Powered By Blogger

اتوار, اپریل 16, 2023

حقیقی خراج عقیدت !راقم الحروف ہمایوں اقبال ندوی ،ارریہ ۲۳/رمضان المبارک ۱۴۴۴ھ

حقیقی خراج عقیدت !
Urduduniyanews72
روزانتقال سے ہی حضرت مولانا محمد رابع حسنی رحمۃ اللہ علیہ کے وصال پر تعزیت کا سلسلہ جاری ہے،تحریر وتقریر کے ذریعہ حضرت کی خوبیوں پر  روشنی ڈالی جارہی ہے،پڑھ کر ہماری معلومات میں اضافہ ہوتاہے اور قیمتی باتیں معلوم ہوتی ہیں کہ مولانا مرحوم ملک ہی ہی نہیں بلکہ عالم اسلام میں ہندوستان کی نمائندگی کررہے تھے،آپ عربی کےبہترین ادیب اور ناقد بھی تھے، پچاسوں کتابوں کی تصنیف وتالیف  کاکارنامہ انجام دیا ہے اوربڑے بڑے مناصب جلیلہ پر آپ فائز رہے ہیں، نیز انعام واکرام سے نوازے بھی گئے ہیں،
واقعی یہ شرف وعزت کی باتیں ہیں جو ایک انسان کو معزر بنادیتی ہیں، مگر آپ کو جو مقبولیت ومحبوبیت حاصل ہوئی ہےاس کی وجہ اور بھی ہے،
حضرت علی میاں رحمۃ اللہ علیہ کے آپ سچے جانشین ہیں،یہ بات سبھی جانتے ہیں اور تحریر میں بھی لکھتے رہے ہیں، حضرت علی میاں رحمۃ اللہ علیہ کے آپ خلیفہ ومجازہیں، چاروں سلسلے(قادریہ، نقشبندیہ، چشتیہ، اور سہر وردیہ )سے آپ کو اجازت حاصل ہے،یہ  موضوع  تشنہ رہ جاتا ہے، جبکہ خانوادہ حسنی کی وجہ فضیلت صلاحیت کے ساتھ صالحیت ہے، دارالعلوم ندوةالعلما کی شناخت ایک بڑے دانشگاہ کی رہی ہے، یہاں کی صلاحیت کے سبھی معترف رہے ہیں مگر صالحیت کا جامع بنانے میں خانوادہ حسنی کا بڑا نمایاں  کردار رہا ہے، حضرت علی میاں رحمۃ اللہ علیہ نے اس تعلق سےبڑی محنت کی ہے، اور مولانا محمد رابع حسنی رحمۃ اللہ علیہ نے مولانا علی میاں رحمۃ اللہ کی سچی جانشینی کا حق ادا کیا ہے،اس وقت ملک میں سینکڑوں مدارس ہیں جودارالعلوم ندوۃ العلماء سےملحق ہیں، انمیں پڑھانے والے بیشتر اساتذہ کرام مولانامرحوم  سے بیعت وارشاد کا تعلق رکھتے ہیں، 
حضرت رائے پوری رحمۃ اللہ علیہ نے مولانا محمد رابع حسنی کو بیعت تو کرلیا مگر یہ جملہ بھی ارشاد فرمایا کہ علی میاں یہ تمہارے ہیں، حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے مولانا علی میاں کو مجمع الکمالات کہا ہے، اور ان کی جانشینی کا کام اللہ نے حضرت مولانا محمد رابع حسنی سے لیا ہے، بقول حضرت مولانا بلال حسنی صاحب کہ، مولانا کو ایسی فنائیت نصیب ہوئی جو بڑے بڑے اللہ والوں کو نہیں ہوتی ہے، مولانا مرحوم جیسی شخصیت بہت کم پیدا ہوتی ہے، اللہ نےآپ کوحسن خاتمہ بھی نصیب کیا،ظہر کے وقت کہا کہ مجھے فورانماز ادا کراؤ، جماعت کے ساتھ ظہر کی نماز ادا کی، نماز بعد طبیعت بگڑ گئی، ڈیڑھ گھنٹے میں انتقال ہوگیا، اللہ اللہ  کرتے دنیا سے چلے گئے،حقیقی معنوں میں وہ برکتہ الدنیا تھے، یہ درحقیقت مولانا کی مقبولیت اور محبوبیت کی وجہ ہے،جنازہ سے پہلے کی تقریر میں حضرت مولانا سید بلال عبدالحی حسنی ندوی نے یہی باتیں پیش کی ہیں، ملاحظہ کیجئے؛
حضرات  !  "جو ایمان والے اچھا کام کرتے ہیں اللہ ان کی محبت لوگوں کے دلوں میں ڈال دیتا ہے،یہاں کا پیغام توحید وسنت ہے،یہاں مجمع آیا ہوا ہے، حضرت شاہ علم اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی یہ مسجد ہے،انہوں نے اس کی بنا اسی لئے ڈالی، حضرت سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ نے یہی سکھایا ہے، بعد کے لوگوں نے یہی سکھایا ہے، حضرت علی میاں رحمۃ اللہ علیہ نے یہی سکھایا، ان کے جانشین حضرت مولانا محمد رابع نے بھی یہی سکھایا ہے، اسی پر جینا اسی پر مرنا ہے، ہم فکر کریں کہ اللہ کے بندے ایمان میں آئیں، میرے بھائیو! یہی سبق لو،ہمارے حضرت نے ابھی دوہفتے پہلے بیان کیا،فرمایا؛دنیا کتنے دن کی ہے؟ یہ ختم ہوجائے گی، جو آیا ہے فانی ہےوہ جائے گا، کامیاب کون ہے؟جو اللہ کو راضی کرکے جائے اور اللہ اس سے خوش ہوجائے، یہی اصل ہے،یہاں مجمع آیا ہے، ہم مجمع سے کہتے ہیں، یہاں کا یہ پیغام ہے،یہی حضرت کا پیغام ہے،ساری زندگی کہتے رہے،ابھی چند روز پہلے کی بات ہے، حضرت فرمارہے تھے کہ مسلمانوں کا کیا حال ہوگیا ہے، ایک طرف مسلمان بے بس بھی ہیں اور بے دین بھی ہیں، ہمیں اللہ پر یقین پیدا کرنا ہے، اسی دین پر جینا ہے اور مرنا ہے، صرف اپنی فکر نہیں بلکہ سب کی فکر کرنی ہے،یہ پیغام لےکر جائیے کہ ہمیں دین پر مرنا ہے اور دین کے لئے جینا ہے، ایک نقطہ سے بھی ہم دستبردار نہیں ہو سکتے ہیں، جان رہے یا جائے،اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دین کے لئے اپنا سب کچھ قربان کر دیا، یہ نبی کی سنت ہے، خدا کا کام پیدا کرنا ہے اور دنیا کا نظام بھی چلانا ہے، یہ دنیا کا نظام اللہ چلا رہا ہے، آپ کیا سمجھتے ہیں؟سب اللہ کے ہاتھ میں ہے،سب اللہ ہی چلارہا ہے،کبھی اپنے دشمنوں کو کھڑا کردیتا ہے، اپنے دوستوں کی غلطی پر دشمنوں سے پٹواتا ہے،دوستو ! ہمیں توبہ کرنی چاہئے، یہی یہاں کا پیغام ہے،اللہ کے ولی کے جنازے میں آپ شریک ہونے، یہاں سے یہ پیغام لیکر جائیے، حضرت مولانا بار بار کہتے تھے کہ ہر آنے والے کوکچھ سبق دو،جو لوگ یہاں آئیں خالی ہاتھ نہ جائیں، ان کو تحفہ دو، ایمان کا تحفہ دو،سنتوں کا تحفہ دو،یہاں کے بزرگوں نے جس کے لئے اپنی جانیں دیں،حضرت سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ اسی راہ میں شہید ہوئے ہیں "۔
واقعی حضرت مولانا سید بلال عبدالحی حسنی ندوی مدظلہ العالی نے مولانا مرحوم کی مقبولیت کی تاریخی وجہ بیان فرمادی ہے ،سب سے بڑی بات یہ کہ حضرت مولانا محمد رابع حسنی رحمۃ اللہ علیہ کے جنازہ کو بھی دعوت بنادیا ہے، اس سے زیادہ حقیقی خراج عقیدت مولانا مرحوم کے حق میں اور کیا ہے؟
راقم الحروف 
ہمایوں اقبال ندوی ،ارریہ 
۲۳/رمضان المبارک ۱۴۴۴ھ 
رابطہ، 9973722710

ہفتہ, اپریل 15, 2023

روزے کی طبی وسماجی جہتیں __

روزے کی طبی وسماجی جہتیں __
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
رمضان المبارک کے روزوں کی اہمیت و افادیت مسلم ہے، اس کی اہمیت کی تین جہتیں ہیں، پہلی جہت یہ ہے کہ روزہ اسلام کے بنیادی پانچ ارکان میں سے ایک ہے اور اس کی ادائیگی تمام مسلمان، عاقل، بالغ، مقیم، کے لئے ضروری ہے۔ حاملہ، دودھ پلانے والی ، حیض و نفاس والی اور مسافر شرعی کے لئے روزہ کو مو خر کرنے اور بعد میں ادائیگی کی گنجائش ہے، ان اعذار کی وجہ سے روزہ ساقط نہیں ہوتا، صرف رمضان میں نہ رکھ کر بعد کے دنوں میں رکھنے کی سہولت مل جاتی ہے، یہی حال مریض کا ہے، اسے بھی بعد میں صحت یاب ہونے پرروزہ کی قضاکرنی ہوتی ہے۔ اگر کوئی مریض ایسا ہو ، جس کے مستقبل میں صحت یاب ہونے کی امید نہ ہو یا اس قدر بوڑھا ہو کہ روزہ رکھنے سے اس کی جان پربَن آنے کا اندیشہ ہو تو ایسے مریضوں اور بوڑھوں کے لیے روزے کی قضا کے بجائے شریعت میں فدیہ کی سہولت موجود ہے ، فدیہ ایک روزہ کا ایک صدقہ  فطر کے بقدر ہے ،البتہ اس فہرست میں وہ لوگ نہیں ہیں جو اصلاً مریض نہیں ہوتے، روزہ رکھنے کے ڈر سے مریض ہوجاتے ہیں اور بھول جاتے ہیں کہ اللہ رب العزت دلوں کے احوال سے واقف ہے۔ ایسے لوگوں کو جان اور سمجھ لینا چاہیے کہ برکت اور فضیلت والے یہ شب و روز گذر گئے تو اس کی واپسی اگلے سال ہی ہوپائے گی اور اگلا سال کس نے دیکھا ہے، موت کب آئے گی، کس کو پتہ، اس لیے ان ایام کی قدر کرنی چاہیے، روزہ، تراویح، تلاوت قرآن، تہجد، اوراد و اذکار،اعتکاف، خیر کے کاموں میں مشغولیت، شر کے کاموں سے اجتناب میں رمضان المبارک کے اوقات کو گذارنا چاہیے۔ یہ چند ہی ایام تو ہیں، دو عشرہ گذر گیا، ہم تیسرے میں داخل ہوگئے۔ اللہ کی رحمت ،مغفرت  کے بعد یہ تسرا عشرہ  جہنم سے گلوخلاصی کاشروع ہوگیا ہے۔ یہ آخری عشرہ پہلے دونوں عشرہ سے بھی زیادہ قیمتی ہے، اسی عشرہ میں شب قدر کی تلاش کا حکم دیا گیا ہے جو اس عشرہ کی طاق راتوں میں سے کوئی ایک رات ہوگی، تلاشیئے گا تو پائیے گا، راتیں سو کر گذار دیجئے گا تو محروم رہ جائیے گا، محرومی بھی کیسی؟ ایک ہزار مہینے کی راتوں کی عبادت سے زیادہ کے ثواب سے، لیکن کیا کہیے؟ بہت سارے مسلمانوں پر یہ راتیں بھی یوں ہی گذر جاتی ہیں اور ان کے دل میں اللہ سے قریب ہونے اورگناہوں کی مغفرت کرالینے کا خیال ہی نہیں آتا، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے لوگوں پر لعنت فرمائی ہے؛ جو رمضان کا مہینہ پانے کے بعد بھی اپنی مغفرت کا سامان نہ کرلے۔ شب قدر یقینی طور پر مل جائے اس کے لئے آخری عشرہ کا اعتکاف بہت مفید ہے۔ جوکوئی 21رمضان کی شب سے علائق دنیا اور مشغولیت کو چھوڑ کریک سوہو کر اللہ کے گھر میں جا بیٹھا اور دس دن مسجد میں رہا، اسے شب قدر کا ملنا یقینی ہے؛ کیوں کہ وہ تو اللہ کے در پر پڑا ہی ہوا ہے، شب قدر اس سے بچ کر نکل ہی نہیں سکتی۔ اور مڑدہ مغفرت یقینی ہے، بشرطیکہ یہ عمل اخلاص، ایمان اور احتساب کے ساتھ کیا جائے، ریاکاری، نمود و نمائش اور شہرت طلبی کا اس میں گذر نہ ہو۔اعتکاف کے معاملہ میں ہمارے یہاں سستی پائی جاتی ہے ، یقینا پورے محلہ اور گاو  سے ایک آدمی کا اعتکاف میں بیٹھ جانا پورے محلہ اور گاو ں کو گناہگار ہونے سے بچالیتا ہے، لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ مسجد کے امام کو روپے کی لالچ دے کر اعتکاف کرنے پر مجبور کیا جائے، یا کسی مزدور کو اجرت پر معتکف کیا جائے۔
روزہ کی دوسری جہت طبی ہے، میڈیکل سائنس دانوں کا اس پر اتفاق ہے کہ روزہ رکھنے سے جسم کی بہت ساری بیماریاں دور ہوتی ہیں، روزہ معدے کی تکلیف، نظام ہضم، شوگر لیول،کولیسٹرول اور بلڈپریشر کو معتدل رکھتاہے، جس کی وجہ سے دل کے دورہ کا خطرہ کم ہوتاہے، موٹاپے میں کمی آتی ہے اور غیر ضروری چربی سے آدمی کو نجات ملتاہے، انسان اعصابی امراض میں افاقہ محسوس کرتاہے، کھال اور چھاتی کے کینسر کے خطرات میں کمی آتی ہے، معجم الاوسط میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث بھی نقل کی گئی ہے کہ صوموا تصحوا یعنی روزہ رکھو، صحت مند ہوجاو گے، اس حدیث کی شرح میں علامہ عبد الرو وف مناوی نے لکھا ہے ، جسے مشہور کتاب فیض القدیر (ج 4ص 280)میں نقل کیا ہے کہ روزہ روح کی غذا ہے، جس طرح کھانا جسم کی غذا ہے، روزہ رکھنے سے دنیا میں بندے کو صحت و تندرستی اور وافر مقدار میں رزق ملتاہے، جب کہ آخرت میں اسے بڑا ثواب ملے گا۔
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ رمضان المبارک میں روح کی گندگیاں اور کثافتیں تو دور ہوتی ہی ہیں، انسانی جسم اور دیگر اعضاءرئیسہ کو بھی بے پناہ فوائد حاصل ہوتے ہیں، جسم سے زہریلے مادہ کا اخراج اعضاءکے نظام کو چست و درست رکھنے میں معاون ہوتاہے۔ یہ روزہ کا ایک اورفائدہ ہے، جس کی طرف لوگوں کی توجہ کم جاتی ہے۔ لیکن روزہ اللہ کے لئے ہی رکھنا چاہیے اور فرض کی ادائیگی اور اجر و ثواب کی نیت سے ہی رکھنا چاہیے اس کے علاوہ جو فوائدہیں وہ تو ہر حال میں حاصل ہوکر رہیں گے، اس لیے روزہ کو دوسرے فوائد کے حصول کی نیت سے آلودہ نہیں کرنا چاہیے؛ کیوں کہ اسلام میں اعمال کا مدار نیتوں پر ہے اور اللہ کو اخلاص کے ساتھ کی گئی عبادت مطلوب ہے، چاہے نماز ہو یا روزہ ، زکوٰة ہو یا حج۔ سب اخلاص کے ساتھ ہی ہونی چاہیے۔
روزہ کی تیسری جہت ہمدردی و غم گساری ہے، غرباء، فقراءاور مساکین کی ضرورتوں کی تکمیل ہے، رمضان کے بارے میں حضرت سلمان فارسیؓ کی ایک روایت حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے اس میں رمضان کو شہرمواساة یعنی غم خواری کا مہینہ قرار دیاگیا ہے آقا صلی اللہ علیہ وسلم اس ماہ سے زیادہ کسی ماہ میں سخی نہیں ہوا کرتے تھے، مسلمان عام طور سے اسی ماہ میں زکوٰة بھی نکالتے ہیں، یہ بھی ضرورت مندوں کی ضرورتوں کی تکمیل کا بہترین ذریعہ ہے، اس کے علاوہ رمضان المبارک میں مسلمانوں پر صدقہ  فطر کی ادائیگی بھی ضروری قرار دیاگیاہے غم خواری اور ہمدردی کا اظہار بڑے پیمانے پر ہو، اس کے لئے صدقہ  فطر عام مسلمانوں پر واجب قرار دیا گیا، اور اس میں روزہ دار غیر روزہ دار بڑے بوڑھے، عورت مرد اور بچوں تک میں تفریق نہیں کی گئی، عید کی چاند رات کو صبح صادق سے پہلے جو بچہ پیدا ہوا، اس کی جانب سے بھی صدقہ فطر کی ادائیگی کرنی ہوتی ہے، اس کا بڑا مقصد یہ ہے کہ عید کے دن کی خوشیوں میں غرباءو مساکین کی شرکت بھی ہوسکے۔ اور اللہ کی میزبانی کے اس خاص دن میں کوئی مسلمان بھوکا نہ رہے اورضروریات کی تکمیل کے لئے اس کے پاس رقم دستیاب ہو۔ ایک اور مقصد روزہ داروں کی جانب سے صدقہ  فطر کی ادائیگی کی شکل میں یہ بھی ہے کہ روزہ میں جو کمی کوتاہی رہ گئی ہو اس کی تلافی صدقہ  فطر کے ذریعہ کی جائے، اس سلسلے میں احادیث کی کتابوں میں حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسکینوں کے کھانے اور روزوں کو لغو اور گناہوں سے پاک کرنے کے لئے صدقة الفطر کو لازم کیا ہے۔ ظاہر ہے صدقة الفطر مال دینے سے ادا ہوگا تو اس کے لئے مالدار ہونا بھی ضروری ہے۔ اسلام میں مالداری کاتصور بنیادی ضرورت کے سامان مثلاً مکان، کپڑے، سواری، حفاظت کے لئے اسلحے، موبائل، لیپ ٹاپ وغیرہ کے علاوہ ساڑھے باون تولہ چاندی، یا ساڑھے سات تولہ سونا یا اتنی قیمت سے زیادہ مال کا مالک ہونے سے ہے، صدقہ فطر میں ایک آدمی کی طرف سے نصف صاع گیہوں یا ایک صاع کھجور، پنیر، کشمش، منقی اور جو ادا کرنے کی بات حدیث میں مذکور ہے، نصف صاع موجودہ رائج وزن میں ایک کلو چھ سو بیانوے اور ایک صاع تین کلو تین سو چوراسی گرام کے برابر ہوتاہے۔ یہ اشیاءچاہیں تو صدقہ فطر میں وزن کے اعتبار سے دیدیں، چاہیں تو قیمت ادا کردیں، قیمت ادا کرنا زیادہ بہتر اس لیے ہے کہ روپے کی شکل میں تعاون ہونے سے غرباءاپنی دوسری ضرورتوں کی تکمیل بھی اس رقم سے کرسکیںگے، فقہاءاسے انفع للفقراءسے تعبیر کرتے ہیں۔ قیمت میں اعتبار مقامی بازار کے نرخ کاہوگا، ایک جگہ کی قیمت کا دوسری جگہ اعتبار نہیں ہوگا، اس لیے صدقہ فطر کا اعلان ہمیشہ مقامی ہوا کرتاہے اور مقامی میں بھی قیمت دریافت کرنے میں فرق پائے جانے پر فرق ہوسکتاہے۔ اس لیے اگر ایک شہر میں فطرانہ کی رقم کی مختلف تنظیموں نے الگ الگ مقدار بیان کی ہو تو بدگمانی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے، قیمت دریافت کرنے پر جو بات سامنے آئی اس کے حساب سے رقم کا اعلان کیا گیا، اللہ رب العزت سے دعاءکرنی چاہیے کہ وہ ہم سب کو رمضان کے فضائل و برکات سے پورا پورا حصہ عطا فرمائے، غریبوں اور محروموں کے لئے زکوٰة، خیرات، صدقات و عطیات سے مدد کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

جمعرات, اپریل 13, 2023

انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے صدر،ناظم ندوۃ العلماء لکھنؤحضرت مولانا محمد رابع صاحب کا انتقال ۔۔ایک عہد کا خاتمہ۔مفتی محمد ثناءالہدی قاسمی ۔


حضرت مولانا محمد رابع صاحب کا انتقال ۔۔ایک عہد کا خاتمہ۔مفتی محمد ثناءالہدی قاسمی ۔ 
اردودنیانیوز۷۲ 
آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے صدر،ناظم ندوۃ العلماء لکھنؤ،ہزاروں مسلمانوں کے مرشد ومربی،سیینکڑوں اداروں کے سرپرست حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی کا آج ١٣ اپریل کو  سہ پہر ندوۃ العلماء میں انتقال ہو گیا،اس طرح ایک عہد کا خاتمہ ہو گیا ۔مولانا کی نماز جنازہ آج ہی بعد نماز تراویح ندوہ میں اور کل صبح بعد نماز فجر رائے بریلی میں ادا کی جائے گی ۔مولانا نے بڑے نازک دور میں  ندوہ اور مسلم پرسنل لاء بورڈ کی قیادت کی اور بڑے منجھدار سے ملت کی کشتی کو حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھاتے رہے ان کے علمی تبحر ،انتظامی صلاحیت ،تحمل ،برد باری،سنجیدگی اور متانت کی دنیا قایل تھی۔اصابت رائے اور سب کو ساتھ لے کر چلنے کی غیر معمولی صلاحیت اللہ نے آپ کو عطا کی تھی،مولانا کا انتقال پوری ملت کا خسارہ اور موت العالم کا صحیح مصداق ہے۔ان خیالات کا اظہار نامور عالم دین اور رکن مسلم پرسنل لاء بورڈ مفتی محمد ثناءالہدی قاسمی  نے اپنے تعزیتی بیان میں کیا ہے ۔مفتی صاحب نے حضرت کی مغفرت ،ترقی درجات ،ملت کوانکا نعم البدل اور پس ماندگان جن میں انکے خانوادہ کے ساتھ مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ارکان ،ندوہ کے اساتذہ و طلباء ،ہزاروں شاگرد خصوصاً اور پوری ملت اسلامیہ عموماً شامل ہے کے لیے صبر جمیل کی دعا کی ۔

بدھ, اپریل 12, 2023

پیغمبر اسلام تاریخ کے آئینے میں ایک مطالعہ محمد ضیاء العظیم قاسمی،ڈائریکٹر مدرسہ ضیاءالعلوم پٹنہ واستاذ جامعہ عربیہ دارالعلوم محمدیہ پھلواری شریف

پیغمبر اسلام تاریخ کے آئینے میں ایک مطالعہ 
Urduduniyanews72
  محمد ضیاء العظیم قاسمی،ڈائریکٹر مدرسہ ضیاءالعلوم پٹنہ واستاذ جامعہ عربیہ دارالعلوم محمدیہ پھلواری شریف 
موبائل نمبر :      7909098319

نام کتاب : پیغمبر اسلام تاریخ کے آئینے میں 
مصنف /مترجم :      شاہد احمد 
سال اشاعت :        2022 
صفحات :                448
تعداد اشاعت :          500 
کمپوزنگ :       محمد امتیاز عالم ندوی 
سر ورق :        دھیرج کمار 
طباعت :        ارم پرنٹرس ،دریا پور پٹنہ 
قیمت :          600/روپے 
ملنے کے پتے :  بک امپوریم، سبزی باغ پٹنہ 
پرویز بک ہاؤس، سبزی باغ پٹنہ  

تاریخ سیرت نبویﷺ کامو ضوع ہر دور کے مسلم علماء، مفکرین، دانشوروں اور مصنفین کے افکار وتوجہات کے مرکز رہے ہیں،اور ہمیشہ اسے ان لوگوں نے اپنے لئے باعث سعادت سمجھا ہے ۔ ہر ایک نے اپنی اپنی وسعت وگنجائش اور رب العالمین کی عطاء کردہ توفیق وتوثيق کے مطابق اس پر خامہ فرسائی کی ہیں ۔ نبی کریمﷺ کی تاریخ وسیرت کا مطالعہ کرنا ہمارے ایمان کے اہم جزئیات میں شامل ہے ۔ قرآن مجید میں نبی کریمﷺ کی حیات طیبہ اور سیرت کو ہمارے لئے ایک کامل نمونہ قرار دیا جا چکا ہے، اور ساتھ ہی یہ فرمان جاری کردیا گیا ہے کہ تمہاری زندگی صرف انہیں طریقے کو اپنا کر اور اس پر عمل پیرا ہو کر کامیاب ہو سکتی ہے، یہاں تک کہ رب العالمين نے اپنی رضامندی صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی اور ان سے محبت پر منحصر رکھی ہے ۔اخلاق وآداب کا کون سا ایسا معیار ہے جو آپﷺ کی حیات مبارکہ سے نہ ملتا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کے ذریعہ دین اسلام کی تکمیل ہی نہیں ،بلکہ نبوت اور راہنمائی کے سلسلہ کو آپ کی ذات اقدس پر ختم کر کےنبوت کے خاتمہ کے ساتھ ساتھ سیرت انسانیت کی بھی تکمیل فرما دی کہ آج کے بعد اس سے بہتر ،ارفع واعلیٰ اور عمدہ نمونہ و کردار کا تصور بھی ناممکن اور محال ہے۔ آپﷺ کی تاریخ وسیرت طیبہ پر متعدد زبانوں میں بے شمار کتابیں لکھی جا چکی ہیں، اور لکھی جا رہی ہیں اور تا قیامت لکھی جاتی رہیں گی ۔ کئی غیرمسلم مفکرین اور سوانح نگاروں نے نبی کریم ﷺکی سیرت و اخلاق سے متاثر ہوکر سیرت نبوی ﷺپر بڑی شاندار کتابیں مرتب کی ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ پیغمبر اسلام تاریخ کے آئینے میں ‘‘ محترم شاہد احمدسمن پورہ پٹنہ (سابق ڈی جی پی منی پور) کی ایک شاہکار تصنیف ہے جسے مصنف نے اپنی تصنیف کردہ انگریزی کتاب "The Prophet of Islam in History" کا اردو زبان میں بیحد خوبصورتی کے ساتھ ترجمہ کیا ہے ۔448/صفحات اور گیارہ ابواب پر مشتمل یہ کتاب ہے،
کتاب کا سر ورق دیکھ کر ہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مصنف نے بڑی محنت وکاوش اور عرق ریزی کے ساتھ اس تصنیفی مرحلے کو طے کیا ہے، کتاب میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے اور تعلق سے جتنی بھی باتیں اور تاریخیں لائ گئ ہیں وہ سب مستند کتابوں کے حوالے کے ساتھ ہیں جو اس کتاب کے معیار کو بہت بلند کرتی ہے ۔
کتاب کی شروعات دیباچہ سے کی گئی ہے جس میں مصنف نے وجہ تالیف وتصنیف کے ساتھ ساتھ سیرت اور تاریخ سیرت کی اہمیت و افادیت پر تبصرہ کرتے ہوئے اپنے اظہارو خیال، احساسات وجذبات اور عشق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اظہار کیا ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہمارے واسطے کیا اہمیت رکھتی ہے سیرت کا جاننا سمجھنا کیوں ہمارے لئے ضروری ہے ان سب پر اظہار کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سے منسلک واقعات اور رجحانات پر تاریخی اعتبار سے ایک سرسری اور اجمالی خاکہ پیش کیا ہے ۔

دس ابواب میں اسلامی تاریخ اور تاریخ سیرت کا احاطہ کرنے کی مصنف و مؤلف نے خوبصورتی کے ساتھ بھر پور سعی کی ہے اور اپنی اس سعی میں وہ حتی الامکان کامیاب وکامران نظر آتے ہیں ۔

 کتاب کی وجہ تالیف بزبان مصنف :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ حیات کا عمیق مطالعہ کرنے کے بعد رسول کریم ﷺ کی تاریخی تصویر کو اپنی انگریزی تصنیف "The Prophet of Islam in History" میں نہایت ہی صداقت اور غیر جانبدارانہ طریقے کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔پیش نظر کتاب اسی کا اردو ترجمہ ہے جو اس خیال سے کیا گیا ہے کہ بیشمار اردو داں قارئین جنہیں انگریزی کا زیادہ علم نہیں ہے اس اردو کتاب سے مستفیض ہونے سے محروم نہ رہ جائیں ۔
یقیناً مصنف و مؤلف کی سوچ فہم وفراست بڑی ہے ۔
دس ابواب پر مشتمل یہ اس کتاب کی فہرست اس طرح ہے ۔
باب اول :( حضرت محمد ﷺ کے بارے میں تاریخ نویسی) اس باب میں آپ ﷺ کی سیرت کو تاریخی حیثیت کیا ہے؟ مؤرخین کی رائے سیرت اور تاریخ اسلام پر کیا ہے ان سب موضوعات پر جامع تبصرہ پیش کیا گیا ہے ۔
باب دوم: (رسول اللہ ﷺ کی آمد کے وقت عرب کے حالات) اس باب میں آپ ﷺ کی آمد سے قبل اور آمد کے وقت عرب کے کیا حالات تھے اور آپ کی دعوت تبلیغ نے کیا رنگ لایا اس کا جائزہ پیش کیا گیا ہے ۔
باب سوم :  (محمد ﷺ کی ابتدائی زندگی) اس باب میں آپ ﷺ کی ابتدائی زندگی پر روشنی ڈالتے ہوئے آپ کے اوصاف واطوار آپ کے کردار کا خوبصورت نقشہ کھینچا گیا ہے ۔
باب چہارم : (نزول وحی اور خفیہ دعوت اسلام) اس باب میں وحی کے نزول کی ابتداء، خفیہ دعوت تبلیغ کس انداز میں کی گئی، اور دعوت تبلیغ نے کیا انقلاب برپا کیا اس پر بڑی اچھی گفتگو کی گئی ہے ۔
باب پنجم : (اعلانیہ دعوت اسلام اور اس کا رد عمل) اس باب میں اعلانیہ طور پر دین کی دعوت تبلیغ کے کیا نتائج برآمد ہوئے ان پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہیں ۔
باب ششم : (مسلمانوں پر کفار کے ظلم وستم) اس باب میں غریب کمزور اور لاچار ومجبور مسلمانوں پر ظلم زیادتی کس طرح کی گئی ہے اس پر تبصرہ ہے ۔
باب ہفتم : ہجرت :(ایک فیصلہ کن تبدیلی) اس باب میں مسلمانوں کے لئے مدینہ ہجرت کرنا، اور اللہ کا یہ فیصلہ مسلمانوں کے حق میں کیا رنگ لایا ۔
باب ہشتم :( اللہ کے لئے جہادی جنگ) اس باب میں جہاد کی حقیقت وضرورت، جہاد کے اسباب وجوہات ان باتوں کی وضاحت ۔
باب نہم : (شکست اور اسلامی اقتدار کی بحالی) اس باب میں اسلامی جنگ اور اسلامی اقتدار کس طرح بحال ہوا ان موضوعات پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا ہے ۔
باب دہم :( امن کی طرف) اس باب میں جنگ کے بعد اور جنگی نتائج کا نقشہ کھینچا گیا ہے ۔
باب یازدہم : (نصب العین کی تکمیل) اس باب میں مشترکہ طور پر اسلامی تاریخ ، نبی کریم ﷺ کے احوال، اصحاب رضی اللہ عنہم اجمعین کے واقعات وغیرہ بیان کئے گئے ہیں 

آخر میں ضمیمہ عنوان قائم کرکے محمد ﷺ کی بیویوں کی تاریخی پس منظر، فہرست، اور خاندانی تعارف کرایا گیا ہے ساتھ ساتھ نبی کریم ﷺ کے لئے تعدد الزوجات کی وجہیں، ضرورتیں ان سب کو بہترین پیرائے کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔
یقیناً یہ تصنیف محترم شاہد احمد ساکن سمن پورہ پٹنہ ( سابق ڈی جی پی) کی شخصیت اور آپ کے دینی مزاج اورنظریات کو اجاگر کرتی ہے،مختصر سیرت اور تاریخ اسلام کے لحاظ سے یہ ایک عمدہ تصنیف ہے، آپ اپنی ہزاروں مصروفیات کے باوجود صرف عشق نبی کی وجہ سے بڑی محنت اور لگن کے ساتھ اس تصنیفی سفر کو طے کیا ۔ہم اپنی جانب اور ادارہ کی جانب سے آپ کو اس تصنیف پر ہدیہ تبریک پیش کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ اللہ رب العزت اس کتاب کو آپ کے لئے اور ذریعۂ نجات بنائے ۔

اعتکاف شب قدر کی تلاش ہے !مفتی ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ ۱۹/رمضان المبارک ۱۴۴۴ھ رابطہ، 9973722710

اعتکاف شب قدر کی تلاش ہے !
Urduduniyanews72
اعتکاف کی تین قسمیں ہیں،چند منٹ کے لیے بھی اعتکاف کیا جاسکتا ہے، علماء کرام یہ کہتے ہیں کہ جب کوئی آدمی مسجد میں داخل ہو تو اعتکاف کی نیت کرلے،اس کا بڑا فائدہ ہے،جتنی دیر وہ شخص مسجد میں رہے گا معتکف سمجھا جائے گا، اور اس کے اجر کا حامل ہوگا، مسجد سے جب وہ باہر چلا جائےگا، جبھی اس کا اعتکاف ختم ہوگا، اور اس پر ملنے والا اجر موقوف ہوگا،
شرعی اصطلاح میں اسے نفلی اعتکاف کہتے ہیں،یہ لمحہ بھر کے لیے بھی کیا جاسکتا ہے، اس کے لیے روزہ بھی ضروری نہیں ہے،
مگر جب ایک آدمی اپنی زبان سے یہ کہ دیتا ہے کہ اللہ تعالٰی نے مجھے کامیابی دی تو میں اتنے دنوں تک اعتکاف میں بیٹھا رہوں گا، یا رمضان کے اخیر عشرہ کا اعتکاف کروں گا، کامیابی ملی تو اب اس اعتکاف کاپورا کرنااس کے حق میں ضروری ہے،شریعت میں اس اعتکاف کی حیثیت واجب کی ہے،اس کے لیے روزہ ضروری ہے،اور یہ نذر والا اعتکاف ایک دن سے کم کا نہیں ہوسکتا ہے، 
اعتکاف کی تیسری قسم، یہ رمضان المبارک کے آخری عشرہ کا اعتکاف ہے،اس کی شرعی حیثیت سنت مؤکدہ علی الکفایہ کی ہے،
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےاپنی زندگی میں اس کا بڑا اہتمام کیا ہے،اور حین حیات  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی مواظبت فرمائی ہے،جس عمل میں آپ صلی علیہ وسلم کی پابندی ہو شریعت میں اس کی بڑی تاکید آئی ہے، اور یہ سنت سے اوپر مقام کا حامل ہے، اسی لیے اسے صرف سنت نہیں بلکہ سنت مؤکدہ سے تعبیر کرتے ہیں،
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا روایت کرتی ہیں کہ؛نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری دس دنوں کا اعتکاف فرماتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالٰی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے یہاں بلالیا،پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کی ازواج مطہرات نےاعتکاف فرمایا، (بخاری)
اس اعتکاف کی اہمیت اس بات سے بھی سمجھ میں آتی ہے کہ ایک مرتبہ کسی وجہ سے اعتکاف چھوٹ گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شوال کے مہینے میں اس کی قضاء فرمائی تھی، اس سے مقصود اس آخری عشرہ کے اعتکاف کی اہمیت وافادیت سے لوگوں کو روشناس کرانا ہے، اور یہ سمجھانا ہے کہ یہ کس قدر مقبول وپسندیدہ اور ساتھ ہی ضروری عمل ہے کہ اس کی قضاء کی جارہی ہے، جبکہ سنن ونوافل میں قضا نہیں ہے، 
مگر آخری عشرہ کے اعتکاف کو یہ خاص مقام حاصل ہے،
اس کی ایک بڑی وجہ لیلۃ القدر کی تلاش ہے، چنانچہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے پہلے عشرہ کا اعتکاف کیا، پھر دوسرے عشرہ کا اعتکاف چھوٹے خیمہ میں کیا، اس اعتکاف کے دوران سر مبارک خیمہ سے نکال کر فرمایا؛میں نے پہلے عشرہ کا اعتکاف کیا اور لیلۃ القدر کی تلاش کرتا رہا، پھر میں نے دوسرے عشرہ کا اعتکاف کیا تو مجھ سے ایک فرشتہ نے آکر کہا کہ لیلۃ القدر تو رمضان کے آخری عشرہ میں ہے،اب جو میری سنت کی اتباع میں اعتکاف کا ارادہ رکھتا ہے اس کو چاہیے کہ آخری عشرہ میں اعتکاف کرے،(مسلم )
ایک متفق علیہ حدیث میں اماں جان حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا روایت کرتی ہیں کہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ میں معتکف اور گوشہ نشین ہوجاتے تھے، اور فرماتے تھے کہ شب قدر رمضان کے آخری عشرہ میں تلاش کرو، (متفق علیہ )
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا ہی سے ایک حدیث میں ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ شب قدر رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو، (بخاری)
رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں شب قدر کے ہونے پر بکثرت احادیث وارد ہوئی ہیں، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے بعض کو آخری سات دنوں میں خواب میں شب قدر دکھائی گئی، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں دیکھتا ہوں کہ تمہارا خواب زیادہ تر آخری سات دنوں کے متعلق ہے، پس جو اس کی تلاش کرنا چاہتا ہے وہ آخری سات دنوں میں تلاش کرے،(متفق علیہ )
گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخیر عشرہ کا یہ اعتکاف اس رات کی تلاش میں اور اس کے اجر وثواب کے حصول کی امید میں بھی ہے،جس رات کی عبادت کو قرآن کریم میں ہزار مہینوں سے زیادہ اجر کا حامل قرار دیا گیا ہے،مذکورہ بالا احادیث میں یہ بھی مذکور ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے پہلے عشرہ کا اور دوسرے عشرہ کا بھی اعتکاف فرمایا ہے مگر یہاں وہ اہتمام نہیں ہے اور نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مواظبت فرمائی ہے،اسی لیے پہلے عشرہ اور دوسرے عشرہ کے اعتکاف کو ہم مستحب کہ سکتے ہیں، اس سے زیادہ اس کا مقام نہیں ہے، اس کے برعکس اخیر عشرہ کا اعتکاف زیادہ مقام کا حامل ہے اور اس کی حیثیت سنت مؤکدہ کی ہے یہ دراصل اخیر عشرہ میں شب قدر کی تلاش یے،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم شب قدر کےاجر میں اپنے اہل وعیال کو بھی شریک کرنا چاہتے تھے، اسی لیے انہیں راتوں میں جگادیا کرتے اور عبادت کی تحریک فرماتے، اور خود مسجد میں معتکف ہوجاتے اور اعتکاف کے اعمال میں مشغول ہوجاتے، 
اپنی امت کو بھی آپ صلی علیہ وسلم نے اپنے عمل کے ذریعہ یہ تلقین فرمائی کہ شب قدر کے حصول کا سب سے آسان طریقہ اخیر عشرہ کا اعتکاف ہے۔
مگر آج اس ضروری عمل سے بڑی غفلت برتی جارہی ہے، عام تو عام بلکہ خاص لوگوں میں بھی اس کا اہتمام نہیں ہے، اب تو پیسے دیکر کچھ لوگوں کو مسجد میں بٹھا دیا جاتا ہے تاکہ محلہ والے گنہ گار ہونے سے بچ جائیں، اس بندہ کو نہ اعتکاف کا مطلب معلوم ہوتا ہے نہ اس کے شرائط وارکان کا پتہ ہوتا ہے،اور نہ ایک معتکف کے اشغال کا علم ہوتا ہے، ایک معتکف کو تلاوت قرآن، ذکر واذکار، تسبیحات، فقہی مسائل،ودینی معلومات میں مشغول ہونا چاہیے، اس کے برعکس ایک کونے میں میاں معتکف خاموش بیٹھے ہیں،آج خاموش رہنے کو اعتکاف سمجھا جاتا ہے، فقہاء نے لکھا ہے کہ اگر عبادت سمجھ کر خاموش رہتا ہے تو یہ عمل مکروہ تحریمی ہے،ورنہ نہیں، اس لیے کہ حدیث میں آیا ہے جو خاموش رہا وہ نجات یافتہ ہوا (درمختارمع الرد)
مسجد کے حدود میں رہنا ایک معتکف کے لیے ضروری عمل ہے،اس کی شرعی حیثیت شرط کی ہے،وہ کرایہ کا بندہ وضوخانے میں بلا ضرورت بیٹھا ہے، اعتکاف کو خراب کررہا ہے،وہ خود گنہ گار ہورہا ہے اور بقیہ لوگوں کو بھی گنہ گار بنارہا ہے،ویسے بھی اجرت دیکر اعتکاف میں بیٹھانا درست نہیں ہے، اور اعتکاف میں بیٹھنے والے کے لیے اجرت لینا بھی درست نہیں ہے، شرعی اصول ہے کہ طاعت وعبادت پر اجرت لینا اور دینا جائز نہیں ہے،(درمختارمع الرد)
اس وقت اس اہم عبادت کی طرف متوجہ ہونے کی ضرورت ہے،شہر کی تمام مساجد میں اعتکاف کرنے کو بہتر کہا گیا ہے، اس کا التزام کیا جانا چاہیے، جو اعتکاف میں بیٹھنے جارہے ہیں وہ اس متعلق ضروری باتیں بھی معلوم کرلیں، جبھی اس اخیر عشرہ کے اعتکاف کا مکمل فائدہ حاصل کیا جاسکتا ہے، اور شب قدر کی فضلیت حاصل کی جاسکتی ہے۔خواتین حضرات کو بھی اس اہم عمل کی طرف متوجہ کرنے کی موجودہ وقت کی اہم ضرورت ہے، امت کی ماؤں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس مسنون اعتکاف کی پابندی فرمائی ہیں، خواتین اسلام کی ذمہ داری اچھی افطاری اور لذیذ سحری ہی نہیں ہے بلکہ بہترین نسل کی تیاری کے لیے ان مواقع پر مستورات کی نمائندگی کی آج بہت ضروری ہے۔

مفتی ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ 
۱۹/رمضان المبارک ۱۴۴۴ھ 
رابطہ، 9973722710

منگل, اپریل 11, 2023

زبان کو سنبھال کر ذرا رکھیے جناب ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

زبان کو سنبھال کر ذرا رکھیے جناب ___
Urduduniyanews72
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
اپنی باتیں دوسروں تک پہونچانے کے جو طریقے ہمیں دیے گیے ہیں، ان میں گفتگو ، تقریر، لکچر، ڈائیلاگ، بحث ومباحثہ کو خاص اہمیت حاصل ہے ، ہم اپنی باتیں تحریر کے ذریعہ بھی دوسروں تک پہونچاتے ہیں، اور حرکات وسکنات کے ذریعہ بھی، جسے باڈی لنگویج یا اشاروں کی زبان کہتے ہیں؛ گویا یہ سب چیزیں اظہار کا وسیلہ ہیں۔ 
 اسی لیے ٹھوس ، مدلل، معقول اور مؤثر گفتگو کی قدر ہر دور میں کی جاتی رہی ہے اور اس کے اثرات قوموں کی تقدیر بدلنے، حکومتوں کے عروج وزوال ، سیاسی اتار چڑھاؤ پر لازماً پڑتے رہے ہیں، ادھر کچھ دنوں سے دیکھا جا رہا ہے کہ ہمارے سیاسی رہنما ایسی زبان استعمال کر نے لگے ہیں، جو کسی طرح شرفاء کی زبان نہیں قرار دی جا سکتی،اور یقینی طور پر ان جملوں سے ایک خاص فرد یا طبقہ کی توہین ہوتی ہے ، مسلمانوں کوہندو کہنا، ہندو محمدی کے طور پر متعارف کرانے کا مشورہ دینا، سیکولر لوگوں کو نا جائز اولاد قرار دینا، تمام دہشت گردوں کو مسلمان قرار دینا ، بہوجن سماج وادی پارٹی کی صدر کو طوائف ، ایم پی ششی تھرور کی بیوی آنجہانی سونندا کو پچا س کروڑ کی گرل فرینڈ قرار دینا، دیش کے غداروں کو گولی مارو سالوں کو اور دنگائی اپنے کپڑوں سے پہچانے جاتے ہیں، سونیا گاندھی کے بارے میں یہ کہنا کہ گوری چمڑی کی وجہ سے وہ کانگریس کی صدر بنیں جیسے جملے ، اسی قبیل کے ہیں، ان جملوں کے کہنے والے پر اب تک کوئی کاروائی نہیں ہو سکی ہے اور شاید ہو بھی نہیں، البتہ راہل گاندھی کے اس بیان پر داروگیر ہو گئی ہے کہ رقم لے کر بھاگنے والے سارے کا خاندانی نام مودی ہی کیوں ہے، سورت کی عدالت سے دو سال کی سزا سُنانے کے بعد ان کی رکنیت جا چکی ہے، اور ۲۲؍ اپریل تک گھر بھی خالی کرنا ہوگا۔
 اس کے جواب میں جو زبان استعمال کی جا رہی ہے ، وہ بھی چنڈو خانے کی زبان ہے، اور یہ ایک غلطی کو دور کرنے کے لیے دوسری غلطی کے ارتکاب کے مترادف ہے ۔ کیسا لگتا ہے، جب ہمارے سیاست داں بھی اس قسم کے گھٹیا بیانات دیتے ہیں، ایسے میںکس سے امید رکھی جائے کہ ان کے بیانات سماج میں صالح اقدار کو فروغ دے سکیں گے،یہ معاملہ صرف سیاست ہی کا نہیں ہے؛ بلکہ وہ لوگ جو مسلکی معاملات میں شدت پسند ہیں او ر تعصب نے ان کے اندر جڑ پکڑ لیا ہے، مناظروں کے شوقین ہیں، وہ بھی اپنی بات کو ثابت کرتے وقت دوسرے مسلک والوں کا مذاق اڑانے سے باز نہیں آتے ، بات مدلل ہو، زبان پاکیزہ ہو تو کوئی حرج نہیں ، جس بات کو حق سمجھا جائے، اس کا ذکر کیا جائے، لیکن استہزا، تمسخر ، ہر زہ گوئی حق کو ثابت کرنے میں معاون نہیں ہواکرتے؛ بلکہ علمی لوگوں کے اندراس انداز سے نفور پیدا ہوتا ہے، اور وہ ایسی کتابوں کو ہاتھ لگانے اور ایسی تقریروں کو سننے سے گریز کرتے ہیں، اس سے سماجی انتشار اور کبھی کبھی معاملہ قتل وغارت گری تک پہونچ جاتا ہے، یہی حال خانگی نزاعات اور جھگڑوں کا ہے، اس میں بھی جو زبان استعمال کی جا رہی ہے، اسے ہم مہذب نہیں کہہ سکتے ، اختلافات ہوتے رہتے ہیں اور اپنے حق کے حصول کے لیے ہر سطح پر جد وجہد کرنی چاہیے، یہ قطعا مذموم نہیں ہے، مگر اس کے لیے جو زبان استعمال کی جائے، کیا ضروری ہے کہ وہ سوقیا نہ ہو، مادر، پدر آزاد ہو، جب کہ ہمیں یہ حکم دیا گیا ہے کہ ہم کسی قوم کا مذاق نہ اڑائیں، اسی طرح کوئی عورت دوسری عورت کا مذاق نہ اڑائے ، کیونکہ استہزاء ہمیشہ اپنے کو بڑا اور اچھا سمجھ کر کیا جاتا ہے؛ حالانکہ یہ تو اللہ رب العزت ہی جانتا ہے کہ کون اچھا ہے؟ ایسا ہو سکتا ہے کہ جو مذاق اڑارہا ہے وہی اپنی اخلاقیات ، کیرکٹر اور کردار کے اعتبار سے کمزور اور بد تر ہو ، اس کے علاوہ اس عمل کے نتیجے میں ملکوں ، قبیلوں ، سماج اور خاندان میں تفرقہ ، انتشار، افتراق کے دروازے کھلتے ہیں اس لیے ہمیں کوئی بھی بیان دینے سے پہلے سوچنا چاہیے کہ وہ کسی کی دل آزاری کا سبب نہ بنیں ، گفتگو کرتے وقت حفظ مراتب، سامع کا پاس ولحاظ اور مقصدکا خیال رکھا جائے، فضول کی بحثوں ، الزام تراشی، ذاتی رکیک حملے اور لعنت وملامت کرنے سے بھی گریز کرنا چاہیے، اظہارِ اختلاف میں شائستگی اور نرمی کا رویہ اختیار کیا جائے، جہاں نرمی ہوتی ہے وہاں حسن ہوتا ہے جہاں نرمی نہیں ہوتی، وہاں بد صورتی ہوتی ہے، پھوہڑ پن ہوتا ہے۔
اسلام نے اس بات پر زور دیا ہے کہ رائے کے اظہار میں انصاف سے کام لیا جائے ، معاملہ اپنا ہویا والدین کا ، اقربا کا ہو یا رشتہ دار کا امیر کا ہو یا محتاج کا، ہر حال میں انصاف ملحوظ رکھا جائے، اور کسی قوم کی دشمنی تم کوا نصاف کے راستے سے نہ ہٹائے، آج صورت حال یہ ہے کہ ہماری کسی سے دشمنی ہوتی ہے تو سارے حدود پار کر جاتے ہیں اور اگر دوستی ہوتی ہے تو زمین وآسمان کے قلاے ملا دیتے ہیں، کل تک جو لعن طعن کر رہا تھا ، آج پارٹی میں شامل ہو گیا توپارٹی سپریمو کو ڈنڈوت بھی کر رہا ہے اور قصیدہ پر قصیدہ کہے جا رہا ہے، شیخ سعدی کا مشہور قول  ہے کہ دشمنی میں بھی اس کا خیال رکھو کہ اگر کبھی دوستی ہوجائے توشرمندہ نہ ہو نا پڑے۔اس بے اعتدالی نے ہر ایک کے بیان کو بے وقعت کرکے رکھ دیا ہے ۔
بیان کے بعد دوسرا مرحلہ عمل کا ہے ، بغیر عمل کے صرف بیان کو ’’بیان بازی‘‘ کہتے ہیں، بیان میں جان اس وقت پڑتی ہے، جب اس کے پیچھے عمل کی قوت ہو، عمل نہ ہو صرف قول ہی قول ہو ، بیان ہی بیان ہو تو یہ انتہائی مذموم کام ہے، عمل ہے؛ لیکن قول کے بر عکس ہے تو یہ قول وعمل کا تضاد ہے۔
قول وعمل کے اسی تضاد کی وجہ سے سرکار کی طرف سے اعلان پر اعلان ہوتا رہتا ہے اور لوگ اسے قابل اعتنا نہیں سمجھتے ، اگر ہم کم بولیں اور کام زیادہ کریں تو عوام کا بھی بھلا ہوگا اورلوگوں کا اعتماد بھی بجال ہوگا؛ لیکن بد قسمتی سے ایسا نہیں ہو پا رہا ہے، اس معاملہ میں سب سے زیادہ ہمارے سیاسی رہنما آگے ہیں۔ کتنے اعلانات دسیوں سال سے حکومتیں کرتی رہی ہیں اور ان پر عمل کے اعتبار سے آج بھی پہلا دن ہے، اس طرز عمل سے سیاسی لوگوں کی قدر وقیمت میں گراوٹ کا رجحان بڑھا ہے، پہلے راج نیتی ہوتی تھی، اب راج ہی راج ہے، نیتی کا پتہ نہیں ، نظریات ، پالیسیاں کبھی سیاست میں ہوا کرتی تھیں، لیکن اب یہ قصہ پارینہ اور ماضی کی داستان ہے، کل تک سیکولرزم کا نعرہ لگانے والا، کب عہدہ اور ٹکٹ نہ ملنے کی وجہ سے فرقہ پرستوں کی گود میں جا بیٹھے گا ، کہا نہیں جا سکتا، اور پھر اس کی زبان سے کیا کچھ نکلنے لگے گا اور کس کس کی پگڑی اچھالی جائے گی کہنا ، مشکل ہے۔یہ صرف خیال نہیں ہے،اپنے ذہن پر تھوڑا زور دیں تو کئی نام آپ کے ذہن میں گردش کرنے لگیں گے۔ 
پھر الیکشن آ رہا ہے، مہم ووٹروں کے جوڑنے کی بھی چل رہی ہے، اور ووٹروں کے توڑنے کی بھی، آتشیں بیانات کا سلسلہ شروع ہونے والا ہے ، پہلے پہاڑ ہی آتش فشاں ہوتے تھے، اب ہماری زبان بھی آتش فشاں ہو گئی ہے، ہمیں ان سے ہر حال میں ہوشیار رہنا ہوگا، بولتے وقت بھی اور سنتے وقت بھی، بولتے وقت الفاظ تول کر بولنا ہوگا؛ کیونکہ اللہ نے ہمارے بول پر پہرے بٹھا رکھے ہیں اور سنتے وقت اس کے رد عمل سے بچنا ہوگا؛ تاکہ ہماری زبان آلودہ نہ ہو، یاد رکھئے سخت ، گندے اور بھدے الفاظ سے قومی معاملات حل نہیں ہوتے اور سماج کا بھی بھلا نہیں ہوتا ، مولانا ابو الکلام آزاد کے لفظوں میں ، ’’زبان حد درجہ محتاط ہونی چاہیے، کچھ اس طرح کے وقار وتمکنت اور سنجیدگی ومتانت آگے بڑھ کر ان کی بلائیں لینے لگے‘‘۔

اتوار, اپریل 09, 2023

تقسیم زکوٰۃ - چند گذارشات مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

تقسیم زکوٰۃ - چند گذارشات
 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی 
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ(9431003131)
 زکوٰۃ مالداروں پر فرض ہے اور اسلام میں مالداری کا تصور حوائج اصلیہ کے علاوہ ساڑھے باون تولہ چاندی یا ساڑھے سات تولہ سونا یا اس کی قیمت سے زیادہ مال کا ملکیت میں ہونا ہے، وجوب زکوٰۃ کے لیے اس زائد مال پر سال بھی گذر نا چاہیے، یہ سال تمام مسلمانوں کے مال پر ایک ساتھ تو گذر نہیں سکتا،اس لیے زکوٰۃ کے لیے سب کا مالی سال الگ الگ ہوتا ہے، یہ الگ سی بات ہے کہ بیش تر لوگ وجوب زکوٰۃ کے باوجود ادائیگی میں تاخیر کرتے ہیں اور رمضان المبارک کو اپنا مالی سال ادائیگی زکوٰۃ کے لیے سمجھتے ہیں، اس موقع سے کثرت سے زکوٰۃ کی تقسیم ہوتی ہے ۔
 زکوٰۃ کن لوگوں کو دینی ہے اس کے مدات قرآن کریم میں مذکور ہیں، فقرائ، مساکین، زکوٰۃ جمع کرنے والے عاملوں اور اس سے متعلق کام کرنے والے، تالیف قلب کے لیے غلام کو آزاد کرانے کے لیے ، قرض کی ادائیگی کے لیے ، اللہ کے راستے میں جہاد کرنے کے لیے اور مسافروں کے ساتھ نا گہانی حادثات کے موقع سے زکوٰۃ کی رقم دی جا سکتی ہے ، غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سارے مصارف وہ ہیں جن میں مسلمانوں کی شخصی ضروریات ، اجتماعی حفاظت اور حقیقی یا امکانی شرور وفتن کے دفاع کو ملحوظ رکھا گیا ہے، حضرت علامہ انور شاہ کشمیری ؒ نے فقر اور سفر کو تمام مدات کا خلاصہ بتایا ہے، بعض مدات میں ان دنوں بغیر کسی دلیل کے تیزی سے لوگ توسع کیے جا رہے ہیں، سارے لوگوں کی نگاہ زکوٰۃ پر ہے کتابیں بھی اس سے چھپوائی جا رہی ہیں، چلت پھر ت کا کام بھی اسی مد سے کرایا جا رہا ہے ، ایک بڑی رقم زکوٰۃ کی خود کفیل بنانے اور امپاورمنٹ کے نام پر صرف کی جا رہی ہے ، بعضوں کی تجویز تو یہ بھی ہے کہ زکوٰۃ کی رقم جمع کرکے کار خانہ کھول دو اور غیر مستطیع کو ملازمت سے لگادو، وہ سب خود کفیل ہو جائیں گے ،یہ غیر اسلامی تصور تیزی سے مسلمانوں میں پروان چڑھ رہا ہے، اتنا سرمایہ انفرادی طور پر جمع کرنا آسان کام نہیں ، اس لیے اجتماعی نظام زکوٰۃ کی اہمیت پر سمینار ، سمپوزیم کرکے ماحول کو سازگار کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ، یہاں بھی پریشانی یہ ہے کہ اجتماعی نظام زکوٰۃ کے قیام کے نام پر چند افراد مل کر ایک تنظیم بنا لیتے ہیں اور کام شروع کر دیتے ہیں، حالاں کہ اجتماعی نظام بغیر امیر کی اجازت کے قائم نہیں ہو سکتا، ہندوستان میں امارت شرعیہ مختلف صوبوں میں قائم ہے، وہاں کے امیر کی اجازت سے اجتماعی نظام قائم ہو سکتا ہے ، چونکہ مسلمانوں میں مسلکی اور تنظیمی بنیادوں پر بھی جماعت جمعیت اور امارت قائم ہے ، اس لیے جو جس جماعت سے متعلق ہے کم سے کم اس جماعت کے امیر کی اجازت تو لے لے، بیت المال کا قیام یقینا شرعی ضرورت ہے، لیکن اس کے قیام کے لیے بھی کچھ شرائط ہیں، ان کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے، ورنہ ہم ایک شرعی کام غیر شرعی انداز میں کرنے کے مرتکب ہوں گے ۔
 اس موقع سے مدارس کے سفراء بڑی تعداد میں زکوٰۃ کی وصولی کے لیے نکلتے ہیں، اس کام کے لیے ان کے پاس مختلف تنظیموں کے تصدیق نامے ہوتے ہیں، یہ ان طلبہ کے لیے زکوٰۃ کی رقم اکھٹی کرتے ہیں جو ان کے یہاں تعلیم حاصل کرتے ہیں اور غیر مستطیع ہوتے ہیں، اصلا یہ مہتمم ، ناظم صاحبان کے واسطے سے طلبہ کے وکیل ہوتے ہیں، ان کو دینے سے زکوٰۃ کی ادائیگی کا ثواب بھی ملتا ہے ، اور اشاعت دین کا بھی۔
 آج کل بہت سارے مدارس رسید پر ہی ہوتے ہیں، زکوٰۃ کی رقم دیتے وقت اس کی تحقیق کرلینی چاہیے، اس تحقیق کی تکمیل قابل ذکر اداروں کے ذریعہ دیے گیے تصدیق ناموں سے بھی ہوجاتی ہے، امراء کے یہاں ایک رواج یہ بھی چل پڑا ہے کہ وہ سابقہ ریکارڈ دیکھ کر رقم کی ادائیگی کرتے ہیں، اور اس طرح وہ بار بار کی تحقیق سے بچ جاتے ہیں، جن مدارس کے پاس پہلے کا رکارڈ نہیں ہوتا، انہیں یہ کہہ کر واپس کر دیتے ہیں کہ ’’ہم نئے مدرسے کو نہیں دیتے‘‘، یہ اچھی بات نہیں ہے ، ہو سکتا ہے وہ مدرسہ بہت معیاری ہو ،کمی صرف یہ ہے کہ آپ کے پاس پہلے نہیں پہونچ پایا تھا، آپ کو تحقیق کا تو حق ہے ، دینے کی گنجائش نہیں ہے تو معذرت اور معافی بھی ایک شکل ہے ، لیکن یہ جملہ ٹھیک نہیں ہے کہ ہم ’’نئے کو نہیں دیتے‘‘ اس لیے کہ اس جملہ کے بدلہ میں اگر اللہ نے آپ کو کچھ نئے دینے کا سلسلہ روک دیا تو آپ کی ساری امیری کچھ ہی دن میں غریبی میں بدل جائے گی۔
 محصلین کے ساتھ امراء کا رویہ عموما ہتک آمیز رہتا ہے ، اس سے بھی اجتناب ضروری ہے ، اکرام مسلم شرعی چیز ہے اور مسلمان بھی جو عالم حافظ قاری ہو اور اپنے لیے نہیں دینی تعلیم کے فروغ اور مہمانان رسول کی خدمت کے لیے اس کام کے لیے آپ تک پہونچا ہو ، ایسوں کی توہین اللہ رب العزت کی ناراضگی کا سبب بن جائے تو کچھ بعید نہیں۔
 یقینا محصلین بھی الگ الگ نو عیت کے ہوتے ہیں، سب متقی، پر ہیز گار اور شریعت کے پابند اس قدر نہیں ہوتے جیسا ہونا چاہیے، بعضے تو رکارڈ کو ادھر اُدھر کرنے اور جھوٹ بولنے سے بھی پرہیز نہیں کرتے،ایسے لوگوں کو اپنے اندر تبدیلی لانی چاہیے، محصلین میں ایک بات قدر مشترک ہونی چاہیے کہ وہ اس کام کو عزت نفس کے ساتھ کریں ، گڑگڑانا ، کاسہ لیسی کرنا ، خوشامد کرنا یہ علماء کے شایان شان نہیں ہے، ان کو ’’جو دے اس کا بھی بھلا اور نہ دے اس کا بھی بھلا‘‘ کے فارمولے پر عمل کرنا چاہیے،ا س سے کام میں برکت بھی ہوتی ہے اور عالمانہ کردار اور داعیانہ وقار بھی محفوظ رہتا ہے ۔
 زکوٰۃ کی ادائیگی کرتے وقت اپنے اعزواقرباء اور اپنے قرب وجوار کے غرباء ومساکین کا بھی خیال رکھیں ، پیشہ وارانہ لوگوں کی بات میں نہیں کرتا، ایسے لوگ جو روزی حاصل نہیں کر پا رہے ہیں اور ہاتھ پھیلا نے کی ذلت سے بچنا بھی چاہتے ہیں، ان کی حالت ایسی ہوتی ہے کہ انجان لوگ انہیں مالدار سمجھتے ہیں، حالاں کہ وہ غریب ہوتے ہیں، لپٹ کر مانگنا ان کا شیوہ نہیں ہوتا، ایسے لوگ ہماری توجہ کے زیادہ مستحق ہیں، اگر آپ انہیں مستحق زکوٰۃ سمجھتے ہیں تو بغیر بتائے بھی ان پر یہ رقم خرچ کر سکتے ہیں، زکوٰۃ آپ کی ادا ہوجائے گی۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...