Powered By Blogger

پیر, فروری 06, 2023

مولانا عبداللہ رحمانی قاسمی __✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمینائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

مولانا عبداللہ رحمانی قاسمی __
اردودنیانیوز۷۲ 
✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 

امارت شرعیہ بہار ،اڈیشہ وجھارکھنڈ کی مجلس ارباب حل وعقد کے رکن ، مدرسہ اسلامیہ چھٹہی ہنومان نگر سوپول کے سابق صدر مدرس، مدرسہ اٹکی رانچی اور ترہت اکیڈمی سمستی پور کے سابق استاذ، شاہی عیدگاہ بیگم پور سمستی پور کے امام وخطیب، حضرت مولانا محمد عارف ہرسنگھ پوری کے بڑے پوتا، جید عالم دین، استاذ الاساتذہ حضرت مولانا عبد اللہ رحمانی قاسمی ہرسنگھ پوری حال مقام وارڈ نمبر 14 ،رام نگر سمستی پور نے 23 جمادی الاخریٰ 1444ھ مطابق 16 جنوری 2023ءبروز پیر صبح کے آٹھ بجے سمستی پور واقع اپنے مکان میں جان، جان آفرین کے سپرد کر دیا، اہلیہ کا انتقال 2007 میں پہلے ہی ہوچکا تھا، پسماندگان میں دو صاحب زادے؛ فضل الرحمن ، حفظ الرحمن اورچارصاحب زادیوں کو چھوڑا،جنازہ کی نماز دوسرے دن بروز منگل صبح کے دس بجے مولانا مظہر الحق ٹیچرس ٹریننگ کالج متھرا پور کے وسیع میدان میں ان کے حقیقی چھوٹے بھائی حضرت مولانا سعد اللہ صاحب صدیقی سابق مہتمم مدرسہ رحمانیہ سوپول دربھنگہ نے پڑھائی ، اس موقع سے علماء، صلحاء، صوفیاءکے ساتھ بڑی تعداد میں عام مسلمانوں نے شرکت کی اور جنازہ کے بعد ان کو لحد تک پہونچایا ، امیر شریعت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی دامت برکاتہم کے حکم پر امارت شرعیہ کے ایک موقر وفد نے مولانا مفتی محمد انظار عالم قاسمی قاضی شریعت کی قیادت میں جنازہ اور تجہیز وتکفین میں شرکت کی،اس وفد میں نائب قاضی شریعت مولانا مفتی وصی احمد قاسمی، مولانا سید محمد عادل فریدی اور قاضی شریعت سمستی پور مولانامفتی امان اللہ قاسمی شریک تھے۔ مولانا مظہر الحق ٹیچر ٹریننگ کالج متھراپور کے احاطہ میں تدفین عمل میں آئی۔
مولانا عبد اللہ رحمانی قاسمی بن مولانا عبد الرحمن (م 1982) بن حضرت مولانا محمد عارف صاحب ہرسنگھ پوری (متوفی9 صفر1363 ھ مطابق 13فروری 1924) بن شیخ بلاغت حسین بن امداد حسین عرف نبدی بابو بن شیخ خیرات علی بن شیخ منشی حسن یار وکیل بن شیخ ہبة اللہ کی ولادت 1929ءمیں ہرسنگھ پور ضلع دربھنگہ میں ہوئی، مولانا کی نانی ہال محمد پور مبارک عرف آوارہبنگرا، ضلع مظفر پور تھی، نانا کا نام علی حسن تھا، جو سروے آفس میں امین تھے، بعد میں مولانا کی نانی روپس پور دھمسائن ضلع دربھنگہ نقل مکانی کرکے جا بسیں ، مولانا کے دو ماموں مولانا غزالی اور مولانا نظیر حسن کا شمار علاقہ کے بڑے عالموں میں ہوتا تھا۔ابتدائی تعلیم گھر پر والد ماجد مولانا عبد الرحمن صاحب ہرسنگھ پوری اور مولوی امداد حسین سے حاصل کرنے کے بعد مولانا نے پہلے باقرخاں کے مدرسہ آشاپور، مدرسہ امدادیہ دربھنگہ، مدرسہ رحمانیہ سوپول اور پھر جامعہ رحمانی مونگیر کے اساتذہ علم وفن کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا، اعلیٰ تعلیم کے لیے دیوبند تشریف لے گئے اور وہاں شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ سے بخاری شریف پڑھ کر 1955 میں سند فراغ حاصل کیا، انہوں نے دارالعلوم دیو بند میں قیام کے دوران حضرت مولانا اعزاز علی اور مولانا نصیر احمد خان رحمہما اللہ سے بھی کسب فیض کیا۔مولانا کے رفقاءدرس میں حضرت قاضی مجاہدالاسلام قاسمی ؒکا نام سب سے نمایاں ہے، ان کے علاوہ حضرت مولانا ابوظفر رحمانی،حضرت مولانا اکرام اور مولانا سعید احمد سابق معاون قاضی امارت شرعیہ بھی آپ کے رفیق درس تھے۔
 تدریسی زندگی کا آغاز اپنے چھوٹے چچا مولانا ولی الرحمن صاحب ہرسنگھ پوری (م2001) کے قائم کردہ مدرسہ اسلامیہ چھٹہی ہنومان نگر سوپول سے کیا، کوئی بارہ سال 1971ءتک یہاں بحیثیت صدر مدرس خدمت انجام دیتے رہے، چھٹہی ہنومان نگر میں مسلمانوں کے درمیان جو بدعات ان دنوں رائج تھیں ان میں ایک بدعت تعزیہ سازی اور اس کے مروجہ ملحقات تھے، مولانا نے یہاں قیام کے دوران اس بدعت کے زور کو توڑنے، بلکہ ختم کرنے کی مثالی جد وجہد کی اور اس مہم میں بڑی حد تک وہ کامیاب رہے۔ چھٹہی مدرسہ اسلامیہ چھوڑنے کے بعد دو سال مدرسہ اٹکی رانچی میں پڑھایا اس کے بعد ترہت اکیڈمی سمستی پور میں فارسی زبان وادب کے استاذ کی حیثیت سے بحال ہو گیے، اور مدت ملازمت پوری کرکے یہیں سے سبکدوش ہوئے۔ مولانا کی سسرال داوود نگر سمستی پور تھی،حضرت مولانا محمود صاحب کی دختر نیک اختر سے آپ رشتہِ ازدواج میں منسلک ہوئے، مولانا محمود صاحب شاہی عیدگاہ بیگم پور کے خطیب وامام عیدین تھے، مولانا کے انتقال سے جب یہ جگہ خالی ہوئی تو لوگوں کی توجہ حضرت مولانا عبد اللہ رحمانی قاسمی کی طرف گئی، جن کی صلاحیت وصالحیت کا چرچا ہر خاص وعام کی زبان پر تھا، چنانچہ مولانا بیگم پور شاہی عیدگاہ کے خطیب اور امام عیدین مقرر ہوئے اور پوری زندگی، کوئی بتیس سال تک انتہائی ذمہ داری کے ساتھ فی سبیل اللہ اس کام کو انجام دیتے رہے۔
 مولانا عبد اللہ صاحب اپنے خاندانی روایتوں کے امین تھے، ان کا علم پختہ تھا اور تقویٰ طہارت میں شہر کے ممتاز ترین لوگوں میں آپ کا شمار ہوتا تھا، مولانا کی وابستگی یوں تو عصری تعلیم کے ادارہ سے تھی ، لیکن رکھ رکھاو، وضع قطع، شریعت کی پاسداری، دینی حمیت اور جذبہ اصلاح معاشرہ میں کبھی کمی نہیں آئی، خود شاعری تو نہیں کرتے تھے، لیکن شعراءکے سینکڑوں اشعار ان کے حافظہ کی گرفت میں تھے، اقبال کے شیدائی تھے اور ان کے اشعار خاص لطف وکیف کے ساتھ حسب موقع پڑھا کرتے تھے، طبیعت میں لطافت تھی اور خشیت الٰہی نے ان کے قلب کو نرم اور دماغ میں تواضع اور انکساری کو جاگزیں کر دیا تھا، وہ اچھے خطیب تھے، آج کے پیشہ ور مقرروں کی طرح ان کی خطابت میں گھن گرج نہیں ہوتی تھی اور نہ ہی اعضاءو جوارح (باڈی لنگویج) کا وہ زیادہ استعمال کرتے تھے، لیکن خلوص سے نکلے ہوئے الفاظ لوگوں کے دلوں پر اثر انداز ہوتے تھے، عوامی اور درسگاہی زندگی میں خفگی ان کا شعار نہیں تھا، وہ بات نرمی سے کہنے کے عادی تھے، ڈانٹنا ، بگڑنا، تنبیہ کرنا ان کے مزاج کا حصہ نہیں تھا، مولانا باخبر عالم دین تھے، ان کی نگاہ عالم اسلام کے رست وخیز اور سیاسی حالات پر گہری تھی وہ اسلام پسندوں کے غلبوں سے خوش ہوتے تھے، اور اسلام دشمن کا رروائیوں پر ان کا دل روتا تھا، جو اصلا کامل ایمان کی پہچان ہے، کیوں کہ مو من جسد واحد کی طرح ہے ، جب کسی ایک عضو میں کانٹا چبھتا ہے تو دماغ تکلیف محسوس کرتا ہے، زبان اف اف کرتی ہے اور آنکھیں آنسو بہانے لگتی ہیں، مولانا کی کیفیت بھی کچھ اسی طرح کی ہوا کرتی تھی۔
 میرا سمستی پور سے گہرا رشتہ رہا ہے ، میں نے تدریسی زندگی کا آغاز دار العلوم بربٹہ سے کیا تھا، جتوار پور، چاند چوڑ وغیرہ رشتہ داری کی وجہ سے آناجانا رہا ، سمیع خان مرحوم جب تک زندہ تھے، سمستی پور کھینچ لیا کرتے تھے، اس طرح مختلف موقعوں سے ان سے ملاقات کی سعادت مجھے بھی ملی، لیکن عجیب وغریب بات ہے کہ کبھی کسی نے ان کا تعارف خانوادہ ہرسنگھ پور کے گل سر سبد کی حیثیت سے نہیں کرایا، اس کا مطلب یہ ہے کہ مولانا کی شناخت اپنی تھی اور سمستی پور کے لوگ ان کے تعارف میں خاندانی عظمت کا ذکر ضروری نہیں سمجھتے تھے، مولانا جید عالم دین تھے، اس حیثیت سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ موت العالِم ، موت العالَم۔
 اللہ کا بڑا فضل اور کرم ہے کہ مولانا کے دو حقیقی بھائی حضرت مولانا سعد اللہ صاحب صدیقی اور مولانا ظفر اللہ صاحب رحمانی دامت برکاتہم حیات سے ہیں اور یہ حقیر ان دونوں حضرات کی شفقت اور لطف وعنایت سے بہرہ ور ہوتا رہا ہے، حضرت مولانا ظفر اللہ صاحب رحمانی حفظہ اللہ کی پوسا رہائش گاہ میں جو کتابیں تھیں خود سے میرے لڑ کے نظرالہدیٰ قاسمی کو بلا کر نور اردو لائبریری حسن پور گنگٹھی ویشالی کے لیے حوالہ کیا ، اس سے زیادہ اعتماد کی بات اور کیا ہو سکتی ہے۔ اللہ مولانا عبد اللہ صاحب کی مغفرت فرمائے اور پس ماندگان کو صبر جمیل دے۔ آمین
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پر روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

اتوار, فروری 05, 2023

ہلدوانی اور جوشی مٹھ__اردودنیانیوز۷۲ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

۔
ہلدوانی اور جوشی مٹھ__
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب  ناظم  امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
اتراکھنڈ کے دو بڑے شہران دنوں سرخیوں میں ہیں، ایک ہلدوانی، دوسرا جوشی مٹھ، ودنوں کی تاریخی حیثیت واہمیت ہے اور دونوں سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہردور میں رہے ہیں، پہلے معاملہ ہلدوانی کا اٹھا تھا، وہاں کی غفور کالونی میں گذشتہ ستر پچھہتر سال سے لوگ بود وباش رکھتے ہیں، کالونی کے آباد ہونے کے بعد سے تیسری نسل اب یہاں رہائش پذیر ہے، کم وبیش پچھہتر ہزار کی آبادی پر مشتمل اس کالونی میں مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہے، سرکاری طور پر یہ کہا گیا کہ یہ کالونی غیر قانونی طور پر ریلوے کی زمین پر آباد ہے، اس لیے بلڈوزر چلا کر اسے ویرانہ بنا نا ہے، تیاری ساری کر لی گئی تھی ، بلڈوزر کا رخ کالونی کی طرف ہو گیا تھا، ناامید ہوکر وہاں کے مکینوں نے احتجاج شروع کر دیا، وہ لوگ اس کے لیے بھی تیار ہوگئے کہ بلڈوزر پہلے ہمارے جسم وجاں پر چلے گا، پھر ہمارے مکانوں تک پہونچے گا، پوری دنیا کی میڈیا اس طرف متوجہ ہوئی اور سوالات کھڑے ہونے شروع ہوئے کہ اگر یہ غیر قانونی ہے تو وہاں سرکاری اسکول ، شفا خانے کس طور قائم ہوئے، بجلی اور پانی کی سرکاری سپلائی کا نظام کس بنیاد پر ہے، کثیر منزلہ عمارتیں یک بارگی تو نہیں بنیں، انہیں سرکاری کارندوں کی تحریری یا زبانی رضا مندی کس طور حاصل ہوئی، ان سوالات کا کوئی جواب نہ تو محکمہ ریلوے کے پاس تھا اور نہ ہی حکومت کے پاس، احتجاج جاری رہا، کچھ لوگ اللہ کی طرف رجوع ہوئے اور کچھ سپریم کورٹ کی طرف، سب کی محنت رنگ لائی اور سپریم کورٹ نے بلڈوزر کی کارروائی پر روک لگادی، عدالت نے واضح طور پر یہ بات کہی ہے کہ ساٹھ ستر ہزار لوگوں کو صرف سات دن میں مکان خالی کرنے کا نوٹس دے کر اجاڑا نہیں جا سکتا، یہ انسانیت کے خلاف ہے ، اس ٹھنڈ میں وہ کہاں جائیں گے۔ اس لیے سرکار کو چاہیے کہ وہ غفور کالونی کے مکینوں کی باز آباد کاری کے لیے پہلے منصوبہ بنائے اور جب وہ نقل مکانی کی پوزیشن میں سرکاری امداد وراحت رسانی سے پہونچ جائیں تو زمین خالی کرائی جا سکتی ہے ، سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ عبوری ہے ، سماعت جاری رہے گی، لیکن وقتی طور پر لوگوں کو اس فیصلے سے راحت ملی ہے۔
 ہلدوانی معاملہ کی باز گشت ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ جوشی مٹھ کی زمینیں پاؤں کے نیچے سے کھسکنے لگیں، مکانوں میں دڑاریں پڑنے لگیں اور کسی بھی وقت مکان کے گرنے اور مکینوں کے اس میں دب جانے کے خطرہ نے سر اٹھانا شروع کیا، ہندوؤں کے نزدیک یہ ایک مقدس شہر ہے ، زائرین کی کثرت کی وجہ سے یہاں کثیر منزلہ ہوٹل ہیں، ان میں جب دڑاریں پڑنے لگیں تو اسے زمیں بوس کر دیا گیا اور وہاں کی آبادی کو سرکاری طور پر دوسری جگہ منتقل کرنے اور انہیں گذارا بھتہ دینے کا عمل جاری ہے، اتراکھنڈ کی ریاستی حکومت اور مرکزکی مودی حکومت ان حالات سے نمٹنے اور اس شہر کو بچانے کے لیے سر گرم عمل ہے، لیکن زمین اور مکانوں میں دڑاریں مسلسل آرہی ہیں، پاور پلانٹ بھی یہاں کا خطرے میں ہے اور شہر میں بجلی کسی وقت بھی غائب ہو سکتی ہے ، نیا پاور پلانٹ بنانا خرچیلا بھی ہے اور وقت طلب بھی ، ماہرین کی رائے ہے کہ مسلسل سرنگوں کے کھودنے اور غیر قانونی کھدائی کی وجہ سے یہ مصیبت آئی ہے ، اور اب یہ شہر اس لائق نہیں ہے کہ یہاں لوگوں کو تحفظ فراہم کیا جا سکے ، یہ انسانی بس کی بات نہیں ہے ، انسانوں نے اپنے ہاتھوں اس مصیبت کو دعوت دی ہے اور یہ معاملہ اس قدر بڑھ گیا ہے کہ شہر خالی کراکر ویرانہ میں تبدیل کر دینا ہی اس کا واحد حل ہے، حقوق انسانی کی بعض تنظیمیں متاثرین کی مدد کے لیے آگے آئی ہیں، وہ مالی مدد تو فراہم کر سکتی ہیں، لیکن زمینوں کے کھسکنے کو روکنا ان کے بس میں بھی نہیں ہے۔
 معاملہ ہلدوانی کا ہو یا جوشی مٹھ کا ، دونوں جگہ انسان ہی بستے ہیں اور ہر دوشہر کے باشندوں کی پریشانیوں سے ہمیں بھی پریشانی ہے اور ہماری خواہش ہے کہ اس کا حل جلد نکل آئے، لیکن دونوں کی نوعیت کو سامنے رکھنا چاہیے، غفور کالونی کو اجاڑنے کے لیے انسان کمر بستہ ہے، جبکہ جوشی مٹھ کو اختتام تک پہونچانے کے لیے قدرتی طور پر انتظام ہو گیا ہے ، انسانوں کے فیصلے تو بدل جاتے ہیں، جیسا غفور کالونی معاملہ میں سپریم کورٹ نے کیا، لیکن جب قدرت انتقام لینے پر آتی ہے تو اس کا کوئی انسانی حل کار گر نہیں ہوتا، ملکوں کے آباد اور ویران ہونے کی تاریخ ہمیں یہی بتاتی ہے۔”فاعتبروا یاٰولی الابصار“

ہفتہ, فروری 04, 2023

جنتر منتر پر دنگل __مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمینائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

جنتر منتر پر دنگل __
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب  ناظم  امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
ہندوستان کی نامور خواتین پہلوانوں نے؛ جنہوں نے غیرملکی کھیلوں میں ہندوستان کو کئی تمغے اور گولڈ میڈل دلوائے، وہ اچانک اپنے اپنے اکھاڑوں سے نکل کر ڈبلو وائی فائی آی (ریسلنگ فیڈریشن انڈیا) کے خلاف جنتر منتر دہلی میں تین دنوں تک دھرنا پر پر بیٹھے ورلڈ ریسلنگ فیڈریشن آف انڈیا سوئزرلینڈ میں قائم تنظیم یو ڈبلو ڈبلو کی ایک ذیلی شاخ ہے یو ڈبلو ڈبلو بین الاقوامی سطح پر اولمپک کامن ویلتھ اور دولت مشترکہ ممالک کے کھیلوں کی نگرانی کا کام کرتی ہے ، جس طرح عدالت کے جج صاحبان کا ایک بار پریس کانفرنس میں عدلیہ کے طریقہ کار پر سوال اٹھانا چونکانے والا تھا، اسی طرح ان پہلوانوں کا جنتر منتر پر آکر دھرنا پر بیٹھ جانا خلاف توقع تھا اور ہر خلاف توقع کام میڈیا کی توجہ اپنی طرف مبذول کرا لیتا ہے، سو اس مسئلہ میں بھی ایسا ہی ہوا ، ملک اور بیرون ملک کے ذرائع ابلاغ نے اس معاملے کی اس قدر تشہیر کی کہ وزیر کھیل کو پہلوانوں سے کم از کم دو دور کی بات کرنی پڑی وزارت نے جانچ کمیٹی بنائی تب اتھیلٹک جنتر منتر سے ہٹے، لیکن اس واقعہ سے ہندوستان کی جو کر کری پوری دنیا میں ہوئی اس کی تلافی ظاہر ہے جانچ کمیٹی نہیں کر سکے گی ۔
ان پہلوانوں نے عاجز آکر ڈبلو ایف آئی کے سربراہ صدر برج سنگھ کے خلاف مورچہ کھولا، برج بھوشن سنگھ بھاجپا کے چھ بار سے پارلیمنٹ میں ممبر اور فیڈریشن کے صدر ہیں، مرکز کی اعلی قیادت کے چہیتوں میں ان کا شمار ہوتا ہے، اس لیے فوری طور پر انہیں استعفیٰ دینے پر نہ تو مجبور کیا جا سکا اور نہ ہی انہیں برطرف کیا گیا، جب پہلوانوں نے دھرنے سے ہٹنے کا نام نہیں لیا تو وزارت کھیل حرکت میں آئی اور وزیر کھیل انوراگ ٹھاکر نے باکسر میری کوم کی سربراہی میں پانچ (۵) ارکان پر مشتمل جانچ کمیٹی کی تشکیل کر دی، یہ کمیٹی چار ہفتوں میں اپنی رپورٹ وزارت کو سونپے گی اور اس کے جانچ کے دائرے میں جنسی استحصال، معاشی اور انتظامی غیرقانونی حرکتیں بھی شامل ہوں گی، اس دوران عملی طور پر برج بھوشن سنگھ کو فیڈریشن کے کام سے روک دیا گیا، تاکہ جانچ میں کسی قسم کی رکاوٹ نہ پیدا ہو، کمیٹی کے دیگر ارکان میں اولمپک میڈلست پہلوان یگیشوردت، سابق بیڈمنٹن کھلاڑی اور مشن اولمپک سیل کی رکن ترپتی مرگنڈے، ٹاپس کے سابق سی او او راج گوپالن اور اسپورٹ اتھارنی آف انڈیا (ایس، اے، آئی) کی سابق ایکزیکٹو ڈائرکٹ رادھیکا ستریمن کے نام شامل ہیں ۔
پارلیمنٹ رکن برج بھوشن سنگھ کی تصویر سماج میں صاف ستھری نہیں ہے، اس پر کئی جرم کے الزام میں مقدمات چل رہے ہیں، انیس سو نوے کی دہائی میں وہ ٹاڈا کے تحت جیل میں بھی رہ چکا ہے، وہ ایک پہلوان کو اسٹیج پر مار بھی چکا ہے۔
برج بھوشن پر سب سے بڑا اور سنگین الزام یہ ہے کہ اس نے خاتون پہلوانوں کو جنسی طور پر ہراساں کیا ہے، جو خواتین برج بھوشن سے بچ گئیں وہ مختلف کوچس کی ہراسانی کا شکار ہوئیں، ملک کے لیے ورلڈ چمپئن شپ، کامن ویلتھ گیمز اور ایشین گیمز میں ملک کے لیے سب سے زیادہ تمغے حاصل کرنے والی معروف ہندوستانی خاتون پہلوان کا ونیش پھوگاٹ کا یہ الزام ہمارے نظام تربیت کی خامی اور استاذ و شاگرد کے مقدس رشتوں کو پامال کرنے والا ہے، یہ انتہائی افسوسناک اور شرمناک ہے، یہ تعداد بقول ونیش پھوگاٹ ایک دو نہیں دس بارہ کے درمیان ہے اور وقت آنے پر اسے ثابت کیا جا سکتا ہے، ونیش پھوگاٹ اور دوسری خواتین پہلوانوں نے یہ دھمکی بھی دے ڈالی ہے کہ اگر برج بھوشن سنگھ کو برطرف نہیں کیا گیا تو وہ بین الاقوامی کھیلوں میں حصہ نہیں لیں گی۔ خواتین کھلاڑیوں کی جانب سے ذمہ داروں پر اس قسم کے الزامات پہلے بھی لگتے رہے ہیں، اسی سال صرف 18 دن قبل ہریانہ کے وزیر کھیل اور ہندوستانی ہاکی ٹیم کے سابق کپتان سندیپ سنگھ پر چنڈی گڑھ پولیس نے ایف آئی آر درج کیا تھا ، یہ ایف آئی آر ایک خاتون کوچ کی شکایت پر درج کیا گیا تھا، جس میں انہوں نے سندیپ سنگھ پر جنسی استحصال اور ڈرانے دھمکانے کا الزام لگایا تھا، بات اس قدر آگے بڑھی کہ وزیر موصوف کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑ گیا، اس کے قبل بھی اولمپک میں وزن اٹھانے کا مقابلہ کرنے والی خاتون کرنم ملیشوری نے کچھ ایسے ہی حالات کا ذکر کرتے ہوئے اپنی فکر مندی کا اظہار کیا تھا، جس کے نتیجہ میں تربیت دینے والے (کوچ) رمیش ملہوترہ کو معطل کر دیا گیا تھا، اور ان کا نام مجوزہ ایوارڈ سے بھی نکال باہر کیا گیا تھا۔ یہاں پر اس حقیقت کا اظہار بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان میں کل چھپن (56) کھیل تنظیمیں سرکار سے منظور ہیں، جو کھیل اور کھلاڑیوں سے متعلق امور کی انجام دہی اور اس کی ترویج وترقی کے لیے کام کرتی ہیں، بد قسمتی سے ان میں سے سینتالیس (47) فی صد کے سر براہ سیاسی لوگ ہیں، المیہ یہ بھی ہے کہ اولمپک میں تمغہ حاصل کرنے والے پہلوان سوشیل کمار اور ماضی میں کرکٹر اور حال کے سیاسی لیڈر نوجوت سنگھ سدھو قتل کے معاملہ میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ بظاہر اس دنگل کا اختتام برج بھوشن سنگھ کی رخصتی پر ہوتا نظر آتا ہے کیوں کہ وزارت کھیل اور ہندوستان کی مرکزی حکومت نہیں چاہے گی کہ پیرس اولمپک میں خواتین پہلوان حصہ نہ لیں ، جس کو اب صرف ڈیڑھ سال رہ گیے ہیں، آزادی کے پچھتر سالوں میں ہم نے جو اولمپک میں پینتیس (35) تمغے حاصل کیے ہیں، ان میں ہاکی کے بعد کشتی کے ذریعہ ہی ہماری جھولی میں آئے ہیں اور ان تمغوں کے سہارے ہی ہم کھیل کی دنیا میں سینہ پیھلا کر چل رہے ہیں، اس لیے دانشمندی یہی ہے کہ ہم برج بھوشن کوبچانے کے چکر میں کھیل کا کواڑہ نہ کریں اور خواتین پہلوانوں کے ساتھ انصاف کیا جائے۔

جمعہ, فروری 03, 2023

قرآن کریم کی بے حرمتی ___

قرآن کریم کی بے حرمتی ___
اردودنیانیوز۷۲
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی 
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
ناٹو (NATO) سویڈن کی شمولیت کے مسئلہ پر ترکی نے سخت موقف اختیار کیا، اور جم کر ناٹو کے فوجی اتحاد میں اس کے شامل ہونے کی مخالفت کی، جس کی وجہ سے سویڈن کے دار الحکومت اسٹاک ہوم میں دائیں بازو کی اسٹرام کرس پارٹی کے رہنما راسموس پالوڈان نے 21جنوری 2023ءکو ترکی سفارت خانے کے باہر ترکی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے قرآن کریم نذر آتش کیا اور ترکی کے صدر رجب طیب اردوگان کی تصویروں کو بوٹوں سے روندا، قرآن شریف کی یہ بے حرمتی کسی بھی مسلمان کے لیے ناقابل برداشت ہے، چنانچہ پورا عالم اسلام اس وقت اس واقعہ کے خلاف سراپا احتجاج بنا ہوا ہے، ترکی، قطر، ایران، سعودی عرب، کویت، ایران اور پاکستان جیسے ممالک نے اس پرشدید برہمی کا اظہار کیاہے، آذر بائی جان کے حکمراں، سینگال کے صدرمیکی سال، عراق کے مقتدی صدر نے اپنے اپنے بیان میں اسے قابل مذمت عمل قرار دیا ہے، ہندوستان کی ملی تنظیموں نے وزیر اعظم سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مسلمانوں کے جذبات کو سمجھے اور اس واقعہ پر سویڈن حکومت کے سامنے اپنی برہمی اور ناراضگی کا اظہار کرے۔ ترکی میں اس واقعہ پر احتجاج اور مظاہرے مسلسل جاری ہیں۔ سویڈن کے وزیر خارجہ ٹوبیا سی بلسٹروم نے اسے اسلام فوبک اشتعال سے تعبیر کیا ہے، انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک میں اظہار رائے کی آزادی ہے، لیکن ایسا نہیں ہے کہ ہم اس قسم کے اقدام کی حمایت کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے اعلیٰ نمائندہ میگل اینجل مورا ٹینوز کے ترجمان نے کہا کہ یہ مسلمانوں کی توہین ہے اور اسے اظہار رائے کی آزاد ی کا نام نہیں دیا جاسکتا، انہوں نے باہمی احترام کے فروغ اور پرامن معاشرہ کی تشکیل پر زور دیا، سویڈن کے وزیر اعظم الف کرسٹرسن نے بھی اس واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ میں ان تمام مسلمانوں کے لیے اپنی ہمدردی کا اظہار کرنا چاہتا ہوں جنہیں آج اسٹاک ہوم میں ہونے والے واقعہ سے تکلیف پہونچی ہے۔
 ظاہر ہے اس قسم کی گھناؤنی حرکت کے ذریعہ ترکی کو اپنے موقف سے ہٹایا نہیں جاسکتا، بلکہ اس عمل سے دوریاں اور بڑھیںگی، چنانچہ اس کا اظہار ترکی نے سویڈن کے وزیر دفاع پال جانسن کے ترکی دورے کو منسوخ کرکے شروع کردیا ہے، ترکی کا کہنا ہے کہ اس عمل کے بعد یہ دورہ اپنی اہمیت اور معنویت کھو چکا ہے۔اس سلسلے میں پال جنسن نے جرمنی کے شہر راسٹین میں ترک وزیر دفاع ہولوسی آکار سے امریکی فوجی اڈے پر ملاقات کی، لیکن اس کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا یہاں اس حقیقت کا اظہار بھی ضروری ہے کہ واقعہ کے صحیح ہونے کے باوجود اس واقعہ کا جو ویڈیو سوشل میڈیا پر گشت کررہاہے وہ سویڈن کا نہیں۔کہیں اورکاہے سوشل میڈیا پر پہلے بھی ایسا ہوتا رہا ہے۔

پونجی کی حفاظت ضروری ہے

پونجی کی حفاظت ضروری ہے 
اردودنیانیوز۷۲

جمعرات کے دن ہم مولویوں کے ذہن میں چھٹی ہی سوار رہتی ہے، شام کے وقت جب گھر سے نکلنے پر اہلیہ نے پوچھا کہاں جارہے ہیں؟اچانک یہ جملہ منھ سے نکل گیا ؛آوارگی کرنے جارہا ہوں، بعد میں احساس ہوا کہ یہ جواب صحیح نہیں ہے،مجھے ایسا نہیں کہنا چاہیے،بہر کیف اسی ادھیڑ بن میں ارریہ شہر کے مولوی ٹولہ آنا ہوا، وہاں بھی سوال ہوا،مولوی صاحب! یہاں کیا کررہے ہیں؟ خلیل آباد مسجد میں آپ تمام مدرسہ والوں کا ضلعی جوڑ ہے،عشاء تک پروگرام ہے، جلدی جائیے، پہونچ گیا، پروگرام کی آخری کڑی جناب حضرت مولانا ایوب صاحب کی نصیحت ہورہی ہے، حضرت فرمارہے ہیں؛"آپ عالم انسانیت کی ہدایت کا ذریعہ ہیں، موجودہ حالات کو بدلنے کا ذریعہ علماء کرام ہی ہوسکتے ہیں، بس فکر مندی کی ضرورت ہے، رونے کی ضرورت ہے، علماء اللہ سے ڈرنے والی برادری کا نام ہے،قرآن میں لکھا ہوا ہے کہ خشیت الہی عالموں میں ہوتی ہے،یہ یاد رکھئے کہ علم عمل کا امام ہے،جب علم کے ساتھ عمل نہیں جڑتا ہے تو علم رخصت ہوجاتا ہے، بہت سے لوگ تفسیر کا علم سیکھتے ہیں، حدیث کا علم سیکھتے ہیں، اس کا ماحصل اخلاق ہے،آج اس اخلاق کے علم کو پیش کرنے کی ضرورت ہے، ہمارا علم ہدایت کا ذریعہ بن جائے، اس بات کو ملحوظ رکھنے کی ضرورت ہے، 
دعاؤں میں طاقت پیدا کرنے کے لئے یقین ضروری ہے ،یقین جس درجہ کا ہوگا اس کی دعا میں جان اتنی ہی ہوگی، عالموں کے لئے گناہ سے بچنے کی سخت ضرورت ہے، جب گناہ سے ایک عالم بچتا ہے جبھی اس کا علم راسخ ہوتا ہے، آپ اپنی قیمت کو پہچانیئے، آپ پوری امت کے سرمایہ اور پونجی ہیں، اگر پونجی ہی ڈوب گئی تو کاروبار ختم ہوجائے گا، پہلے پونجی کی حفاظت ضروری ہے"
واقعی مولانا نے دو منٹ کے اندر سب کچھ کہ دیا ہے اور ہمیں ذاتی طور پر یہ محسوس ہوا کہ واقعی بڑی چوک ہم سے ہورہی ہے، وہی طالب علمی کے زمانے کی کمیاں پوری عمر ہمارا پیچھا کررہی ہیں کہ آج جمعرات ہے اور چھٹی کا دن ہے، جبکہ  مولویوں کے لئے چھٹی نہیں ہے،ہمیں ہروقت یہ سبق یاد رکھنے کی ضرورت ہے، 
    ع۔۔ اسے چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا 
 حضرت علی میاں رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب تاریخ دعوت وعزیمت کی پانچ جلدوں میں علماء کرام اور مصلحین مجدین کی فہرست پیش کی ہے،تیرہ سو سالہ تاریخ میں جنہوں نے اسلام کی احیاء، تجدید اور اصلاح کا کارنامہ انجام دیا ہے،
اسلام اور مسلمانوں کی حفاظت کے کام میں حصہ لیا ہے،ان کی کوششوں سے اسلام زندہ اور مضبوط شکل میں موجود رہا ہے، کوئی زمانہ خالی نہیں رہا ہے،مگر آج یہ میدان خالی نظر آرہا ہے،مطلوبہ اوصاف سے ہم عاری نظر آرہے ہیں، ایسے میں عزم لینے کی شدید ضرورت ہے کہ ہم حالات کو بدلنے کے لئے پہلے اپنی حالت کو بدلیں گے، اپنی ذمہ داری کا احساس کریں گے، 

   خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی 
  نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا 

راقم الحروف 
ہمایوں اقبال ندوی ارریہ 
۲/فروری ۲۰۲۳ء

جمعرات, فروری 02, 2023

تیری معراج کے تو لوح وقلم تک پہونچامفتی محمد ثناء الہدی قاسمی

تیری معراج کے تو لوح وقلم تک پہونچا
اُردو دنیا نیوز 72
مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
طائف کی گلیوں سے اوباشوں کے پتھرکھا کھا کر ، لہولہان جسم اور رئیسوں کے طعن وتشنیع سن سن کر ٹوٹے ہوئے دل کے ساتھ لوٹتے ہوئے نبی ¿ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے آسمان کی طرف باچشم نم دیکھا، اور زبان پر یہ کلمات جاری ہوئے:الہی اپنی کمزوری ، بے سروسامانی اور لوگوں میں تحقیر کی بابت تیرے سامنے فریاد کرتا ہوں ، تو سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا، درماندہ اور عاجزوں کا مالک تو ہی ہے اور میرا مالک بھی تو ہی ہے ، مجھے کس کے سپرد کیا جاتا ہے ۔کسی بیگانہ ترش رو کے یا اس دشمن کے جو کام پر قابو رکھتا ہے اگر مجھ پر تیرا غضب نہیں تو مجھے اس کی پرواہ نہیں ، لیکن تیری عافیت میرے لئے زیادہ وسیع ہے ۔“
زبان مبارک سے یہ کلمات نکل رہے تھے اور ادھر ملاءاعلی میں ہلچل مچی ہوئی تھی کہ آج جو کچھ ہوا وہ چشم فلک نے کاہے کو دیکھا ہوگا، فرشتوں میں سرگوشیاں ہورہی ہیں کہ آخر جس کے صدقے میں کائنات بنی، اسے اور کتنے مظالم سہنے ہوں گے ، رب کائنات کو بھی اس کی فکر تھی، اس لئے خالق کائنات نے اس شکستہ دل کی دل جوئی کے لئے طائف سے واپسی کے بعد ایسا نسخہ تجویز کیا کہ عروج نسل انسانی کی انتہا ہوگئی ، زمان و مکان کے قیود وحدود اٹھالئے گئے ، تیز رفتار سواری براق فراہم کی گئی ، مسجداقصی میں سارے انبیاءکی امامت کرائی گئی ، اور پھر اس جگہ لے جایا گیا؛ جہاں جاتے ہوئے جبرئیل کے بھی پر جلتے ہیں ،پھر قربت خداوندی کی وہ منزل بھی؛ آئی جس کے بارے میں قرآن کریم نے فکان قاب قوسین اوادنی کہہ کرسکوت اختیار کرلی ، ساتوں آسمانوں کی سیر ، جنت و جہنم کا معائنہ، ابنیاءکی ملاقاتیں ، اور پھر واپسی، کتنے گھنٹے لگے ؟ کیا تیز رفتاری تھی؟ سب کچھ رات کے ایک حصے میں ہوگیا ، اور صبح آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے حجرہ ¿مبارکہ سے نکلے ، اور لوگوں میں اس واقعہ کا اعلان کیا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تصدیق کرکے صدیق ہوگئے اور کئی نے تکذیب کرکے اپنی عاقبت خراب کرلی ، اور منافقین کے دل کی کدورتیں اور ایمان واسلام سے ان کی دوری، کھل کرسامنے آگئی ۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سفر میں، عالم قدس میں اپنی تمام قولی ، بدنی اور مالی عبادتوں کا نذرانہ پیش کیا ، اور اللہ رب العزت نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایسی سلامتی بھیجی، جومومنین کے نمازوں کا جز ہوگیا ، اللہ کے رسول ، اس اہم موقع سے اپنی امت کو کیسے بھول سکتے تھے ،فورا ہی اس سلامتی میں مومنین و صالحین کو شامل کرلیا اور اس پورے مکالمہ کا اختتام کلمہ ¿ شہادت پر ہوا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد اللہ کے رسول ہیں ۔تحفے نورانی اس سفر میں اور بھی ملے ، ایسے تحفے جس سے مومنین بھی معراج کا کیف وسرور پا سکتے ہیں یہ تحفہ نماز کا تھا ، پچاس وقت کی نماز تحفہ میں ملی، قربان جایئے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ، جنہوں نے بار بار بھیج کر تعدادکم کرائی اور بات پانچ پر آکر ٹھہری ، ثواب پچاس کا باقی رہا ، اور سب سے بڑی بات یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان کیا کہ نماز مومنین کی معراج ہے ۔ہم واقعہ ¿ معراج پر سر دھنتے ہیں ، دھننا چاہئے ۔لیکن اس واقعہ کا جو عظیم تحفہ ہے اس سے ہماری غفلت بھی لائق توجہ ہے ، معراج کے واقعہ کا بیان، سیرت پاک کا اہم واقعہ ہے ، ہم اس کو سن کر خوب خوش ہوتے ہیں ، جلسے جلوس بھی منعقد کرتے ہیں اور اس خاص تحفہ نماز کو بھول جاتے ہیں جو ہمارے لئے آقا صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے ، اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ جہاں ہمیں کچھ کرنانہیں ہوتا، وہاں ہم بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں ، اور جہاں کچھ کرنے کی بات آتی ہے ہم اپنی ذمہ داریوں کو بھول جاتے ہیں اور ان سے پہلو تہی کرتے ہیں اگر ایسا نہ ہو توہماری مسجدیں نمازیوں سے بھری رہیں گی اور رحمت ونصرت کی وہ پرُوائی چلے گی جو مصائب والم کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے جائے گی ۔یہ حال تو ہمارا معراج کے اس تحفہ کے ساتھ ہے جس کا ذکر معراج سے متعلق گفتگو میں بار بارآتا رہتا ہے ۔ لیکن قرآن نے تو”فَاَو ±حَی اِلیٰ عَب ±دِہِ مَا اَو ±حٰی“کہہ کر ہمیں بتایا کہ باتیں اور بھی ہیں اور سورہ اسریٰ ہی میں بارہ احکام کے ذکر کے بعد”ذَالِکَ مِمَّا اَو ±حَی اِلَی ±کَ رَبُّکَ مِنَ ال ±حِک ±مَةِ“(یہ تمام باتیں دانش مندی کی ان باتوں میں سے ہیں جو خدا نے آپ پر وحی کی ہیں) کہہ کر واضح کردیا کہ”مااوحی“ میں کیا کچھ تھا، آیئے ان احکامات پر بھی ہم ایک نظر ڈالتے چلیں ۔
۱۔ سب سے پہلا حکم یہ دیا گیا کہ شرک نہ کرو: کیوں کہ یہ بڑا ظلم ہے ، وہ اللہ جو اس سارے کائنات کا خالق اورمالک ہے اس کے ذات وصفات میں کسی کو شریک کرنا شرک ہے ، اللہ اس بارے میں اتنا غیور ہے کہ اس نے اعلان کردیا ہے کہ وہ اس گناہ کو معاف نہیں کرے گا۔ ”اِنَّ اللَّہَ لاَ یَغ ±فِرُاَن ± یُش ±رَکَ بِہِ وَیَغ ±فِرُمَا دُو ±نَ ذَالِکَ لِمَن ± یَشَائ۔“
۲۔ ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرو ان کی عزت واطاعت کرو ، اگر ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کو جھڑکنا تو بڑی بات ہے ، اف تک نہ کہو ، اور ان سے ادب سے باتیں کیا کرو ، اور ان کے سامنے اپنے کندھے عاجزی اور نیاز مندی کے ساتھ جھکا دو ، اور ان کے لئے دعا بھی کرتے رہو کہ اے رب ان پر رحم کر جیسا کہ انہوں نے مجھے صغر سنی میں پا لا۔واقعہ یہ ہے کہ اللہ رب العزت کی عبادت کے بعد والدین کی اطاعت سب سے اہم ہے اور جس طرح اللہ کا شکر ضروری ہے ، اسی طرح والدین کا بھی شکرگذار ہونا چاہئے ، اس بارے میں احادیث بھری پڑی ہیں، لیکن ہم میں کتنے ہیں جو ان کا پاس و ادب قرآن کے مطلوب انداز میں کرتے ہیں حالانکہ مستدرک حاکم کی ایک روایت ہے کہ اللہ کی رضا باپ کی رضا میں ہے ، اور اللہ کی ناراضگی باپ کی ناراضگی میں ہے اور یہ معاملہ اتنا اہم ہے کہ حسن سلوک کے لئے ان کا مسلمان ہونا بھی ضروری نہیں ہے ۔
۳۔ حق داروں کے حق کی ادائیگی کرو : والدین کے علاوہ بہت سے اعزو اقربائ، مسکین اور مسافر کے بھی حقوق ہم سے متعلق ہیں اور ہم ان کے ساتھ جو حسن سلوک کررہے ہیں یا کریں گے اصلا یہ ان کے حق کی ادائیگی ہے ان پر احسان نہیں ہے ۔
۴۔ فضول خرچی اور اسراف سے بچو : کسی گناہ کے کام میں اور بے موقع خرچ کرنے یا ضرورت سے زائد خرچ کرنے سے بھی منع کیا گیا ، اسی کے ساتھ یہ بھی حکم دیا گیا کہ اپنے ہاتھ بخالت کی وجہ سے گردن سے باندھ کرنہ رکھو ، اور نہ اس طرح کشادہ دست ہوجاﺅ کہ فقر و فاقہ کی نوبت آجائے ، خلاصہ یہ کہ افراط وتفریط سے بچتے ہوئے ،اعتدال اور میانہ روی کی راہ اپناﺅ ۔
۵۔ مفلسی کے خوف سے اولاد کو قتل نہ کرو: اس لئے کہ روزی ہم تم کوبھی دیتے ہیں ان کو بھی دیں گے ، ان کا مارنا بڑی خطا ہے دراصل اس حکم کا تعلق اللہ کی صفت رزاقیت سے جڑا ہوا ہے ، بچوں کو اس خوف سے ماردینا یا ایسی ترکیبیں کرنا جس سے ان کی ولادت ممکن نہ ہو ، اللہ کی صفت رزاقیت پر یقین کی کمی کا مظہر ہے ،جب اللہ کا اعلان ہے کہ روئے زمین پرجتنے جاندار ہیں سب کا رزق میرے ذمہ ہے ۔اورمیں رزق اس طرح دیتا ہوں جو بندہ کے وہم وگمان سے بھی بالاتر ہے ۔اس صورت میں مفلسی کے خوف سے اولاد کا قتل کرنا، کس طرح جائز ہوسکتا ہے ۔
۶۔ زنا کے قریب مت جاﺅ: اس لیے کہ یہ بے حیائی کا کام ہے اور یہ برا راستہ ہے ، حدیث میں ہے کہ زانی زنا کرتے وقت مسلمان نہیں رہتا ، ایمان اس کے قلب سے نکل جاتا ہے ،آج جس طرح فحاشی بے حیائی اور کثرتِ زنا کے واقعات پیش آرہے ہیں اس سے پورا معاشرہ فساد وبگاڑ میں مبتلا ہوگیا ہے ، کاش اس حکم کی اہمیت کوہم سمجھتے ۔
۷۔ ناحق کسی کی جان مت لو: حکم کا خلاصہ یہ ہے کہ قتل ناحق حرام ہے ، اور یہ ایسا جرم عظیم ہے کہ اسے قرآن میں ساری انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیا گیا، اسی طرح اگر کسی نے ایک جان کو بچالیا تو گویا اس نے بنی نوع انسان کی جان بچالی ، اس حکم پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے آج بڑے پیمانے پر قتل وغارت گری کا بازار گرم ہے ۔
۸۔ یتیم کے مال کے قریب مت جاﺅ: یتیم اپنی کمزوری اور کم سنی کی وجہ سے اپنے مال کی حفاظت نہیں کرسکتا ، اس لئے بہت سے لوگ اسے سہل الحصول سمجھ کر ہڑپ کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں ، اس حکم میں ہڑپ کرنے اور نائز جائز تصرف کرنے کا معاملہ تو کجا؟ اس کے قریب جانے اورپھٹکنے سے بھی منع کیا، کمزوروں کی اس قدر رعایت صرف اسلام کاحصہ ہے ۔
۹۔ اپنا عہد پورا کرو،معا ہدہ کی خلاف ورزی سے بچو، اس لئے کہ وعدوں کے بارے میں بھی پرشش ہوگی یعنی جس طرح قیامت میں فرائض واجبات کے بارے میں سوالات ہوں گے ، ویسے ہی معاہدات کے بارے میں بھی سوال ہوگا ، عہد کے مفہوم میں وعدہ بھی شامل ہے اسی وعدہ خلافی کو حدیث میں عملی نفاق سے تعبیر کیا گیا ہے ۔
۰۱۔ ناپ تول میں پیمانہ اور ترازو کو ٹھیک رکھو :یعنی ڈنڈی نہ مارواورنہ کم ناپو، اس لیے کہ انجام کے اعتبار سے یہ اچھا اور بہتر ہے ، اگر تم نے ناپ تول میں کمی کی تو جہنم کے ’’ ویل‘‘ میں ڈالے جاﺅ گے یہ تواخروی عذاب ہے ، دنیاوی اعتبار سے پیمانے اور اوزان ٹھیک رکھنے کا فائدہ یہ ہوگا کہ تجارت میں برکت بھی ہوگی ۔کاروبار بھی خوب چمکے گا۔
۱۱۔ جس بات کی تحقیق نہ ہو اس پر عمل مت کرو: کیوں کہ کان، آنکھ ، اور دل سب کے بارے میں قیامت کے دن پوچھ گچھ ہوگی ، ہمارا حال یہ ہے کہ ایک بات سن لیا اور بغیرکسی تحقیق کے اسے دوسروں سے نقل کردیا ۔یا اگر کچھ فائدہ نظر آیا تو اپنی زندگی میں اتارلیا ،قرآن کریم کی ایک دوسری آیت میں خبر کی تحقیق کا حکم دیا گیا ہے کہ اگرتم بغیر تحقیق کے کام شروع کردوگے تو کبھی تمہیں ندامت کاسامنا کرنا پڑے گا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف لفظوں میں اعلان کیا کہ کفی بالمرءکذبا ان یحدث ماسمعہ کسی آدمی کے جھوٹا ہونے کے لئے یہ کافی ہے کہ اس نے جو سنا ہے وہ بیان کردے ، آج جب سنی ہوئی بات کو بغیر تحقیق کے نمک مرچ لگا کر بیان کرنے کا مزاج بن گیا ہے اورسنی سنائی باتوں پر عمل کی بنیاد رکھی جارہی ہے ۔ تو ہمیںدنیامیں ندامت کا سامناکرناپڑسکتا ہے اور آخرت کی رسوائی الگ ہے ، جہاں مجرموں کے منہ پر مہر لگا دی جائے گی اور ان کے ہاتھ بولیں گے ، پاﺅں گواہی دیں گے کہ ان اعضاسے کیسے کیسے کام لئے گئے ۔
۲۱۔ اور آخری حکم اس سلسلے کا یہ ہے کہ زمین پر مغرور بن کر مت چلو : اس لئے کہ تم اپنے اس عمل سے نہ تو زمین کی چھاتی پھاڑ سکتے ہو اور نہ پہاڑ کی چوٹی سر کرسکتے ہو ، گویا یہ ایک احمقانہ فعل ہے ۔ اور اس کے نتیجے میں پستی ذلت وخواری تمہارا مقدر ہے ، کیوں کہ قدرت کا اصول ہے کہ اکڑ کر نیچے آیا جاتا ہے اوپر نہیں ، اوپر جانے کے لئے جھک کر جانا ہوتا ہے جو کبر کی ضد ہے ۔آپ کو جب پہاڑ پر چڑھنا ہو تو جھک کر ہی چلنا ہوگا ، سائیکل اونچی سڑک پر چلا رہے ہوں یا پیدل ہی نیچے سے اوپر کو جارہے ہوں تو جھک کر چلنا ہوگا، ورنہ آپ الٹ کر کھائی میں جاگریں گے ، معلوم ہوا کہ اوپر جانے کے لئے جھکنا ہوتا ہے لیکن جب پہاڑ سے نیچے آنا ہو تو اکڑکر آنا ہوتا ہے اس لئے کہ اگر جھک کر آئے گا تو ڈھلک کر کھائی میں جا پڑے گا ۔ البتہ یہ جھکنا جاہ ومنصب اور کسی آدمی کے خوف سے نہ ہو بلکہ جھکنا صرف اللہ کے لئے ہو اسی کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے من تواضع للہ رفعہ اللہ سے تعبیر کیا ہے ۔
یہ ہے درحقیقت معراج کا پیغام اور تحفہ، جن پر عمل کرنے سے یہ دنیا جنت نشاں ہوسکتی ہے ، آج ہم نے اس پیغام کو بھلا دیا ہے ، اور شب معراج کے ذکر سے اپنی محفل کو آباد کر رکھا ہے حالانکہ شب معراج تو ہمیشہ ہمیش کے لئے وہی ایک رات تھی جس میں آقا صلی اللہ علیہ وسلم معراج میں تشریف لے گئے تھے ، قیامت تک کوئی دوسری رات شب معراج نہیں ہوسکتی ہے ، وہ تاریخ آسکتی ہے ، لیکن وہ نورانی رات پھر کبھی نہیں آئے گی، ہم نے بھی اپنی جہالت وغفلت سے کیسی کیسی اصطلاحیں وضع کر رکھی ہیں اللہ تعالی ہم سب کو شب معراج میں دیئے گئے پیغام کی اہمیت ومعنویت کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے ، آمین یا رب العلمین وصلی اللہ تعالی علی النبی الکریم وعلی الہ وصحبہ اجمعین۔

گد ا گر ی کتنے افسوس کی بات ہےکہ دنیا میں آج تک گداگروں کی مردم شماری نہیں ہوئی۔ہوئی ہوتی

             گد ا گر ی   

اردو دنیا نیوز ٧٢
        کتنے افسوس کی بات ہےکہ دنیا میں آج تک گداگروں کی مردم شماری نہیں ہوئی۔ہوئی ہوتی تو لوگوں کو پتا چلتا کہ کتنے ملین افراد اس قوم میں پائے جاتےہیں۔یہ کم وبیش دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں اور اپنی کثرت تعداد پرلوگوں سےاپنالوہامنوائے ہوئے ہیں۔آپ صرف انڈیا کو لے لیجئے۔ مشاھدہ بتاتا ہے کہ یہاں گداگرو ں کافی صدحیرت انگیزہے۔ دنیاجیسےجیسےترقی کر تی جارہی ہے،یہ قوم بھی خوب پھل پھلول رہی ہے۔گداگری اب ایک پروفیشنل بزنس بن چکی ہے۔وہ توکہئےکہ ابھی تک سیاسی لیڈروں کی نگاہ ان کے تناسب پر نہیں پڑی ورنہ یہ قوم اور بھی ترقی کرتی۔شہر شہر قصبہ قصبہ قریہ قریہ، گلی گلی کوچہ کوچہ ہر جگہ گداگروں کی موجودگی درج ہے۔یہاں تک کہ جہاں کوئی نہیں ہوتا وہاں بھی یہ موجود ہوتے ہیں۔ ان کی ذات وصفات بھی مختلف ہیں۔ان کے انداز بھی جداجداہیں۔ 
       اسلام نے گداگری کو سخت ناپسند کیاہے۔ 
اس کی مذمت کی ہے اوربلا ضرورت کسی کے آگے دست سوال درازکرنےکومعیوب کہاہے۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ اسی اسلام کوماننے والی مسلمان قوم میں گداگروں کی تعدادریکارڈتوڑہے۔ایسا اقتصادی بحران کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اس قوم میں حرام خوروں کی بہتات ہوگئی ہے۔اسلام کہتاہے کہ اپنی زکات اور صدقات کومستحق تک پہنچاؤ۔انھیں تلاش کرو کہ غیرت کی وجہ سے وہ دست سوال نھیں پھیلاتے۔وہ ضرورت مند ہوتے ہیں مگر بھیک مانگنے سے حیاکرتےہیں،تو انھیں تلاش کرو۔وہ مستحق ہیں۔
     مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ نادانستہ مستحق کونظراندازکرتےہوئےعام طورسے غیر مستحق کوزکات وخیرات د ے کران کی حوصلہ افزائی کرتے رہتےہیں۔ اس طرح زندگی کے سب سے آسان اورنفع بخش راستے پر چلنے والی بھیڑ میں اضافہ ہوتاجاتاہے۔لوگ نیکی کر کے دریا میں ڈالتے رہتےہیں۔
      اندراگاندھی نے ایمرجنسی پیریڈ میں بھیک مانگنے پر پابندی عائدکردی تھی۔ سخت پابندی کی وجہ سے کہیں کوئی گداگر نظر نہیں آتاتھامگرایسانہیں ہوا کہ گداگر بھوکوں مرنےلکےہوں۔ بھوک سے کسی گداگر کےمرنےکی خبر نھیں آئی تھی۔
     فی زمانہ مسلم قوم میں گداگری کاپیشہ بےحد مقبول ہے۔ خوب ترقی پزیر ہے۔آپ نے اخبارات میں پڑھا ہوگا کہ پھٹے پرانے کپڑوں میں بھیک مانگنے والا یا مانگنےوالی مرگئی تو اس کے گھر سے لاکھوں روپئے برآمد ہوئے۔ایک گداگرنےتوحدہی کردی۔اس نے اپنے ہونے والے
خسر یعنی متوقع بیوی کے باپ سے جہیز میں وہ علاقہ طلب کیا جو کافی زرخیز تھا۔اس شرط پر لڑکی کاباپ راضی ہوگیااور بڑی دھوم دھام سے شادی ہوئی حالانکہ لڑکی بھی خالص بزنس میڈم تھی۔ نقاب میں گھر گھر جا کر اپنی شرافت کی دہائی دیتے ہوئے خوب کمالیتی تھی۔ 
رنگ رنگ کےگداگر۔رنگ رنگ کےحلیے۔رنگ رنگ کی صدائیں۔ نئے نئے انداز۔دعاؤں کاپٹارہ لیے ہوئے گلی گلی گھومتےرہتےہیں۔زبان حال سے کہتے رہتے ہیں۔ آتے جاؤ، پھنستےجاؤ،،بھولے بھالے، سادہ لوح،نیک لوگ ان کا شکار ہوتے ہیں۔
   ایک صاحب کے بارےمیں مشہور ہے کہ وہ ممبئی میں گداگری کرتےتھے۔ کا فی بڑےعلاقہ پرقابض تھے۔ سکہ جم گیا تھا۔خوب کماتےتھے۔ہرماہ ڈھیروں روپیہ گھربھجتےتھے۔گھر والوں کوبتارکھاتھاکہ وہ دبئی میں ایک اچھی پوسٹ پر ہیں۔ 
    ایک روزہم کسی کام سےبازارگئےتوایک عجیب وغریب تماشا دیکھا۔ایک فقیرنےدونوں ہاتھوں میں کاسےلے رکھےتھے۔دائیں ہاتھ کا کاسہ ہمارےسامنےکرتےہوئےکہا-
      ۔۔ بابا۔!خدا کے نام پر ایک روپیہ دیتاجا۔تیرےبچےجیئں۔ تجھے حج نصیب ہو۔تیری ساری مرادیں پوری ہوں۔خداشادوآبادرکھے۔،، 
       ایک روپیہ میں اتنی ساری دعائیں پاکر ہم نہال ہوگئے۔ایک روپئےکاسکہ اس کے کاسہ میں
 ڈال کر پوچھا۔۔بابا۔! یہ تم نے دونوں ہاتھوں میں کا سے کیوں لے رکھے ہیں۔؟،،   
    فقیرنےجواب دیا۔۔کاروبار ترقی پرہے۔میں نےپچھلےہفتےسے ایک برانچ آفس کھول دیا ہے۔۔ ہم لاحول پڑھتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔ 
      ان گداگروں کی بہت ساری پلٹنیں اور کوالٹیاں ہیں۔ایک فقیرنےکسی بڑے آدمی کے درپرصدالگائی تواندرسےآواز آئی۔۔بابا معاف کرو،بی بی جی گھر میں نہیں ہیں۔۔،  
      فقیرنےنہایت معصومیت سے کہا۔۔ایک دوروپئےخیرات کردو بابا۔مجھےبی بی جی کی ضرورت نہیں ہے۔،، 
     ۔۔بانکےسائیں نے سیٹھ جی سےکہا۔۔۔سیٹھ جی۔!تین سال پہلے تم مجھے ہرجمعرات کو پانچ روپئےدیاکرتےتھے۔دوسال سے تین روپئے دینےلگے۔اب ایک روپیہ پرٹرخارہےہو۔۔؟ ،، 
     سیٹھ جی نے بڑی نرمی سے سمجھاتے ہوئے کہا۔۔سائیں!دوسال پہلے میری شادی ہوگئی تھی۔تم جانتے ہو کہ شادی کےبعدخرچہ بڑھ جاتاہے۔ 
اورپھر دوسال میں دو بچے بھی ہوگئے۔خرچہ اور بڑھ گیا۔،، 
      ۔۔بہت خوب۔بہت خوب۔،، بانکےسائیں بولے۔توگویامیرا
روپیہ تم اپنے کنبہ پرلگارہےہو۔؟،، 
     ایک گداگر کایہ انداز بھی دیکھئے۔اورقربان جائیے۔ اس نے
 ایک دروازہ پرصدالگائی۔۔بی بی جی۔!خدا کے نام پر کچھ خیرات کردو۔آج جمعرات کا مبارک دن ہے۔دل کی مراد پوری ہو گی۔شادوآبادرہوگی۔بچےجیئں گے۔مال و اموال میں،آل و اولادمیں برکت ہوگی۔،،
        سائل کی آوازسن کر دروازہ میں ایک شخص نمودار ہوا۔بڑی لجاجت سے بولا۔۔ 
      ۔۔سائیں! میری ایک ہی دلی مرادہے۔پوری کردوتوبڑااحسان ہوگا۔،،
      ۔۔ فقیرسےدل کی بات کہہ دےبیٹا۔،،سائل نے قلندرانہ شان سےکہا۔ہم دعا کریں گے اور تیری مرادضرورپوری ہوگی۔،، 
        ۔۔بابا جی!افسوس کہ آج جمعرات کے مبارک دن آپ کودینےکےلیےمیرےپاس کچھ بھی نہیں۔ایسا کرو کہ اگرلےجا سکوتومیری بوڑھی ساس کو خیرات میں اپنےساتھ لیتےجاؤ۔۔
         ۔۔میں خیرات میں بوڑھی ساس نہیں لیتا۔،،سائل نے منھ بنا کر جواب دیا۔
        ۔۔ توپھرباباجی! میری ساس کےلیے کوئی ایسی اثر اندازدعاکردوکہ اس سے میرا
پیچھا چھوٹ جائے۔کم بخت نے اپنی بیٹی کے کان بھربھرکےمیرا جیناحرام کررکھاہے۔کوئی تعویز
 ہی عنایت کردو۔،، 
      ۔۔ بیٹا!ساس ایسی مخلوق ہےجس کے حق میں کوئی دعا
 قبول ہوتی ہےنہ تعویذ،گنڈے کام آتےہیں۔۔میں نےتجھےمعاف کردیا،توبھی مجھےمعاف کردے۔
    دامادکوسخت مایوسی ہوئی اور سائل خداسےامان طلب کرتا ہواآگےبڑھ گیا۔ 
        اس دن سلیم سیٹھ بہت اداس تھے۔برآمدے میں کرسی پر اداس بیٹھے کسی سوچ میں غرق تھے۔اچانک ایک گداگر ان کے سامنےآکھڑاہوا۔
        ۔۔سیٹھ جی!خدا کے نام پر کچھ دیجئے۔
        ۔۔ معاف کروبابا۔،، 
          گداگر۔۔کیسے معاف کردوں۔؟الله نے آپ کو بہت کچھ دےرکھاہے۔خدا آپ کو اورترقی دےگا۔کچھ تو خیرات کردیجئے۔آپ کےبچے پھولیں پھلیں۔،، 
         سیٹھ جی۔۔ کہہ دیا نا بابا معاف کرو۔آگےبڑھو۔ابھی کل ہی تو
 میرے مکان میں چوری ہوئی ہے۔چور کم بخت میری بیوی کو چھوڑ کر سب کچھ سمیٹ لےگیا۔،، 
      گداگر۔۔تو پھر اپنی بیگم صاحبہ کو ہی خیرات میں دےدیجئے۔خدا آپ کو دو بیویاں عطاکرے۔،، 
     سیٹھ جی۔۔بھاگ جاؤ۔کیسی بےہودہ خیرات مانگتےہو۔شرم نہیں آتی۔؟،، 
        گداگر۔۔ کیا کروں بھائی۔میرےپاس تو بے ہودہ بھی نہیں ہے۔آپ ذرا دل کو بڑا کر لیں اور جی کوکڑاکرلیں۔میں اسےباہودہ بالوں گا۔،، 
        سیٹھ جی۔۔کیبےبےشرم اوربےحیامانگنے
والےہو۔ٹلنےکانام ہی نہیں لیتے۔کہہ دیا آج ہمارے پاس کچھ نہیں ہے۔،، 
          گداگر۔۔توپھرائےشریف اورمحتاج آدمی!فالتواوربیکارکیوں بیٹھےہو؟جب کچھ نہیں بچا ہے تو اپنی بیگم سمیت ہمارے ٹولے میں کیوں نہیں شامل ہو جاتے۔؟بہت جلد چوری گئے مال سےزیادہ واپس آ جائے گا۔گارنٹی میں لیتاہوں۔،، 
        سیٹھ جی(غصہ سےکانپتےہوئے)بس اب خیریت اسی میں ہے کہ تو جلدی سے بھاگ جا ورنہ ابھی نوکروں کوبلاتاہوں۔،، 
       گداگر۔۔ جاتا ہوں بابا،جاتا ہوں۔میں تو آپ کو دکھی سمجھ کر آپ کےبھلےکےلیےہی کہہ رہاتھا۔آپ نہیں چاہتے توآپ کی مرضی۔،، 
     گداگر کی باتوں سے تنگ آکر سلیم سیٹھ
حلق پھاڑکردہاڑے۔۔ ابےجاتاہےیااٹھاؤں ڈنڈا۔؟،، 
     ناسازگارحالات کودیکھتے ہوئےگداگر نےبھا گ جانے میں ہی عافیت سمجھی۔وہ بڑبڑاتاجا
رہاتھا۔۔بڑا بیوقوف آدمی نکلا۔۔میں نے اس کے ساتھ ہمدردی کی۔نیک مشورہ دیا پروہ نہیں مانا۔گداگری کرتا تو بہت جلد ترقی پاجاتا۔بد نصیب ہے بے چارہ۔۔۔،،، 
      آپ نےگداگرکی ڈھٹائی دیکھی۔۔یہ توکچھ  بھی نہیں۔اس سے بھی بڑے بڑے ڈھیٹ آپ  کےدروازہ پر دستک دیتے ہوں گے۔اس لیے ہر دستک کومزدہء جاں فزانہ سمجھیں اور دیکھ بھال کر دروازہ کھولیں۔ہوسکتاہےدروازہ پر خطرہ موجودہو۔۔
        رمضان المبارک رحمتوں کا مہینہ ہے۔اس مہینے میں بڑی خیروبرکت ہے۔خاص طور سے گداگروں کےلیےبہارکاموسم ہوتا ہے۔دنیابھر کے گداگر اجتماعی طورپرنمودارہوتےہیں۔اوراس طرح چھاپوں پرچھاپےمارتےہیں کہ گویا سالانہ لگان وصول کر رہے ہوں۔نتیجے میں جو لوگ زکات وخیرات اور صدقات کےمستحق ہوتے ہیں وہ محروم رہ جاتے ہیں۔اورغیر مستحق مالامال ہوجاتے ہیں۔ 
       ہمارےمیردانشمندگداگری کوایک قومی مسئلہ مانتےہیں۔کہتےہیں۔۔یہ گداگر قوم کے لیے ذلت و رسوائی کا سبب ہیں۔ان کی حوصلہ افزائی بھی خوب کی جاتی ہے۔سادہ لوح طبیعت لوگ گداگروں سے بہت ڈرتے اور انھیں پیرومرشد تک مان لیتے ہیں۔وہ لوٹتے ہیں اور یہ دل کھول کرلٹتےہیں۔بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی کہ ہم کمائیں اور تم کھاؤ۔انھوں نے ضعیف اور معذوروں کواس سے مثتثنی رکھاہے۔ایک بارایک تندرست اور ہٹے کٹےفقیرکونصیحت کرتے ہوۓ انھوں نےکہا۔۔ 
         میاں جی!تمھیں خدا سے ڈر نہیں لگتا۔ 
اچھےخاصےہو۔صحت بھی قابل رشک ہے،پھر بھی بھیک مانگتےہو۔چاہوتودوچارلوگوں کو اورکماکرکھلاسکتےہو۔پھربھیک کیوں مانگتے ہو۔کچھ کام دھندہ کیوں نہیں کرتے۔؟،، 
      گداگرنےجواب دیا۔۔ہم بھیک مانگنا چھوڑ دیں توآپ خیرات کس کو دو گے۔ہمارا احسان مانو کہ ہم خیرات لےکر ثواب کمانے کا موقع دیتےہیں۔،، 
       میردانشمنداس گداگرپربہت ناراض ہوئے۔
کیامدرسےاوریتیم خانےبندہوگئےہیں؟ہم تم جیسے کام چوروں کو خیرات وصداقت کیوں دیں۔۔،، 
    گداگروں کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کااندازہ
لگانا کچھ مشکل نہیں۔صورت حال یہ ہےکہ کسی کے والد، والدہ،بیوی،بھائی،بھتیجہ،عزیز و اقارب کسی کا فاتحہ ہو،تیجہ ہو،چالیسویں ہویامرنےوالےکی سالانہ تقریب۔!کسی فقیر سے کہئے کہ باباکھاناکھالیجئےتوباباکاسوال ہوگا  کہ پہلےسوروپئے یا پچاس روپئےدوتب کھائیں گے۔باباکوکھلانااس لیے ضروری ہےکہ لوگوں کے بےہودہ خیال میں اگر ان کو نہ کھلایا پلایا جائےتو میت کی مغفرت کےلیے مسئلہ پیدا ہو
ہوسکتاہے۔ان گداگروں میں ایک اضافی خصوصیت کاعلم فلم انڈسٹری والوں کوابھی تک نہیں ہو پایا ہے کہ میکپ کے فن میں یہ کتنی مہارت رکھتےہیں۔اگر علم ہوجائےتوکتنے
ہی فلمی میکپ مینوں کی روزی جاتی رہے اور وہ گداگری بلکہ گدھاگری پر مجبور ہو جائیں۔ 
    ***
                     انس مسرور انصاری 
   قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن(رجسٹرڈ) 
  سکراول،اردوبازار،ٹانڈہ۔امبیڈکر نگر۔یو،پی۔ 
             رابطہ/9453347784

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...