Powered By Blogger

جمعرات, اپریل 13, 2023

انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے صدر،ناظم ندوۃ العلماء لکھنؤحضرت مولانا محمد رابع صاحب کا انتقال ۔۔ایک عہد کا خاتمہ۔مفتی محمد ثناءالہدی قاسمی ۔


حضرت مولانا محمد رابع صاحب کا انتقال ۔۔ایک عہد کا خاتمہ۔مفتی محمد ثناءالہدی قاسمی ۔ 
اردودنیانیوز۷۲ 
آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے صدر،ناظم ندوۃ العلماء لکھنؤ،ہزاروں مسلمانوں کے مرشد ومربی،سیینکڑوں اداروں کے سرپرست حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی کا آج ١٣ اپریل کو  سہ پہر ندوۃ العلماء میں انتقال ہو گیا،اس طرح ایک عہد کا خاتمہ ہو گیا ۔مولانا کی نماز جنازہ آج ہی بعد نماز تراویح ندوہ میں اور کل صبح بعد نماز فجر رائے بریلی میں ادا کی جائے گی ۔مولانا نے بڑے نازک دور میں  ندوہ اور مسلم پرسنل لاء بورڈ کی قیادت کی اور بڑے منجھدار سے ملت کی کشتی کو حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھاتے رہے ان کے علمی تبحر ،انتظامی صلاحیت ،تحمل ،برد باری،سنجیدگی اور متانت کی دنیا قایل تھی۔اصابت رائے اور سب کو ساتھ لے کر چلنے کی غیر معمولی صلاحیت اللہ نے آپ کو عطا کی تھی،مولانا کا انتقال پوری ملت کا خسارہ اور موت العالم کا صحیح مصداق ہے۔ان خیالات کا اظہار نامور عالم دین اور رکن مسلم پرسنل لاء بورڈ مفتی محمد ثناءالہدی قاسمی  نے اپنے تعزیتی بیان میں کیا ہے ۔مفتی صاحب نے حضرت کی مغفرت ،ترقی درجات ،ملت کوانکا نعم البدل اور پس ماندگان جن میں انکے خانوادہ کے ساتھ مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ارکان ،ندوہ کے اساتذہ و طلباء ،ہزاروں شاگرد خصوصاً اور پوری ملت اسلامیہ عموماً شامل ہے کے لیے صبر جمیل کی دعا کی ۔

بدھ, اپریل 12, 2023

پیغمبر اسلام تاریخ کے آئینے میں ایک مطالعہ محمد ضیاء العظیم قاسمی،ڈائریکٹر مدرسہ ضیاءالعلوم پٹنہ واستاذ جامعہ عربیہ دارالعلوم محمدیہ پھلواری شریف

پیغمبر اسلام تاریخ کے آئینے میں ایک مطالعہ 
Urduduniyanews72
  محمد ضیاء العظیم قاسمی،ڈائریکٹر مدرسہ ضیاءالعلوم پٹنہ واستاذ جامعہ عربیہ دارالعلوم محمدیہ پھلواری شریف 
موبائل نمبر :      7909098319

نام کتاب : پیغمبر اسلام تاریخ کے آئینے میں 
مصنف /مترجم :      شاہد احمد 
سال اشاعت :        2022 
صفحات :                448
تعداد اشاعت :          500 
کمپوزنگ :       محمد امتیاز عالم ندوی 
سر ورق :        دھیرج کمار 
طباعت :        ارم پرنٹرس ،دریا پور پٹنہ 
قیمت :          600/روپے 
ملنے کے پتے :  بک امپوریم، سبزی باغ پٹنہ 
پرویز بک ہاؤس، سبزی باغ پٹنہ  

تاریخ سیرت نبویﷺ کامو ضوع ہر دور کے مسلم علماء، مفکرین، دانشوروں اور مصنفین کے افکار وتوجہات کے مرکز رہے ہیں،اور ہمیشہ اسے ان لوگوں نے اپنے لئے باعث سعادت سمجھا ہے ۔ ہر ایک نے اپنی اپنی وسعت وگنجائش اور رب العالمین کی عطاء کردہ توفیق وتوثيق کے مطابق اس پر خامہ فرسائی کی ہیں ۔ نبی کریمﷺ کی تاریخ وسیرت کا مطالعہ کرنا ہمارے ایمان کے اہم جزئیات میں شامل ہے ۔ قرآن مجید میں نبی کریمﷺ کی حیات طیبہ اور سیرت کو ہمارے لئے ایک کامل نمونہ قرار دیا جا چکا ہے، اور ساتھ ہی یہ فرمان جاری کردیا گیا ہے کہ تمہاری زندگی صرف انہیں طریقے کو اپنا کر اور اس پر عمل پیرا ہو کر کامیاب ہو سکتی ہے، یہاں تک کہ رب العالمين نے اپنی رضامندی صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی اور ان سے محبت پر منحصر رکھی ہے ۔اخلاق وآداب کا کون سا ایسا معیار ہے جو آپﷺ کی حیات مبارکہ سے نہ ملتا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کے ذریعہ دین اسلام کی تکمیل ہی نہیں ،بلکہ نبوت اور راہنمائی کے سلسلہ کو آپ کی ذات اقدس پر ختم کر کےنبوت کے خاتمہ کے ساتھ ساتھ سیرت انسانیت کی بھی تکمیل فرما دی کہ آج کے بعد اس سے بہتر ،ارفع واعلیٰ اور عمدہ نمونہ و کردار کا تصور بھی ناممکن اور محال ہے۔ آپﷺ کی تاریخ وسیرت طیبہ پر متعدد زبانوں میں بے شمار کتابیں لکھی جا چکی ہیں، اور لکھی جا رہی ہیں اور تا قیامت لکھی جاتی رہیں گی ۔ کئی غیرمسلم مفکرین اور سوانح نگاروں نے نبی کریم ﷺکی سیرت و اخلاق سے متاثر ہوکر سیرت نبوی ﷺپر بڑی شاندار کتابیں مرتب کی ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ پیغمبر اسلام تاریخ کے آئینے میں ‘‘ محترم شاہد احمدسمن پورہ پٹنہ (سابق ڈی جی پی منی پور) کی ایک شاہکار تصنیف ہے جسے مصنف نے اپنی تصنیف کردہ انگریزی کتاب "The Prophet of Islam in History" کا اردو زبان میں بیحد خوبصورتی کے ساتھ ترجمہ کیا ہے ۔448/صفحات اور گیارہ ابواب پر مشتمل یہ کتاب ہے،
کتاب کا سر ورق دیکھ کر ہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مصنف نے بڑی محنت وکاوش اور عرق ریزی کے ساتھ اس تصنیفی مرحلے کو طے کیا ہے، کتاب میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے اور تعلق سے جتنی بھی باتیں اور تاریخیں لائ گئ ہیں وہ سب مستند کتابوں کے حوالے کے ساتھ ہیں جو اس کتاب کے معیار کو بہت بلند کرتی ہے ۔
کتاب کی شروعات دیباچہ سے کی گئی ہے جس میں مصنف نے وجہ تالیف وتصنیف کے ساتھ ساتھ سیرت اور تاریخ سیرت کی اہمیت و افادیت پر تبصرہ کرتے ہوئے اپنے اظہارو خیال، احساسات وجذبات اور عشق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اظہار کیا ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہمارے واسطے کیا اہمیت رکھتی ہے سیرت کا جاننا سمجھنا کیوں ہمارے لئے ضروری ہے ان سب پر اظہار کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سے منسلک واقعات اور رجحانات پر تاریخی اعتبار سے ایک سرسری اور اجمالی خاکہ پیش کیا ہے ۔

دس ابواب میں اسلامی تاریخ اور تاریخ سیرت کا احاطہ کرنے کی مصنف و مؤلف نے خوبصورتی کے ساتھ بھر پور سعی کی ہے اور اپنی اس سعی میں وہ حتی الامکان کامیاب وکامران نظر آتے ہیں ۔

 کتاب کی وجہ تالیف بزبان مصنف :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ حیات کا عمیق مطالعہ کرنے کے بعد رسول کریم ﷺ کی تاریخی تصویر کو اپنی انگریزی تصنیف "The Prophet of Islam in History" میں نہایت ہی صداقت اور غیر جانبدارانہ طریقے کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔پیش نظر کتاب اسی کا اردو ترجمہ ہے جو اس خیال سے کیا گیا ہے کہ بیشمار اردو داں قارئین جنہیں انگریزی کا زیادہ علم نہیں ہے اس اردو کتاب سے مستفیض ہونے سے محروم نہ رہ جائیں ۔
یقیناً مصنف و مؤلف کی سوچ فہم وفراست بڑی ہے ۔
دس ابواب پر مشتمل یہ اس کتاب کی فہرست اس طرح ہے ۔
باب اول :( حضرت محمد ﷺ کے بارے میں تاریخ نویسی) اس باب میں آپ ﷺ کی سیرت کو تاریخی حیثیت کیا ہے؟ مؤرخین کی رائے سیرت اور تاریخ اسلام پر کیا ہے ان سب موضوعات پر جامع تبصرہ پیش کیا گیا ہے ۔
باب دوم: (رسول اللہ ﷺ کی آمد کے وقت عرب کے حالات) اس باب میں آپ ﷺ کی آمد سے قبل اور آمد کے وقت عرب کے کیا حالات تھے اور آپ کی دعوت تبلیغ نے کیا رنگ لایا اس کا جائزہ پیش کیا گیا ہے ۔
باب سوم :  (محمد ﷺ کی ابتدائی زندگی) اس باب میں آپ ﷺ کی ابتدائی زندگی پر روشنی ڈالتے ہوئے آپ کے اوصاف واطوار آپ کے کردار کا خوبصورت نقشہ کھینچا گیا ہے ۔
باب چہارم : (نزول وحی اور خفیہ دعوت اسلام) اس باب میں وحی کے نزول کی ابتداء، خفیہ دعوت تبلیغ کس انداز میں کی گئی، اور دعوت تبلیغ نے کیا انقلاب برپا کیا اس پر بڑی اچھی گفتگو کی گئی ہے ۔
باب پنجم : (اعلانیہ دعوت اسلام اور اس کا رد عمل) اس باب میں اعلانیہ طور پر دین کی دعوت تبلیغ کے کیا نتائج برآمد ہوئے ان پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہیں ۔
باب ششم : (مسلمانوں پر کفار کے ظلم وستم) اس باب میں غریب کمزور اور لاچار ومجبور مسلمانوں پر ظلم زیادتی کس طرح کی گئی ہے اس پر تبصرہ ہے ۔
باب ہفتم : ہجرت :(ایک فیصلہ کن تبدیلی) اس باب میں مسلمانوں کے لئے مدینہ ہجرت کرنا، اور اللہ کا یہ فیصلہ مسلمانوں کے حق میں کیا رنگ لایا ۔
باب ہشتم :( اللہ کے لئے جہادی جنگ) اس باب میں جہاد کی حقیقت وضرورت، جہاد کے اسباب وجوہات ان باتوں کی وضاحت ۔
باب نہم : (شکست اور اسلامی اقتدار کی بحالی) اس باب میں اسلامی جنگ اور اسلامی اقتدار کس طرح بحال ہوا ان موضوعات پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا ہے ۔
باب دہم :( امن کی طرف) اس باب میں جنگ کے بعد اور جنگی نتائج کا نقشہ کھینچا گیا ہے ۔
باب یازدہم : (نصب العین کی تکمیل) اس باب میں مشترکہ طور پر اسلامی تاریخ ، نبی کریم ﷺ کے احوال، اصحاب رضی اللہ عنہم اجمعین کے واقعات وغیرہ بیان کئے گئے ہیں 

آخر میں ضمیمہ عنوان قائم کرکے محمد ﷺ کی بیویوں کی تاریخی پس منظر، فہرست، اور خاندانی تعارف کرایا گیا ہے ساتھ ساتھ نبی کریم ﷺ کے لئے تعدد الزوجات کی وجہیں، ضرورتیں ان سب کو بہترین پیرائے کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔
یقیناً یہ تصنیف محترم شاہد احمد ساکن سمن پورہ پٹنہ ( سابق ڈی جی پی) کی شخصیت اور آپ کے دینی مزاج اورنظریات کو اجاگر کرتی ہے،مختصر سیرت اور تاریخ اسلام کے لحاظ سے یہ ایک عمدہ تصنیف ہے، آپ اپنی ہزاروں مصروفیات کے باوجود صرف عشق نبی کی وجہ سے بڑی محنت اور لگن کے ساتھ اس تصنیفی سفر کو طے کیا ۔ہم اپنی جانب اور ادارہ کی جانب سے آپ کو اس تصنیف پر ہدیہ تبریک پیش کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ اللہ رب العزت اس کتاب کو آپ کے لئے اور ذریعۂ نجات بنائے ۔

اعتکاف شب قدر کی تلاش ہے !مفتی ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ ۱۹/رمضان المبارک ۱۴۴۴ھ رابطہ، 9973722710

اعتکاف شب قدر کی تلاش ہے !
Urduduniyanews72
اعتکاف کی تین قسمیں ہیں،چند منٹ کے لیے بھی اعتکاف کیا جاسکتا ہے، علماء کرام یہ کہتے ہیں کہ جب کوئی آدمی مسجد میں داخل ہو تو اعتکاف کی نیت کرلے،اس کا بڑا فائدہ ہے،جتنی دیر وہ شخص مسجد میں رہے گا معتکف سمجھا جائے گا، اور اس کے اجر کا حامل ہوگا، مسجد سے جب وہ باہر چلا جائےگا، جبھی اس کا اعتکاف ختم ہوگا، اور اس پر ملنے والا اجر موقوف ہوگا،
شرعی اصطلاح میں اسے نفلی اعتکاف کہتے ہیں،یہ لمحہ بھر کے لیے بھی کیا جاسکتا ہے، اس کے لیے روزہ بھی ضروری نہیں ہے،
مگر جب ایک آدمی اپنی زبان سے یہ کہ دیتا ہے کہ اللہ تعالٰی نے مجھے کامیابی دی تو میں اتنے دنوں تک اعتکاف میں بیٹھا رہوں گا، یا رمضان کے اخیر عشرہ کا اعتکاف کروں گا، کامیابی ملی تو اب اس اعتکاف کاپورا کرنااس کے حق میں ضروری ہے،شریعت میں اس اعتکاف کی حیثیت واجب کی ہے،اس کے لیے روزہ ضروری ہے،اور یہ نذر والا اعتکاف ایک دن سے کم کا نہیں ہوسکتا ہے، 
اعتکاف کی تیسری قسم، یہ رمضان المبارک کے آخری عشرہ کا اعتکاف ہے،اس کی شرعی حیثیت سنت مؤکدہ علی الکفایہ کی ہے،
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےاپنی زندگی میں اس کا بڑا اہتمام کیا ہے،اور حین حیات  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی مواظبت فرمائی ہے،جس عمل میں آپ صلی علیہ وسلم کی پابندی ہو شریعت میں اس کی بڑی تاکید آئی ہے، اور یہ سنت سے اوپر مقام کا حامل ہے، اسی لیے اسے صرف سنت نہیں بلکہ سنت مؤکدہ سے تعبیر کرتے ہیں،
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا روایت کرتی ہیں کہ؛نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری دس دنوں کا اعتکاف فرماتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالٰی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے یہاں بلالیا،پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کی ازواج مطہرات نےاعتکاف فرمایا، (بخاری)
اس اعتکاف کی اہمیت اس بات سے بھی سمجھ میں آتی ہے کہ ایک مرتبہ کسی وجہ سے اعتکاف چھوٹ گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شوال کے مہینے میں اس کی قضاء فرمائی تھی، اس سے مقصود اس آخری عشرہ کے اعتکاف کی اہمیت وافادیت سے لوگوں کو روشناس کرانا ہے، اور یہ سمجھانا ہے کہ یہ کس قدر مقبول وپسندیدہ اور ساتھ ہی ضروری عمل ہے کہ اس کی قضاء کی جارہی ہے، جبکہ سنن ونوافل میں قضا نہیں ہے، 
مگر آخری عشرہ کے اعتکاف کو یہ خاص مقام حاصل ہے،
اس کی ایک بڑی وجہ لیلۃ القدر کی تلاش ہے، چنانچہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے پہلے عشرہ کا اعتکاف کیا، پھر دوسرے عشرہ کا اعتکاف چھوٹے خیمہ میں کیا، اس اعتکاف کے دوران سر مبارک خیمہ سے نکال کر فرمایا؛میں نے پہلے عشرہ کا اعتکاف کیا اور لیلۃ القدر کی تلاش کرتا رہا، پھر میں نے دوسرے عشرہ کا اعتکاف کیا تو مجھ سے ایک فرشتہ نے آکر کہا کہ لیلۃ القدر تو رمضان کے آخری عشرہ میں ہے،اب جو میری سنت کی اتباع میں اعتکاف کا ارادہ رکھتا ہے اس کو چاہیے کہ آخری عشرہ میں اعتکاف کرے،(مسلم )
ایک متفق علیہ حدیث میں اماں جان حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا روایت کرتی ہیں کہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ میں معتکف اور گوشہ نشین ہوجاتے تھے، اور فرماتے تھے کہ شب قدر رمضان کے آخری عشرہ میں تلاش کرو، (متفق علیہ )
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا ہی سے ایک حدیث میں ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ شب قدر رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو، (بخاری)
رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں شب قدر کے ہونے پر بکثرت احادیث وارد ہوئی ہیں، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے بعض کو آخری سات دنوں میں خواب میں شب قدر دکھائی گئی، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں دیکھتا ہوں کہ تمہارا خواب زیادہ تر آخری سات دنوں کے متعلق ہے، پس جو اس کی تلاش کرنا چاہتا ہے وہ آخری سات دنوں میں تلاش کرے،(متفق علیہ )
گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخیر عشرہ کا یہ اعتکاف اس رات کی تلاش میں اور اس کے اجر وثواب کے حصول کی امید میں بھی ہے،جس رات کی عبادت کو قرآن کریم میں ہزار مہینوں سے زیادہ اجر کا حامل قرار دیا گیا ہے،مذکورہ بالا احادیث میں یہ بھی مذکور ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے پہلے عشرہ کا اور دوسرے عشرہ کا بھی اعتکاف فرمایا ہے مگر یہاں وہ اہتمام نہیں ہے اور نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مواظبت فرمائی ہے،اسی لیے پہلے عشرہ اور دوسرے عشرہ کے اعتکاف کو ہم مستحب کہ سکتے ہیں، اس سے زیادہ اس کا مقام نہیں ہے، اس کے برعکس اخیر عشرہ کا اعتکاف زیادہ مقام کا حامل ہے اور اس کی حیثیت سنت مؤکدہ کی ہے یہ دراصل اخیر عشرہ میں شب قدر کی تلاش یے،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم شب قدر کےاجر میں اپنے اہل وعیال کو بھی شریک کرنا چاہتے تھے، اسی لیے انہیں راتوں میں جگادیا کرتے اور عبادت کی تحریک فرماتے، اور خود مسجد میں معتکف ہوجاتے اور اعتکاف کے اعمال میں مشغول ہوجاتے، 
اپنی امت کو بھی آپ صلی علیہ وسلم نے اپنے عمل کے ذریعہ یہ تلقین فرمائی کہ شب قدر کے حصول کا سب سے آسان طریقہ اخیر عشرہ کا اعتکاف ہے۔
مگر آج اس ضروری عمل سے بڑی غفلت برتی جارہی ہے، عام تو عام بلکہ خاص لوگوں میں بھی اس کا اہتمام نہیں ہے، اب تو پیسے دیکر کچھ لوگوں کو مسجد میں بٹھا دیا جاتا ہے تاکہ محلہ والے گنہ گار ہونے سے بچ جائیں، اس بندہ کو نہ اعتکاف کا مطلب معلوم ہوتا ہے نہ اس کے شرائط وارکان کا پتہ ہوتا ہے،اور نہ ایک معتکف کے اشغال کا علم ہوتا ہے، ایک معتکف کو تلاوت قرآن، ذکر واذکار، تسبیحات، فقہی مسائل،ودینی معلومات میں مشغول ہونا چاہیے، اس کے برعکس ایک کونے میں میاں معتکف خاموش بیٹھے ہیں،آج خاموش رہنے کو اعتکاف سمجھا جاتا ہے، فقہاء نے لکھا ہے کہ اگر عبادت سمجھ کر خاموش رہتا ہے تو یہ عمل مکروہ تحریمی ہے،ورنہ نہیں، اس لیے کہ حدیث میں آیا ہے جو خاموش رہا وہ نجات یافتہ ہوا (درمختارمع الرد)
مسجد کے حدود میں رہنا ایک معتکف کے لیے ضروری عمل ہے،اس کی شرعی حیثیت شرط کی ہے،وہ کرایہ کا بندہ وضوخانے میں بلا ضرورت بیٹھا ہے، اعتکاف کو خراب کررہا ہے،وہ خود گنہ گار ہورہا ہے اور بقیہ لوگوں کو بھی گنہ گار بنارہا ہے،ویسے بھی اجرت دیکر اعتکاف میں بیٹھانا درست نہیں ہے، اور اعتکاف میں بیٹھنے والے کے لیے اجرت لینا بھی درست نہیں ہے، شرعی اصول ہے کہ طاعت وعبادت پر اجرت لینا اور دینا جائز نہیں ہے،(درمختارمع الرد)
اس وقت اس اہم عبادت کی طرف متوجہ ہونے کی ضرورت ہے،شہر کی تمام مساجد میں اعتکاف کرنے کو بہتر کہا گیا ہے، اس کا التزام کیا جانا چاہیے، جو اعتکاف میں بیٹھنے جارہے ہیں وہ اس متعلق ضروری باتیں بھی معلوم کرلیں، جبھی اس اخیر عشرہ کے اعتکاف کا مکمل فائدہ حاصل کیا جاسکتا ہے، اور شب قدر کی فضلیت حاصل کی جاسکتی ہے۔خواتین حضرات کو بھی اس اہم عمل کی طرف متوجہ کرنے کی موجودہ وقت کی اہم ضرورت ہے، امت کی ماؤں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس مسنون اعتکاف کی پابندی فرمائی ہیں، خواتین اسلام کی ذمہ داری اچھی افطاری اور لذیذ سحری ہی نہیں ہے بلکہ بہترین نسل کی تیاری کے لیے ان مواقع پر مستورات کی نمائندگی کی آج بہت ضروری ہے۔

مفتی ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ 
۱۹/رمضان المبارک ۱۴۴۴ھ 
رابطہ، 9973722710

منگل, اپریل 11, 2023

زبان کو سنبھال کر ذرا رکھیے جناب ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

زبان کو سنبھال کر ذرا رکھیے جناب ___
Urduduniyanews72
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
اپنی باتیں دوسروں تک پہونچانے کے جو طریقے ہمیں دیے گیے ہیں، ان میں گفتگو ، تقریر، لکچر، ڈائیلاگ، بحث ومباحثہ کو خاص اہمیت حاصل ہے ، ہم اپنی باتیں تحریر کے ذریعہ بھی دوسروں تک پہونچاتے ہیں، اور حرکات وسکنات کے ذریعہ بھی، جسے باڈی لنگویج یا اشاروں کی زبان کہتے ہیں؛ گویا یہ سب چیزیں اظہار کا وسیلہ ہیں۔ 
 اسی لیے ٹھوس ، مدلل، معقول اور مؤثر گفتگو کی قدر ہر دور میں کی جاتی رہی ہے اور اس کے اثرات قوموں کی تقدیر بدلنے، حکومتوں کے عروج وزوال ، سیاسی اتار چڑھاؤ پر لازماً پڑتے رہے ہیں، ادھر کچھ دنوں سے دیکھا جا رہا ہے کہ ہمارے سیاسی رہنما ایسی زبان استعمال کر نے لگے ہیں، جو کسی طرح شرفاء کی زبان نہیں قرار دی جا سکتی،اور یقینی طور پر ان جملوں سے ایک خاص فرد یا طبقہ کی توہین ہوتی ہے ، مسلمانوں کوہندو کہنا، ہندو محمدی کے طور پر متعارف کرانے کا مشورہ دینا، سیکولر لوگوں کو نا جائز اولاد قرار دینا، تمام دہشت گردوں کو مسلمان قرار دینا ، بہوجن سماج وادی پارٹی کی صدر کو طوائف ، ایم پی ششی تھرور کی بیوی آنجہانی سونندا کو پچا س کروڑ کی گرل فرینڈ قرار دینا، دیش کے غداروں کو گولی مارو سالوں کو اور دنگائی اپنے کپڑوں سے پہچانے جاتے ہیں، سونیا گاندھی کے بارے میں یہ کہنا کہ گوری چمڑی کی وجہ سے وہ کانگریس کی صدر بنیں جیسے جملے ، اسی قبیل کے ہیں، ان جملوں کے کہنے والے پر اب تک کوئی کاروائی نہیں ہو سکی ہے اور شاید ہو بھی نہیں، البتہ راہل گاندھی کے اس بیان پر داروگیر ہو گئی ہے کہ رقم لے کر بھاگنے والے سارے کا خاندانی نام مودی ہی کیوں ہے، سورت کی عدالت سے دو سال کی سزا سُنانے کے بعد ان کی رکنیت جا چکی ہے، اور ۲۲؍ اپریل تک گھر بھی خالی کرنا ہوگا۔
 اس کے جواب میں جو زبان استعمال کی جا رہی ہے ، وہ بھی چنڈو خانے کی زبان ہے، اور یہ ایک غلطی کو دور کرنے کے لیے دوسری غلطی کے ارتکاب کے مترادف ہے ۔ کیسا لگتا ہے، جب ہمارے سیاست داں بھی اس قسم کے گھٹیا بیانات دیتے ہیں، ایسے میںکس سے امید رکھی جائے کہ ان کے بیانات سماج میں صالح اقدار کو فروغ دے سکیں گے،یہ معاملہ صرف سیاست ہی کا نہیں ہے؛ بلکہ وہ لوگ جو مسلکی معاملات میں شدت پسند ہیں او ر تعصب نے ان کے اندر جڑ پکڑ لیا ہے، مناظروں کے شوقین ہیں، وہ بھی اپنی بات کو ثابت کرتے وقت دوسرے مسلک والوں کا مذاق اڑانے سے باز نہیں آتے ، بات مدلل ہو، زبان پاکیزہ ہو تو کوئی حرج نہیں ، جس بات کو حق سمجھا جائے، اس کا ذکر کیا جائے، لیکن استہزا، تمسخر ، ہر زہ گوئی حق کو ثابت کرنے میں معاون نہیں ہواکرتے؛ بلکہ علمی لوگوں کے اندراس انداز سے نفور پیدا ہوتا ہے، اور وہ ایسی کتابوں کو ہاتھ لگانے اور ایسی تقریروں کو سننے سے گریز کرتے ہیں، اس سے سماجی انتشار اور کبھی کبھی معاملہ قتل وغارت گری تک پہونچ جاتا ہے، یہی حال خانگی نزاعات اور جھگڑوں کا ہے، اس میں بھی جو زبان استعمال کی جا رہی ہے، اسے ہم مہذب نہیں کہہ سکتے ، اختلافات ہوتے رہتے ہیں اور اپنے حق کے حصول کے لیے ہر سطح پر جد وجہد کرنی چاہیے، یہ قطعا مذموم نہیں ہے، مگر اس کے لیے جو زبان استعمال کی جائے، کیا ضروری ہے کہ وہ سوقیا نہ ہو، مادر، پدر آزاد ہو، جب کہ ہمیں یہ حکم دیا گیا ہے کہ ہم کسی قوم کا مذاق نہ اڑائیں، اسی طرح کوئی عورت دوسری عورت کا مذاق نہ اڑائے ، کیونکہ استہزاء ہمیشہ اپنے کو بڑا اور اچھا سمجھ کر کیا جاتا ہے؛ حالانکہ یہ تو اللہ رب العزت ہی جانتا ہے کہ کون اچھا ہے؟ ایسا ہو سکتا ہے کہ جو مذاق اڑارہا ہے وہی اپنی اخلاقیات ، کیرکٹر اور کردار کے اعتبار سے کمزور اور بد تر ہو ، اس کے علاوہ اس عمل کے نتیجے میں ملکوں ، قبیلوں ، سماج اور خاندان میں تفرقہ ، انتشار، افتراق کے دروازے کھلتے ہیں اس لیے ہمیں کوئی بھی بیان دینے سے پہلے سوچنا چاہیے کہ وہ کسی کی دل آزاری کا سبب نہ بنیں ، گفتگو کرتے وقت حفظ مراتب، سامع کا پاس ولحاظ اور مقصدکا خیال رکھا جائے، فضول کی بحثوں ، الزام تراشی، ذاتی رکیک حملے اور لعنت وملامت کرنے سے بھی گریز کرنا چاہیے، اظہارِ اختلاف میں شائستگی اور نرمی کا رویہ اختیار کیا جائے، جہاں نرمی ہوتی ہے وہاں حسن ہوتا ہے جہاں نرمی نہیں ہوتی، وہاں بد صورتی ہوتی ہے، پھوہڑ پن ہوتا ہے۔
اسلام نے اس بات پر زور دیا ہے کہ رائے کے اظہار میں انصاف سے کام لیا جائے ، معاملہ اپنا ہویا والدین کا ، اقربا کا ہو یا رشتہ دار کا امیر کا ہو یا محتاج کا، ہر حال میں انصاف ملحوظ رکھا جائے، اور کسی قوم کی دشمنی تم کوا نصاف کے راستے سے نہ ہٹائے، آج صورت حال یہ ہے کہ ہماری کسی سے دشمنی ہوتی ہے تو سارے حدود پار کر جاتے ہیں اور اگر دوستی ہوتی ہے تو زمین وآسمان کے قلاے ملا دیتے ہیں، کل تک جو لعن طعن کر رہا تھا ، آج پارٹی میں شامل ہو گیا توپارٹی سپریمو کو ڈنڈوت بھی کر رہا ہے اور قصیدہ پر قصیدہ کہے جا رہا ہے، شیخ سعدی کا مشہور قول  ہے کہ دشمنی میں بھی اس کا خیال رکھو کہ اگر کبھی دوستی ہوجائے توشرمندہ نہ ہو نا پڑے۔اس بے اعتدالی نے ہر ایک کے بیان کو بے وقعت کرکے رکھ دیا ہے ۔
بیان کے بعد دوسرا مرحلہ عمل کا ہے ، بغیر عمل کے صرف بیان کو ’’بیان بازی‘‘ کہتے ہیں، بیان میں جان اس وقت پڑتی ہے، جب اس کے پیچھے عمل کی قوت ہو، عمل نہ ہو صرف قول ہی قول ہو ، بیان ہی بیان ہو تو یہ انتہائی مذموم کام ہے، عمل ہے؛ لیکن قول کے بر عکس ہے تو یہ قول وعمل کا تضاد ہے۔
قول وعمل کے اسی تضاد کی وجہ سے سرکار کی طرف سے اعلان پر اعلان ہوتا رہتا ہے اور لوگ اسے قابل اعتنا نہیں سمجھتے ، اگر ہم کم بولیں اور کام زیادہ کریں تو عوام کا بھی بھلا ہوگا اورلوگوں کا اعتماد بھی بجال ہوگا؛ لیکن بد قسمتی سے ایسا نہیں ہو پا رہا ہے، اس معاملہ میں سب سے زیادہ ہمارے سیاسی رہنما آگے ہیں۔ کتنے اعلانات دسیوں سال سے حکومتیں کرتی رہی ہیں اور ان پر عمل کے اعتبار سے آج بھی پہلا دن ہے، اس طرز عمل سے سیاسی لوگوں کی قدر وقیمت میں گراوٹ کا رجحان بڑھا ہے، پہلے راج نیتی ہوتی تھی، اب راج ہی راج ہے، نیتی کا پتہ نہیں ، نظریات ، پالیسیاں کبھی سیاست میں ہوا کرتی تھیں، لیکن اب یہ قصہ پارینہ اور ماضی کی داستان ہے، کل تک سیکولرزم کا نعرہ لگانے والا، کب عہدہ اور ٹکٹ نہ ملنے کی وجہ سے فرقہ پرستوں کی گود میں جا بیٹھے گا ، کہا نہیں جا سکتا، اور پھر اس کی زبان سے کیا کچھ نکلنے لگے گا اور کس کس کی پگڑی اچھالی جائے گی کہنا ، مشکل ہے۔یہ صرف خیال نہیں ہے،اپنے ذہن پر تھوڑا زور دیں تو کئی نام آپ کے ذہن میں گردش کرنے لگیں گے۔ 
پھر الیکشن آ رہا ہے، مہم ووٹروں کے جوڑنے کی بھی چل رہی ہے، اور ووٹروں کے توڑنے کی بھی، آتشیں بیانات کا سلسلہ شروع ہونے والا ہے ، پہلے پہاڑ ہی آتش فشاں ہوتے تھے، اب ہماری زبان بھی آتش فشاں ہو گئی ہے، ہمیں ان سے ہر حال میں ہوشیار رہنا ہوگا، بولتے وقت بھی اور سنتے وقت بھی، بولتے وقت الفاظ تول کر بولنا ہوگا؛ کیونکہ اللہ نے ہمارے بول پر پہرے بٹھا رکھے ہیں اور سنتے وقت اس کے رد عمل سے بچنا ہوگا؛ تاکہ ہماری زبان آلودہ نہ ہو، یاد رکھئے سخت ، گندے اور بھدے الفاظ سے قومی معاملات حل نہیں ہوتے اور سماج کا بھی بھلا نہیں ہوتا ، مولانا ابو الکلام آزاد کے لفظوں میں ، ’’زبان حد درجہ محتاط ہونی چاہیے، کچھ اس طرح کے وقار وتمکنت اور سنجیدگی ومتانت آگے بڑھ کر ان کی بلائیں لینے لگے‘‘۔

اتوار, اپریل 09, 2023

تقسیم زکوٰۃ - چند گذارشات مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

تقسیم زکوٰۃ - چند گذارشات
 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی 
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ(9431003131)
 زکوٰۃ مالداروں پر فرض ہے اور اسلام میں مالداری کا تصور حوائج اصلیہ کے علاوہ ساڑھے باون تولہ چاندی یا ساڑھے سات تولہ سونا یا اس کی قیمت سے زیادہ مال کا ملکیت میں ہونا ہے، وجوب زکوٰۃ کے لیے اس زائد مال پر سال بھی گذر نا چاہیے، یہ سال تمام مسلمانوں کے مال پر ایک ساتھ تو گذر نہیں سکتا،اس لیے زکوٰۃ کے لیے سب کا مالی سال الگ الگ ہوتا ہے، یہ الگ سی بات ہے کہ بیش تر لوگ وجوب زکوٰۃ کے باوجود ادائیگی میں تاخیر کرتے ہیں اور رمضان المبارک کو اپنا مالی سال ادائیگی زکوٰۃ کے لیے سمجھتے ہیں، اس موقع سے کثرت سے زکوٰۃ کی تقسیم ہوتی ہے ۔
 زکوٰۃ کن لوگوں کو دینی ہے اس کے مدات قرآن کریم میں مذکور ہیں، فقرائ، مساکین، زکوٰۃ جمع کرنے والے عاملوں اور اس سے متعلق کام کرنے والے، تالیف قلب کے لیے غلام کو آزاد کرانے کے لیے ، قرض کی ادائیگی کے لیے ، اللہ کے راستے میں جہاد کرنے کے لیے اور مسافروں کے ساتھ نا گہانی حادثات کے موقع سے زکوٰۃ کی رقم دی جا سکتی ہے ، غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سارے مصارف وہ ہیں جن میں مسلمانوں کی شخصی ضروریات ، اجتماعی حفاظت اور حقیقی یا امکانی شرور وفتن کے دفاع کو ملحوظ رکھا گیا ہے، حضرت علامہ انور شاہ کشمیری ؒ نے فقر اور سفر کو تمام مدات کا خلاصہ بتایا ہے، بعض مدات میں ان دنوں بغیر کسی دلیل کے تیزی سے لوگ توسع کیے جا رہے ہیں، سارے لوگوں کی نگاہ زکوٰۃ پر ہے کتابیں بھی اس سے چھپوائی جا رہی ہیں، چلت پھر ت کا کام بھی اسی مد سے کرایا جا رہا ہے ، ایک بڑی رقم زکوٰۃ کی خود کفیل بنانے اور امپاورمنٹ کے نام پر صرف کی جا رہی ہے ، بعضوں کی تجویز تو یہ بھی ہے کہ زکوٰۃ کی رقم جمع کرکے کار خانہ کھول دو اور غیر مستطیع کو ملازمت سے لگادو، وہ سب خود کفیل ہو جائیں گے ،یہ غیر اسلامی تصور تیزی سے مسلمانوں میں پروان چڑھ رہا ہے، اتنا سرمایہ انفرادی طور پر جمع کرنا آسان کام نہیں ، اس لیے اجتماعی نظام زکوٰۃ کی اہمیت پر سمینار ، سمپوزیم کرکے ماحول کو سازگار کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ، یہاں بھی پریشانی یہ ہے کہ اجتماعی نظام زکوٰۃ کے قیام کے نام پر چند افراد مل کر ایک تنظیم بنا لیتے ہیں اور کام شروع کر دیتے ہیں، حالاں کہ اجتماعی نظام بغیر امیر کی اجازت کے قائم نہیں ہو سکتا، ہندوستان میں امارت شرعیہ مختلف صوبوں میں قائم ہے، وہاں کے امیر کی اجازت سے اجتماعی نظام قائم ہو سکتا ہے ، چونکہ مسلمانوں میں مسلکی اور تنظیمی بنیادوں پر بھی جماعت جمعیت اور امارت قائم ہے ، اس لیے جو جس جماعت سے متعلق ہے کم سے کم اس جماعت کے امیر کی اجازت تو لے لے، بیت المال کا قیام یقینا شرعی ضرورت ہے، لیکن اس کے قیام کے لیے بھی کچھ شرائط ہیں، ان کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے، ورنہ ہم ایک شرعی کام غیر شرعی انداز میں کرنے کے مرتکب ہوں گے ۔
 اس موقع سے مدارس کے سفراء بڑی تعداد میں زکوٰۃ کی وصولی کے لیے نکلتے ہیں، اس کام کے لیے ان کے پاس مختلف تنظیموں کے تصدیق نامے ہوتے ہیں، یہ ان طلبہ کے لیے زکوٰۃ کی رقم اکھٹی کرتے ہیں جو ان کے یہاں تعلیم حاصل کرتے ہیں اور غیر مستطیع ہوتے ہیں، اصلا یہ مہتمم ، ناظم صاحبان کے واسطے سے طلبہ کے وکیل ہوتے ہیں، ان کو دینے سے زکوٰۃ کی ادائیگی کا ثواب بھی ملتا ہے ، اور اشاعت دین کا بھی۔
 آج کل بہت سارے مدارس رسید پر ہی ہوتے ہیں، زکوٰۃ کی رقم دیتے وقت اس کی تحقیق کرلینی چاہیے، اس تحقیق کی تکمیل قابل ذکر اداروں کے ذریعہ دیے گیے تصدیق ناموں سے بھی ہوجاتی ہے، امراء کے یہاں ایک رواج یہ بھی چل پڑا ہے کہ وہ سابقہ ریکارڈ دیکھ کر رقم کی ادائیگی کرتے ہیں، اور اس طرح وہ بار بار کی تحقیق سے بچ جاتے ہیں، جن مدارس کے پاس پہلے کا رکارڈ نہیں ہوتا، انہیں یہ کہہ کر واپس کر دیتے ہیں کہ ’’ہم نئے مدرسے کو نہیں دیتے‘‘، یہ اچھی بات نہیں ہے ، ہو سکتا ہے وہ مدرسہ بہت معیاری ہو ،کمی صرف یہ ہے کہ آپ کے پاس پہلے نہیں پہونچ پایا تھا، آپ کو تحقیق کا تو حق ہے ، دینے کی گنجائش نہیں ہے تو معذرت اور معافی بھی ایک شکل ہے ، لیکن یہ جملہ ٹھیک نہیں ہے کہ ہم ’’نئے کو نہیں دیتے‘‘ اس لیے کہ اس جملہ کے بدلہ میں اگر اللہ نے آپ کو کچھ نئے دینے کا سلسلہ روک دیا تو آپ کی ساری امیری کچھ ہی دن میں غریبی میں بدل جائے گی۔
 محصلین کے ساتھ امراء کا رویہ عموما ہتک آمیز رہتا ہے ، اس سے بھی اجتناب ضروری ہے ، اکرام مسلم شرعی چیز ہے اور مسلمان بھی جو عالم حافظ قاری ہو اور اپنے لیے نہیں دینی تعلیم کے فروغ اور مہمانان رسول کی خدمت کے لیے اس کام کے لیے آپ تک پہونچا ہو ، ایسوں کی توہین اللہ رب العزت کی ناراضگی کا سبب بن جائے تو کچھ بعید نہیں۔
 یقینا محصلین بھی الگ الگ نو عیت کے ہوتے ہیں، سب متقی، پر ہیز گار اور شریعت کے پابند اس قدر نہیں ہوتے جیسا ہونا چاہیے، بعضے تو رکارڈ کو ادھر اُدھر کرنے اور جھوٹ بولنے سے بھی پرہیز نہیں کرتے،ایسے لوگوں کو اپنے اندر تبدیلی لانی چاہیے، محصلین میں ایک بات قدر مشترک ہونی چاہیے کہ وہ اس کام کو عزت نفس کے ساتھ کریں ، گڑگڑانا ، کاسہ لیسی کرنا ، خوشامد کرنا یہ علماء کے شایان شان نہیں ہے، ان کو ’’جو دے اس کا بھی بھلا اور نہ دے اس کا بھی بھلا‘‘ کے فارمولے پر عمل کرنا چاہیے،ا س سے کام میں برکت بھی ہوتی ہے اور عالمانہ کردار اور داعیانہ وقار بھی محفوظ رہتا ہے ۔
 زکوٰۃ کی ادائیگی کرتے وقت اپنے اعزواقرباء اور اپنے قرب وجوار کے غرباء ومساکین کا بھی خیال رکھیں ، پیشہ وارانہ لوگوں کی بات میں نہیں کرتا، ایسے لوگ جو روزی حاصل نہیں کر پا رہے ہیں اور ہاتھ پھیلا نے کی ذلت سے بچنا بھی چاہتے ہیں، ان کی حالت ایسی ہوتی ہے کہ انجان لوگ انہیں مالدار سمجھتے ہیں، حالاں کہ وہ غریب ہوتے ہیں، لپٹ کر مانگنا ان کا شیوہ نہیں ہوتا، ایسے لوگ ہماری توجہ کے زیادہ مستحق ہیں، اگر آپ انہیں مستحق زکوٰۃ سمجھتے ہیں تو بغیر بتائے بھی ان پر یہ رقم خرچ کر سکتے ہیں، زکوٰۃ آپ کی ادا ہوجائے گی۔

جمعرات, اپریل 06, 2023

ریان عالم کو تکمیلِ قرآن کریم پر مبارکبادی

ریان عالم کو تکمیلِ  قرآن کریم پر مبارکبادی
Urduduniyanews72

پھلواری شریف پٹنہ مورخہ05/اپریل 2023 (پریس ریلیز :محمد ضیاء العظیم) قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی وہ مقدس، محترم، معتبر اور پاکیزہ کتاب ہے جو جن وانس کی رشد وہدایت اورہنمائی کے لئے  نازل کی گئی ہے ۔ یہ انسانوں کی ہدایت ورہنمائی کے لئے اللہ رب العزت نے نازل فرمائی ۔یہ وہ عظیم مقدس اور محترم الہامی کتاب ہے جو مکمل تاریخ اور اثرو رسوخ کے ساتھ اپنا تعارف کراتا ہےے۔اسے چھونا، اسے دیکھنا، اسے  پڑھنا، اسے سمجھنا، اس پر عمل پیرا ہونا، اور اس کے پیغامات دوسروں تک پہنچانا یہ سب باعث اجراوثواب،اور سعادت مندی کی بات ہے ۔ کیوں کہ یہ کتاب محفوظ تھی، ہے،اور رہے گی،  اس کے حفاظت ضمانت کی ذمہ داری خود اللہ رب العزت نے لی ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے,, اِنَّا نَحۡنُ نَزَّلۡنَا الذِّكۡرَ وَاِنَّا لَهٗ لَحٰـفِظُوۡنَ ۞
ترجمہ:
 بیشک ہم نے ہی قرآن نازل کیا ہے اور بیشک ہم ہے اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ (الحجر :9)
اللہ رب العزت قرآن مجید کی حفاظت اورتلاوت سماعت اپنے مخصوص بندوں کے ذریعہ کراتے ہیں، انہیں مخصوص اور چنندہ بندوں میں حافظ قرآن ہیں جو اپنے سینے میں مکمل قرآن مجید محفوظ کرتے ہیں۔یقیناً تیس پارے کا حفظ کرکے اپنے سینے میں محفوظ رکھنا یہ بھی قرآن مجید کے معجزات میں سے ایک معجزہ ہے، قرآن مجید دنیا کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی، سنی جانے والی کتاب ہے ۔
محمد ریان عالم بن شاکر عالم البا کالونی پھلواری شریف پٹنہ نے رمضان المبارک کے بابرکت اور با سعادت موقع پر تکمیلِ قرآن کریم کی سعادت حاصل کی ہے ۔
واضح رہے کہ ریان عالم بن شاکر عالم نے مدرسہ ضیاءالعلوم (ضیائے حق فاؤنڈیشن) میں زیر تعلیم ہیں ۔
اس موقع پر ضیائے حق فاؤنڈیشن کی جانب سے ایک مختصر دعائیہ تقریب کا اہتمام کیا گیا جس میں ریان عالم کے اچھے مستقبل کے لئے دعا کی گئی ۔
فاؤنڈیشن کے تمام اراکین نے خوشیوں کا اظہار کرتے ہوئے بچے کے حق میں دعائیں دیں،
 فاؤنڈیشن کی چئیر پرسن ڈاکٹر صالحہ صدیقی نے کہا کہ قرآن کریم کی تلاوت بڑے سعادت کی بات ہے ہم بچے کے والدین اساتذہ کو مبارکبادی پیش کرتے ہیں ۔محمد ضیاء العظیم قاسمی برانچ اونر ضیائے حق فاؤنڈیشن نے بچہ کے والدین کو مبارکبادی پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ بچہ قوم وملت کے ساتھ ساتھ والدین کے لئے بھی ذریعۂ نجات بنے گا ، ہمیں چاہیے کہ ان بچوں کی خوب حوصلہ افزائی کریں اور ان کی تعلیم وتربیت کے لئے مزید بہتر سے بہتر نظم ونسق کریں ۔
ماہر نفسیات حافظ شارق خان ڈائریکٹر نظام العلوم فاؤنڈیشن سمن پورہ پٹنہ نے بھی بیحد خوشی ومسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ خوش نصیب ہیں ان کے والدین جن کی اولاد نے قرآن مجید کی تلاوت کی۔
ریان عالم کی والدہ بشریٰ صاحبہ نے بھی اساتذہ کا شکریہ ادا کیا ۔
آخر میں دعا کے ساتھ مجلس کا اختتام ہوا۔

منگل, اپریل 04, 2023

تقسیمِ زکوٰۃ کا نظام ٭ انس مسرور ؔ انصاری


تقسیمِ زکوٰۃ کا نظام 
 ٭ انس مسرور ؔ انصاری 
Urduduniyanews72
 اسلام ایک مکمل نظامِ زندگی اور ضابطۂ حیات ہے،اس صداقت سے کوئی بھی مسلمان،مسلمان ہونے کے بنیادی عقیدہ کی بنا پر انکار نہیں کر سکتا۔اسلام کی یہ سب سے بڑی خوبی ہے کہ وہ ر وحا نیت اور مادیت کے متضاد نظریوں کے درمیان کوئی حدِ فاصل نہیں کھینچتا۔ دیگر مذاہب کی طرح صرف راہبانہ زندگی کی ترکیب نہیں دیتا بلکہ ایک ایسے متوازن اور صحیح راستہ کی طرف رہنمائی کرتا ہے جس سے دینی اور دنیاوی دونوں تقاضے پورے ہو جاتے ہیں۔اس کی عظیم صفت یہ ہے کہ آدمی کی پیدائش سے موت تک تمام شعبۂ حیات و کا ئنا ت میں انسان کی رہبری اس نہج پر کرتا ہے کہ آخرت بھی سنور جاتی ہے اور دنیاوی ضرورتوں کی تکمیل بھی ہو جاتی ہے۔ چنانچہ انسانی سماج کی فلاح واصلاح اور استحکام کے لیے اسلام کی طرف سے جو ہدایات اور احکام جاری ہوئے وہ سب کے سب عباد ا ت کادرجہ رکھتے ہیں۔ 
 اسلام کے بنیادی پانچ ارکان میں روزہ بھی ایک رکنِ عظیم ہے۔روزہ کے متعلق قرآن میں ہے کہ؛ ‘‘ روزہ کا مہینہ رمضان ہے جس میں قرآن کا نزول شروع ہوا ہے اور قرآن لوگوں کا رہنما ہے اور اس میں ہدایت اور حق وباطل کی تمیز کے کھلے کھلے حکم موجود ہیں۔ تو مسلمانو! جو تم میں سے اس مہینہ میں زندہ وموجود ہو تو چاہئے کہ مہینہ کے روزے رکھے۔اور جو بیمار ہو یا سفر میں ہو تو دوسرے دنوں میں گنتی پورے کرلے۔اللہ تمھارے ساتھ آسانی کرنا چاہتاہے،اور تمھارے ساتھ سختی نہیں کرنا چاہتا،اور یہ حکم اس نے تمھیں اس لیے دیئے ہیں تاکہ تم کو جو راہِ راست اللہ نے دکھائی ہے اس نعمت پر اس کی بڑائی اور تعریف بیان کرو اور تاکہ تم اس کا احسان مانو۔’’ 
 (القرآن، مفہوم )
 روزہ عبادت ہے، حکمِ خداوندی کی تکمیل ہے۔آدمی بھوکا رہ کر بھوک کی اذیت اور تکلیف کو اچھی طرح محسوس کر لیتاہے اور اسے غریب ونادار اور افلاس زدہ انسانوں کی دشوار کُن اور صعوبتوں سے بھری ہوئی زندگی کو سمجھنے میں آسانی ہو تی ہے۔غور طلب یہ ہے کہ روزہ کے فوراََ بعد زکوٰۃ کا نمبر آجاتا ہے۔زکوٰۃ بھی اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک رکن ہے۔زکوٰۃ ہر آزادو خود کفیل مسلمان پر واجب ہے۔ یہ مال کا چالیسواں حصّہ ہوتا ہے اور شرائطِ مقررہ کے بموجب اس کی ادائیگی واجب ہے۔زکوٰۃ کے بارے میں یہ بھی ہے کہ جب بھی دی جائے تو بہ رضا و رغبت اور بہ خوشی دی جائے نہ کہ جبرو کراہت اور مجبوری کے سبب ۔! زکوٰۃ دے کر احسان نہیں جتانا چاہئے۔ قرآن پاک میں ہے کہ ۔؛ نرمی سے جواب دینا اور سائل کے اصرار سے در گزر کرنا اس خیرات سے بہتر ہے جس کے پیچھے سائل پر کسی طرح کا احسان جتایا جائے، اور اللہ بے نیاز اور بُرد بار ہے۔’’
 ‘‘مسلمانو! خدا کی راہ میں ان عمدہ چیزوں میں سے خرچ کرو جو تم نے تجارت وغیرہ میں کمائی ہوں اور جو ہم نے تمہارے لئے زمین سے پیدا کی ہو ں ۔’’
 ‘‘اور جو لوگ خدا کی رضا کے لئے اپنی نیت ثابت رکھ کر اپنے مال خرچ کرتے ہیں ان کی مثال ایک باغ کی سی ہے جو انچی سطح پر واقع ہے ۔اس پر اگر زور سے پانی برسا تو وہ دو چند پھل لایا اور اگر اس پر زور کا پانی نہ بھی برسا تو اس کی ہلکی پھواریں بھی کافی ہیں اور تم لوگ جو کچھ بھی کرتے ہو اللہ تعالیٰ اس کو اچھی طرح دیکھ رہا ہے۔’’
 ادھر آپ بھوک کی اذیت سے واقف ہوئے اور ادھر حکم ہوا کہ:۔مسلمانو زکوٰۃ دو۔گویا اسلام نے خدا کی راہ میں خرچ کرنے کے جذبہ کی تحریک کے لیے پہلے ایک ایسے عمل کا حکم دیا جسے ‘‘روزہ’’ کہتے ہیں۔یہاں زکوٰۃ سے متعلق چند باتوں کا ذکر بے محل نہ ہوگا۔
 اسلام نے افراد کی ملکیت اور دولت جمع کرنے کے حق کو تسلیم کیا ہے ، جائز طریقوں سے دولت پیدا کرنے کی ترغیب دی ہے لیکن اسی کے ساتھ ہی انھیں اس جمع کی ہوئی دولت کا امین قرار دیا ہے ۔یعنی ان کے پاس جو دولت ہے وہ قوم کی امانت ہے۔اور یہ کہ اپنے جائز تصرف کے بعد اس کی شکل قومی سرمایہ کی ہوگی۔یہ دولت وقتِ ضرورت قومی ضروریات پر صرف کی جا سکتی ہے۔ اسلامی تاریخ میں بہت کم ایسا وقت آیا ہے جب قومی اصراف کے لئے ریاست کو اپنے قومی فنڈ (بیت المال) میں دولت مند لوگوں سے چندہ جمع کرانا پڑا ہو، حا لانکہ سماج میں دولت کی مساوی تقسیم یا تکمیلِ ضرورت کے لئے ایسا بار بار ہونا چاہئے تھا لیکن ایسا نہ ہونے کی اصل وجہ یہ ہے کہ اسلام نے افراد کی جمع کی ہوئی دولت پر زکوٰۃ کی شکل میں براہِ راست ٹیکس لگا کر اسے ایک جگہ جمع ہونے سے روک دیا ہے اور وراثت کی وسیع تقسیم کے ذریعے سے ا یک ہی جگہ املاک کے انجماد کو نا ممکن بنا دیا ہے ۔
 زکوٰۃ دنیا کا واحد ٹیکس ہے جس میں ریاست کی مجلسِ منتظمہ کا کوئی دخل نہیں ہوتا ۔سماج میں دولت کی مساوی تقسیم سے متعلق اسلام نے ا پنے اقتصادی نظام کے نظریہ کو ایسی عملی شکل دی ہے کہ ا سلا می تاریخ میں ایسا بھی دور آیا ہے جب پوری ریاست میں ایک فرد بھی ایسا نہیں ملا جو خود کفیل نہ ہو۔نادار ہو اور زکوٰۃ لینے کا مستحق ہو۔لوگ زکوٰۃ کو لیے لیے پھرتے اور پریشان ہوتے کہ کوئی حقدار اور مستحق مل جائے لیکن کوئی نہیں ملتا تھا۔مجبوراََ زکوٰۃ کی رقم ریاست کے بیت المال میں جمع کر دیتے ۔یہ اسلام کے اقتصادی نظام کی آفاقی خوبیاں ہیں۔ 
 اسلام نے بھیک مانگنے اور کسی انسان کو کسی انسان کا محتاج رہنے کو معاشرہ کی بڑی لعنت قرار دیا ہے۔انسان صرف خدا کا محتاج ہے اور اُسی کے آگے ہاتھ پھیلا سکتا ہے۔اسلام نے قومی اقتصادیات کو معتدل و متوازن رکھنے کے لئے جہاں بیکار افراد کو محنت و مشقت کی طرف راغب کیا ،ان کی روزی روٹی کے لئے وسائل و ذرائع فراہم کیے۔ وہیں برسرِ روزگار طبقہ اور دولت مندوں کو تاکید بھی کی ہے کہ وہ اپنی دولت اور سرمایہ کو قومی امانت سمجھیں اور جائز ضروریات کے علاوہ جو کہ ان کے متعلقین اور ان کے لئے کافی ہوں،غیر شر عی طور پر 
ایک حبّہ بھی اپنے تصرف میں نہ لائیں۔یہی وجہ ہے کی نظامِ اسلام کے دائرۂ اختیار میں جو ادوار گزرے ان میں مسلم قوم دنیا کی سب سے زیادہ خوش حال اور مال دار قوم رہی ہے۔
 زکوٰۃ کے ذریعہ اسلام نے مسلم معاشرت اور اس کی اقتصادیات کو مستحکم و منظم اور مربوط کر دیا ہے۔آج نہ صرف ہندوستان بلکہ کئی ممالک اپنے سماج کو غربت کی لعنتوں سے پاک رکھنے کے لیے ‘‘غریبی ہٹاؤــ’’ کے نعرے لگاتے لگاتے تھک ہار چکے ہیں لیکن ہنوز یہ نعرہ بے اثر ثابت رہا ہے۔روز نت نئی پالیسیاں مرتب کی جاتی ہیں اور ان پر سختی کے ساتھ عمل کرنے کی تاکید کی جاتی ہے لیکن سماج سے ٖغربت و افلاس کو دور رکھنے کے لئے اسلام نے زکوٰۃ کے جو اصول وضع کئے ہیں اگر ان کو صحیح انداز سے برتا جائے تو مسلم معاشرہ کو ‘‘غریبی ہٹاؤ’’ کے نعرے کی کبھی ضرورت پیش نہ آئے گی۔زکوٰۃ کے ذریعہ مسلم معاشرہ میں دولت کی نسبتاََ مساویانہ تقسیم کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ زکوٰۃ کی رقم کو اجتماعی طور پر جمع کیا جائے ۔ یعنی اگر ایک علاقہ میں دس افراد ایسے ہیں جو ہر سال زکوٰۃ نکالتے ہیں تو انھیں چاہئے کہ فرداََ فرداََ تقسیم کرنے کے بجائے ،دسوں آدمیوں کی زکوٰۃ کو اکٹھا جمع کر لیا جائے اور اس بھاری رقم کو کسی ایک یا ایسے چند آدمیوں کو دے دی جائے جو مسلم سماج کے پسماندہ اور پچھڑے ہوئے لوگ ہوں تاکہ وہ بر سرِ روز گار ہو جائیں نیز یہ کہ ممکن حد تک ان کے کارو بار کی نگرانی و سر پرستی بھی کی جائے تاکہ وہ ترقی کر سکیں اور آئندہ سال وہ خود بھی زکوٰۃ دینے کے قابل ہو سکیں۔اس طرح کچھ پچھڑے ہوئے لوگ زکوٰۃ کے سہارے ہر سال اوپر اٹھ کر ز کوٰ ۃ نکال سکیں گے اور زکوٰۃ کی رقم میں اضافہ ہوتا جائے گا۔پھر مسلم سماج کو غربت کی لعنت سے چھٹکارا حاصل کرنے میں زیادہ عرصہ نہیں لگے گا۔اس مسلم سماج کو ‘‘غریبی ہٹاؤ’’ کے نعرے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔
 زکوٰۃ کے اوّل مستحق آپ کے رشتے دار،اقرباء، پڑوسی، محلّہ اور شہر کے غرباومساکین ہیں۔ پھر درجہ بہ درجہ اور لوگ ہیں۔ ارشادِ نبوی ہے کہ ‘‘ زکوٰۃ مال کا میل ہے۔ ’’ تو چاہئے کہ مال کے میل سے دین کا علم حاصل کرنے والے مدارس کے طلباء کی دینی تعلیم کا انتظام کرنے کے بجائے صاحبِ ثروت اور صاحبِ خیر حضرات اپنے پاکیزہ اور اصل مال سے اُ ن کی مدد کریں۔ارشادِ نبوی ہے کہ ایسے حاجت مندوں کو تلاش کرو جو زکوٰۃ کے مستحق تو ہو تے ہیں لیکن غیرت اور حیا کی وجہ سے کسی سے کچھ طلب نہیں کر تے۔ زکوٰۃ دینے والے کو اگر یہ نہ بتایا جائے کہ یہ زکوٰۃ کی رقم ہے اور دل میں صرف نیت کر لی جائے تو بھی زکوٰۃ ادا ہو جائے گی۔اور زکوٰۃ لینے والا شرمندگی سے بچ جائے گا۔ حدیثِ نبوی میں ہے کہ مسلمان،مسلمان کا بھائی ہے،توجب اپنے بھائی کو مصیبت میں پاؤ تو ہر طرح اس کی مدد کرو۔جسمانی مدد بھی اور مالی مددبھی۔مسلمان اس عمارت کی طرح ہیں جس کی انیٹیں ایک دوسرے میں پیوست ہوتی ہیں۔مسلمان گویا ایک جسم کی طرح ہیں کہ اگر ایک عضو کو تکلیف پہنچتی ہے تو سارے اعضاء اس تکلیف سے متاثر ہو تے ہیں۔
 تقسیمِ زکوٰۃ کا یہ طریقہ اس کا صحیح مصرف اور مسلم سماج کی ترقی کا واحد ذریعہ ہے ۔آج ہمارے سماج میں ایسے لوگ آسانی سے مل جائیں گے جو محنت اور جدو جہد تو کرتے ہیں لیکن سرمایہ کی کمی اور محدود وسائل کے سبب ترقی نہیں کر پا رہے ہیں۔غریبی اور تنگدستی کی و جہ سے ان کی لڑکیوں کی شادیاں محال ہوتی ہیں لیکن زکوٰۃ کے ذریعہ انھیں اس لائق بنایا جا سکتا ہے کہ وہ خوش حال ہو کر اپنی لڑکیوں کی شادیاں کر سکیں اور اپنے بچوں کو بہتر طور پر تربیت دے کر انھیں اعلیٰ تعلیم دلا سکیں۔پھر اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے یہی بچے ایک روزمسلم سماج کے استحکام و اصلاح اور ترقی کا ذریعہ ہوں گے۔ہمارے سماج میں ایسے خوش حال مسلم افراد کی بھی کمی نہیں ہے جو ہر سال زکوٰۃ کی کافی بڑی

 رقم نکالتے ہیں لیکن اس رقم کو اتنے حصوں میں تقسیم کرتے ہیں کہ اس سے کسی کو بھی فائدہ حاصل نہیں ہو پاتا او ر زکوٰۃ کا مقصد فوت ہو جاتا ہے۔ لوگو! اپنے اصل مال ہی کی طرح اپنی ز کا ۃ کے مال کی بھی حفاظت کرو۔ایسے لوگوں سے بچو جو زکوٰۃ کو تجارت بنائے ہوئے پچاس اور ساٹھ فیصد کمیشن پر شہروں شہروں،قصبوں قصبوں، گلیوں گلیوں روداد اور رسید بغل میں دبائے گھو متے پھرتے ہیں اور غریبوں، یتیموں، مسکینوں ،ا ور نادار مسلمانوں کے حقوق کو سمیٹ کر لے جاتے ہیں۔پھر ‘‘ حیلۂ شرعی’’ کر کے مستحقین کے غصب شدہ ما ل سے اونچی اونچی عمارتیں بناتے ہیں۔اپنے خاندان کی پرورش کرتے ہیں۔ان سے ہو شیار رہو ۔کہیں ایسا نہ ہو کہ تم زکوٰۃ بھی ادا کرو اور وہ ادا بھی نہ ہو۔ اور مسلم سماج میں بھیک مانگنے والوں کی تعداد بڑھتی رہے اور بڑھتی ہی رہے ۔اس کا کبھی خاتمہ نہ ہو۔اس لیے بہتر طریقہ یہ ہے کہ ‘‘بیت المال’’ کو رواج دو تاکہ مستحق کو اس کا وہ حق مل سکے جو اللہ اور اس کے محبوب رسولﷺ نے اسے د یا ہے۔ لوگو ! اللہ سے ڈرو اور اس کی قائم کردہ حدوں کو نہ تو ڑو۔ قرآن حکیم میں صاف اور صریح طور پر بتا دیا گیا ہے کہ زکوٰۃ کے مستحق کون لوگ ہیں ۔ جہاں تک معاملہ عربی مدارس کا ہے تو مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اپنے اصل ما ل سے ان اداروں کو چلائیں۔مدارس کے طلباء کی مدد کریں اور دین کا علم حاصل کرنے والوں کو اپنی خوشیوں اور دکھوں میں اس طرح شریک رکھیں کہ اُن کی عزت اور توقیر میں اضافہ ہو۔ دینی اور عصری علوم کی تحصیل میں ہر طرح ان کی مدد کریں،معاونت کریں۔یہ بڑے اجر و ثواب کا کام ہے۔اور یاد رکھو کہ اللہ تبارک و تعالیٰ تمھارے ہر عمل کو دیکھ رہا ہے۔ اس سے ڈرتے رہو۔ یقیناََ تم ہی فلاح پاؤ گے۔

       * انس مسرورانصاری
           قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن
              سکراول، اردو بازار، ٹانڈہ۔ 
                  امبیڈکر نگر (یو، پی) 
         وہاٹس ایپ /9453347784

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...