Powered By Blogger

اتوار, مئی 21, 2023

آئندہ میقات کے لئے وفاق المدارس اسلامیہ کا انتخابی اجلاس بخیر وخوبی اختتام پذیر ۔

آئندہ میقات کے لئے وفاق المدارس اسلامیہ کا انتخابی اجلاس بخیر وخوبی اختتام پذیر ۔
اردودنیانیوز۷۲ 
( باتفاق رائےامیر شریعت صدر ،نائب امیر شریعت خازن اور مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی ناظم اعلی منتخب)
بیگوسرائے 21 میی (پریس ریلیز) 
حضرت امیر شریعت ثامن مولانا احمد ولی فیصل رحمانی مدظلہ کی صدارت میں دارالعلوم سجاد نگر لڑوارہ  بیگ سرائے کے اندر آئندہ میقات کے لئے وفاق المدارس اسلامیہ امارت شرعیہ پٹنہ کا انتخابی اجلاس بخیر وخوبی اپنے اختتام کو پہنچا ۔آج یہاں باتفاق رائے حضرت امیر شریعت کو صدر نائب امیر شریعت کو خازن جب کہ مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ کو وفاق کا ناظم اعلی منتخب کیا گیا ہے ۔
اس موقع پر اپنے صدارتی خطاب میں حضرت امیر شریعت مدظلہ العالی نے فرمایا کہ ہمارے مدارس اسلامیہ میں اساتذہ ٹرینگ کا نظام نہیں ہے ،اس کی وجہ سے اساتذہ خاطر خواہ تعلیم دینے میں ناکام ہیں ،حروف تہجی بچوں کو پڑھا نا ہے ،مگر ٹرینگ کے بغیر یہ کام ناممکن ہے ،اساتذہ تربیت کے بغیر انہیں حروف تہجی کامیابی کے ساتھ نہیں پڑھاسکتے۔
انہوں نے مزید یہ بھی کہا کہ مدارس کو درجہ بندی کرنا بھی ضروری ہے تاکہ پرائمری ،میڈل اور ہائی سیکنڈری ایجوکیشن سسٹم میں پختگی پیدا ہوسکے۔مدارس کی درجہ بندی کے لئے ضروری ہے کہ مدارس کی کار پردگی کے پیش نظر ان کے لئے کٹیگریز کاتعین کیا جائے۔امیر شریعت نے یہ بھی فرمایا کہ مدارس میں اول نمبر پر عربی کی تعلیم کو رکھا جائے اس کے بغیر قرآن وحدیث  کو پوری طرح نہیں سمجھا جاسکتا اور دوسرے تیسرے نمبر پر دیگر عصری مضامین کو رکھاجائے تاکہ مضبوط سسٹم کے ساتھ مدارس اسلامیہ میں تعلیمی نظام کو بہتر بنایا جا سکے۔
وہیں نائب امیر شریعت بہار اڑیسہ جھارکھنڈ حضرت مولانا شمشاد رحمانی  نے کہا کہ علاقائی سطح پر مدارس کے اندرونی نظام کو بہتر بنایا جائے ،کھان، پان ،رہائش اور عمارت کی صاف صفائی ودیگر سہولیات بچوں کو مہیا کرائی جائیں تاکہ مقامی بچوں کو باہر جانے سے روکنے میں مدد مل سکے ،انہوں نے کہا کہ مدرسوں میں اساتذہ کی تنخواہوں پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ اساتذہ محنت سے تعلیم و تربیت کی خدمات انجام دے سکیں ۔
مفتی محمد خالد نیموی قاسمی نے اپنے بیان میں کہا کہ توکل علی اللہ اور رجوع الی اللہ کی صفات سے متصف ہوکر مدارس کے اندرونی نظام کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔مفتی اختر اما عادل قاسمی نے کہا کہ علم کی راہ مشکلات سے بھری ہوئی ہے ،طلبہ کے لئے صبر اور انتظامیہ کی اطاعت ضروری ہے ۔قائم مقام ناظم  مولانا شبلی القاسمی نے کہا کہ مدارس میں بچے ہم کیوں دیں ،اس کی وجوہات ،نصاب ونظام تعلیم و تربیت جیسے عناصر پر ہمیں غور کرنا ہوگا ۔ مفتی سہراب ندوی نائب ناظم امارت شرعیہ پٹنہ نے کہا مدارس کے اندرونی نظام کو پرکشش بنانے کے لئے کمزوریوں کو دور کرنا ضروری ہے ۔قاضی انظار عالم قاسمی نے کہا کہ مالی چندہ کے علاؤہ ہمیں بچے بھی چندہ کرنا چاہئے ،تبھی بچوں کے باہر جانے کا سلسلہ رک سکتا ہے۔قاضی عبد العظیم حیدری نے کہا کہ انتظامیہ کا قصور زیادہ ہے ،مفتی عین الحق امینی قاسمی نے اپنے مختصر خیالات کے اظہار کے دوران کہا کہ مدارس کو کٹیگریز میں لانے کی ضرورت ہے اس کے بغیر بہتر تعلیم پر قابو پانا مشکل ہے ۔
پہلی نشست کا آغاز مفتی نفیس احمد قاسمی اور قاری محمد اقبال کی تلاوت قرآن پاک سے ہوا نعت نبی قاری محمد عارف نے پیش کی ،مشاہد کے طور پر قائم مقام ناظم  امارت شرعیہ مولانا شبلی القاسمی موجود رہے ،کلیدی خطاب ونظامت مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی ناظم اعلی وفاق المدارس اسلامیہ کی رہی ۔
آج کے اس انتخابی اجلاس میں جن عہد ہ داران کا انتخاب عمل میں آیا وہ اس طرح ہیں ،صدر حضرت امیر شریعت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی۔خزانچی نائب امیر شریعت مولانا شمشاد رحمانی ،نائبین صدر ، قاری شبیر احمد ،مفتی اختر امام عادل قاسمی ، ،مفتی محمد خالد نیموی قاسمی ،مولانا شبلی القاسمی ،قائم مقام ناظم امارت شرعیہ۔ناظم اعلی وفاق ،مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی ،نائب ناظم امارت شرعیہ ،نائب ناظم ,مفتی وصی احمد قاسمی ،مفتی عین الحق امینی قاسمی،مولانا اقبال مغربی بنگال ،مفتی سعید الرحمان قاسمی ،قاضی انور حسین ۔معاون ناظم ،حضرت صدر محترم کے مشورے سے طئے کئے جائیں گے۔اسی طرح عاملہ کے نئے ممبران میں  قاضی شریعت قاضی انظار عالم قاسمی ،اور مفتی سہراب عالم ندوی نائب ناظم امارت شرعیہ منتخب ہوئے ہیں۔ اس ۔موقع پر مدارس اسلامیہ کی اہمیت وافادیت ،مسائل وحل کے موضوع پر باضابطہ تجاویز بھی پاس ہوئیں سامعین کے درمیان پڑھ کر سنایا گیا ،جس کی بعد میں اشاعت کی جائے گی ۔
اخیر میں پروگرام کے داعی ودارالعلوم سجاد نگر لڑوارہ کے ناظم اعلی مولانا قاضی ارشد قاسمی صاحب نے اپنے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا اور ضیافت کا بھر پور انتظام کیا ۔
پروگرام کو کامیاب بنانے والوں میں مولانا اشرف قاسمی ،نائب ناظم دارالعلوم سجاد نگر لڑوارہ ،انظامیہ کمیٹی واساتذہ دارالعلوم،مولانا مظہر قاسمی ،ایڈووکیٹ وصی الحق رحمانی ، مولانا افتخار وصی قاسمی ،مولانا فیروز عالم صدر مدرس ،حافظ سراج ،مفتی قمر صالح ،مولانا ظفر صالح وغیرہ کے اسماء قابل ذکر ہیں ۔

علم کی بنیاد پر انسان اشرف المخلوقات بنایا گیا: مولانا نیاز احمد امام وخطیب جامع مسجد سمن پورہ پٹنہ۔

علم کی بنیاد پر انسان اشرف المخلوقات بنایا گیا: مولانا نیاز احمد امام وخطیب جامع مسجد سمن پورہ پٹنہ۔
ضیائے حق فاؤنڈیشن ونظام العلوم فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام محفل اعزازیہ وتقسیم اسناد بحسن و خوبی اختتام پذیر ہوا ۔
Urduduniyanews72
سمن پورہ پٹنہ مورخہ 18/مئی 2023 (پریس ریلیز :محمد ضیاء العظیم قاسمی)
نظام العلوم فاؤنڈیشن سمن پورہ پٹنہ میں ایک اعزازیہ تقریب کا انعقاد مورخہ 18/مئی 2023 بروز جمعرات کو کیا گیا، 
جس میں نظام العلوم فاؤنڈیشن وضیائے حق فاؤنڈیشن کے اردو زبان وادب کے ان طلبہ وطالبات کو اعزازات سے نوازا گیا جنہوں نے سی بی ایس سی (دسویں بورڈ) میں عمومی طور پر تمام سبجیکٹس میں اور خصوصی طور پر اردو زبان میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔
اس پروگرام کی صدارت مشہور ومعروف وبیباک عالم دین مولانا نیاز احمد امام وخطیب جامع مسجد ام کلثوم سمن پورہ پٹنہ، اور سرپرستی بزرگ عالم دین مولانا محمد عظیم الدین رحمانی نے فرمائی ۔
نظامت کا فریضہ مولانا محمد ضیاء العظیم قاسمی برانچ اونر ضیائے حق فاؤنڈیشن پٹنہ نے انجام دی ۔
مہمان خصوصی کے طور پر جلال خان، آفتاب خان سمن پورہ پٹنہ، موجود تھے
مہمان اعزازی کے طور پر محمد ایوب خان جہان آبادی نے شرکت کی ۔
پروگرام کا آغاز حافظ عمران، مولانا اعجاز، محمد امان اللہ کے حمدیہ ونعتیہ کلام سے ہوا ۔
اس کے بعد ناظم محمد ضیاء العظیم نے پروگرام کے مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے دونوں تنظیموں کا مختصر تعارف ومقاصد پیش کیا ۔
پھر پروگرام کے سرپرست بزرگ عالم دین مولانا محمد عظیم الدین رحمانی نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اردو زبان وادب در اصل ہماری تہذیب وثقافت کا اہم حصہ ہے، اس کی تحفظ وبقاء در اصل اپنی تہذیب وثقافت کی تحفظ وبقاء، اپنی تاریخ، اپنے وجود کی بقا کی ضمانت ہے ۔
ہم ان دونوں اداروں کے ذمہ داران محمد شارق خان، محمد ضیاء العظیم ،کو مبارکباد پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے ان اداروں میں دینیات وحفظ کے ساتھ ساتھ اردو زبان وادب کی مضبوط اور ٹھوس تعلیم وتربیت کا نظم ونسق کیا ہے، جس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے ۔
اس کے بعد صدر، سرپرست، مہمانان اور ان اداروں کے اساتذۂ کرام کے ہاتھوں کامیاب طلبہ وطالبات کو اعزازی سند ومیڈل سے نوازا گیا ۔
جن طلبہ وطالبات کو اعزازات سے نوازا گیا ان کی فہرست اس طرح ہے،
نصرت خورشید بنت محمد خورشید عالم، محمد زید اکرم بن محمد سہیل اکرم، نصرت پروین بنت محمد طارق عالم، محمد یوسف بن محمد سکندر، رضیہ خاتون بنت عین الحق، لئیق الرحمن بن محمد مرتضیٰ، تنویر رضا خان، انجم شاہین بنت محمد احسان، نزہت پروین بنت محمد طارق عالم، نازیہ پروین بنت محمد جان، زینت پروین بنت محمد طارق عالم ۔
آخر میں صدر محترم نے اپنے صدارتی خطاب میں تمام طلبہ وطالبات کی حوصلہ افزائی فرماتے ہوئے انھیں بہترمستقبل کی دعائیں دیتے ہوئے کہا کہ انسان کو اللہ رب العزت نے علم وفضل کی بنیاد پر اشرف المخلوقات بنایا ہے ۔یقیناً علم حاصل کرنا ایک کا اہم فریضہ ہے، ہمیں چاہیے کہ ہم عربی زبان بھی سیکھیں، لیکن اردو زبان وادب کی تعلیم خصوصیت کے ساتھ حاصل کریں، کیوں کہ یہ زبان ہماری مادری زبان ہے اور مادری زبان فطری زبان ہوا کرتی ہے، اس زبان میں قرآن وأحاديث اور فقہی مسائل کی کتابیں ہمارے اکابرین نے تصنیف وتالیف کی ہے، اور اس مادری زبان کی ہم ٹھوس تعلیم حاصل کریں گے تو ہمارے لیے شریعت بھی سمجھنا اور اس پر عمل پیرا ہونا سہل ہوگا ۔اسی کے ساتھ صدر محترم کی اجازت سے مولانا محمد عظیم الدین رحمانی کی دعا پر مجلس کا اختتام ہوا ۔واضح رہے کہ ضیائے حق فاؤنڈیشن کی بنیاد انسانی فلاح وترقی، سماجی خدمات، غرباء وفقراء اور ضرورتمندوں کی امداد، طبی سہولیات کی فراہمی، تعلیمی اداروں کا قیام، اردو ہندی زبان وادب کی ترویج وترقی، نئے پرانے شعراء وادباء کو پلیٹ فارم مہیا کرانا وغیرہ ہیں، فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام صوبہ بہار کے دارالسلطنت شہر پٹنہ کے پھلواری شریف  میں ضیائے حق فاؤنڈیشن کا برانچ اور ایک مدرسہ کاقیام ،، مدرسہ ضیاء العلوم،،عمل میں آیا ہے، جہاں کثیر تعداد میں طلبہ وطالبات دینی علوم کے ساتھ ساتھ ابتدائی عصری علوم حاصل کر رہے ہیں ۔۔۔
اور نظام العلوم فاؤنڈیشن( بیاد نظام الحق خان) سمن پورہ پٹنہ یہ ایک خالص دینی ادارہ ہے جو صوبہ بہار کے دارالحکومت شہر پٹنہ کے مشہور ومعروف علاقہ سمن پورہ راجا بازار روڈ نمبر ١ نظام کیمپس میں واقع ہے،  ادارہ تقریباً پندرہ سالوں سے ملی و تعلیمی خدمات انجام دے رہا ہے، کثیر تعداد میں طلبہ وطالبات کی جماعت یہاں سے فیضیاب ہوچکی ہیں، اس ادارہ کی بنیاد محض اخلاص و للہیت پر مبنی ہے، یہ ادارہ اکابرین علماء خصوصاً مولانا محمد عظیم الدین رحمانی امام وخطیب جامع مسجد خواجہ پورہ پٹنہ کی زیر سرپرستی ترقی کی منزلیں طے کر رہا ہے ۔تین ماہرو باہر اور مخلص ومحنتی اساتذہ اور دو کارکنان اپنی خدمات پر معمور ہیں ۔یہاں مقامی طلبہ وطالبات اپنی علمی پیاس بجھا رہے ہیں ،حفظ وناظرہ کی مضبوط تعلیم کے ساتھ ساتھ علم دینیات ،اردو وعربی زبان و ادب اور بنیادی عصری تعلیم کا عمدہ نظم ونسق ہے ۔اس وقت اس ادارہ میں تقریباً دو سو طلبہ وطالبات زیر تعلیم ہیں ۔ اس ادارہ میں اکثریت اسکول کے طلبہ وطالبات کی ہے، جو دینیات واردو زبان وادب کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں ۔
ماہر نفسیات واستاذ محمد شارق خان اور ان کی ٹیم نے بڑے جدوجہد اور جاں فشانی کے ساتھ اس ادارہ کو سینچا ہے ۔
طلبہ وطالبات کے لیے ہر طرح کی سہولتیں یہاں موجود ہے، 
یہ ادارہ دینی تعلیم کے حصول کے لئے علاقے میں اپنی منفرد شناخت رکھتا ہے...

انس مسرورانصاری قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن (رجسٹرڈ) سکراول۔اردوبازار۔ٹانڈہ۔ امبیڈکر نگر(یوپی )

کچھ تبسم زیرلب۔۔۔۔۔ 
   
                مرغی اورآملیٹ
       
       ٭انس مسرورانصاریurduduniyanews72

 اک پھول سےآجاتی ہے ویرانے میں رونق
 ہلکا سا تبسم  بھی مر ی جا ن  بہت  ہے
پھول چندشعروشاعری کے جتنے بڑے رسیاتھے،اُن کے دوست دانشمند اتنے ہی بڑے نقادتھے۔پھول چندکی مجال نہ تھی کہ وہ اپنے شعروں کودانشمندکی تنقیدسے لڑاسکتے۔لیکن اپنی اپنی عادتوں سے دونوں ہی مجبورتھے۔پھول چند شعرضرورسناتے اور دانشمندتنقیدبھی ضرورکرتے۔
ایک موقع پرپھول چندنے دانشمند کوایک شعرسنایا۔‘‘سنومیاں!کسی شاعر نے کیاہی عمدہ شعرکہاہے۔کیسی سچّی،پکّی اورپتے کی بات کہی ہے۔’’ 
 دانشمند ـ:۔‘‘ارشاد،،،، ارشاد....مگرصرف شعر۔تمہید بالکل نہیں۔’’
 پھول چندـ:۔‘‘ملاحظہ ہو۔شاعرنے عرض کیاہے۔’’
اک نظرسے سب کودیکھے یہ صفت کانے میں ہے
ا لغرض دل کی صفائی آنکھ بہہ جانے میں ہے
پھول چندنے دادطلب اندازمیں دیکھا۔لیکن دانشمندخاموش رہے۔کچھ دیر سرجھکائے غورو فکر کرتے رہے پھربڑے عالمانہ اندازمیں بولے۔ 
‘‘دانشمندـ:۔یہ شعرکسی کانے شاعرکاکاناشعرمعلوم ہوتاہے۔’’ 
‘‘پھول چند:۔(خفگی سے)پھرتم نے میخ نکالی۔میں کہتاہوں کہ میں نے شاعرکودیکھاہے اورشرط لگانے کوتیارہوں ۔وہ شاعرکاناہرگزنہیں ہے۔’’ 
دانشمند:۔‘‘توپھرتم کانے ہو۔’’ 
پھول چند:۔‘‘کیاکہا۔؟میں کاناہوں۔.....میں کاناہوں۔؟ابے کہیں تیری آنکھیں تونہیں پھوٹ گئیں۔دیکھ یہ دیکھ ۔میری دونوں آنکھیں۔کیامیں تجھے کانادکھائی دیتاہوں۔؟؟’’ 
دانشمند:۔‘‘کاناہونے میں بُرائی کیاہے۔؟ مثال کے طورپر اگرتم کانے ہوتے تولوگ اپنی دونوں آنکھوں سے تمھاری ایک آنکھ دیکھتے مگرتم اپنی ایک آنکھ سے لوگوں کی دونوں آنکھیں دیکھتے۔کمال کی بات ہے کہ نہیں۔؟ویسے بھی آپے سے باہرہونے کی ضرورت نہیں۔جامے کے اندرہی رہو۔مطلب تومیراتم سمجھے نہیں اوربکواس کرنے لگے۔’’ 
 پھول چندـ:۔‘‘اب مطلب بھی سمجھادوبیٹا!کاناواناتوپہلے ہی بناڈالا۔اب اورکیالولا،لنگڑابھی بناؤگے۔؟’’ 
دانشمندـ:۔(ہنستے ہوئے)‘‘ نہیں پیارے!ایسانہیں ہے۔میرے کہنے کامطلب تویہ تھاکہ شاعریک چشم رہاہوگااورتمھارے دیکھنے میں غلطی ہوئی ہوگی۔اوراگرتم نے شاعرکودیکھاہے اورغورسے دیکھاہے تومجھے تمھاری بینائی پرشک ہے کہ وہ کمزورہوچکی ہے۔بُرامت ماننالیکن شعرسننے کے بعد مجھے یقین آگیاہے کہ یہ کاناشعرضرورکسی کانے شاعرنے اپنی صفائی میں کہاہے۔’’ 
پھول چند:۔‘‘اورتم نے جومجھے کاناکہاہے اس کاکیامطلب؟’’
دانشمند:۔‘‘پیارے!ناراض نہ ہو۔ وہ تومیں نے تمھیں محاورۃََ کاناکہاتھا۔سچ مچ کاکاناتھوڑے ہی کہاتھا۔’’
پھول چند:۔‘‘توگویامیں تمھارے نزدیک اُردومحاورہ میں کاناہوں۔کیوں۔؟اورمحاورہ کی آڑمیں دوبارجوتم نے کاناکاناکہاہے وہ کس کھاتے میں لکھاجائے گابیٹا۔؟’’
دانشمند:۔‘‘ تم اُردوزبان کو کیاسمجھتے ہو۔؟یہ توصرف محاورہ ہے۔اس کی گالیاں اگرپتھرپر لکھ دی جائیں تووہ بھی پگھل کرپانی پانی ہوجائے۔کیاکاناصرف وہ ہوتاہے جس کے آنکھیں نہ ہوں۔کیااسے کانانہیں کہیں گے جوآنکھیں رکھتے ہوئے بھی نہیں دیکھتا۔ اورتم نے بھی تومجھے آنکھیں پھوٹاکہاتھا۔نہیں کہاتھاکیاکہ تمھاری آنکھیں پھوٹ گئی ہیں۔؟’’
پھول چند:۔‘‘وہ تومیں نے غصہ میں کہاتھا۔سچ مچ توکہانہیں تھا۔غصہ میں غلطی ولطی توہوہی جاتی ہے۔مگرایک بات میری سمجھ میں نہیں آتی۔جب تم شعرنہیں کہتے۔شعرکہہ نہیں پاتے۔تمھارے اندرشعر گوئی کی صلاحیت نہیں ہے توپھرتم شعروں پرتنقید کیسے کرتے ہو۔؟کیاحق ہے تمھاراتنقید کرنے کا۔؟’’ 
دانشمند:۔‘‘میں خدائی فوجداراوراُردوشاعری کاٹھیکیدارہوں۔بس اتناجان لوکہ میں نے انڈے کبھی نہیں دیے لیکن آملیٹ کے بارے میں مرغیوں سے زیادہ جانتاہوں۔تم نے غصہ میں غلطی کی اورمجھے آنکھیں پھوٹاکہا۔چلوچھوڑو۔جانے دوپیارے!میں نے تمھیں ہزاربارمعاف کیا۔تم چاہوتودل کی صفائی کے لیے دوچاربارایسی ہی غلطیاں اورکرسکتے ہو ۔میں بُرانہیں مانوں گالیکن میں یہ ماننے کے لیے تیارنہیں ہوں کہ جوشعرتم نے سنایاہے وہ کسی کانے شاعرکاشعرنہیں ہے۔ارے پھولن میاں!اب توپتھرکی بنی ہوئی ایسی ایسی آنکھیں آنے لگی ہیں کہ اصلی آنکھیں جھک ماریں۔ہاں توپیارے!وہ شعر ذراایک بارپھر سناؤ۔اچھاشعرہے۔’’
پھول چند:۔‘‘بڑے دوغلے ہو۔دل میں کچھ اورزبان پر کچھ۔شعرسن لومگراب اس کے بعدمیں تمھیں کبھی شعرنہیں سناؤں گا۔’’
دانشمند:۔‘‘مجھے منظورہے۔میں جانتاہوں کہ تمھاراعہدبھی ہمارے لیڈروں کے وعدوں جیساہے جوکبھی پورانہیں ہوتا۔شعرسناؤ۔’’

اک نظرسے سب کودیکھے یہ صفت کانے میں ہے
الغرض دل کی صفائی آنکھ بہہ جانے میں ہے
 
         انس مسرورانصاری
  قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن (رجسٹرڈ) 
   سکراول۔اردوبازار۔ٹانڈہ۔ امبیڈکر نگر(یوپی )                
           رابطہ/9453347784*
                              ٭٭٭

پیر, مئی 15, 2023

ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات __مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات __
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
مغرب سے قربت اور اثر پذیری کی وجہ سے تمام قوموں میں ’’ڈے کلچر‘‘ نے رواج پالیا ہے، اس موقع سے ان دنوں کی یاد منائی جاتی ہے جو ہماری اچھی بری یادوں سے جڑی ہوتی ہیں، انہیں میں سے ایک یوم مزدور بھی ہے جو یکم مئی کو ہر سال منایاجاتا ہے، کل کارخانے بند رہتے ہیں، لیکن اس کا کوئی اثر مزدوروں کی زندگی پر پڑتا نظرنہیں آتا، کیوں کہ عملاً یہ صرف ایک دن کی فرصت ہے اور مزدور بہت سارے روز کمانے کھانے والے ہوتے ہیں، بندی سے انہیں یہ نقصان ہوتا ہے کہ ان کی ایک دن کی اجرت مارے پڑجاتی ہے اور کبھی تو ان کے چولھے کے ٹھنڈے رہ جانے کی نوبت آجاتی ہے، اس دن کو منانے والے اگر اس دن مزدوروں کے لیے فلاحی اسکیموں کا انتظام کرتے، ان کی ضروریات کی کفالت کے لیے انہیں بونس دیتے، ان کے بچوں کی تعلیم کا فری نظم کروادیتے تو یہ دن مزدوروں کے لیے راحت رسانی کا ذریعہ بنتا اور اس دن کی افادیت سامنے آتی۔
 ڈے کلچر میں یوم پیدائش (برتھ ڈے) یوم عروسی میرج ڈے، برسی، وغیرہ کا تصور عقل وخرد سے میل نہیں کھاتا، بد قسمتی سے مسلمانوں میں یہ کچھ زیادہ ہی رواج پاتا جا رہا ہے، ذرا سوچیے پیدائش، شادی مرنے کا دن دو بارہ کس طرح آسکتا ہے، تاریخ آتی ہے، لیکن وہ دن کہاں سے آئے گا، وہ دن تو ایک ہی دن ہے، جب آدمی پیدا ہوا، مرا۔چار شادی کرے گا تو زندگی میں شادی کا دن زیادہ سے زیادہ چار بار آسکتا ہے، یہی حال شب معراج کا ہے، شب معراج تو وہی ایک رات تھی، جس میں آقا صلی اللہ علیہ وسلم کو ملأ اعلیٰ کی سیر کرائی گئی، ہمارا عقیدہ ہے کہ اب کوئی دوسرا نبی نہیں آئے گا، تو دوسری شب معراج کس طرح آسکتی ہے، لوگ تاریخ کوڈے سے تعبیر کرنے لگے اور سارا جشن اسی عنوان سے منایا جاتا ہے، اس میں شرعی طور پر منکرات کا ارتکاب کیا جاتا ہے اور لاکھوں روپے فضولیات پر خرچ کیے جاتے ہیں۔
 یوم مزدور امریکہ کے شہر شکاگو میں مئی1886 میں سرمایہ دار طبقوں کے خلاف اٹھنے والی آواز کو دبانے کے لیے قتل وغارت گری کا جو بازار گرم ہوا اس کی یاد میں منایاجاتا ہے، اس حادثہ میں بم دھماکہ کی وجہ سے 7 پولیس اہل کار سمیت گیارہ افراد ہلاک ہوئے تھے، کئی کو قید کر لیا گیا، مقدمہ چلا، عمر قید کی سزا ہوئی،دار ورسن کا سامنا کرنا پڑا، اس حادثہ کے موقع پر ایک مزدور نے خون میں ڈوبا ہوا اپنا کپڑا لہرایا، یہ خونی کپڑامزدوروں کے لیے حوصلہ مندی کا پیغام تھا، چنانچہ خونی رنگ ان کا علم بن گیا، نومبر 1987ء میں ایک مزدور نے پھانسی کے پھندے پر جانے سے پہلے نعرہ لگایا ’’غریب انسانوں کی آواز بلند ہونے دو ورنہ ان کی تلواریں بلند ہوں گی‘‘۔
 یہ دن پہلی مرتبہ 1890میں ریمنڈلیون کی تجویز پر منایا گیا، اور مزدوروں نے اپنے حقوق کے حصول کے لیے احتجاج اور مظاہروں کے تسلسل کو باقی رکھا، اس تحریک کے نتیجے میں 1893میں جن مزدوروں کو عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی انہیں معافی دی گئی اور ان پر چلائے گیے مقدمہ کے لیے اظہار افسوس کیا گیا، روزانہ بارہ سے اٹھارہ گھنٹے کام کرنے کے بجائے آٹھ گھنٹہ کا وقت مقرر ہوا، جس سے مزدوروں کو بڑی راحت ملی، مختلف مہہ وسال میں مزدوروں کے جو مطالبات تسلیم کیے گیے ان میں ایک یوم ہفتہ کی تعطیل، مزدور یونین بنانے، ملازمت کا تحفظ، لیبر کورٹ کا قیام، خواتین مزدوروں کے دوران حمل رخصت کے حقوق کو تسلیم کیا گیا۔
 ہندوستان میں بھی مزدوروں کے لیے قوانین موجود ہیں، لیکن اس قانون میں چار اہم ایسی خامیاں ہیں جس نے مزدوروں کے حقوق پر شب خوں مار دیا ہے، ان میں پہلی کمی یہ ہے کہ ایسے ادارے اور کمپنیاں جن کے یہاں ملازموں کی تعداد تین سو سے کم ہے وہ بغیر وجہ بتائے ادارے کو بند اور ملازموں کو بر طرف کر سکتے ہیں، اس کے علاوہ چھوٹے اداروں میں پرونٹ فنڈ، گریجوٹی، انشورنس اور زچگی کی فوائد نہیں ملتے اور مالکان قانون کی رو سے اس کے پابند نہیں، جن اداروں میں لاگو ہوسکتے ہیں، ان کے مالکان بھی قانون میں بعض شرائط اور لچک کا فائدہ اٹھا کر واجبی حق کی ادائیگی سے ہاتھ کھینچ لیتے ہیں۔ اس قانون کی تیسری خرابی یہ ہے کہ دو ہفتے پہلے نوٹس دیے بغیر ہڑتال نہیں کیا جاسکتا، ہڑتال کی حمایت کرنے والوں کو سزا دینے کا طریقہ بھی رائج ہے، اس طرح یہ قانون مالکان، ٹرسٹیان اور شرکاء کے حق میں زیادہ مفید اور مزدوروں کے حق میں کمزور ہے۔
 ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مزدوروں کی حالت زار کا مشاہدہ اور تجربہ خود مزدوری کرکے کیا تھا، اس لیے اسلام میں مزدوروں کے حقوق کی رعایت کے لیے خاص حکم موجود ہے، مٹی میں اَٹے مزدوروں کے ہاتھوں کی تعریف کرکے ان کی اہمیت بتائی گیی ہے، پسینہ خشک ہونے سے پہلے ان کی مزدوری کی ادائیگی کا فرمان جاری کیاگیا 
حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ’’اعطوا الاجیر اجرہ قبل ان یجف عرقہ‘‘ مزدور کو اس کی مزدوری پسینہ خشک ہونے سے پہلے دو، اس کو پھیرے نہ لگواؤ۔ مزدوری کی تعیین کا فیصلہ کام کرانے والے پر نہیں مزدور پر چھوڑا،ان سے ان کی صلاحیت وطاقت سے زیادہ کام لینے سے منع کیا اور ان کی ضروریات پر توجہ مرکوز رکھنے کی ہدایت دی۔
حضرت عبد اللہ ابن عمر سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا مزدور کو اس کی مزدوری اس کے پسینے کے خشک ہونے سے پہلے ادا کردو۔
حضرت انس سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین شخص ایسے ہیں کہ قیامت کے دن میں ان کا فریق ہوں گا، ان میں سے ایک وہ ہے جو کسی مزدور کو اُجرت پر رکھے، اس سے پور ا کام لے لے اور اُجرت نہ دے۔(بخاری)
حضرت ابومسعود انصاریؓ کہتے ہیں، ایک دفعہ میری ایک لونڈی بکریاں چرا رہی تھی کہ کچھ دیر وہ بے پرواہ ہو گئی، اس کی بے پرواہی سے بھیڑیا آیا اور ایک بکری لے گیا۔ میں دیکھ رہا تھا، میں لونڈی کے پاس گیا اور غصے میں اسے زور سے تھپڑ مارا اور کہا بے پرواہ بیٹھی ہوئی ہو، بھیڑیا بکری لے گیا ہے۔ جب زور سے تھپڑ مارا تو پیچھے سے آواز آئی، ابو مسعود! اس کو تھپڑ مارنے سے پہلے یہ سوچ لو کہ تم سے طاقتور بھی کوئی ہے جو تمہیں دیکھ رہا ہے۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو یہ کہنے والے رسول اللہؐ تھے۔ نیچے والے پر ظلم کرتے ہوئے یہ بھی سوچنا چاہیے کہ میرے اوپر بھی کوئی ہے۔
مزدوروں کے حقوق پر جو باتیں اسلام نے کی ہیں، اس سے زیادہ کسی کے یہاں موجود نہیں ہے، اس گئے گذرے دور میں بھی مسلمان بڑی حد تک ان احکام پر عامل ہے، اسی لیے اسلامی تاریخ کے کسی دور میں مزدوروں کے احتجاج اور مظاہرے کی کوئی تاریخ نہیں ملتی، اور دوسرے مذاہب کے مالکان کے مقابلے مسلمانوں کے یہاں کام کرنے والے مزدوروں کی حالت قدرے بہتر ہے۔
حضرت ابوذر غفاریؓ اور حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کا معمول یہ تھا کہ جیسے کپڑے خود پہنتے تھے ویسے ہی نوکروں کو پہناتے تھے۔ ایک دن ایک آدمی نے حضرت ابوذر غفاریؓ سے کہا آپ نے جو اتنا قیمتی لباس پہنا ہوا ہے ویسا ہی اپنے غلام اور نوکر کو پہنا رکھا ہے، اس کو کوئی ہلکی پھلکی چادر کافی تھی۔ فرمایا، نہیں بھئی! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ یہ تمہارے ماتحت ہیں ’’اطعموھم مما تطعمون والبسوھم مما تلبسون‘‘ جو خود کھاتے ہو ان کو بھی وہی کھلاؤ، جو خود پہنتے ہو ان کو بھی وہی پہناؤ اور ان کی طاقت سے زیادہ ان پر کام نہ ڈالو، جتنا کر سکتے ہیں ان سے اتنا کام لو، اور اگر زیادہ کام اس کے ذمہ لگا دیا ہے اور تمہیں اندازہ ہے کہ یہ اکیلے نہیں کر سکے گا تو ’’اعینوھم‘‘ اس کے ساتھ مل کر کام کرو۔
 ہمارے دور کا المیہ یہ بھی ہے کہ مزدور اپنی ذمہ داریوں سے غافل ہو رہے ہیں، اور بڑی حد تک کام چور سے ہوگیے ہیں، دیر سے آنا، وقت پورا کرنا اور وقت سے پہلے نو دو گیارہ ہوجانا عام روش بن گئی ہے، مزدوروں کو بھی اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنا چاہیے، حقوق وفرائض میں چولی دامن کا ساتھ ہے، اس معاملہ کو ذہن نشیں رکھنا چاہیے، تصادم حقوق وفرائض میں تال میل نہیں ہونے کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے، اگر ہر دو فریق اپنی ذمہ داریوں کو  سمجھے تو یوم مزدور منانے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی اور نہ سرمایہ داروں سے تصادم کی نوبت آئے گی، کوتاہی وکمزوری دونوں طرف ہے کسی ایک کو مورد الزام ٹھہرانا صحیح نہیں ہوگا۔

اتوار, مئی 14, 2023

مدارس اسلامیہ……غورو فکر کے چند گوشے مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف

مدارس اسلامیہ……غورو فکر کے چند گوشے
Urduduniyanews72
 مفتی محمد ثناء الہدیٰ  قاسمی
 نائب  ناظم  امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ(9431003131)
ہندوستان کے مدارس اسلامیہ میں رمضان المبارک کی تعطیل کے بعد نئے داخلے کی کارروائی چل رہی ہے، اوربعض مدارس میں داخلہ کی کاروائی مکمل ہو چکی ہے اور اب تعلیمی سال کا آغاز ہوا چاہتا  ہے، اساتذہ نئے حوصلے اور جذبے کے ساتھ تدریس میں لگیں گے  طلبہ بھی اپنے کامیاب مستقبل کے لیے جد وجہد اور محنت کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔
 مدارس اسلامیہ دینیہ کی اہمیت کو غیروں نے زیادہ سمجھا ہے، وہ جانتے ہیں کہ امت مسلمہ میں اسلامی اقدار اور اسلامی تہذیب وثقافت کی سپلائی یہیں سے ہوتی ہے، اسی لیے وہ ہمارے مدارس کے بارے میں غلط فہمیاں پھیلاتے رہتے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ لوگوں کے ذہن سے اس کی اہمیت وافادیت نکال دی جائے اور سماج کو باور کرادیاجائے کہ یہ ادارے از کار رفتہ اورآؤٹ آف ڈیٹOut of Date)) ہو چکے ہیں، ان میں اساسی اور بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے، بد قسمتی سے ہمارے دانشوروں کا ایک بڑا طبقہ اس پروپیگنڈہ سے متاثر ہو گیا ہے، اور وہ تعلیم سے متعلق ہر سمینار، سمپوزیم اور مجلسی گفتگو میں ٹیپ کے بند کی طرح اسے دہراتا رہتا ہے؛ حالانکہ ہمارے مدارس اسلامیہ نے ماضی سے لیکر تا حال ملک وملت کی جو خدمت انجام دی ہیں، اس کی نظیر کسی اور قسم کے تعلیمی اداروں میں مشکل سے مل پائے گی،ہمارے اساتذہ نے اس تعلیمی نظام کو اجرت کے بجائے اجر خدا وندی کے حصول کے جذبہ سے پروان چڑھایا،اپنی زندگیاں کھپادیں، دنیا وی آسائش اور حصولیابیوں کی طرف سے منہہ پھیر لیا، مقصد رضائے الٰہی کا حصول تھا، یہ مقصد کل بھی تھا اور آج بھی ہے۔ 
ہمارے مدارس کے طلبہ نے بھی اپنے اساتذہ کے نقش قدم پر چلنے کا عزم کیا، وہ خوب جانتے ہیں کہ یہاں مادی منفعت کے مواقع کم ہیں، سرکاری مراعات کا گذر نہیں ہے،اور جہاں گذر ہواہے وہاں کا ر طفلاں تمام ہوتا جارہا ہے،اور رشوت کی گرم بازاری نے ان اقدار سے انہیں منحرف کردیا ہے،جو ہمارے مدارس کا طرہ امتیاز رہا ہے، میں یہاں بات آزاد مدارس کی کر رہا ہوں، ملحقہ مدارس کی نہیں، ملحقہ مدارس میں بھی جن مدارس نے عزم کر لیا ہے کہ ہم بزرگوں کے نقش قدم پر چلیں گے،ا ن کے یہاں اس مادی نظام کا کوئی اثر نہیں پڑا ہے، البتہ ایسے مدارس انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں اور ان کی ہمارے دل میں بڑی وقعت اور قدروقیمت ہے۔ مدارس کے اس نئے تعلیمی سال کو مزید معیاری اور تربیت کے اعتبار سے مزید مثالی بنانے کے لیے ہمیں اور بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ اساتذہ، طلبہ اور انتظامیہ کی نیتوں میں خلوص ہو، کیونکہ ہمارے اعمال کی کیا ری کو سر سبز وشاداب اور سدا بہار رکھنے میں اخلاص کے چشمۂ صافی سے ہی توانائی ملتی ہے، امیر شریعت سادس حضرت مولانا سید نظام الدین صاحب ؒفرمایا کرتے تھے کہ خلوص وللہیت کے جذبے سے جوکام کیاجا تا ہے اس میں اللہ کی نصرت ضرورآتی ہے، اعمال کا مدار نیتوں پر ہی ہے۔
مدارس اسلامیہ اصلاً قرآن کریم اور احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کے لئے ہیں، بقیہ علوم وفنون انہیں دونوں نصوص کی افہام وتفہیم کے طور پر پڑھا ئے جاتے ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ ان دونوں چیزوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی جائے،یقینا قرآن کریم صحت کے ساتھ پڑھنے پڑھانے کا مزاج بڑھاہے،لیکن اب بھی بہت سارے گاو?ں اور دیہات ایسے ہیں، جہاں اس معاملے میں کافی کمی پائی جاتی ہے کیا یہ ہماری ذمہ داری نہیں ہے کہ قرب وجوار کے ان گاؤں کی بھی فکرکریں، جو بنیادی دینی تعلیم سے آج بھی دورہیں، اس پر غور کرنا چاہیے کہ کیا ہمارے وسائل اس کی اجازت دیتے ہیں کہ ہم چند ایسے گاؤں کو گود لے لیں،جو اب تک بنیادی دینی تعلیم سے محروم اور بے بہرہ ہیں،اس کی وجہ سے مدرسہ کو ہر قسم کا فائدہ پہونچے گا۔
حضرت مولانا ابرار الحق رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ جب کوئی مدرسہ مالی بحران کا شکوہ کرتا ہے تو مجھے معاً خیال آتا ہے کہ وہاں قرآن کریم کی تعلیم صحت کے ساتھ نہیں ہو رہی ہے،وہ فرماتے تھے کہ نا ممکن ہے کہ قرآن کریم کی تعلیم پر توجہ دی جائے اور ادارہ مالی بحران میں مبتلا ہو،اس لیے کہ اللہ بڑا غیور ہے، اس کی غیرت کس طرح گوارہ کر سکتی ہے کہ اس کے کلام پاک کا حق ادا کیاجائے اور حق ادا کرنے والے پریشان حال ہوں۔
معیاری تعلیم کے لیے یہ بات بھی ضروری ہے کہ جو کچھ پڑھا اور پڑھایا جا رہا ہے اس کے اچھے ہونے کااعتماد ہو، آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ تم میں اچھا وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے،اس لیے اساتذہ اور طلبہ سب کو اعتماد ہو نا چاہئے کہ ہم جن کاموں میں لگے ہیں وہ دنیا کااچھا کام ہے، اس احساس کے نتیجے میں ہمیں نفسیاتی طور پر اطمینان نصیب ہوگا اورہم دینی تعلیم اورتہذیب وثقافت کے قدر داں ہوں گے اور دوسری تہذیب ہمیں متاثر نہیں کر سکے گی۔
 عموماً دیکھا جاتا ہے کہ طلبہ جب مدرسہ سے گھرکا رخ کرتے ہیں یا فارغ ہوکر دوسرے اداروں میں داخلہ لیتے ہیں تو ان کی وضع قطع بدل جاتی ہے،چہرے سے داڑھی تک غائب ہو جاتی ہے۔وضع قطع اس طرح مغربی ہوجاتی ہے کہ پتہ ہی نہیں چلتا کہ کبھی انہوں نے مدرسہ میں پڑھا ہے، یہ ہماری تربیت کی کمی ہے، ہم نے دوران تعلیم طالب علم کے ذہن میں اپنے تہذیبی سرمایہ اور ثقافت وکلچر کی اہمیت نہیں بٹھائی، وہ دوسری تہذیبوں سے متاثر ہوتے رہے اورذرا سا ماحول بدلا تو سب کچھ بدلتا چلا گیا، ہمیں خصوصیت سے تربیت کے اس اہم نکتہ پر توجہ مبذول رکھنی چاہیے تاکہ ہمارا سرمایہ ضائع نہ ہو۔ حضرت مولانا محمدالیاس صاحب ؒ، فرمایا کرتے تھے کہ اپنی کھیتی میں کچھ نہ پیدا ہو یہ افسوس کی بات ہے، لیکن اس سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ پیداوار ہماری ہو اور وہ دوسروں کے کام آئے۔
تعلیم کو معیاری بنانے کے لئے اساتذہ وطلبہ دونوں کے لیے مطالعہ کی پابندی نا گزیر ہے، اساتذہ متعلقہ کتابوں کا مطالبہ کرکے درس گاہ میں جائیں، بلکہ جدید طریقۂ تعلیم کے مطابق نقشۂ تدریس یعنی لیسن پلان رات کو ہی مرتب کر لیں، اس سے تدریس کے کام میں سہولت بھی ہوگی اورتدریس کا حق بھی پورے طور پر ادا کرنا ممکن ہو گا، لیسن پلان کی وجہ سے ہم اپنے سوالات مرتب کر سکیں گے، لڑکوں کی سابقہ معلومات کو سامنے رکھ کر ان کی معلومات میں تدریجا اضافہ کرنا ہمارے لیے ممکن ہو سکے گا، اور طلبہ بھی اساتذہ کے غیر ضروری سوالات سے بچ کر مورد عتاب نہیں ہوں گے۔ 
معیاری تعلیم کے لیے ضروری ہے کہ ہمارے طلبہ کا ایک نشانہ اور ٹارگیٹ ہو کہ  ہمیں دیگر مضامین میں کامیاب ہونا ہے،لیکن فلاں مضمون میں مہارت پیدا کرنی ہے،یہ دور اختصاص کا ہے، اس کے بغیردنیا میں کوئی قیمت نہیں لگتی اور عام طالب علموں کو ترقی کے مواقع نہیں ملتے؛ اس لیے کسی ایک فن میں اختصاص کی کوشش کرنی چاہیے۔
 چونکہ یہ سارا کام رضاء الٰہی کے لئے ہی کرنا ہے اوردوسراکوئی مقصد نہیں ہے، اس لیے ضروری ہے کہ ہم اللہ کے حکم پر چلیں، گناہوں سے اجتناب کریں اور ان تمام امور پر کار بند ہونے کیلئے اللہ سے توفیق طلب کر تے رہیں، سارے کام اللہ کی توفیق ہی سے بندہ کر سکتا ہے،اس لیے اللہ سے مانگیں اس کے سامنے گڑگڑائیں، آہ سحر گاہی اور دعاء نیم شبی کا اہتمام کریں، اللہ سے اس طرح لو لگائیں کہ تعلیم میں مدرسہ اور تربیت وتزکیہ میں ادارہ خانقاہ نظر آئے اور جب کوئی بندہ ادھر سے گذرے تو اعلان کرے کہ   ع    در مدرسہ خانقاہ دیدم
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت مدارس اسلامیہ کے سامنے مختلف قسم کی مشکلات ہیں، اندرونی فتنوں کے ساتھ بیرونی فتنوں کا بھی تسلسل ہے، اس پس منظر میں چند باتوں کی طرف اساتذہ اور ذمہ داران مدارس کی توجہ مبذول کرانا ضروری معلوم ہوتا ہے: (۱) درجہ حفظ کے طلبہ کو اردو املاء نویسی کرائی جائے، دیکھا یہ جارہا ہے کہ درجہ حفظ سے فارغ طلبہ بہت مشکل سے اپنا نام لکھتے ہیں، جبکہ انہیں اردو لکھنے پڑھنے کی اچھی مشق ہونی چاہئے، ہندوستان میں ہندی زبان سے بھی واقفیت ضروری معلوم ہوتی ہے۔ (2) خوش خطی کی طرف بھی دھیان دیا جائے اور تمام درجات میں خوش خطی کی مشق کا اہتمام کرایا جائے۔ (3) عام معلومات میں، جغرافیائی معلومات ملکی معلومات اور ریاستوں کے نام سے روشناس کرایا جائے، سوالات کے ذریعہ اس کا استحضار کرایا جائے۔ (4) عام احساس یہ ہے کہ مدارس کے طلبہ کے تربیتی نظام میں انحطاط آیا ہے، اس لیے تعلیم کے ساتھ تربیت پر خصوصی توجہ دی جائے اور ان کی سرگرمیوں کی نگرانی کی جائے۔ (5) مدارس کے نظام میں طلبہ کے اوقات کی پوری حفاظت کی جائے، اور تضیع اوقات سے انہیں بچایا جائے۔ (6) ورزش کے درمیان کھیل سے متعلق عربی الفاظ کا سوال جواب بھی جاری رہے تمرین کی یہ اچھی صورت ہے۔ (7) مفرد کلمات کا ذخیرہ ہونا بھی ضروری ہے، اس سے مضمون نگاری اور انشاء پردازی میں مدد ملتی ہے، ہر طالب علم کے لیے عربی لغت کا رکھنا ضروری قرار دیا جائے۔ (8) لغت سے کیسے معانی نکالیں گے اس کی طرف رہنمائی کرنی چاہیے، اسی طرح لغت کے اشارات بھی بتا دیا جائے،عربی کے دوسرے اور تیسرے درجہ سے یہ مشق ضروری ہے۔ (9) معیاری و اصلاحی اشعار بھی اساتذہ کی نگرانی میں یاد کرائے جائیں، بیت بازی کے ذریعہ یہ کام آسانی سے ہو سکتا ہے۔ (10) تقریری مشق میں صرف الفاظ نہ ہوں بلکہ آیات قرآنی اور احادیث کے عربی کلمات بھی یاد کرائے جائیں۔ (11) انجمن میں اگر نحوی وصرفی سوالات و جوابات (مکالمات) کا سلسلہ شروع کیا جائے تو اس سے بھی قواعد عربیت کا استحضار ہو گا۔
ایک مسئلہ نصاب تعلیم کابھی ہے، بہار کی حد تک تین قسم کے نصاب تعلیم جزوی طور پرترمیم کے ساتھ مدارس میں رائج ہیں۔ ایک دیو بند کا دوسرے ندوۃ العلماء کا اور تیسرا وفاق المدارس المدارس الاسلامیہ امارت شرعیہ کا، یہ تینوں نصاب اپنی اپنی جگہ اہم ہیں، ان میں تبدیلی پیدا کرکے مخلوط نصاب رائج کرنے کی تحریک طبقہ دانشوران کی طرف سے پیدا کی جاتی رہی ہے، لیکن دینی وعصری علوم کا امتزاج آج کے دور میں عملی نہیں ہے، یہ انتظامی مجبوری ہے کہ دونوں طریقہ تعلیم کو الگ الگ رکھا جائے۔
 مدارس اسلامیہ  زکوٰۃ وخیرات کی آمدنی  سیگراں تنخواہ پر عصری علوم کے ماہرین کو نہیں رکھ بائیں گے اور عصری علوم کے لوگ تنخواہ پر مولویوں کی طرح رہنا پسند نہیں کرتے  بیش تر لوگوں کی نگاہ متاع دنیا پر ہوتی ہے اور مولویوں کی نظر اجرت کے بجائے اجر خداوندی پر، یہی وجہ ہے کہ پورے ہندوستان میں مدارس پھیلے ہوئے ہیں، اور ان میں دینی تعلیم سے طلبہ آراستہ ہوتے ہیں، مدارس کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ دینی علوم کے اساتذہ کو کم اور عصری علوم کے ماسٹر صاحبان کو زیادہ تنخواہ پر رکھیں اس لیے کہ اس سے دینی تعلیم کی بے توقیری ہوتی ہے اور یہ عدل کے بھی خلاف ہے، اس لیے نصاب میں جزوی تبدیلی انگریزی وغیرہ کی شمولیت کے ساتھ کی جاسکتی ہے، کمپیوٹر سکھایا جا سکتا ہے، لیکن سائنس، کامرس، آرٹس اور ان کی شاخ درشاخ کو مدارس میں پڑھانا بالکل ممکن نہیں ہے، بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ نے مولوی آرٹس، سائنس، کامرس کا نصاب متعلقہ مدارس کو فراہم کیا ہے، لیکن اس نصاب کو اسی طرح ناکام ہونا ہے، جیسے گذشتہ تیس برسوں میں پڑھا یا جانے والا نصاب کوئی انقلاب پیدا نہیں کر سکا، یہ مدرسہ کے بنیادی مقاصد کو فوت کرنے جیسا ہے اور اس کی افادیت موہوم ہے، نصاب بڑھادیا گیا ہے اور اساتذہ وہی تیرہ ہیں، جہاں درجات کے اعتبار سے اساتذہ مہیا نہ ہوں وہاں تعلیمی اور وہ بھی معیاری کی کیا توقع کی جا سکتی ہے۔
 صحیح اور سچی بات یہ ہے کہ ہم طلبہ کو محنت، اساتذہ کو معیاری تدریس، انتظامیہ کو تدریسی سہولت کی فراہمی پر آمادہ نہیں کر پا رہے ہیں، اس لیے ہمیں رہ رہ کر نصاب کے کان مروڑنے کا شوق پیدا ہوتا ہے، کیوں کہ ایک نصاب ہی ہے جو جتناادل بدل کیجئے آپ کے خلاف کھڑا نہیں ہو سکتا، بے جان جو ٹھہرا۔
مدارس اسلامیہ کے بچوں کو اگر آپ میٹرک وغیرہ کرانا چاہیں تو نیشنل اوپن اسکولنگ سسٹم سے ان کے امتحانات دلوادیجئے، وہاں سہولت بھی ہے اور یہ چونکہ اوپن اسکولنگ ہے، اس میں طلبہ کا تدریسی نقصان نہیں ہوگا، اور مختصر تیاری کے ساتھ ان کے پاس عصری علوم کی سند بھی ہوگی۔
 معروضات لمبی ہو گئیں، لیکن یہ مدارس کے ذمہ داران کے لیے غور وفکر کے چند گوشے ہیں،بات سے بات نکلتی ہے اور پھر کسی نتیجہ پر پہونچنا ممکن ہوتا ہے، اللہ کرے یہ معروضات قارئین کے ذہن ودماغ پر دستک دے سکیں اور مدارس اسلامیہ کی عہد زریں کی واپسی میں معاون ومددگار ثابت ہو سکیں

بتاریخ 20شوال المکرم 1444ہجری مطابق 11مئی 2023 بروز جمعرات بعد نمازِ مغرب مدرسہ تجوید القرآن جگت چند پور عرف چلکیا پوسٹ بڑھا پور ضلع بجنور یوپی میں جمعیت علماء ہند حلقہء گانوڑی کے زیرِ اہتمام ایک پروگرام "بعنوان اصلاح معاشرہ" منعقد ہوا۔۔

بتاریخ 20شوال المکرم 1444ہجری مطابق 11مئی 2023 بروز جمعرات بعد نمازِ مغرب مدرسہ تجوید القرآن جگت چند پور عرف چلکیا پوسٹ بڑھا پور ضلع بجنور یوپی میں جمعیت علماء ہند حلقہء گانوڑی کے زیرِ اہتمام ایک پروگرام "بعنوان اصلاح معاشرہ" منعقد ہوا۔۔ 
اردودنیانیوز۷۲ 
 صدارت کے فرائض عشقِ قرآن سے سر شار ، حامئ سنت حضرت اقدس قاری محمد یاسین صاحب دامت برکاتہم العالیہ صدر شعبہ حفظ مدرسہ فخر العلوم گانوڑی نے انجام دیئے
سرپرستی فاضل نوجواں حضرت مولانا مفتی محمد ناصر صاحب مدظلہ امام و خطیب مسجد عرفات چلکیا نے فرمائی
جبکہ نظامت کے فرائض راقم الحروف اور مولانا سرور صاحب دامت برکاتہم العالیہ نے مشترکہ طور پر انجام دیئے 
پروگرام کا آغاز حضرت قاری محمد سہیل فخری صاحب چلکیاوی نے اپنے خوب صورت لب و لہجہ کے ساتھ قرآن کی تلاوت کرکے کیا 
اور نعت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سعادت حافظ انس چلکیاوی کے حصہ میں آئی
مہمانِ خصوصی حضرت مولانا نسیم احمد صاحب دامت برکاتہم العالیہ مہتمم مدرسہ منبع العلوم اسلام گڑھ نے اپنے خصوصی خطاب میں معاشرہ میں آئے بگاڑ اور فساد کو بڑے بے باک انداز میں بیان کیا 
حضرت مولانا نے فرمایا کہ معاشرہ میں پھیلی برائیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے ،اپنے بیان میں حضرت نے کہا کہ خاندانی تعلق کو ایمانی تعلق سے اوپر مت رکھو بلکہ اگر کہیں خاندانی رشتہ ایمانی رشتہ کے مقابل آئے تو خاندانی رشتہ کو چھوڑا جائے گا ایمانی رشتہ کو باقی رکھا جائے گا ۔
نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: آج کا نوجوان شراب نوشی اور حرام خوری جیسے بڑے بڑے گناہوں میں مبتلاء ہیں۔
 شراب نوشی اور گانے بجانے کے نقصانات بیان کرتے ہوئے نوجوانوں سے ان تمام برائیوں سے بچنے کی تلقین کی۔ مولانا نے کہا گھر کے زمہ دار افراد کو چاہئے کہ اپنے بچوں کا خیال رکھیں اُن کو دین کی طرف راغب کریں۔
اس کے علاوہ شادی بیاہ کی رسومات کی طرف بھی توجہ دلائی
وہیں صدرِ محترم حضرت قاری یاسین صاحب مدظلہ العالی نے بھی حالاتِ حاضرہ کے تعلق سے بڑی قیمتی باتیں بتائیں 
حضرت نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ ہمیں تمام طرح کی رسومات سے بچنے کی پوری کوشش کرنی چاہئے
حضرت نے آخرت کی یاد دلاتے ہوئے میدانِ حشر کا ذکر کیا جب انسان کا نامہ اعمال اُس کے ہاتھ میں دیا جائے گا تو اس وقت انسان بڑا پریشان ہوگا حواس باختہ ہوجائیں گے اگر بندے نے نیک اعمال کئے ہوں گے تو نامہ اعمال داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا اور اگر برے اعمال کئے ہوں گے تو نامہ اعمال بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا اسی طرح اگر بندے نے نیک اعمال کئے ہوں گے اعمال کے وزن کے وقت نیکیوں کہ پلڑا بھاری ہوگا اور اگر برے کام کئے ہوں گے تو برائیوں کا پلڑا بھاری ہوگا اسی طرح یہ بھی بتایا کہ اگر بندے کے پاس نیک اعمال ہوں گے تو پل صراط سے بجلی کے مانند گزر جائے گا اور برے اعمال ہوں گے تو پل صراط سے کٹ کٹ کر جہنم میں گر جائے گا۔۔ 
حضرت صدرِ محترم کی مستجاب دعاء پر پروگرام کا اختتام ہوا۔۔
پروگرام میں حضرت قاری عبد الحفیظ صاحب نور پور ،حضرت مولانا منیر الاسلام علاؤ الدین پور، ماسٹر صنوبر صاحب علاء الدین پور حضرت قاری عبد الحفیظ صاحب چلکیا حضرت قاری زین العابدین صاحب، قاری تصور حسین صاحب ، قاری عرفات صاحب، قاری انتخاب صاحب ، قاری محمد تصور صاحب کے علاوہ کثیر تعداد میں عوام نے بھی شرکت فرمائی جس پر حضرت صدرِ محترم اور مہمانِ خصوصی نے اپنی خوشی کا اظہار بھی کیا
دعاء ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے اس مل بیٹھنے کو قبول فرمائے اور ہم سب کو سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے پر چلنے کی توفیق عطاء فرمائے  
راقم الحروف: انس حسامی بجنوری
11 مئی 2023

جمعہ, مئی 12, 2023

زبان وادب کا کوئی مذہب نہیں ہوتا

زبان وادب کا کوئی مذہب نہیں ہوتا
اردودنیانیوز۷۲ ۔
ڈاکٹر ستین کمار پرنسپل سمستی پور کالج سمستی پور 
سمستی پور کالج میں ایک روزہ عظیم الشان سیمینار بعنوان انسانی زندگی میں زبان وادب کی اہمیت بحسن خوبی اختتام پذیر ہوا

سمستی پور مورخہ 10/مئی 2023 (پریس ریلیز :محمد ضیاء العظیم)

سمستی پور کالج  سمستی پور میں عظیم الشان سیمینار بعنوان انسانی زندگی میں زبان وادب کی اہمیت پر شعبہ اردو سنسکرت ومیتھلی کے اشتراک سے ڈاکٹر ستین کمار پرنسپل سمستی پور کالج کی صدارت میں انعقاد کیا گیا ۔
اس سیمینار میں نظامت کے  فریضے کو شعبۂ اردو کی جانب سے ماہر اقبالیات ڈاکٹر صالحہ صدیقی اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو سمستی پور کالج نے انجام دی،
اس موقع پر ڈاکٹر ستین کمار پرنسپل سمستی پور کالج نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے شعبۂ اردو، میتھلی اور سنسکرت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ہماری زندگی میں زبان وادب کی بیحد اہمیت و افادیت ہے، زبان وادب مکمل ایک تہذیب وثقافت کا نام ہے، خصوصاً مادری مادری زبان سے انسانوں کو فطری لگاؤ ہوتا ہے، زبان وادب کو کسی بھی مذہب سے نہیں جوڑنا چاہیے، ہر زبان وادب کا پیغام فقط محبت ہے ۔
ہم مقالہ نگاروں سمیت اردو، سنسکرت ومیتھلی زبان وادب کے طلبہ وطالبات کو مبارکبادی پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے بہت خوبصورت انداز میں زبان وادب کی اہمیت و افادیت کو واضح کردیا ۔
ناظم سیمینار وکنوینر ڈاکٹر صالحہ صدیقی نے اردو زبان وادب کی نمائندگی کرتے ہوئے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے ڈاکٹر ستین کمار کا شکریہ ادا کیا کرتے ہوئے کہا کہ یقیناً یہ عظیم الشان کامیاب سیمینار ڈاکٹر ستین کمار پرنسپل سمستی پور کالج کی کاوشوں کا نتیجہ اور ثمرہ ہے کہ آپ نے اس پروگرام کے انعقاد پر ہماری توجہ مرکوز کراتے ہوئے ہر طرح کا تعاون پیش کیا ۔ہم یوں سمجھیں کہ باغ میں صرف ایک طرح کے پھول ہوتے ہیں تو باغ کی کی خوبصورتی میں نکھار نہیں پیدا ہوتا ہے، اور جس باغ میں منتخب قسم کے پھول اور کلیاں ہوتی ہیں اس باغ کی خوبصورتی میں بیحد اضافہ ہوتا ہے، اسی طرح ہم جس ملک میں رہتے ہیں اس ملک کی بھی خوبصورتی در اصل کئ قسم کے زبان وادب ہیں، ان میں اردو زبان وادب کئ جہت سے اپنی الگ اور اہم شناخت رکھتی ہے، ایک انسان اردو زبان وادب بولتا ہے تو گویا وہ عربی، فارسی، ہندی، سنسکرت، میتھلی وغیرہ بیک وقت تمام زبانیں بول رہا ہوتا ہے، چونکہ اردو ان زبانوں کے مجموعے اور سنگم کا ہی نام ہے،
سیمینار کی تیاریاں پچھلے کئ دنوں سے چل رہی ہیں اور کالج کی ٹیم پورے طور پر پروگرام کی کامیابی کے لیے کوشاں رہی ہے ۔
طلبہ وطالبات نے بھی بھر پور انداز میں مسلسل تیاریوں میں مصروف تھے، جس کا نتیجہ ہم سبھوں نے یہاں دیکھا ۔
ہم تمام مہمانان، اساتذہ، طلبہ وطالبات کا شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے اپنا تعاون اس پروگرام کے انعقاد سے لے کر اختتام تک دیا ۔
ڈاکٹر صفوان صفوی نے اپنے تاثرات سے نوازتے ہوئے کہا کہ زبان وادب ہی ہماری اصل شناخت ہے، زبان وادب کے ذریعہ انسان کے مراتب کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، اردو، ہندی، سنسکرت، ومیتھلی کا شمار ہندوستان کی عظیم زبانوں میں ہوتا ہے ۔
مزید کئ اہم شخصیات نے اردو، سنسکرت ومیتھلی زبان وادب پر خوبصورت، جامع اور تاریخی گفتگو کے ذریعہ سے ان زبانوں کی اہمیت و افادیت اجاگر کی ۔
مقالہ پیش کرنے والوں میں 
اشوک کمار، راہل منہر،آشیش پانڈے، ڈاکٹر خورشید احمد، جے چندر جھا کا نام مذکور ہے ۔
شعبۂ اردو سے جن طلبہ وطالبات  نے مقالات،  نظمیں، پیش کیں اُن کی فہرست اس طرح ہے ،افسران الحق،ماریہ فردوس،عرفان احمد،شبانہ،روحی پروین،فلک ناز، نکہت پروین،شعبۂ میتھلی سے  جیوتی اور مكند کماری، سنسکرت سے منو رنجن، پشکر نے اپنے کلام پیش کئے ۔
 اس کے بعد ان بچوں کی حوصلہ افزائی کے لئے سند سے بھی نوازا گیا ۔
آخیر میں درگیش رائے نے شکریہ کے رسم کو ادا کرتے ہوئے صدر محترم کی اجازت سے پروگرام کے اختتام کا اعلان کیا ۔
پروگرام کو کامیاب بنانے میں راجا ، توفیق، عرفان، سنی عرف شبھکانت، حامد، محمد عمراج ، افسران ا لحق  نے اہم رول ادا کیا۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...