Powered By Blogger

پیر, اپریل 24, 2023

جامع مسجد خواجہ پورہ پٹنہ میں نماز عید الفطر صبح 07:15 میں

جامع مسجد خواجہ پورہ پٹنہ میں نماز عید الفطر صبح 07:15 میں
Urduduniyanews72
خواجہ پورہ پٹنہ مورخہ 20/اپریل( پریس ریلیز :محمد ضیاء العظیم)
جامع مسجد خواجہ پورہ پٹنہ میں مورخہ 20/اپریل بروز جمعرات 2023 بعد نماز عشاء مولانا محمد عظیم الدین رحمانی امام وخطیب جامع مسجد خواجہ پورہ پٹنہ کی سرپرستی میں ایک میٹنگ کا انعقاد کیا گیا، جس میں نماز عید الفطر کے وقت کے سلسلے میں گفتگو ہوئی ۔ مصلین نے نماز کے وقت کے تئیں اپنے موقف کا اظہار کیا، سبھوں کی باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے صبح 07:15 کا وقت مقرر کردیا گیا ۔
اس میٹنگ جو لوگ شریک تھے ان کی فہرست کچھ یوں ہے، انجینئر حاجی عبد الرحمن ، انجینئر ذاکر، محمد کلیم الدین، شہاب اللہ کریمی، علی محمد ، محمد عارف، سراج الحق ، شمشاد حیدر، ظفر اللہ فیروز، انجینئر اقبال، قاری ذوالفقار وغیرہ،
واضح رہے کہ خواجہ پورہ کولڈاسٹوریج جامع مسجد شہر پٹنہ کی ایک قدیم مسجد ہے، مرحوم شیخ عبد الستار وعبد الغفار دانا پوری نے اس مسجد کی بنیاد 1988/میں ڈالی تھی، اس وقت مسجد کے متولی حافظ الیاس سونوبابو سابق چیئرمین حج بھون ہیں ۔مولانا محمد عظیم الدین رحمانی تقریباً پینتیس سالوں سے امامت کے فریضے انجام دے رہے ہیں، اہلیان خواجہ پورہ بھرپور اس مسجد کی خدمات انجام دیتے ہیں، رمضان المبارک اور عید الفطر کے موقع پر اس مسجد کی رونق میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے ۔

ہفتہ, اپریل 22, 2023

عید الفطر کی مناسبت سے ایک مضمون آپ موقر روزنامہ کے لیے پیش خدمت ہے۔ شائع فرماکر شکریہ کا موقع مرحمت فرمائیں۔ساجد حسین ندوی

عید الفطر کی مناسبت سے ایک مضمون آپ موقر روزنامہ کے لیے پیش خدمت ہے۔ شائع فرماکر شکریہ کا موقع مرحمت فرمائیں۔
ساجد حسین ندوی 
Urduduniyanews72
-----------------------------------------------
عید الفطرکا پیغام مسلمانان عالم کے نام
ساجد حسین ندوی
رمضان المبارک کا مہینہ گزرگیالیکن جاتے جاتے اس نے تقویٰ وطہارت ، عبادت وریاضت ، عفت وپاکدامنی، ذوق عبادت ، شوق تلاوت ، تزکیہ نفس، توبہ و استغفار، انابت الی اللہ، فکر آخرت ، معاصی ومنکرات سے اجتناب اور رضاء الہی کی جستجوکا درس دے گیا ۔ ہم نے اس ماہ سے جو درس لیا ہے وہ درس زندگی ہے ، جو کچھ عبادتوں اور نیکیوں کا اہتمام ہم نے اس مہینہ میں کیا ہے رب کی منشاء یہ ہیکہ یہی ہماری پوری زندگی بن جائے ، ہروقت تقویٰ وطہارت، عبادت وریاضت اور معاصی ومنکرات سے اجتناب ہمارا شیوہ ہوجائے، ہمارا کوئی بھی قدم حکم خداوندی اور فرمان نبی کے خلاف نہ اٹھے، ہم صحیح معنوں میں’’وماخلقت الجن والانس الا لیعبدون ‘‘ کا مصداق بن جائیں ۔ اگر ہم نے پوری زندگی رمضان کے تقاضے کی مطابق گزار لی تو یقین جانئے آخرت کی زندگی عیدکی طرح ہوگی ۔
رمضان کی تمام عنایات وبرکات کے علاوہ اللہ رب العزت نے عید کی رات کو انعام واکرام یعنی لیلۃ الجائزہ قراردیاہے ، چنانچہ ہمیں اس رات کے فضائل وبرکات سے مستفید ہونے کے لیے ویساہی اہتمام کرنا چاہیے جیساکہ ہم نے رمضان کی راتوں میں کیاتھا۔
عید الفطر اسلام کی طرف سے عطاکردہ خوشی ومسرت کے ان لمحات کانام ہے جسمیں بندہ بارگاہ ایزدی میںسجدہ ریز ہوکر اپنی خوشی کا اظہار کرتاہے۔ ساتھ ہی زبان حال سے یہ پیغام بھی دیتاجاتاہے کہ خوشی کے لمحات میں بھی حق بندی اداکرنا ہمارا طرہ امتیاز ہے جبکہ دوسرے اقوام ایسے مواقع پر نازیبا حرکات ، ناچ گانااور شراب وشباب میں مست ہوکر ہروہ اعمال کرگزرتے ہیں جو سراسر منشاء خداوندی کے خلاف ہوتاہے۔
لفظ عید عاد یعود عودا سے ماخوذ ہے جس کے معنی لوٹنے او رباربار آنے کے ہیں ۔ عید کو عید اس لیے کہاجاتاہے کہ یہ پر مسرت دن باربار لوٹ کرآتاہے اور خوشیوں اور محبتوں کا پیام لاتاہے ۔
اسلام دین فطرت ہے یہی وجہ ہے کہ اسلام ہراس عمل کو مباح قرار دیتاہے جو فطرت انسانی کے مطابق ہو ۔ اسی طرح خوشی اور مسرت انسانی فطر ت کاخاصہ ہے ، اور اسلام جائز حدود میں رہتے ہوئے انسان کو ہرطرح کی خوشیاںمنانے کی مکمل اجازت دیتاہے۔
انسان ابتدء آفرینش سے ہی خوشیوں کا متلاشی رہاہے ،لیکن خوشیاں بھی دوطرح کی ہوتی ہیں ایک تو انفرادی ، جس میں فرد سے تعلق رکھنے والے کچھ اشخاص شریک ہوکر خوشیاں منالیتے ہیں اوردوسری اجتماعی ،جس میں کسی مذہب یا علاقہ سے وابستہ افراد بحیثیت قوم شریک ہوتے ہیں اور خوشیاں مناتے ہیں ۔ اس طرح کی تقریبات جس میں کسی قوم کے افراد اجتماعی طور پر شریک ہوں اور وہ مذہبی اور ثقافتی اعتبار سے قابل تقلیدہو تو اسی کانام تہوار ہے ۔تہوار مختلف قوموں کی تہذیب ومعاشرت کا آئینہ دار ہوتے ہیں ۔ اسی طرح اسلام کے دوتہوار عید الفطر اور عیدالاضحی اسلامی تہذیب وثقافت، مزاج وحدانیت ، اصول حیات ، تاریخ وروایات اور اسلامی عقائد وتصورات کا آئینہ دار ہیں۔ اگر ہم ان تہواروں کو صحیح طورنبی کریم ﷺ کی تعلیمات کے مطابق منائیں تو اسلام کی روح اور اس کے پیغام کوسمجھنے کے لیے کافی ہے ۔
عید امت محمدیہ کو رمضان المبارک کی برکتوں اور عظمتوں کے طفیل عطاکیا گیا جس میں بندہ رمضان کے تقاضوں کو فرمان خداوندی کے مطابق گزارتاہے ،راتوں کو جاگتاہے ،رب کے سامنے عاجزی اور انکساری کا مظاہرہ کرتاہے، پل بھر کے لیے بھی رب کی نافرمانی گوارا نہیں کرتاہے، ایسے ہی بندو ں کے لیے اللہ بطور انعام عید کاتحفہ عطافرمایا ہے ،عید کی اصل خوشی انہی لوگوں کے لیے ہے۔
نعمتیں مخصوص ہیں سب متقی کے واسطے
زندگی اک اور بھی ہے آدمی کے واسطے
ہوگیا گر حق شناسا کوئی جو رمضان میں
عید لکھی ہے خدانے بس اسی کے واسطے
 عید الفطر کا اصل پیغام کو سناتے ہوئے علامہ سید ابوالحسن علی ندوی ؒ  رقمطراز ہیں۔
’’اب ضرور ت ہے کہ ہم مسلمان اپنے دین پر از سرنو قائم وپختہ ہوں ، اس دین کا ایسا مظاہرہ کریں اور دین کا ایسانمونہ دنیا والوں کے سامنے لائیں کہ دنیا کی بھی عید ہوجائے ، بہت دن سے دنیا کی عید نہیں ہوئی ہے ، دنیا حقیقی عید سے محروم ہے ، صدیوں سے دنیا کی عید نہیں ہوئی ، دنیا حقیقی عید کو ترس رہی ہے ،نہ امن ہے نہ اخلاق، نہ انسانیت ہے نہ شرافت، نہ قدر شناسی ہے نہ خدمت کا جذبہ ، نہ خداکی یادہے نہ خداکی شناخت اورنہ پہچان ہے ، کہاںکا تہوار، سارے تہوار بچوں کے سے کھیل ہیں جیسے بچوں کی کوئی ذمہ داری نہیں ، کھیلیں کودیں ، کھائیں پئیں اور خوش وخرم رہیں، کچھ فکر نہیں ، ایسی ہی دنیا کی قومیں بچوں کی طرح خوشیاں منارہی ہیں ، لیکن حقیقی خوشی نصیب نہیں ، آج دنیا کو عالمی سطح پر ایک عید کی ضرورت ہے ، وہ عید مسلمانوں کی کوشش سے ہی آسکتی ہے ۔ لیکن افسوس ہے کہ مسلمان خود اپنی عید کاشکر صحیح طریقہ پر ادانہیں کرپاتے ، اور اس کے معنی صحیح طور پر نہیں سمجھتے آپ جہاں رہیں ثابت کریں کہ آپ کوئی اور قوم ہیں ، افسوس سب ایک جیسے ہوگئے ہیں ۔ رشوت ، سود ،مال ودولت اور آرام طلبی میں سب یکساں ہیں ، حالانکہ مسلمان ایسانہیں ہوسکتا۔ تم حقیقی مسلمان بنوگے اللہ سے ڈروگے تو اللہ تمہیں شان امتیازی عطافرمائے گا، دور سے پہچانے جاؤگے۔ دیکھو مسلمان آرہاہے ۔ یہ حالت قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی تھی جنہیں دیکھکر ملک ملک مسلمان ہوجاتاتھا‘‘
ہمیں عید کے اصل پیغام کو سمجھنا چاہیے اور اس کے مطابق اپنی زندگی کو گزارناچاہیے۔یہی عید الفطر کااصل پیغام ہے ۔
sajidhussainandwi@gmail.com

جمعرات, اپریل 20, 2023

انعام کے رات و دن __مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

انعام کے رات و دن __
Urduduniyanews72
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
 رحمت ومغفرت اور جہنم سے نجات کے جو چند ایام اللہ رب العزت نے ہمیں دیے تھے وہ ہم سے اب رخصت ہوا چاہتے ہیں،ابھی چند دن تو ہوئے تھے کہ ہم نے اس ماہ مبارک کا استقبال کیا تھا اور اب اس کو الوداع کہنے کو تیار بیٹھے ہیں ، خوش قسمت ہیں وہ لوگ جنہوں نے اس ماہ مبارک میں روزہ ، تراویح ، تلاوت قرآن ، ذکر واذکار ، سنن ونوافل ، تہجد واوابین کے ذریعہ اللہ کو راضی کر لیا ، اور اپنے اندر تقویٰ کی وہ صلاحیت پیدا کرنے میں کامیاب ہو گئے جو ماسٹر کی اور شاہ کلید ہے، اور جس کے پیدا ہونے سے دل کی دنیا بدلتی ہے، سوچنے کا انداز بدلتا ہے ، جینے کے طریقے بدلتے ہیں، معاشرت بدلتی ہے ، اور معیشت کا انداز بھی بدل جاتا ہے، جن لوگوں کے اندر یہ کیفیت پیدا ہو گئی ، انہوں نے روزے کے مقصد کو پالیا اور اب زندگی کے دوسرے مہینوں میں وہ اس سے فائدہ اٹھائیں گے ،ان کی زندگی میں تبدیلیاں ہوں گی ان کا ہر قدم اور ہر عمل شاہ راہ حیات پر مرضیات الٰہی اور طریقۂ نبوی کے مطابق ہوگا، خوش خبری ہے ان لوگوں کے لیے اور اصل مبارک بادی کے وہی مستحق ہیں۔
 بد قسمتی سے بہت سے لوگ اس ماہ میں بھی اللہ کے فضل ومغفرت سے محروم رہ جاتے ہیں اور شب قدر جیسی مقدس اور بابرکت رات میں بھی اس ماہ سے فائدہ نہیں اٹھا پاتے، ان میں سے بعض نے اپنی حد تک کوشش بھی کرتے ہیں، لیکن وہ بعض منکرات سے اپنے کو دور نہیں رکھ پاتے ، اس لیے محرومی ان کا مقدر بن گئی ،ان میں بعض شراب کی لت نہیں چھوڑتے ، بعض اپنے والدین کو ناراض کیے ہوتے ہیں ، بعض قطع تعلق کے مجرم اور صلہ رحمی سے گریزاں ، بعض کے دل کینہ وکدورت سے پاک نہیں رہ پائے، ان چاروں گناہ کی نحوست نے انہیں جنت کی دہلیز سے اس ماہ مبارک میں بھی دور رکھا۔
 ایسے لوگوں کے لیے بھی چند ایام بچ گئے ہیں ، راتیں طاق بھی بچی ہوئی ہیں، جس میں شب قدر کے پا لینے کا امکان ہے ، اور رب کو راضی کرنے کے لیے تو تھوڑا وقت بھی بہت ہے، نہ جانے کون سی ادا اور کون سا جملہ اسے پسند آجائے اور مالک اس کے ساتھ عفو ودر گذر کا معاملہ کر دیں ، اللہ کے نزدیک تو بخشش کے لیے یہ بھی کافی ہوگا کہ اس نے صرف اللہ کی رضا کے لیے ان منکرات کو چھوڑ دیا ،جس کی وجہ سے شب قدر میں بھی اس پر مغفرت کے دروازے بند ہو نے والے تھے۔
رمضان کے مہینے مکمل ہو گئے ، عید کا چاند نکل آیا ، تراویح کا سلسلہ بند ہوا، فرض روزے کے ایام بھی جاتے رہے ، معتکفین کے اعتکاف بھی مکمل ہو گئے ، لیکن اب بھی بہت کچھ باقی ہے ، عید کی چاند رات ہمارے یہاں لہو ولعب کے لیے مشہور ہے، شیطان آزاد ہوتے ہی پوری جلوہ سامانی کے ساتھ بندوں پر ٹوٹ پڑتا ہے، نمازی مسجد سے غائب ہونے لگتے ہیں، ہمہ شما کا کیا ذکر ، اچھے خاصے دیندار اور خواص کو بھی عموما اس رات بڑی میٹھی نیند آتی ہے اور رمضان بھر کی ریاضت کے بعد وہ اپنے کو ہلکا پھلکا محسوس کرتے ہیں ، حالاں کہ یہ رات تو اصل انعام کی رات ہے ، فرشتے اس رات کو لیلة الجائزہ کہتے ہیں، اس لیے خصوصیت سے اس رات میں عبادت کا اہتمام کرنا چاہیے ، میں نے اپنے بڑے بھائی محمد ضیاءالہدیٰ رحمانی کو دیکھا کہ وہ چاند کے اعلان کے بعد اعتکاف ختم کرتے ، بہت کم وقت کے لیے گھر آتے اور عشاءکی نماز کے بعد سے صبح تک مسجد میں الحاح وزاری ، گریہ وبکا اور دعاءمغفرت میں مشغول رہتے ، میں نے اس رات کی جیسی قدر کرتے ان کو دیکھا ویسا کوئی دوسرا شخص میری نظر سے نہیں گذرا، انہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد پاک کی خبر تھی کہ جو شخص ثواب کی نیت کرکے دونوں عید کی رات جاگے اور عبادت میں مشغول رہے گا اس دن اس کا دل نہیں مرے گا، جس دن سب کے دل مرجائیں گے ، حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا ؒ نے لکھا ہے کہ اس سے مراد فتنہ وفساد کا وقت ہے، جب لوگوں کے دلوں پر مردنی چھا جاتی ہے ، اس وقت اس کا دل زندہ رہے گا، ایک دوسرا قول یہ بھی لکھا ہے کہ ممکن ہو صور پھونکے جانے کا دن مراد ہو، کہ اس دن اس کی روح بیہوش نہ ہوگی ، ایک دوسری روایت میں ہے کہ جو شخص پانچ راتوں میں عبادت کے لیے جاگے، اس کے واسطے جنت واجب ہوجائے گی ، ان پانچ راتوں میں ایک رات عید الفطر کی ہے، حضرت امام شافعی ؒ نے ما ثبت بالسنة میں عید الفطر کی رات کو دعا کی قبولیت کی پانچ راتوں میں شمار کیا ہے ۔
 اس لیے اس رات میں دعا کا خاص اہتمام کرنا چاہئے اور اسے سو کر گذارنا نہیں چاہئے ، یہ عجیب بات ہوگی کہ اللہ اس رات کو انعام تقسیم کررہے ہوں اور بندہ بے خبری کی نیند سورہا ہو ، شکر گذاری کے جذبے، دعا کی قبولیت اور دل کے زندہ رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ بندہ اس رات میں بھی رمضان المبارک کی رات کی طرح ہی بار گاہ خدا وندی میں اپنی مناجات پیش کرتا رہے۔
 لیلة الجائزہ یعنی انعام کی اس رات کے بعد جو دن آ رہا ہے وہ عید الفطر کا دن ہے ، اس دن اللہ کے فرشتے تمام راستوں پر پھیل جاتے ہیں اور بندوں کو عید گاہ کی طرف چلنے کے لیے آواز لگاتے ہیں، فرماتے ہیں کہ اس رب کریم کی بار گاہ میں چلو جو بہت زیادہ عطا کرنے والا اور قصوروں کو معاف کرنے والا ہے، پھر جب لوگ عیدگاہ اللہ کی کبریائی بیان کرتے ہوئے پہونچتے ہیں، تکبیر تشریق کے کلمات ان کی زبانوں پر ہوتے ہیں، اللہ خوش ہو کر فرشتوں سے پوچھتا ہے کہ ایسے مزدور کو کیا بدلہ دیا جائے جو اپنا کام پورا کرچکا ہو؟فرشتے کہتے ہیں :ان کوپوری مزدوری دے دی جائے، اللہ فرشتوں کو گواہ بنا کر اعلان کر تے ہیں ،کہ ہم نے روزے اور تراویح کے بدلے سب کو اپنی رضا ومغفرت عطا کردی ، اللہ رب العزت اس اجتماع میں ہر مانگنے والے کودیتے ہیں، آخرت کے لیے بندہ جو مانگتا ہے سب مل جاتا ہے ، دنیا کے بارے میں جو مانگتا ہے وہ اسے اپنی مصلحت اور حکمت کے مطابق دیتے ہیں، البتہ اس بات کا برملا اعلان ہوتا ہے کہ میں (اللہ) لغزشوں پر ستّاری کروں گا، اور انہیں مجرموں اور کافروں کے سامنے رسوا نہیں ہونے دوں گا ، عید کی نماز ختم ہوتی ہے، اور بندہ بخشش کا پروانہ لیے گھر لوٹ آتا ہے ، اسے اللہ کی رضا نصیب ہوجاتی ہے ، جو اصل دولت اور ایمان والوں کے لیے سرمایہ حیات ہے۔
 ہمارے بہت سارے مسلمان بھائی اس دن کی اہمیت کو بھی نہیں سمجھتے ،ہماری نئی نسل کو تو اس کا ذرا بھی احساس نہیں ہوتا، پہلے سنیما کے ٹکٹ خریدے جاتے تھے، فلم دیکھی جاتی تھی، اب تو موبائل میں فلم دیکھنے کی ایسی سہولت ہو گئی ہے کہ الامان والحفیظ ، گناہ کہیں جا کر کیا جائے اور جس طرح کیا جائے، گناہ تو گناہ ہی ہے ، اللہ تعالیٰ ہم سب کو محفوظ رکھے اور انعام کے اس رات ودن کی خوب خوب قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

بدھ, اپریل 19, 2023

عید الفطر کا پیغام شکر خداوندی مضمون نگار :محمد ضیاء العظیم قاسمی پٹنہ

عید الفطر کا پیغام شکر خداوندی 
Urduduniyanews72
مضمون نگار :محمد ضیاء العظیم قاسمی پٹنہ
موبائل نمبر 7909098319

حضرت عیسٰی علیہ السلام کے جانے کے بعد اور سیدنا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے سے قبل یہ دنیا بڑے برے احوال میں تھی، لوگوں کے اندر ہزاروں برائیاں تھیں، تاریخ اس دور کو ایام جاہلیت سے تشبیہ دیتی ہے، انہیں برائیوں میں سے دو برائیاں بہت عام تھیں اور وہ یہ کہ رنج وغم کے موقع پر وہ حد سے اتر جاتے ماتم کرتے، اپنے اظہارِ غم کے لئے عجیب وغریب انداز اختیار کیا کرتے تھے، اسی طرح جب انہیں کوئی خوشیاں لاحق ہوتی تو وہ خوشیوں کے اظہار کے واسطے حد سے گزر کر جشن منایا کرتے تھے، اور اس جشن کا انداز بھی عجیب وغریب ہوا کرتا تھا، لیکن جیسے ہی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں تشریف لائے انہوں نے ان دونوں تصور کی تردید کرتے ہوئے غم میں ماتم کی جگہ صبر اور خوشی میں جشن کی جگہ شکر ادا کرنے کی تلقین فرمائی، اور ان دونوں طریقے کو مومنین کی علامت سے تشبیہ دیتے ہوئے فرمایا,, اَلَّـذِيْنَ اِذَآ اَصَابَتْهُـمْ مُّصِيْبَةٌ قَالُوْآ اِنَّا لِلّـٰهِ وَاِنَّـآ اِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ (سورہ بقرہ آیت 156)
وہ لوگ کہ جب انہیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو کہتے ہیں ہم تو اللہ کے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔
اسی طرح شکر ادا کرنے والوں کے لئے یہ وعدہ فرمایا,, وَاِذْ تَاَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِنْ شَكَـرْتُـمْ لَاَزِيْدَنَّكُمْ ۖ وَلَئِنْ كَفَرْتُـمْ اِنَّ عَذَابِىْ لَشَدِيْدٌ (سورہ ابراہیم آیت 7)
اور جب تمہارے رب نے سنا دیا تھا کہ البتہ اگر تم شکر گزاری کرو گے تو اور زیادہ دوں گا، اور اگر ناشکری کرو گے تو میرا عذاب بھی سخت ہے۔
یعنی کہ زندگی صبر اور شکر کے ساتھ گزاریں، 
اسلام دنیا کا واحد مذہب ہے جس نے انسانوں کی ہر قدم پر راہنمائی کی ہے، انسانوں کو کہیں بھی تنہا لاوارث نہیں چھوڑا ہے، انسانوں کی تاریخ کیا ہے، انسانوں کی تخلیق کیوں کی گئی، انسانوں کی کامیابی اور ناکامی کیا ہے، کون سا عمل کرنا ہے اور کس عمل سے دور رہنا ہے ان باتوں کی مکمل، مدلل ومفصل راہنمائی کردی گئی ہیں ۔اللہ رب العزت نے انسانوں کی تخلیقات کرکے ایمان وکفر کے راستے بتائیں اور اسے اپنی قدرت اور اپنے اختیارات میں سے چند اختیارات عطاء فرمائے اور ارشاد فرما دیا,, وَ قُلِ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكُمْ فَمَنْ شَآءَ فَلْیُؤْمِنْ وَّ مَنْ شَآءَ فَلْیَكْفُرْۙ-اِنَّاۤ اَعْتَدْنَا لِلظّٰلِمِیْنَ نَارًاۙ-اَحَاطَ بِهِمْ سُرَادِقُهَاؕ-وَ اِنْ یَّسْتَغِیْثُوْا یُغَاثُوْا بِمَآءٍ كَالْمُهْلِ یَشْوِی الْوُجُوْهَؕ-بِئْسَ الشَّرَابُؕ-وَ سَآءَتْ مُرْتَفَقًا() سورہ کہف آیت (۲۹)،،
اے بنی صلی اللہ علیہ وسلم آپ کہ دیں کہ حق تمہارے رب کی طرف سے ہے، جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر کرے، بیشک ہم نے ظالموں کے لیے وہ آگ تیار کر رکھی ہے جس کی دیواریں انہیں گھیر لیں گی اور اگروہ پانی کے لیے فریاد کریں تو ان کی فریاد اس پانی سے پوری کی جائے گی جو پگھلائے ہوئے تانبے کی طرح ہوگا جو اُن کے منہ کوبھون دے گا۔ کیا ہی برا پینا اور دوزخ کیا ہی بری ٹھہرنے کی جگہ ہے۔
اللہ رب العزت نے انسانوں کو اختیارات دے رکھے ہیں کہ وہ ایمان پر چلے یا کفر پر، لیکن ساتھ ساتھ کفر کی مذمت بھی بیان فرمادی، اسی طرح ایمان کی حلاوت وچاشنی اور انعامات بھی بیان فرمائے,, اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ كَانَتْ لَهُمْ جَنّٰتُ الْفِرْدَوْسِ نُزُلًاۙ(سورہ کہف آیت ۱۰۷)بیشک جو لوگ ایمان لائے اور اچھے اعمال کئے ان کی مہمانی کے لئے فردوس کے باغات ہیں ۔
وَالَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَنُدْخِلُـهُـمْ جَنَّاتٍ تَجْرِىْ مِنْ تَحْتِـهَا الْاَنْـهَارُ خَالِـدِيْنَ فِيْـهَآ اَبَدًا ۖ وَعْدَ اللّـٰهِ حَقًّا ۚ وَمَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللّـٰهِ قِيْلًا (سورہ نساء آیت 122)
اور جو لوگ ایمان لائے اور اچھے کام کیے انہیں ہم باغوں میں داخل کریں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ان میں ہمیشہ رہیں گے، اللہ کا وعدہ سچا ہے، اور اللہ سے زیادہ سچا کون ہے۔
اس طرح سے اور بھی کئ آیات کریمہ ہیں، 
اللہ رب العزت کا وعدہ برحق ہے۔

يَآ اَيُّـهَا النَّاسُ اِنَّ وَعْدَ اللّـٰهِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَيَاةُ الـدُّنْيَا ۖ وَلَا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللّـٰهِ الْغَرُوْرُ (سورہ فاطر آیت 5)
اے لوگو بے شک اللہ کا وعدہ سچا ہے پھر تمہیں دنیا کی زندگی دھوکے میں نہ ڈالے، اور تمہیں اللہ کے بارے میں دھوکہ باز دھوکا نہ دے،، 

یقیناً رب العزت نے آدم وحوا علیہما السلام کے ذریعہ اس دنیا کو آباد کیا اور انسانوں کی تمام ضروریات کا خیال کرتے ہوئے اسے نعمتوں سے سرفراز کیا، زندگی گزارنے کے سلیقے دیئے۔
عید الفطر بھی رب العزت کی عطاء کردہ ایک عظیم نعمت ہے یہ وہ تہوار ہے جسے پوری دنیا میں بسنے والے مسلمان رمضان المبارک کا مہینہ ختم ہونے پر مناتے ہیں۔
اس لحاظ سے یہ ایک عظیم تاریخ سے جڑا ہوا ہے، عید کے دن اللہ رب العزت نے  روزہ رکھنے سے منع کیا ہے، عید در اصل تحفہ ہے ان مومنین و مومنات کے لئے جنہوں نے صرف رب کی رضامندی کی خاطر کھانے پینے اور نفسانی خواہشات سے خود کو الگ رکھا ہے ۔ مسلمان رمضان کے 29 یا 30 روزے رکھنے کے بعد یکم شوال المکرم کو عید مناتے ہیں۔اور بطورِ شکرانہ عید الفطر کے دن نماز عید (دو رکعت 6 زائد تکبیروں)کے ساتھ پڑھ کر رب کے سامنے اپنی بندگی کا اظہار کرتے ہیں ، جسے جامع مسجد یا کسی کھلے میدان یعنی عیدگاہ میں ادا کیا جاتا ہے ۔عید کے دن کئ اہم امور انجام دینے کا حکم ہے اور ان میں سب سے اہم یہ ہے کہ ہم اپنی جانب اور اہل خانہ کی جانب سے صدقۃ الفطر ادا کریں ۔صدقہ فطر حکم خداوندی کی بنا پر واجب ہے اس کی ایک حکمت ادائے شکر بھی ہے ۔جو مسلمان اتنا مال دار ہے کہ اس پر زکاۃ واجب ہے یا اس پر زکاۃ واجب نہیں، لیکن قرض اور ضروری اسباب سے زائد اتنی قیمت کا مال یا اسباب اس کی ملکیت میں موجود ہے جس کی مالیت ساڑھے باون تولے چاندی کی قیمت کے برابر یا اس سے زیادہ ہو تو اس پر عیدالفطر کے دن صدقہ دینا واجب ہے، چاہے وہ تجارت کا مال ہو یا تجارت کا مال نہ ہو، چاہے اس پر سال گزر چکا ہو یا نہ گزرا ہو۔ اس صدقہ کو صدقۂ فطر کہتے ہیں۔
جس طرح مال دار ہونے کی صورت میں مردوں پر صدقۂ فطر ادا کرنا واجب ہے اسی طرح اگر عورت مال دار صاحب نصاب ہے یا اس کی ملکیت میں قرضہ اور ضروری اسباب سے زائد اتنی قیمت کا مال وغیرہ ہے جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہے، مثلاً اس کے پاس زیور ہے جو والدین کی طرف سے ملا ہے یا شوہر نے نصاب کے برابر زیور عورت کو بطور ملکیت دیا ہے، یا مہر میں اتنا زیور ملا جو نصاب کے برابر ہے تو عورت کو بھی اپنی طرف سے صدقۂ فطر ادا کرنا واجب ہے، ہاں اگرشوہر اس کی طرف سے اسے بتاکر ادا کردے تو ادا ہوجائے گا۔
 مال دار عورت پر اپنا صدقۂ فطر ادا کرنا تو واجب ہے، لیکن اس پر کسی اور کی طرف سے ادا کرنا واجب نہیں، نہ بچوں کی طرف سے نہ ماں باپ کی طرف سے، نہ شوہر کی طرف سے۔
البتہ مال دار آدمی کے لیے صدقۂ فطر اپنی طرف سے بھی ادا کرنا واجب ہے، اپنی نابالغ اولاد کی طرف سے بھی، نابالغ اولاد اگر مال دار ہو تو ان کے مال سے ادا کرے اور اگر مال دار نہیں ہے تو اپنے مال سے ادا کرے۔ بالغ اولاد اگر مال دار ہے تو ان کی طرف سے صدقۂ فطر ادا کرنا باپ پر واجب نہیں، ہاں اگر باپ ازخود ادا کردے گا تو صدقۂ فطر ادا ہوجائے گا۔
عید الفطر کی رات یعنی چاند رات کو "ليلة الجائزة "  اور  عید الفطر کے دن کو " یوم الْجَوَائِزِ"  یعنی انعامات و بدلے کا دن حدیث میں کہا گیا ہے ۔
حضرت ابن عباس سے موقوفاً مَروی ہے :”يَوْمُ الْفِطْرِ يَوْمُ الْجَوَائِزِ“
عید کا دن ”یوم الجَوَائِز“یعنی انعام ملنے والا دن ہے۔(کنز العمال :24540)
نبی کریمﷺ اس دن کو مذہبی تہوار قرار دیتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں  : ”إِنَّ لِكُلِّ قَوْمٍ عِيدًا وَهَذَا عِيدُنَا“  (بیشک ہر قوم کیلئے عید کا دن ہوتا ہے اور یہ ہمارا عید کا دن ہے۔(بخاری:952)
اللہ تعالی عید الفطر کے دن فرشتوں کو گواہ بناکر روزہ داروں کی مغفرت فرمادیتے اور ان کے گناہوں کو سیئات سے بدل دیتے ہیں،  چنانچہ روزہ دار عید گاہ سے بخشے بخشائے واپس ہوتے ہیں ۔
اگر ہم غور وخوض کریں تو عید الفطر کی خوشیاں در حقیقت  قرآن کے ملنے پر منائی جاتی ہیں،  رمضان المبارک جو کہ قرآن کا مہینہ ہے،اور قرآن مجید کی تعریف خود قرآن مجید نے سب سے بڑی نعمت سے کرائی ہے ، اور اس قرآن کی نعمت پر خود رب العزت نے انسانوں کو خوشیاں منانے کا اعلان فرمایا ہے : یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ قَدْ جَآءَتْكُمْ مَّوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ شِفَآءٌ لِّمَا فِی الصُّدُوْرِۙ۬-وَ هُدًى وَّ رَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ  قُلْ بِفَضْلِ اللّٰهِ وَ بِرَحْمَتِهٖ فَبِذٰلِكَ فَلْیَفْرَحُوْاؕ-هُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ
(سورہ یونس آیت 57 58)
’’لوگو، تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نصیحت آگئی ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو دلوں کے امراض کی شفا ہے اور جو اسے قبول کر لیں ان کے لیے رہنمائی اور رحمت ہے۔ اے نبی ؐ ، کہو کہ’’ یہ اللہ کا فضل اور اْس کی مہربانی ہے کہ یہ چیز اْس نے بھیجی، اس پر تو لوگوں کو خوشی منانی چاہیے، یہ اْن سب چیزوں سے بہتر ہے جنہیں لوگ سمیٹ رہے ہیں۔‘‘

عید الفطر سے ہمیں اور بھی کئ اہم پیغامات ملتے ہیں اور وہ یہ کہ ہم اللہ کی بندگی کے ساتھ ساتھ ان کے تمام احکامات کو بجا لانے کی کوشش کریں، نعمتوں پر شکر ادا کریں اور مصائب میں صبر وتحمل کے ساتھ اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے زندگی گزاریں،کیوں کہ شکر نام ہی ہے نعمتوں کے حقوق کی ادائیگی کا، اللہ نے جو بھی نعمتیں ہمیں میسر کی ہیں ان میں اور بھی لوگوں کے حقوق ہیں، خصوصاً غرباء وفقراء اور مساکین وغیرہ ۔
اسی لیے اپنی خوشیوں میں اپنے دوست واحباب، خویش واقربہ ،غرباء وفقراء اور ضرورتمندوں کی شامل رکھیں،انفرادی نہیں اجتماعی زندگی گزاریں، انسانوں کے ایک لمحات عبادات ہیں، خواہ ہم سماجی ومعاشرتی زندگی، اقتصادی زندگی، اجتماعی ہو، انفرادی ہو،محفل ہو تنہائی ہو، خلوت ہو، جلوت ہو، صبح وشام ہو یا رات ودن بشرطیکہ ہر معاملے میں احکامات الہی کو سامنے رکھیں۔ یہی وجہ ہے کہ عید الفطر کی نماز کے لئے ایک راستے سے جانے اور دوسرے راستے سے واپس آنے کا حکم ہے تاکہ ہم زیادہ سے زیادہ لوگوں سے ملاقات کرکے ان کے احوال سے واقف ہوکر ان کی مدد کرسکیں، خلاصہ عید اللہ کی نعمتوں کے شکر ادا کرنے کا ایک اہم ذریعہ اور وسیلہ ہے۔ہر مسلمان کو چاہیے کہ اللہ کے ان احکامات کو بھر پور بجا لانے کی کوشش کرے یہی پیغام ہے عید الفطر کا، اور یہی تقاضے ہیں بندگی کے

خانوادہ ھدی کے نو حفاظ کا تراویح میں قرآن مکملخانوادہ کے سر براہ مفتی محمد ثناءالہدی قاسمی نے مبارکباد پیش کی ۔

خانوادہ ھدی کے نو حفاظ کا تراویح میں قرآن مکمل
خانوادہ کے سر براہ مفتی محمد ثناءالہدی قاسمی نے مبارکباد پیش کی ۔
Urduduniyanews72
مظفر پور 18اپریل۔( عبدالرحیم بڑہولیاوی) ویشالی ضلع کے مشہور علمی خانوادہ ھدی کے نو حفاظ کرام نے  تراویح میں قرآن مجید مکمل سنا یا اس  پرمسرت موقع سے خانوادہ کے سرپرست تبلیغی جماعت سے منسلک جناب محمد نجم الہدی نجم ، سربراہ مفتی محمد ثناءالہدی قاسمی نایب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھار کھنڈ اور بڑی تعداد میں اعز واقربا نے مبارکباد دی ۔اور خانوادہ کی اس حصول یابی پر مسرت کا اظہار کیا ۔قابل ذکر ہے کہ اس خانوادہ کا تذکرہ بڑے وقیع انداز میں ڈاکٹر امام اعظم نے اپنی تحقیقی وتاریخی کتاب انساب وامصار  میں کیا ہے۔اس کتاب میں خانوادہ ھدی کے انساب پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے ۔اس خانوادہ کے جن حفاظ کرام نے قران سنایا ان میں مفتی محمد ثناءالہدی قاسمی اور مولانا مفتی محمد ظفر الہدی قاسمی نے زکریا کالونی سعد پورہ مظفر پور،مولانا تاج الہدی رحمانی نے انور پور حاجی پور۔مولانا وہاج الھدی قاسمی نے ویشالی ضلع کے منصور پور ہلیہ حافظ ذکو ان القمر مدنی نگر مہوا،حافظ ارقم منہاج نے چک چمیلی سراءے ،مولانا نظر الہدی قاسمی نے حسن پور گنگھٹی اور  خواتین میں رضیہ عشرت نے دارالعلوم سبیل السلام حیدرآباد اور شایستہ پروین نے زکریا کالونی مظفر پور میں تراویح میں قرآن مجید ختم کیا۔اس فہرست پر نظرڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان حفاظ کرام میں مفتی  ثناء الہدیٰ قاسمی صاحب کے دو لڑکا ، دو بھتیجا،دو بڑے بھائی محمد ضیاء الہدی مرحوم کے پوتا ،نواسہ ،مفتی صاحب کی اک بیٹی اور ایک بہو زوجہ مولانا محمد ظفر الہدی شامل ہیں۔عصری تعلیم میں بھی یہ خانوادہ علاقے میں ممتاز ہے۔جس میں انجینیئر، پی ایچ ڈی ایم ،اساتذہ اور ڈاکٹر وغیرہ کثیر تعداد میں ہیں ،پورا خانوادہ علمی و ملی کاموں سے جڑا ہوا ہے ۔اور یہی اس خانوادہ کی شناخت ہے

راہل گاندھی نرغے میں __ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

راہل گاندھی نرغے میں __
urduduniyanews72
 مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
کانگریس پارٹی کے سب سے مضبوط لیڈر جناب راہل گاندھی ان دنوں قانونی شکنجے اور سیاسی نرغے میں ہیں، ان کے ایک بیان پرکہ ’’رقم لے کر بھاگنے والے سارے کا خاندانی لاحقہ مودی ہی کیوں ہیں‘‘ سورت کے چیف جوڈیشیل مجسٹریٹ ایچ ایچ ورما نے تعزیرات ہند کی دفعہ۰ 500؍ اور دفعہ 499؍ کے تحت ہتک آمیز قرار دے کر دوسال کی سزا سنائی ہے، اپیل کے لیے ایک ماہ کی مہلت دی اور ضمانت دے کر چھوڑ دیا، اگلے دن پارلیامنٹ سکریٹریٹ نے انہیںنا اہل قرار دے کر پارلیامنٹ کی رکنیت ختم کر دی ہے وہ کیرالہ کے واٹناڈ سے رکن پارلیامنٹ تھے،تیسرے دن انہیں سرکاری مکان خالی کرنے کا نوٹس تھما دیا گیا، سرکاری کام جب اتنی عجلت میں ہونے لگے تو سمجھنا چاہیے کہ دال میں کچھ کالا ہے کہ الیکشن کمیشن کواس سیٹ کو خالی مان کر انتخاب کرانے میں اپیل کی مدت کے ختم ہونے اور عدالت کے رخ کا انتظا رہے۔
 بات دس سال پرانی ہے ، جب للی تھامس معاملہ میں سپریم کورٹ نے 10؍ جولائی 2013ء کو عوامی نمائندگی قانونی 1951؍ کی دفعہ 8(2) کو رد کرکے فیصلہ دیا تھا، ممبران پارلیامنٹ واسمبلی کسی بھی مقدمہ میں دو سال کی سزا پاتا ہے تو فوری طور پر اس کی رکنیت ختم ہوجائے گی اور چھ سال تک وہ نہ تو امیدوار بن سکے گا اور نہ ہی ووٹ دے سکے گا، پہلے ایسانہیں تھا؛ بلکہ تین ماہ تک فیصلہ کے خلاف اوپر کی عدالت میں اپیل کرنے کی مہلت دی جاتی تھی ، اپیل جب تک زیر سماعت رہتی اس وقت تک رکنیت ختم نہیں ہوتی تھی، بلکہ عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے خلاف ریویو پٹیشن بھی دیا جا سکتا تھا، اور اس کی سماعت تک رکنیت بر قرار رہتی تھی ، مطلب یہ ہے کہ عدالتی چارہ جوئی کی ساری شکلیں ناکام ہوجاتیں تب رکنیت ختم ہوتی تھی۔
 من موہن سنگھ کی وزارت میں عدالت کے اس فیصلے کو بدلنے کے لیے آر ڈی ننس لانے کی کوشش کی گئی ، جسے راہل گاندھی نے ہی پارلیامنٹ میں بکواس قرار دے کر پھاڑ کر پھینک دیا تھا ، اگر وہ آر ڈی ننس پاس ہوجاتا تو آج راہل گاندھی کو یہ دن دیکھنا نہیں پڑتا، اس فیصلہ کے پہلے شکار لا لو پرشاد یادو ہوئے، 2013میں ان کی پارلیامنٹ کی رکنیت ختم ہوئی، جگدیش شرما ، رشید مسعود، مترسین یادو، اعظم خان، عبد اللہ اعظم کی رکنیت کو بھی اسی قانون کے تحت ختم کیا گیا، لکشدیپ کے لوک سبھا ممبر پی پی محمد فیضل کو بھی نکالا گیا، کیرالہ ہائی کورٹ نے فوری طور سے اس فیصلہ پر روک لگائی، معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے، لیکن ہائی کورٹ کے روک لگانے کے با وجود انہیں پارلیامنٹ میں گھسنے نہیں دیا جا رہا تھا، گذشتہ دنوں سپریم کورٹ میں اس کی سماعت ہوئی تھی تو فیصلہ کے قبل ہی پارلیامنٹ سکریٹریٹ ان کی رکنیت بحال کر دی ۔
 اس فیصلہ کا سیاسی پہلو زیادہ اہم ہے اور سب کی نگاہیں اسی پر لگی ہوئی ہیں، جس جملے پر سزا سنائی گئی ہے ، اس سے بڑے بڑے ہتک آمیز جملے ماضی میں مختلف سیاسی قائدین کے ذریعہ کہے جاتے رہے ہیں، کسی پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی، کیوں کہ وہ سب منظور نظر تھے، ماضی کے اوراق پلٹیے تو معلوم ہوگا کہ اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری باجپائی نے کہا تھا کہ’’ کیا وجہ ہے کہ مسلمان کسی کے ساتھ چین سے نہیں رہ سکتے‘‘، لال کرشن اڈوانی نے مسلمانوں کو ’’ہندو محمدی‘‘ کہنے کا مشورہ دیا تھا، اور کہا تھا کہ’’ تمام مسلمان دہشت گرد نہیں ہیں، لیکن تمام دہشت گرد مسلمان ہیں‘‘، آر ایس ایس سر براہ ہندوستان کے تمام باشندوں کو ’’ہندو‘‘ کہتے نہیں تھکتے، سابق دو مرکزی وزراء نے عہدہ پر رہتے ہوئے تمام سیکولر لوگوں کو گالیاں دیتے ہوئے کہا تھا کہ’’ ملک کے تمام سیکولر لوگ ناجا ئز اولاد ہیں‘‘، فہرست بہت طویل ہے ، بہوجن سماج وادی پارٹی کی صدر کو طوائف ، دیش کے غداروں کو گولی مارو سالوں کو، یہ جملے بھاجپا کے دوسرے تیسرے درجہ کے لیڈران کے ہیں، سر فہرست رہنے والے بھاجپا قائدین کے بیان میں سونیا گاندھی کو کانگریس کی بیوہ ، کانگریس ایم پی ششی تھرور کی آنجہانی بیوی سونندا کو پچاس کروڑ کی گرل فرینڈ، سی اے اے، این آر سی کے خلاف تحریک چلانے کے بارے میں یہ کہنا کہ ’’دنگائی اپنے کپڑوں سے پہچانے جاتے ہیں‘‘ یہ اور اس قسم کے جملے بھی ہتک آمیز ہیں، جو ایک خاص طبقہ کو ذلیل کرنے کے لیے استعمال کیے گیے، کیا ان جملوں پر کاروائی نہیں ہونی چاہیے تھی ، لیکن ایسا کچھ نہیں ہوسکا، گاج گری تو راہل پر، وہ بھی کرناٹک سے مقدمہ سورت ٹرانسفر کرانے کے بعد، اب بھاجپا اور کانگریس سڑکوں پر اتر رہے ہیں، بھاجپا اس جملے کو دلت مخالف کہہ کر عوام کے پاس جائے گی اور کانگریس عوام کو بتائے گی کہ راہل کی رکنیت کا ختم کرنا ایک سازش کے تحت ہے ، تاکہ وہ پارلیامنٹ میں مودی اور اڈانی کے رشتوں پر مزید روشنی نہ ڈال سکیں۔
 راہل گاندھی کے ساتھ پوری کانگریس اور اٹھارہ( 18) پارٹیاں کھڑی ہیں، معاملہ ہی کچھ ایسا ہے ، ابھی علامتی دھرنے اور احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا ہے، یہ زور بھی پکڑ سکتا ہے ، کانگریس کو اتنا فائدہ تو ضرور ہوا ہے کہ حزب مخالف اس فیصلے کے خلاف ایک آواز ہو گیا ہے ، ممتا بنرجی اور محبوبہ مفتی کانگریس سے دوری بنائے رہنے کے اپنے عزم کے باوجود اس معاملہ میں راہل کی حمایت میں بول رہی ہیں، سیاسی تجزیہ نگار یہ بھی کہتے ہیں کہ اگلے انتخاب میں کانگریس کو اس فیصلہ کی وجہ سے ہمدردی کا ووٹ بھی مل سکتا ہے، جیسا اندرا گاندھی کے ساتھ 1977کے بعد 1980میں ہوا تھا، اور اکثریت سے ان کی اقتدار میں واپسی ہوئی تھی ۔
 اس واقعہ کے بعد راہل گاندھی نے اپنی پہلی پریس کانفرنس میں اڈانی اور وزیر اعظم کے رشتوں پر سوال اٹھائے ، بیس ہزار کروڑ روپے کہاں سے آئے؟ اس کو دہرایا اور کہا کہ ہم ساورکر نہیں ، گاندھی ہیں، گاندھی معافی نہیں مانگتے، یقینا راہل گاندھی ساور کر نہیں ہیں، لیکن یہ بھی سچ نہیں ہے کہ انہوں نے کبھی معافی نہیں مانگی، دو تین بارکی معافی تو ہم جیسوں کو بھی یاد ہے، آر ڈی ننس کی کاپی 2013میں انہوں نے پھاڑی تھی اس کی معافی انہوں نے 2018میں مانگی، 2018میںرافیل معاملہ پر پھنسنے کے بعد انہوں نے 2020میں معافی مانگی تھی2018میں ’’چوکیدار چور ہے‘‘ کہنے پر 2019میں وہ معافی مانگ کر بچے تھے، معافی مانگنے والے راہل گاندھی اکیلے نہیں ہیں، دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجری وال پر آنجہانی ارون جیٹھلی نے دس کروڑ روپے کا ہتک عزتی کا مقدمہ کیا تھا، تین سال بعد اروند کیجری وال نے تحریری معافی مانگ کر اس مقدمہ سے چھٹکارا پایا تھا، انہوں نے مختلف معاملات میں کپل سبل اور نتن گڈکری سے بھی معافی مانگ کر خودکو بچا یا تھا، لیکن اس معاملہ میں راہل گاندھی ایسا نہیں کر سکے اور پارلیامنٹ کی رکنیت سے ہاتھ دھونا پڑا۔ کہتے ہیں کہ کرکٹ اور سیاست میں کچھ نہیں کہا جا سکتاکہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا، اس لیے انتظار کیجئے اور دیکھیے آگے آگے ہوتا ہے کیا۔

مافیا ڈان کون۔۔۔۔۔۔؟

مافیا ڈان کون۔۔۔۔۔۔؟ 
Urduduniyanews72
  ٹانڈہ۔ امبیڈکر نگر (یو،پی)آج قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن کےصدرمشہورادیب وشاعر اورصحافی انس مسرورانصاری نےاپنےاایک بیان میں کہاکہ عتیق احمداوران کےبھائی اشرف احمدکو اترپردیش کی بھاجپاحکومت نے بہت چالاکی، عیاری اور عدالتی جواب دہی سے بچنے کے لیے دونوں بھائیوں کے قتل کی سپاری دے کرانھیں منصوبہ بندطریقےسے قتل کروایا ہے۔انھوں نے کہا کہ جس دن عتیق اور اشرف کو قتل کیاجاناتھا،مجھے میرےایک بھاجپائی دوست نےصبح سویرے ہی بتا دیا تھا کہ آج عتیق اور اشرف کوگولی ماردی جائےگی۔ جب میں نے بے یقینی کااظہار کیا تو اس نے کہا۔۔دو بجے دن کی نیوز میں سن لینا،، 
 پھر وہی ہوا جو اس نےکہاتھا۔اس کا مطلب یہ ہےکہ گاؤں کےرہنے والےایک عام بھاجپائی کوبھی معلوم تھا کہ آج کیاہونےوالاہے۔خاص بھاجپائی لوگوں کی تو بات ہی الگ ہے۔ 
  عجیب بات ہےکہ سیکوریٹی کی موجودگی میں عتیق کے جسم میں آٹھ گولیاں اوراشرف  کے جسم میں پانچ گولیاں تین شوٹروں نےاتار دیں اورحفاظتی دستہ کھڑا تماشےدیکھتارہا۔ اور اب تحقیق اور کھوج بین کا ڈرامہ کیاجا رہاہے۔ سچ یہ ہےکہ سیکوریٹی کو بھی معلوم تھا کہ ابھی کیا کچھ ہونے والا ہے۔ 
 ان سے پہلے ان کےبیٹےاسداوراس کے ایک ساتھی کومڈبھیڑکےڈرامےمیں ماراجاچکاہے۔
یوپی کےسی،ایم آدتیہ ناتھ نےاپنا وعدہ پورا کر دکھایا کہ۔۔عتیق اوراس کے خاندان کو مٹی میں ملادوں گا،،سو ملادیا۔ 
 جنیداورناصرکوبغیرکسی قصورکےگاڑی میں بندکر کےزندہ جلادیاگیا۔ان کےقاتلوں کو سزا کیوں نہیں۔؟کیونکہ وہ بجرنگ دل کے لوگ ہیں جو آرایس ایس کےجنونیوں کی ایک جماعت ہے۔اس موقع پر انس مسرورانصاری نےبی،جے،پی پر سوال اٹھاتے ہوئے ان مجرموں کی ایک فہرست پیش کی جو آج بی،جے،پی حکومتوں میں بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہیں۔ 
جن کےکالےکارناموں سےدنیاواقف ہے۔ہندو انتہاپسندوں کومسلمانوں سے انتہائی نفرت ہے۔ضرور نفرت کرو لیکن نفرت کے انجام پر بھی ضرور غوروفکر کرلو۔۔۔،، 
   انھوں نے کہا کہ بھاجپاآرایس ایس کے اشارےپر آج پھر ملک کو توڑنے کی سیاست کررہی ہے۔اسی کواندھیرنگری،چوپٹ راج کہتے ہیں۔ 
    انھوں نے مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔۔ گنگا جمنی تہذیب کواٹھاکررکھوطاق میں اور اپنی اسلامی تہذیب کو اختیارکرو۔بہت ہوچکا۔۔بہت ہوچکا۔۔۔۔ اب اورنہیں۔اب  اورنہیں۔ دیکھو!سروں کی فصلیں پک چکی ہیں۔۔ کٹائی کا موسم آنےوالاہے۔اپنی آنکھیں کھولو ورنہ بے موت مار دئیے جاؤ گے۔اپنی قومی غیرت اورحمیت کوبیدارکرو۔اپنے اسلاف کےکارناموں کویادکرو۔ان کی روحوں کوشرمندہ نہ کرو۔۔اپنے ملک کو تباہی وبربادی سےبچاؤ۔یہ مجرموں اور لٹیروں کا راج ہے۔ 
سیکولرزم اورآئین کےسرناموں پر ان لوگوں نے موت کے دستخط کردئیے ہیں۔ اس سے پہلے کہ ان کی سیاہی خشک ہو جائے،ملک کو بچانے کی تدبیریں کرلو۔،، 
    انس مسرورانصاری نے ملک کی موجودہ عدلیہ پر بھی سوال اٹھاتے ہوئے کہا:۔ 
   منصفی اب عدلیوں سے آگئی بازار تک
    لرزش  د ست و قلم ا و ر فیصلے ٹوٹے
 
  اپنےاپنےمسئلےہیں اپنی اپنی ہے صلیب
   آدمی پر سانحوں پر سانحے ٹوٹے ہوئے
     انھوں نے مزید کہا کہ۔۔ہم مانتے ہیں کہ عتیق ایک کریمنل اور مافیا ڈان تھالیکن ہر جرم کی سزادینےکااختیارعدالت کوہے۔سوال یہ بھی ہےکہ کیا عتیق اوراس کے کنبہ کو قتل کرنے میں اس لیے عجلت کی گئی تاکہ یہ معاملہ میڈیا میں خوب گرم ہوجائےاورپلوما کا معاملہ دب جائے۔؟ہم عتیق کی حمایت نہیں کرتے لیکن جو کچھ ہوا وہ غلط ہوااور
صرف مسلمان کے نام پر ہوا۔
   ذیل میں بھاجپائی کریمنلوں اورمافیاؤں  کی جوفہرست دی جارہی ہے وہ بہت مختصر ہے لیکن کیا یہ لوگ دودھ کےدھلےہوئے ہیں۔؟ 
 ان مجرموں کے خلاف ایکشن کب لیا جائے گا۔؟شاید کبھی نہیں۔ کیوں کہ وہ مسلمان نہیں،ہندو ہیں۔ ایسا کب تک چلے گا۔؟؟
     نام                   مقدمات         مقام
 کلدیپ سنگھ سنگر     28/     ( اناؤ ) 
 برجیش سنگھ           106/    (وارنسی)   
 دھننجے سنگھ            46/     (جونپور) 
 راجہ بھیا                 ۔31/     (پرتاپ گڑھ) 
 ڈاکٹراودئےبھان سنگھ ۔83/    ( بھدوہی) 
اشوک چندی                37/     (حمیرپور) 
وینیت سنگھ                34/     (چندوشی) 
برج بھوشن سنگھ        84/      ( گونڈہ) 
بلبل سنگھ                   53/      (بنارس) 
سونو سنگھ                 57/     (سلطانپور) 
مونو سنگھ                  48/    (سلطانپور) 
اجئےسنگھ سپاہی         81/     (مرزاپور) 
پنٹو سنگھ                   23/  (ضلع بستی) 
شنی سنگھ                   48/   (دیوریا) 
سنگرام سنگھ               58/    (بجنور) 
چنوسنگھ                     42/     (مہوہ) 
بادشاہ سنگھ                 88/     (مہوہ) 
   ہوگی مہراج۔!دودھ کےدھلےہوئے اپنےان کریمنل اورمافیادوستوں کےبارےمیں بھی کچھ کہئے۔۔۔ کہئےنا۔۔۔۔۔۔۔۔!؟چپ کیوں ہیں۔؟،، 
              جنرل سیکریٹری
                لاریب مومن
    قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن(رجسٹرڈ)  
 سکراول،اردوبازار،ٹانڈہ۔امبیڈکرنگر (یو،پی)

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...