Powered By Blogger

پیر, فروری 27, 2023

کچھ تو کر خوف خدا دل میںشمشیر عالم مظاہری دربھنگوی

کچھ تو کر خوف خدا دل میں
Urduduniyanews72
شمشیر عالم مظاہری دربھنگوی
امام جامع مسجد شاہ میاں روہوا ویشالی بہار

گناہوں سے ہمیں رغبت نہ تھی یارب 
تیری نگاہِ کرم کو بھی منھ دکھانا تھا ۔
اسلام نے جس قدر اخلاقی تعلیم دنیا کو دی ہے ایسے عالمگیر اور پاکیزہ اخلاق کسی مذہب نے پیش نہیں کئے آپس کے حقوق جو اسلام نے بتلائے ہیں ان سے دنیا کے اور کل مذاہب ساکت ہیں اسلام جیسا سچا مذہب اگر دنیا میں رہنے سہنے کے اچھے طریقے کافی طور پر نہ بتلاتا تو یہ اس کا نقص سمجھا جاتا حالانکہ وہ کامل مذہب ہے کاش مسلمان اس سچے  مذہب کا عملی نمونہ بن جائیں اور پبلک کو دکھا دیں کہ دیکھو اسلام یہ ہے تو  خلق اللہ حلقہ بگوش ہو جانے میں ذرا بھی تو توقف بلکہ تأ مل نہ کرے نمونۂ اسلام از خود ان کو اپنی مقناطیسی زبردست قوت سے اپنی طرف کھینچ لے مگر یہاں تو مسلمانی در کتاب و مسلمانان  درگور کا مضمون ہے ۔ ایک وہ مبارک زمانہ تھا کہ مسلمان نہایت مستعدی اور سرگرمی سے احکامِ اسلام کے پابند تھے ان کے جسموں کو تیروں سے چھلنی بنا دیا جاتا تھا ان کے اعضاء کو ایک ایک کر کے کاٹ دیا جاتا تھا انہیں گرم گرم تیل کے کڑھاؤ میں ڈال دیا جاتا تھا بیچارے دم زدن میں چر مر ہوکر رہ جاتے تھے دہکتے ہوئے انگاروں پر برہنہ جسم لٹا کر گھسیٹا جاتا بیوی بچے مال دولت عزت آبرو سب خاک میں ملا کر گھر سے بے گھر کر دئیے جاتے تھے وہ کونسا ظلم تھا جو ان سے اٹھا رکھا جاتا تھا وہ کونسی سفاکی تھی جو ان پر نہ ہوتی ہو وہ کونسا برا برتاؤ تھا جو ان سے نہ برتا جاتا ہو مگر تا ہم وہ مردانِ خدا احکامِ دین پابندی سے بال برابر نہ ہٹتے یہ ناقابلِ برداشت روز روز کی مصیبتیں یہ روح فرسا نت نئی تکلیفیں بھی ان سے پہاڑ سے زیادہ مضبوط استقلال اور ایمان کو کھو دینا تو کجا ذرہ برابر بھی جنبش نہ دے سکتی تھیں  اپنی تمام راحتیں ایک فرمان نبوی پر قربان کر دیا کرتے تھے آج انقلاب زمانہ نے وہ روزبد دکھایا کہ  ذرا ذرا سی راحتوں کی خیالی امید پر چھوٹی چھوٹی تکلیفوں کے موہوم خوف سے ایمان فروشی کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں جسے دیکھو نفس کا بندہ جس پر نظر ڈالو تکبر اور خود ستائی کے نشہ میں سرمست ایک ایک فرد ننگ اسلام ہر ایک مجرم و خود کام کہیں رات دن دور شراب ہے کہیں عشق خانہ خراب ہے کسی کی چوری اور زنا کاری میں عمر بسر ہو رہی ہے کسی کی جوۓ اور تماشہ بینی میں ساری رات گزر رہی ہے کہیں راگ اور باجوں کا شوق ہے کہیں ایذا دہی  اور حرام خوری کا ذوق ہے سود تو گویا دل لگی ہے ہے شراب اور نشے بغیر گویا راحت ہی محال ہے ۔
کیا مذہب اسلام کی یہی وہ پاک تعلیم ہے جسے محمد رسول ﷺ لے کر آئے  تھے کیا انہی اخلاق ردیہ و خصائل ذمیمہ کو پھیلانے کے لیے آپ نے دنیا میں طرح طرح کی کوفت اٹھائی تھی  روز محشر میں جس وقت ہم احکم الحاکمین کے سامنے کھڑے ہوں گے اعمال نامے کھلے ہوئے ہونگے زمین و آسمان بلکہ خود ہمارے اعضائے جسم ہمارے خلاف گواہی دے رہے ہوں گے کل مخلوق ایک ہی میدان میں جمع ہو ئی ہوگی آفتاب تیزی اور تندی کے ساتھ بالکل سروں پر ہوگا ساتھ ہی جہنم چیختی چلاتی شعلے بھڑکاتی آنکھیں پھاڑے غیظ و غضب کے ساتھ گھور رہی ہوگی اس وقت ہم باری تعالیٰ کو اپنی ان زشت اعمالیوں کا کیا جواب دیں گے کیا منھ لے کر اپنے مشفق و شفیق رسول اللہ ﷺ  سے شفاعت کی آرزو کریں گے ۔ اس پر فریب دنیا میں پھنس کر آخرت کو فراموش نہ کر دیجئے یہ دنیا تو آخرت کے لئے کھیتی ہے جو یہاں بوؤ گے وہ وہاں پاؤ گے  اس کے حاصل کرنے میں اور حاصل ہوجانے کے بعد خدا سے اور قیامت سے غافل نہ ہو جاؤ اللہ کے رسول کے ان الفاظ کو کبھی نہ بھولو کہ نیکیاں کرو اور پھر بھی خدا سے ڈرو کہ نہ جانیں قبول بھی ہوئیں یا منھ پر مار دی گئیں اور جب یہ ہے تو ہم جیسے لوگوں کو جو نیکیوں سے خالی اور گناہوں سے پر ہیں خداۓ تعالیٰ  سے کس قدر ڈرنا چاہیے فرمان قرآن ہے ( فاتقواللہ مااستطعتم )   لوگو اپنے مقدور بھر  اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو ،  اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کرنا اور اس کی نافرمانیوں سے بچنا اسی کا نام اسلام ہے یہ فرماں برداری اور نافرمانیوں سے بچنا اسی وقت ہو سکتا ہے جب انسان کے دل میں خوف خدا ہو خوف اور ڈر ہی انسان کو روکتا ہے سانپ سے ہمیں خوف ہے کبھی اس کے منھ میں انگلی ڈالتے ہوئے کسی انسان کو نہیں دیکھا ہوگا شیر سے ڈر ہے کبھی  اس کے منھ میں جاتے ہوئے کوئی نہیں دیکھا گیا ہوگا آگ سے ڈرتے ہیں کبھی اس میں کودتے ہوئے کسی کو نہیں دیکھا گیا اسی طرح جس دل میں اللہ تعالیٰ کا ڈر ہوتا ہے وہ کبھی اس کی نافرمانیوں کی طرف رخ بھی نہیں کرتا بلکہ ہمیشہ اس کی تابعداری میں لگا رہتا ہے۔ یہی خوف خدا ہے جس نے صحابہ کرام کے دلوں کو خدا کی طرف مائل کر دیا تھا مستدرک حاکم میں حدیث ہے کہ ایک نوجوان انصاری کا دل خوف خدا سے لبریز تھا عذابوں اور خوف خدا کا ذکر سن کر بہت رویا کرتا تھا یہاں تک کہ اسے گھر سے نکلنا بھاری ہو پڑا رسول اللہ ﷺ کو جب یہ خبر پہنچی تو آپ خود اس کے مکان پر تشریف لے گئے اور  اسے گلے لگایا بس اسی وقت اس کی روح پرواز کر گئی آپ فرمانے لگے اس کے کفن دفن کی تیاری کرو ۔ خوف خدا نے اس کے دل کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے ہیں ۔ لوگ  آپ سے کہتے ہیں ہ یا رسول اللہﷺ  آپ کے بال تو ابھی سے پکنے لگے فرماتے ہیں مجھے سورہ ہود، سورۂ واقعہ ، اور سورۂ عم یتساءلون وغیرہ کے زوردار بیانوں اور اس دن کی دہشت و خوف نے قبل از وقت بوڑھا بنا دیا  عبداللہ بن شخیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں خدمت مبارک میں حاضر ہوا دیکھا کہ آپ نماز میں مشغول ہیں آنکھوں سے آنسو گر رہے ہیں روتے روتے اس قدر ہچکی بندھ گئی کہ گویا چکی چل رہی ہے یا ہانڈی میں ابال آرہا ہے جب نبی معصوم کے خوف اور ڈر کا یہ حال ہے کہ نہ راتوں کو چین ہے نہ دن کو آرام رخسار مبارک سے آنسو خشک نہیں ہوتے ڈاڑھی تک تر ہے ہچکیاں بندھ گئی ہیں پھر بھلا ہم تم جیسے سر تا پا گناہوں میں ڈوبے ہوئے معصیت کے پتلوں کو کیا کرنا چاہئے یہاں رکھا ہی کیا ہے نہ عمل ہیں نہ تقوی خدایا بجز تیری رحمت کے کوئی سہارا نہیں
اپنے انجام پر غور کرو آخر چار ہاتھ کے تنگ و تاریک گڑھے میں جانا ہے یہ فانی دنیا ختم ہو جائے گی پھر اصل زندگی آخرت کی زندگی ہے

اتوار, فروری 26, 2023

ایک قبر جو قیادت کررہی ہے!* ✍️ ہمایوں اقبال ندوی ارریہ ، بہار

*ایک قبر جو قیادت کررہی ہے!* 
اردودنیانیوز۷۲ 
✍️ ہمایوں اقبال ندوی
 ارریہ ، بہار 

ضلع ارریہ کی معروف ومشہور علمی وسماجی شخصیت جناب پروفیسر الحاج عرفان احمد صاحب آج سپرد خاک ہوگئے ہیں، باری تعالی جنت الفردوس نصیب کرے، قبر میں جنت کی کھڑکیاں کھول دے،اس خاک کے گڈھے کو بقعہ نور میں تبدیل کر دے، آمین یارب العالمین 

شکریہ اے قبر تک  پہچانے والو  شکریہ 
اب اکیلے ہی چلےجائیں گےاس منزل سے ہم

مرحوم پان اور کام کے بیک وقت رسیا تھے،پانچ سال پہلے کی بات ہے،مدرسہ اسلامیہ یتیم خانہ ارریہ کے سامنے کمال صاحب کی پان دکان ہے،پروفیسر صاحب یہاں پان کھانے تشریف لائے، جناب قاری تبریز صاحب بھی موجود تھے، ایک دانشور نےیہ شکوہ کیا کہ اس وقت حضرت قائد کی بڑی کمی ہے،مرحوم نےبرجستہ یہ تاریخی جواب ارشاد فرمایا؛قائد کی کمی نہیں ہے بلکہ قیادت کی آج بڑی کمی ہے،قائد کی کمی کا رونا لوگ روتے ہیں، مگر اپنے حصہ کی قیادت نہیں کرتے ہیں،ہم اسلام کے نام لیوا ہیں، مذہب اسلام میں ہر کلمہ گو قائد ہے ،مرحوم کی زبان سے نکلا یہ تاریخی جملہ دراصل انکی پوری زندگی کا خلاصہ ہے،اپنی زندگی میں اس کو سچ کردکھایا ہے،مرحوم مدرسہ اسکول، کالج ،امارت، جمعیت اور جماعت ہر جگہ پیش پیش رہے ہیں،اس راہ میں اپنی جانی ومالی قربانی بھی پیش کرتے رہےہیں،گویا اپنی عملی زندگی سے مرحوم نے قیادت کی تشریح کردی ہے،ساتھ ہی قیادت کی ابتدا کہاں سے کی جانی چاہئے ہے؟اس سوال کواپنے عمل سے حل فرمادیا ہے،پہلے اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت سے اس کی ابتدا کی ہے۔

علاقہ کے مشہور عالم دین جناب حضرت مولانا نبی حسن صاحب مظاہری نے جنازہ کی نماز سے پہلے یہ اعلان کیا ہے کہ؛ ڈھونڈنے سے بھی مرحوم جیسا بیدار مغز انسان ہمیں نہیں مل رہا ہے،انہوں نے اپنے گھر سے قیادت شروع کی ہے ،اپنے بچوں کی دینی وعلمی تربیت پہلے کی ہے،قیادت کرنے کا طریقہ ہمیں مرحوم تعلیم کر گئے ہیں، پھرقوم وملت کے لئے فکر مند اور کوشاں ہوئے ہیں، تمام تنظیموں اور تحریکوں کے لئے خود کو وقف کردیتے ہیں، آج ہزاروں کی تعداد ان کے جنازے کی نماز میں شریک ہے، پورا علاقہ سوگوار ہے،یہ سب سے بڑی دلیل ہے۔

آخری سانس لینے سے پہلے اپنےنور نظر جناب مفتی غفران حیدر مظاہری سے یہ کہا کہ؛ بیٹے مجھے اطمنان ہے کہ تم لوگ میرے نقش قدم پر چلوگے، میرے کام کو لیکر آگے بڑھوگے، مرحوم کے تمام بیٹوں نے اس کا عزم بھی لیا ہے، باری تعالٰی استقامت نصیب کرے، آمین 

یہ بات کہاں کسی کو نصیب ہوتی ہے کہ مرنے کے بعد بھی ان کی قبر قائدانہ کردار ادا کرے، مرحوم جاتے جاتے بھی قیادت کرگئے ہیں،اپنی ایک بیگھہ نفیس زمین کو عام قبرستان بنا گئے ہیں، پہلی قبر جو اس قبرستان کی قیادت کرنے جارہی ہے وہ مرحوم الحاج عرفان صاحب ہی ہیں۔اکیلے دفن ہونے گئے ہیں، پہلو میں ایک نوزائیدہ بچی بھی آج مدفون ہوئی ہے، اس قبرستان کی آبادی کا بھی کام شروع ہوگیا ہے -

میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا

گویا یہاں بھی آپ کی قبر قیادت کررہی ہے اور قوم کو یہ پیغام اپنے عمل سےدیا ہے کہ ہم تنہا نہیں جارہے ہیں بلکہ تم سبھوں کو اس قبرستان میں آنا ہے،تمہارے لئے بھی ہم نے جگہ خاص کردی ہے، یہاں آنے کی تیاری شروع کر دو اور موت کا استحضار پیدا کرلو!

آج ڈومریا گاؤں کے کتنے لوگوں نے اپنی قبر کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے، اور یہ استحضار کرلیاہےکہ ہمیں الحاج عرفان صاحب کی موقوفہ زمین میں دفن ہونا ہے،منزل ہماری یہی ہے، یہ خیال بھی دل میں ضرور پیداہوا ہوگا کہ مرحوم کے بازو میں جانے سے پہلے اپنی زندگی کو قیمتی بنانی پڑے گی، بچوں کی تعلیم وتربیت کی ذمہ داری ادا کرنی ہوگی، قوم وملت کے لئے مفید بننا ہوگا،علمی خدمات کے لئے خود کو تیار کرنا ہوگا، تبھی صاحب قبر کا حق ادا ہوسکتا ہے، اس کے جوار میں حقیقی جگہ مل سکتی ہے،یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے، غور کرنے پر یہاں بھی مرحوم الحاج پروفیسر عرفان صاحب کی قیادت نظر آرہی ہے۔

خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را

امجد اسلام امجد ___✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

امجد اسلام امجد ___
اردودنیانیوز۷۲ 
✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی 
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 

مشہور شاعر‘ ڈرامہ اور کالم نگار امجد اسلم امجد کا گذشتہ دنوں 10/فروری 2023 ء بروز جمعہ لاہور میں انتقال ہوگیا‘انہیں سونے کی حالت میں دل کا دورہ پڑا اور صبح وہ اپنے بستر پر اس حالت میں پائے گئے کہ ان کی روح قفص عنصری سے پرواز کر چکی تھی‘ انہوں نے اپنے پیچھے ایک لڑکا علی ذیشان اور دو لڑکیوں کو چھوڑا۔وہ ستارہ امتیازسے1968 ء میں، حسن کارکردگی ایوارڈ سے 1987ء  اورنگار ایوارڈ سے دو بار نوازے جا چکے تھے‘ اس کے علاوہ اور بھی بہت سارے ایوارڈ’اعزاز و انعامات ان کی جھولی میں آ گرے تھے۔ان میں 23 /دسمبر 2019 ء کو ترکی کا اعلی ثقافتی اعزاز نجیب فاضل انٹر نیشنل کلچر اینڈ آرٹ ایوارڈ بھی شامل ہے۔
امجد اسلام امجد کی پیدائش 4/ اگست 1944ء کو غیر منقسم ہندوستان کے شہر لاہور  میں ہوئی‘1967ء میں پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اردو میں کیا‘ 1968ء سے ۱1975ء تک ایم اے  او کالج لاہور کے شعبہ اردو میں تدریسی خدمات انجام دیں‘ 1975ئمیں وہ پنجاب آرٹ کونسل کے ڈپٹی ڈائرکٹر بنائے گئے‘ لیکن 1990ء میں پھر سے ایم اے او کالج واپسی ہوئی اورشعبہ تدریس سے منسلک ہو گئے۔وہ پاکستان ٹیلی ویزن سے منسلک ہوتے ہوئے چلڈرن کمپلکس کے پروجیکٹ ڈائرکٹربھی تھے‘ ان تمام مشغولیات کے باوجود انہوں نے پچا س سے زائد کتابیں تصنیف کیں۔
امجد اسلام امجد نے ادبی دنیا میں شاعر‘ ڈرامہ نگار اور نقاد کی حیثیت سے خوب نام کمایا ’وارث ’دن اور فشار ان کے مشہور ڈرامے ہیں‘ ان کا شعری مجموعہ برزخ‘ ذرا پھر سے کہنا‘ساحلوں کی ہوا‘ زندگی کے میلے میں اور جدیدعربی نظموں کے تراجم عکس اور افریقی شعرا ء کی نظموں کا ترجمہ کالے لوگوں کی روشن نظمیں کے نام سے شائع ہو کر مقبول ہوئے۔ان کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ تاثرات کے نام سے منظر عام پر آیا۔امجد اسلام امجد نے ڈرامہ نگاری میں  اپنی مہارت کے جو نقوش چھوڑے ہیں وہ برسوں دیکھنے والے کے ذہن سے محو نہیں ہوں گے۔
امجد نے جمالیاتی شاعری  کے حوالہ سے اپنی شناخت بنائی اور یہی ان کی شاعری کے میدان میں شہرت کا سبب بنی‘ان کی نظموں میں جو صوتی ہم  آہنگ‘ تازہ کاری‘ توانائی اور فکری تنوع ہے‘ اس کی مثال نایاب تو نہیں کم یاب  ضرورہے۔ان کی شاعری کے قدرداں عوام اور خواص دونوں تھے‘ کیوں کہ وہ روز مرہ پیش آنے والے واقعات سے شاعری کا مواد حاصل کرتے تھے  اور اسے فلسفہ بنائے بغیر پیش کرنے کا ہنر جانتے تھے۔ان کی شاعری نے ایک نسل کی فکری آبیاری کی۔
پاکستانی ٹیلی ویزن کے لیے ش انہوں نے  کئی کامیاب سیریز لکھے‘ جن میں دہلیز‘ سمندر‘ رات‘ وقت‘ اور اپنے لوگ خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔امجد اسلام امجد در اصل اس وقت پاکستانی ادب کا چہرہ تھے‘ ایک ایسا چہرہ جس کو پاکستان سے باہر مختلف اصناف ادب میں خدمت کی وجہ سے وقار و اعتماد حاصل تھا‘ وہ معروف بھی تھیاور مقبول بھی‘ انہوں نے ادب کی دنیا میں بہت لوگوں کو آگے بڑھایا‘ وہ باصلاحیت لوگوں کی قدر  کرتے اور ان کے بس میں جس قدر ہوتا آگے بڑھانے کی کوشش ہی نہیں جتن بھی کیا کرتے تھے۔آج کے اس دور میں جب بیش تر بڑے برگد کا پیڑ بنے بیٹھے ہیں‘ ان کے زیر سایہ کوئی تناور درخت نہیں اگ نہیں سکتا‘ وہ اپنی ہی سونڈزمین میں گاڑنے پر یقین رکھتا ہے ایسے میں امجد اسلام امجد کا یہ طریقہ کار قابل ستائش بھی تھااور لائق تقلید بھی۔
امجد اسلام امجد مجلسی آدمی تھے‘ ان کی گفتگو برجستہ اور بذلہ سنج ہوا کرتی تھی‘ انہیں مجلس کو قہقہہ زار بنانا بھی خوب آتا تھا‘ انہیں اپنے فن اور مقبولیت پر غرور بھی نہیں تھا‘ وہ ہر اہل قلم کی قدر کرتے تھے اور اپنے سے چھوٹوں کی عزت کرتے تھے’یہ عزت اور پذیرائی کا سلسلہ خورد نواز ی کے آخری مرحلہ تک جا پہونچتا تھا۔
ہندوستان،پاکستان کے درمیان سرحدی خلیج کی وجہ سے میرا ان سے ملنا کبھی نہیں ہوا،ہندوستان مختلف موقعوں سے ان کا آنا ہوا؛لیکن ان مواقع کا استعمال ملاقات کے لئے میں نہیں کر سکا،البتہ ان کی تخلیقات کو مختلف رسائل و جرائد میں پڑھتا رہا،اس سے ان سے ایک ذہنی قربت سی ہو گئی تھی‘ ان کے بعض اشعار نے اس قدر متاثر کیا کہ وہ آج بھی ذہن کے نہاں خانوں میں محفوظ ہیں، ان کے انتقال کی خبر سن کر وہ سب نہاں خانوں سے باہر آنے کے لئے بے چین ہیں،کچھ آپ بھی پڑھ لیجئے؛کیونکہ شاعر پر کوئی تحریر نمونہ کلام کے بغیر ادھوری رہ جاتی ہے،امجد اسلام امجد کے یہ اشعار ان کی ذہنی رو اور عصری حسیت کے عکاس ہیں۔
میرے کاسہ شب و روز میں کوئی شب ایسی بھی ڈال دے
سبھی خواہشوں کو ہراکرے سبھی خوف دل سے نکال دے
امجد کی ذہنیت کو سمجھنے کے لئے اس شعر کو بھی پڑھئے۔
ممکن نہیں ہے مجھ سے یہ طرز منافقت
دنیا تیرے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں
صدیاں جن میں زندہ ہوں وہ سچ بھی مرنے لگتے ہیں
دھوپ آنکھوں تک آجائے تو خواب بکھرنے لگتے ہیں
واقعہ یہ ہے کہ امجد اسلام امجد کا اس دنیا کو چھوڑ جانا شعرو ادب‘ ڈرامے اور کالم نگاری کا بڑا نقصان ہے‘ اللہ جب کسی کو اٹھاتا ہے تو اس کی تلافی کی شکلیں پیدا کرتا ہے۔ علم و ادب تنقید کے میدان میں آج کل جو ادباء اور اہل قلم سرگرم ہیں وہ اس کی تلافی بھی کریں گے۔ اللہ رب العزت امجد اسلام امجد کی مغفرت فرمائے اور ان کے گناہوں کو معاف فرمائے‘ اب یہی دعا ان کے لئے مفید اور کارگر ہے۔ ہم نے دعا کردیا آپ بھی کردیجئے۔

حقانی القاسمی کی آمد پر پٹنہ میں ضیائے حق فاؤنڈیشن پٹنہ کی جانب سے استقبال

حقانی القاسمی کی آمد پر پٹنہ میں ضیائے حق فاؤنڈیشن پٹنہ کی جانب سے استقبال 
Urduduniyanews72

پھلواری شریف پٹنہ مورخہ 26/فروری 2023 (پریس ریلیز :محمد ضیاء العظیم)
حقانی القاسمی صاحب کا پٹنہ آنا ہم سب کے لئے عید کی طرح رہا۔ اُن کی آمد سے سارے شہر میں خوشیوں کی لہر دوڑ گئی۔ محترم حقانی القاسمی اردو زبان وادب کے درخشندہ ستارہ کے مانند ہیں، آپ مشہور ومعروف وبیباک ادیب ناقد کے ساتھ ساتھ ایک نیک دل، ملنسار، بلند سوچ، مخلص، مربی، ہمدرد،وفا شعار، وفا شناس ہیں ۔آپ نے اپنے مخلصانہ عمل وخدمات اور علوم وفنون سے جو مقام ومرتبہ پیدا کیا ہے وہ خود میں ایک مثال ہے، آپ کی ظاہری شکل شباہت بھی سراپا محبت والفت کا سرچشمہ ہے، آپ کے سینے میں قوم وملت کے لئے دھڑکنے اور تڑپنے والا دل ہے، اور یہ بات آپ کے عمل وکردار سے ظاہر باہر ہے، آپ کئی اہم کتابوں کے مصنف و مؤلف ٹھہرے،آپ کی تحریر تقریر اساتذہ طلبہ کے لئے لائحۂ عمل ہے،آپ کئ تنظیموں سے وابستہ ہیں، آپ سے ہر خاص وعام مشورہ طلب کر کے مثبت نتائج پاتے ہیں۔واضح رہے کہ حقانی القاسمی صاحب کی آمد پر ضیائے حق فاؤنڈیشن کی جانب سے ان کے استقبال میں فاؤنڈیشن کے ترجمان محمد ضیاء العظیم قاسمی نے ان سے خاص ملاقات کرکے دعائیں لیں، انہیں اعزاز کے طور پر سند سے نوازا گیا، ساتھ ساتھ کئ اہم ادبی شخصیات ملاقات کی ، اس موقع پر ڈاکٹر صالحہ صدیقی چئیر پرسن ضیائے حق فاؤنڈیشن نے محمد ضیاء العظیم قاسمی سے بات چیت کے درمیان حقانی القاسمی کی شخصیت پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ حقانی القاسمی جیسی شخصیت کی توجہ ہماری جانب مرکوز ہے، یقیناً ان کی شخصیت اس وقت اردو زبان وادب کے لئے غنیمت ہے، صدیوں میں ایسی شخصیت جنم لیتی ہے، حقانی القاسمی بے لوث بے غرض محبت کرنے والے ہیں، ہماری بدقسمتی رہی کہ ہمارے لئے موقع نہ مل سکا کہ پٹنہ کا سفر کرکے سر سے ملاقات کرتی، میں دل کی گہرائیوں سے محمد ضیاء العظیم قاسمی کا شکریہ ادا کرتی ہوں کہ انہوں نے میری نمائندگی کی، حقانی القاسمی صاحب ضیائے حق فاؤنڈیشن کے اہم رکن ہیں، اور فاؤنڈیشن کی سرگرمیوں میں انہوں نے بہت مدد کی ہے، وہ ہمیشہ نیک مشورے سے ہمیں نوازتے رہتے ہیں، اس فاؤنڈیشن کو بام عروج پر پہنچانے میں حقانی القاسمی صاحب کا نام سر فہرست ہے،محمد ضیاء العظیم نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ حقانی القاسمی صاحب کی شخصیت ایک روحانی شخصیت ہے، تحریر وتقرر پڑھنے سننے کا موقع تو کئ دفعہ ملا مگر زندگی کی پہلی ملاقات تھی اور ایسا محسوس ہوا کہ برسوں کی شناسائی ہے،
چند منٹ کی ملاقات نے مجھ پر جو اثر ہوا گویا میری طبیعت معطر ہو گئ، طبیعت نہیں چاہی کہ چھوڑ کر واپس جاؤں لیکن تھکاوٹ آپ کے چہرے سے نمایاں تھیں اسی وجہ سے چند منٹ ملاقات کے بعد واپس ہونا پڑا، یقیناً آپ کی شخصیت خود میں ایک دنیا ہے ،آپ سے مل کر طمانیت قلب حاصل ہوا ۔
اللہ رب العزت نے انسانوں کو بڑی خوبیوں سے نوازتے ہوئے اسے اس روئے زمین پر اپنا نائب بناکر بھیجا ہے، اور زمین آسمان کا اسے وارث بنایا ہے، انسانوں کی تمام ضروریات کی تکمیل فرماتے ہوئے اسے کئ اہم وصف عطا کئے ہیں، جن سے دیگر مخلوق محروم ہیں،انسان اپنی محنت رب العزت کے فضل اور جہد مسلسل سے اپنا مرتبہ اپنی اہمیت اور اپنی شناخت قائم کرتا ہے، پھر زمانہ اسے مبلغ، محدث، مؤرخ، محقق، مقرر، مصلح، مربی و محسن کے خطابات عطا کرتا ہے۔ ایسے شخص کی زندگی خالص علم و عمل، سراپا مجاہدہ اور عالم انسانیت کے لیے سرچشمہ ہوتی ہے۔ وہ زندہ رہتا ہے تو محترم و مکرم ہو کر زندگی کے لمحات گزارتا ہےاور اس عالمِ فنا سے منہ موڑتا ہے تو اپنے پیچھے نہ بھلائے جانے والے کارناموں کی ایک تاریخ رقم کر جاتا ہے۔ ایک پورا زمانہ، ایک پورا عہد اس کی شخصیت سے منسوب ہو جاتا ہے۔ مستقبل کے محرر و مؤرخ اسے اوراقِ تاریخ میں یاد گار زمانہ قرار دیتے ہیں، اور یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ خلق خدا جس سے محبت کرتی ہے یقینا خالق بھی اس سے محبت کرتا ہے، ایسی شخصیت سراپا رحمت برکت اور محبت کی علامات ہوتے ہیں ۔واضح رہے کہ 
ضیائے حق فاؤنڈیشن کی بنیاد انسانی فلاح وترقی، سماجی خدمات، غرباء وفقراء اور ضرورتمندوں کی امداد، طبی سہولیات کی فراہمی، تعلیمی اداروں کا قیام، اردو ہندی زبان وادب کی ترویج وترقی، نئے پرانے شعراء وادباء کو پلیٹ فارم مہیا کرانا وغیرہ ہیں، فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام صوبہ بہار کے دارالسلطنت شہر پٹنہ کے پھلواری شریف میں ضیائے حق فاؤنڈیشن کا برانچ اور ایک مدرسہ کاقیام ،، مدرسہ ضیاء العلوم،،عمل میں آیا ہے، جہاں کثیر تعداد میں طلبہ وطالبات دینی علوم کے ساتھ ساتھ ابتدائی عصری علوم حاصل کر رہے ہیں ۔

ہفتہ, فروری 25, 2023

ہندو مسلم کسان نے کیا ایک بڑا کام*✍️ ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ

*ہندو مسلم کسان نے کیا ایک بڑا کام*
اردودنیانیوز۷۲ 
✍️ ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ 

 بہار کے ضلع ارریہ میں "گرگدی" نام کا ایک گاؤں ہے، ضلع ہیڈ کوارٹرسے یہ محض گیارہ کلو میٹر فاصلے پرواقع ہے، یہاں کی کل آبادی ۳۵۰۰/سونفوس پر مشتمل ہے،اس بستی میں ۹۰۰/سو برادران وطن بھی بستےہیں، بقیہ سبھی مسلمان ہیں۔

ابھی چند دنوں قبل گاؤں والوں نے ملکر اصلاح معاشرہ کے عنوان پر ایک جلسہ کیا ہےجوآج ہمارا موضوع سخن ہے،خطاب کرنے والے علماء کرام اور شریک ہونے والے سامعین حضرات نے بھی اس پروگرام کوایک تاریخ ساز ویادگار اجلاس قرار دیا ہے۔

خاص بات یہ رہی کہ اسٹیج سےناظم اجلاس جناب مفتی راغب صاحب قاسمی نے کچھ لوگوں کے نام لیکر اظہار تشکر کیا ہےانمیں بطور خاص جناب منصور عالم صاحب، الحاج منظور عالم، الحاج مسرت کریم،ماسٹر وثیق الرحمن، محمد اشتیاق، فخرالدین وغیرہ تووہیں غیر مسلم بھائیوں کی بھی ایک فہرست پیش کی ہے،انمیں جناب دیوپرکاش منڈل جی،سنتوش بھگت،ڈاکٹر رامانند نرالا، لکھی چند شرما،سبودھ منڈل،لال چند رشی دیو،پریم لال منڈل کے نام مجمع عام میں بحیثیت منتظمین اجلاس کےپیش کیا ہے،ساتھ ہی بھاری بھرکھم الفاظ میں ان تمام حضرات کا شکریہ بھی ادا کیا ہے۔

ایک رضاکار جناب بھائی اشتیاق سے اس کی وجہ جاننے کی کوشش کی کہ برادران وطن کی ایک بڑی تعداد آپ لوگوں کے ساتھ اس جلسہ میں شریک ہے،ایسا پہلی بار دیکھنے میں آیا ہےکہ خالص اصلاح کے موضوع پرجلسہ ہو، اسمیں برادران وطن کی بڑی تعداد شریک  ہو،اس کی وجہ کیا ہے؟ موصوف نے وجہ بتائی کہ؛ مولوی صاحب! ہم کسان آدمی ہیں، تعلیم کی ہمارے یہاں بڑی کمی ہے،گاؤں کی تعلیمی حالت کا اندازہ آپ کو اس بات سے بخوبی ہوسکتا ہے کہ صرف چار آدمی گرگدی گاؤں کےسروس میں ہیں، بقیہ ہم سبھی کاشتکاری کرتے ہیں،ابھی کچھ سالوں سے ہمارے نوجوان طبقہ میں  بڑی بے راہ روی آگئی ہے،نشہ کی بیماری  عام ہوگئی ہے، یہ چیز سیلاب کی طرح ہر مکان میں داخل ہورہی ہے۔ہم سماج سے اس بیماری کا خاتمہ چاہتے ہیں، آئندہ نسل کو بچانا چاہتے ہیں،آج یہ جلسہ بھی اسی مقصد سے منعقد ہوا ہے، ہم آپس میں ملکر اس کے خلاف متحد نہیں ہوئے تو پھر سماج سے نشہ کا خاتمہ نہیں کرسکیں گے، غیر مسلم بھائی ہمارے درمیان ہی رہتے ہیں، اسی سماج کا حصہ ہیں، ہم ان کو لیکر نہیں چلیں گے تو پھر مکمل کامیاب نہیں ہوسکیں گے، ہم نے ان کو کہا تو خوشی خوشی ہمارے ساتھ آئے ہیں، بلکہ ہم سے زیادہ محنت انہیں لوگوں نے کی ہے،اوراب بھی ہمارے شانہ بشانہ کھڑےہیں ،یہ توآپ بھی دیکھ  ہی رہے ہیں۔

واقعی گرگدی گاؤں کے لوگوں نے نشہ کے سد باب کے لئے ایک نیا طریقہ تعلیم کیا ہے،ایک کسان اپنی فصل کی حفاظت کے لئے کھیت کے چاروں طرف باڑ اور رکاوٹ کھڑی کردیتا ہے تاکہ اسمیں کوئی جانور گھسنے نہ پائے اور کھیتی کو خراب نہ کردے،اسی طرح اپنی نسل کی حفاظت کے لئے پورے گاوں کو جمع کرکے گویا اس کی حصار بندی کردی ہے،واقعی یہ مثالی کام ہے، ابتک دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ کچھ لوگ کسی برائی کے خلاف متحد ہوتے ہیں، وہ صرف ایک ہی مذہب کے ہوتے ہیں، پورےسماج کے لوگوں کا ساتھ نہیں لیتے ہیں، نشہ کے جراثیم اسی راستے سے در آتے ہیں،روک تھام بیکار چلی جاتی ہےاورکامیابی صد فیصد نہیں مل پاتی ہے۔


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب کے سلسلہ میں دس آدمیوں پر لعنت فرمائی یے، شراب بنانے والے پر، بنوانے والے پر،پینے والے پر، اٹھانے والے پر، جس کے لئے اٹھائی گئی ہے اس پر، پلانے والے پر،بیچنے والے پر، قیمت کھانے والے پر، خریدنے والے پر، جس کے لئے خریدی گئی اس پر،(جامع ترمذی )

مذکورہ بالا حدیث میں گویا ان دس لوگوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ شراب کی روک تھام میں اپنا کردار ادا کریں، نہیں تو یہ سبھی لعنت کے سزاوار اور اس کے فروغ کے ذمہ دار ہیں۔

گویا نشہ کےخاتمے کےلئےپورے سماج کا متحد ہونا ضروری ہے۔اس پر گرگدی گاؤں کے مسلمان بھائئ واقعی قابل تعریف ہیں، بہت پڑے لکھے نہیں ہیں باوجود اس کے انہوں نے ہندو مسلم سب کو یہ سمجھا دیا ہے کہ ہمارے تمہارے غم برابر ہیں، موجودہ وقت میں  یہ عمل لائق ستائش ہے اور قابل تقلید بھی ہے،بلکہ ملک سے نفرت کے خاتمے کے لئے بھی ہمیں اس سے بڑی مدد مل سکتی ہے۔
             
ہمارے غم   تمہارے غم  برابر   ہیں 
سواس نسبت سےتم اورہم برابر ہیں

بی بی سی کے دفاتر پر چھاپے __مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

بی بی سی کے دفاتر پر چھاپے __
urduduniyanews72
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
14 فروری کو محکمہ انکم ٹیکس نے بی بی سی کے دہلی اور ممبئی کے دفاتر پرایک ساتھ چھاپا مارااور یہ کارروائی تین دنوں تک جاری رہی، محکمہ نے اسے سروے کا نام دیا ہے، خدا معلوم یہ کیسا سروے ہے جو چھاپے کی شکل میں ہو رہا ہے،بی بی سی کے ملازمین کے فون، لیپ ٹاپ اور دوسری اشیاء جمع کرالیے گئے ہیں، اس اہم واقعہ پر امریکہ اور خود برطانیہ نے کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے، البتہ بی بی سی نے اپنے ملازمین کو جانچ میں تعاون کرنے کو کہا ہے اور جو لوگ جانچ کے دائرے میں نہیں ہیں ان کو گھر سے کام کرنے کا حکم دیا گیا گیا ہے۔
بی بی سی پر یہ کارروائی ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے، جب گجرات فساد پر اس کی دستاویزی فلم کو دکھانے پر مرکزی حکومت نے پابندی لگا رکھی ہے، پابندی کے بعد بھی بعض تعلیمی اداروں میں اسے دکھانے کی کوشش کی گئی اور نوجوانوں نے اسے دیکھنے پر زور دیا، تو حکومت نے طاقت کے بل پر انہیں روکا، اس کارروائی کو عام لوگ حکومت کی جانب سے انتقامی کارروائی قرار دیتے ہیں اور عام لوگوں کے نزدیک یہ میڈیا کے ساتھ حکو مت کا غیر جمہوری اور آمرانہ سلوک ہے، اظہار رائے کی آزادی کے نام پر مسلمانوں کی دل آزاری کرنے والا گروہ گجرات فساد پر بی بی سی کی دستاویزی فلم کو برداشت نہیں کر پا رہا ہے، اپنے پر پڑتی ہے تو اظہار رائے کی آزادی کا مفہوم بدل جاتا ہے، محکمہ انکم ٹیکس کے نزدیک یہ سروے بین الاقوامی ٹیکس چوری سے متعلق ہے، یہ جانچ اسی سلسلہ میں کی جارہی ہے۔
ہندوستان میں بی بی سی پر اندرا گاندھی کے دور حکومت میں پابندی لگی تھی؛ لیکن اس پر چھاپہ ماری کا عمل اس بار کی طرح نہیں ہوا تھا، اس واقعہ پر حکومت اور حزب مخالف آمنے سامنے ہے، حکومت اس چھاپے کو حق بجانب قرار دینے کے لیے اپنی ساری طاقت صرف کر رہی ہے اور گودی میڈیا حسب سابق حکومت کے اس موقف کے ساتھ ہے، جب کہ حزب مخالف اسے جمہوری اقدار کے خلاف میڈیا کی آزادی پر حملہ قرار دے رہا ہے۔
اس چھاپے سے اتنی بات تو صاف ہوگئی ہے کہ جس طرح مرکزی حکومت اپنے مخالف سیاست داں اور بیوروکریٹ کو آئی بی، سی آئی ڈی،سی بی آئی کے ذریعہ ہراساں کرتی رہتی ہے اسی طرح اب وہ غیر ملکی ایجنسیوں کو بھی ہراساں کر رہی ہے، تاکہ وہ حکومت اور وزیر اعظم کے خلاف اپنی تحقیقات پیش کرنے سے گریز کریں،اور حقائق لوگوں کے سامنے نہ آسکیں۔ یہ کارروائی اگر حق بجانب ہوتو بھی جس وقت میں یہ چھاپہ ماری ہوئی ہے، اس کا پیغام عام لوگوں تک یہی گیا ہے۔

جمعہ, فروری 24, 2023

کوڑے دان میں دم توڑتے بچے ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

کوڑے دان میں دم توڑتے بچے ___
Urduduniyanews72
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
بغیر شادی کے بچوں کی پیدائش میں ہندوستان جیسے ملک میں اضافہ ہو رہا ہے، ”لیو ان رلیشن شپ“کے قانونی جواز کی وجہ سے بھی یہ تعداد بڑھ رہی ہے، ناجائز حمل ہمارے سماج میں اس گئے گزرے دور میں بھی لائق ملامت ہے، اس لیے ایسے بچوں کو اپنی حرام کاری کو چھپانے کے لیے پیدا ہو تے ہی جنگل جھاڑی یا کوڑے دان میں پھینک دیا جاتا ہے، قسمت نے یاوری کی تو بچہ کسی انسان کے ہاتھ لگ کر زندہ رہتا ہے، ورنہ جانور اسے اپنی خوراک بنا لیتے ہیں اور بچہ کی زندگی کا چراغ گل ہو جاتا ہے، پھینکے جانے والے بچوں میں ایک بڑی تعداد ان چاہے بچوں اور بچیوں کی بھی ہوتی ہے، مسلسل  بچیوں کی پیدائش سے تنگ آکر پھینکے جانے والی بچیوں کی تعداد بھی کم نہیں ہے، نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کی رپورٹ کے مطابق مہاراشٹر میں کوڑے دان میں ملے بچوں کی تعداد 240212، مدھیہ پردیش میں 224277، گجرات میں 149146، اتر پردیش میں 127163، کرناٹک میں 113171 ہے، ان میں ستر فیصد معصوم بچیاں ہیں، جن میں ایک بڑی تعداد ان بچیوں کی ہے جن کو ان کے والدین نے ہی کوڑے خانے کی نذرکر دیا۔
ہندوستان کی تمام ریاستوں میں کم و بیش اس قسم کی صورتحال پائی جاتی ہے، اس سے یہ بھی معلوم ہو تا ہے کہ ماؤں میں بھی پہلے سی ممتانہیں رہی، پہلے بچوں کو ماؤں کے آنچل کا سایہ ملتا تھا، اب مائیں جینز پینٹ اور اسکرٹ میں آگئی ہیں دوپٹہ سروں سے غائب ہونے کی وجہ سے یہ سایہ بھی بچوں سے چھنتا جا رہاہے۔
جس بے دردی سے ان بچوں کو جنگل اور کوڑے دان میں پھینکا جا تا ہے، اس کی وجہ سے ننانوے فیصد بچوں کو چاہ کر بھی بچانا ممکن نہیں ہو تا؛ کیوں کہ وہ کھلے میں پڑے ہونے کی وجہ سے مختلف قسم کے انفیکشن اور جراثیم کا شکار ہو جاتے ہیں، ایسے بچوں کی تعداد ہندوستان میں تین کروڑ سے زیادہ بتائی جاتی ہے،یورپ اور مغربی ممالک میں یہ تناسب ہندوستان سے کہیں زیادہ ہے اور قدیم بھی، اس لیے وہاں اٹھارہویں صدی عیسوی سے ہی پھینکے گئے بچوں کو بچانے کی مہم شروع کی گئی اور اسے بے بی ہیچز(  hatches Baby) کا نام دیا گیاتھا، یہ ایک پالنا ہوتاہے جس کا ایک سرا ہاسپیٹل سے مربوط ہوتا ہے، جیسے ہی کوئی بچہ اس پر رکھا گیا، الارم کی گھنٹی ہاسپیٹل میں بجتی ہے  اور ڈاکٹروں کی ٹیم اس کو بچانے کے لیے سر گرم عمل ہو جاتی ہے، 1991ء میں اس کی شروعات تمل ناڈو میں جے للیتا نے کی تھی اور اب اسے کریڈل بے بی اسکیم (Cradle Baby Scheme)کے تحت کیا جا رہا ہے،یہ تجربہ وہاں انتہائی کامیاب رہا اور گذشتہ پچیس سالوں کے اعداد و شمار کو دیکھیں تو اس مہم کے تحت پانچ ہزار بچوں کو بچانا ممکن ہو سکا۔ مرکزی حکومت کی جانب سے اس کام کے لیے وزارت برائے وومن اینڈ چائلڈ ڈیولپمنٹ کے تحت ہر ضلع میں کریڈل بے بی رسیپشن سنٹر(Cradle Baby Reception Centre) موجود ہے اور سرکاری و غیر سرکاری اڈاپشن ایجنسیز( Adoption agencies)کے ذریعہ ایسے بچوں کے تحفظ کا نظم کیا جاتا ہے۔اگرکسی بچے کو کسی نے گود نہیں لیا  توایسے بچوں کی فوسٹر ہوم( Foster Home) چھ سال کی عمر تک پرورش و پرداخت کرتا ہے اور اس کے بعد انہیں بچوں کے گھر میں بھیج دیا جاتا ہے، جہاں وہ اٹھارہ سال تک سرکاری صرفہ پر زندگی گزارتے ہیں، وہاں ان کی پیشہ ورانہ تربیت کی جاتی ہے اور اٹھارہ سال کے بعد وہ اپنا معاش خود حاصل کرنے پر قادر ہو جاتے ہیں۔
معاشی کساد بازاری اور ذمہ داریوں سے پہلو تہی کے عمومی مزاج کی وجہ سے ہندوستان میں بچوں کو گود لینے کا رجحان کم ہو تا جا رہا ہے،سنٹرل اڈاپشن ریسورس اتھارٹی (CARA)کے مطابق 2021-22 میں 2991 بچوں کو ہی گود لیا جا سکا، جن میں 1293 لڑکے اور 1698 لڑکیاں تھیں،414 بچوں کو گود لینے والے غیر ملکی تھے، یہ صورت حال اس وقت ہے جب ہندوستان میں کم و بیش پندرہ فیصد شادی شدہ جوڑے لاولد ہیں، جن کی تعداد ایک اندازہ کے مطابق تیس ملین ہے۔
مسلمانوں کے درمیان اس قسم کے واقعات نسبتاً کم ہیں، کیوں کہ اسلام کے نزدیک نو مولود کو کوڑے دان اور جنگلوں میں پھینکنا گناہ عظیم ہے، اورایسے بے سہارا بچوں کی کفالت اور پرورش و پرداخت ثواب کا کام ہے۔ اڈیشہ کے بسرا سندر گڑھ میں دشا نام سے ایک ایسا ادارہ آزاد بھائی نے قائم کیا ہے، جس میں پھینکے ہوئے نو مولود بچوں کی پرورش و پرداخت اور پھر ان کی تعلیم و تربیت کا نظم کیا جاتا ہے، ان نومولود بچوں کی خدمت کے لیے عورتوں کو ملازمت پر رکھا گیاہے،جو ان کی ضرورتوں کا دھیان رکھتی ہیں، وقت پر انہیں دودھ پلاتی ہیں اور ماؤں کی طرح ان کی غلاظتیں صاف کرتی ہیں، پڑھ لکھ کر جب یہ بچے، بچیاں شادی کے لائق ہوجاتی ہیں تو ان کی شادیاں کر دی جاتی ہیں، اس ادارہ کاتذکرہ اس لیے کیا گیا کہ یہ معلوم ہو جائے کہ یہ بھی ایک کرنے کا کام ہے، اس کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ ہم بہت سارے بچوں کو ایمان کی دولت سے مالامال کر سکیں گے، ان کی پرورش و پرداخت اسلامی انداز میں کر کے انہیں اچھا مسلمان اور بہتر شہری بنا سکیں گے، یہ مسئلہ کا حل بھی ہے اور ثواب کا ثواب بھی،

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...