سوم ___✍️مولانا رضوان احمد ندوی

یادوں کے چراغ جلد سوم ___
اردو دنیا نیوز٧٢ 
✍️مولانا رضوان احمد ندوی 
مولانا مفتی محمد ثناءالہدیٰ صاحب قاسمی، امارت شرعیہ بہار، اڈیشہ وجھارکھنڈ کے نائب ناظم، ہفتہ وار نقیب کے مدیر مسؤل، اردو کے مشہور صاحب قلم اور شگفتہ زبان مقرر وخطیب ہیں، ان کے قلم سے چار درجن سے زائد کتابیں شائع ہو کر مقبول ہو چکی ہیں، پیش نظر کتاب ”یادوں کے چراغ“ کی تیسری جلد منصہ شہود پر آئی ہے ، جس میں انہوں نے ان معاصر شخصیات پر اپنے احساسات وتاثرات کو قلمبند کیا ہے، جو سب زیر خاک جا چکے ہیں، ان میں کچھ بزرگ بھی ہیں، کچھ خورد بھی، عالی جناب اور عالی مقام شخصیتیں بھی ہیں اور کچھ ایسے بھی ہیں جن کو یاد رکھنے والے مفتی صاحب جیسے چند با وضع وباوفا اس دنیا میں رہ گئے ہیں۔
اس طرح اس مجموعہ میں ہر رنگ اور ہر میدان کے لوگ ہیں، اس لئے مفتی صاحب نے ان اصحاب کے وہی پہلو بیان کئے ہیں جو پسندیدہ اور قبول عام کے مستحق ہیں اس لحاظ سے کتاب کی ایک تاریخی حیثیت بھی ہو گئی ہے ، ان میں متعدد نام ایسے ہیں جن کی یاد اس مجموعہ کے ذریعہ باقی رہے گی، کتاب کے آغاز میں مصنف نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے تحریر کیا کہ ”یہ کتاب جو ابھی آپ کے ہاتھ میں ہے، ان میں بہت سارے نامور حضرات کی کتاب زندگی کو مختصر خاکوں کی شکل میں پیش کیا گیا ہے، بعض گمنام لوگوں کے بھی اوراق حیات کو پلٹا گیا ہے، تاکہ عام لوگوں کی زندگی میں جو روز مرہ کے معاملات ومشاہدات ہیں، ان سے بھی سبق حاصل کیا جا سکے“۔ (صفحہ ۸)
 اس مجموعہ میں جناب ڈاکٹر قاسم خورشید ماہر تعلیم وسابق ہیڈلینگویجز ایس سی ای آرٹی بہار کا فاضلانہ پر مغز مقدمہ ” مفتی محمد ثناءالہدیٰ قاسمی - آدھی ملاقات اور یادوں کے چراغ کی روشنی میں“ کے عنوان سے بڑا ہی گرانقدر ہے ، جس میں انہوں نے لکھا کہ ”مفتی صاحب متعدد شخصیتوں کے حصار میں رہے، ان کے اثرات بھی قبول کئے اور بڑی بات یہ بھی ہے کہ جس شخص سے رشتہ قائم کیا، پوری شدت کے ساتھ نبھاتے بھی رہے اور مستقل یادوں کے چراغ بھی روشن کرتے رہے، ہنوز یہ سلسلہ قائم ہے ۔ (صفحہ ۱۱)
اس لئے جب بھی کسی ممتاز شخصیت کے سانحہ ارتحال کی خبر گردش کرتی ہے، مفتی صاحب کا قلم حرکت میں آجاتا ہے، اور کبھی کبھی تو ایسا شبہ ہونے لگتا ہے کہ گویا مضمون پہلے سے تیار تھا، یہ ان کے کمال درجہ کی فنی مہارت کی علامت ہے۔
بہر حال زیر تبصرہ مجموعہ کے بیشتر سوانحی خاکے ہفتہ وار نقیب پٹنہ کے علاوہ دوسرے جرائد ورسائل کی زینت بن چکے ہیں، جنہیں اب کتابی صورت میں طبع کر دیاگیا ہے، مصنف نے کتاب کو چار ابواب وفصول میں تقسیم کیا ہے، باب اول میں علماءومشائخ کے احوال وآثار کا تذکرہ ہے ، ان میں حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب قاسمی ، حضرت مولانا ابو سلمہ شفیع، علامہ محمد حسن باندوی ، قاضی جسیم الدین رحمانی، شیخ ثانی حضرت مولانا عبد الحق اعظمی، مولانا محمد یونس جونپوری سمیت 32اصحاب فضل وکمال کا ذکر ہے، باب دوم میں شعراء، ادباءسیاست داں اور ماہرین تعلیم جیسے پروفیسر لطف الرحمن ، جناب محمد عبد الرحیم قریشی ، ڈاکٹر سید حسن ، الحاج محمد شفیع قریشی، بیکل اتساہی، ڈاکٹر ثوبان فاروقی ، انور جلال پوری کی ادبی ، فکری اور عملی کارناموں کو بیان کیا گیا ہے، باب سوم میں 4 بھولے بسرے لوگوں جناب محمد ہاشم انصاری، حاجی محمد اسلم آرزو ، حاجی محمد اسلم (اڈیشہ) اور ایک خدا ترس خاتون (والدہ مولوی ممتاز احمد امارت شرعیہ) کو شریک اشاعت کیا گیا ہے، اور آخری باب میں داغہائے سینہ کے عنوان سے مفتی صاحب نے اپنے والد ماجد حاجی محمد نور الہدیٰ رحمانی اور برادر اکبر ماسٹر محمد ضیاءالہدیٰ رحمانی کی سیرت، کردار وعمل پر سیر حاصل گفتگو کی ہے، اس طرح یہ مجموعہ ہر لحاظ سے قابل دید اور سیرت وسوانح سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔
کتاب کا دوسرا رخ، خوگر حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے کہ اس مجموعہ کی طباعت دسمبر ۲۲۰۲ءمیں ہوئی اور ان میں جن مرحومین کے تذکرہ کے ذیل میں کسی زندہ شخصیت کا ذکر آیا ان میں بعض ایسے لوگ ہیں جو داغ مفارقت دے چکے ہیں، ان کے نام کے آگے زندوں کے القاب وآداب تحریر ہیں، جس سے قارئین کو شبہ ہو سکتا ہے کہ کیا ابھی بھی وہ بقید حیات ہیں، اس لئے کتاب کی ترتیب وتدوین اور تسوید کے وقت اس پہلو پر نظر رہنی چاہئے تھی جس کی طرف بے توجہی برتی گئی ، گرچہ اردو میں چھپنے والی کتابوں میں اس طرح کی غلطی کوئی نئی چیز نہیں ہے، جس کا شکوہ کیا جائے، مگر سونے کے تاروں سے بنی چادروں پر معمولی داغ بھی نگاہوں میں کھٹکنے لگتا ہے۔
 بہر حال کتاب اپنے موضوع پر عمدہ اور قابل قدر کاوش ہے اوراس کے لیے ناشر کتاب حضرت مولانا مفتی مبین احمد قاسمی بانی مدرسہ طیبہ قاسم العلوم بردی پور، سمری، دربھنگہ (بہار) بھی بجا طور پر شکرے کے مستحق ہیں کہ انہوں نے کتاب کو اپنے ادارہ کی طرف سے طبع کراکر مفتی صاحب کے ذہنی الجھن کو ہلکا کر دیا،ویسے بھی مفتی صاحب کو اس فن میں کمال درجہ کی مہارت حاصل ہے کہ کونسی کتاب کہاں سے اور کیسے شائع کروانی ہے، ہم جیسوں کے لیے یہ درس عبرت ہے، بہر کیف ہم ان دونوں بزرگوں کی صحت وعافیت کے لئے دعاءخیر کرتے ہیں کہ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ ہو، طابع کو مزید وسعت عطا فرمائے۔ آمین ۔
232 صفحات پر مشتمل اس کتاب کا گیٹ اپ وشیٹ اپ جاذب نظر ، کاغذ معیاری اور گرد پوش پرکشش ہے، جس کی قیمت 400روپے طبع ہے، ضرورت مند وخواہش مند اصحاب ذوق مکتبہ امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ یا براہ راست مصنف کتاب کے موبائل نمبر 9304919720پر رابطہ کرکے طلب کر سکتے ہیں۔

نیپال کی نئی حکومت ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمینائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف

نیپال کی نئی حکومت ___
اردو دنیا نیوز٧٢ 
مفتی  محمد  ثناء  الہدیٰ  قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف  
 نیپال میں وزیر اعظم کے طور پر پشپ کمال داہال عرف پر چنڈ نے نئی حکومت کی باگ ڈور سنبھال لی ہے ، انہوں نے حکومت بنانے کے لیے سابق وزیر اعظم کے پی شرما او لی سے ایک سمجھوتہ کیا ، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ڈھائی سال پر چنڈ حکومت میں رہیں گے اور اس کے بعد نیپال میں سی پی ایم+ یو ایم ای کی حکومت بنے گی ، جس کے سر براہ اُولی بھی بن سکتے ہیں۔
 پر چنڈ کی بحیثیت وزیر اعظم یہ تیسری تاج پوشی ہے، پہلی بار 2008ءمیں وہ وزیر اعظم بنے تھے، لیکن یہ مدت کار صرف ایک سال رہی ، دوسری بار2016ءمیں وزیر اعظم بنے، لیکن ایک سال میں ہی وزیر اعظم کی کرسی انہیں چھوڑنی پڑی، اب تیسری باری ہے اور بظاہر سمجھوتے کے مطابق مدت کا ر ڈھائی سال ہو گی ، اس درمیان اتار چڑھاؤ اور اُتھل پُتھل سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا، ہندوستان میں ہم مایا وتی اور بی جے پی کے درمیان نصف نصف مدت کے لئے اقتدار کے سمجھوتے کے اثر کو دیکھ چکے ہیں، جب مایا وتی نے نصف مدت گذرنے کے بعد اقتدار کی منتقلی سے انکار کر دیا تھا، ہم نے محبوبہ مفتی اور بی جے پی کے بے جوڑ اشتراک کا حشر بھی دیکھا ہے ، اس لیے یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ پر چنڈ آسانی سے اس سمجھوتہ پر عمل کے لیے تیار ہوجائیں گے ، اس قسم کے اشتراک کے پیچھے پر چنڈ کی یہ منشا بھی ہو سکتی ہے کہ ابھی تو خیر سے گذرتی ہے آگے کی خبر خدا جانے ۔
پر چنڈ کے اسی خیال کی وجہ سے ان کا وزیر اعظم بننے کا خواب پورا ہوا، ور نہ صحیح اور سچی بات تو یہ ہے کہ نیپالی کانگریس کے شیر بہادر دیو باکو وزیر اعظم ہونا چاہیے تھا؛ کیوں کہ دو سو پچھہتر(275)ارکان کی نیپالی پارلیمان میں دیوباکی پارٹی کو نواسی (89)سیٹیں ملی تھیں جب کہ پر چنڈ کی ماؤں وادی کمیونسٹ پارٹی صرف بتیس (32)سیٹیں ہی حاصل کر پائی تھی، انتخاب میں پرچنڈ اور دیو با کی پارٹی کا اتحاد بھی تھا، پر چنڈ بضد تھے کہ وزیر اعظم وہی بنیں گے اور صدر بھی انہیں کی پارٹی کا ہوگا، یہ بات دیو با نہیں مان سکتے تھے، اس لیے پر چنڈ اپنے پرانے کمیونسٹ ساتھی اُولی کے گھر پہونچ گیے اور وہاں ان کی دال گل گئی اور وہ وزیر اعظم کی کرسی پر براجمان ہو گیے۔اس واقعہ کو ہندوستانی سیاسی پس منظر میں دیکھیں تو جس طرح مہاراشٹر میں شیو سینا اور بھاجپا نے ساتھ الیکشن لڑا تھا؛لیکن کافی اتار چڑھاؤ کے بعد مہا اگھاری وکاس کی حکومت بن گئی اور وہ بھی شیو سینا کے ایک حصہ کی بغاوت کی وجہ سے ٹوٹ گئی، نیپال میں بھی ایسا ہی ہوا کہ الیکشن پر چنڈنے دیو با کے ساتھ لڑا اور حکومت اُولی کے ساتھ بنایا۔
ہندوستان کی طویل سر حد نیپال سے لگتی ہے ، پاسپورٹ کے بغیر آمد ورفت کی سہولت کی وجہ سے ہندو نیپال کی عوام کے رشتے ایک دوسرے سے انہتائی مضبوط ہیں اور کہنا چاہیے کہ ان کے درمیان بیٹی، روٹی کا رشتہ ہے، یعنی رشتہ داریاں اور تعلقات خوب ہیں، اور معاشی اعتبار سے ایک کا دوسرے سے رشتہ بھی مضبوط ہے، حکومتی سطح پر در آمد ، بر آمد کا تناسب اس قدر ہے کہ ہندوستان ، نیپال کا سب سے بڑا تجارتی شریک ہے ، 2021ءمیں نیپال جن اشیاءکی سپلائی غیر ملکوں میں کرتا ہے، اس کا 53.1فی صد ہندوستان کو برآمد کیا تھا، اور ہندوستان سے اس نے 68.3فی صد در آمد کیا تھا۔
1996سے 2006تک نیپال خانہ جنگی کا شکار تھا، ہندوستان نے اس بد ترین صورت حال کو درست کرنے میں اہم رول ادا کیا تھا، نومبر 2006میں نیپال کی حکومت اور سات ماؤنواز پارٹیوں کے درمیان نئی دہلی میں ایک معاہدہ پر دستخط کے نتیجے میں وہاں پھر سے جمہوری حکومت کے قیام اور استحکام کی راہ ہموار ہوئی تھی اور اس کا سارا سہرا ہندوستان کو جاتا ہے ؛ لیکن پر چنڈ اور اُولی ہندوستان کی اس جد وجہد کو ماضی میں فراموش کرتے رہے ہیں، ان کا جھکاؤ چین کی طرف زیادہ ہے، انہوں نے اپنے سابقہ دور میں ہندوستان کے کالا پانی ، لییو لیکھ لمپا دھورا پر اپنا دعویٰ پیش کر دیا تھا اور نیپال کے نقشہ میں ان علاقوں کو شامل کر دیا تھا، ہند نزاد نیپالی شہری مدھیشی کا معاملہ بھی ان کے دور میں گرمایا تھا، اگر ان کے نظریات میں تبدیلی ہوئی تو ہندوستان سے تعلقات اچھے رہیں گے ، اور اس کی ہمہ جہت ترقی کی راہ ہموار ہو سکے گی اور اگر نیپال نے چین کا رخ کیا تو یقینی طور پر ہندوستان سے تعلقات بگڑ یں گے ، کیوں کہ ہند، چین تنازعہ ان دنوں شباب پر ہے اور دشمن کے دوست کو دشمن سمجھنے کی روایت قدیم ہے، اس کا خمیازہ نیپال کو بھگتنا پڑے گا ، کیوں کہ چین کی پالیسی ملکوں کو قرض کے جال میں پھنسا کر اسے بے بس کرنے کی رہی ہے، اسے سری لنکا کے حالات وواقعات سے سبق سیکھنا چاہیے، ہندوستان سے دوستی نیپال کے لیے ہر حال میں خیر کا باعث ہوگا۔وزیر اعظم نریندر مودی کا پر چنڈ کو سب سے پہلے مبارک باد دینے کی یہی معنویت ہے۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...