Powered By Blogger

جمعرات, مارچ 02, 2023

حکمت عملی ____مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

حکمت عملی  ____
Urduduniyanews72
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب  ناظم  امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
ایمانی واسلامی زندگی مسلمانوں کے لیے مطلوب ومقصود، شریعت کے احکام ومسائل منصوص اور زندگی کے تمام شعبوں کے لیے تفصیلی ہدایات اور طریقۂ کار قرآن واحادیث میں مذکور ہیں، ہماری زندگی اسی کے مطابق گذرنی چاہیے، ان معاملات میں مذاہب یا حکومت کی دخل اندازی کسی بھی درجہ میں مسلمانوں کے لیے نا قابل برداشت ہے اور پوری استطاعت کے ساتھ اس دخل اندازی کو روکنے کے لیے ہر سطح پر تیاری ہماری مذہبی ذمہ داری ہے۔
یہ دخل اندازی کس طرح روکی جا سکتی ہے، اس کا تعلق بڑی حد تک حکمت عملی سے ہے اور حکمت عملی زمان ومکان کے فرق سے الگ الگ ہو سکتی ہے اور اس میں کوئی مضائقہ بھی نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف غزوات بدر، احد، خندق، حنین وغیرہ میں باطل طاقتوں سے مقابلے کے لیے الگ الگ  حکمت عملی اختیار کی، کبھی شہر سے باہرجا کر مقابلہ کیا گیا اور کبھی شہر کے قریب خندق کھود کر دفاعی قوت مضبوط   کی گئی، بعض کے معاملہ میں فدیہ لے کر رہائی کا فیصلہ کیا گیا اور بعض کو تعلیم وتدریس کی خدمت لے کر چھوڑا گیا، اسی طرح اسلام دشمن طاقتوں سے سمجھوتے میں بھی ساری کفریہ طاقت کو مذہب اسلام سے دور ہونے کی وجہ سے ملت واحدۃ نہیں قرار دیا گیا، حالاں کہ حقیقتا الکفر ملۃ واحدۃ ہی کہا گیا ہے، لیکن آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے حکمت عملی یہ اختیار کی کہ ہر قبیلے سے الگ الگ معاہدہ کیا؛ تاکہ ان کو اپنی اکثریت اور کفر کے  ملۃ واحدۃ ہونے کی وجہ سے بر تری کا احساس نہ ہو، اسی طرح خلیفہ کے انتخاب کے معاملہ کو دیکھیں، ہلکے قسم کے اشارہ کے علاوہ حضرت ابو بکر صدیق ؓ کی خلافت کا اعلان خود آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان مبارک سے نہیں کیا، جب کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر ؓ کے نام کا اعلان فرمادیا، حضرت عمر ؓ کا معاملہ اس سے مختلف رہا، انہوں نے چند افراد پر مشتمل ایک کمیٹی بنادی کہ وہ خلیفہ کا انتخاب کرلے، یہ تاریخی واقعات ہمیں بتاتے ہیں کہ احکام منصوص ہیں، عبادت، معاملات وغیرہ کا طریقہ متعین ہے، لیکن حکمت عملی کے اختیار کرنے میں جو شر عی طور پر کسی احکام سے متصادم اور کسی منکراور گناہ میں پڑنے کا سبب نہ بنے یک گونہ حالات وزمانہ کی رعایت کا اس میں دخل ہے۔
 اس وقت پورے ملک کے جو حالات ہیں اور مسلمانوں پر کشادگی کے باوجود زمین کے تنگ کرنے اور زندگی دشوار کرنے کی جو مہم چل رہی ہے، جس طرح بے گناہوں کا خون، گائے کے تحفظ، لو جہاد، ہجومی تشدد کے نام پر بہایا جا رہا ہے اور حکومت نے جس طرح عدالت اور پارلیامنٹ کا سہارا لے کر شرعی احکام میں مداخلت کی ٹھان رکھی ہے نیز اسلامی ایمانی زندگی گذارنے سے قانون اور عدالت کے ذریعہ جبراً روکا جا رہا ہے، دستور میں دیئے گیے اقلیتوں کے حقوق و مراعات کی جس طرح اَن دیکھی کی جا رہی ہے اور جس طرح دستور کی آ برو سے کھیلا جا رہا ہے، اس کا تقاضہ یہ ہے کہ مضبوط اور منظم حکمت عملی کے ساتھ اسے روکنے کی کوشش کی جائے او رسرکار کو بتادیا جائے کہ مسلمان اس ملک سے محبت کرتے ہیں، اس ملک کی سا  لمیت بقاء اوریہاں کی جمہوری اور دستوری قدروں کے تحفظ کے لیے قربانیاں دیتے رہے ہیں، اور آج بھی ملک کے دستور اور جمہوری قدروں کی حفاظت کے لیے آگے ا ٓنے کوتیارہیں اور یہ سب کچھ ہم ہندوستانی دستور وقوانین پر عمل کرتے ہوئے کر سکتے ہیں، ہم قانون کی خلاف ورزی او رفرقہ پرستوں کی طرح لا قانونیت برپا کرکے کچھ نہیں کرنا چاہتے۔

بدھ, مارچ 01, 2023

ضیائے حق فاؤنڈیشن پٹنہ کی جانب سے مولانا محمد عظیم الدین رحمانی کے اعزاز میں تقریب کا انعقاد

ضیائے حق فاؤنڈیشن پٹنہ کی جانب سے مولانا محمد عظیم الدین رحمانی کے اعزاز میں تقریب کا انعقاد
Urduduniyanews72
پھلواری شریف پٹنہ مورخہ 1/مارچ 2023 (پریس ریلیز :ڈاکٹر صالحہ صدیقی)
مولانا محمد عظیم الدین رحمانی مدرس مدرسہ اسلامیہ سمن پورہ پٹنہ ایک معروف ومشہور ومقبول عالم دین ہیں، جو تقریباً 38/سالوں سے جامع مسجد خواجہ پورہ پٹنہ میں امامت کے فریضے کو انجام دے رہے ہیں، اور 40/سال طویل مدت سے مدرسہ اسلامیہ سمن پورہ پٹنہ میں تدریسی فریضہ انجام دینے کے بعد مورخہ 28/فروری 2023 کو سبکدوش ہوئے ،اس موقع پر ضیائے حق فاؤنڈیشن کی جانب سے ایک تقریب کا اہتمام ضیائے حق فاؤنڈیشن پبلک لائبریری میں مولانا محمد عظیم الدین رحمانی کے زیر صدارت عمل میں آیا، جس میں مولانا کو ان کی خدمات کے اعتراف میں ضیائے حق کی جانب سے اعزاز سے نوازا گیا ۔  مولانا موصوف کی شخصیت ہر عام خاص کے لئے ایک اہمیت کا حامل ہے ، مولانا موصوف کا آبائی وطن جوگبنی ارریہ بہار ہے، آپ بہار کے مشہور ومعروف ادارہ جامعہ رحمانی خانقاہ مونگیر سے فارغ عالم دین ہیں، آپ کی تقرری بہار مدرسہ بورڈ پٹنہ کے تحت مدرسہ اسلامیہ سمن پورہ میں بحیثیت معلم یکم اکتوبر 1983 میں ہوئی تھی، اس کے بعد  آپ  مستقل شہر عظیم آباد میں سکونت اختیار کرتے ہوئے اپنی خدمات انجام دی، آپ کو عوام میں بہت مقبولیت حاصل ہے ۔آپ کے سبکدوشی کی خبر ملتے ہی ضیائے حق فاؤنڈیشن کی چئیر پرسن واسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو سمستی پور کالج ڈاکٹر صالحہ صدیقی ضیائے حق فاؤنڈیشن پبلک لائبریری تشریف لاکر ان کے اعزاز میں ایک خوبصورت تقریب کا انعقاد کیا۔
جس میں مدرسہ کے طلبہ سمیت کئ اہم شخصیات موجود رہے ۔
اس موقع پر ڈاکٹر صالحہ اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہیں کہ مولانا محترم ہمارے لئے ایک والد کی حیثیت رکھتے ہیں، انہوں نے جو محبتیں، شفقتیں مجھے دی ہیں میں تاعمر قرض مند رہوں گی، مولانا موصوف زہد و تقوی کے پیکر ہیں، اور یہ سید مولانا محمد منت اللہ رحمانی سید مولانا محمد ولی رحمانی رحمۃاللہ علیہما کے شاگردوں میں سے ہیں،یقیناً یہ بڑی سعادت کی بات ہے کہ آپ نے اپنی ملازمت کے سفر کو ایک ذمہ داری سے ادا کی، ملازمین کے لئے دور ملازمت میں بہت سے نشیب فراز آتے ہیں، بہت سی باتیں برداشت کرتے ہوئے نظر انداز کرنی پڑتی ہے،میں اپنی جانب اور فاؤنڈیشن کی جانب سے انہیں مبارکباد پیش کرتی ہوں، موصوف محترم ضیائے حق فاؤنڈیشن کے  رکن ہیں، ہمیشہ فاؤنڈیشن کی راہنمائی کرتے رہتے ہیں ،مجھے جیسے ہی خبر ملی کہ آج آپ سبکدوش ہو رہے ہیں میری بیچینی اور تڑپ بڑھ گئی، اگر میں آپ سے ملنے پٹنہ نہ آتی تو شاید میں مزید پریشان ہوتی ۔یقیناً محبت پر کسی کا زور نہیں ہے، محبت پر ہی ہمارا وجود ہے ،ہم سب کو اللہ رب العزت نے آداب محبت سکھا کر اس دنیا میں مبعوث فرمایا ہے ۔ مجھے یہاں آکر جو محبتیں جو شفقتیں ملی ہیں وہ میں کبھی نہیں بھول سکتی ہوں، 
محمد ضیاء العظیم قاسمی نے بھی تاثرات سے نوازتے ہوئے کہا کہ مولانا موصوف کی شخصیت اور خدمات ہم سب کے لئے لائحۂ عمل ہے، ہمیں چاہیے کہ نیکوں کے اوصاف اپنے اندر پیدا کریں،
واجد علی عرفانی نے تاثرات پیش کرتے ہوئے کہا کہ یقیناً آپ کی زندگی ہم سب کے لئے دعوت فکر وعمل ہے، آپ نے کبھی اپنے اصول وضوابط کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں کیا، آپ کی زندگی ایک کھلی کتاب کے مانند ہے، مدرسہ بورڈ میں رہ کر شفافیت سے کام کرنا یقیناً بڑا مجاہدہ ہے، موصوف محترم نے ہم سب کو بڑا پیغام دیا۔
آخر میں مولانا محمد عظیم الدین رحمانی نے سبھوں کا شکریہ ادا کیا ۔
اس پروگرام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں جن لوگوں نے اپنا تعاون دیا ان کی فہرست اس طرح ہے سجاد ،یوسف، مہدی علی، افضل، اعجاز، عفان، حماد، عفیفہ، فاطمہ خان، عبدالواجد وغیرہ ہیں ۔
 واضح رہے کہ ضیائے حق فاؤنڈیشن کی بنیاد انسانی فلاح وترقی، سماجی خدمات، غرباء وفقراء اور ضرورتمندوں کی امداد، طبی سہولیات کی فراہمی، تعلیمی اداروں کا قیام، اردو ہندی زبان وادب کی ترویج وترقی، نئے پرانے شعراء وادباء کو پلیٹ فارم مہیا کرانا وغیرہ ہیں، فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام صوبہ بہار کے دارالسلطنت شہر پٹنہ کے پھلواری شریف  میں ضیائے حق فاؤنڈیشن کا برانچ اور ایک مدرسہ کاقیام ،، مدرسہ ضیاء العلوم،،عمل میں آیا ہے، جہاں کثیر تعداد میں طلبہ وطالبات دینی علوم کے ساتھ ساتھ ابتدائی عصری علوم حاصل کر رہے ہیں ۔

منگل, فروری 28, 2023

بِکتا انسان ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

بِکتا انسان ___
urduduniyanews72
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
اللہ رب العزت نے انسان وجنات کو اپنی بندگی کے لیے پیدا کیا اور واضح طور پر قرآن کریم میں تخلیق انسانی کے اس مقصدکو بیان بھی کر دیا، آقاصلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ارشاد فرمایا کہ پوری دنیا تمہارے لیے پیدا کی گئی ہے، اور تم آخرت کے لیے پیدا کیے گیے ہو، مطلب یہ ہے کہ تم اپنی بندگی، حسن کارکردگی سے اپنی آخرت بنا سکو، او ردنیا جسے آخرت کی کھیتی سے تعبیر کیا گیا ہے، اس کھیتی میں اعمال حسنہ کی ایسی فصل اُگاؤ کہ جنت کے حسین مکانوں کے مکین بننے کی اہلیت وصلاحیت تم میں پیدا ہوجائے۔
 کچھ دنوں تک یہ دنیا اسی رخ پر چلتی رہی، پھر ہمارے ذہن ودماغ اعمال وکردار پر مادیت کا غلبہ ہو گیا، نفع نقصان کا معیار اخلاق وکردار کے بجائے جائز ونا جائز طور پر مال ودولت کا حصول بن گیا، چنانچہ بیش تر لوگوں کے نزدیک یہ دنیا آخرت کی کھیتی کے بجائے ایک بازار بن گئی، ایسا بازار جس میں سب کچھ بکتا ہے، یہاں احساسات وخیالات مشاہدات وتجربات، جذبات وکمالات سب بک رہے ہیں، حقوق بک جاتے ہیں، پڑوس بک جاتا ہے، پوزیشن بک جاتی ہے، ماں کا رحم اور انسان کا جسم بک جاتا ہے، تلک جہیز کی رسم، کرائے کی کوکھ، طوائفوں کے کوٹھے اور چکلے یہ سب منڈیاں ہی تو ہیں، اور اب دنیا اس قدر گر چُکی ہے کہ اسے انسانوں کی خرید وفروخت میں بھی کوئی عار اور شرم نہیں ہے۔
 آسٹریا کے دار الحکومت ویانا میں اقوام متحدہ کا ایک ذیلی دفتر ہے، جس کا کام منشیات اور جرائم کی روک تھام کے لیے کوشش کرنا ہے، اس کا مختصر نام UNODCہے، اس نے انسانی تجارت کے کئی سالوں کے اعداد وشمار جاری کیے ہیں، اس کے مطابق 2016ء میں 25/ ہزار افراد انسانوں کی تجارت کرنے والے گروہ کے ہتھے چڑھ گیے اور ان کی خرید وفروخت مکمل ہو گئی، دنیا کے ایسے پینتالیس ممالک جو اس قسم کے اعداد وشمار جاری کرتے ہیں، ان کے تجزیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانی تجارت کے اس کام میں 2011ء سے 2016ء تک 39فی صد کا اضافہ ہوا، جرمنی میں جرائم کی تحقیقات کرنے والے ادارہ بی کے اے (BKA)کے سروے کے مطابق صرف جرمنی میں 2017ء میں 671 /افراد کی انسانی تجارت کی گئی جو 2015ء کے مقابلے 25/فی صد زیادہ تھی۔
 انسانوں کی اس تجارت میں مال ومتاع کے طور پر فروخت کی جانے والی 60/ فی صد خواتین یا بچیاں ہوتی ہیں، جن کا اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق جنسی استحصال کیا جاتا ہے، ان سے جسم فروشی کرائی جاتی ہے، بقیہ چالیس فیصد نا بالغ لڑکے، مہاجرین اور تارکین وطن یا غربت وافلاس کے مارے لوگ ہوتے ہیں، جن کو مختلف کاموں میں استعمال کیا جا تاہے۔ چھوٹے بچے کو جنسی تلذذ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، بڑے لوگوں کے اعضاء فروخت کردیے جاتے ہیں، ان سے غلاموں کے انداز میں کام لیا جاتا ہے، جبری مشقت پر مجبور کیا جاتا ہے اور ایک بڑی تعداد کو ہاتھ پاؤں سے مفلوج بنا کر گدا گری کے پیشے سے لگا دیا جاتا ہے،اور بِکنے والے انسان کی پوری زندگی عذاب بن جاتی ہے اب وہ چاہ کر بھی راہ فرار اختیار نہیں کر سکتا۔
 اسلام کے نزدیک اس قسم کی تجارت کی قطعا گنجائش نہیں ہے؛ کیوں کہ اسلام کی نظر میں انسان معظم ومکرم ہے، اللہ رب العزت نے اسے دوسرے تمام مخلوقات پر فضیلت دی ہے، وہ خلقی اعتبار سے بھی حسین صورت، معتدل جسم ومزاج اور متوازن قد وقامت کی وجہ سے دوسری تمام مخلوقات پر فضیلت رکھتا ہے، عقل وشعور، نطق وگویائی اس پر مستزاد ہے، اس کی غذا بھی دوسروں سے الگ مرکبات سے تیار ہوتی ہے، جب کہ دوسری مخلوقات کو اللہ تعالیٰ نے یہ صلاحیت نہیں دی ہے، وہ بے زبان ہے، اور اپنی غذا خود تیار کرنے پر قدرت نہیں رکھتا، شہوات وخواہشات تمام حیوانات میں ہیں، لیکن عقل وشعور کے ذریعہ اسے قابو میں رکھنا صرف انسان ہی کے بس کا ہے، اس لیے وہ سامان تجارت نہیں بن سکتا؛ بلکہ اس کے کسی جز، خون، چمڑا، بال، ہڈی، گوشت کی تجارت نہیں کی جا سکتی، چہ جائے کہ پورے انسان کی تجارت کی جائے، یہ حکم زندہ، مردہ سب کے لیے ہے، وہ جس طرح زندگی میں قابل اکرام واحترام ہے اسی طرح مرنے کے بعد بھی محترم ہے، اسی لیے اس کے ساتھ کوئی ایسا کام نہیں کیاجا سکتا جو زندوں کے ساتھ ہم نہیں کر سکتے یہی وجہ ہے کہ اس تجارت کو روکنا بہت ضروری ہے، تاکہ انسانی اکرام واحترام کو باقی رکھا جا سکے۔

مولانا محمد عظیم الدین رحمانی کے مدرسہ اسلامیہ سمن پورہ پٹنہ سے سبکدوشی پر تقریب کا انعقاد

مولانا محمد عظیم الدین رحمانی کے مدرسہ اسلامیہ سمن پورہ پٹنہ سے سبکدوشی پر تقریب کا انعقاد
Urduduniyanews72
سمن پورہ پٹنہ مورخہ 28/فروری 2023 (پریس ریلیز:محمد ضیاء العظیم ) مدرسہ اسلامیہ سمن پورہ کے سینئر استاذ وامام وخطیب جامع مسجد خواجہ پورہ پٹنہ مولانا محمد عظیم الدین رحمانی تقریباً 40/سالہ طویل مدت تک خدمات انجام دینے کے بعد آج سبکدوش ہوئے۔
واضح رہے کہ یکم اکتوبر 1983 میں مدرسہ اسلامیہ سمن پورہ پٹنہ میں آپ کی تقرری ہوئی تھی اور 28/فروری 2023 میں آپ سبکدوش ہوئے ۔
اس موقع پر مدرسہ اسلامیہ میں ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا، جس کی صدارت سابق استاذ مدرسہ اسلامیہ ماسٹر جمال صاحب نے کی، نظامت کا فریضہ مولانا مشتاق عالم سلفی سابق صدر مدرس مدرسہ اسلامیہ نے انجام دی،
تقریب کا آغاز مولانا محمد ضیاء العظیم قاسمی نے قرآن مجید کی تلاوت سے کی، نعت شریف حافظ شارق خان صاحب نے پیش کیا۔ اس کے بعد مدرسہ کے دیگر اساتذہ وکارکنان نے اپنے تاثرات سے نوازا، مولانا مشتاق عالم سلفی نے مدرسہ کی تاریخ بتاتے ہوئے کہا کہ مدرسہ اسلامیہ سمن پورہ کی تاریخ ایک عظیم تاریخ ہے، یہاں سے علم وادب کا چشمہ پھوٹتا ہے، اس ادارہ کی بنیاد اخلاص پر ہے یہی وجہ رہی کہ یہاں سے طلبہ وطالبات نکل کر ملک بھر میں خدمات انجام دے رہے ہیں، میری اور مولانا محمد عظیم الدین رحمانی صاحب کی تقرری ایک ساتھ ہوئی تھی، مولانا محترم نے دوران ملازمت بہت خلوص وللہیت کے ساتھ اپنی تدریسی فریضہ کو انجام دیا،سماجی کارکن ممبر مدرسہ اسلامیہ وصی احمد خان  نے اپنے تاثرات سے نوازتے ہوئے کہا کہ مدرسہ اسلامیہ کو مولانا محترم نے بہت کچھ دیا، یہاں تعلیمی معیار بہت عروج پر پہنچی، مولانا موصوف نے ہمیشہ تعلیم وتربیت پر دیگر چیز کو ترجیح نہیں دی ، تعلیمی ترقی کے لئے ہر محاذ پر آپ نے بھر پور تعاون پیش کیا ۔مدرسہ اسلامیہ کے صدر نیاز خان نے بڑے رنج وغم اور دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ صدیوں میں ایسی شخصیت جنم لیتی ہے، مولانا نے مدرسہ کے تئیں جو جذبہ، محبت، ایثار پیش کی ہے اس کی نذیر نہیں ہے،ہم سب اہل مدرسہ انہیں ہدیہ تبریک پیش کرتے ہیں، ان کے حق میں دعا گو ہیں کہ اللہ انہیں عافیت والی زندگی عطا فرمائے ۔ماسٹر جمال سابق مدرس نے بھی اپنے تاثرات سے نوازتے ہوئے کہا کہ 
اُستاد ایک چراغ ہے جو تاریک راہوں میں روشنی کے وجود کو برقرار رکھتا ہے۔ اُستاد وہ پھول ہے جو اپنی خوشبو سے معاشرے میں امن، مہرومحبت و دوستی کا پیغام پہنچاتا ہے۔ اُستاد ایک ایسا رہنما ہے جو آدمی کو زندگی کی گم راہیوں سے نکال کر منزل کی طرف گامزن کرتا ہے۔مولانا موصوف نے اپنی تدریسی فریضہ بڑے جوش وخروش اور ایمانداری کے ساتھ انجام دی ہے، 
اہم رکن مدرسہ مانو خان نے بھی تاثرات پیش کرتے ہوئے کہا کہ مولانا کے ساتھ بہت سی یادیں وابستہ ہیں، مولانا بظاہر تو سبکدوش ہو رہے ہیں لیکن وہ ہم سب کے دلوں میں ہمیشہ موجود محفوظ رہیں گے، سامو خان سکریٹری مدرسہ اسلامیہ اس قدر جذباتی ہو گئے کہ زبان سے کچھ نہ کہ سکے، گویا زبان حال سے کہ رہے ہوں کہ مولانا محترم کا یہاں سے جانا یہ صدمہ ناقابل برداشت ہے، آخر میں مولانا محمد عظیم الدین رحمانی نے سبھوں کا شکریہ ادا کیا، ماسٹر خالد مدرس انچارج مدرسہ ہذا، ومولانا نصر الدين قاسمی نے مہمانوں کی بھر پور ضیافت کی، بہترین نظم ونسق کے ساتھ ناشتہ کا انتظام وانصرام کیا ۔ نگار شمس معلمہ مدرسہ ہذا نے بھی بڑے دکھ رنج وغم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مولانا محترم ہمارے سرپرست کی مانند ہیں، ان کا یہاں سے سبکدوش ہونا یقیناً ہم سب کے لئے ایک عظیم خسارہ ہے ۔
یقیناً تعلیم ایک ذریعہ ہے،اس کا مقصد اچھی سیرت سازی اور تربیت ہے۔علم ایک روشن چراغ ہے جو انسان کو عمل کی منزل تک پہنچاتا ہے۔اس لحاظ سے تعلیم وتربیت شیوۂ پیغمبری ہے۔ اُستاد اورشاگرد تعلیمی نظام کے دو نہایت اہم عنصر ہیں۔ معلّم کی ذمہ داری صرف سکھانا ہی نہیں، سکھانے کے ساتھ ساتھ تربیت دینا بھی ہے۔اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کے بارے میں فرمایا: ﴿يُعَلِّمُهُمُ الكِتـٰبَ وَالحِكمَةَ وَيُزَكّيهِمۚ…. ﴾ (سورة البقرة: ١٢٩)اور نبی ﷺ ان(لوگوں) کو کتاب وحکمت (سنت) کی تعلیم دیتے ہیں اور ان کا تزکیہ وتربیت کرتے ہیں‘‘۔اس بنا پر یہ نہایت اہم اور مقدس فریضہ ہے ،اسی اہمیت او ر تقدس کے پیش نظر اُستاد اور شاگرد دونوں کی اپنی اپنی جگہ جدا گانہ ذمہ داریاں ہیں۔ اُنہیں پورا کرنا ہر دو جانب کے فرائض میں شامل ہے۔ اگر ان ذمہ داریوں کو بطریق احسن پورا کیا جائے تو پھر تعلیم بلاشبہ ضامنِ ترقی ہوتی اور فوزوفلاح کے برگ و بار لاتی ہے۔اس موقع پر کثیر تعداد میں لوگ شامل تھے سبھوں نے پرنم آنکھوں کے ساتھ مولانا محمد عظیم الدین رحمانی صاحب کو مبارکبادی دی،
اس پروگرام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں جن لوگوں کا اہم رول رہا ہے ان کی فہرست اس طرح ہے، ماسٹر خالد خان، مولانا نصیرالدین قاسمی، حافظ شارق خان، حافظ عمران، وغیرہ کا نام مذکور ہے،
آخر میں صدر محترم کی دعا پر تقریب کا اختتام کیا گیا،

پیر, فروری 27, 2023

کچھ تو کر خوف خدا دل میںشمشیر عالم مظاہری دربھنگوی

کچھ تو کر خوف خدا دل میں
Urduduniyanews72
شمشیر عالم مظاہری دربھنگوی
امام جامع مسجد شاہ میاں روہوا ویشالی بہار

گناہوں سے ہمیں رغبت نہ تھی یارب 
تیری نگاہِ کرم کو بھی منھ دکھانا تھا ۔
اسلام نے جس قدر اخلاقی تعلیم دنیا کو دی ہے ایسے عالمگیر اور پاکیزہ اخلاق کسی مذہب نے پیش نہیں کئے آپس کے حقوق جو اسلام نے بتلائے ہیں ان سے دنیا کے اور کل مذاہب ساکت ہیں اسلام جیسا سچا مذہب اگر دنیا میں رہنے سہنے کے اچھے طریقے کافی طور پر نہ بتلاتا تو یہ اس کا نقص سمجھا جاتا حالانکہ وہ کامل مذہب ہے کاش مسلمان اس سچے  مذہب کا عملی نمونہ بن جائیں اور پبلک کو دکھا دیں کہ دیکھو اسلام یہ ہے تو  خلق اللہ حلقہ بگوش ہو جانے میں ذرا بھی تو توقف بلکہ تأ مل نہ کرے نمونۂ اسلام از خود ان کو اپنی مقناطیسی زبردست قوت سے اپنی طرف کھینچ لے مگر یہاں تو مسلمانی در کتاب و مسلمانان  درگور کا مضمون ہے ۔ ایک وہ مبارک زمانہ تھا کہ مسلمان نہایت مستعدی اور سرگرمی سے احکامِ اسلام کے پابند تھے ان کے جسموں کو تیروں سے چھلنی بنا دیا جاتا تھا ان کے اعضاء کو ایک ایک کر کے کاٹ دیا جاتا تھا انہیں گرم گرم تیل کے کڑھاؤ میں ڈال دیا جاتا تھا بیچارے دم زدن میں چر مر ہوکر رہ جاتے تھے دہکتے ہوئے انگاروں پر برہنہ جسم لٹا کر گھسیٹا جاتا بیوی بچے مال دولت عزت آبرو سب خاک میں ملا کر گھر سے بے گھر کر دئیے جاتے تھے وہ کونسا ظلم تھا جو ان سے اٹھا رکھا جاتا تھا وہ کونسی سفاکی تھی جو ان پر نہ ہوتی ہو وہ کونسا برا برتاؤ تھا جو ان سے نہ برتا جاتا ہو مگر تا ہم وہ مردانِ خدا احکامِ دین پابندی سے بال برابر نہ ہٹتے یہ ناقابلِ برداشت روز روز کی مصیبتیں یہ روح فرسا نت نئی تکلیفیں بھی ان سے پہاڑ سے زیادہ مضبوط استقلال اور ایمان کو کھو دینا تو کجا ذرہ برابر بھی جنبش نہ دے سکتی تھیں  اپنی تمام راحتیں ایک فرمان نبوی پر قربان کر دیا کرتے تھے آج انقلاب زمانہ نے وہ روزبد دکھایا کہ  ذرا ذرا سی راحتوں کی خیالی امید پر چھوٹی چھوٹی تکلیفوں کے موہوم خوف سے ایمان فروشی کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں جسے دیکھو نفس کا بندہ جس پر نظر ڈالو تکبر اور خود ستائی کے نشہ میں سرمست ایک ایک فرد ننگ اسلام ہر ایک مجرم و خود کام کہیں رات دن دور شراب ہے کہیں عشق خانہ خراب ہے کسی کی چوری اور زنا کاری میں عمر بسر ہو رہی ہے کسی کی جوۓ اور تماشہ بینی میں ساری رات گزر رہی ہے کہیں راگ اور باجوں کا شوق ہے کہیں ایذا دہی  اور حرام خوری کا ذوق ہے سود تو گویا دل لگی ہے ہے شراب اور نشے بغیر گویا راحت ہی محال ہے ۔
کیا مذہب اسلام کی یہی وہ پاک تعلیم ہے جسے محمد رسول ﷺ لے کر آئے  تھے کیا انہی اخلاق ردیہ و خصائل ذمیمہ کو پھیلانے کے لیے آپ نے دنیا میں طرح طرح کی کوفت اٹھائی تھی  روز محشر میں جس وقت ہم احکم الحاکمین کے سامنے کھڑے ہوں گے اعمال نامے کھلے ہوئے ہونگے زمین و آسمان بلکہ خود ہمارے اعضائے جسم ہمارے خلاف گواہی دے رہے ہوں گے کل مخلوق ایک ہی میدان میں جمع ہو ئی ہوگی آفتاب تیزی اور تندی کے ساتھ بالکل سروں پر ہوگا ساتھ ہی جہنم چیختی چلاتی شعلے بھڑکاتی آنکھیں پھاڑے غیظ و غضب کے ساتھ گھور رہی ہوگی اس وقت ہم باری تعالیٰ کو اپنی ان زشت اعمالیوں کا کیا جواب دیں گے کیا منھ لے کر اپنے مشفق و شفیق رسول اللہ ﷺ  سے شفاعت کی آرزو کریں گے ۔ اس پر فریب دنیا میں پھنس کر آخرت کو فراموش نہ کر دیجئے یہ دنیا تو آخرت کے لئے کھیتی ہے جو یہاں بوؤ گے وہ وہاں پاؤ گے  اس کے حاصل کرنے میں اور حاصل ہوجانے کے بعد خدا سے اور قیامت سے غافل نہ ہو جاؤ اللہ کے رسول کے ان الفاظ کو کبھی نہ بھولو کہ نیکیاں کرو اور پھر بھی خدا سے ڈرو کہ نہ جانیں قبول بھی ہوئیں یا منھ پر مار دی گئیں اور جب یہ ہے تو ہم جیسے لوگوں کو جو نیکیوں سے خالی اور گناہوں سے پر ہیں خداۓ تعالیٰ  سے کس قدر ڈرنا چاہیے فرمان قرآن ہے ( فاتقواللہ مااستطعتم )   لوگو اپنے مقدور بھر  اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو ،  اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کرنا اور اس کی نافرمانیوں سے بچنا اسی کا نام اسلام ہے یہ فرماں برداری اور نافرمانیوں سے بچنا اسی وقت ہو سکتا ہے جب انسان کے دل میں خوف خدا ہو خوف اور ڈر ہی انسان کو روکتا ہے سانپ سے ہمیں خوف ہے کبھی اس کے منھ میں انگلی ڈالتے ہوئے کسی انسان کو نہیں دیکھا ہوگا شیر سے ڈر ہے کبھی  اس کے منھ میں جاتے ہوئے کوئی نہیں دیکھا گیا ہوگا آگ سے ڈرتے ہیں کبھی اس میں کودتے ہوئے کسی کو نہیں دیکھا گیا اسی طرح جس دل میں اللہ تعالیٰ کا ڈر ہوتا ہے وہ کبھی اس کی نافرمانیوں کی طرف رخ بھی نہیں کرتا بلکہ ہمیشہ اس کی تابعداری میں لگا رہتا ہے۔ یہی خوف خدا ہے جس نے صحابہ کرام کے دلوں کو خدا کی طرف مائل کر دیا تھا مستدرک حاکم میں حدیث ہے کہ ایک نوجوان انصاری کا دل خوف خدا سے لبریز تھا عذابوں اور خوف خدا کا ذکر سن کر بہت رویا کرتا تھا یہاں تک کہ اسے گھر سے نکلنا بھاری ہو پڑا رسول اللہ ﷺ کو جب یہ خبر پہنچی تو آپ خود اس کے مکان پر تشریف لے گئے اور  اسے گلے لگایا بس اسی وقت اس کی روح پرواز کر گئی آپ فرمانے لگے اس کے کفن دفن کی تیاری کرو ۔ خوف خدا نے اس کے دل کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے ہیں ۔ لوگ  آپ سے کہتے ہیں ہ یا رسول اللہﷺ  آپ کے بال تو ابھی سے پکنے لگے فرماتے ہیں مجھے سورہ ہود، سورۂ واقعہ ، اور سورۂ عم یتساءلون وغیرہ کے زوردار بیانوں اور اس دن کی دہشت و خوف نے قبل از وقت بوڑھا بنا دیا  عبداللہ بن شخیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں خدمت مبارک میں حاضر ہوا دیکھا کہ آپ نماز میں مشغول ہیں آنکھوں سے آنسو گر رہے ہیں روتے روتے اس قدر ہچکی بندھ گئی کہ گویا چکی چل رہی ہے یا ہانڈی میں ابال آرہا ہے جب نبی معصوم کے خوف اور ڈر کا یہ حال ہے کہ نہ راتوں کو چین ہے نہ دن کو آرام رخسار مبارک سے آنسو خشک نہیں ہوتے ڈاڑھی تک تر ہے ہچکیاں بندھ گئی ہیں پھر بھلا ہم تم جیسے سر تا پا گناہوں میں ڈوبے ہوئے معصیت کے پتلوں کو کیا کرنا چاہئے یہاں رکھا ہی کیا ہے نہ عمل ہیں نہ تقوی خدایا بجز تیری رحمت کے کوئی سہارا نہیں
اپنے انجام پر غور کرو آخر چار ہاتھ کے تنگ و تاریک گڑھے میں جانا ہے یہ فانی دنیا ختم ہو جائے گی پھر اصل زندگی آخرت کی زندگی ہے

اتوار, فروری 26, 2023

ایک قبر جو قیادت کررہی ہے!* ✍️ ہمایوں اقبال ندوی ارریہ ، بہار

*ایک قبر جو قیادت کررہی ہے!* 
اردودنیانیوز۷۲ 
✍️ ہمایوں اقبال ندوی
 ارریہ ، بہار 

ضلع ارریہ کی معروف ومشہور علمی وسماجی شخصیت جناب پروفیسر الحاج عرفان احمد صاحب آج سپرد خاک ہوگئے ہیں، باری تعالی جنت الفردوس نصیب کرے، قبر میں جنت کی کھڑکیاں کھول دے،اس خاک کے گڈھے کو بقعہ نور میں تبدیل کر دے، آمین یارب العالمین 

شکریہ اے قبر تک  پہچانے والو  شکریہ 
اب اکیلے ہی چلےجائیں گےاس منزل سے ہم

مرحوم پان اور کام کے بیک وقت رسیا تھے،پانچ سال پہلے کی بات ہے،مدرسہ اسلامیہ یتیم خانہ ارریہ کے سامنے کمال صاحب کی پان دکان ہے،پروفیسر صاحب یہاں پان کھانے تشریف لائے، جناب قاری تبریز صاحب بھی موجود تھے، ایک دانشور نےیہ شکوہ کیا کہ اس وقت حضرت قائد کی بڑی کمی ہے،مرحوم نےبرجستہ یہ تاریخی جواب ارشاد فرمایا؛قائد کی کمی نہیں ہے بلکہ قیادت کی آج بڑی کمی ہے،قائد کی کمی کا رونا لوگ روتے ہیں، مگر اپنے حصہ کی قیادت نہیں کرتے ہیں،ہم اسلام کے نام لیوا ہیں، مذہب اسلام میں ہر کلمہ گو قائد ہے ،مرحوم کی زبان سے نکلا یہ تاریخی جملہ دراصل انکی پوری زندگی کا خلاصہ ہے،اپنی زندگی میں اس کو سچ کردکھایا ہے،مرحوم مدرسہ اسکول، کالج ،امارت، جمعیت اور جماعت ہر جگہ پیش پیش رہے ہیں،اس راہ میں اپنی جانی ومالی قربانی بھی پیش کرتے رہےہیں،گویا اپنی عملی زندگی سے مرحوم نے قیادت کی تشریح کردی ہے،ساتھ ہی قیادت کی ابتدا کہاں سے کی جانی چاہئے ہے؟اس سوال کواپنے عمل سے حل فرمادیا ہے،پہلے اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت سے اس کی ابتدا کی ہے۔

علاقہ کے مشہور عالم دین جناب حضرت مولانا نبی حسن صاحب مظاہری نے جنازہ کی نماز سے پہلے یہ اعلان کیا ہے کہ؛ ڈھونڈنے سے بھی مرحوم جیسا بیدار مغز انسان ہمیں نہیں مل رہا ہے،انہوں نے اپنے گھر سے قیادت شروع کی ہے ،اپنے بچوں کی دینی وعلمی تربیت پہلے کی ہے،قیادت کرنے کا طریقہ ہمیں مرحوم تعلیم کر گئے ہیں، پھرقوم وملت کے لئے فکر مند اور کوشاں ہوئے ہیں، تمام تنظیموں اور تحریکوں کے لئے خود کو وقف کردیتے ہیں، آج ہزاروں کی تعداد ان کے جنازے کی نماز میں شریک ہے، پورا علاقہ سوگوار ہے،یہ سب سے بڑی دلیل ہے۔

آخری سانس لینے سے پہلے اپنےنور نظر جناب مفتی غفران حیدر مظاہری سے یہ کہا کہ؛ بیٹے مجھے اطمنان ہے کہ تم لوگ میرے نقش قدم پر چلوگے، میرے کام کو لیکر آگے بڑھوگے، مرحوم کے تمام بیٹوں نے اس کا عزم بھی لیا ہے، باری تعالٰی استقامت نصیب کرے، آمین 

یہ بات کہاں کسی کو نصیب ہوتی ہے کہ مرنے کے بعد بھی ان کی قبر قائدانہ کردار ادا کرے، مرحوم جاتے جاتے بھی قیادت کرگئے ہیں،اپنی ایک بیگھہ نفیس زمین کو عام قبرستان بنا گئے ہیں، پہلی قبر جو اس قبرستان کی قیادت کرنے جارہی ہے وہ مرحوم الحاج عرفان صاحب ہی ہیں۔اکیلے دفن ہونے گئے ہیں، پہلو میں ایک نوزائیدہ بچی بھی آج مدفون ہوئی ہے، اس قبرستان کی آبادی کا بھی کام شروع ہوگیا ہے -

میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا

گویا یہاں بھی آپ کی قبر قیادت کررہی ہے اور قوم کو یہ پیغام اپنے عمل سےدیا ہے کہ ہم تنہا نہیں جارہے ہیں بلکہ تم سبھوں کو اس قبرستان میں آنا ہے،تمہارے لئے بھی ہم نے جگہ خاص کردی ہے، یہاں آنے کی تیاری شروع کر دو اور موت کا استحضار پیدا کرلو!

آج ڈومریا گاؤں کے کتنے لوگوں نے اپنی قبر کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے، اور یہ استحضار کرلیاہےکہ ہمیں الحاج عرفان صاحب کی موقوفہ زمین میں دفن ہونا ہے،منزل ہماری یہی ہے، یہ خیال بھی دل میں ضرور پیداہوا ہوگا کہ مرحوم کے بازو میں جانے سے پہلے اپنی زندگی کو قیمتی بنانی پڑے گی، بچوں کی تعلیم وتربیت کی ذمہ داری ادا کرنی ہوگی، قوم وملت کے لئے مفید بننا ہوگا،علمی خدمات کے لئے خود کو تیار کرنا ہوگا، تبھی صاحب قبر کا حق ادا ہوسکتا ہے، اس کے جوار میں حقیقی جگہ مل سکتی ہے،یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے، غور کرنے پر یہاں بھی مرحوم الحاج پروفیسر عرفان صاحب کی قیادت نظر آرہی ہے۔

خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را

امجد اسلام امجد ___✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

امجد اسلام امجد ___
اردودنیانیوز۷۲ 
✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی 
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 

مشہور شاعر‘ ڈرامہ اور کالم نگار امجد اسلم امجد کا گذشتہ دنوں 10/فروری 2023 ء بروز جمعہ لاہور میں انتقال ہوگیا‘انہیں سونے کی حالت میں دل کا دورہ پڑا اور صبح وہ اپنے بستر پر اس حالت میں پائے گئے کہ ان کی روح قفص عنصری سے پرواز کر چکی تھی‘ انہوں نے اپنے پیچھے ایک لڑکا علی ذیشان اور دو لڑکیوں کو چھوڑا۔وہ ستارہ امتیازسے1968 ء میں، حسن کارکردگی ایوارڈ سے 1987ء  اورنگار ایوارڈ سے دو بار نوازے جا چکے تھے‘ اس کے علاوہ اور بھی بہت سارے ایوارڈ’اعزاز و انعامات ان کی جھولی میں آ گرے تھے۔ان میں 23 /دسمبر 2019 ء کو ترکی کا اعلی ثقافتی اعزاز نجیب فاضل انٹر نیشنل کلچر اینڈ آرٹ ایوارڈ بھی شامل ہے۔
امجد اسلام امجد کی پیدائش 4/ اگست 1944ء کو غیر منقسم ہندوستان کے شہر لاہور  میں ہوئی‘1967ء میں پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اردو میں کیا‘ 1968ء سے ۱1975ء تک ایم اے  او کالج لاہور کے شعبہ اردو میں تدریسی خدمات انجام دیں‘ 1975ئمیں وہ پنجاب آرٹ کونسل کے ڈپٹی ڈائرکٹر بنائے گئے‘ لیکن 1990ء میں پھر سے ایم اے او کالج واپسی ہوئی اورشعبہ تدریس سے منسلک ہو گئے۔وہ پاکستان ٹیلی ویزن سے منسلک ہوتے ہوئے چلڈرن کمپلکس کے پروجیکٹ ڈائرکٹربھی تھے‘ ان تمام مشغولیات کے باوجود انہوں نے پچا س سے زائد کتابیں تصنیف کیں۔
امجد اسلام امجد نے ادبی دنیا میں شاعر‘ ڈرامہ نگار اور نقاد کی حیثیت سے خوب نام کمایا ’وارث ’دن اور فشار ان کے مشہور ڈرامے ہیں‘ ان کا شعری مجموعہ برزخ‘ ذرا پھر سے کہنا‘ساحلوں کی ہوا‘ زندگی کے میلے میں اور جدیدعربی نظموں کے تراجم عکس اور افریقی شعرا ء کی نظموں کا ترجمہ کالے لوگوں کی روشن نظمیں کے نام سے شائع ہو کر مقبول ہوئے۔ان کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ تاثرات کے نام سے منظر عام پر آیا۔امجد اسلام امجد نے ڈرامہ نگاری میں  اپنی مہارت کے جو نقوش چھوڑے ہیں وہ برسوں دیکھنے والے کے ذہن سے محو نہیں ہوں گے۔
امجد نے جمالیاتی شاعری  کے حوالہ سے اپنی شناخت بنائی اور یہی ان کی شاعری کے میدان میں شہرت کا سبب بنی‘ان کی نظموں میں جو صوتی ہم  آہنگ‘ تازہ کاری‘ توانائی اور فکری تنوع ہے‘ اس کی مثال نایاب تو نہیں کم یاب  ضرورہے۔ان کی شاعری کے قدرداں عوام اور خواص دونوں تھے‘ کیوں کہ وہ روز مرہ پیش آنے والے واقعات سے شاعری کا مواد حاصل کرتے تھے  اور اسے فلسفہ بنائے بغیر پیش کرنے کا ہنر جانتے تھے۔ان کی شاعری نے ایک نسل کی فکری آبیاری کی۔
پاکستانی ٹیلی ویزن کے لیے ش انہوں نے  کئی کامیاب سیریز لکھے‘ جن میں دہلیز‘ سمندر‘ رات‘ وقت‘ اور اپنے لوگ خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔امجد اسلام امجد در اصل اس وقت پاکستانی ادب کا چہرہ تھے‘ ایک ایسا چہرہ جس کو پاکستان سے باہر مختلف اصناف ادب میں خدمت کی وجہ سے وقار و اعتماد حاصل تھا‘ وہ معروف بھی تھیاور مقبول بھی‘ انہوں نے ادب کی دنیا میں بہت لوگوں کو آگے بڑھایا‘ وہ باصلاحیت لوگوں کی قدر  کرتے اور ان کے بس میں جس قدر ہوتا آگے بڑھانے کی کوشش ہی نہیں جتن بھی کیا کرتے تھے۔آج کے اس دور میں جب بیش تر بڑے برگد کا پیڑ بنے بیٹھے ہیں‘ ان کے زیر سایہ کوئی تناور درخت نہیں اگ نہیں سکتا‘ وہ اپنی ہی سونڈزمین میں گاڑنے پر یقین رکھتا ہے ایسے میں امجد اسلام امجد کا یہ طریقہ کار قابل ستائش بھی تھااور لائق تقلید بھی۔
امجد اسلام امجد مجلسی آدمی تھے‘ ان کی گفتگو برجستہ اور بذلہ سنج ہوا کرتی تھی‘ انہیں مجلس کو قہقہہ زار بنانا بھی خوب آتا تھا‘ انہیں اپنے فن اور مقبولیت پر غرور بھی نہیں تھا‘ وہ ہر اہل قلم کی قدر کرتے تھے اور اپنے سے چھوٹوں کی عزت کرتے تھے’یہ عزت اور پذیرائی کا سلسلہ خورد نواز ی کے آخری مرحلہ تک جا پہونچتا تھا۔
ہندوستان،پاکستان کے درمیان سرحدی خلیج کی وجہ سے میرا ان سے ملنا کبھی نہیں ہوا،ہندوستان مختلف موقعوں سے ان کا آنا ہوا؛لیکن ان مواقع کا استعمال ملاقات کے لئے میں نہیں کر سکا،البتہ ان کی تخلیقات کو مختلف رسائل و جرائد میں پڑھتا رہا،اس سے ان سے ایک ذہنی قربت سی ہو گئی تھی‘ ان کے بعض اشعار نے اس قدر متاثر کیا کہ وہ آج بھی ذہن کے نہاں خانوں میں محفوظ ہیں، ان کے انتقال کی خبر سن کر وہ سب نہاں خانوں سے باہر آنے کے لئے بے چین ہیں،کچھ آپ بھی پڑھ لیجئے؛کیونکہ شاعر پر کوئی تحریر نمونہ کلام کے بغیر ادھوری رہ جاتی ہے،امجد اسلام امجد کے یہ اشعار ان کی ذہنی رو اور عصری حسیت کے عکاس ہیں۔
میرے کاسہ شب و روز میں کوئی شب ایسی بھی ڈال دے
سبھی خواہشوں کو ہراکرے سبھی خوف دل سے نکال دے
امجد کی ذہنیت کو سمجھنے کے لئے اس شعر کو بھی پڑھئے۔
ممکن نہیں ہے مجھ سے یہ طرز منافقت
دنیا تیرے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں
صدیاں جن میں زندہ ہوں وہ سچ بھی مرنے لگتے ہیں
دھوپ آنکھوں تک آجائے تو خواب بکھرنے لگتے ہیں
واقعہ یہ ہے کہ امجد اسلام امجد کا اس دنیا کو چھوڑ جانا شعرو ادب‘ ڈرامے اور کالم نگاری کا بڑا نقصان ہے‘ اللہ جب کسی کو اٹھاتا ہے تو اس کی تلافی کی شکلیں پیدا کرتا ہے۔ علم و ادب تنقید کے میدان میں آج کل جو ادباء اور اہل قلم سرگرم ہیں وہ اس کی تلافی بھی کریں گے۔ اللہ رب العزت امجد اسلام امجد کی مغفرت فرمائے اور ان کے گناہوں کو معاف فرمائے‘ اب یہی دعا ان کے لئے مفید اور کارگر ہے۔ ہم نے دعا کردیا آپ بھی کردیجئے۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...