Powered By Blogger

جمعرات, اگست 10, 2023

امتحان کی تیاری __✍️ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

امتحان کی تیاری __
Urduduniyanews 72
✍️ مفتی محمد ثناء الہدیٰ  قاسمی
 نائب  ناظم  امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

اس دنیا کو اللہ رب العزت نے امتحان گاہ بنایا ہے، اس نے موت وحیات کو اسی لیے پیداکیا کہ جاناجائے کہ عمل کے اعتبار سے کون اچھا ہے ، دنیا کو آخرت کی کھیتی بھی کہا گیا ہے اور اسے ایسے مردار سے تعبیرکیا گیا ہے جو کتے کی طلب ہوتی ہے ، یہاں کی شادابی اوررونق، مال واولاد سب آزمائش اورفتنہ پیدا کرنے والی ہیں، جوادھر متوجہ ہوگیا اوردنیا کی چکا چوند میں کھوگیا ، حلال وحرام کی تمیزکھودیااوردنیا یا جاہ ومنصب اورعزوجاہ کی وجہ سے اللہ کو فراموش کر بیٹھا وہ اس امتحان میں فیل ہو گیا ، نا مرادی اور ناکامیابی اس کامقدر بن گئی ۔ 
امتحان کا لفظ سنتے ہی طلبہ کا ذہن پریشان ہوجاتا ہے۔ کیوںکہ اسے معلوم نہیں ہوتاکہ کس قسم کے سوالات کا سامنا انہیں کرنا پڑیگا،جوابات کے لیے اوقات بھی متعین اور محدود اور امتحان گاہ بھی تنگ ، پہلے طلبہ کتابوں سے تیاری کرتے تھے ، پھر اساتذہ نوٹس لکھا دیا کرتے تھے، سوالات دس پانچ سال کے حل کرادیتے تھے، اب اس کی بھی ضرورت نہیں ہوتی، چھپے ہوئے نوٹس اور گیس پیپر نے امتحان کے مراحل کو نسبتاً آسان کر دیا ہے ، اور گھبراہٹ ودہشت میں تھوڑی کمی آئی ہے ، لیکن اب بھی امتحان کا موسم آتے ہی ذہن ودماغ پر یہی فکر چھائی رہتی ہے کہ ہمارا کیا ہوگا۔ کیوں کہ امتحان کے وقت انسان یا تو قابل تعظیم ٹھہرتا ہے یا ذلت اس کا مقدر بنتی ہے ۔
لیکن اللہ رب العزت کی کرم فرمائی اور اس کی بے پناہ رحمتوں کا تصور کیجئے، اس مالک نے امتحان کی مدت گھنٹوں اور منٹوں میں مقرر نہیں کیا، اس نے انسانوں کو ایک لمبی عمر عطا فرمائی ، پوری دنیا کو امتحان گاہ بنادیا ، قرآن کریم جیسی کتاب عطا فرمائی جو لوگوں کی ہدایت او رزندگی میں پیش آنے والے ہر قسم کے حالات کا سامنا کرنے کے لیے ہمیں تیار کرتی ہے، پھر اس کتاب ہدایت کو قولی اور عملی طور پر سمجھانے کے لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا، صحابہ کرام، تابعین ، تبع تابعین اور علماء کرام کے ذریعہ مختلف ادوار کے لیے ایسا انتظام فرمایا کہ جب چاہیے سمجھ لیجئے، دیکھ کر سمجھئے، علماء سے پوچھ کر عمل کر لیجئے، کوئی دارو گیر اور اخراج نہیں ہے ، پوری مدت گذارنے کے اور وقت فراہم کرنے کے بعد جب اس دنیا سے کوچ کرے گا تو اب اسے ان سوالات کے جوابات دینے ہوں گے ، جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے ہی آؤٹ کر دیا تھا ، دنیاوی امتحان میں سوالات آؤٹ ہو جائیں تو امتحان رد ہوجاتا ہے ، اللہ رب العزت کی رحمت تو دیکھیے اس نے سوالات خفیہ نہیں رکھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بتا دیا کہ تین سوال قبر میں ہوں گے اور پانچ سوال قیامت کے دن ، تین سوال جو قبر میں ہوگا وہ رب ، دین اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کے بارے میں ہوگا، تمہارا رب کون ہے ، تمہارا دین کیا ہے ، اور اس ذات اقدس کے بارے میں تم کیا کہتے ہو؟ جس نے دنیاوی امتحان گاہ کو احکام خدا اور رسول کی روشنی میں برتا ہوگا، اور زندگی کتاب ہدایت کے مطابق گذاری ہوگی، وہ ان سوالوں کا صحیح جواب دے گا،اس کے لیے جنت کی کھڑکیاں کھول دی جائیں گی ، اور فرشتہ کہے گا کہ سو جا ، جیسی دلہن اطمینان کے ساتھ سوتی ہے ، اور جس نے امر خدا وندی کی ان دیکھی کی ہوگی وہ کہے گا کہ ہا ہا لا ادری ، افسوس میں کچھ نہیں جانتا ،بس یہیں سے امتحان کے نتیجے کا آغاز ہوجائے گا ، جہنم کی کھڑکیاں کھول دی جائیں گی اور مختلف قسم کے عذاب اس پر مسلط کر دیے جائیں گے ، پھر ایک طویل وقفہ کے بعد جسے اللہ ہی جانتا ہے ، دوسرا امتحان شروع ہو گا، اس کے بھی سوالات اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے آؤٹ کر دیے ہیں، یہ قیامت کا دن ہوگا اور انسان اس وقت تک میدان حشر سے ٹل نہیں سکے گا ، جب تک ان پانچ سوالوں کا جواب نہ دیدے، عمر کن کاموں میں لگایا، جوانی کن کاموں میں صرف کیا، مال کس ذریعہ سے کمایا ، اور کہاں خرچ کیا اور جو علم حاصل کیا اس پر کس قدر عمل کیا۔
 ان سوالوں کی روشنی میں ہمیں اپنی زندگی اور اپنے اعمال کا محاسبہ کرنا چاہیے کہ ہماری عمر فضولیات اور منکرات میں تو نہیں لگ رہی ہے ، جوانی اللہ کی دی ہوئی نعمت ہے اس کا غلط مصرف تو نہیں لیا جا رہا ہے ، مال کے حصول کے لیے ان طریقوں کا استعمال تو ہم نہیں کر رہے ہیں، جو ناجائز اور حرام ہیں، اسراف اور فضول خرچی ، دکھاوے ، آتش بازی میں مال کو خرچ تو نہیں کیا جا رہا، جن لوگوں کے پاس علم ہے وہ اس کی روشنی میں اعمال کا جائزہ لیں کہ ہمارا عمل تو کہیں علم کے خلاف نہیں ہے ، دنیا میں زندگی اگر صحیح انداز میں گذاری ہوگی تو ان سوالوں کے جوابات آسان اور مرضی مولیٰ کے مطابق ہوں گے تو اس کا حساب کتاب آسان ہو گا اور رزلٹ داہنے ہاتھ میں تھما دیا جائے گا، تو وہ خوش خوش لوٹے گا، اور جوان سوالات کے جوابات مرضی مولیٰ کے مطابق نہیں دے گا، اس کو پشت کی جانب سے بائیں ہاتھ میں رزلٹ دیا جائے گا، یہ اس بات کی علامت ہوگی کہ وہ ناکام ہو گیا ، اور دنیاوی زندگی میں  اموال واولاد نے اسے اللہ کے ذکر سے غافل کر دیا اب وہ جہنم کا ایندھن بنے گا۔ اس لیے قبل اس کے کہ ہمارے امتحان کی تیاری کا وقت پورا ہوجائے ، ہمیں اپنی تیاری پوری کر لینی چاہیے اورزندگی اس کتاب کے بتاتے ہوئے طریقہ کے مطابق گذارنی چاہیے؛ تاکہ قبر کے تین اور میدان حشر کے پانچ سوال کے جوابات میں ہمیں پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

۔۔کڑ و ا شر بت ۔۔۔۔۔۔ نکالیں سیکڑوں نہریں کہ پانی کچھ تو کم ہوگا مگر پھر بھی مرےدریاکی طغیانی نہیں جا تی انس مسرورانصاری * دارالتحریر* قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن(رجسٹرڈ) اردو بازار، ٹانڈہ۔ امبیڈکر نگر (ہو،پی)

۔۔۔۔۔۔۔کڑ و ا شر بت ۔۔۔۔۔۔۔۔ 
اردودنیانیوز۷۲ 
     ✍️ * انس مسرورانصاری
         ایک عالمی سروے کےمطابق گزشتہ پانچ سالوں میں دوسرے مذاہب کے تیرہ کروڑافراد نےمذہب اسلام کوقبول کیا۔ان میں ہرقوم ہرطبقہ ہر فرقہ اور فکر و خیال کےافراد شامل ہیں۔اعلا درجہ کے تعلیم یافتہ افرادکےعلاوہ پسماندہ،ناخواندہ۔آدی واسی حلقہ بگوش اسلام ہورہے ہیں۔اخبارات اور سوشل میڈیا کے مطابق گزشتہ دنوں شہرمرادآباد(یو،پی)میں پچاس دلتوں نے اسلام قبول کرنے کا اعلان کیاجن کوکلمہءطیبہ پڑھتے ہوئے ایک ویڈیو میں دکھایا گیا ہے۔(ایسی خبروں کومیڈیا والےظاہرنہیں کرتے) 
       دنیامیں تیزی کےساتھ اسلام پھیل رہاہے۔ایسا معلوم ہوتا ہےکہ بہت زیادہ عرصہ نہیں گزرےگاکہ اسلام دنیا کا سب سےزیادہ مقبول عام مذہب ہوجائےگا۔اس کی بنیادی وجہ اسلام کی اپنی کشش،اس کا نظام حیات وکائنات اوراس کے دشمنوں کی طرف سے پھیلائی جانےوالی غلط فہمیاں اور نفرت انگیزیاں ہیں۔قرآن کریم کے نسخوں کی بےحرمتی اوراس کوجلانا۔پیغمبراسلام کی شان میں گستاخیاں اورمسلمانوں کے خلاف انتہائی ظالمانہ شرانگیزیاں۔ایسے معاملات ہیں جو صالح ذہن وفکر کےعناصر اورغیرمتعصب،انصاف پسندافرادکو سوچنےپر مجبور کرتے ہیں کہ آخر اسلام میں ایساکیا ہےجس کے خلاف اس قدرشورشرابےاور ہنگامےاٹھائے جارہےہیں۔؟اس مقام پر انھیں اسلام اور پیغمبراسلام کےبارےمیں مطالعہ کی ضرورت پیش آتی ہے۔اورجب حقیقت کاسامنا ہوتا ہےتووہ بےساختہ پکار اٹھتےہیں۔لا الہ الاﷲ محمد الرسول اﷲ۔۔اسلام ایک ایسانظام سیاست و معیشت پیش کرتاہےجس کی کوئی مثال نظرنہیں آتی۔اس پرآشوب زمانہ میں صرف اسلام ہی انسان کےدکھوں اور پریشانیوں کا حل ہے۔ 
       وہ دن قریب ہے جب انڈیا میں اسلام اورمسلمانوں کے خلاف منو وادیوں کی ساری نفرت انگیزیاں،شر پسندیاں دھری کی دھری رہ جائیں گی۔ ہندو رہنماؤں کو یورپ سے سبق سیکھناچاہیے۔جہاں اسلام اتنی سرعت سے پھیل رہا ہے کہ اس کے دشمن اورحاسدین بوکھلاکررہ گئیے ہیں۔ان کی عقلیں سلب ہوگئی ہیں۔ یہی حال انڈیا میں ہونے کےآثارمو جود ہیں۔بس مسلمان اپنی بیداری کا ثبوت فراہم کریں اور سارے مسلکی اختلافات کو پس پشت ڈال دیں۔اسلام کو اپنے کرداروعمل سےظاہرکریں۔اس کے سواامن و عافیت کا کوئی اور دوسرا راستہ نہیں۔یہ مسلمانوں کی ذمہ داری بھی ہےاور فرض بھی۔ورنہ وہ خدا ورسول کے مجرم ہوں گے۔خدا کے رسول ﷺ نے یہی کیاتھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کوکردارو عمل کی بنیادپرکھڑاکیا۔عام اعلان حق سےپہلےآپ نے اپنے کردار وعمل سے اسلام کوظاہرکیا۔پھر بعدمیں اعلان حق فرمایااور لوگوں کواس کی دعوت دی۔مسلمانوں کو بھی یہی کرناہوگا۔اسلام کواپنےکرداروعل سے ظاہرکریں۔ 
     جہاں تک مسلم لڑکیوں کےارتدادکامعاملہ ہے،وہ یک طرفہ سچ نہیں ہے۔ سچ یہ ہےکہ یہ ایک ڈرامہ ہےجو مسلمانوں کو ہراساں اور پریشان کرنے کےلیےکھیلاجا رہاہے۔ہندو لڑکیوں کو مسلم لڑکیاں بناکرارتدادکافتنہ اٹھانے والےیہ نہیں جانتے کہ اس کا ردعمل خودانھیں کے خلاف اوراسلام کےلیےموافق وسازگار ہو کررہےگا۔یادرکھئے۔ہرایکشن کاایک ری ایکشن ہے۔ہر عمل کاایک ردعمل ہے۔ 
       آج بےشمار ہندو خواتین نقاب لگاکرمسلم عورتوں کے لباس میں اﷲ اوراس کے رسول کے نام پرمسلم گھروں میں جاکربھیک مانگ رہی ہیں۔میری نظرمیں ایسی درجنوں خواتین ہیں جن کاپیشہ ہی نقاب لگاکر بھیک مانگنا ہے۔
       مانتا ہوں کہ ارتداد کافتنہ موجود ہے۔ لیکن اس کی ذ مہ داری مسلم نوجوانوں پر آتی ہے۔ وہ اگراپنی لالچی اور حریص ذہنیت سے باز آ جائیں تو بازی پلٹ سکتی ہے۔ارتدادکےطوفان کوروکنےکےلیےمعاشرتی اصلاح اور خود اپنی کردار سازی کی ضرورت ہے۔۔مسلم بچیوں کوگمراہ کرنےکےلیےہندوتنظیموں کا لاکھوں روپیہ خرچ کرنا۔نوکری اور فلیٹ کی گارنٹی۔ لیکن افسوس کہ یہ ہندو فرقہ پرست تنظیموں کےغیردانش مند افراد نہیں جانتے کہ وہ کن ہاتھوں کی کٹھ پتلیاں ہیں۔ اپنے سیاسی مقاصد کےلیے مذہب کے نام پر گمراہ کرنے والے ان کے رہنماؤں میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جن کی بیٹیاں،بھتیجیاں اور بہنیں مسلمانوں کے گھروں میں خوش حال ازدواجی زندگی بسر کر رہی ہیں اور ان کے سرپرستوں کو کوئی اعتراض نہیں۔ ہسٹری اٹھاکر دیکھ لیجئے۔مجھے نام لینے کی ضرورت
 نھیں۔
        موجودہ حالات میں مسلمانوں کےلیے گمراہ کن ہندو شدت پسندوں کی سرگرمیاں ایک بڑی وارننگ اور انتباہ ہیں۔اب مسلمانوں کوبیدارہوجاناچاہئے۔
     آج کتنے ہی ہندو بھائی منتظر ہیں کہ مسلم سماج انھیں قبول کرے تو وہ اسلام قبول کرلیں۔مگر شاید ابھی وہ وقت نہیں آیا۔ 
     ہمارے قصبہ کےکئی ہندو، مسلمان ہوئے۔ ہندو رہنماؤں نے انھیں طرح طرح کےلالچ دیئے۔ ڈرایا،دھمکا یا۔یہاں تک کہ انھیں جیل تک کاٹنی پڑی ۔ قسم قسم کی تکلیفیں اٹھائیں لیکن ہندو دھرم میں واپس نہ گئے۔وہ آج بھی معمولی مزدورہیں۔اس کااجرتو اللہ ہی انھیں دےگاجن مشکل حالات میں وہ اسلام کے دامن سےلپٹےرہے۔ لیکن مسلم سماج نے انھیں قبول نہ کیا۔کوئی مسلم خاندان انھیں اوران کے بچوں کو شادی کےلیےنہ لڑکا دینےکےلیےتیارہےاورنہ لڑکی۔ دور دراز کے علاقوں میں ان کی شادیاں ہوتی ہیں۔ پھربھی وہ اسلام پر قائم ہیں۔ یقینی طور پر وہ ہم سے بہتر مسلمان ہیں۔ہمارا قصبہ مسلم باہلی چھہتر یعنی مسلم اکثریتی علاقہ ہے۔ کپڑے کی صنعت کے لیے بہت مشہور ہے۔ شاید ہی کوئی گلی ایسی ہوجس میں لکھ پتی اور کروڑپتی لوگ آبادنہ ہوں۔ یہ تجارت پیشہ افرادہیں مگران میں کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں جوان (اصل) مومنوں کی معیشت کوبہتربناسکے۔ وہ آج بھی مزدورہیں۔ ان کے بچے بھی مزدوری کرتےہیں۔جس قوم کا یہ حال ہو وہ بھلا کس طرح فلاح پاسکتی ہے۔ 
      مسلمانوں کابکھراہوامسموم معاشرہ کسی نوارد مسلمان کو خود میں ضم کرلینے کی صلاحیت سے محروم ہوچکا ہے۔وہ بھول گیا کہ جس رسول پر اپنی جان فداکرنےکاجھوٹادعوااورپروپیگنڈہ کرتاہے،اسی نبی ﷺ نےباربارفرمایاکہ ۔۔۔ مسلمان، مسلمان کابھائی ہے۔اس کے لیے وہی کچھ پسند کرے جو وہ خود اپنے لیے پسندکرتاہے۔۔۔۔ اسےنقصان نہ پہنچائے۔۔۔۔اس سےخیر خواہی کا معاملہ کرے۔۔۔۔،، 
       اس سے پہلے کہ ہم اقوم عالم کو اسلام کاپیغام دیں،ہمیں خود اس کے پیغام پر عمل کرنا ہوگا۔ہمیں اپنے کردار وعمل سے ثابت کرنا ہوگا کہ ہر مسلمان دوسرے مسلمان کابھائی ہےاور اپنے بھائی کےلیے وہی کچھ پسند کرتاہے جو وہ خود اپنے لیے پسند کرتاہے۔یہودیوں میں ایک روایت مشہورہےکہ جب فجر کی نماز کےلیے مسجدیں جمعہ کی نماز کی طرح بھرنےلگیں توسمجھ لو کہ یہودیت کا خاتمہ ہوچکا۔اس وقت ساری دنیا پر اسلام اورمسلمانوں کی حکمرانی ہو جائے گی۔،، 
      جس روز ایسا ہو گیا۔ وہ اسلامی انقلاب کاپہلا دن ہوگا۔تب کوئی مرتدنہ ہوگا۔کسی غیر مسلم کو اسلام قبول کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہ ہوگی۔ وہ سب
  کچھ چھوڑچھاڑکراسلام کے دامن سے لپٹ جائے گا۔اسے اٹھارہ کروڑ دیوی دیوتاؤں کی ضرورت نہ ہوگی۔ 
     ہمیں مرتد بچیوں کو گالیاں دینےاوربرابھلاکہنےسے پہلے اپنےلالچی،بےغیرت اور حریص بچوں کو گالیاں دیناچاہئیےاوراگرایمانی غیرت ہو تو خوداپنے آپ کو بھی گالیاں دےلیں۔اورخودہی کو برابھلاکہیں۔ 
       مرتد ہوجانے والی بچیوں کی فکر نہ کیجئے بلکہ اپنے بچوں کے لالچ اور ذہنی دیوالیہ پن کی فکرکیجئے۔ اپنی معاشرتی خرابیوں کے تدارک پرنگاہ کیجئے۔اپنی کوتاہیوں کو چھپانےکےلیےکالجوں اور یونیورسٹیوں کوبدنام نہ کیجئے۔۔
       تاریخ بتاتی ہےکہ جب بھی اسلام کےخلاف فتنے کھڑےکیےگئیے،اسےاورزیادہ ترقی اور عروج حاصل ہوا ہے۔#
        اسلام کو فطرت نے کچھ ایسی لچک دی ہے
        جتنا ہی دباؤ گے، ا تنا ہی یہ ا بھر ے گا

     نکالیں سیکڑوں نہریں کہ پانی کچھ تو کم ہوگا
      مگر پھر بھی مرےدریاکی طغیانی نہیں جا تی 
            انس مسرورانصاری
                            * دارالتحریر*
          قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن(رجسٹرڈ) 
         اردو بازار، ٹانڈہ۔ امبیڈکر نگر (ہو،پی)
                   رابطہ/9453347784/

بدھ, اگست 09, 2023

انڈیا مقابل این ڈی اے __مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمینائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

انڈیا مقابل این ڈی اے   __
Urduduniyanews 72
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

ہندوستان کی چھبیس چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں نے 2024کے الیکشن میں بھاجپا اور ان کی حلیف جماعتوں( جن کا اتحاد این ڈی اے کے نام سے جانا جاتا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ اس کے ساتھ چھوٹی بڑی چھتیس پارٹیاں ہیں )کو ہرانے کے لیے عظیم اتحاد ”انڈیا“ کے نام سے بنایا ہے، انڈیا کا مطلب ہے انڈین نیشنل ڈولپمنٹ انکلوزیو الائنس (I.N.D.I.A) یہ نام این ڈی اے پربھاری پڑ رہا ہے، جس کا مطلب ہوتا ہے نیشنل ڈیموکریٹک الائنس، بقول ممتا بنرجی این ڈی اے، انڈیا کو چیلنج نہیں کر سکتا، اس نام کا اعلان کانگریس کے صدر ملک ارجن کھرگے نے 18جولائی 2023کو بنگلور میں پٹنہ کے بعد حزب مخالف اتحاد کی دوسری میٹنگ میں کیا، اس نام کے اعلان سے ملکی سیاست میں ایک بھونچال سا  آگیا،اورلوگوں نے پہلی بار محسوس کیا کہ کانگریس کے پاس بھی تھنک ٹھینک ہے اور ان کے اندر بھاجپا کے نظریہ ساز ادارے کو مات دینے کی بڑی صلاحیت موجود ہے ، بھاجپا چاہے جو کہے؛ لیکن اس نے قومیت کے نام پر عوام کو گمراہ کرنے کے لیے ”اسکل انڈیا، ڈیجیٹل انڈیا“ جیسے نعروں کا استعمال کیا، اب ”انڈیا“ نام دے کر حزب مخالف نے اس کی ہوا نکال دی ہے۔
 بھاجپا نے اسی دن یعنی 18جولائی کو اپنے حلیف اڑتیس پارٹیوں کی میٹنگ بلائی، جس میں بھاجپا کے علاوہ کوئی قابل ذکر پارٹی موجود نہیں تھی، تعداد دکھانے کے لیے چراغ پاسوان کو بھی مودی جی نے گلے لگایا، جن سے پشوپتی پارس کے بغاوت کے بعد مکان خالی کرالیا گیا تھا، اور سامان سڑک پر نکال باہر کیا گیا تھا، تعداد بڑھانے کے لیے میگھالیہ کے وزیر اعلیٰ کو نراؤ سنگما کا بھی استقبال کیا گیا، جنہیں وزیر اعظم دنیا کی سب سے کرپٹ اور بد عنوان حکومت قرار دے چکے تھے،  مودی جی کا لب ولہجہ انتہائی جارحانہ تھا اور وہ ”انڈیا“ پر جم کر برسے، انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ ہندوستان کو لوٹنے والے لوگ ”انڈیا“ کے نام سے سر گرم ہو رہے ہیں، مودی جی نے اسی دن این ڈی اے کی میٹنگ کرکے حزب مخالف اتحاد کی خبروں کو دبانے کی کوشش کی، لیکن ”انڈیا“ کی خبر کو گودی میڈیا کے لیے یک سر نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہو سکا، اور وہ اپنی اہمیت کی وجہ سے پرنٹ میڈیا اور الکٹرونک میڈیا میں جگہ بنانے میں کامیاب رہی، اس محاذ پر بھی بھاجپا کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ 
حزب مخالف کی میٹنگ 17جولائی 2023کو بنگلور میں شروع ہوئی تھی، اسی دن این ڈی ٹی وی کی سینئر صحافی نغمہ سحر نے اپنے پروگرام ”سچ کی پڑتال“ میں لوگوں سے اس سوال کا جواب مانگا تھا کہ کیا حزب اختلاف 2024میں مودی کو شکست دے سکے گا، پینتیس ہزار لوگوں کی آرا آئیں، جن میں تراسی فی صد لوگوں نے ہاں میں جواب دیا، جبکہ پندرہ فی صد لوگوں کی رائے اس کے برعکس تھی، دو فی صد نے کچھ نہیں کہہ سکتے کہہ کر اپنی رائے دی ۔
اس جائزہ سے ایک رجحان سامنے ضرور آیا ہے، لیکن اسے حتمی نہیں کہا جا سکتا، البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ ”انڈیا“ نام کی وجہ سے حکمراں جماعت میں جو فکر مندی پائی جا رہی ہے، اس کی وجہ سے نئے نئے امکانات کے دروازے کھل سکتے ہیں، اور ہندوستانی مسلمانوں کو لبھانے کی کوشش بھی کی جا سکتی ہے، لیکن یہ صرف ”لبھاؤنا“ ہی ہوگا، بھاجپا اور آر ایس ایس کے نظریات ڈھکے چھپے نہیں ہیں اور انہوں نے مسلمانوں پر جو ظلم ڈھائے ہیں، ماب لینچنگ اور مختلف عنوانات سے قتل وغارت گری کا جو بازار گرم کیا ہے وہ تاریخ کا حصہ بن چکا ہے، اس لیے ہم سب کو ہوشیار خبردار اور بیدار رہنا چاہیے۔

ضیائے حق فاؤنڈیشن کی جانب سے انصاف ٹائمس کے چیف ایڈیٹر نوجوان صحافی سیف الرحمن کو اعزازیہ سند سے نوازا گیا۔

ضیائے حق فاؤنڈیشن کی جانب سے انصاف ٹائمس کے چیف ایڈیٹر نوجوان صحافی سیف الرحمن کو اعزازیہ سند سے نوازا گیا۔
اردودنیانیوز۷۲
 ضیائے  حق فاؤنڈیشن کی جانب سے انصاف ٹائمس کے چیف ایڈیٹر نوجوان صحافی سیف الرحمن کو اعزازیہ سند سے نوازا گیا۔
پھلواری شریف پٹنہ مورخہ  (پریس ریلیز :محمد ضیاء العظیم)
 نوجوان صحافی سیف الرحمن کو سماجی ومعاشرتی، اور صحافتی خدمات کی بنا پر ضیائے حق فاؤنڈیشن کی جانب سے محمد ضیاء العظیم برانچ اونر ضیائے حق فاؤنڈیشن پٹنہ کے ہاتھ اعزازیہ سند سے نوازتے ہوئے سیف الرحمن کو ضیائے حق فاؤنڈیشن کا ممبر بنایا گیا ۔
ڈاکٹر صالحہ صدیقی چئیر پرسن ضیائے حق فاؤنڈیشن نے بھی سیف الرحمن کو مبارکبادی پیش کرتے ہوئے کہا کہ ضیائے حق فاؤنڈیشن کے جملہ اراکین نئی نسل کے نوجوان صحافی سیف الرحمن کو مبارکبادی پیش کرتے ہوئے ان کے حق میں دعا گو ہیں، ضیائے حق فاؤنڈیشن خصوصی طور پر نئی نسل کے شعراء وادباء اور صحافی کی حوصلہ افزائی کرتا ہے ۔
سیف الرحمن کا تعلق  مظفر پور ضلع کے کٹائی سے سے ہے ،اس وقت آپ متبادل میڈیا میں اور زمینی سطح پر اپنی خدمات بڑی ذمہ داری سے انجام دے رہے ہیں ۔ آپ قوم وملت کا درد اپنے سینے میں رکھتے ہیں، 
سیف الرحمان نے مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد سے صحافت میں بیچلر اور ماسٹر کی ڈگری حاصل کی ہے۔
اس وقت آپ انصاف ٹائمس کے نام سے اُردُو،ہندی و انگریزی زبان میں آن لائن نیوز ویب سائٹ و یوٹیوب چینل چلا رہے ہیں جس کا ای-پپر و ای-میگزین بھی نکلتا ہے، سيف الرحمٰن اِنصاف ٹائمس کے چیف ایڈیٹر اور اُن کے  دوست افتخار عالم اُس کے ڈائرکٹر  ہے، دونوں نے اِنصاف ٹائمس کا قیام بہار میں متبادل میڈیا میں مسلمانوں،دلتوں اور خواتین سمیت دیگر بے آواز طبقات کی مضبوط آواز قائم کرنے کےلئے کیا ہے، اس کے علاوہ سیف الرحمٰن  روزنامہ سہارا کے مستقل  کالم نگار ہے اور اردو ،ہندی کے اخبارات و پورٹلس پر مستقل قومی،سماجی،ملکی مسائل پر لکھتے رہتے ہیں، ساتھ ساتھ ملت ٹائمز میں بھی بطور بیورو چیف کے اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں، صحافت کے علاوہ سیف الرحمٰن الیکشن منیجمنٹ و الیکشن ایڈورٹزمنٹ کی ایک کمپنی بھی سوشل امپیکٹ ٹیم (ایس.آئی.ٹی) کے نام سے چلا رہے ہیں جس کے موصوف كو-ڈائریکٹر ہے

ایوارڈ دیتے وقت ضیاء العضیم نے کہا کہ یقیناً اللہ رب العزت نے انسانوں کے مزاج کے مطابق اس دنیا کی تخلیق کرتے ہوئے نعمتوں کے انبار عطاء کر کے ان پر بےپناہ احسانات کئے ہیں ، اگر ان احسانات اور نعمتوں کو شمار کرنا چاہے تو ناممکن ومحال ہے، چنانچہ ارشاد ربانی ہے,, وَ اِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوْهَاؕ-
ترجمہ: 
اور اگر تم اللہ کی نعمتیں شمار کرنا چاہو تو انہیں شمار نہیں کرسکو گے۔ اور انہیں نعمتوں میں سے ایک نعمت صحافت کا علم بھی ہے،
اور صحافت وہ علم وفن ہے جو عدل وانصاف اور صداقت کا تقاضہ کرتا ہے، اور وصف صحافت دراصل سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ کہنے، لکھنے، اور پھیلانے کا نام ہے، ایک صحافی سماج ومعاشرہ میں بڑا ذمہ دار ہوتا ہے، کیوں کہ وہ سماج ومعاشرہ کا ایک بڑا نمائندہ ہوتا ہے ۔
کیوں کہ صحافت کسی بھی معاملے کے سلسلے میں تحقیق اور پھر اسے صوتی، بصری یا تحریری شکل میں بڑے  پیمانے پر قارئین، ناظرین یا سامعین تک پہنچانے کے عمل کا نام ہے۔صحافت پیشہ کرنے والے کو صحافی کہتے ہیں۔ گو تکنیکی لحاظ سے شعبہ صحافت کے معنیٰ کے کئی اجزاء ہیں لیکن سب سے اہم نکتہ جو صحافت سے منسلک ہے وہ عوام کو باخبر رکھنے کا ہے۔۔
واضح رہے کہ 
ضیائے حق فاؤنڈیشن کی بنیاد انسانی فلاح وترقی، سماجی خدمات، غرباء وفقراء اور ضرورتمندوں کی امداد، طبی سہولیات کی فراہمی، تعلیمی اداروں کا قیام، اردو ہندی زبان وادب کی ترویج وترقی، نئے پرانے شعراء وادباء کو پلیٹ فارم مہیا کرانا وغیرہ ہیں، فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام صوبہ بہار کے دارالسلطنت شہر پٹنہ کے پھلواری شریف  میں ضیائے حق فاؤنڈیشن کا برانچ، لائبریری اور ایک مدرسہ کاقیام ،، مدرسہ ضیاء العلوم،،عمل میں آیا ہے، جہاں کثیر تعداد میں طلبہ وطالبات دینی علوم کے ساتھ ساتھ ابتدائی عصری علوم حاصل کر رہے ہیں

منگل, اگست 08, 2023

قتل وغارت گری کی گرم بازاری ____✍️ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

قتل وغارت گری کی گرم بازاری ____
Urduduniyanews72 
✍️ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

 ہندوستان میں مودی دور حکومت میں نفرت کی سودا گری کو جس طرح رواج ملا اور مسلمانوں کے خلاف شعلہ بار تقریروں کاجو سلسہ شروع ہوا، اس نے ہندوستان کی فرقہ وارانہ یک جہتی اور گنگا جمنی تہذیب کو اس قدر نقصان پہونچایا کہ صدیوں میں اس کو پاٹنا اور خون کے دھبوں کو دور کرنا ممکن نہیں ہوگا، خون کے یہ دھبے برسات کے پانی سے دھوئے نہیں جا سکتے، اور نفرت کی اس سوزش نے قتل وغارت گری کا جو بازار گرم کیا ہے، اس سے نمٹنا آسان نہیں ہوگا۔
 ابھی چند دنوں قبل ہریانہ کے نوح اور گروگرام میں جو فساد پھوٹا اور گروگرام میں مسجد میں آگ لگا کر اور امام کو مار مار کر جس طرح شہید کیا گیا اس نے ہندوستان کی سیکولر عوام کو اندر سے بلا کر رکھ دیا ہے، اس کے بعد جے پور سے ممبئی جا رہی ٹرین میں چن چن کر قانو ن کے محافظ چیتن سنگھ کے ذریعہ قتل کرناتاریخ کا بد ترین واقعہ ہے، جسے برسوں بھلایا نہیں جا سکے گا۔
اس واقعہ پرگودی میڈیا حسب معمول قسم قسم کی توجیہات کر رہی ہے ، چیتن سنگھ ذہنی طور پر دباؤ میں تھا، اس کی افسر سے جھڑپ ہو گئی تھی وغیرہ وغیرہ، لیکن جو ویڈیو کلپ اس موقع کی سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے، اس میں وہ گولی مارتے وقت پاکستان سے آیا ہے، کہہ رہا ہے، پھر وہ تابڑ توڑ مسافروں پر گولیاں نہیں چلا رہا ہے، چن چن کر مسلمانوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔ کوچ کے دوسرے مسافر نہ تو اسے روک رہے ہیں اور نہ ہی اسے دبوچ رہے ہیں، بلکہ اطمینان سے تماشہ دیکھ رہے ہیں، جیسے انہیں یقین ہو کہ یہ جی آر ایف کا جوان اس کے ساتھ کچھ نہیں کرے گا۔ ایسی بے حسی جب کسی ملک کے شہریوں پر طاری ہوجائے تو اس ملک میں محبت ناپید ہوجاتی ہے اور نفرت کی کھیتی لہلہانے لگتی ہے۔
 گروگرام کے واقعہ میں پولیس کی موجودگی میں دو سو کی بھیڑ مسجد پر حملہ آور ہوتی ہے، امام مسجد حافظ سعد کو پہلے مار مار کر شہید کرتی ہے، پھر پٹرول چھڑک کر مسجد کو آگ لگادیتی ہے، پولیس خاموش تماشائی بنی رہتی ہے، اور پھر موقع سے فرار ہوجاتی ہے، نہ تو مسجد کو بچانے کی کوئی کوشش کرتی ہے اور نہ ہی امام کو بچانے کی، گویا قانون کے محافظ کے ذہن میں بھی نفرت گھس گئی ہے، اور وہ بھی دنگائیوں کے ساتھ ہوجارہے ہیں۔
نوح فساد کا اصل مرکز تھا، جسے بجرنگ دل کے علاقائی لیڈر مونو مانیسر نے ویڈیو کلپ بھیج بھیج کر بھڑکانے کا کا م کیا، مونو مانیسر 15فروری2023کو بھوانی میں جنید وناصر کو گاڑی میں زندہ جلانے کا فراری ملزم ہے، اس کا اصلی نام موہت یادو ہے، بجرنگ دل کا علاقائی لیڈر ہے، سیاسی آقاؤں کے اشارے پر اب تک اس کی گرفتاری نہیں ہو سکی ہے اور وہ کسی خفیہ مقام سے لوگو ں کو فساد کرنے پر اکسارہا ہے، سپریم کورٹ کی واضح ہدایت کے باوجود بجرنگ دل کے لوگ تھانہ کے سامنے مسلمان کرایہ داروں، حجاموں، ریڑھی اور ٹھیلہ والوں کو نکالنے کے نعرے لگا رہے ہیں اور پولیس گیٹ بند کرکے خاموش کھڑی ہے، یو سی سی کے مسئلہ پر ناکامی کے بعد بھاجپا کے پاس اب یہی ’’مدّا‘‘ رہ گیا ہے کہ فساد بھڑکا کر مسلمانوں میں خوف پیدا کرو اور اکثریتی رائے دہندگان کو متحد کر لو، اس کا مطلب ہے کہ یہ صرف ٹرائل ہے پوری فلم آنی ابھی باقی ہے۔
ان حالات میں متحدہ حکمت عملی تیار کرنے اور اس کو نافذ کرنے کی ضرورت ہے، ورنہ ہم کب تک مسلمانوں کی لاشیں اٹھاتے رہیں گے، قانون کے دائرہ میں رہ کر ہمیں کچھ پالیسی تیار کرنی ہوگی، مسئلہ کا حل یہ نہیں ہے کہ ہم بے گناہ قیدیوںکی رہائی اور ان کے مقدمات لڑ نے پر اپنی توانائی صرف کریں، یہ ایک کام ہے اور اس محاذ پر بھی محنت ہونی چاہیے، لیکن مسئلہ کا حل یہ ہے کہ ہم حکومت کو یہ باور کرائیں کہ
ظلم پھر ظلم ہے، بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
 خون پھر خون ہے بہتا ہے تو رنگ لاتا ہے
یا پھر یہ کہ
جب ظلم گذرتا ہے حد سے قدرت کو جلا ل آجاتا ہے
فرعون کا سر جب اٹھتا ہے موسی کوءی پیدا ہوتاہے

✍️ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہموسم باراں شروع ہو گیا ہے

موسم باراں   ___
Urduduniyanews72
✍️ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ
موسم باراں شروع ہو گیا ہے ، سخت اْمَس اور تمازت کے بعد تھوڑی بہت بارش کے ہونے سے جسم وجاں کو سکون ملا ہے، فصلوں کے بہتر ہونے کے امکانات بھی بڑھے ہیں، خشک ندی اور تالاب میں پانی جمع ہونے کی وجہ سے پانی کی قلت دو ر ہوئی ہے، اور چرند وپرند نے بھی راحت کی سانس لی ہے ، گھنگھور گھٹائیں، رم جھم بارش، مرطوب ہوائیں دل میں بھی ایک کیف وسرور پیدا کرتی ہیں اور ہر شئی کو زندگی مل جاتی ہے ، اللہ رب العزت کا ارشاد ہے۔ وجعلنا من المائ� کل شی حی ہم نے ہر جاندار چیز کو پانی سے بنایا، لیکن یہ پانی جب حد سے بڑھ جائے تو یہ زندگی کے ساتھ موت کا رقص بھی شروع کر دیتا ہے، اس کی کثرت سے کچے مکان گرجاتے ہیں، آب ودانہ اور غذائی اجناس کی قلت ہوجاتی ہے، آمد ورفت کے ذرائع مسدود ہونے کی وجہ سے جانوروں اور چھوٹے بچوں کی غذائی ضرورتوں کے پوری کرنے میں بھی دشواری ہوجاتی ہے ، لوگ یا تو کھلے آسمان کے نیچے زندگی گذارنے پر مجبور ہو تے ہیں یا پھر اونچے مکان کی چھت پر پناہ گزیں ہوجاتے ہیں، یہ منظر بڑا درد ناک ہوتا ہے ، موسم باراں کا سارا کیف وسرور کافور ہوجاتا ہے اور آدمی اپنی ضروریات کے لیے دوسروں کی طرف تکتا اور دیکھتا رہتاہے۔
 بد قسمتی سے بہار اس سے سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے،  بہار میں نیپال کے ذریعہ چھوڑا ہوا پانی بے قابو ہو جاتا ہے اور کئی اضلاع کو متاثر کرجاتا ہے، نیپال کی پریشانی یہ ہے کہ اس کے یہاں پہاڑ ی ندیاں ہیں، جن میں گہرائی نہیں ہوتی، وہ اْتھلی ہوتی ہیں، ان کے اندر پانی کی لہروں اور روانی کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی ، ڈیم کے ذریعہ روک کر پانی کام میں لایا جاتا ہے اور بہت بڑھ جائے تو گیٹ کھول کر سرحدی اضلاع میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔
 بہار کی حکومت یقین دہانی کراتی ہے کہ امسال سیلاب پر قابو پانے کی کارگر ترکیبیں کی گئی ہیں، لیکن جب بارش ہونے لگتی ہے تو کار گر ترکیبیں حکومتی سطح کی دوسری ترکیبیوں کی طرح ناکام ہوجاتی ہیں، اور عوام کو مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، بچاو¿ کی تدابیر اور ضروری سامانوں کی سپلائی کا بڑا حصہ ان سوراخوں کے ذریعہ جواب اس ملک کا مقدر بن گیے ہیں، ضرورت مندوں کے بجائے دوسروں تک پہونچ جاتے ہیں، اور ضرورت مند منہہ دیکھتا رہ جاتا ہے۔
 امسال ابھی بارش شروع ہی ہوئی ہے متھلانچل کے علاقہ میں بھی سیلاب کی تباہ کاری کے امکانات ہیں، اگر اس کی نوبت آجائ� ے تو امداد وتعاون کے لیے قریب کی ان آبادیوں کو جن کو اللہ رب العزت نے اس پریشانی سے محفوظ رکھا ہے دست تعاون دراز کرنا چاہیے تاکہ فوری طور پر امداد رسانی کا کام ممکن ہو سکے ، ایسے موقع سے بعض تنظیمیں بھی آگے آتی ہیں، خصوصا امارت شرعیہ جس کا امتیاز ایسے موقع پر بڑے پیمانے پر راحت رسانی کا رہا ہے اور اس کے امداد بہم پہونچانے کی ایک روشن تاریخ رہی ہے ، یہ سب اہل خیر کی توجہ سے ہی انجام پاتا ہے ، اس موقع سے امارت شرعیہ کے ضلع اور بلاک کے صدر سکریٹری ، نقیب اور ارکان کے ساتھ عام مسلمانوں کو بھی مستعد رہنا چاہیے، کیوں کہ زمانے کی گردش سڑک پر چلنے کی طرح سیدھی سیدھی نہیں ہوتی، اس کی گردش دائرے کی شکل میں ہوتی ہے، جو لوگ ابھی بچے ہوئے ہیں اور گردش میں وہ دائرے کے اوپر والے حصے میں ہیں، اگر انہوں نے نیچے جانے والے پریشان حال لوگوں کا ہاتھ پکڑے نہیں رکھا تو اگلی گردش میں وہ نیچے ہوں گے اور چونکہ انہوں نے خود اوپر ہونے کے وقت نیچے والے کا ہاتھ نہیں پکڑے رکھا تھا، اس لیے اب جو مصیبت ان پر آئے گی، اس میں ان کا پرسان حال کوئی نہیں ہوگا، اس لیے ایسے موقعوں پر دست تعاون دراز کرنے کا مزاج بنائیے۔تعاون کا اصل اجر تو اللہ ہی کے پاس ہے۔

پیر, اگست 07, 2023

فسادات کی روک تھام کا نبوی طریقہ ہمایوں اقبال ندوی نائب صدر، جمعیت علماء ارریہ وجنرل سکریٹری ،تنظیم أبناء ندوہ پورنیہ کمشنری

فسادات کی روک تھام کا نبوی طریقہ 
Urduduniyanews72 
ایک ویڈیو میوات سے موصول ہوئی ہے،ہرادران وطن کی ایک جماعت نےاسے وائرل کیا ہے،اس میں  پہلے ہرشخص نےاپنا نام اور پتہ بتایا ہے، پھر اپنی بات پیش کی ہے، اس کی ابتدا اسطرح ہوتی ہے؛" نمسکار ساتھیو! میرا نام ہے کرن سنگھ، گاؤں سولنبا،تحصیل نوح، ضلع میوات، یہ گاؤں میوات چھیتر میں آتا ہے،دوسرے لوگوں کو ایسا لگتا ہے کہ میوات کے لوگ ہمیں پریشان کرتے ہیں، میوات کو بدنام کرنے کے لئے ایسا کہا جارہا ہے،اور یہاں کے ماحول کو خراب کرنے کے لئے کیا جارہا ہے، ابھی کل پرسوں جو حادثہ ہوا ہے،یہ باہر کے لوگوں نے کیا ہے، سرکار اس کی پوری طرح سے جانچ کرے، اور اس پر اچت کارروائی کرے، اس کے بعد راجیش کمار جی نے کہا ہے کہ؛"ہمارے یہاں بہت بڑھیاں بھائی چارہ ہے،یہاں امن چین سے ہم رہتے ہیں، یہاں ہمیں کوئی دقت نہیں ہے،باہر کے لوگ آکر ماحول خراب کرتے ہیں" نیزدرجن بھر سے زائد برادران وطن نے بھی یہی باتیں  آن کیمرہ اس ویڈیو میں پیش کی ہیں ۔
میوات یہ مسلم اکثریتی علاقہ ہے،فرقہ پرست لوگ اسے آگ کی نذر کردینا چاہتے ہیں، مگر یہ خوشی کی بات ہے کہ ہندو مسلم یہاں ایک ساتھ رہتے ہیں، اور آپس میں بھائی چارہ اور پیار ومحبت کی فضا یہاں بنی ہوئی ہے، اسی لئے فسادیوں کو میوات میں خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی ہے،دنگائیوں نے گروگرام ودیگر مقامات پراپناغصہ نکالنے کی کوشش کی ہے، ایک مسجد پر رات کی تاریکی میں حملہ کرکے نائب امام کو گولی ماری گئی، نیزمسجد کونذر آتش کرکے اپنے آتش غضب کو ٹھنڈا کرنے کی ناکام سعی کی گئی ہے ، جبکہ گروگرام ہی میں دوسری جگہ فضیحت کا بھی فسادیوں کو سامنا ہوا ہے، سوہنا کی شاہی مسجد پر بھی ایک ہجوم نے حملہ کیاتھا، مگر وہاں پڑوس میں رہنے والے سکھ بھائیوں نے مسجد کے امام صاحب اور پڑھنے والے بچوں کو اپنی جان پر کھیل کر بحفاظت نکال لیا ہے،یہاں پربھی فسادیوں کو منھ کی کھانی پڑی ہے۔
آج ملک میں جہاں بھی دنگا ہوتا ہے، اس کے پیچھے گاؤں وسماج اور شہر کے سمجھدار لوگ نہیں ہیں، گاؤں، شہر اور ریاست سے باہرکے لوگ اس مقصد کے لئے امپورٹ کئے جاتے ہیں، ابھی  دہلی فساد میں بھی یہی دیکھنے میں آیا تھا، اور اب میوات اور ہریانہ فساد میں بھی یہی دیکھنے میں آرہا ہے۔میوات کو فساد میں جھونکے کی کوشش جنید اور ناصر کے قاتلوں نے کی ہے،یہ سبھی جانتے ہیں، یہ میوات سے باہر کے رہنے والے ہیں، ہنوز آزاد گھوم رہے ہیں، مگر سزا مقامی لوگوں کو دی جارہی ہے،میوات میں دکان ومکان بلڈوزگئے جارہے ہیں، دوسری طرف شرپسند عناصر جو باہر کے ہیں نقاب  پہن پہن کر غریبوں پر حملہ کررہے ہیں،ماحول ہنوز پر امن نہیں ہواہے،اس کی اصل وجہ کارروائی صحیح سمت میں نہیں ہورہی ہے،  ہریانہ کی ریاستی حکومت سے بہت زیادہ پر امید ہونے کی بھی ضرورت نہیں ہے،فساد کیوں ہوا؟ اس سوال کے جواب میں ریاستی وزیر داخلہ نے کہاکہ یہاں کی آبادی دو کروڑ کی ہے اور ساٹھ ہزار پولس کیا کرسکتی ہے؟ اس سے تو صاف حکومت کی نااہلی جھلکتی ہے۔
                ہم کو ان سے ہےوفا کی امید 
                جو جانتے نہیں وفا کیا ہے 

آج ہم اپنے طور کیا کرسکتے ہیں؟ فسادات کی روک تھام کے لئے کیا قربانی پیش کرسکتے ہیں؟ اور کونسا طریقہ اپناتے ہیں؟ ان عناوین پر غور وفکرکی ضرورت ہے، میوات سے اپنی ویڈیو کےذریعہ ہندو بھائیوں نے بڑا اہم پیغام دیا ہے،اس طرح کے لوگ ہر گاؤں، ہر سماج ،ہر شہراور ملک کی ہرریاست میں بستے ہیں،  سماج کے ان انصاف پسند لوگوں کو متحد کرکے ہم اندرون وباہر دونوں طرح کے حملوں سے اپنی حفاظت کا سامان کرسکتے ہیں، اپنے گاؤں،شہر اور سماج کو فساد کی شر سے محفوظ کرسکتے ہیں، یہ ذمہ داری ہم مسلمانوں پر عائد ہوتی ہے، اسلام امن وسلامتی کی گارنٹی دیتا ہے،اور پیغمبر اسلام محمد صلی علیہ وسلم امن کے علمبردار رہے ہیں، قرآن میں یہ اعلان موجود ہے؛حقیقت یہ ہے کہ تمہارے لئے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں ایک بہترین نمونہ ہے، (سورہ احزاب )
قرآن کریم کی اس آیت میں یہ پیغام دیا گیا ہے کہ ہر معاملہ نبی صلی اللہ کی  ذات کو اپنا آئیڈیل بنانے کی ضرورت ہے،  عقائد وعبادات، معاملات واخلاق، معاشرت ومعاشیات اور سیاست میں بھی آپ صلی علیہ وسلم کی ذات ہمارے لئے نمونہ ہے،
جن حالات سے ملک میں ہم سب اس وقت  دوچار ہیں، پیغمبر اسلام اور مسلمانوں کو بھی ان کا سامنا ہوا ہے، مدینہ شہر رسول بھی دشمنوں کے نرغے میں رہا ہے،داخلی وخارجی دونوں طرح کے حملوں کے بیچ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا لائحہ عمل کیا رہا ہے؟ اسے معلوم کرنے اور عمل میں لانے کی آج شدید ضرورت ہے۔
 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں  طرح کے حملوں کاسد باب مدینہ پہونچتے ہی مسلمانوں اور یہودیوں کےدرمیان معاہدہ  کے ذریعہ ک

یا ہے، سیرت کی کتابوں میں اس کی تفصیل لکھی ہوئی ہے،معاہدہ کےخاص نکات یہ ہیں؛
یہود اور مسلمان باہم دوستانہ برتاؤ رکھیں گے، یہود یا مسلمانوں کو کسی سے لڑائی پیش آئے گی تو ایک فریق دوسرے کی مدد کرے گا، کوئی فریق قریش کو امان نہیں دے گا،مدینہ پر حملہ ہوگا تو دونوں فریق شریک یکدیگر ہوں گے،(سیرت النبی)
 آج اس نوعیت کےمعاہدہ سے ہم تاریخی کارنامہ انجام دے سکتے ہیں، سد بھاونا کےنام پربڑےبڑےاجلاس منعقدکئےجاتےہیں،ہر دھرم کےلوگ اسمیں شامل ہوتے ہیں ،تو پھر کیوں  نہیں گاؤں یا شہر کی حفاظت کے نام پر مقامی لوگوں  کوہم اکٹھا کرسکتے ہیں،  بستی میں جب آگ لگتی ہے تو دھوان ہرجگہ پہونچتا ہے، اور نقصان پورے گاؤں کا ہوجاتا ہے۔راحت اندوری نے کیا خوب کہا ہے؛
          لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں 
           یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے

یہی پیغام لیکر حضرت علی میاں رحمۃ اللہ علیہ کھڑے ہوئے تھے، پیام انسانیت کے نام پر لوگوں کو ایک جگہ بلاکر انسانیت کی بات کہتے،اور" مانوتا کا سندیش" کے عنوان پر دراصل معاہدہ والی سنت رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی احیاء فرمارہے تھے، افسوس کہ اس نازک  وقت مولانا ہمارے درمیان نہیں ہیں،مگر ہم زندہ ہیں تو زندگی کا ثبوت پیش کریں،اگر ایسا ہم نے کر لیا تو بڑی کامیابی ہمیں نصیب ہوگی، ان شاء اللہ العزیز ہم ان منصوبہ بند فسادات کا سد باب کرسکتے ہیں، برادران وطن ہمارے ساتھ ہیں، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے والے کی دنیا وآخرت دونوں کامیاب ہوتی ہے۔
ہمایوں اقبال ندوی 
نائب صدر، جمعیت علماء ارریہ 
وجنرل سکریٹری ،تنظیم أبناء ندوہ پورنیہ کمشنری 
۷/اگست ۲۰۲۳ء

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...