Powered By Blogger

بدھ, اپریل 26, 2023

محترم جناب بہت ہی مسرت کے ساتھ یہ خبر شائع کی جا رہی ہے

محترم جناب بہت ہی مسرت کے ساتھ یہ خبر شائع کی  جا رہی ہے
Urduduniyanews72
حضرت مولانا محمد اقرار بیگ موضع  مبارک پور خوشہ  ضلع بجنور کی صاحبزادی مدیحہ پروین   نے دس 10, وی کلاس میں تقریباً 70 سے  کامیابی حاصل کی ہے    خوشی کے اس موقع پر   ہم اردو دنیا کے احباب مولانا کو  مبارکباد پیش کرتے ہیں وسلام

منگل, اپریل 25, 2023

یادوں کے چراغمولانا حسین احمد قاسمی ؒ ___مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

یادوں کے چراغ
Urduduniyanews72
مولانا حسین احمد قاسمی ؒ ___
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
 مدرسہ اسلامیہ قاسمیہ پریم جیور دربھنگہ کے بانی وناظم مدرسہ عارفیہ سنگرام مدھوبنی کے سابق صدر مدرس بھیرو پٹی سمستی پور اور کٹکی مسجد دربھنگہ کے سابق امام ، مولانا حافظ حسین احمد قاسمی کا 3؍ مئی 2021ء مطابق 19؍ رمضان 1442ھ بروز اتوار بوقت پانچ بجے شام دربھنگہ میڈیکل کالج اینڈ ہوسپیٹل (DMCH)میں انتقال ہو گیا ، وہ برسوں سے شوگر کے مریض تھے دو سال قبل کڈنی نے کام کرنا بند کر دیا تھا، ڈائیلاسس پر زندگی چلتی رہی ، چھ ماہ تک یہ عمل جا ری رہا ، پھر انتقال سے چار روز قبل کورونا میں مبتلا ہو گیے، اور بظاہر یہی مرض الموت ثابت ہوا، جنازہ کی نماز اسی دن بعد نماز عشا ان کے قائم کردہ مدرسہ میں مولانا امداد احمد قاسمی نے پڑھائی اور مقامی آبائی قبرستان میں تدفین عمل میں آئی، پس ماندگان میں دو صاحب زادے حافظ ومولوی معتصم باللہ، حافظ محمد انس اور چار لڑکیاں ہیں، جن میں سے دو مولانا رحمت اللہ ندوی عارفی اور مولانا عادل فریدی قاسمی کے نکاح میں ہیں، مولانا رحمت اللہ ندوی سمستی پور میں بورڈ کے مدرسہ شمس العلوم کاشی پور میں استاذ ہیں اور مولانا عادل فریدی کی خدمات امارت شرعیہ کو حاصل ہیں، والدہ کا انتقال مولانا کے گذرنے کے صرف انتیس دن  (13؍ 5؍ 2021) بعد ہوا،اہلیہ ایک سال نو ماہ پہلے ان کی زندگی میں رخت سفر باندھ چکی تھیں، مولانا امداد احمد قاسمی کو وہ روحانی بھائی تسلیم کرتے تھے، وہ  بقید حیات ہیں اور مولانا کے گھر کے ایک فرد ہی کی طرح ان کا تعامل ہے، وہ مولانا مرحوم کے ابتدائی استاذ جناب مولوی مشتاق صاحب کے صاحب زادہ ہیں، مولوی  مشتاق صاحب رشید پور کے رہنے والے تھے، پوری زندگی مولانا مرحوم کے دروازہ پر ہی بنیادی دینی تعلیم دیتے رہے، استاذ ، زادے کی حیثیت سے مولانا کے نزدیک ان کی بڑی قدر تھی، اور مولانا امداد احمد صاحب ان کے انتقال کے بعد بھی اس ربط وتعلق کو نبھا رہے ہیں۔
 مولانا حسین احمد قاسمی بن ماسٹر ظہور الحسن (ولادت 18؍ جنوری 1933- وفات 5؍ اکتوبر 1999) بن محمدنذیر (م 1934) بن محمد مہدی حسین بن اخیار علی بن امام علی کی ولادت 1964ء میں لہیریا سرائے دربھنگہ سے پورب پریم جیور گاؤں میں ہوئی، مولانا کی نانی ہال حیا گھاٹ ضلع دربھنگہ تھی، ان کے نانا چودھری صغیر احمد بن چودھری سراج الدین تھے۔
 مولانا نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں کے مکتب میں جوان کے دروازہ پر ہی چلا کرتا تھا مولوی مشتاق احمد صاحب رشید پوری سے حاصل کی ، حفظ قرآن بھی انہیں سے کیا، پہلا دور مدرسہ امدادیہ میں مکمل کرنے کے بعد مدرسہ رحمانیہ سوپول دربھنگہ چلے گیے اور قاری یار محمد کی درسگاہ سے حفظ قرآن کا دور مکمل کیا ، ان کی یاد داشت بہت مضبوط تھی اور علاقہ کے ا چھے حفاظ میں آپ کا شمار ہوتا تھا، عربی دوم تک مدرسہ رحمانیہ میں پڑھنے کے بعد عربی چہارم تک مدرسہ اتحاد المسلمین باگھا کسما ر موجودہ ضلع مدھوبنی میں تعلیم پائی، یہ مدرسہ بورڈ سے منسلک ہے، اس لیے فوقانیہ کا امتحان دیا اور اچھے نمبرات سے کامیاب ہوئے، عربی پنجم وششم کی تعلیم مدرسہ اصلاحیہ نام نگر نبٹولیہ سے حاصل کیا، نیز عربی ہفتم میں دار العلوم دیو بند میں داخل ہو کر یہیں سے 1987ء میں سند فراغ حاصل کیا، ماہرین علم وفن کی صحبت نے آپ کے اندر صلاحیت اور صالحیت اور تمام تعلیمی اداروں میں نامور اساتذہ سے کسب فیض نے ان کے اندر خدمت کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھر دیا تھا، ان کا شمار اپنے علاقہ کے زمینی علماء میں ہوتا تھا، جن کے اثرات عام اور فیوض تام تھے، اصلاح معاشرہ اور تعلیم کی ترویج واشاعت کو انہوں نے اپنا مشن بنایا اور پوری زندگی اس میں لگادی ، فراغت کے قبل ہی 1985میں سلیمان پور، اجیار پور موجودہ ضلع سمستی پور کے ذی حیثیت اور زمیندار خاندان میں رشتہ ازدواج سے منسلک ہو گئے، آپ کے سسر میر شفیع کریم (ولادت 1926-وفات 13نومبر2013) بن عنایت کریم تھے، جن کی تیسری لڑکی رضیہ شاہین (م2اگست 2019مطابق یکم ذی الحجہ 1441ھ) آپ کے نکاح میں آئیں وہ مولانا مرحوم کے تعلیمی کاموں میں بڑی معاون تھیں، خود بھی اور اد واذکار ، تلاوت قرآن کا اہتمام تھا، اور مدرسہ اسلامیہ قاسمیہ میں قیام پذیر مہمانان رسول کی خدمت کو اپنے لیے سعادت سمجھتی تھیں، مولانا کی گرتی صحت پر ان کی وفات کا غیر معمولی اثر پڑا، اور کہنا چاہیے کہ گھریلو اعتبار سے مولانا کے دست وبازو ٹوٹ گیے۔
 دار العلوم سے فراغت کے بعد امامت سے منسلک ہوئے، دو سال تک بھیرو پٹی (سمستی پور) اور تین سال دربھنگہ شہر کی کٹکی بازار واقع جامع مسجد میں دینی خدمات پیش کیں، تعلیمی معیار کو بڑھانے کے لیے عصری علوم کا رخ کیا اور متھلا یونیورسیٹی سے بی اے کی سند حاصل کی۔
 تدریسی زندگی کا آغاز مدرسہ عارفیہ سنگرام مدھوبنی سے کیا، صدر مدرس کی حیثیت سے اپنے پانچ سالہ قیام میں مدرسہ کے تعلیمی معیار کو بلند کیا، اور انتظامی اعتبار سے مدرسہ کو استحکام بخشا، ان کا درس طلبہ میں مقبول تھا اور مہمان رسول پر ان کی شفقت مثالی تھی، اپنی سادگی ، تقویٰ شعاری، خلوص وللہیت اور کام کی لگن کی وجہ سے وہ عوام وخواص کے منظور نظر رہے، مدرسہ کی مالیات کو مضبوط کیا اور مدرسہ عارفیہ کی مغربی عمارت کو دو منزلہ کرایا، 1999میں انہوں نے اکابر کے مشورے سے پریم جیور میں مدرسہ اسلامیہ قاسمیہ کے نام سے ایک مدرسہ کی بنیاد ڈالی، اپنی زمین مدرسہ کو دیا، اور جلد ہی اپنی محنت سے انگریزی سے مرعوب لوگوں کے درمیان دینی تعلیم کا مزاج بنانے میں کامیاب ہوئے، شہری حلقوں سے طلبہ کا رجوع مولانا کے مدرسہ کی طرف ہونے لگا، یہ اپنے میں بڑی بات تھی، مولانا خود تو لگے ہی رہتے ، مولانا کی اہلیہ بھی اس کام میں ان کی بڑی ممد ومعاون رہیں، جس کی وجہ سے مدرسہ کا کام تیزی سے آگے بڑھتا رہا ، مولانا نے مدرسہ کی تعمیر وترقی کی طرف توجہ دی، الحمد للہ آج مدرسہ کی عمارت اور مسجد کی تکمیل ہو چکی ہے اور مدرسہ کا نظام حسب سابق جاری ہے۔
مولانا سے میری ملاقات قدیم تھی کئی جلسوں میں ایک ساتھ شرکت ہو چکی تھی، وہ مجھ سے محبت کرتے تھے، لیکن گفت وشنید میں میرا خیال رکھتے، اس لیے میں ان سے کبھی بے تکلف نہیں ہو سکا، میری مشغولیت ان کے گاؤں اور مدرسہ میں جانے سے مانع ہوئی، مولانا رحمت اللہ ندوی عارفی کی تقریب نکاح مین شریک ہوا تھا، ان کی زندگی میں پھر دو بارہ ان کے گاؤں جانا نہیں ہوا، ان کے رفیق خاص، ہم دم وہمراز مفتی انوار احمد قاسمی ناظم مدرسہ عارفیہ سنگرام ہیں، ان کے مدرسہ کے جلسوں میں مہمان خصوصی وہی ہوا کرتے ، وہ روایتی جلسوں کے مخالف تھے، جس میں کئی کئی مقرر اور نعت خواں بلائے جاتے ہیں، وہ ایک دو مقرر کو بلا تے او رتاریخ بدلنے کے پہلے جلسہ ختم کر دیتے، ہر سال اس موقع سے دس بارہ حفاظ کی دستار بندی بھی ہوا کرتی۔ امسال گیارہ مارچ کو پہلا موقع تھا کہ ان کے مدرسہ کے جلسہ میں حاضری کی سعادت پائی، مدرسہ دیکھ کر اندازہ ہوا کہ ایک شخص کتنا بڑا کام کر گیا، اللہ رب العزت مولانا کی مغفرت فرمائے اور پس ماندگان کو صبر جمیل دے ۔ آمین

پیر, اپریل 24, 2023

جامع مسجد خواجہ پورہ پٹنہ میں نماز عید الفطر صبح 07:15 میں

جامع مسجد خواجہ پورہ پٹنہ میں نماز عید الفطر صبح 07:15 میں
Urduduniyanews72
خواجہ پورہ پٹنہ مورخہ 20/اپریل( پریس ریلیز :محمد ضیاء العظیم)
جامع مسجد خواجہ پورہ پٹنہ میں مورخہ 20/اپریل بروز جمعرات 2023 بعد نماز عشاء مولانا محمد عظیم الدین رحمانی امام وخطیب جامع مسجد خواجہ پورہ پٹنہ کی سرپرستی میں ایک میٹنگ کا انعقاد کیا گیا، جس میں نماز عید الفطر کے وقت کے سلسلے میں گفتگو ہوئی ۔ مصلین نے نماز کے وقت کے تئیں اپنے موقف کا اظہار کیا، سبھوں کی باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے صبح 07:15 کا وقت مقرر کردیا گیا ۔
اس میٹنگ جو لوگ شریک تھے ان کی فہرست کچھ یوں ہے، انجینئر حاجی عبد الرحمن ، انجینئر ذاکر، محمد کلیم الدین، شہاب اللہ کریمی، علی محمد ، محمد عارف، سراج الحق ، شمشاد حیدر، ظفر اللہ فیروز، انجینئر اقبال، قاری ذوالفقار وغیرہ،
واضح رہے کہ خواجہ پورہ کولڈاسٹوریج جامع مسجد شہر پٹنہ کی ایک قدیم مسجد ہے، مرحوم شیخ عبد الستار وعبد الغفار دانا پوری نے اس مسجد کی بنیاد 1988/میں ڈالی تھی، اس وقت مسجد کے متولی حافظ الیاس سونوبابو سابق چیئرمین حج بھون ہیں ۔مولانا محمد عظیم الدین رحمانی تقریباً پینتیس سالوں سے امامت کے فریضے انجام دے رہے ہیں، اہلیان خواجہ پورہ بھرپور اس مسجد کی خدمات انجام دیتے ہیں، رمضان المبارک اور عید الفطر کے موقع پر اس مسجد کی رونق میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے ۔

ہفتہ, اپریل 22, 2023

عید الفطر کی مناسبت سے ایک مضمون آپ موقر روزنامہ کے لیے پیش خدمت ہے۔ شائع فرماکر شکریہ کا موقع مرحمت فرمائیں۔ساجد حسین ندوی

عید الفطر کی مناسبت سے ایک مضمون آپ موقر روزنامہ کے لیے پیش خدمت ہے۔ شائع فرماکر شکریہ کا موقع مرحمت فرمائیں۔
ساجد حسین ندوی 
Urduduniyanews72
-----------------------------------------------
عید الفطرکا پیغام مسلمانان عالم کے نام
ساجد حسین ندوی
رمضان المبارک کا مہینہ گزرگیالیکن جاتے جاتے اس نے تقویٰ وطہارت ، عبادت وریاضت ، عفت وپاکدامنی، ذوق عبادت ، شوق تلاوت ، تزکیہ نفس، توبہ و استغفار، انابت الی اللہ، فکر آخرت ، معاصی ومنکرات سے اجتناب اور رضاء الہی کی جستجوکا درس دے گیا ۔ ہم نے اس ماہ سے جو درس لیا ہے وہ درس زندگی ہے ، جو کچھ عبادتوں اور نیکیوں کا اہتمام ہم نے اس مہینہ میں کیا ہے رب کی منشاء یہ ہیکہ یہی ہماری پوری زندگی بن جائے ، ہروقت تقویٰ وطہارت، عبادت وریاضت اور معاصی ومنکرات سے اجتناب ہمارا شیوہ ہوجائے، ہمارا کوئی بھی قدم حکم خداوندی اور فرمان نبی کے خلاف نہ اٹھے، ہم صحیح معنوں میں’’وماخلقت الجن والانس الا لیعبدون ‘‘ کا مصداق بن جائیں ۔ اگر ہم نے پوری زندگی رمضان کے تقاضے کی مطابق گزار لی تو یقین جانئے آخرت کی زندگی عیدکی طرح ہوگی ۔
رمضان کی تمام عنایات وبرکات کے علاوہ اللہ رب العزت نے عید کی رات کو انعام واکرام یعنی لیلۃ الجائزہ قراردیاہے ، چنانچہ ہمیں اس رات کے فضائل وبرکات سے مستفید ہونے کے لیے ویساہی اہتمام کرنا چاہیے جیساکہ ہم نے رمضان کی راتوں میں کیاتھا۔
عید الفطر اسلام کی طرف سے عطاکردہ خوشی ومسرت کے ان لمحات کانام ہے جسمیں بندہ بارگاہ ایزدی میںسجدہ ریز ہوکر اپنی خوشی کا اظہار کرتاہے۔ ساتھ ہی زبان حال سے یہ پیغام بھی دیتاجاتاہے کہ خوشی کے لمحات میں بھی حق بندی اداکرنا ہمارا طرہ امتیاز ہے جبکہ دوسرے اقوام ایسے مواقع پر نازیبا حرکات ، ناچ گانااور شراب وشباب میں مست ہوکر ہروہ اعمال کرگزرتے ہیں جو سراسر منشاء خداوندی کے خلاف ہوتاہے۔
لفظ عید عاد یعود عودا سے ماخوذ ہے جس کے معنی لوٹنے او رباربار آنے کے ہیں ۔ عید کو عید اس لیے کہاجاتاہے کہ یہ پر مسرت دن باربار لوٹ کرآتاہے اور خوشیوں اور محبتوں کا پیام لاتاہے ۔
اسلام دین فطرت ہے یہی وجہ ہے کہ اسلام ہراس عمل کو مباح قرار دیتاہے جو فطرت انسانی کے مطابق ہو ۔ اسی طرح خوشی اور مسرت انسانی فطر ت کاخاصہ ہے ، اور اسلام جائز حدود میں رہتے ہوئے انسان کو ہرطرح کی خوشیاںمنانے کی مکمل اجازت دیتاہے۔
انسان ابتدء آفرینش سے ہی خوشیوں کا متلاشی رہاہے ،لیکن خوشیاں بھی دوطرح کی ہوتی ہیں ایک تو انفرادی ، جس میں فرد سے تعلق رکھنے والے کچھ اشخاص شریک ہوکر خوشیاں منالیتے ہیں اوردوسری اجتماعی ،جس میں کسی مذہب یا علاقہ سے وابستہ افراد بحیثیت قوم شریک ہوتے ہیں اور خوشیاں مناتے ہیں ۔ اس طرح کی تقریبات جس میں کسی قوم کے افراد اجتماعی طور پر شریک ہوں اور وہ مذہبی اور ثقافتی اعتبار سے قابل تقلیدہو تو اسی کانام تہوار ہے ۔تہوار مختلف قوموں کی تہذیب ومعاشرت کا آئینہ دار ہوتے ہیں ۔ اسی طرح اسلام کے دوتہوار عید الفطر اور عیدالاضحی اسلامی تہذیب وثقافت، مزاج وحدانیت ، اصول حیات ، تاریخ وروایات اور اسلامی عقائد وتصورات کا آئینہ دار ہیں۔ اگر ہم ان تہواروں کو صحیح طورنبی کریم ﷺ کی تعلیمات کے مطابق منائیں تو اسلام کی روح اور اس کے پیغام کوسمجھنے کے لیے کافی ہے ۔
عید امت محمدیہ کو رمضان المبارک کی برکتوں اور عظمتوں کے طفیل عطاکیا گیا جس میں بندہ رمضان کے تقاضوں کو فرمان خداوندی کے مطابق گزارتاہے ،راتوں کو جاگتاہے ،رب کے سامنے عاجزی اور انکساری کا مظاہرہ کرتاہے، پل بھر کے لیے بھی رب کی نافرمانی گوارا نہیں کرتاہے، ایسے ہی بندو ں کے لیے اللہ بطور انعام عید کاتحفہ عطافرمایا ہے ،عید کی اصل خوشی انہی لوگوں کے لیے ہے۔
نعمتیں مخصوص ہیں سب متقی کے واسطے
زندگی اک اور بھی ہے آدمی کے واسطے
ہوگیا گر حق شناسا کوئی جو رمضان میں
عید لکھی ہے خدانے بس اسی کے واسطے
 عید الفطر کا اصل پیغام کو سناتے ہوئے علامہ سید ابوالحسن علی ندوی ؒ  رقمطراز ہیں۔
’’اب ضرور ت ہے کہ ہم مسلمان اپنے دین پر از سرنو قائم وپختہ ہوں ، اس دین کا ایسا مظاہرہ کریں اور دین کا ایسانمونہ دنیا والوں کے سامنے لائیں کہ دنیا کی بھی عید ہوجائے ، بہت دن سے دنیا کی عید نہیں ہوئی ہے ، دنیا حقیقی عید سے محروم ہے ، صدیوں سے دنیا کی عید نہیں ہوئی ، دنیا حقیقی عید کو ترس رہی ہے ،نہ امن ہے نہ اخلاق، نہ انسانیت ہے نہ شرافت، نہ قدر شناسی ہے نہ خدمت کا جذبہ ، نہ خداکی یادہے نہ خداکی شناخت اورنہ پہچان ہے ، کہاںکا تہوار، سارے تہوار بچوں کے سے کھیل ہیں جیسے بچوں کی کوئی ذمہ داری نہیں ، کھیلیں کودیں ، کھائیں پئیں اور خوش وخرم رہیں، کچھ فکر نہیں ، ایسی ہی دنیا کی قومیں بچوں کی طرح خوشیاں منارہی ہیں ، لیکن حقیقی خوشی نصیب نہیں ، آج دنیا کو عالمی سطح پر ایک عید کی ضرورت ہے ، وہ عید مسلمانوں کی کوشش سے ہی آسکتی ہے ۔ لیکن افسوس ہے کہ مسلمان خود اپنی عید کاشکر صحیح طریقہ پر ادانہیں کرپاتے ، اور اس کے معنی صحیح طور پر نہیں سمجھتے آپ جہاں رہیں ثابت کریں کہ آپ کوئی اور قوم ہیں ، افسوس سب ایک جیسے ہوگئے ہیں ۔ رشوت ، سود ،مال ودولت اور آرام طلبی میں سب یکساں ہیں ، حالانکہ مسلمان ایسانہیں ہوسکتا۔ تم حقیقی مسلمان بنوگے اللہ سے ڈروگے تو اللہ تمہیں شان امتیازی عطافرمائے گا، دور سے پہچانے جاؤگے۔ دیکھو مسلمان آرہاہے ۔ یہ حالت قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی تھی جنہیں دیکھکر ملک ملک مسلمان ہوجاتاتھا‘‘
ہمیں عید کے اصل پیغام کو سمجھنا چاہیے اور اس کے مطابق اپنی زندگی کو گزارناچاہیے۔یہی عید الفطر کااصل پیغام ہے ۔
sajidhussainandwi@gmail.com

جمعرات, اپریل 20, 2023

انعام کے رات و دن __مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

انعام کے رات و دن __
Urduduniyanews72
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
 رحمت ومغفرت اور جہنم سے نجات کے جو چند ایام اللہ رب العزت نے ہمیں دیے تھے وہ ہم سے اب رخصت ہوا چاہتے ہیں،ابھی چند دن تو ہوئے تھے کہ ہم نے اس ماہ مبارک کا استقبال کیا تھا اور اب اس کو الوداع کہنے کو تیار بیٹھے ہیں ، خوش قسمت ہیں وہ لوگ جنہوں نے اس ماہ مبارک میں روزہ ، تراویح ، تلاوت قرآن ، ذکر واذکار ، سنن ونوافل ، تہجد واوابین کے ذریعہ اللہ کو راضی کر لیا ، اور اپنے اندر تقویٰ کی وہ صلاحیت پیدا کرنے میں کامیاب ہو گئے جو ماسٹر کی اور شاہ کلید ہے، اور جس کے پیدا ہونے سے دل کی دنیا بدلتی ہے، سوچنے کا انداز بدلتا ہے ، جینے کے طریقے بدلتے ہیں، معاشرت بدلتی ہے ، اور معیشت کا انداز بھی بدل جاتا ہے، جن لوگوں کے اندر یہ کیفیت پیدا ہو گئی ، انہوں نے روزے کے مقصد کو پالیا اور اب زندگی کے دوسرے مہینوں میں وہ اس سے فائدہ اٹھائیں گے ،ان کی زندگی میں تبدیلیاں ہوں گی ان کا ہر قدم اور ہر عمل شاہ راہ حیات پر مرضیات الٰہی اور طریقۂ نبوی کے مطابق ہوگا، خوش خبری ہے ان لوگوں کے لیے اور اصل مبارک بادی کے وہی مستحق ہیں۔
 بد قسمتی سے بہت سے لوگ اس ماہ میں بھی اللہ کے فضل ومغفرت سے محروم رہ جاتے ہیں اور شب قدر جیسی مقدس اور بابرکت رات میں بھی اس ماہ سے فائدہ نہیں اٹھا پاتے، ان میں سے بعض نے اپنی حد تک کوشش بھی کرتے ہیں، لیکن وہ بعض منکرات سے اپنے کو دور نہیں رکھ پاتے ، اس لیے محرومی ان کا مقدر بن گئی ،ان میں بعض شراب کی لت نہیں چھوڑتے ، بعض اپنے والدین کو ناراض کیے ہوتے ہیں ، بعض قطع تعلق کے مجرم اور صلہ رحمی سے گریزاں ، بعض کے دل کینہ وکدورت سے پاک نہیں رہ پائے، ان چاروں گناہ کی نحوست نے انہیں جنت کی دہلیز سے اس ماہ مبارک میں بھی دور رکھا۔
 ایسے لوگوں کے لیے بھی چند ایام بچ گئے ہیں ، راتیں طاق بھی بچی ہوئی ہیں، جس میں شب قدر کے پا لینے کا امکان ہے ، اور رب کو راضی کرنے کے لیے تو تھوڑا وقت بھی بہت ہے، نہ جانے کون سی ادا اور کون سا جملہ اسے پسند آجائے اور مالک اس کے ساتھ عفو ودر گذر کا معاملہ کر دیں ، اللہ کے نزدیک تو بخشش کے لیے یہ بھی کافی ہوگا کہ اس نے صرف اللہ کی رضا کے لیے ان منکرات کو چھوڑ دیا ،جس کی وجہ سے شب قدر میں بھی اس پر مغفرت کے دروازے بند ہو نے والے تھے۔
رمضان کے مہینے مکمل ہو گئے ، عید کا چاند نکل آیا ، تراویح کا سلسلہ بند ہوا، فرض روزے کے ایام بھی جاتے رہے ، معتکفین کے اعتکاف بھی مکمل ہو گئے ، لیکن اب بھی بہت کچھ باقی ہے ، عید کی چاند رات ہمارے یہاں لہو ولعب کے لیے مشہور ہے، شیطان آزاد ہوتے ہی پوری جلوہ سامانی کے ساتھ بندوں پر ٹوٹ پڑتا ہے، نمازی مسجد سے غائب ہونے لگتے ہیں، ہمہ شما کا کیا ذکر ، اچھے خاصے دیندار اور خواص کو بھی عموما اس رات بڑی میٹھی نیند آتی ہے اور رمضان بھر کی ریاضت کے بعد وہ اپنے کو ہلکا پھلکا محسوس کرتے ہیں ، حالاں کہ یہ رات تو اصل انعام کی رات ہے ، فرشتے اس رات کو لیلة الجائزہ کہتے ہیں، اس لیے خصوصیت سے اس رات میں عبادت کا اہتمام کرنا چاہیے ، میں نے اپنے بڑے بھائی محمد ضیاءالہدیٰ رحمانی کو دیکھا کہ وہ چاند کے اعلان کے بعد اعتکاف ختم کرتے ، بہت کم وقت کے لیے گھر آتے اور عشاءکی نماز کے بعد سے صبح تک مسجد میں الحاح وزاری ، گریہ وبکا اور دعاءمغفرت میں مشغول رہتے ، میں نے اس رات کی جیسی قدر کرتے ان کو دیکھا ویسا کوئی دوسرا شخص میری نظر سے نہیں گذرا، انہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد پاک کی خبر تھی کہ جو شخص ثواب کی نیت کرکے دونوں عید کی رات جاگے اور عبادت میں مشغول رہے گا اس دن اس کا دل نہیں مرے گا، جس دن سب کے دل مرجائیں گے ، حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا ؒ نے لکھا ہے کہ اس سے مراد فتنہ وفساد کا وقت ہے، جب لوگوں کے دلوں پر مردنی چھا جاتی ہے ، اس وقت اس کا دل زندہ رہے گا، ایک دوسرا قول یہ بھی لکھا ہے کہ ممکن ہو صور پھونکے جانے کا دن مراد ہو، کہ اس دن اس کی روح بیہوش نہ ہوگی ، ایک دوسری روایت میں ہے کہ جو شخص پانچ راتوں میں عبادت کے لیے جاگے، اس کے واسطے جنت واجب ہوجائے گی ، ان پانچ راتوں میں ایک رات عید الفطر کی ہے، حضرت امام شافعی ؒ نے ما ثبت بالسنة میں عید الفطر کی رات کو دعا کی قبولیت کی پانچ راتوں میں شمار کیا ہے ۔
 اس لیے اس رات میں دعا کا خاص اہتمام کرنا چاہئے اور اسے سو کر گذارنا نہیں چاہئے ، یہ عجیب بات ہوگی کہ اللہ اس رات کو انعام تقسیم کررہے ہوں اور بندہ بے خبری کی نیند سورہا ہو ، شکر گذاری کے جذبے، دعا کی قبولیت اور دل کے زندہ رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ بندہ اس رات میں بھی رمضان المبارک کی رات کی طرح ہی بار گاہ خدا وندی میں اپنی مناجات پیش کرتا رہے۔
 لیلة الجائزہ یعنی انعام کی اس رات کے بعد جو دن آ رہا ہے وہ عید الفطر کا دن ہے ، اس دن اللہ کے فرشتے تمام راستوں پر پھیل جاتے ہیں اور بندوں کو عید گاہ کی طرف چلنے کے لیے آواز لگاتے ہیں، فرماتے ہیں کہ اس رب کریم کی بار گاہ میں چلو جو بہت زیادہ عطا کرنے والا اور قصوروں کو معاف کرنے والا ہے، پھر جب لوگ عیدگاہ اللہ کی کبریائی بیان کرتے ہوئے پہونچتے ہیں، تکبیر تشریق کے کلمات ان کی زبانوں پر ہوتے ہیں، اللہ خوش ہو کر فرشتوں سے پوچھتا ہے کہ ایسے مزدور کو کیا بدلہ دیا جائے جو اپنا کام پورا کرچکا ہو؟فرشتے کہتے ہیں :ان کوپوری مزدوری دے دی جائے، اللہ فرشتوں کو گواہ بنا کر اعلان کر تے ہیں ،کہ ہم نے روزے اور تراویح کے بدلے سب کو اپنی رضا ومغفرت عطا کردی ، اللہ رب العزت اس اجتماع میں ہر مانگنے والے کودیتے ہیں، آخرت کے لیے بندہ جو مانگتا ہے سب مل جاتا ہے ، دنیا کے بارے میں جو مانگتا ہے وہ اسے اپنی مصلحت اور حکمت کے مطابق دیتے ہیں، البتہ اس بات کا برملا اعلان ہوتا ہے کہ میں (اللہ) لغزشوں پر ستّاری کروں گا، اور انہیں مجرموں اور کافروں کے سامنے رسوا نہیں ہونے دوں گا ، عید کی نماز ختم ہوتی ہے، اور بندہ بخشش کا پروانہ لیے گھر لوٹ آتا ہے ، اسے اللہ کی رضا نصیب ہوجاتی ہے ، جو اصل دولت اور ایمان والوں کے لیے سرمایہ حیات ہے۔
 ہمارے بہت سارے مسلمان بھائی اس دن کی اہمیت کو بھی نہیں سمجھتے ،ہماری نئی نسل کو تو اس کا ذرا بھی احساس نہیں ہوتا، پہلے سنیما کے ٹکٹ خریدے جاتے تھے، فلم دیکھی جاتی تھی، اب تو موبائل میں فلم دیکھنے کی ایسی سہولت ہو گئی ہے کہ الامان والحفیظ ، گناہ کہیں جا کر کیا جائے اور جس طرح کیا جائے، گناہ تو گناہ ہی ہے ، اللہ تعالیٰ ہم سب کو محفوظ رکھے اور انعام کے اس رات ودن کی خوب خوب قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

بدھ, اپریل 19, 2023

عید الفطر کا پیغام شکر خداوندی مضمون نگار :محمد ضیاء العظیم قاسمی پٹنہ

عید الفطر کا پیغام شکر خداوندی 
Urduduniyanews72
مضمون نگار :محمد ضیاء العظیم قاسمی پٹنہ
موبائل نمبر 7909098319

حضرت عیسٰی علیہ السلام کے جانے کے بعد اور سیدنا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے سے قبل یہ دنیا بڑے برے احوال میں تھی، لوگوں کے اندر ہزاروں برائیاں تھیں، تاریخ اس دور کو ایام جاہلیت سے تشبیہ دیتی ہے، انہیں برائیوں میں سے دو برائیاں بہت عام تھیں اور وہ یہ کہ رنج وغم کے موقع پر وہ حد سے اتر جاتے ماتم کرتے، اپنے اظہارِ غم کے لئے عجیب وغریب انداز اختیار کیا کرتے تھے، اسی طرح جب انہیں کوئی خوشیاں لاحق ہوتی تو وہ خوشیوں کے اظہار کے واسطے حد سے گزر کر جشن منایا کرتے تھے، اور اس جشن کا انداز بھی عجیب وغریب ہوا کرتا تھا، لیکن جیسے ہی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں تشریف لائے انہوں نے ان دونوں تصور کی تردید کرتے ہوئے غم میں ماتم کی جگہ صبر اور خوشی میں جشن کی جگہ شکر ادا کرنے کی تلقین فرمائی، اور ان دونوں طریقے کو مومنین کی علامت سے تشبیہ دیتے ہوئے فرمایا,, اَلَّـذِيْنَ اِذَآ اَصَابَتْهُـمْ مُّصِيْبَةٌ قَالُوْآ اِنَّا لِلّـٰهِ وَاِنَّـآ اِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ (سورہ بقرہ آیت 156)
وہ لوگ کہ جب انہیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو کہتے ہیں ہم تو اللہ کے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔
اسی طرح شکر ادا کرنے والوں کے لئے یہ وعدہ فرمایا,, وَاِذْ تَاَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِنْ شَكَـرْتُـمْ لَاَزِيْدَنَّكُمْ ۖ وَلَئِنْ كَفَرْتُـمْ اِنَّ عَذَابِىْ لَشَدِيْدٌ (سورہ ابراہیم آیت 7)
اور جب تمہارے رب نے سنا دیا تھا کہ البتہ اگر تم شکر گزاری کرو گے تو اور زیادہ دوں گا، اور اگر ناشکری کرو گے تو میرا عذاب بھی سخت ہے۔
یعنی کہ زندگی صبر اور شکر کے ساتھ گزاریں، 
اسلام دنیا کا واحد مذہب ہے جس نے انسانوں کی ہر قدم پر راہنمائی کی ہے، انسانوں کو کہیں بھی تنہا لاوارث نہیں چھوڑا ہے، انسانوں کی تاریخ کیا ہے، انسانوں کی تخلیق کیوں کی گئی، انسانوں کی کامیابی اور ناکامی کیا ہے، کون سا عمل کرنا ہے اور کس عمل سے دور رہنا ہے ان باتوں کی مکمل، مدلل ومفصل راہنمائی کردی گئی ہیں ۔اللہ رب العزت نے انسانوں کی تخلیقات کرکے ایمان وکفر کے راستے بتائیں اور اسے اپنی قدرت اور اپنے اختیارات میں سے چند اختیارات عطاء فرمائے اور ارشاد فرما دیا,, وَ قُلِ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكُمْ فَمَنْ شَآءَ فَلْیُؤْمِنْ وَّ مَنْ شَآءَ فَلْیَكْفُرْۙ-اِنَّاۤ اَعْتَدْنَا لِلظّٰلِمِیْنَ نَارًاۙ-اَحَاطَ بِهِمْ سُرَادِقُهَاؕ-وَ اِنْ یَّسْتَغِیْثُوْا یُغَاثُوْا بِمَآءٍ كَالْمُهْلِ یَشْوِی الْوُجُوْهَؕ-بِئْسَ الشَّرَابُؕ-وَ سَآءَتْ مُرْتَفَقًا() سورہ کہف آیت (۲۹)،،
اے بنی صلی اللہ علیہ وسلم آپ کہ دیں کہ حق تمہارے رب کی طرف سے ہے، جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر کرے، بیشک ہم نے ظالموں کے لیے وہ آگ تیار کر رکھی ہے جس کی دیواریں انہیں گھیر لیں گی اور اگروہ پانی کے لیے فریاد کریں تو ان کی فریاد اس پانی سے پوری کی جائے گی جو پگھلائے ہوئے تانبے کی طرح ہوگا جو اُن کے منہ کوبھون دے گا۔ کیا ہی برا پینا اور دوزخ کیا ہی بری ٹھہرنے کی جگہ ہے۔
اللہ رب العزت نے انسانوں کو اختیارات دے رکھے ہیں کہ وہ ایمان پر چلے یا کفر پر، لیکن ساتھ ساتھ کفر کی مذمت بھی بیان فرمادی، اسی طرح ایمان کی حلاوت وچاشنی اور انعامات بھی بیان فرمائے,, اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ كَانَتْ لَهُمْ جَنّٰتُ الْفِرْدَوْسِ نُزُلًاۙ(سورہ کہف آیت ۱۰۷)بیشک جو لوگ ایمان لائے اور اچھے اعمال کئے ان کی مہمانی کے لئے فردوس کے باغات ہیں ۔
وَالَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَنُدْخِلُـهُـمْ جَنَّاتٍ تَجْرِىْ مِنْ تَحْتِـهَا الْاَنْـهَارُ خَالِـدِيْنَ فِيْـهَآ اَبَدًا ۖ وَعْدَ اللّـٰهِ حَقًّا ۚ وَمَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللّـٰهِ قِيْلًا (سورہ نساء آیت 122)
اور جو لوگ ایمان لائے اور اچھے کام کیے انہیں ہم باغوں میں داخل کریں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ان میں ہمیشہ رہیں گے، اللہ کا وعدہ سچا ہے، اور اللہ سے زیادہ سچا کون ہے۔
اس طرح سے اور بھی کئ آیات کریمہ ہیں، 
اللہ رب العزت کا وعدہ برحق ہے۔

يَآ اَيُّـهَا النَّاسُ اِنَّ وَعْدَ اللّـٰهِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَيَاةُ الـدُّنْيَا ۖ وَلَا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللّـٰهِ الْغَرُوْرُ (سورہ فاطر آیت 5)
اے لوگو بے شک اللہ کا وعدہ سچا ہے پھر تمہیں دنیا کی زندگی دھوکے میں نہ ڈالے، اور تمہیں اللہ کے بارے میں دھوکہ باز دھوکا نہ دے،، 

یقیناً رب العزت نے آدم وحوا علیہما السلام کے ذریعہ اس دنیا کو آباد کیا اور انسانوں کی تمام ضروریات کا خیال کرتے ہوئے اسے نعمتوں سے سرفراز کیا، زندگی گزارنے کے سلیقے دیئے۔
عید الفطر بھی رب العزت کی عطاء کردہ ایک عظیم نعمت ہے یہ وہ تہوار ہے جسے پوری دنیا میں بسنے والے مسلمان رمضان المبارک کا مہینہ ختم ہونے پر مناتے ہیں۔
اس لحاظ سے یہ ایک عظیم تاریخ سے جڑا ہوا ہے، عید کے دن اللہ رب العزت نے  روزہ رکھنے سے منع کیا ہے، عید در اصل تحفہ ہے ان مومنین و مومنات کے لئے جنہوں نے صرف رب کی رضامندی کی خاطر کھانے پینے اور نفسانی خواہشات سے خود کو الگ رکھا ہے ۔ مسلمان رمضان کے 29 یا 30 روزے رکھنے کے بعد یکم شوال المکرم کو عید مناتے ہیں۔اور بطورِ شکرانہ عید الفطر کے دن نماز عید (دو رکعت 6 زائد تکبیروں)کے ساتھ پڑھ کر رب کے سامنے اپنی بندگی کا اظہار کرتے ہیں ، جسے جامع مسجد یا کسی کھلے میدان یعنی عیدگاہ میں ادا کیا جاتا ہے ۔عید کے دن کئ اہم امور انجام دینے کا حکم ہے اور ان میں سب سے اہم یہ ہے کہ ہم اپنی جانب اور اہل خانہ کی جانب سے صدقۃ الفطر ادا کریں ۔صدقہ فطر حکم خداوندی کی بنا پر واجب ہے اس کی ایک حکمت ادائے شکر بھی ہے ۔جو مسلمان اتنا مال دار ہے کہ اس پر زکاۃ واجب ہے یا اس پر زکاۃ واجب نہیں، لیکن قرض اور ضروری اسباب سے زائد اتنی قیمت کا مال یا اسباب اس کی ملکیت میں موجود ہے جس کی مالیت ساڑھے باون تولے چاندی کی قیمت کے برابر یا اس سے زیادہ ہو تو اس پر عیدالفطر کے دن صدقہ دینا واجب ہے، چاہے وہ تجارت کا مال ہو یا تجارت کا مال نہ ہو، چاہے اس پر سال گزر چکا ہو یا نہ گزرا ہو۔ اس صدقہ کو صدقۂ فطر کہتے ہیں۔
جس طرح مال دار ہونے کی صورت میں مردوں پر صدقۂ فطر ادا کرنا واجب ہے اسی طرح اگر عورت مال دار صاحب نصاب ہے یا اس کی ملکیت میں قرضہ اور ضروری اسباب سے زائد اتنی قیمت کا مال وغیرہ ہے جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہے، مثلاً اس کے پاس زیور ہے جو والدین کی طرف سے ملا ہے یا شوہر نے نصاب کے برابر زیور عورت کو بطور ملکیت دیا ہے، یا مہر میں اتنا زیور ملا جو نصاب کے برابر ہے تو عورت کو بھی اپنی طرف سے صدقۂ فطر ادا کرنا واجب ہے، ہاں اگرشوہر اس کی طرف سے اسے بتاکر ادا کردے تو ادا ہوجائے گا۔
 مال دار عورت پر اپنا صدقۂ فطر ادا کرنا تو واجب ہے، لیکن اس پر کسی اور کی طرف سے ادا کرنا واجب نہیں، نہ بچوں کی طرف سے نہ ماں باپ کی طرف سے، نہ شوہر کی طرف سے۔
البتہ مال دار آدمی کے لیے صدقۂ فطر اپنی طرف سے بھی ادا کرنا واجب ہے، اپنی نابالغ اولاد کی طرف سے بھی، نابالغ اولاد اگر مال دار ہو تو ان کے مال سے ادا کرے اور اگر مال دار نہیں ہے تو اپنے مال سے ادا کرے۔ بالغ اولاد اگر مال دار ہے تو ان کی طرف سے صدقۂ فطر ادا کرنا باپ پر واجب نہیں، ہاں اگر باپ ازخود ادا کردے گا تو صدقۂ فطر ادا ہوجائے گا۔
عید الفطر کی رات یعنی چاند رات کو "ليلة الجائزة "  اور  عید الفطر کے دن کو " یوم الْجَوَائِزِ"  یعنی انعامات و بدلے کا دن حدیث میں کہا گیا ہے ۔
حضرت ابن عباس سے موقوفاً مَروی ہے :”يَوْمُ الْفِطْرِ يَوْمُ الْجَوَائِزِ“
عید کا دن ”یوم الجَوَائِز“یعنی انعام ملنے والا دن ہے۔(کنز العمال :24540)
نبی کریمﷺ اس دن کو مذہبی تہوار قرار دیتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں  : ”إِنَّ لِكُلِّ قَوْمٍ عِيدًا وَهَذَا عِيدُنَا“  (بیشک ہر قوم کیلئے عید کا دن ہوتا ہے اور یہ ہمارا عید کا دن ہے۔(بخاری:952)
اللہ تعالی عید الفطر کے دن فرشتوں کو گواہ بناکر روزہ داروں کی مغفرت فرمادیتے اور ان کے گناہوں کو سیئات سے بدل دیتے ہیں،  چنانچہ روزہ دار عید گاہ سے بخشے بخشائے واپس ہوتے ہیں ۔
اگر ہم غور وخوض کریں تو عید الفطر کی خوشیاں در حقیقت  قرآن کے ملنے پر منائی جاتی ہیں،  رمضان المبارک جو کہ قرآن کا مہینہ ہے،اور قرآن مجید کی تعریف خود قرآن مجید نے سب سے بڑی نعمت سے کرائی ہے ، اور اس قرآن کی نعمت پر خود رب العزت نے انسانوں کو خوشیاں منانے کا اعلان فرمایا ہے : یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ قَدْ جَآءَتْكُمْ مَّوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ شِفَآءٌ لِّمَا فِی الصُّدُوْرِۙ۬-وَ هُدًى وَّ رَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ  قُلْ بِفَضْلِ اللّٰهِ وَ بِرَحْمَتِهٖ فَبِذٰلِكَ فَلْیَفْرَحُوْاؕ-هُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ
(سورہ یونس آیت 57 58)
’’لوگو، تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نصیحت آگئی ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو دلوں کے امراض کی شفا ہے اور جو اسے قبول کر لیں ان کے لیے رہنمائی اور رحمت ہے۔ اے نبی ؐ ، کہو کہ’’ یہ اللہ کا فضل اور اْس کی مہربانی ہے کہ یہ چیز اْس نے بھیجی، اس پر تو لوگوں کو خوشی منانی چاہیے، یہ اْن سب چیزوں سے بہتر ہے جنہیں لوگ سمیٹ رہے ہیں۔‘‘

عید الفطر سے ہمیں اور بھی کئ اہم پیغامات ملتے ہیں اور وہ یہ کہ ہم اللہ کی بندگی کے ساتھ ساتھ ان کے تمام احکامات کو بجا لانے کی کوشش کریں، نعمتوں پر شکر ادا کریں اور مصائب میں صبر وتحمل کے ساتھ اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے زندگی گزاریں،کیوں کہ شکر نام ہی ہے نعمتوں کے حقوق کی ادائیگی کا، اللہ نے جو بھی نعمتیں ہمیں میسر کی ہیں ان میں اور بھی لوگوں کے حقوق ہیں، خصوصاً غرباء وفقراء اور مساکین وغیرہ ۔
اسی لیے اپنی خوشیوں میں اپنے دوست واحباب، خویش واقربہ ،غرباء وفقراء اور ضرورتمندوں کی شامل رکھیں،انفرادی نہیں اجتماعی زندگی گزاریں، انسانوں کے ایک لمحات عبادات ہیں، خواہ ہم سماجی ومعاشرتی زندگی، اقتصادی زندگی، اجتماعی ہو، انفرادی ہو،محفل ہو تنہائی ہو، خلوت ہو، جلوت ہو، صبح وشام ہو یا رات ودن بشرطیکہ ہر معاملے میں احکامات الہی کو سامنے رکھیں۔ یہی وجہ ہے کہ عید الفطر کی نماز کے لئے ایک راستے سے جانے اور دوسرے راستے سے واپس آنے کا حکم ہے تاکہ ہم زیادہ سے زیادہ لوگوں سے ملاقات کرکے ان کے احوال سے واقف ہوکر ان کی مدد کرسکیں، خلاصہ عید اللہ کی نعمتوں کے شکر ادا کرنے کا ایک اہم ذریعہ اور وسیلہ ہے۔ہر مسلمان کو چاہیے کہ اللہ کے ان احکامات کو بھر پور بجا لانے کی کوشش کرے یہی پیغام ہے عید الفطر کا، اور یہی تقاضے ہیں بندگی کے

خانوادہ ھدی کے نو حفاظ کا تراویح میں قرآن مکملخانوادہ کے سر براہ مفتی محمد ثناءالہدی قاسمی نے مبارکباد پیش کی ۔

خانوادہ ھدی کے نو حفاظ کا تراویح میں قرآن مکمل
خانوادہ کے سر براہ مفتی محمد ثناءالہدی قاسمی نے مبارکباد پیش کی ۔
Urduduniyanews72
مظفر پور 18اپریل۔( عبدالرحیم بڑہولیاوی) ویشالی ضلع کے مشہور علمی خانوادہ ھدی کے نو حفاظ کرام نے  تراویح میں قرآن مجید مکمل سنا یا اس  پرمسرت موقع سے خانوادہ کے سرپرست تبلیغی جماعت سے منسلک جناب محمد نجم الہدی نجم ، سربراہ مفتی محمد ثناءالہدی قاسمی نایب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھار کھنڈ اور بڑی تعداد میں اعز واقربا نے مبارکباد دی ۔اور خانوادہ کی اس حصول یابی پر مسرت کا اظہار کیا ۔قابل ذکر ہے کہ اس خانوادہ کا تذکرہ بڑے وقیع انداز میں ڈاکٹر امام اعظم نے اپنی تحقیقی وتاریخی کتاب انساب وامصار  میں کیا ہے۔اس کتاب میں خانوادہ ھدی کے انساب پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے ۔اس خانوادہ کے جن حفاظ کرام نے قران سنایا ان میں مفتی محمد ثناءالہدی قاسمی اور مولانا مفتی محمد ظفر الہدی قاسمی نے زکریا کالونی سعد پورہ مظفر پور،مولانا تاج الہدی رحمانی نے انور پور حاجی پور۔مولانا وہاج الھدی قاسمی نے ویشالی ضلع کے منصور پور ہلیہ حافظ ذکو ان القمر مدنی نگر مہوا،حافظ ارقم منہاج نے چک چمیلی سراءے ،مولانا نظر الہدی قاسمی نے حسن پور گنگھٹی اور  خواتین میں رضیہ عشرت نے دارالعلوم سبیل السلام حیدرآباد اور شایستہ پروین نے زکریا کالونی مظفر پور میں تراویح میں قرآن مجید ختم کیا۔اس فہرست پر نظرڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان حفاظ کرام میں مفتی  ثناء الہدیٰ قاسمی صاحب کے دو لڑکا ، دو بھتیجا،دو بڑے بھائی محمد ضیاء الہدی مرحوم کے پوتا ،نواسہ ،مفتی صاحب کی اک بیٹی اور ایک بہو زوجہ مولانا محمد ظفر الہدی شامل ہیں۔عصری تعلیم میں بھی یہ خانوادہ علاقے میں ممتاز ہے۔جس میں انجینیئر، پی ایچ ڈی ایم ،اساتذہ اور ڈاکٹر وغیرہ کثیر تعداد میں ہیں ،پورا خانوادہ علمی و ملی کاموں سے جڑا ہوا ہے ۔اور یہی اس خانوادہ کی شناخت ہے

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...