Powered By Blogger

بدھ, اگست 09, 2023

انڈیا مقابل این ڈی اے __مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمینائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

انڈیا مقابل این ڈی اے   __
Urduduniyanews 72
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

ہندوستان کی چھبیس چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں نے 2024کے الیکشن میں بھاجپا اور ان کی حلیف جماعتوں( جن کا اتحاد این ڈی اے کے نام سے جانا جاتا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ اس کے ساتھ چھوٹی بڑی چھتیس پارٹیاں ہیں )کو ہرانے کے لیے عظیم اتحاد ”انڈیا“ کے نام سے بنایا ہے، انڈیا کا مطلب ہے انڈین نیشنل ڈولپمنٹ انکلوزیو الائنس (I.N.D.I.A) یہ نام این ڈی اے پربھاری پڑ رہا ہے، جس کا مطلب ہوتا ہے نیشنل ڈیموکریٹک الائنس، بقول ممتا بنرجی این ڈی اے، انڈیا کو چیلنج نہیں کر سکتا، اس نام کا اعلان کانگریس کے صدر ملک ارجن کھرگے نے 18جولائی 2023کو بنگلور میں پٹنہ کے بعد حزب مخالف اتحاد کی دوسری میٹنگ میں کیا، اس نام کے اعلان سے ملکی سیاست میں ایک بھونچال سا  آگیا،اورلوگوں نے پہلی بار محسوس کیا کہ کانگریس کے پاس بھی تھنک ٹھینک ہے اور ان کے اندر بھاجپا کے نظریہ ساز ادارے کو مات دینے کی بڑی صلاحیت موجود ہے ، بھاجپا چاہے جو کہے؛ لیکن اس نے قومیت کے نام پر عوام کو گمراہ کرنے کے لیے ”اسکل انڈیا، ڈیجیٹل انڈیا“ جیسے نعروں کا استعمال کیا، اب ”انڈیا“ نام دے کر حزب مخالف نے اس کی ہوا نکال دی ہے۔
 بھاجپا نے اسی دن یعنی 18جولائی کو اپنے حلیف اڑتیس پارٹیوں کی میٹنگ بلائی، جس میں بھاجپا کے علاوہ کوئی قابل ذکر پارٹی موجود نہیں تھی، تعداد دکھانے کے لیے چراغ پاسوان کو بھی مودی جی نے گلے لگایا، جن سے پشوپتی پارس کے بغاوت کے بعد مکان خالی کرالیا گیا تھا، اور سامان سڑک پر نکال باہر کیا گیا تھا، تعداد بڑھانے کے لیے میگھالیہ کے وزیر اعلیٰ کو نراؤ سنگما کا بھی استقبال کیا گیا، جنہیں وزیر اعظم دنیا کی سب سے کرپٹ اور بد عنوان حکومت قرار دے چکے تھے،  مودی جی کا لب ولہجہ انتہائی جارحانہ تھا اور وہ ”انڈیا“ پر جم کر برسے، انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ ہندوستان کو لوٹنے والے لوگ ”انڈیا“ کے نام سے سر گرم ہو رہے ہیں، مودی جی نے اسی دن این ڈی اے کی میٹنگ کرکے حزب مخالف اتحاد کی خبروں کو دبانے کی کوشش کی، لیکن ”انڈیا“ کی خبر کو گودی میڈیا کے لیے یک سر نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہو سکا، اور وہ اپنی اہمیت کی وجہ سے پرنٹ میڈیا اور الکٹرونک میڈیا میں جگہ بنانے میں کامیاب رہی، اس محاذ پر بھی بھاجپا کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ 
حزب مخالف کی میٹنگ 17جولائی 2023کو بنگلور میں شروع ہوئی تھی، اسی دن این ڈی ٹی وی کی سینئر صحافی نغمہ سحر نے اپنے پروگرام ”سچ کی پڑتال“ میں لوگوں سے اس سوال کا جواب مانگا تھا کہ کیا حزب اختلاف 2024میں مودی کو شکست دے سکے گا، پینتیس ہزار لوگوں کی آرا آئیں، جن میں تراسی فی صد لوگوں نے ہاں میں جواب دیا، جبکہ پندرہ فی صد لوگوں کی رائے اس کے برعکس تھی، دو فی صد نے کچھ نہیں کہہ سکتے کہہ کر اپنی رائے دی ۔
اس جائزہ سے ایک رجحان سامنے ضرور آیا ہے، لیکن اسے حتمی نہیں کہا جا سکتا، البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ ”انڈیا“ نام کی وجہ سے حکمراں جماعت میں جو فکر مندی پائی جا رہی ہے، اس کی وجہ سے نئے نئے امکانات کے دروازے کھل سکتے ہیں، اور ہندوستانی مسلمانوں کو لبھانے کی کوشش بھی کی جا سکتی ہے، لیکن یہ صرف ”لبھاؤنا“ ہی ہوگا، بھاجپا اور آر ایس ایس کے نظریات ڈھکے چھپے نہیں ہیں اور انہوں نے مسلمانوں پر جو ظلم ڈھائے ہیں، ماب لینچنگ اور مختلف عنوانات سے قتل وغارت گری کا جو بازار گرم کیا ہے وہ تاریخ کا حصہ بن چکا ہے، اس لیے ہم سب کو ہوشیار خبردار اور بیدار رہنا چاہیے۔

ضیائے حق فاؤنڈیشن کی جانب سے انصاف ٹائمس کے چیف ایڈیٹر نوجوان صحافی سیف الرحمن کو اعزازیہ سند سے نوازا گیا۔

ضیائے حق فاؤنڈیشن کی جانب سے انصاف ٹائمس کے چیف ایڈیٹر نوجوان صحافی سیف الرحمن کو اعزازیہ سند سے نوازا گیا۔
اردودنیانیوز۷۲
 ضیائے  حق فاؤنڈیشن کی جانب سے انصاف ٹائمس کے چیف ایڈیٹر نوجوان صحافی سیف الرحمن کو اعزازیہ سند سے نوازا گیا۔
پھلواری شریف پٹنہ مورخہ  (پریس ریلیز :محمد ضیاء العظیم)
 نوجوان صحافی سیف الرحمن کو سماجی ومعاشرتی، اور صحافتی خدمات کی بنا پر ضیائے حق فاؤنڈیشن کی جانب سے محمد ضیاء العظیم برانچ اونر ضیائے حق فاؤنڈیشن پٹنہ کے ہاتھ اعزازیہ سند سے نوازتے ہوئے سیف الرحمن کو ضیائے حق فاؤنڈیشن کا ممبر بنایا گیا ۔
ڈاکٹر صالحہ صدیقی چئیر پرسن ضیائے حق فاؤنڈیشن نے بھی سیف الرحمن کو مبارکبادی پیش کرتے ہوئے کہا کہ ضیائے حق فاؤنڈیشن کے جملہ اراکین نئی نسل کے نوجوان صحافی سیف الرحمن کو مبارکبادی پیش کرتے ہوئے ان کے حق میں دعا گو ہیں، ضیائے حق فاؤنڈیشن خصوصی طور پر نئی نسل کے شعراء وادباء اور صحافی کی حوصلہ افزائی کرتا ہے ۔
سیف الرحمن کا تعلق  مظفر پور ضلع کے کٹائی سے سے ہے ،اس وقت آپ متبادل میڈیا میں اور زمینی سطح پر اپنی خدمات بڑی ذمہ داری سے انجام دے رہے ہیں ۔ آپ قوم وملت کا درد اپنے سینے میں رکھتے ہیں، 
سیف الرحمان نے مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد سے صحافت میں بیچلر اور ماسٹر کی ڈگری حاصل کی ہے۔
اس وقت آپ انصاف ٹائمس کے نام سے اُردُو،ہندی و انگریزی زبان میں آن لائن نیوز ویب سائٹ و یوٹیوب چینل چلا رہے ہیں جس کا ای-پپر و ای-میگزین بھی نکلتا ہے، سيف الرحمٰن اِنصاف ٹائمس کے چیف ایڈیٹر اور اُن کے  دوست افتخار عالم اُس کے ڈائرکٹر  ہے، دونوں نے اِنصاف ٹائمس کا قیام بہار میں متبادل میڈیا میں مسلمانوں،دلتوں اور خواتین سمیت دیگر بے آواز طبقات کی مضبوط آواز قائم کرنے کےلئے کیا ہے، اس کے علاوہ سیف الرحمٰن  روزنامہ سہارا کے مستقل  کالم نگار ہے اور اردو ،ہندی کے اخبارات و پورٹلس پر مستقل قومی،سماجی،ملکی مسائل پر لکھتے رہتے ہیں، ساتھ ساتھ ملت ٹائمز میں بھی بطور بیورو چیف کے اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں، صحافت کے علاوہ سیف الرحمٰن الیکشن منیجمنٹ و الیکشن ایڈورٹزمنٹ کی ایک کمپنی بھی سوشل امپیکٹ ٹیم (ایس.آئی.ٹی) کے نام سے چلا رہے ہیں جس کے موصوف كو-ڈائریکٹر ہے

ایوارڈ دیتے وقت ضیاء العضیم نے کہا کہ یقیناً اللہ رب العزت نے انسانوں کے مزاج کے مطابق اس دنیا کی تخلیق کرتے ہوئے نعمتوں کے انبار عطاء کر کے ان پر بےپناہ احسانات کئے ہیں ، اگر ان احسانات اور نعمتوں کو شمار کرنا چاہے تو ناممکن ومحال ہے، چنانچہ ارشاد ربانی ہے,, وَ اِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوْهَاؕ-
ترجمہ: 
اور اگر تم اللہ کی نعمتیں شمار کرنا چاہو تو انہیں شمار نہیں کرسکو گے۔ اور انہیں نعمتوں میں سے ایک نعمت صحافت کا علم بھی ہے،
اور صحافت وہ علم وفن ہے جو عدل وانصاف اور صداقت کا تقاضہ کرتا ہے، اور وصف صحافت دراصل سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ کہنے، لکھنے، اور پھیلانے کا نام ہے، ایک صحافی سماج ومعاشرہ میں بڑا ذمہ دار ہوتا ہے، کیوں کہ وہ سماج ومعاشرہ کا ایک بڑا نمائندہ ہوتا ہے ۔
کیوں کہ صحافت کسی بھی معاملے کے سلسلے میں تحقیق اور پھر اسے صوتی، بصری یا تحریری شکل میں بڑے  پیمانے پر قارئین، ناظرین یا سامعین تک پہنچانے کے عمل کا نام ہے۔صحافت پیشہ کرنے والے کو صحافی کہتے ہیں۔ گو تکنیکی لحاظ سے شعبہ صحافت کے معنیٰ کے کئی اجزاء ہیں لیکن سب سے اہم نکتہ جو صحافت سے منسلک ہے وہ عوام کو باخبر رکھنے کا ہے۔۔
واضح رہے کہ 
ضیائے حق فاؤنڈیشن کی بنیاد انسانی فلاح وترقی، سماجی خدمات، غرباء وفقراء اور ضرورتمندوں کی امداد، طبی سہولیات کی فراہمی، تعلیمی اداروں کا قیام، اردو ہندی زبان وادب کی ترویج وترقی، نئے پرانے شعراء وادباء کو پلیٹ فارم مہیا کرانا وغیرہ ہیں، فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام صوبہ بہار کے دارالسلطنت شہر پٹنہ کے پھلواری شریف  میں ضیائے حق فاؤنڈیشن کا برانچ، لائبریری اور ایک مدرسہ کاقیام ،، مدرسہ ضیاء العلوم،،عمل میں آیا ہے، جہاں کثیر تعداد میں طلبہ وطالبات دینی علوم کے ساتھ ساتھ ابتدائی عصری علوم حاصل کر رہے ہیں

منگل, اگست 08, 2023

قتل وغارت گری کی گرم بازاری ____✍️ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

قتل وغارت گری کی گرم بازاری ____
Urduduniyanews72 
✍️ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

 ہندوستان میں مودی دور حکومت میں نفرت کی سودا گری کو جس طرح رواج ملا اور مسلمانوں کے خلاف شعلہ بار تقریروں کاجو سلسہ شروع ہوا، اس نے ہندوستان کی فرقہ وارانہ یک جہتی اور گنگا جمنی تہذیب کو اس قدر نقصان پہونچایا کہ صدیوں میں اس کو پاٹنا اور خون کے دھبوں کو دور کرنا ممکن نہیں ہوگا، خون کے یہ دھبے برسات کے پانی سے دھوئے نہیں جا سکتے، اور نفرت کی اس سوزش نے قتل وغارت گری کا جو بازار گرم کیا ہے، اس سے نمٹنا آسان نہیں ہوگا۔
 ابھی چند دنوں قبل ہریانہ کے نوح اور گروگرام میں جو فساد پھوٹا اور گروگرام میں مسجد میں آگ لگا کر اور امام کو مار مار کر جس طرح شہید کیا گیا اس نے ہندوستان کی سیکولر عوام کو اندر سے بلا کر رکھ دیا ہے، اس کے بعد جے پور سے ممبئی جا رہی ٹرین میں چن چن کر قانو ن کے محافظ چیتن سنگھ کے ذریعہ قتل کرناتاریخ کا بد ترین واقعہ ہے، جسے برسوں بھلایا نہیں جا سکے گا۔
اس واقعہ پرگودی میڈیا حسب معمول قسم قسم کی توجیہات کر رہی ہے ، چیتن سنگھ ذہنی طور پر دباؤ میں تھا، اس کی افسر سے جھڑپ ہو گئی تھی وغیرہ وغیرہ، لیکن جو ویڈیو کلپ اس موقع کی سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے، اس میں وہ گولی مارتے وقت پاکستان سے آیا ہے، کہہ رہا ہے، پھر وہ تابڑ توڑ مسافروں پر گولیاں نہیں چلا رہا ہے، چن چن کر مسلمانوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔ کوچ کے دوسرے مسافر نہ تو اسے روک رہے ہیں اور نہ ہی اسے دبوچ رہے ہیں، بلکہ اطمینان سے تماشہ دیکھ رہے ہیں، جیسے انہیں یقین ہو کہ یہ جی آر ایف کا جوان اس کے ساتھ کچھ نہیں کرے گا۔ ایسی بے حسی جب کسی ملک کے شہریوں پر طاری ہوجائے تو اس ملک میں محبت ناپید ہوجاتی ہے اور نفرت کی کھیتی لہلہانے لگتی ہے۔
 گروگرام کے واقعہ میں پولیس کی موجودگی میں دو سو کی بھیڑ مسجد پر حملہ آور ہوتی ہے، امام مسجد حافظ سعد کو پہلے مار مار کر شہید کرتی ہے، پھر پٹرول چھڑک کر مسجد کو آگ لگادیتی ہے، پولیس خاموش تماشائی بنی رہتی ہے، اور پھر موقع سے فرار ہوجاتی ہے، نہ تو مسجد کو بچانے کی کوئی کوشش کرتی ہے اور نہ ہی امام کو بچانے کی، گویا قانون کے محافظ کے ذہن میں بھی نفرت گھس گئی ہے، اور وہ بھی دنگائیوں کے ساتھ ہوجارہے ہیں۔
نوح فساد کا اصل مرکز تھا، جسے بجرنگ دل کے علاقائی لیڈر مونو مانیسر نے ویڈیو کلپ بھیج بھیج کر بھڑکانے کا کا م کیا، مونو مانیسر 15فروری2023کو بھوانی میں جنید وناصر کو گاڑی میں زندہ جلانے کا فراری ملزم ہے، اس کا اصلی نام موہت یادو ہے، بجرنگ دل کا علاقائی لیڈر ہے، سیاسی آقاؤں کے اشارے پر اب تک اس کی گرفتاری نہیں ہو سکی ہے اور وہ کسی خفیہ مقام سے لوگو ں کو فساد کرنے پر اکسارہا ہے، سپریم کورٹ کی واضح ہدایت کے باوجود بجرنگ دل کے لوگ تھانہ کے سامنے مسلمان کرایہ داروں، حجاموں، ریڑھی اور ٹھیلہ والوں کو نکالنے کے نعرے لگا رہے ہیں اور پولیس گیٹ بند کرکے خاموش کھڑی ہے، یو سی سی کے مسئلہ پر ناکامی کے بعد بھاجپا کے پاس اب یہی ’’مدّا‘‘ رہ گیا ہے کہ فساد بھڑکا کر مسلمانوں میں خوف پیدا کرو اور اکثریتی رائے دہندگان کو متحد کر لو، اس کا مطلب ہے کہ یہ صرف ٹرائل ہے پوری فلم آنی ابھی باقی ہے۔
ان حالات میں متحدہ حکمت عملی تیار کرنے اور اس کو نافذ کرنے کی ضرورت ہے، ورنہ ہم کب تک مسلمانوں کی لاشیں اٹھاتے رہیں گے، قانون کے دائرہ میں رہ کر ہمیں کچھ پالیسی تیار کرنی ہوگی، مسئلہ کا حل یہ نہیں ہے کہ ہم بے گناہ قیدیوںکی رہائی اور ان کے مقدمات لڑ نے پر اپنی توانائی صرف کریں، یہ ایک کام ہے اور اس محاذ پر بھی محنت ہونی چاہیے، لیکن مسئلہ کا حل یہ ہے کہ ہم حکومت کو یہ باور کرائیں کہ
ظلم پھر ظلم ہے، بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
 خون پھر خون ہے بہتا ہے تو رنگ لاتا ہے
یا پھر یہ کہ
جب ظلم گذرتا ہے حد سے قدرت کو جلا ل آجاتا ہے
فرعون کا سر جب اٹھتا ہے موسی کوءی پیدا ہوتاہے

✍️ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہموسم باراں شروع ہو گیا ہے

موسم باراں   ___
Urduduniyanews72
✍️ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ
موسم باراں شروع ہو گیا ہے ، سخت اْمَس اور تمازت کے بعد تھوڑی بہت بارش کے ہونے سے جسم وجاں کو سکون ملا ہے، فصلوں کے بہتر ہونے کے امکانات بھی بڑھے ہیں، خشک ندی اور تالاب میں پانی جمع ہونے کی وجہ سے پانی کی قلت دو ر ہوئی ہے، اور چرند وپرند نے بھی راحت کی سانس لی ہے ، گھنگھور گھٹائیں، رم جھم بارش، مرطوب ہوائیں دل میں بھی ایک کیف وسرور پیدا کرتی ہیں اور ہر شئی کو زندگی مل جاتی ہے ، اللہ رب العزت کا ارشاد ہے۔ وجعلنا من المائ� کل شی حی ہم نے ہر جاندار چیز کو پانی سے بنایا، لیکن یہ پانی جب حد سے بڑھ جائے تو یہ زندگی کے ساتھ موت کا رقص بھی شروع کر دیتا ہے، اس کی کثرت سے کچے مکان گرجاتے ہیں، آب ودانہ اور غذائی اجناس کی قلت ہوجاتی ہے، آمد ورفت کے ذرائع مسدود ہونے کی وجہ سے جانوروں اور چھوٹے بچوں کی غذائی ضرورتوں کے پوری کرنے میں بھی دشواری ہوجاتی ہے ، لوگ یا تو کھلے آسمان کے نیچے زندگی گذارنے پر مجبور ہو تے ہیں یا پھر اونچے مکان کی چھت پر پناہ گزیں ہوجاتے ہیں، یہ منظر بڑا درد ناک ہوتا ہے ، موسم باراں کا سارا کیف وسرور کافور ہوجاتا ہے اور آدمی اپنی ضروریات کے لیے دوسروں کی طرف تکتا اور دیکھتا رہتاہے۔
 بد قسمتی سے بہار اس سے سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے،  بہار میں نیپال کے ذریعہ چھوڑا ہوا پانی بے قابو ہو جاتا ہے اور کئی اضلاع کو متاثر کرجاتا ہے، نیپال کی پریشانی یہ ہے کہ اس کے یہاں پہاڑ ی ندیاں ہیں، جن میں گہرائی نہیں ہوتی، وہ اْتھلی ہوتی ہیں، ان کے اندر پانی کی لہروں اور روانی کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی ، ڈیم کے ذریعہ روک کر پانی کام میں لایا جاتا ہے اور بہت بڑھ جائے تو گیٹ کھول کر سرحدی اضلاع میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔
 بہار کی حکومت یقین دہانی کراتی ہے کہ امسال سیلاب پر قابو پانے کی کارگر ترکیبیں کی گئی ہیں، لیکن جب بارش ہونے لگتی ہے تو کار گر ترکیبیں حکومتی سطح کی دوسری ترکیبیوں کی طرح ناکام ہوجاتی ہیں، اور عوام کو مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، بچاو¿ کی تدابیر اور ضروری سامانوں کی سپلائی کا بڑا حصہ ان سوراخوں کے ذریعہ جواب اس ملک کا مقدر بن گیے ہیں، ضرورت مندوں کے بجائے دوسروں تک پہونچ جاتے ہیں، اور ضرورت مند منہہ دیکھتا رہ جاتا ہے۔
 امسال ابھی بارش شروع ہی ہوئی ہے متھلانچل کے علاقہ میں بھی سیلاب کی تباہ کاری کے امکانات ہیں، اگر اس کی نوبت آجائ� ے تو امداد وتعاون کے لیے قریب کی ان آبادیوں کو جن کو اللہ رب العزت نے اس پریشانی سے محفوظ رکھا ہے دست تعاون دراز کرنا چاہیے تاکہ فوری طور پر امداد رسانی کا کام ممکن ہو سکے ، ایسے موقع سے بعض تنظیمیں بھی آگے آتی ہیں، خصوصا امارت شرعیہ جس کا امتیاز ایسے موقع پر بڑے پیمانے پر راحت رسانی کا رہا ہے اور اس کے امداد بہم پہونچانے کی ایک روشن تاریخ رہی ہے ، یہ سب اہل خیر کی توجہ سے ہی انجام پاتا ہے ، اس موقع سے امارت شرعیہ کے ضلع اور بلاک کے صدر سکریٹری ، نقیب اور ارکان کے ساتھ عام مسلمانوں کو بھی مستعد رہنا چاہیے، کیوں کہ زمانے کی گردش سڑک پر چلنے کی طرح سیدھی سیدھی نہیں ہوتی، اس کی گردش دائرے کی شکل میں ہوتی ہے، جو لوگ ابھی بچے ہوئے ہیں اور گردش میں وہ دائرے کے اوپر والے حصے میں ہیں، اگر انہوں نے نیچے جانے والے پریشان حال لوگوں کا ہاتھ پکڑے نہیں رکھا تو اگلی گردش میں وہ نیچے ہوں گے اور چونکہ انہوں نے خود اوپر ہونے کے وقت نیچے والے کا ہاتھ نہیں پکڑے رکھا تھا، اس لیے اب جو مصیبت ان پر آئے گی، اس میں ان کا پرسان حال کوئی نہیں ہوگا، اس لیے ایسے موقعوں پر دست تعاون دراز کرنے کا مزاج بنائیے۔تعاون کا اصل اجر تو اللہ ہی کے پاس ہے۔

پیر, اگست 07, 2023

فسادات کی روک تھام کا نبوی طریقہ ہمایوں اقبال ندوی نائب صدر، جمعیت علماء ارریہ وجنرل سکریٹری ،تنظیم أبناء ندوہ پورنیہ کمشنری

فسادات کی روک تھام کا نبوی طریقہ 
Urduduniyanews72 
ایک ویڈیو میوات سے موصول ہوئی ہے،ہرادران وطن کی ایک جماعت نےاسے وائرل کیا ہے،اس میں  پہلے ہرشخص نےاپنا نام اور پتہ بتایا ہے، پھر اپنی بات پیش کی ہے، اس کی ابتدا اسطرح ہوتی ہے؛" نمسکار ساتھیو! میرا نام ہے کرن سنگھ، گاؤں سولنبا،تحصیل نوح، ضلع میوات، یہ گاؤں میوات چھیتر میں آتا ہے،دوسرے لوگوں کو ایسا لگتا ہے کہ میوات کے لوگ ہمیں پریشان کرتے ہیں، میوات کو بدنام کرنے کے لئے ایسا کہا جارہا ہے،اور یہاں کے ماحول کو خراب کرنے کے لئے کیا جارہا ہے، ابھی کل پرسوں جو حادثہ ہوا ہے،یہ باہر کے لوگوں نے کیا ہے، سرکار اس کی پوری طرح سے جانچ کرے، اور اس پر اچت کارروائی کرے، اس کے بعد راجیش کمار جی نے کہا ہے کہ؛"ہمارے یہاں بہت بڑھیاں بھائی چارہ ہے،یہاں امن چین سے ہم رہتے ہیں، یہاں ہمیں کوئی دقت نہیں ہے،باہر کے لوگ آکر ماحول خراب کرتے ہیں" نیزدرجن بھر سے زائد برادران وطن نے بھی یہی باتیں  آن کیمرہ اس ویڈیو میں پیش کی ہیں ۔
میوات یہ مسلم اکثریتی علاقہ ہے،فرقہ پرست لوگ اسے آگ کی نذر کردینا چاہتے ہیں، مگر یہ خوشی کی بات ہے کہ ہندو مسلم یہاں ایک ساتھ رہتے ہیں، اور آپس میں بھائی چارہ اور پیار ومحبت کی فضا یہاں بنی ہوئی ہے، اسی لئے فسادیوں کو میوات میں خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی ہے،دنگائیوں نے گروگرام ودیگر مقامات پراپناغصہ نکالنے کی کوشش کی ہے، ایک مسجد پر رات کی تاریکی میں حملہ کرکے نائب امام کو گولی ماری گئی، نیزمسجد کونذر آتش کرکے اپنے آتش غضب کو ٹھنڈا کرنے کی ناکام سعی کی گئی ہے ، جبکہ گروگرام ہی میں دوسری جگہ فضیحت کا بھی فسادیوں کو سامنا ہوا ہے، سوہنا کی شاہی مسجد پر بھی ایک ہجوم نے حملہ کیاتھا، مگر وہاں پڑوس میں رہنے والے سکھ بھائیوں نے مسجد کے امام صاحب اور پڑھنے والے بچوں کو اپنی جان پر کھیل کر بحفاظت نکال لیا ہے،یہاں پربھی فسادیوں کو منھ کی کھانی پڑی ہے۔
آج ملک میں جہاں بھی دنگا ہوتا ہے، اس کے پیچھے گاؤں وسماج اور شہر کے سمجھدار لوگ نہیں ہیں، گاؤں، شہر اور ریاست سے باہرکے لوگ اس مقصد کے لئے امپورٹ کئے جاتے ہیں، ابھی  دہلی فساد میں بھی یہی دیکھنے میں آیا تھا، اور اب میوات اور ہریانہ فساد میں بھی یہی دیکھنے میں آرہا ہے۔میوات کو فساد میں جھونکے کی کوشش جنید اور ناصر کے قاتلوں نے کی ہے،یہ سبھی جانتے ہیں، یہ میوات سے باہر کے رہنے والے ہیں، ہنوز آزاد گھوم رہے ہیں، مگر سزا مقامی لوگوں کو دی جارہی ہے،میوات میں دکان ومکان بلڈوزگئے جارہے ہیں، دوسری طرف شرپسند عناصر جو باہر کے ہیں نقاب  پہن پہن کر غریبوں پر حملہ کررہے ہیں،ماحول ہنوز پر امن نہیں ہواہے،اس کی اصل وجہ کارروائی صحیح سمت میں نہیں ہورہی ہے،  ہریانہ کی ریاستی حکومت سے بہت زیادہ پر امید ہونے کی بھی ضرورت نہیں ہے،فساد کیوں ہوا؟ اس سوال کے جواب میں ریاستی وزیر داخلہ نے کہاکہ یہاں کی آبادی دو کروڑ کی ہے اور ساٹھ ہزار پولس کیا کرسکتی ہے؟ اس سے تو صاف حکومت کی نااہلی جھلکتی ہے۔
                ہم کو ان سے ہےوفا کی امید 
                جو جانتے نہیں وفا کیا ہے 

آج ہم اپنے طور کیا کرسکتے ہیں؟ فسادات کی روک تھام کے لئے کیا قربانی پیش کرسکتے ہیں؟ اور کونسا طریقہ اپناتے ہیں؟ ان عناوین پر غور وفکرکی ضرورت ہے، میوات سے اپنی ویڈیو کےذریعہ ہندو بھائیوں نے بڑا اہم پیغام دیا ہے،اس طرح کے لوگ ہر گاؤں، ہر سماج ،ہر شہراور ملک کی ہرریاست میں بستے ہیں،  سماج کے ان انصاف پسند لوگوں کو متحد کرکے ہم اندرون وباہر دونوں طرح کے حملوں سے اپنی حفاظت کا سامان کرسکتے ہیں، اپنے گاؤں،شہر اور سماج کو فساد کی شر سے محفوظ کرسکتے ہیں، یہ ذمہ داری ہم مسلمانوں پر عائد ہوتی ہے، اسلام امن وسلامتی کی گارنٹی دیتا ہے،اور پیغمبر اسلام محمد صلی علیہ وسلم امن کے علمبردار رہے ہیں، قرآن میں یہ اعلان موجود ہے؛حقیقت یہ ہے کہ تمہارے لئے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں ایک بہترین نمونہ ہے، (سورہ احزاب )
قرآن کریم کی اس آیت میں یہ پیغام دیا گیا ہے کہ ہر معاملہ نبی صلی اللہ کی  ذات کو اپنا آئیڈیل بنانے کی ضرورت ہے،  عقائد وعبادات، معاملات واخلاق، معاشرت ومعاشیات اور سیاست میں بھی آپ صلی علیہ وسلم کی ذات ہمارے لئے نمونہ ہے،
جن حالات سے ملک میں ہم سب اس وقت  دوچار ہیں، پیغمبر اسلام اور مسلمانوں کو بھی ان کا سامنا ہوا ہے، مدینہ شہر رسول بھی دشمنوں کے نرغے میں رہا ہے،داخلی وخارجی دونوں طرح کے حملوں کے بیچ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا لائحہ عمل کیا رہا ہے؟ اسے معلوم کرنے اور عمل میں لانے کی آج شدید ضرورت ہے۔
 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں  طرح کے حملوں کاسد باب مدینہ پہونچتے ہی مسلمانوں اور یہودیوں کےدرمیان معاہدہ  کے ذریعہ ک

یا ہے، سیرت کی کتابوں میں اس کی تفصیل لکھی ہوئی ہے،معاہدہ کےخاص نکات یہ ہیں؛
یہود اور مسلمان باہم دوستانہ برتاؤ رکھیں گے، یہود یا مسلمانوں کو کسی سے لڑائی پیش آئے گی تو ایک فریق دوسرے کی مدد کرے گا، کوئی فریق قریش کو امان نہیں دے گا،مدینہ پر حملہ ہوگا تو دونوں فریق شریک یکدیگر ہوں گے،(سیرت النبی)
 آج اس نوعیت کےمعاہدہ سے ہم تاریخی کارنامہ انجام دے سکتے ہیں، سد بھاونا کےنام پربڑےبڑےاجلاس منعقدکئےجاتےہیں،ہر دھرم کےلوگ اسمیں شامل ہوتے ہیں ،تو پھر کیوں  نہیں گاؤں یا شہر کی حفاظت کے نام پر مقامی لوگوں  کوہم اکٹھا کرسکتے ہیں،  بستی میں جب آگ لگتی ہے تو دھوان ہرجگہ پہونچتا ہے، اور نقصان پورے گاؤں کا ہوجاتا ہے۔راحت اندوری نے کیا خوب کہا ہے؛
          لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں 
           یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے

یہی پیغام لیکر حضرت علی میاں رحمۃ اللہ علیہ کھڑے ہوئے تھے، پیام انسانیت کے نام پر لوگوں کو ایک جگہ بلاکر انسانیت کی بات کہتے،اور" مانوتا کا سندیش" کے عنوان پر دراصل معاہدہ والی سنت رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی احیاء فرمارہے تھے، افسوس کہ اس نازک  وقت مولانا ہمارے درمیان نہیں ہیں،مگر ہم زندہ ہیں تو زندگی کا ثبوت پیش کریں،اگر ایسا ہم نے کر لیا تو بڑی کامیابی ہمیں نصیب ہوگی، ان شاء اللہ العزیز ہم ان منصوبہ بند فسادات کا سد باب کرسکتے ہیں، برادران وطن ہمارے ساتھ ہیں، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے والے کی دنیا وآخرت دونوں کامیاب ہوتی ہے۔
ہمایوں اقبال ندوی 
نائب صدر، جمعیت علماء ارریہ 
وجنرل سکریٹری ،تنظیم أبناء ندوہ پورنیہ کمشنری 
۷/اگست ۲۰۲۳ء

شادی کا فلسفہ اور مقصد ✍️ مولانامحمد قمر الزماں ندوی

شادی کا فلسفہ اور مقصد 
اردودنیانیوز۷۲
مولانامحمد قمر الزماں ندوی

   معاشرتی زندگی کی بنیاد نکاح ہے،یہ کام شریعت اسلامی میں بہت ہی پسندیدہ اور عند اللّٰہ مستحسن ہے کہ کوئی مسلمان مرد کسی مسلمان عورت سے شریعت کے بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق ازدواجی تعلق قائم کرکے اس کے ساتھ اپنی پوری زندگی خوشی خوشی عفت و عصمت اور پاکدامنی کے ساتھ گزارے ۔اسلام میں نکاح جائز ہی نہیں بلکہ مستحسن ہے، اور رہبانیت یعنی بلا شادی زندگی گزارنا مذموم ہے،نکاح تمام نبیوں کی سنت ہے ،اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ،،ولقد ارسلنا رسلنا من قبلک و جعلنا لھم ازواجا و ذریتہ ،، (سورہ رعد) اور ہم نے یقینا آپ سے پہلے بہت سے رسول بھیجے اور ہم نے ان کو بیویاں اور بچے دیے،، ۔۔۔
 حضرت ابن عباس رض سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،،پانچ چیزیں انبیاء کرام کی سنتوں میں سے ہیں حیاء،بردباری وتمحل ،حجامت،خوشبو،اور نکاح ۔۔۔مجمع الزوائد باب الحث علی النکاح ۔۔
  صالح اور نیک کار بندوں نے نیک و صالح بیوی اور اولاد کے لیے دعا کی ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے ،،ربنا ھب لنا من ازواجنا و ذریاتنا قرت اعین ،،سورہ فرقان ۔۔
اے ہمارے پروردگار ہم کو ہماری بیویوں اور ہماری اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک یعنی راحت عطا فرما ۔۔۔
   شادی شدہ ایک ایسے سکون و اطمینان اور محبت و الفت سے ہمکنار ہوتا ہے، جو کسی اور ذریعہ سے میسر نہیں ہوسکتا ۔۔قرآن مجید میں متعدد آیات میں اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔
   نکاح ایک ایسی دولت اور نعمت ہے بلکہ یہ وہ عبادت ہے، جس کے ذریعہ انسان کو سکون واطمینان اور صحت و عافیت نصیب ہوتی ہے ،اس کے اندر ایثار و قربانی محبت و الفت ،اجتماعی زندگی گزارنے اور مل جل کر رہنے کا جذبہ اور سلیقہ پروان چڑھتا ہے،نکاح کے بے شمار فائدے ہیں ،ایک مومن کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ اس کے ذریعہ اس کا نصف ایمان مکمل ہوجاتا ہے اور ایمان ایسی بیش قیمت دولت ہے جس کا دنیا میں کوئی عوض اور بدلہ نہیں ہوسکتا، اس کا بدلہ خدا کی خوشنودی اور جنت ہے ۔
    نکاح شریعت اسلامی کی نظر میں عبادت بھی ہے اور ایک معاہدہ اور پیکٹ بھی، لیکن بدقسمتی سے اکثر لوگ نکاح کو عبادت نہیں سمجھتے، اس کو محض ایک معاہدہ ،رسم اور پیکٹ سمجھتے ہیں ،جبکہ نکاح عقد اور معاہدہ کے ساتھ ایک اہم عبادت بھی ہے ،نکاح کی مجلس میں شرکت کرنے والا ،عقد کرانے والا ،گواہ بننے والا ،ایجاب و قبول کرانے والا ،اور اس مسنون اور مبارک مجلس میں شرکت کرنے والے کا مقام نفلی عبادت کرنے والے سے بڑھ کر ہے ۔
   بقول حضرت علی میاں ندوی رح ،، عام عبادت نماز ،روزہ حج اور زکوٰۃ جز وقتی عبادت ہے ،جس وقت یہ عبادت آپ انجام دیتے ہیں اس وقت آپ کو اس کا ثواب ملتا ہے، پھر دوبارہ جب انجام دیں گے تب ملے گا ،لیکن نکاح ایک کل وقتی یعنی پوری زندگی عبادت ہے، اس کے ثواب کا سلسلہ منقطع نہیں ہوتا، کبھی رکتا اور ختم نہیں ہوتا، آخری سانس تک میاں بیوی کو ایک دوسرے کو دیکھنے پر ،ایک دوسرے کی خدمت کرنے پر ،ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے پر ،میاں بیوی کے باہمی حقوق ادا کرنے پر، ایک دوسرے کی ضرورت پوری کرنے پر ملتے رہتا ہے ،اور اجر و ثواب کا یہ سلسلہ شریکین کے درمیان تاحیات جاری رہتا ہے۔۔۔۔
  الغرض نکاح یہ ایک عظیم عبادت اور مضبوط معاہدہ ہے، جو تمام نبیوں کی سنت اور طریقہ ہے، اس کے ذریعہ انسان زنا اور دیگر فواحش و منکرات سے محفوظ ہوجاتا ہے اور مختلف قسم کی برائیوں اور تفکرات و تصورات سے آزاد ہوجاتا ہے،اسی کے ساتھ محبت و الفت سکون واطمینان ،راحت و آرام ایثار و قربانی اور نسل انسانی کی افزائش و فروغ کے وہ نمایاں فوائد ہیں ،جن کا حصول دیگر ذرائع سے ممکن نہیں، اس لیے حکم شریعت ہے کہ جو صاحب استطاعت و وسعت ہوں وہ جلد اس مبارک عمل کو انجام دیں اور اس میں تاخیر سے گریز کریں ۔اس کے ساتھ ہی نکاح کی حمکت ،مصحلت ،اغراض و مقاصد ،فوائد اور اس کا فلسفہ شریعت میں کیا ہے؟ وہ بھی ہمارے پیش نظر رہے تاکہ اس کی روشنی میں ہم ازدواجی زندگی کو زیادہ سے زیادہ خوشگوار بنا سکیں اور نکاح کے بعد زندگی کے کسی موڑ پر تلخی اور ناخوشگواری پیدا نہ ہوسکے اور محبت و الفت اور رآفت و رحمت کی زندگی ہمیں نصیب ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہم یہاں 
امام الہند مولانا "ابوالکلام آزاد " کا ایک خط نقل کرتے ہیں، جو انہوں نے ایک عزیز کو شادی کے موقع پر لکھا تھا، جس میں شادی کے فلسفہ پر اسلامی نقطہ نظر سے مدبرانہ اور فاضلانہ طور پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ ۔ ۔
ملاحظہ فرمائیں :
عزیزی! تمھارا خط پڑھ کر مجھے خوشی ہوئی،تعلیم کی تکمیل کے بعد اب تمہیں زندگی کی وہ منزل پیش آ گئی ہے جہاں سے انسان کی شخصی ذمہ داریوں کا ایک نیا دور شروع ہوتا ہے یعنی تمھاری شادی ہو رہی ہے میرے لیے ممکن نہیں کہ اس موقع پر شریک ہو سکوں لیکن یقین کرو کہ میری دل کی دعائیں تمھارے ساتھ ہیں اپنی جگہ اپنی دعائیں تمھارے پاس بھیج رہا ہوں۔
اللہ تعالی اس تقریب کو برکت وسعادت کا موجب بنائے اور تمھاری یہ نئی زندگی ہر اعتبار سے کامیاب ہو۔
میں اس موقع پر تمھیں یاد دلاؤں گا کہ بحثیت مسلمان تمھیں چاہیے۔۔۔ازدواجی زندگی یعنی شادی کی زندگی کا وہ تصور اپنے
سامنے رکھو جو قرآن حکیم نے دنیا کے سامنے پیش کیا ہے
وَ مِنۡ اٰیٰتِہٖۤ اَنۡ خَلَقَ لَکُمۡ مِّنۡ اَنۡفُسِکُمۡ اَزۡوَاجًا لِّتَسۡکُنُوۡۤا اِلَیۡہَا وَ جَعَلَ بَیۡنَکُمۡ مَّوَدَّۃً وَّ رَحۡمَۃً ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوۡمٍ یَّتَفَکَّرُوۡنَ (21)الروم
خدا کی حکمت کی نشانیوں میں ایک نشانی یہ ہے کہ اس نے تمھارے لیے تم ہی میں سے جوڑے پیدا کر دیے ہیں یعنی مرد کے لیے عورت اور عورت کےلیے مرد لیکن خدا نے ایسا کیوں کیا؟
اس لیے کہ تمھاری زندگی میں تین چیزیں پیدا ہو جائیں جن تین چیزوں کے بغیر تم ایک مطمئن اور خوش حال زندگی حاصل نہیں کر سکتے وہ تین چیزیں یہ ہیں : سکون مودت رحمت لتسکنو الیھا وجعل بینکم مودۃ و رحمۃ ۔
"سکون"عربی زبان میں ٹھراؤ اور جماؤ کو کہتے ہیں مطلب یہ ہوا کہ تمھاری زندگی میں ایسا ٹھراؤ اور جماؤ پیدا ہو جائے کہ زندگی کی پریشانیاں اور بے چینیاں اسے ہلا نہ سکیں۔
"مودت" سے مقصود محبت ہے قرآن کہتا ہے کہ ازدواجی زندگی کی تمام تر بنیاد محبت پر ہے شوہر بیوی سے اور بیوی شوہر سے اس لیے رشتہ جوڑتی ہے تا کہ ان کی ملی جلی زندگی کی ساری تاریکیاں محبت کی روشنی سے منور ہو جائیں ۔
لیکن محبت کا یہ رشتہ پائیدار نہیں ہو سکتا اگر رحمت کا سورج ہمارے دلوں پر نہ چمکے رحمت سے مراد یہ ہے کہ شوہر اور بیوی نہ صرف ایک دوسرے سے محبت کریں بلکہ ہمیشہ ایک دوسرے کی غلطیاں اور خطائیں بخش دیں اور ایک دوسرے کی کمزوریاں نظراننداز کرنے کےلیے اپنے دلوں کو تیار رکھیں
"رحمت کا جذبہ خود غرضانہ محبت کو فیاضانہ محبت کی شکل دیتا ہے" ایک خود غرضانہ محبت کرنے والا صرف اپنی ہی ہستی کو سامنے رکھتا ہے لیکن رحیمانہ محبت کرنے والا اپنی ہستی کو بھول جاتا ہے اور دوسرے کی ہستی کو مقدم رکھتا ہے ۔ رحمت ہمیشہ اس سے تقاضا کرے گی کہ دوسرے کی کمزوریوں پر رحم کرے غلطیاں، خطائیں بخش دے ۔ غصہ ، غضب اور انتقام کی پرچھائیاں بھی اپنے دل پر نہ پڑنے دے۔
                  (ابوالکلام آزاد)  

               * دارالتحریر*   

  قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن (رجسٹرڈ) 
ترسیل۔۔۔ انس مسرورانصاری
رابطہ/9453347784/
شادی کا فلسفہ اور مقصد 

✍️ مولانامحمد قمر الزماں ندوی

اتوار, اگست 06, 2023

مولاناسہیل احمد ندوی ؒ۔موت ایسی جس پر رشک کرنے کو جی چاہے✍️✍️✍️ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ

مولاناسہیل احمد ندوی ؒ۔موت ایسی جس پر رشک کرنے کو جی چاہے
Urduduniyanews72
✍️✍️✍️ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ 
—-----------------------------------------------
امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھار کھنڈ کے نائب ناظم ،امارت شرعیہ ایجوکیشنل اینڈ ویلفیر ٹرسٹ کے جنرل سکریٹری، مولانا منت اللہ رحمانی ٹیکنیکل انسٹی چیوٹ، قاضی نو رالحسن میموریل اسکول پھلواری شریف اور دارالعلوم الاسلامیہ امارت شرعیہ کے سکریٹری مولانا سہیل احمد ندوی کا25؍جولائی 2023 مطابق 6محرم الحرا م 1445بروز منگل کٹک سے120کلو میٹردور بالو گاؤں مسجد میں ظہر کی سنت ادا کرتے ہوئے دوسری رکعت کے دوسرے سجدہ میں 1بج کر16منٹ پرانتقال ہو گیا،جنازہ کی ایک نماز بعد نماز عصر بالو گاؤ ں مسجد کے صحن میں مولانا صبغت اللہ قاسمی معاون قاضی امارت شرعیہ کٹک نے پڑھائی ،دوسری نماز جنازہ بعد نماز مغرب ٹوٹی پارہ، اڈیشہ میں ادا کی گئی ،پٹنہ میں جنازہ کی نماز 12بج کر 15 منٹ پر امارت شرعیہ پھلواری شریف کے احاطے 26جولائی کو قائم مقام ناظم امارت شرعیہ مولانا محمد شبلی قاسمی نے پڑھائی اس کے بعد جنازہ ان کے آبائی گاؤں بگہی،تھانہ دیوراج ،بلاک لوریا موجودہ ضلع مغربی چمپارن لے جایا گیا، آخری نماز جنازہ کی امامت حضرت مولانا شمشاد رحمانی قاسمی نائب امیر شریعت نے کی، دونوں جگہ علی الترتیب مفتی وصی احمد قاسمی، مفتی محمد سہراب ندوی قاسمی ، حضرت نائب امیر شریعت اور قائم مقام ناظم نےجنازہ کی نماز سے قبل خطاب فرمایا، جنازہ کے بعد آبائی قبرستان میں ہزاروں افراد کی موجودگی میں تدفین عمل میں آئی۔پس ماندگان میں اہلیہ دو لڑکے اور ایک لڑکی کو چھوڑا۔ امارت شرعیہ کے تمام شعبے اور اس کے ذیلی ادارے ہوسپٹل ،ٹکنیکل،دارالعلوم الاسلامیہ اور المعھد العالی کے ذمہ داران، کارکنان،اسا تذہ ،طلباءاور مسلمانوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔مجھے بھی دونوں جگہ شرکت کی سعادت نصیب ہوءی
مولانا سہیل احمد ندوی بن شکیل احمدبن وکیل احمد بن شیخ عدالت حسین جالیاکی پیدائش بگہی گاؤں کے ایک زمین دار اور متمول گھرانے میں سرکاری کاغذات کے مطابق ۵؍ جون 1962ء کو ہوئی، ان کے پردادا شیخ عدالت حسین جالیا،مجاہد آزادی اورگاندھی جی، مولانا ابوالمحا سن محمد سجادؒ وغیرہ کے رفقاء میں تھے،ابتدائی تعلیم گاؤ ں کے مکتب سے حاصل کرنے کے بعد حفظ قرآن کے لئے جامعہ اسلامیہ قرآنیہ سمرا مغربی چمپارن میں داخل ہوئے اور وہیں سے حفظ کی تکمیل کی،1976 میں مدرسہ اسلامیہ بتیا آگیے اور عربی وفارسی کے ابتدائی درجات کی تعلیم یہاں پائی، 1979میں دار العلوم دیو بند میں داخلہ لیا اور عربی ششم کی تعلیم کے بعد قضیہ نامرضیہ کے زمانے میں وہ دارالعلوم چھوڑ کر ندوۃ العلماء لکھنؤ چلے آئے اور یہیں سے 1987میں امتیازی نمبرات سے فضیلت کی سند حاصل کی، دوران طالب علمی وہ جمعیۃ الاصلاح کے سکریٹری بھی رہے، فراغت کے بعد حضرت مولانا سید نظام الدین صاحب ( جو ان دنوں ناظم امارت شرعیہ تھے ) کے حکم سے دفتر نظامت میں بیٹھ کر مبلغین حضرات کی رپورٹ کی اصلاح کرکے نقیب میں دینے کی ذمہ داری تفویض ہوئی، تین ماہ تک نقیب میں اللہ کی باتیں اور رسول اللہ کی باتیں بھی لکھتے رہے، پھر حضرت امیر شریعت رابع ؒ کی اجازت سے دفتر نظامت میں کارکن کی حیثیت سے بحال ہوئے۔پہلے معاون ناظم،پھر نائب ناظم ،اس کے بعد ٹرسٹ کے سکریٹری منتخب ہوئے،مفتی جنید صاحب کے بعد دارالعلوم الاسلامیہ امارت شرعیہ کے ناظم بنائے گئے اور زندگی کی آخری سانس تک ان عہدوں کے تقاضے کو پورا کر تے رہے،کٹک کا سفر بھی یو نیفارم سول کوڈکے خلاف بیداری مہم کے لئے کیا تھا،راور کیلا سے وہ ۲۵؍جولائی کو کٹک پہونچے تھے،120کلو میٹر دوربالو گاؤں میں انہیں ایک اجتماع کو خطاب کرنا تھا، ظہر کی نماز کے لیے وضو کیا،سنت کی نیت باندھی ایک رکعت مکمل کیا اور دوسری رکعت کے دوسرے سجدے میں چل بسے،دین کے کام کے لئے سفر،مسافرت کی موت اور وہ بھی سجدے میں سبحان اللہ العظیم کہتے ہوئے، مغفرت اور بخشش کے کتنے اشارے اللہ نے جمع کر دئیے ہیں، 
مولانا کی ذاتی زندگی انتہائی سادہ تھی، جتنے عہدے ان کے پاس امارت شرعیہ کے تھے اس میں وہ چاہتے تو ہر جگہ چار چکہ سے جاتے، ان کے شعبہ میں گاڑیاں دستیاب بھی ہیں، اور خود ان کے پاس اپنی گاڑی بھی تھی لیکن انہوں نے اپنا چلن اور روش نہیں بدلی اور نہ کبھی بڑے عہدوں پر فائز ہو نے کی وجہ سےاپنا سماجی اسٹیٹس بڑھانے کی کوشش کی، وہ ایک بائیک رکھے ہوئے تھے، ہر جگہ اسی سے دوڑ لگاتے ، گاڑی کا استعمال شاید بایدہی کبھی کرتے، بڑے عہدے پر متمکن ہونے کے باوجود انہوں نے کبھی یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ ہم عہدوں کے اعتبار سے دوسروں سے بڑے ہیں، وہ سب سے گھل کر ملتے، مزاج میں ظرافت تھی، اس لیے مجلس کو باغ وبہار بنائے رکھتے، جنازے میں امنڈنے والی بھیڑ اور تعزیتی پیغامات سے لوگوں کو معلوم ہوا کہ وہ کس قدر مقبول تھے، دفتر سے زیادہ ان کے گاؤں جا کر معلوم پڑا کہ گاؤں ہی نہیں قرب وجوار کے لوگ بھی ان سے کس قدر محبت کرتے تھے۔ 
 وہ جلد سونے اور سحر خیزی کے عادی تھے، قرآن کریم بہت اچھا پڑھتے تھے اور یاد بھی اچھا تھا، زمانہ تک امارت شرعیہ میں تراویح میں قرآن سنایا کرتے تھے اور ان کے پیچھے قاضی مجاہد الاسلام قاسمی اور مولانا سید نظام الدین صاحب رحمھما اللہ جیسی عبقری شخصیت ہوا کرتی تھی، بعد میں تلاوت کا معمول تو باقی رہا ، مگر امارت کے بیت المال کے استحکام اور دارالعلوم الاسلامیہ کی مالیاتی ضرورت کے لیے ہونے والے اسفار کی وجہ سے تراویح میں قرآن سنانے کا معمول جاتا رہا، وہ رات کے حصہ میں روزانہ بلا ناغہ سورۃ یٰسین اور سورہ واقعہ پڑھا کرتے تھے، سفر میں بھی یہ معمول باقی رہتا تھا۔ 
  میں آج سے کوئی 20؍سال قبل مدرسہ احمدیہ ابابکر پور ویشالی سے حضرت امیر شریعت سادس کے حکم پر امارت شرعیہ آیا اس زمانے میں وہ معاون ناظم ہوا کرتے تھے،انہوں نے زمانہ دراز تک قاضی نورالحسن میموریل اسکول کے سکریٹری کی حیثیت سے کام کیااور ابھی بھی وہ اس عہدہ پر متمکن تھے،وہ جری،ملنسار،اور انتظامی امور کے ماہر سمجھے جاتے تھے، پلاننگ، منصوبہ بندی اور ان پر عمل درآوری کی شکلوں پر ان کی گہری نظر تھی،کئی لوگ انہیں دفتر میں ’’بھیا ‘‘کہا کرتے تھے۔ایڈ جسٹمنٹ کی غیر معمولی صلاحیت ان میں تھی،وہ ہر دور میں امراء شریعت کے معتمد رہے،دفتر کے ذمہ داران اور کارکنان ان کی صلاحیت کے قائل تھے،راقم الحروف سے ان کے تعلقات مخلصانہ تھے،امارت شرعیہ کے کاموں کو آگے بڑھانے میں ہم ایک دوسرے کے معاون ہوا کرتے تھے اور مشاورت سے کام آگے بڑھتا تھا،انتقال کے دن بھی ہم لوگوں نے صبح8؍بجے دیر تک زوم(ZOOM) پر مشورہ کیا تھا ،کیا معلوم تھا کہ یہ آخری ملاقات ہوگی،اللہ مغفرت فرمائے پس ماندگان کو صبر جمیل اور امارت شرعیہ کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے۔الوداع ،الوداع،الوداع انشاءاللہ اب قیامت میں ملاقات ہوگی۔رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ آمین

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...