Powered By Blogger

جمعرات, فروری 09, 2023

گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں ___✍️مفتی محمد ثناءالہدیٰ قاسمی

گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں ___
اردودنیانیوز۷۲ 
✍️مفتی محمد ثناءالہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ (9431003131)
    وقت انتہائی قیمتی چیز ہے، جو لمحات گذر جاتے ہیں وہ دوبارہ واپس نہیں آتے، اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ اللّٰہ رب العزت نے قران کریم میں مختلف جگہوں پرصبح،رات، دن، دوپہر اور زمانہ کی قسم کھائی ہے، اسی طرح احادیث میں بھی فراغ وقت کو اہمیت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے، اللّٰہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو، بڑھاپے سے پہلے جوانی کو، بیماری سے پہلے صحت کو، محتاجی سے پہلے تونگری کو، مصروفیت سے پہلے فراغت کو اور موت سے پہلے زندگی کو(حاکم المستدرک 4رقم الحدیث 7846) اسی لیے وقت کو سونے سے زیادہ قیمتی کہا گیا ہے۔ ہماری زندگی کا جووقت گذر جاتا ہے اور ہم اس میں کوئی تعمیری یاملی کام نہیں کرپاتے تو سمجھنا چاہیے کہ وہ ضائع ہوگیا، اسی لیے حضرات صحابہ کرام، ائمہ عظام اور علمائے ذی احترام رحمہم اللہ نے ہمیشہ وقت کی قدر کی اور لمحہ لمحہ کام میں صرف کیا، جامعہ رحمانی مونگیر کے سابق شیخ الحدیث حضرت مولانا سید محمد شمس الحق صاحب ؒ سے مرض وفات میں میری ملاقات ہوئی، میں نے ان سے نصیحت کی درخواست کی تو فرمایا: وقت کی قدر مرنے کے وقت معلوم ہوتی ہے، ایک بڑے مفکر کا قول ہے کہ جو وقت کو ضائع کرتا ہے، وقت اسے ضائع کردیتاہے۔
اللہ رب العزت نے وقت کا ذخیرہ سب کو برابر فراہم کیا ہے، ایسا نہیں کہ غریب کے پاس وقت کم ہے اور امیر کے پاس زیادہ، جس طرح سورج کی روشنی غریب و امیرسب پر یکساں پڑتی ہے، اسی طرح وقت بھی سب کے پاس یکساں ہے، ہر ایک کو چوبیس گھنٹے ہی عطا کیے گیے، ہر گھنٹے کے ساٹھ منٹ سب کے لیے مقرر ہیں، اب اسے کوئی سُو کر گذار دے یا جاگ کر گذار دے، نیک عمل میں صرف کرے یا بد عملی کے لیے استعمال کرے۔ یہ استعمال کرنے والے کی مرضی پر منحصر ہے۔
اللہ رب العزت نے ہمارے اوقات کو منظم کرنے کے لیے سارے ارکان اسلام کو وقت کے ساتھ فرض کیا، نماز، روزے، حج، زکوٰة سب کے اوقات مقرر ہیں۔ نماز وقت کی پابندی کے ساتھ فرض ہے، روزے کے لئے مہینہ مقرر کیا، مہینہ اوقات کے مجموعہ کا ہی دوسرا نام ہے، زکوٰة کے لیے موجود مال پر سال گذرنے کی قید لگائی اور حج کے لیے پانچ دن مقرر فرمائے۔ کسی بھی رکن کو انسانوں کی مرضی کے تابع نہیں کیا، بلکہ اوقات کے تابع کیا، اگراس نظام الاوقات کی پابندی کوئی نہیں کرتا تو” فرض“ اس پر” قرض“ ہوجاتاہے، جسے بعض عبادتوں میں” قضا“ سے تعبیر کرتے ہیں اور حج میں وقت کی پابندی نہ کی جائے تو اس سال کی حد تک تو وہ فوت ہی ہوجاتا ہے، زندگی کا کیا بھروسہ، اگلے سال ملے یا نہ ملے۔ تمام دفاتر میں بھی کام کے اوقات متعین ہوتے ہیں اور اس میں سستی اور کوتاہی معیوب ہونے کے ساتھ قابل تعزیر جرم بھی قرار پاتا ہے۔
وقت کی حفاظت کے لیے ضروری ہے کہ ایک نظام الاوقات بنایا جائے، صبح سے شام تک، بلکہ سونے سے قبل تک اس دن جو کچھ کرنا ہے اس کو یادداشت میں نوٹ کرلیا جائے اور اسی کے مطابق رات و دن عمل کیا جائے۔ جو ذمہ داریاں آپ کو دی گئی ہیں اور جو کام کے اوقات مقرر ہیں اس کو بھی اپنے نظام الاوقات کا حصہ بنائیے اور اس کے خلاف کرنے کی عادت مت ڈالیے، کبھی نظام الاوقات میں وقتی واقعات و معاملات اور کسی غیر متوقع حادثات کی وجہ سے تبدیلی ہوسکتی ہے، یہ نظام فطرت ہے، لیکن ہر دن نظام الاوقات کے مطابق کام نہ انجام پائے تو یہ وقت کی ناقدری کے زمرے میں آئے گا، اسی لیے دفاتر میں حاضری میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے اور سارے کام وقت پر انجام دینے چاہیے۔ اگر آپ نے وقت کا لحاظ نہیں رکھا تو بڑے نقصانات کا سامنا کرنا پڑسکتاہے، مثلاً آپ نے بجلی بل وقت پر ادا نہیں کیا تو اسے سود کے ساتھ اضافی جمع کرنا پڑے گا، امتحان کے موقع سے آپ بروقت نہیں پہونچے تو آپ امتحان دینے سے محروم رہ گیے ، اسٹیشن وقت پر نہیں پہونچے تو ٹرین چھوٹ جائے گی۔ کیوں کہ ٹرین کو آپ کا انتظار نہیں ہوگا۔وقت کی پابندی نہ کرنے سے موقع بھی ہاتھ سے نکل جاتا ہے، اس لیے کہ وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا اور گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں۔اور جب وقت نکل جاتا ہے یا ہمیں دیر ہوجاتی ہے تو ہم ذہنی تناؤ کے شکار ہوتے ہیں جس سے ہم اپنے مفوضہ کاموں کو اچھی طرح انجام دینے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے، اس کے علاوہ ہمیں اپنے ذمہ داروں کے سامنے جھوٹ بولنا پڑتا ہے، حیلے تراشنے پڑتے ہیں، یقینا بعض لوگ ہمارے درمیان ایسے ہیں جو جھوٹ اس صفائی سے بولتے ہیں کہ ہم سچ اس قدر صفائی سے نہیں بول پاتے، جھوٹ صفائی سے ہویا صفائی دینے کے لیے ہو، ہر حال میں مذموم ہے اور جھوٹوں پر اللّٰہ کی لعنت تو قرآن کریم سے ثابت ہے۔ ایک کام وقت پر نہیں ہوا تو پورے دن کا نظام بے وقت ہوکر رہ جاتاہے۔ میں نے اپنے استاذ حضرت مولانا مفتی سعید احمد پالن پوریؒ سابق شیخ الحدیث دار العلوم دیوبند کو دیکھا کہ اگر وہ ہم جیسے چھوٹے یا بہت بڑے آدمی کی بھی دعوت کرتے تو صاف صاف بتاتے کہ میرے یہاں دن کا کھانا فلاں وقت ہوتا ہے۔ اور اس پر سختی سے عامل ہوتے، بڑوں کی دعوت ہوتی تو شاگردوں کو یہ بات اچھی نہیں لگتی تھی، ایک بار کسی نے پوچھ لیا تو فرمایا کہ ایک دعوت کے لیے پورے دن کے نظام کو بدلا نہیں جاسکتا، عافیت ہر دو کے لیے اسی میں ہے کہ وقت کی پابندی کی جائے، وقت کی پابندی ان کے یہاں اس قدر تھی کہ کثیر العیال تھے، لیکن کبھی ان کے گھر سے بچوں کے رونے کی آواز نہیں سنی گئی، ایک بار دریافت کیا تو فرمایا: رونے والا بچہ ہر وقت کسی نہ کسی کی گود میں رہتا ہے، اس کا نظام بنا ہوا ہے، پھر وہ کیوں روئے گا۔ دار العلوم ندوة العلماء لکھنؤ کے مہتمم حضرت مولانا سعید الرحمن اعظمی دامت برکاتہم اس کبرسنی اور ضعف و نقاہت کے عالم میں بھی وقت کے اس قدر پابند ہیں کہ ان کی آمد و رفت دیکھ کر آپ گھڑی ملاسکتے ہیں۔ ہمارے اکابر میں نظام الاوقات کی پابندی میں حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کا بھی جواب نہیں تھا، تبھی ان کے لیے تصنیفات و تالیفات میں وقت لگانا ممکن ہوا اور ہر فن میں انہوں نے کتابیں تصنیف کیں، وہ تو آنے والے مہمانوں سے بھی دریافت کرتے تھے کہ کب تک قیام رہے گا، پھر اسی اعتبار سے اس کے کام کے لیے وقت نکالتے، ایک بار شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن صاحبؒ ان کے مہمان ہوئے تو ان سے اجازت لے کر بیان القرآن لکھنے کے لیے اٹھ گئے، پھر جلدہی واپس ہوئے، حضرت شیخ الہندؒ نے دریافت کیا تو فرمایا: ناغہ نہ ہو اس لیے چند سطور لکھ کر آگیا۔ حضرت مولانا سید محمد شمس الحق صاحبؒ سابق شیخ الحدیث جامعہ رحمانی مونگیر کو دیکھا کہ وہ اپنے بچوں سے بھی گفتگو وقت کی پابندی سے کرتے تھے، جس سے بات کرنی ہوتی اس کو خبر کراتے کہ اتنے بج کر اتنے منٹ پر تم سے بات کرنی ہے، فرماتے کہ اس طرح کرنے سے وقت بھی منضبط رہتا ہے اور بات کی اہمیت بھی سمجھ میں آتی ہے۔ امیر شریعت سادس مولانا سید نظام الدین رحمة اللہ کو دیکھا کہ وہ وقت کی پابندی کا غیر معمولی اہتمام کرتے، کبھی کبھی یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ وہ جلسہ گاہ پہونچ گیے تیاری مکمل نہیں تھی منتظم کا بھی پتہ نہیں تھا، لیکن جو وقت دیا گیا تھا اس کے مطابق وہ پہونچ گیے، یہی طرز عمل موجودہ امیر شریعت مفکر ملت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی دامت برکاتہم کا ہے، ہم میں سے کسی کو تاخیر ہوسکتی ہے، لیکن حضرت تاخیر نہیں کرتے۔ یہ ایک اچھی صفت ہے، جس کو ہر انسان کو اپنا نا چاہیے۔
آج جو وقت میں بے برکتی کا رونا رویا جاتاہے، اس کی وجہ وقت کی ناقدری ہے، ہر آدمی شکوہ کناں ہے کہ میرے پاس وقت نہیں ہے، بہت ایسے لوگ بھی وقت نہیں ہے کی بات کرتے ہیں جن کے احوال کو دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ وہ یوں ہی مشغول ہیں، انگریزی میں اسے (Busy for Nothing)کہتے ہیں، واقعہ یہ ہے کہ وقت تو ہے ہی، ہم اس کا استعمال صحیح سے نہیں کرپاتے، اس لیے وقت نہیں ہے کا احساس ہوتاہے۔ وقت کا صحیح مصرف لیجئے، چائے کی دکانوں پر گپ بازی میں وقت ضائع نہ کیجئے، موبائل پر فضولیات میں وقت مت لگائیے غیر ضروری مجلس لگانے اور فضول بیٹھکوں سے احتراز کیجئے اور ان اوقات کو تعمیری کاموں میں لگائیے تو ہر کام بروقت ہوگا اور وقت میں ایسی برکت ہوگی، جس کا آپ تصور نہیں کرسکتے اس لیے اس مصرعہ کو حرز جاں بنالینا چاہیے۔
ع گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں

بدھ, فروری 08, 2023

قرآن کا اصل معلم رحمان ہے*✍️ ہمایوں اقبال ندوی( ارریہ ، بہار )

*قرآن کا اصل معلم رحمان ہے*
اردودنیانیوز۷۲ 
✍️ ہمایوں اقبال ندوی
( ارریہ ، بہار ) 

آج اسکول کے بچوں کا ایک ہاسٹل دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی ہے، یہ شہر ارریہ کے ملت نگر میں کوسی کنارے واقع ہے، اس کا نام "الرحمن بوائز ہاسٹل" ہے، یہاں درجہ حفظ کی تعلیم شروع کی گئی ہے، جناب حضرت مولانا قاری نیاز احمد صاحب قاسمی و جناب مولانا شاہجہاں صاحب ندوی اور ناچیز کی موجودگی میں بسم اللہ خوانی ہوئی ہے، مجھے بتایا گیا کہ پہلے بھی یہاں کے دوبچے ہاسٹل ہی میں رہ کرحافظ  قرآن ہوئےہیں، دراصل اسی حصولیابی سے حوصلہ پاکر ذمہ داروں نے باضابطہ درجہ حفظ کا کلاس شروع کیا ہے، اسکول کے ہاسٹل کے لئے یہ ایک مثالی کام ہے، اس کا نام بھی قرآنی ہے،  "الرحمن "یہ اللہ کا وصفی نام ہے ، قرآن کریم میں اس نام سے باضابطہ ایک سورة نازل ہوئی ہے،ارشاد ربانی ہے، 
"رحمان نے قرآن کی تعلیم دی، اسی نے انسان کوپیدا کیا، اسی نے اس کو بولنا سکھایا " (الرحمن )

مذکورہ سورة میں اللہ رب العزت نے انسانوں پراپنے بہت سارے احسانات گنوائے ہیں، اور اپنی نعمتوں کا ذکر فرمایا ہے،قابل غور بات یہ ہے کہ سب سے پہلی نعمت قرآن کا ذکر گیا ہے،اور فرمایا "رحمان نے قرآن سکھایا ہے"،

 قرآن خدا کی تمام نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت ہے،اس کمزور انسان کو حامل قرآن بنادینایہ کوئی آسان بات نہیں ہے اور نہ ہی  انسانوں کے بس کا یہ کام ہے، یہ خدا ہی کرسکتا ہےکہ ایک کمزور سی ہستی کو قرآن جیسی عظیم اور اونچی چیز کے لائق بنادے، اورآسمانوں و پہاڑوں سے زیادہ بھاری چیز قرآن کا حامل بنادے، درحقیقت یہ کام رحمان کا ہے،اور قرآن کا اصل معلم رحمان ہی ہے _

الرحمن بوائز ہاسٹل کے ذمہ داران واقعی قابل مبارکباد ہیں کہ انہوں نے اس ادارہ کو خدا کی طرف منسوب کرکے قرآن کی تعلیم کا اسےسامان بنادیا ہے، نام کی برکت یہاں قرآنی تعلیم کی شکل میں  یہاں سے ظاہر ہورہی ہے،آج آدمی اپنی معمولی کاوش اور کوشش کو اپنے نام سے یا اپنے بچوں اور بیوی یا باپ کے نام سے منسوب کرتاہےاور انوار وبرکات سے خالی رہتا ہے، بالخصوص ہمارے تعلیمی اداروں سے خدا کے نام کی خوشبو آنی چاہیے، قرآن کی پہلی آیت میں اسی بات کی تلقین کی گئی ہے ، اللہ کے نام سے تعلیم کی ابتدا ہونی چاہیے۔

ایک موقع پر استاد گرامی جناب مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے فرمایا؛ہم مدرسہ کو اسکول تو نہیں بناسکتے ہیں، مگر اسکول میں قرآن کی تعلیم کانظم کرکے اسے مدرسہ بناسکتے ہیں،موجودہ وقت میں چار فیصد طلبہ ہی مدارس اسلامیہ میں ہیں، بقیہ ۹۶/فیصد مسلم بچے اکیڈمی اور اسکول میں زیر تعلیم ہیں۔انمیں اکثریت دین کی ابتدائی تعلیم سے محروم ہیں، دین کی بنیادی باتوں سے بھی ناواقف ہیں،انہیں پڑھا لکھا سمجھا جاتا ہے جبکہ وہ نماز وضو کا طریقہ بھی نہیں جانتے ہیں، اس وقت کام کا یہ بڑاوسیع میدان ہے،

قرآن کے علم سے عصری اداروں کو آراستہ کرنا موجودہ وقت کا شدید ترین تقاضا ہے، 
آج باطل اسلام کو مغلوب کرنے کے درپے ہے، اپنے حریف کو اپنے دلائل کے زور سے پست کرنے کی طاقت اسی کتاب میں اللہ نے رکھی ہے، ارشاد ربانی ہے؛

"اور بیشک یہ قرآن ایک ایسی کتاب ہےجو غالب ہے،باطل نہ اس کے سامنے سے اور نہ اس کے پیچھے سے اس کے پاس آئے گا،ایک حکمت والے اور خوبیوں والے کی طرف سے اترا،(حم السجده )

اور دنیا کی رہبری ونمائندگی بھی اسی کتاب سے ہی کی جاسکتی ہے، خدا کا فرمان ہے؛
برکت والا وہ ہے جس نے حق وباطل میں امتیاز کرنے والی کتاب اپنے بندوں پر اس لئے اتاری کہ وہ تمام دنیا کو بیدار اور ہشیار کرے، (فرقان )

تیرے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزول کتاب 
گرہ کشا  ہے  نہ  رازی  نہ  صاحب کشاف

زندگی کا مزاج ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

زندگی کا مزاج ___
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
جمال ندولوی (ولادت 1944 ) بن محمد نہال الدین مرحوم نثر نگاری اور شاعری دونوں سے جڑے رہے ہیں، لکھتے اور چھپتے رہے ہیں، شاعری میں انہں متین عمادی، جماد الدین ساحل اور قوس صدیقی سے شرف تلمذ رہا ہے، قوس صدیقی کے شاگرد ہونے کے با وجود جمال ندولوی کے یہاں ساختیات اور تشکیلیات کے قبیل کے الفاظ نہیں پائے جاتے ، وہ اپنے فکر وخیال کو اشعار میں ڈھالنے کے لیے روز مرہ کے مستعمل الفاظ کا استعمال کرتے ہیں، جن سے معنی کی ترسیل کا کام بہتر اور عمدہ انداز میں ہوتا ہے۔
”زندگی کا مزاج“ ان کا دوسرا مجموعۂ کلام ہے، اس کے قبل 2015ءمیں ان کا پہلا مجموعہ کلام ”کشکول صدا“ کے نام سے آیا تھا، اس دوسرے مجموعہ کا نام ”زندگی کا مزاج“ غیر ادبی اور غیر شاعرانہ ہے، اس میں جاذبیت اور کشش نہیں ہے، اس کا نام رقص حیات، عکس خیال وغیرہ ہوتا تو قارئین کی توجہ زیادہ مبذول ہوتی، لیکن اب تو جمال ندولوی صاحب دنیا سے رخصت ہو چکے ، اسے کون بدلے گا۔
 جمال ندولوی کی شاعری پر ان کے استاذ متین عمادی نے لکھا ہے:
”میں یہ نہیں کہتا کہ جمال ندولوی کا طرز سخن لا جواب ہے اور نہ یہ کہتا کہ ان کی شاعری بہت اعلیٰ درجہ کی ہے.... یہ بھی نہیں کہ ان کی شاعری کو بالکل نظر انداز کر دیا جائے۔ (کشکول صدا4-5)
متین عمادی نے دوسرے مجموعہ کے زیادہ خوبصورت زیر اثر اور تخیلات کے دامن کے مزید وسیع ہونے کی توقع کا اظہار کیا تھا، اب ان کا یہ دوسرا مجموعہ طباعت کے مرحلہ میں ہے، جس کے لیے ان کے بڑے صاحبزادے نیر اعظم مدیر ومالک ہفتہ وار اخبار ”آئینہ جمال“ کو شاں ہیں، اللہ کرے اشاعت کے مراحل جلد طے ہوجائیں۔
 ”زندگی کے مزاج“ میں حمد ، نعت، غزل، قطعہ، رخصتی نامہ، جمہوریت، آزادی، وطن سے محبت، متین عمادی اور جمیل مظہری کی شاعری پر نظمیں شامل ہیں، میرے سامنے جو مسودہ ہے اس میں غزل اور نظم کے حصوں کو الگ الگ نہیں کیا گیا ہے، کہیں نظم کے بعد غزل ہے اور کہیں غزل کے بعد نظم، چوں کہ کتاب طباعت کے مرحلے سے ابھی نہیں گذری ہے، اس لیے اس کی اصلاح کی جا سکتی ہے۔
حمد ونعت کے اشعار روایتی قسم کے ہیں، اللہ رسول کے بارے میں ایک مو ¿من کا جو خیال ہونا چاہیے اس کی جلوہ گری حمد ونعت میں پائی جا رہی ہے، نعت کے بارے میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ جمال ندولوی نے اسے مناجات ہونے سے بچالیا ہے، ورنہ عموما شعرائ کے یہاں نعت کی ڈور مناجات سے مل جاتی ہے اور عقیدت ومحبت میں اس باریک فرق کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا جا تا اور عبد ومعبود کا فرق جاتا رہتا ہے، جمال ندولوی نے اس فرق کو ملحوظ رکھ کر اچھی مثال قائم کی ہے۔
 مجموعہ کی غزلیات میں بہت سارے اچھے اشعار ہیں، جن میں مذہبی افکار ، عصری حسیت ، عشق ومحبت کی داستان سبھی کچھ موجود ہے، اسلام میں عمل کا مدار نیتوں پر ہے، خلوص عمل کے مقبول ہونے اور ریا عمل کے مردود ہونے کا سبب بنتا ہے، جمال نے اس حقیقت کو غزل کے ایک شعر میں بیان کیا
خلوص دل ہو گر شامل عمل مقبول ہوتا ہے
 ریا کا جس پر غلبہ ہو عمل بے کار جاتا ہے
 اسی غزل میں حقیقت پر مبنی یہ شعر بھی پڑھ لیجئے:
مسلسل ایک حالت پر کبھی رہتی نہیں دنیا
ہمیشہ جیتنے والا بھی اک دن ہار جاتا ہے
ہندوستان کے موجودہ حالت کی عکاسی اسی غزل کے ایک اور شعر میں ملتی ہے۔
کسی کی جھوٹی سچی سب دلیلیں رنگ لاتی ہیں
 ہمارا خون بھی بہہ جائے تو بے کار جاتا ہے
 جس غزل سے اس مجموعہ کا نام مقرر کیا گیا ہے، اس کے چند اشعار قلب وذہن کو اپنی طرف کھینچتے ہیں اور اس حقیقت کو واشگاف کرتے ہیں کہ اب دوست بھی قابل اعتماد نہیں رہے، اس دور میں جب دوست ہی گھر سے بلا کر دوست کو قتل کر دیتے ہیں، جمال ندولوی کے اس شعر کی سچائی کو ہم نظر انداز نہیں کر سکتے۔
 سارے چہرے لہو لہان ملے
کتنا زخمی ہے دوستی کا مزاج
 جمال کہتے ہیں کہ حالات جیسے بھی ہوں، ہم تو مو من ہیں اور مومن کا مزاج بندگی کا ہوتا ہے اور وہ بھی صرف خدا کی بندگی کا اس لیے اس کا سر کہیں دوسری جگہ جھک ہی نہیں سکتا۔(بقیہ صفحہ ۴۱پر)
میں کہیں سر جھکا نہیں سکتا
دل میں رکھتے ہیں بندگی کا مزاج
 بندگی کا یہ مزاج ہمیں آخرت سے قریب کرتا ہے اور اس احساس کو تقویت پہونچاتا ہے کہ مرنے کے بعد سب کچھ یہیں رہ جائے گا اور بندہ اللہ کے یہاں خالی ہاتھ ہی جائے گا۔
آخر وہ خالی ہاتھ گیا دیکھ لو جمال
حاصل کیا تھا اس کے جو سامان رہ گیا
 جمال ندولوی کے یہاں بعض ترکیبیں بہت خوبصورت انداز میں شعر میں ڈھل گئی ہیں، خوشیوں کی جاگیریں اور غم کی سلطانی کو ایک ہی شعر میں دیکھیے اور اس ادبی صنعت کی بر جستگی پر سر دھنیے:
تمہیں خوشیوں کی جاگیریں مبارک
 مجھے غم کی سلطانی بہت ہے
 اور یہ شعر بھی اس غزل کا بہت خوب ہے:
پرندے زخم کھا کر اڑ رہے ہیں
ہواو ¿ں کو پشیمانی بہت ہے
 یہ چند اشعار بطور نمونہ درج کیے گیے، ورنہ جمال ندولوی کے اس مجموعہ میں اس قسم کے اشعار بہت ہیں،جن میں تخیل کی رفعت، فکر کی ندرت، فن کی جولانی پورے طور پر موجود ہے جس سے قارئین کے دل ودماغ پر اس کے اچھے اثرات مرتب ہو نے کی توقع ہے۔
 جمال ندولوی اللہ کو پیارے ہوگیے، ان کے صاحب زادہ نیر اعظم اس کی طباعت کی طرف متوجہ ہوئے اور والد کے کلام کو ضائع ہونے سے بچالیا، اس کے لیے وہ ہم سب کی جانب سے شکریہ کے مستحق ہے، ایسی اولاد قسمت والوں کو ہی ملا کرتی ہے۔

بابا رام دیوکےنام۔۔۔۔۔!* * انس مسرورانصاری

بابا رام دیوکےنام۔۔۔۔۔!*
اردودنیانیوز۷۲ 
      * انس مسرورانصاری
    
    گزشتہ دنوں راجستھان میں منعقدہ ایک مذہبی تقریب میں بابا نام دیو مہراج اپنے بھاشن میں اسلام اورمسلمانوں کے خلاف خوب گرجےبرسے۔یہاں تک کہ پسینے سے ان کا سارا بدن بھیگ گیا۔تمام تر مذہبی اخلاقیات کو ہوا میں اڑاتے ہوئےانھوں نےشعائراسلام کا مذاق اڑایا۔روزہ،نماز،داڑھی،ٹوپی وغیرہ کے تعلق سے بدترین بکواس کی اور اپنی جہالت کا بھرپور مظاہرہ کیا۔،ہمارے یہاں ایک مثل مشہور ہے۔۔سوف توسوف،چھلنی بھی ہنسے جس کے بہتر(72)چھید۔
          باباجی۔!آپ کی سیوامیں یہ پروچن پیش کرتا ہوں کہ آپ پرلے درجہ کے بیوقوف اور نادان ہیں۔جس۔یوگا۔کےبل بوتے پر آپ نے شہرت حاصل کی،آئیے ہم بتاتے ہیں کہ یوگا کیاہے۔؟آپ کو خود اپنے دھرم کےبارےمیں کچھ نہیں معلوم تودوسرےدھرموں کےبارے میں اپنی رائے اوروچاردھارائیں اپنے پاس رکھیں۔اسے بہنےسےروکیں۔آپ تو ایک ڈھونگی سادھوہیں۔آرایس ایس کے ایجنٹ۔جس کے موجودہ سربراہ موہن بھاگوت ہیں۔انھوں نے بھی اپنےایک حالیہ بیان میں کہا تھا کہ دنیا میں سناتن دھرم سب سے اچھا دھرم ہے۔،،
     آپ ان کےچیلاہوتے ہوئے بھی ان سے چار قدم آگے نکل گئے۔واہ۔۔۔ واہ۔۔ جواب نھیں اس جہالت کا۔یہ تونریندمودی اورامت شاہ کے اقتدار کی مہربانیاں ہیں(اندھوں کو اندھیرے میں بڑی دور کی سوجھی)کہ آج آپ اربوں میں کھیلنےلگے اور بڑی بڑی باتیں کرنےلگے۔ورنہ ماضی کی طرح حال میں بھی آپ سائکل ٹیوب کےپنکچربنارہےہوتے۔۔خفانہ ہوں۔بریکٹ بند محاورہ انجانے میں زبان پر آ گیا۔۔    
        اگرہم سناتن دھرم کی حقیقت بیان کرنے لگیں تو آپ کوپسینے چھوٹ جائیں۔لیکن ہم بدتمیز ہیں نہ غیرمھذب اور نہ بےغیرت۔۔ہمارا دین اسلام ہمیں اس کی اجازت نہیں دیتا۔گروجی !شایدآپ کو معلوم نہ ہو کہ اسلام دھرم ایک تبلیغی دھرم ہے۔اس لیے اس کے پھیلاؤکوروکانہیں جاسکتا۔ سناتن دھرم ایک غیر تبلیغی مذہب ہےاوراسے پھیلایا نہیں جاسکتا۔البتہ ذاتی طور پر ہم آپ سےچند سوالات ضرورکریں گے۔سب سے پہلے ہم آپ کو یہ گیان دینا چاہتے ہیں کہ آپ کا دھرم، ویدک دھرم،ہرگز نہیں ہے۔یہ تو کوئی اور ہی دھرم ہےجس کے آپ اپاسک اورپرچارک ہیں۔ذرا اپنی دھارمک پستکوں اور ویدوں کادھیان پوروک ادھن کرلیں،پھر ہم آپ سے تفصیلی گفت گو کریں گے۔پہلے آپ یہ بتائیں کہ کیا کوئی دھرم ایسا بھی ہے جس نےاسلام دھرم سے بغاوت کر کے ایک نئے مذہب کی صورت اختیارکی ہو۔؟چودہ صدیوں میں ایک بھی مسلمان ایسا ظاہر نہ ہوا جس نے اسلام سے بغاوت کر کے کسی اور نئے مذہب کا اعلان کیاہو۔میرادعواہے کہ آپ ایک مثال بھی نھیں دےسکتے۔کیونکہ پوری دنیا میں ایسا کوئی دھرم ہےہی نھیں۔ 
۔پھر یہ بتائیں کہ مہاتما گوتم بدھ نے سناتن دھرم سےبغاوت کر کے ایک نئے دھرم کی استھاپناکیوں کی۔؟آپ کے دھرم میں انھوں نے کیا خرابی پائی۔؟؟آپ جانتے ہوں گے،اس میں بھی ہمیں شک ہے۔آپ کو اپنے دھرم کا اتھاس تک نھیں معلوم۔۔کیاہم بتائیں کہ مہاتما گوتم بدھ،مھاویرسوامی اورگرونانک جی کے علاوہ بھی بہت سارے رشیوں، منیوں نے سناتن دھرم سےبغاوت اورتیاگ کے بعد نئے نئےدھرموں کی بنیادکیوں رکھی۔۔؟اگرآپ نے تاریخ پڑھی ہوتی تو اسلام مخالف بیانات سےگریز کرتے۔کیوں کہ آپ کی چھلنی میں خود72/چھید ہیں۔باباجی۔!پہلے اپنے گریبان میں منھ ڈال کر دیکھو پھرکسی دوسرے دھرم کےبارے میں کچھ کہو۔ آپ کی تاریخ اور اصلیت بتاتی ہےکہ ویدک دھرم سے آپ کا کوئی تعلق نہیں ہے۔اس پرتوبرہمنوں نےنا جائزقبض جمالیاتھا۔ویدوں کےخلاف بھگوان اوربھگتوں کےدرمیان دیوار بن کر کھڑےہو گئے تھے۔انھوں نےاپنےحلوےپوری کےلیے۔۔منو سمرتی،کاسہارالیا۔اس کومضبوتی سےپکڑ لیا اور ویدوں کوچھوڑ دیا۔اس کے پڑھنے لکھنے اور دیکھنےتک پر پابندی لگادی۔یہ تومسلمانوں کا احسان ہےکہ یہاں آنے کے بعد انھوں نے صدیوں سےبند پڑے ویدوں اوربنیادی مذہبی کتابوں کےعلوم کوعام کیا۔دوسرے مذاہب کی بنیادی کتابوں کے ترجمےکیے۔۔منوسمرتی،، ہی ایک ایسی دھارمک پستک ہےجوبلاشرکت غیرے برہمنوں کو مذہبی اور سیاسی اقتدارحاصل کرنے میں بھرپورمددکرتی ہے۔برہمنیت نےاس سے خوب خوب فائدے اٹھائے۔انسانوں کوچار ورنوں میں بانٹ دیا۔چار طبقوں میں تقسیم کردیااورتین طبقوں کو اپنی خدمت کاپابند بنادیا۔برہمنوں کی سازش کامیاب رہی۔اس آکاش کےنیچےاوراس دھرتی کےاوپربھگوان کے بعد انسان سے بڑا کوئی نہیں۔وہ بھگوان جونرنکارہے۔لیکن آپ انسانوں سے نفرت کرتےہیں اور جانوروں کی پوجا کراتے ہیں۔۔ذات پات چھوت چھات اونچ نیچ اورسماج کے کمزور طبقوں کےساتھ ظالمانہ سلوک،شدت پسند برہمنیت کی بے رحمی اور خودغرضی نے انسانوں کوحیوانوں میں تبدیل کردیا۔ انسانوں پر ہونے والے مظالم اور برہمنی استحصال مہاتما گوتم بدھ سے دیکھا نہ گیا۔انھوں نے برہمنی دھرم سے کنارہ کشی اختیارکی اوراپدیش دیا کہ مانو جاتی ایک سمان۔بھگوان نرنکارہے۔وہ ایک ہے۔تریسٹھ ہزاردیوتانہیں ہوسکتے۔دیویادیوتا بس وہی ایک ہے۔مانواور بھگوان کےبیچ کوئی دوسرا نھیں۔۔یعنی خدا اوربندوں میں تعلق براہ راست ہے۔کسی واسطہ اوروسیلہ کی ضرورت نھیں۔بھگوان سے مانگنےاورپانے کےدرمیان کوئی تیسرانہیں۔۔بنرجنم کوئی چیز نہیں۔وغیرہ وغیرہ۔۔۔اس کےہزاروں سال بعد گرو 
نانک جی نے گوتم بدھ کےان اقول کی تصدیق کی۔برہمنیت پر یہ ایسی کاری ضرب تھی جس سے وہ بلبلا اٹھی۔گوتم بدھ کے اس نظریہ کو برہمنیت نے سختی کےساتھ مسترد کردیا۔اس کی بھرپور مخالفت کی۔چالاک برہمنوں کو لگاکہ اگریہ نظریہ مقبول ہو گیا تو مذہبی اورسیاسی اقتداران کے ہاتھو ں سے جاتا رہے گا۔برہمنوں نےاس نظریہ کی شدت کےساتھ مخالفت اورمذمت کی اوربودھ دھرم کے ماننے والوں پراتنےمظالم توڑے کہ خدا کی زمین ان پرتنگ ہو گئی۔ بودھ دھرم کے ماننے والوں کے خلاف نفرت انگیز فتوے جاری کیے کہ کسی بدھسٹ کے برتن میں کھاناپینا،ایسا ہی ناپاک ہےجیسےکسی کتے کی کھال میں کھانا، پینا۔وغیرہ۔۔۔لیکن زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھاکہ زمانہ نے کروٹ بدلی۔ کئی راجوں مہاراجوں اور کالنگاکی لڑائی میں ایک لاکھ انسانوں کی لاشوں کو دیکھ کراشوک اعظم نے اپنےآبائی دھرم کوتیاگ دیا اور گوتم بدھ کے امن واہنسا وادی دھرم کواپنا لیا۔۔
           ذرا اپنی تاریخ پڑھ لیجیےباباجی! کہ جب تک بودھ دھرم کومقتدرطبقہ کی سرپرستی حاصل رہی،برہمنیت کا کیسابراحال رہا۔اپنےہی زخموں کوچاٹنےاورفرضی تبسم زیرلب کےسیواکوئی چارہ ء کار نہ تھا۔زخم کھاکرمسکراناکوئی برہمنیت سے سیکھے۔پھر اشوک اعظم اوراس کے وارثین کےبعدآپ نے بودھ دھرم کے ماننے والوں کےساتھ کیسا سلوک کیا۔؟ان کواتناستایا اور ان کےخلاف اتنی نفرت پھیلائی کہ آخرکار انھیں د یش نکالادید یا۔بدھسٹ اپنی رہائش گاہیں،اپنی عبادت گاہیں چھوڑکرمختلف ملکوں کی طرف ہجرت پر مجبورہوگئےجہاں آج وہ آبادہیں۔ انھیں یہ ملک چھوڑناپڑا۔برہمنیت!یعنی آپ کو سکون مل گیا۔
        مہاویر سوامی کےماننےوالےجینیوں کے ساتھ بھی آپ نےکچھ اچھاسلوک نہیں کیا۔اس کی تفصیل الگ ہے۔ان کےساتھ بھی وہی کچھ کیاجوبدھسٹوں کےساتھ کیاتھا۔۔
        کیا آپ تاریخ کودہراناچاہتے ہیں۔؟اور اب وہی کچھ مسلمانوں کے ساتھ کرناچاہتے ہیں جو آپ کی مذہبی روایت رہی ہے۔وہی مظالم، نا انصافیاں ،نفرت انگیزیاں،جو آپ کی دھارمک پرم پراہے۔۔۔حقیقت یہ ہےکہ ہمیشہ کی بھوکی برہمنیت کبھی اتنی کشادہ ظرف اور کشادہ قلب نہیں رہی کہ اپنے آس پاس کسی اور مذہب کو برداشت کرپاتی۔اسے ہمیشہ خوف رہتا ہے کہ جب بھی کوئی اصلاحی مذہبی تحریک کھڑی ہوگی تواس کے اپاسک بھاگ کھڑے ہوں گے۔
            یہ لوجہاد۔تبدیلیءمذہب۔نکاح،طلاق، نقاب،یکساںسول کوڈوغیرہ کے مسائل جو کھڑے کیےگئےہیں،ان کی حقیقت کو ہم خوب جانتےہیں۔یہ کوئی اور چیزنھیں بلکہ پرانا برہمن وادی خوف ہے۔۔مگربابارام دیوجی۔!آپ یہ کبھی نہ بھولیں کہ آپ تاریخ کودہرانہیں سکتے۔ نہ اسے ختم کرسکتےہیں۔البتہ اس حقیقت کو تسلیم کرلیں کہ یہ مسلمان قوم ہے۔گری پڑی حالت میں بھی اپنے وطن اور قوم کی حفاظت کرناخوب جانتی ہے۔ذرا مذہبی پابندیاں اٹھاکرتودیکھو۔سناتن دھرم کے تنگ دائروں میں جکڑے ہوئے برادران وطن اسلام کی آغوش میں پناہ لینے کےلیےبےتاب ہیں۔۔۔۔۔۔۔ بات بہت آگےتک نجائے گی ورنہ ہم آپ سے اوربہت ساری باتیں کرتےگروجی۔!
      ۔۔اک ذراچھیڑیئےپھردیکھئیےکیاہوتاہے،، آخیرمیں علامہ شفیق جونپوری کاایک شعرسنئے اورسردھنئے۔عبرت بھی حاصل کیجئے۔۔۔    
      نکالیں سیکڑوں نہریں کہ پانی کچھ تو کم ہوگا
     مگر پھر بھی مرےدریاکی طغیانی نہیں جاتی

             آپ کا شبھ چنتک
          انس مسرورانصاری
                               05-2-2023
       قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن
  سکراول،اردوبازار،ٹانڈہ۔امبیڈکرنگر (یو،پی) 
         رابطہ/ 9453347784

منگل, فروری 07, 2023

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی: شعراء کرام کی نظر میں ۔ایک مطالعہ


مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی: شعراء کرام کی نظر میں ۔ایک مطالعہ
اردودنیانیوز۷۲ 

انوار الحسن وسطوی
  9430649112

زیر تذکرہ کتاب کے مرتب جناب عبد الرحیم برہولیاوی ہیں ۔ برہولیا ضلع دربھنگہ کی مشہور بستی ہے جہاں کئ اہل علم و دانش پیدا ہوئے جن میں نامور ادیب ، ناقد، شاعر اور صحافی ڈاکٹر عطا عابدی کا نام بھی شامل ہے ، عبد الرحیم برہولیاوی ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان ہیں ، للت نارائنن متھلا یونیورسٹی دربھنگہ سے ایم اے (اردو) کی سند رکھتے ہیں ، فی الحال ضلع ویشالی کے مشہور دینی درسگاہ معھد العلوم الاسلامیہ چک چمیلی سراۓ (ویشالی) میں بحیثیت مدرس مامور ہیں ، علمی و ادبی مضامین و مقالات لکھنے کا عمدہ ذوق ہے ۔ اپنے اسی ادبی ذوق کے سبب ضلع ویشالی کی مشہور ادبی تنظیم " کاروان ادب" حاجی پور کے رکن نامزد کئے گئے ہیں ۔ موصوف " العزیز میڈیا سروس" کے بانی و ایڈمن کی حیثیت سے بھی اپنی شناخت رکھتے ہیں ۔ نامور عالم دین ،ادیب ،ناقد، اور صحافی مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف سے انہیں قلبی و فکری لگاؤ حاصل ہے ، مفتی صاحب بھی عبد الرحیم برہولیاوی کو عزیز رکھتے ہیں ۔ اسی محبت کا ثبوت پیش کرنے یا اس کا قرض چکانے کے لئے عبد الرحیم صاحب نے مفتی صاحب کی شان میں لکھے تقریباً تین درجن شعراء کرام کے منظوم کلام کو یکجا کرکے کتابی شکل دینے کا کارنامہ انجام دیا ہے ۔
عبد الرحیم برہولیاوی نے اپنی کتاب کا آغاز اپنی تحریر بعنوان " اپنی بات" سے کیا ہے ، کتاب کا " پیش لفظ" جواں سال ادیب ، ناقد ،شاعر ،اور صحافی ڈاکٹر کامران غنی صبا کا تحریر کردہ ہے جبکہ معروف ادیب ،ناقد ،شاعر ، محقق اور صحافی ڈاکٹر عطا عابدی نے بھی کتاب کے تعلق سے اپنی بات" دوباتیں " کے عنوان سے لکھی ہیں ، مذکورہ تینوں تحریروں میں مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی کی ذات اور ان کی صفات کے علاوہ زیر تذکرہ کتاب کے تعلق سے بھی بڑی عمدہ اور قیمتی باتیں کہی گئی ہیں ، ان تحریروں سے محظوظ ہونے کے لئے یہ اقتباسات ملاحظہ ہوں
زیر نظر کتاب میں شامل نظمیں مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی کی شخصیت و خدمات کا دلکش مرقع ہے ، ان نظموں سے ثناء الہدیٰ صاحب کی حیات و خدمات کے مختلف گوشے اجاگر ہوتے ہیں ، عبد الرحیم برہولیاوی مبارکباد اور پذیرائی کے مستحق ہیں کہ انھوں نے ان نظموں کو حاصل کرکے ترتیب دینے کا کام کیا ہے ، عبد الرحیم برہولیاوی بزرگوں کی خدمت کرنے ، ان سے سیکھنے اور ان کی خصوصیات کو اجاگر کرنے کا پے پناہ جذبہ رکھتے ہیں" ۔(ڈاکٹر عطا عابدی ۔ص۔۱٤)
"عبد الرحیم برہولیاوی نے اس کتاب میں شعراء کے کلام کو جمع کیا ہے جن میں شعراء نے مفتی صاحب کے تئیں اپنی بھرپور عقیدت و محبت کا اظہار کیا ہے اور مفتی صاحب کی علمی ،ادبی، مذہبی ، سماجی اور فلاحی خدمات کو منظوم خراج تحسین پیش کیا ہے ، موصوف نے مفتی صاحب کے تعلق سے اتنے سارے منظوم کلام کو یکجا کرکے ایک بڑا کام کیا ہے جس کی ستائش کی جانی چاہیے"۔ (ڈاکٹر کامران غنی صبا ۔ص ۔١٠)
"مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی کی حیات و خدمات پر جس طرح نثر نگاروں نے خامہ فرسائی کی ہے اسی طرح شعراء کرام نے بھی مختلف موقع کی مناسبت سے اپنا کلام پیش کیا ہے مجھے خوشی ہے کہ ان نظموں کو ترتیب دے کر خاص و عام کے سامنے پیش کرنے کی سعادت میرے حصہ میں آئ ہے ۔ مجھے امید ہے کہ منظوم کلام کا یہ مجموعہ حضرت مفتی صاحب کی شخصیت کو جاننے اور سمجھنے میں مزید ممدو معاون ثابت ہوگا"(عبد الرحیم برہولیاوی ۔ص ۔۵۔٦)
جناب عبد الرحیم برہولیاوی اگر مجھے معاف کریں تو میں یہ کہنا چاہوں گا کہ مفتی صاحب کے تعلق سے شعراء کے منظوم کلام کو یکجا کرکے کتابی شکل دینا یقیناً ایک بڑا اور قابل تحسین کام ہے لیکن موصوف کے اس خیال سے راقم السطور کو قطعی یہ اتفاق نہیں ہے کہ منظوم کلام کا یہ مجموعہ مفتی صاحب موصوف کی شخصیت کو جاننے اور سمجھنے میں مزید ممدو و معاون ثابت ہوگا ، اس سلسلے میں میرا یہ ماننا ہے کہ آج سے دو دہائی قبل ڈاکٹر مشتاق احمد مشتاق مرحوم نے مفتی صاحب کی شخصیت اور خدمات پر جو کتاب ترتیب دی تھی وہ مفتی ثناء الہدیٰ شناسی میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے ، اس کتاب کی مقبولیت اس واقعہ سے ظاہر ہوتی ہے کہ اس کے دو ایڈیشن شائع ہوۓ ، یہ وہ کتاب ہے جس میں پروفیسر ثوبان فاروقی رح اور پروفیسر نجم الہدیٰ جیسے نابغۂ روزگار ،ادیب و شاعر کی تحریریں شامل ہیں ، مذکورہ حضرات آج سے بیس (٢٠) سال قبل مفتی صاحب کے تعلق سے جو کچھ لکھ دیا ہے وہ باتیں کسی بھی شاعر کی نظم میں نہیں آسکی ہیں ۔ خواہش مند حضرات مذکورہ کتاب کو نور اردو لائبریری حسن پور گنگھٹی بکسامامہوا (ویشالی) سے حاصل کرسکتے ہیں اور راقم السطور کے دعوی کو صداقت کی کسوٹی پر پرکھ سکتے ہیں ۔
" مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی: شعراء کرام کی نظر میں " ٧٢/صفحات پر مشتمل ہے ، جس میں تقریباً تین درجن شعراء کے منظوم کلام کو شامل کتاب کیا گیا ہے ، شعراء کرام کی اس فہرست میں کئ بزرگ شعراء بھی ہیں اور جواں سال بھی ، کئ معروف شعراء بھی ہیں اور غیر معروف بھی ہیں ۔ کتاب میں شامل کچھ نظمیں ٢٠٠٠ء میں مفتی صاحب موصوف کو صدر جمہوریہ ہند سے ملے ایوارڈ سے متاثر ہوکر لکھی ہوئی ہیں ۔ کچھ نظمیں موصوف کو چوتھی دفعہ حج بیت اللہ کی سعادت نصیب ہونے کے موقع پر کہی ہوئی ہیں، بقیہ نظمیں مفتی صاحب کی علمی، دینی، ملی خدمات کی عکاسی کرتی نظر آتی ہیں اور کچھ نظمیں ان کی دیدۂ وری ، ان کے اخلاق و عادات اور ان کی انسانی خوبیوں سے متعلق ہیں۔جن شعراء کرام کے منظوم کلام سے یہ کتاب مزین ہے ان کے نام ہیں: پروفیسر عبد المنان طرزی ، ذکی احمد ذکی، حسن نواب حسن ،ڈاکٹر امام اعظم ، ولی اللہ ولی، سید مظاہر عالم قمر، امان ذخیروی، محمد انوار الحق داؤد قاسمی ، مظاہر حسین عماد عاقب قاسمی ، طارق ابن ثاقب ، کامران غنی صبا ، ڈاکٹر منصور خوشتر ، احمد حسین محرم قاسمی ، شمیم اکرم رحمانی ، اشتیاق حیدر قاسمی ، منصور قاسمی ، محب الرحمن کوثر ، زماں بردہوای ، محمد ضیاء العظیم ، محمد مکرم حسین ندوی ، عظیم الدین عظیم ، کمال الدین کمال عظیم آبادی ، وقیع منظر ، فیض رسول فیض، یاسین ثاقب ، آفتاب عالم آفتاب ، ڈاکٹر عبد الودود قاسمی ، محمد بدر عالم بدر ، ثنا رقم مؤی ، فیاض احمد مضطر عزیزی ، عبد الصمد ویشالوی، مظہر وسطوی اور تحسین روزی ۔
 چند شعراء کے منظوم کلام سے چند منتخب اشعار بطور نمونہ ملاحظہ ہوں؛ جن میں مفتی صاحب کے تیئں عقیدت و محبت کے اظہار کے ساتھ ان کی علمی ، ادبی ، مذہبی ، سماجی اور فلاحی خدمات کا اعتراف کیا گیا ہے

عالم دیں کا ہو ادبی مشغلہ
شاذونادر ہی ایسا ہے دیکھا گیا
جو ہاں مگر ہیں مفتی ثناء الہدیٰ
ان کا ہے ان سبھوں سے الگ راستہ
             (پروفیسر عبد المنان طرزی)
وہ ہیں عالم باعمل بالیقیں
جنہیں کہیے اسلاف کا جانشیں
مفکر ، مدبر کہ دانشوراں
سبھی ان کےحق میں ہیں رطب اللساں
(ڈاکٹر کامران غنی صبا)
دلنشیں انداز ہے تقریر کا 
بزم کو کر دیتے ہیں وہ مشک بار
بخشی ہے خوبی خداۓ پاک نے
ریگ زاروں کو بنا دیں لالہ زار
(ڈاکٹر منصور خوشتر)
شہسوار خطابت ہیں شاہ قلم
چشم بینا نے دیکھی ہے جادو گری
وہ شریعت کے حامی، امارت کی جاں
قوم و ملت سے ان کو ہے وابستگی
(منصور قاسمی)
صدر جمہوریہ ایوارڈ بھی تھا
ان کو ملنا ضرور کیا کہنا
ان کو سرکار نے بھی مانا ہے
علم و فن پر عبور، کیا کہنا
            (ذکی احمد ذکی)
مدارس کے محافظ ہیں، مدرس ہیں، مدبر ہیں
محدث اور مفتی ہیں ،مصنف ہیں، مفکر ہیں
نظامت میں ، خطابت میں ، فصاحت میں ،بلاغت میں
مثالی شخصیت ہے آپ کی علم و فراست میں
                       (مظہر وسطوی)
درنایاب لعل و گہر آپ ہیں
نازش علم نورِ سحر آپ ہیں
سچ تو یہ ہے ثناء الہدیٰ قاسمی
فہم و ادراک سے بالا تر آپ ہیں
               (عظیم الدین عظیم)
دین حق کے امیں ہیں ثناء الہدیٰ
مفتی شرع دیں ہیں ثناء الہدیٰ
تزکرہ علم و دانش کا ہوتا جہاں
اس مکاں کے مکیں ہیں ثناء الہدیٰ
         (ڈاکٹر عبد الودود قاسمی)
تحریر لازوال ہے تقریر بے مثال
ماضی کی داستاں ہے ثناء الہدیٰ کی ذات
شعر و ادب کی بزم ہو یا علم دیں کی راہ
ہر سمت پُرفشاں ہے ثناء الہدیٰ کی ذات
                            (امان ذخیروی)
تقریر دلنشیں ہے تو انداز دلکشا
ہر سننے والا آپ کا شیدائی ہوگیا
ہے گفتگو میں ایسی حلاوت کے دیکھیے
شاباش، آفریں تو کہے کوئی مرحبا
                            (یاسین ثاقب)
      مختصر یہ کہ زیر نظر کتاب مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی کی شخصیت ،صفات، خدمات کا ایک دلکش مرقع ہے ۔ایسی عمدہ، دلچسپ اور فرحت بخش کتاب ترتیب دینے پر عبد الرحیم برہولیاوی یقیناً مبارکباد
 اور پذیرائی کے مستحق ہیں ۔انھوں نے مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی کے تعلق سے تقریباً تین درجن شعراء کے مختلف اوقات میں کیے گئے منظوم کلام کو یکجا کرکے کتابی شکل دینے کا واقعی ایک بڑا کام کیا ہے ۔ان کے اس کام میں تعاون دینے کے لیے مولانا نظر الہدیٰ قاسمی اور مولانا راشد العزیری بھی مبارکباد کے مستحق ہیں ۔زیر تزکرہ کتاب کی قیمت صرف ساٹھ(٦٠) روپے ہے ، جسے مکتبہ امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ ،نور اردو لایبریری حسن پور گنگھٹی بکساما ، مہوا (ویشالی) ، ادارہ سبیل الشریعہ آوا پور شاہ پور سیتامڑھی، معھد العلوم الاسلامیہ چک چمیلی سراۓ ویشالی اور الھدیٰ ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ آشیانہ کالونی باغ ملی حاجی پور سے حاصل کیا جاسکتا ہے ۔کتاب کے تعلق سے مزید معلومات کے لئے مرتب کتاب عبد الرحیم برہولیاوی کے موبائل نمبر 9308426298پر رابطہ کیا جاسکتا ہے ۔

یادوں کے چراغ ___✍️پروفیسر محسن عثمانی ندوی

یادوں کے چراغ ___
اردودنیانیوز۷۲ 
✍️پروفیسر محسن عثمانی ندوی
 
  یادوں کے چراغ کے مصنف کانام چراغ سے زیادہ روشن ہے ایسے معروف مصنف کی کتاب پر دیباچہ لکھنا سورج کو چراغ دکھانا ہے۔ایسا لگتا ے کہ مصنف نے عزت افزائی کے لئے اس مقدمہ نگارکو زحمت دی ہے، مصنف کا نام علمی اور صحافتی دنیا مین معروف بھی ہے مقبول بھی ہے انہیں نہ تعارف کی ضرورت ہے اور نہ تحسین وتعریف کی ۔ البتہ اس تعارف کی وجہ سے مقدمہ نگار کا کچھ زیادہ تعارف ہوجائے گا۔ جو شخص نقیب جیسے قدیم صحیفہ کا مدیر شہیر ہو اور جس کے مضامین ہندوستان کے طول وعرض میں شائع ہوتے رہتے ہوں اور ہزار نگاہوں کے لئے سرمہ بصیرت بنتے ہوں جس کی سطور اور مابین السطور میں غیب سے مضامین کا نزول ہوتا ہواور
 نگاہ ناز جسے آشنائے راز کرے 
 وہ کیوں نہ خوبی قسمت پہ اپنی ناز کرے 
ان سطور میں مبالغہ نہیں یہ شاعری بھی نہیں ۔نہ یہ بات پہلی بار کہی جارہی ہے اس مقدمہ نگار نے اس مقدمہ سے پہلے کئی بار اس مصنف سے اپنے تعلق اور محبت کا اظہار کیا ہے وہ امارت شرعیہ کے اخبار نقیب کے ایڈیٹر ہیں میں نے امارت شرعیہ کے سابق امیر سے بھی نقیب کے اداریوں کی تعریف کی تھی اور میرے بس میں ہوتا تومیں ان کو سب سے بلند اور ارفع جگہ دلانے کی کوشش کرتا۔
  قرطاس وقلم کی بساط سجانا اور خیالات و افکار کو لفظوں کے موتیوں میں ڈھالنا اور پھر موتیوں کو پروکرکے مضمون کی شکل دینا یہ ایک بہت بڑا ہنر ہے بہت بڑا آرٹ ہے اور جو اس ہنر سے واقف ہے وہ بڑا آرٹسٹ اور فنکارہے بہت زیادہ قابل قدر ہے اور سماج میں سب سے زیادہ عزت کے لائق ہے کسی ڈاکٹر اور کسی انجینئر سے زیادہ، دفتر کے دفتریوں سے زیادہ مملکت کے اونچے عہدہ داروں سے زیادہ ۔ یہ اور بات ہے کہ ڈاکٹر اور انجینئرکو امیرو وزیر کو، زرکار محل اور عیش کدہ نصیب ہوتا ہے اور دفتریوں کو اپنے دفتر امارت کا تاج اور مضمون نگار اور صحافی اور ادیب کو بس ایک معمولی کرایہ کا مکان وہ بیچارہ کبھی کبھی نان شبینہ کا بھی محتاج ہوتا ہے ۔ یہ اس لئے کہ سماج کو ادیب کی قدر وقیمت نہیں معلوم ۔ حالانکہ صحافی اور ادیب ہی ڈاکٹر اور انجینیر ہوتا ہے اس کا ہاتھ سماج کی نبض پر ہوتا ہے وہ بیماری کی تشخیص کرتا ہے اور علاج بھی تجویز کرتا ہے وہ اپنے افکار وخیالات کے سازوسامان سے سماج کی تعمیر کرتا ہے اس کے ہاتھ میں کتاب ہوتی ہے اور انگشت تا قلم اور زبان پر” ن والقلم وما یسطرون “۔ اس کے علم اس کے عقل کی خرد افروزی سے لوگوں کو نشانات راہ کا علم ہوتا ہے وہ پوری امت کی رہنمائی کرتا ہے وہ امیر نہیں مامور ہوتا ہے لیکن دفتر کے ہر سقراط بقراط سے بڑھ کر فاضل اور امت کا رہبر ہوتا ہے اس کے پاس اختیارات کی طاقت نہیں ہوتی لیکن قلم کی طاقت ہوتی ہے اور یہ طاقت تلوارسے بڑھ کر طاقتور ہوتی ہے وہ سپاہی ہوتا ہے اور خود ہی سپہ سالاراورخودہی لشکر جرار ۔ اہل علم کو چاہئے کہ اس کی عزت کریں اس کی توقیر کریں اور سماج میں اس کو عزت کی جگہ دیں ۔ایسا نہ ہو جس کے پاس علم ہو قلم ہو لیکن وہ محروم عزت واحترام ہو ۔اور یہ شعرماحول پر صادق آئے۔
اسپ تازی ہوا مجروح بزیر پالاں
طوق زریں ہمہ در گردن خر می بینم 
 کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ اسپ تازی کسی درجہ میں مجروح ہوا ہے ۔ یادوں کے چراغ کی یہ چوتھی جلد ہے جس میں علماء مشائخ وحفاظ کرام اور شعراءوادباءودانشورا ن قوم وغیرہ کے خاکے ہیں۔مولانامفتی محمد ثناءالہدی قاسمی معروف ادیب اور صحافی ہیں ہندوستان کے اخبارات میں کثرت سے ان کے مضامین شائع ہوتے ہیں اور نگاہ تحسین سے دیکھے جاتے ہیں ان کے اندر ملت کا درد بھی ہے، قلم کا سوز بھی ہے، فکر کی حرارت بھی ہے، مزاج کا توازن بھی ہے، میری نگاہ نارسا ان کے مضامین کو تلاش کرتی رہتی ہے اور جب رسائی ہوجاتی ہے تو اہتمام سے اسے پڑھتی ہے میں نے جو لکھا ہے اس میں کوئی مبالغہ نہیں ہے بسا اوقات باہمی تبادلہ خیال بھی ہوا ہے اورکبھی کسی اہم موضوع پر میں نے ان کے فکر کو زرخیز اور قلم کو مہمیز کرنے کی کوشش بھی کی ہے ۔میں نے ہمیشہ ان سے اس لئے بھی رابطہ کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ ملت کی فکر ی رہنمائی کرسکیں ، مجھے ہندوستان کی ملی تنظیموں سے ایک گونہ مایوسی ہے نہ کہیں تخیل کی لالہ زاری نہ کہیں فکر کی تازہ کاری نہ کہیں ہمت اورحوصلہ نہ کہیں تازہ ولولہ، نہ کہیں ندرت خیال ، بس تار عنکبوت کی طرح بوسیدہ خیالات اور حد سے بڑھی ہوئی عقیدتوں کی پرچھائیاں نہ جوش عمل نہ جدت کردار، ایسی ازکار رفتہ قیادت کس کام کی 
اٹھا میں مدرسہ وخانقاہ سے نمناک 
نہ زندگی نہ محبت نہ معرفت نہ نگاہ
  یادوں کے چراغ شخصیات پر خاکوں کا مجموعہ ہے، اردو ادب میں اس سے پہلے مولوی عبد الحق کی کتاب ”چند ہم عصر“ سامنے آچکی ہے مولانا ابو الحسن علی ندوی کی “پرانے چراغ “ رشید احمد صدیقی کی ”ہم نفسان رفتہ “اور” گنج ہائے گراں مایہ “ اور مولانا نور عالم خلیل امینی کی ”پس مرگ زندہ “ چراغ حسن حسرت کی ”مردم دیدہ“ اور نقوش کے دو خاص نمبر اور بے شمار نام ، سارے نام گنوانا چاہوں تو گنوانہ سکوں ۔مولانا مفتی محمد ثناءالہدیٰ قاسمی کی یہ کتاب خاکوں کے گلدستہ میں ایک دلکش پھول کا اضافہ ہے ۔یہ تعریف جھوٹ موٹ کی تعریف نہیں ہے مولانا ثناءالہدی قاسمی کا طرز تحریر اتنا دلکش ہے کہ ان شخصیتوں پر رشک آتا ہے، جن پر خاکے لکھے گئے ا ور جی چاہتا ہے ان خوش قسمت انسانوں کی فہرست میں مقدمہ نگار کا نام بھی آئے اور شاید آبھی جائے کیونکہ عمر کا آفتاب لب بام آچکا ہے اور صحت غنچہ گل کے ثبات سے مختصر اور نازک تر۔اگرچہ مقدمہ نگار کے حالات زندگی پر انسٹیوٹ آف آبجکٹو اسٹڈیز نے پوری کتاب شائع کردی ہے مگر ثناءالہدی قاسمی کا رنگِ قلم کہاں ” وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی “ 
  

پیر, فروری 06, 2023

مولانا عبداللہ رحمانی قاسمی __✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمینائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

مولانا عبداللہ رحمانی قاسمی __
اردودنیانیوز۷۲ 
✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 

امارت شرعیہ بہار ،اڈیشہ وجھارکھنڈ کی مجلس ارباب حل وعقد کے رکن ، مدرسہ اسلامیہ چھٹہی ہنومان نگر سوپول کے سابق صدر مدرس، مدرسہ اٹکی رانچی اور ترہت اکیڈمی سمستی پور کے سابق استاذ، شاہی عیدگاہ بیگم پور سمستی پور کے امام وخطیب، حضرت مولانا محمد عارف ہرسنگھ پوری کے بڑے پوتا، جید عالم دین، استاذ الاساتذہ حضرت مولانا عبد اللہ رحمانی قاسمی ہرسنگھ پوری حال مقام وارڈ نمبر 14 ،رام نگر سمستی پور نے 23 جمادی الاخریٰ 1444ھ مطابق 16 جنوری 2023ءبروز پیر صبح کے آٹھ بجے سمستی پور واقع اپنے مکان میں جان، جان آفرین کے سپرد کر دیا، اہلیہ کا انتقال 2007 میں پہلے ہی ہوچکا تھا، پسماندگان میں دو صاحب زادے؛ فضل الرحمن ، حفظ الرحمن اورچارصاحب زادیوں کو چھوڑا،جنازہ کی نماز دوسرے دن بروز منگل صبح کے دس بجے مولانا مظہر الحق ٹیچرس ٹریننگ کالج متھرا پور کے وسیع میدان میں ان کے حقیقی چھوٹے بھائی حضرت مولانا سعد اللہ صاحب صدیقی سابق مہتمم مدرسہ رحمانیہ سوپول دربھنگہ نے پڑھائی ، اس موقع سے علماء، صلحاء، صوفیاءکے ساتھ بڑی تعداد میں عام مسلمانوں نے شرکت کی اور جنازہ کے بعد ان کو لحد تک پہونچایا ، امیر شریعت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی دامت برکاتہم کے حکم پر امارت شرعیہ کے ایک موقر وفد نے مولانا مفتی محمد انظار عالم قاسمی قاضی شریعت کی قیادت میں جنازہ اور تجہیز وتکفین میں شرکت کی،اس وفد میں نائب قاضی شریعت مولانا مفتی وصی احمد قاسمی، مولانا سید محمد عادل فریدی اور قاضی شریعت سمستی پور مولانامفتی امان اللہ قاسمی شریک تھے۔ مولانا مظہر الحق ٹیچر ٹریننگ کالج متھراپور کے احاطہ میں تدفین عمل میں آئی۔
مولانا عبد اللہ رحمانی قاسمی بن مولانا عبد الرحمن (م 1982) بن حضرت مولانا محمد عارف صاحب ہرسنگھ پوری (متوفی9 صفر1363 ھ مطابق 13فروری 1924) بن شیخ بلاغت حسین بن امداد حسین عرف نبدی بابو بن شیخ خیرات علی بن شیخ منشی حسن یار وکیل بن شیخ ہبة اللہ کی ولادت 1929ءمیں ہرسنگھ پور ضلع دربھنگہ میں ہوئی، مولانا کی نانی ہال محمد پور مبارک عرف آوارہبنگرا، ضلع مظفر پور تھی، نانا کا نام علی حسن تھا، جو سروے آفس میں امین تھے، بعد میں مولانا کی نانی روپس پور دھمسائن ضلع دربھنگہ نقل مکانی کرکے جا بسیں ، مولانا کے دو ماموں مولانا غزالی اور مولانا نظیر حسن کا شمار علاقہ کے بڑے عالموں میں ہوتا تھا۔ابتدائی تعلیم گھر پر والد ماجد مولانا عبد الرحمن صاحب ہرسنگھ پوری اور مولوی امداد حسین سے حاصل کرنے کے بعد مولانا نے پہلے باقرخاں کے مدرسہ آشاپور، مدرسہ امدادیہ دربھنگہ، مدرسہ رحمانیہ سوپول اور پھر جامعہ رحمانی مونگیر کے اساتذہ علم وفن کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا، اعلیٰ تعلیم کے لیے دیوبند تشریف لے گئے اور وہاں شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ سے بخاری شریف پڑھ کر 1955 میں سند فراغ حاصل کیا، انہوں نے دارالعلوم دیو بند میں قیام کے دوران حضرت مولانا اعزاز علی اور مولانا نصیر احمد خان رحمہما اللہ سے بھی کسب فیض کیا۔مولانا کے رفقاءدرس میں حضرت قاضی مجاہدالاسلام قاسمی ؒکا نام سب سے نمایاں ہے، ان کے علاوہ حضرت مولانا ابوظفر رحمانی،حضرت مولانا اکرام اور مولانا سعید احمد سابق معاون قاضی امارت شرعیہ بھی آپ کے رفیق درس تھے۔
 تدریسی زندگی کا آغاز اپنے چھوٹے چچا مولانا ولی الرحمن صاحب ہرسنگھ پوری (م2001) کے قائم کردہ مدرسہ اسلامیہ چھٹہی ہنومان نگر سوپول سے کیا، کوئی بارہ سال 1971ءتک یہاں بحیثیت صدر مدرس خدمت انجام دیتے رہے، چھٹہی ہنومان نگر میں مسلمانوں کے درمیان جو بدعات ان دنوں رائج تھیں ان میں ایک بدعت تعزیہ سازی اور اس کے مروجہ ملحقات تھے، مولانا نے یہاں قیام کے دوران اس بدعت کے زور کو توڑنے، بلکہ ختم کرنے کی مثالی جد وجہد کی اور اس مہم میں بڑی حد تک وہ کامیاب رہے۔ چھٹہی مدرسہ اسلامیہ چھوڑنے کے بعد دو سال مدرسہ اٹکی رانچی میں پڑھایا اس کے بعد ترہت اکیڈمی سمستی پور میں فارسی زبان وادب کے استاذ کی حیثیت سے بحال ہو گیے، اور مدت ملازمت پوری کرکے یہیں سے سبکدوش ہوئے۔ مولانا کی سسرال داوود نگر سمستی پور تھی،حضرت مولانا محمود صاحب کی دختر نیک اختر سے آپ رشتہِ ازدواج میں منسلک ہوئے، مولانا محمود صاحب شاہی عیدگاہ بیگم پور کے خطیب وامام عیدین تھے، مولانا کے انتقال سے جب یہ جگہ خالی ہوئی تو لوگوں کی توجہ حضرت مولانا عبد اللہ رحمانی قاسمی کی طرف گئی، جن کی صلاحیت وصالحیت کا چرچا ہر خاص وعام کی زبان پر تھا، چنانچہ مولانا بیگم پور شاہی عیدگاہ کے خطیب اور امام عیدین مقرر ہوئے اور پوری زندگی، کوئی بتیس سال تک انتہائی ذمہ داری کے ساتھ فی سبیل اللہ اس کام کو انجام دیتے رہے۔
 مولانا عبد اللہ صاحب اپنے خاندانی روایتوں کے امین تھے، ان کا علم پختہ تھا اور تقویٰ طہارت میں شہر کے ممتاز ترین لوگوں میں آپ کا شمار ہوتا تھا، مولانا کی وابستگی یوں تو عصری تعلیم کے ادارہ سے تھی ، لیکن رکھ رکھاو، وضع قطع، شریعت کی پاسداری، دینی حمیت اور جذبہ اصلاح معاشرہ میں کبھی کمی نہیں آئی، خود شاعری تو نہیں کرتے تھے، لیکن شعراءکے سینکڑوں اشعار ان کے حافظہ کی گرفت میں تھے، اقبال کے شیدائی تھے اور ان کے اشعار خاص لطف وکیف کے ساتھ حسب موقع پڑھا کرتے تھے، طبیعت میں لطافت تھی اور خشیت الٰہی نے ان کے قلب کو نرم اور دماغ میں تواضع اور انکساری کو جاگزیں کر دیا تھا، وہ اچھے خطیب تھے، آج کے پیشہ ور مقرروں کی طرح ان کی خطابت میں گھن گرج نہیں ہوتی تھی اور نہ ہی اعضاءو جوارح (باڈی لنگویج) کا وہ زیادہ استعمال کرتے تھے، لیکن خلوص سے نکلے ہوئے الفاظ لوگوں کے دلوں پر اثر انداز ہوتے تھے، عوامی اور درسگاہی زندگی میں خفگی ان کا شعار نہیں تھا، وہ بات نرمی سے کہنے کے عادی تھے، ڈانٹنا ، بگڑنا، تنبیہ کرنا ان کے مزاج کا حصہ نہیں تھا، مولانا باخبر عالم دین تھے، ان کی نگاہ عالم اسلام کے رست وخیز اور سیاسی حالات پر گہری تھی وہ اسلام پسندوں کے غلبوں سے خوش ہوتے تھے، اور اسلام دشمن کا رروائیوں پر ان کا دل روتا تھا، جو اصلا کامل ایمان کی پہچان ہے، کیوں کہ مو من جسد واحد کی طرح ہے ، جب کسی ایک عضو میں کانٹا چبھتا ہے تو دماغ تکلیف محسوس کرتا ہے، زبان اف اف کرتی ہے اور آنکھیں آنسو بہانے لگتی ہیں، مولانا کی کیفیت بھی کچھ اسی طرح کی ہوا کرتی تھی۔
 میرا سمستی پور سے گہرا رشتہ رہا ہے ، میں نے تدریسی زندگی کا آغاز دار العلوم بربٹہ سے کیا تھا، جتوار پور، چاند چوڑ وغیرہ رشتہ داری کی وجہ سے آناجانا رہا ، سمیع خان مرحوم جب تک زندہ تھے، سمستی پور کھینچ لیا کرتے تھے، اس طرح مختلف موقعوں سے ان سے ملاقات کی سعادت مجھے بھی ملی، لیکن عجیب وغریب بات ہے کہ کبھی کسی نے ان کا تعارف خانوادہ ہرسنگھ پور کے گل سر سبد کی حیثیت سے نہیں کرایا، اس کا مطلب یہ ہے کہ مولانا کی شناخت اپنی تھی اور سمستی پور کے لوگ ان کے تعارف میں خاندانی عظمت کا ذکر ضروری نہیں سمجھتے تھے، مولانا جید عالم دین تھے، اس حیثیت سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ موت العالِم ، موت العالَم۔
 اللہ کا بڑا فضل اور کرم ہے کہ مولانا کے دو حقیقی بھائی حضرت مولانا سعد اللہ صاحب صدیقی اور مولانا ظفر اللہ صاحب رحمانی دامت برکاتہم حیات سے ہیں اور یہ حقیر ان دونوں حضرات کی شفقت اور لطف وعنایت سے بہرہ ور ہوتا رہا ہے، حضرت مولانا ظفر اللہ صاحب رحمانی حفظہ اللہ کی پوسا رہائش گاہ میں جو کتابیں تھیں خود سے میرے لڑ کے نظرالہدیٰ قاسمی کو بلا کر نور اردو لائبریری حسن پور گنگٹھی ویشالی کے لیے حوالہ کیا ، اس سے زیادہ اعتماد کی بات اور کیا ہو سکتی ہے۔ اللہ مولانا عبد اللہ صاحب کی مغفرت فرمائے اور پس ماندگان کو صبر جمیل دے۔ آمین
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پر روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...