اردو دنیا نیوز ٧٢
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
خانقاہوں نے اصلاح ظاہر وباطن ، تزکیۂ نفوس اور روحانی تربیت کے میدان میں پوری دنیا میں عموما نیز بر صغیر ہندوپاک اور بنگلہ دیش میں خصوصا بڑا کردار ادا کیا ہے، خانقاہ سے منسلک ان بوریہ نشینوں ، سجادگان، اور صوفیاءکرام نے رب سے قریب کرنے اور دلوں کو جوڑنے کی مثالی اور انتھک جد وجہد کی جس کے اثرات اس قدر مرتب ہوئے کہ یہ مراکز بلا تفریق مذہب وملت مرجع خلائق بن گیے، شیخ عبد القادر جیلانی ؒ کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ ایک بڑھیا حلوہ بنا کر لائی اور اصرار کرنے لگی کہ میں تو اسے کھلا کرہی جاؤ گی، حضرت نے بڑھیا کی خواہش کا احترام کیا اور حلوہ کھالیا، بڑھیا کے جانے کے بعد مریدوں نے اس طرف متوجہ کیا کہ حضور آپ کا روزہ تھا، فرمایا : روزہ نفلی تھا اس کی قضا ہوجائے گی، لیکن یاد رکھو، دل کے ٹوٹنے کی کوئی قضا نہیں ہے۔
اسی طرح حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءرحمة اللہ علیہ کے بارے میں منقول ہے کہ ایک معتقد نے آپ کی خدمت میں قینچی پیش کی ارشاد فرمایا: فقیر کے یہاں قینچی کا کیا کام ، مجھے سوئی دھاگہ لا کر دو، وہ میرے کام کا ہے، اس لیے کہ میں توسِینے اورجوڑنے کا کام کرتا ہوں تو ڑنے اور کاٹنے کا نہیں۔
خانقاہ میں جو کام ہوتا ہے اسے شریعت کی اصطلاح میں ”احسان“ کہتے ہیں اور عرف عام میں تصوف وطریقت، یہ وہ کام ہے جس پر عمل پیرا ہونے کے بعد انسان کو اللہ رب العزت کا استحضار اس قدر ہوجاتا ہے کہ ہر عبادت کے موقع سے اسے محسوس ہوتا ہے کہ وہ اللہ کو دیکھ رہا ہے، اگر اس مقام تک نہیں پہونچ پاتا تو کم از کم اسے یہ یقین ہوتا ہے کہ اللہ رب العزت اسے دیکھ رہا ہے، حدیث جبریل میں زبانِ رسالت سے یہ مذکور ہے کہ ان تعبد اللہ کانک تراہ فان لم تکن تراہ فانہ یراک یعنی اللہ کی عبادت اس طرح کرو جیسے کہ تم انہیں دیکھ رہے اگر ایسا نہ ہو تو وہ تمہیں ضرور دیکھ رہاہے۔
اللہ سے ایسی قربت پیدا کرنے اورسوئے حرم لے جانے کے لیے بہار میں بھی بہت ساری خانقاہیں قائم ہیں، ان خانقاہوں میں ایک قدیم اور بڑی خانقاہ ، خانقاہ منیر شریف ہے، جس نے سینکڑوں سال سے طریقت کی بساط پر رجال سازی کا کام جاری رکھا ہے ، اس کے موجودہ سجادہ نشیں حضرت سید شاہ طارق عنایت اللہ فردوسی منیری ہیں، جو سجادہ نشیں کے ساتھ ساتھ متولی ودیوان درگاہ خانقاہ منیر شریف بھی ہیں۔اسی خانقاہ اور خانوادہ کے گل سر سبد معروف عالم دین مولانا تقی الدین ندوی فردوسی مدظلہ العالی ہیں جن کے فیوض وبرکات ، شفقت ومحبت سے بندہ بھی پٹنہ میں مستفیض ہوتا رہتا ہے۔
”تذکرہ مخدومان منیر “ حضرت صاحب سجادہ مدظلہ کی قابل قدر ولائق تحسین تصنیف ہے، جسے جناب ناصر منیری ڈائرکٹر ریسرچ سنٹر خانقاہ منیر شریف نے مرتب کیا ہے ، کتاب میں حضرت امام تاج فقیہ کے سلسلے کے اکابر اور سجادگان کے حالات زندگی پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے ، یہ تاریخ بھی ہے، تذکرہ بھی ہے، تحقیق بھی ہے اور سلاسل سے متعلق معلومات کا ذخیرہ بھی ، اس نام میں تذکرہ کا لفظ دیکھ کر بے ساختہ مجھے موجودہ سجادہ نشیں کے والدحضرت سید شاہ نور الدین فردوسی منیری رحمة اللہ یاد آگیے، جب میں نے ان کی خدمت میں اپنی کتاب ”تذکرہ مسلم مشاہیر ویشالی“ پیش کی تو فرمایا کہ آپ کے تواضع نے اس کتاب کو ”تذکرہ“ بنا دیا، ورنہ یہ تو ویشالی کی پوری تاریخ ہے، اس کتاب کے نام میں ”تذکرہ“ کا لفظ بھی کچھ ایسا احساس دلاتا ہے، لیکن میں صاحب سجادہ کو یہ کہنے کی پوزیشن میں اپنے کو نہیں پاتا۔
یہ قیمتی تاریخی مرقع چھ ابواب پر مشتمل ہے اور قدیم طرز کے مطابق ہر باب کے ذیل میں چند فصول ہیں، پہلا باب ابتدائیہ، تشکر وامتنان ، تہدیہ وانتساب کے بعد شروع ہوتا ہے، جس میں دس فصلیں ہیں اور ان فصلوں کے ذیل میں تصوف کے تعارف، اشتقاقات، اصطلاحات، مقاصد ، حقائق ، اصحاب تصوف ، کتب تصوف، تعلیمات اور سلاسل تصوف کا تفصیلی اور تحقیقی جائزہ لیا گیاہے ، اس باب میں مصنف کی محنت سے بڑے مفید مضامین جمع ہو گیے ہیں، اسے اس کتاب کا مقدمہ سمجھنا چاہیے، گو مصنف نے اسے مقدمہ کا نام نہیں دیا ہے ۔
بابِ دوم امام تاج فقیہ اور منیر شریف کے عنوان سے ہے ، اس باب میں منیر شریف کی تاریخ ، مقدس بار گاہیں، مزارات ، مسجدیں، وہاں کے شہدائ، صحبت میلہ ، منیرکامشہور لڈو اور بزرگوں کے اعراس پر تاریخی حقائق، سلیقہ سے آٹھ فصلوں کے ذیل میں مذکور ومندرج ہیں ، اور کہنا چاہیے کہ دریا کو کوزہ میں بند کر دیا گیا ہے۔
بابِ سوم امام تاج فقیہ اور خانقاہ منیر شریف کے نام ہے، چوں کہ اس خانقاہ کی بنیادمیں امام تاج فقیہ ہیں؛ اس لیے اس باب میں جگہ جگہ ان کا تذکرہ آیا ہے، لیکن اصلاً یہ باب خانقاہ منیر شریف کی تاریخ ، نادر تبرکات ، دوسری خانقاہوں سے اس کے تعلقات، امراءوسلاطین کی حاضری، جنگ آزادی میں خانقاہ منیر شریف کا کردار اور خانقاہ کے بزرگوں کے اعراس وتذکرہ پر مشتمل ہے، چھ فصلوں کے ذیل میں اسے بیان کیا گیا ہے ۔
اس تاریخی سلسلے کے ذکر کے بعد کتاب میں دوباب تذکرہ کے لیے خاص کیا گیا ہے، چوتھے باب میں امام تاج فقیہ اور ان کے خانوادہ کا تذکرہ مرقوم ہے، جس میں ان کی ملی ، مذہبی ، تعلیمی دینی خدمات اور تصوف کے اعتبار سے ان حضرات کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی ہے، یہ باب بھی چھ فصلوں پر مشتمل ہے، جس مین بانی خانقاہ امام تاج فقیہ، ان کے تین صاحب زادگان مخدوم اسرائیل ، مخدوم اسماعیل اور مخدوم عبد العزیز رحمہم اللہ کے ساتھ امام تاج فقیہ کے پوتے مخدوم یحیٰ منیریؒ اور پرپوتے مخدوم شرف الدین بن یحیٰ منیریؒ کے احوال وآثار اور طریقت کے باب میں ان کی زریں خدمات کا تذکرہ بڑے موثر انداز میں کیا گیا ہے، یہ کم لوگوں کو معلوم ہے کہ حضرت مخدوم شرف الدین احمدیحی منیری ؒ کی ولادت منیر شریف خانقاہ ہی کے احاطہ میں ہوئی تھی، آج بھی وہ جگہ محفوظ ہے، اور زیارت کے لیے لوگوں کی وہاں کثرت سے آمد ورفت رہتی ہے۔
تذکرہ کا دوسراحصہ اور پانچواں باب خانقاہ منیر شریف کے سجادگان کے تذکروں پر مشتمل ہے، جس میں حضرت امام تاج فقیہ ہاشمیؒ سے لے کر موجودہ سجادہ نشیں حضرت سید شاہ طارق عنایت اللہ فردوسی منیری مدظلہ کے سوانحی کوائف اور خدمات کا مرقع پیش کیا گیا ہے، جس کو پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ ”ایں خانہ ہمہ آفتاب“ است۔
کتاب کا آخری باب ”مناقب مخدومان منیر“ کے لیے خاص کیا گیا ہے، اس میں کل آٹھ فصلیں ہیں، ہر فصل میں سلسلہ کے ایک بزرگ کے احوال وآثار، خصائص وتفردات اشعار میں بیان کیے گیے ہیں، اس باب میں قصیدہ منیر شریف ، منقبت امام تاج فقیہ، مخدوم یحیٰ منیری ، مخدوم شرف الدین ابن یحیٰ منیری، مخدوم دولت شاہ منیری، مخدوم عنایت اللہ فردوسی منیری ، مخدوم نور الدین منیری رحمہم اللہ اور موجودہ سجادہ نشیں کے عنوان سے شاعر نے اپنے جذبات وخیالات ، مشاہدات واحساسات کو اشعار میں بیان کیا ہے۔ یہ ساری منقبت اور قصائد اس کتاب کے مرتب جناب ناصر منیری ڈائرکٹر ریسرچ سنٹر خانقاہ منیر شریف کے فکروفن کا نتیجہ ہے ، ان اشعار میں عقیدت ومحبت کا سیل رواں موجزن ہے، اس قسم کے اشعار میں تخلیات کی رفعت ، فکر کی ندرت اور فنی باریکیوں کی تلاش کے بجائے طریقۂ اظہار وابلاغ عقیدت ومحبت پر توجہ مبذول رکھنی چاہیے، اس اعتبار سے اس کا مطالعہ عام لوگوں کو عموما اور سلاسل سے منسلک لوگوں کو خاص کیف وسرور میں مبتلا کرے گا۔
اس کتاب کا ناشر مخدوم جلیل منیری پبلشنگ اکیڈمی، جامعہ امام تاج الفقہائ، خانقاہ منیر شریف ہے، تقسیم کار کی ذمہ داری مخدوم شاہ دولت منیری لائبریری کی ہے، سید شاہ میران فردوسی ، وردہ فردوسی اور شبنم بانو نے پروف ریڈنگ کا کام پوری توجہ سے کیا ہے، مخدوم یحیٰ منیری ریسرچ سنٹر نے پیش کش کی ذمہ داری لی، ان تمام حضرات کی محنت کے طفیل یہ قیمتی دستاویز اور تاریخی تحریر معمولی ہدیہ دو سو پچاس روپے میں آپ تک پہونچ رہی ہے، سب ہم تمام کی جانب سے شکریہ کے مستحق ہیں، اللہ رب العزت سب کو بہتر بدلہ عطا فرمائے اور خدمات کو قبول فرمائے۔ آمین یا رب العالمین وصلی اللہ علی النبی الکریم وعلی اٰلہ وصحبہ اجمعین۔آمین