Powered By Blogger

اتوار, اگست 13, 2023

تحریک آزادی اور امارت شرعیہ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

تحریک آزادی اور امارت شرعیہ
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ(9431003131)
امارت شرعیہ کے اکابر نے غلام ہندوستان کو آزاد کرانے کے لئے جو جہد کی، وہ تاریخ کا روشن باب ہے،ترک موالات، خلافت تحریک اورانڈی پینڈینٹ پارٹی کا قیام تحریک آزادی کو ہی کمک پہونچانے کی ایک کوشش تھی، بانی امارت شرعیہ حضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد علیہ الرحمہ(ولادت ۱۳۰۱ھ۔وفات ۱۳۵۹ھ)حب الوطنی کے جذبہ سے سرشار تھے اور ان کے متعلقین ومتوسلین مختلف انداز میں جدوجہدآزادی میں شریک رہے،کامریڈتقی رحیم لکھتے ہیں: ’’امارت کے تمام رہنما اور اہم کارکن مذہبی اثر ورسوخ کے حامل ہونے کے ساتھ جانے ہوئے کٹر سامراج مخالف سیاہی رہنما بھی تھے، مولانا مشہود احمدندوی قادری موجودہ پرنسپل مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ ،امیر شریعت اول مولانا سید شاہ بدرالدین قادری ؒ پر لکھے گئے ایک مضمون میں مولانا محمد سجادؒ کا تعارف ان الفاظ میں کراتے ہیں:’’ایک مرد مجاہد اورآزادی کے سرخیل وعلم بردار حضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجادؒ جو قت اور زمانہ کے حالات کو دیکھ رہے تھے اورحالات کے صحیح نباض تھے‘‘۔(ہمارے امیر۸،مرتبہ مولانا رضوان احمد ندوی)
مولانانورالحق رحمانی رقم طراز ہیں:’’آپ مجاہد اعظم اور جنرل سپاہی بھی تھے، جب پہلی جنگ کی تیزوتند ہوا چلی اورزبردست طوفان اٹھا تو بہت سی قدآور شخصیت پستہ ہوگئیں ،لیکن آپ مستحکم چٹان کی طرح جمے رہے، آپ حضرت شیخ الہند اورحضرت شیخ الاسلام کے ساتھ جنگ آزادی میںشریک رہے، جب حضرت شیخ الہندؒنے ۱۹؍جولائی ۱۹۲۰ء کو ترک موالات کا فتویٰ دیا تواس کو مرتب کرکے ۴۸۴ دستخطوں کے ساتھ شائع کرنے والی آپ ہی کی شخصیت تھی(ہمارے امیر۳۹)مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد ؒ نے خطبۂ صدارت اجلاس مرادآباد میں آزادی کی لڑائی کے لئے ہندو مسلم کو متحد کرنے کی بات کہی، مولانا نے فرمایاکہ گھر کے غیر مسلم قوموں سے پہلے مصالحت وموادعت کی جائے، پھر بیرونی دشمنوں سے گھر کی حفاظت کی جائے،مولانامحمد سجاد ؒ محمد علی جناح کو اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں:’’اصلی فساد ہلاکت کا سرچشمہ برٹش حکومت کا دستور حکومت ہے یہ روگ بمنزلہ سل ودق کے ہے اور فرقہ وارانہ فسادات یانوکریوں یا وزارتوں میں حق تلفی بمنزلہ پھوڑا پھنسی کے ہے‘‘(مکاتب سجاد۲۵)آگے لکھتے ہیں:’’جناب کو معلوم ہے کہ اس کا علاج بجز اس کے کیاہوسکتا ہے کہ حکومت کے موجودہ سسٹم میں کلیۃ انقلاب برپا کیاجاجائے،لیکن یہ انقلاب صرف تحریروں، تقریروں،جلسوں اور جلوسوں سے حاصل نہیں ہوسکتا اورنہ صرف ظالموں کو برا کہنے سے، اس کے لئے ہمیشہ صرف ایک اصول ہے کہ ظالموں اور جابروں کے استبداد کو ختم کرنے کے لئے اور اقامت عدل وانصاف ورضائے الہی کے لئے مظلوم قوم اپنے جان ومال کی قربانی پیش کرے اور اس اصول پر عمل کرنے کے لئے دو طریقے امتداد تاریخ عالم انسانی سے رائج ہیں، ایک طریقہ جہاد بالسیف ہے اور دوسرا طریقہ بغیر مدافعت جہاد اعلان حق اور تسلیم باطل سے قولاوعملاانکار ،جس کو حرب سلمی بھی کہتے ہیں اور عرف عام میں عدم تشدد کے ساتھ سول نافرمانی‘‘(مکاتب سجاد۲۷)
مسلم لیگ نے آپ کے حرب سلمی کے مشورے کو نہیں مانا تو مولانا کو اس کا بہت افسوس ہوا، محمد علی جناح کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں’’مجھے افسوس ہے کہ مسلم لیگ نے اصل مقصد کو پیش نظر رکھ کر برٹش شہنشایت کے خلاف حرب سلمی کے ذریعہ محاذ جنگ میں قدم رکھنے کا فیصلہ نہیں کیا، معلوم ہوتاہیکہ مسلم لیگ کی رہنمائی جن ہاتھوں میں ہے ان کی اکثریت آج بھی انگریزوں پر اعتماد رکھتی ہے(مکاتب سجاد ۳۲)مولانا نے گانگریس کے ترک موالات کی تجویز کی حمایت میں ایک فتویٰ بھی لکھ کر شائع کیا،سری کرشنا سنگھ اپنے تحقیقی مقالہ ۱۶۸ پر لکھتے ہیں:ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق وہ بہار میں علماء کی تحریک کو جنم دینے والے ایسے خطرناک اور کٹر انتہاپسند تھے  جس نے ابوالکلام آزاد اورپان اسلامزم کے دوسرے بڑے داعیوں سے مل کر یہاں سب سے پہلے ایجی ٹیشن شروع کیا(بحوالہ جدوجہد آزادی میں بہار کے مسلمانوں کا حصہ ص۲۳۳)
امارت شرعیہ کے پہلے امیر شریعت حضرت مولانا سید شاہ بدرالدین قادری ؒ (ولادت ۱۸۵۲ء ،وفات ۱۹۲۴ئ) اس معاملہ میں اس قدر حساس تھے کہ ۱۹۱۵ء مطابق ۱۳۳۳ھ میں آپ کی علمی خدمات اور بااثر شخصیت ہونے کی وجہ سے انگریزوں نے انہیں شمس العلماء کا خطاب اور تمغہ دیا تھا، جسے بعض وقتی مصالح کی وجہ سے آپ نے قبول بھی کرلیا تھا،یکم اگست ۱۹۱۹ء مطابق ۱۳۳۸ھ میں خلعت وتمغہ دونوں کمشنر کو واپس کردیا اورلکھاکہ:’’میں اپنے دلی رنج وغم کا اظہار اس میں سمجھتاہوں کہ اپنے خطاب شمس العلماء ،خلعت وتمغہ وعطیہ سلطنت برطانیہ کو واپس کردوں؛ تاکہ اراکین سلطنت ہم لوگوں کے اس بے انتہا رنج وغم کا اس سے اندازہ کرلیں (ہمارے امیر ص ۷)مولانا کا یہ ردعمل برطانوی حکومت کے ذریعہ ہند وبیرون ملک پر ان ظالمانہ رویہ اور غیر منصفانہ اقدام کے نتیجہ میں سامنے آیا جو انگریزوں نے روا رکھا تھا، اس کی وجہ سے حضرت امیر شریعت اول انگریزوں سے سخت نفرت کرتے تھے اور وہ ان شرائط کو بھی ماننے کو تیار نہیں تھے جو انگریزوں نے ترک   مسلمانوں کو ذلیل کرنے کے لئے لگائے تھے،امیر شریعت اول نے تحریک خلافت اور تحریک موالات میں بھی حصہ لیا اور اپنے حلقہ کو اس پر آمادہ کیاکہ وہ ملک کی آزادی کے لئے کام کریں۔کامریڈتقی رحیم لکھتے ہیں:’’بہار میں عدم تعاون کا افتتاح بہاری مسلمانوں کے سب سے بڑے مذہبی رہنما مولانا شاہ بدرالدین قادری پھلواری شریف نے اپنے خطاب شمس العلماء کی واپسی سے کیا‘‘( جدوجہد آزادی میں بہار کے مسلمانوں کا حصہ ص۱۸۹)
 امیر شریعت ثانی مولانا محی الدین قادری اورمولانا سید شاہ قمرالدین رحمھما للہ نے تحریک ترک موالات اور تحریک خلافت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، کامریڈ تقی رحیم لکھتے ہیں:’’امارت شرعیہ کے اثر میں آکر بہار کے مسلمان اپنے امیر کی ہدایت کے بموجب آزادی کی جدوجہد میں کانگریس کی مدد کرنے کو اپنا ضروری مذہبی فرض ماننے لگے تھے۔
امیر شریعت رابع حضرت مولانا سید شاہ منت اللہ رحمانیؒ (ولادت ۱۹۱۲،وفات ۱۹۹۱ئ)شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی کے انتہائی معتمد اور چہیتے شاگرد تھے، جب حضرت مدنی جیل میں تھے توآپ نے بھی آزادی کی لڑائی کو تیز کرنے کے لئے جیل کی صعوبتیںبرداشت کیں،دوبار جیل گئے اور جدوجہدآزادی میں اپنا حصہ ادا کیا،مولانا منت اللہ رحمانیؒ نے جدوجہد آزادی میں جو عملی اقدامات کئے اس کی وجہ سے وہ میرٹھ، مظفرنگر، سہارن پور ضلع میں تحریک آزادی کے ذمہ دار(ڈکٹیٹر)بنائے گئے، آزادی کے لئے بڑے مصائب جھیلے۔۱۹۳۶ء میں مسلم انڈپینڈنٹ پارٹی کے ٹکٹ پر آپ کامیاب بھی ہوئے، لیکن ۱۹۴۰ء میں پارلیمانی سیاست سے آپ کنارہ کش ہوگئے، حافظ امتیاز رحمانی اپنے مضمون ’’جنگ آزادی اور حضرت امیر شریعتؒ میں لکھتے ہیں:’’پارلیمانی سیاست سے علحدگی کا یہ مطلب نہیں کہ حضرت نے تحریک آزادی سے اپنے آپ کو الگ کرلیا تھا یا خانقاہ رحمانی کے مریدین ،مخلصین اور متوسلین کو یہ ہدایت دی کہ وہ تحریک آزادی سے اپنے آپ کو الگ کرلیں، حضرت نے ملک وملت کے وسیع تر مفاد کے پیش نظر سرگرمی کے ساتھ جدوجہد جاری رکھی اورتحریک آزادی کی جدوجہد میں جو خفیہ سرکلر،پوسٹر اور پمفلٹ شائع ہوکر بہار کے بڑے حصے میں تقسیم ہوا کرتے تھے ،ان کی طباعت کا سب سے بڑا مرکز خانقاہ رحمانی تھا(امیر شریعت حضرت مولانا منت اللہ رحمانی،مرتبہ مولانا عمیدالزماں قاسمی ص ۴۷۹)
پانچویں امیر شریعت حضرت مولانا عبدالرحمن صاحب(ولادت۱۹۰۳، وفات ۱۹۹۸) بھی سچے محب وطن اور جدوجہد آزادی میں اکابرامارت کے شانہ بشانہ رہے، مولانا انیس الرحمن قاسمی سابق ناظم امارت شرعیہ لکھتے ہیں:’’آپ سچے محب وطن اور مجاہدآزادی بھی تھے، جنگ آزادی میں بے لوث حصہ لیا تھا، ڈاکٹر سید محمود ،ڈاکٹر راجندر پرساد سابق صدر جمہوریہ کی قیادت میں چھپرہ شہر میں کام کیا، حق منزل جو اس زمانہ میں سیاسی سرگرمیوں کا مرکز تھا، وہاں قیام کرتے(ہمارے امیر ۲۵)
چھٹے امیر شریعت حضرت مولانا سید نظام الدین صاحبؒ (۱۹۲۷،وفات ۲۰۱۵ئ)آزادی کی تحریک کے وقت بالکل جوان تھے اور دارالعلوم دیوبند کے اساتذہ کے ذریعہ چلائی جارہی تحریک کے دست وبازو تھے۔مولانا شاہ فیاض عالم ولی اللہی جدجہد آزادی میں اپنے اور مولانا سید نظام الدین کے رول کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’ہم دونوں دیہاتوں میں نکل جاتے اورلوگوں کو انگریزوں کے خلاف بھڑکاتے ،راستہ میں کھانے کے لئے جھولے میں بھنے ہوئے چنے او رگڑ رکھ لیتے تھے، کھانا ملاتو کھالیانہیں تو چنے اور گڑکھاکر پانی پی لیا، (باتیں میر کارواں کی، از عارف اقبال ۱۶۶)
ان کے علاوہ قاضی حسین احمد صاحب جو امارت شرعیہ کے ایک زمانہ میں ناظم تھے، آزادی کے لئے ان کی محنت قابل رشک تھی،ترک موالات کے مسئلہ سے دوسرے قائدین کی طرح قاضی احمد حسین بھی متفق تھے، انہوں نے اس سلسلے میں گاندھی جی سے ملاقات کی، اور ملک کی آزادی میں روس اور افغانستان کے تعاون سے انگریزوں کو ہندوستان سے نکالنے کی تجویز رکھی، گاندھی جی نے اس تجویز سے اتفاق نہیں کیا،ان کی سوچ تھی کہ دوسروں کے بل پر اگر ہم آزادی حاصل کریں گے تو برطانیہ سے نکل کر دوسرے معاون ملکوں کے رحم وکرم پرہو جائیں گے، انہوں نے واضح لفظوں میں قاضی احمد حسین صاحب کو کہاکہ ’’ہندوستان میں خود اتنی طاقت ہونی چاہئے کہ وہ بلابیرونی مدد کے آزاد ہو اور تب وہ اپنی آزادی کی حفاظت کرسکے گا‘‘۔
گاندھی جی سے ان کی یہ ملاقات چھپی نہیں رہ سکی ،انگریزحکومت کے جاسوس ان کے پیچھے لگ گئے اوران کی گرفتاری کا فیصلہ ہوا، چنانچہ ۱۹۲۱ء میں خلافت کانفرنس گیا کے دفتر سے قاضی صاحب کی گرفتاری عمل میں آئی، شاہ محمد عثمانؒ لکھتے ہیں:’’قاضی صاحب کو دفعہ ۱۲۴ الف بغاوت کے الزام میں چھ ماہ کی سزائے قید بامشقت دی گئی تھی، وہ جب گرفتار ہوئے تو شہر میں دکانین احتجاج کے طور پر بند ہوگئیں، اسکول بند کردئے گئے، سرکاری دفاتر میں بھی بہت سے لوگ نہیں گئے گھے، وہ رہاہوئے تو اسٹیشن پر ان کے استقبال کو آدمیوں کا ہجوم جمع تھا، پلیٹ فارم اور اسٹیشن کا کمپائونڈ اوراس سے باہر سڑکوں پر لوگ جمع تھے اور نعرے لگارہے تھے(حسن حیات ۶۰۰۶۱)
 ان کے علاوہ بہت سارے امارت شرعیہ کے نامور لوگوں نے بھی اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر کام کیا، مثال کے طورپر مولانا مفتی ظفیرالدین صاحب مفتاحی، شیخ عدالت حسین، حافظ محمد ثانی وغیرہ کا نام لیا جاسکتاہے۔ڈاکٹر ابولکلام قاسمی شمسی لکھتے ہیں:’’جنگ آزادی میں امارت شرعیہ نے اہم رول ادا کیا، اس سے منسلک ،دانشوران اور عوام نے تحریک آزادی میں بھرپور حصہ لیا، ان میں سے مولانا محمد سجاد،مولانا سید شاہ محی الدین امیر شریعت مولانا شاہ محمد قمرالدین، مولانا سید منت اللہ رحمانی ،قاضی احمد حسین، مولانا عبدالوہاب، مولانا حافظ محمد عثمان، مولانا عثمان غنی، شیخ عدالت حسین، سعیدالحق وکیل،ڈاکٹر سیدعبدالحفیظ فردوسی، مسٹر محمد یونس بیرسٹر، مولانا عبدالصمدرحمانی، مسٹر محمد محمود بیرسٹر،مسٹرخلیل احمد ایڈوکیٹ کے علاوہ سیکڑوں علماء ہیں(تحریک آزادی میں علماء کرام کا حصہ ۳۰۲)
امارت شرعیہ کے پہلے ناظم،مفتی اور امارت شرعیہ کے ترجمان جریدہ امارت اور نقیب کے مدیر محترم مولانا محمد عثمان غنیؒ نے جدوجہد آزادی میں اپنے قلم کے ذریعہ مجاہدین میں جوش وجذبہ اور حوصلہ پیدا کیا، آپ کی تحریروں نے انگریزوں کو بے حد پریشان کیا، جس کے نتیجہ میں امارت کے پرچے ضبط ہوئے، ضمانت طلب کی گئی،مولانا محمد عثمان غنیؒ کو جیل کے اندر ڈالا گیا، لیکن یہ مرد مجاہد اس قدر حب الوطنی کے جذبہ سے سرشار تھاکہ قید وبند کی صعوبتیں بھی اس کے قلم کو روک نہیں سکیں اور ’’امارت‘‘ کو بالآخر بند کردینا پڑا، اس کے بعد’’ نقیب‘‘ کے نام سے امارت کا ترجمان نکلناشروع ہوا،جوآج تک نکل رہاہے، آزادی سے قبل تک اس نے انگریزوں کے خلاف قلمی جہاد کیا،اورآزادی کے بعد مسلمانوں کو متحد ومتفق کرنے ،اصلاح معاشرہ اوراہم موضوعات پر اس کے مضامین ومقالات آج بھی موثر کردار ادا کررہے ہیں۔
میں نے اپنے ایک مضمون ’’بے باک صحافی۔ مولانا مفتی محمد عثمان غنی‘‘ میں لکھاتھا:’’آپ کی تحریروں میں حکومت برطانیہ پر جارحانہ تنقید ہواکرتی تھی، اوریہ تنقید حکومت لئے ناقابل برداشت تھی، کئی بار مقدمہ چلا، ۸؍مئی ۱۹۲۶ء کے ایک اداریہ پر حکومت نے اس شمارہ کو ضبط کرلیا اور سرکار انگلیشہ نے بغاوت کا مقدمہ کردیا،۲؍نومبر ۱۹۲۶ء کو نچلی عدالت سے ایک سال قید اور پانچ سو روپے جرمانہ کا حکم دیا تھا، ایک ماہ جیل میں رہنے کے بعد ۲۷؍دسمبر ۱۹۲۶ء کو عدالت عالیہ سے ضمانت منظور ہوئی، قید کی سزا ختم ہوگئی، مگر جرمانہ بحال رکھا گیا۔
۱۹۲۷ء اگست میں بتیا فساد کے موقع سے ۲۰؍صفر ۱۳۴۶ھ مطابق ۱۹؍اگست ۱۹۲۷ء کا ایک اداریہ پھر حکومت کی جبین اقتدار پر شکن کا سبب بن گیا، دفعہ ۱۵۳(ایف) کے تحت مقدمہ چلا، ایک سال قید ،ڈھائی سو روپے جرمانہ کی ادائیگی کا حکم ہوا، سرعلی امام نے مولانا کی طرف سے اس مقدمہ میں پیروی کی، ایک روز جیل میں رہنے کے بعد ضمانت ملی، ڈسٹرکٹ جج کے یہاں سے ۳۰؍اپریل ۱۹۲۸ء کو مولانا کو انصاف ملا اور وہ بری کردئے گئے، تیسری بار پھر ایک اداریہ کی وجہ سے ۱۳۵۲ھ میں حکومت بہار نے ایک ہزار روپے کی ضمانت طلب کی، امارت شرعیہ کے ذریعہ اس جرمانہ کی ادائیگی ممکن نہیں ہوئی اور ’’امارت‘‘کو بند کردینا پڑا۔مولانا ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی شمسی لکھتے ہیں:’’امارت شرعیہ کے پندرہ روزہ جریدہ’’امارت ‘‘نے اپنے انقلابی مضامین کے ذریعہ لوگوں کے دلوں میں جوش آزادی پیدا کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا، اس کے باغیانہ وانقلابی مضامین کی وجہ سے انگریزوں نے اس پر مقدمہ چلایا اورجرمانہ عائد کیا، بالآخر اس کو بند کردیناپڑا(تحریک آزادی میں علماء کا حصہ ۲۰۳)شاہ محمد عثمان ؒ کے ان جملوں پر اپنی بات کو ختم کرتاہوں ،لکھتے ہیں:’’امارت شرعیہ  اورجمعیۃ علماء کے لوگ تو جنگ آزادی میں کود جانے کے حامی تھے اور وہ کود گئے(ان کے لئے) جہاد جہاد حریت میں شرکت محض قومی نظریہ نہیں بلکہ اسلامی مفادات کا تقاضہ تھا(حسن حیات ۸۶)

ہفتہ, اگست 12, 2023

احکام میت __مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمینائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

احکام میت __
Urduduniyanews 72
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

مولانا مفتی قاضی محمد ذکاء اللہ شبلی مفتاحی کا وطن اصلی موجودہ ضلع سیتامڑھی کی مردم خیز بستی مولانگر بلاک پوپری ہے، لیکن انہوں نے عرصہ سے اپنا مسکن اور میدان عمل اندور کو بنا رکھا ہے، وہ اس شہر اور علاقہ کی محبوب مقبول شخصیت ہیں، وہ مدرسہ بھی چلاتے ہیں، وعظ وتذکیر بھی کرتے ہیں اور مختلف موضوعات پر مفید اور اصلاحی کتابیں مرتب کرکے عوام کی ضرورتوں کی تکمیل بھی کرتے رہتے ہیں، چہرے پر تقویٰ کا نور اور دل میں محبت رسول کا سرور واضح طور پر محسوس کیا جاتا ہے، خانقاہ رحمانی مونگیر او روہاں کے اکابر سے بے پناہ عقیدت ومحبت رکھتے ہیں، امیر شریعت سابع کے دست گرفتہ اور ان کے معتمد رہے ہیں، موجودہ امیر شریعت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی دامت برکاتہم سے بھی ا نہیں بے پناہ عقیدت ومحبت ہے، امارت شرعیہ سے بھی گہرا تعلق ہے، وہاں کے ہم جیسے چھوٹے بھی چلے جائیں تو احساس نہیں ہونے دیتے کیہ ہم چھوٹے ہیں، میزبانی کا مزاج ہے اور سخاوت  سرشت کا حصہ، اس لیے جو ملتا ہے ان کا گرویدہ ہوجاتا ہے، وہ جامع مسجد چھاؤنی کے خطیب، جامعہ ہدایت الاسلام اندور کے ناظم ، رابطہ مدارس اسلامیہ بھوپال ، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن، امام اعظم تعلیمی ٹرسٹ اور تنظیم علماء وبزم حرا کے صدر ہیں۔
مفتی صاحب کی گیارہ کتابیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازیں (اردو، ہندی) آپ حج کے سفر پر ہیں (اردو) آداب حج (ہندی) فکری ارتداد کے پھیلتے جراثیم، عمرہ کے آداب (اردو، ہندی)ذکر مرشد (اردو)  بچوں کی بنیادی تعلیم قرآن ( ہندی، اردو) میت سے متعلق چار اہم مسائل (اردو، ہندی)  دار القضاء کی اہمیت وضرورت (اردو) نماز کا طریقہ سنت کے مطابق (ہندی) ماں کا سایہ (اردو) طباعت کے مرحلہ سے گذر کر مقبول ہو چکی ہیں۔ چار کتابیں اور بھی مؤلف کے سینہ سے سفینہ میں منتقل ہو رہی ہیں، اور جلد ہی طباعت کے مراحل سے گذرنے والی ہیں، ان کے نام  واہ ! سیدنا معین ؓ، عمل چھوٹا آداب زیادہ، ہدایت کی روشنی اور مقام علماء ہیں۔
 مفتی صاحب کی ایک اہم کتاب جو آپ کے ہاتھوں میں ہے، تجہیز وتکفین سے متعلق ضروری اور اہم مسائل پر مشتمل "احکام میت "کے نام سے ہے، جس کی اشاعت جامعہ ہدایت الاسلام ولی نگر نا پتہ مونڈلہ اندور سے ہو رہی ہے۔ پنچانوے صفحات پر مشتمل اکہتر موضوعات ومسائل پر یہ کتاب محیط ہے، جس میں روح نکلنے سے قبل اور بعد تجہیز وتکفین، جنازہ ، غسل ، ایصال ثواب،  اور زیارت قبور سے متعلق اہم مسائل زیر بحث آءے ہیں، رطب ویابس سے گریز کیا گیا ہے، اور مفتی بہ قول کو درج کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے، جزءیات میں انہیں مسائل کو جگہ دی گئی ہے جو کثیر الوقوع ہیں، نادر الوقوع چیزوں کو  دوسری کتابوں کے مطالعہ کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے، ہر جگہ حوالے بھی دیے ہیں تاکہ قاری پورے اعتماد کے ساتھ اس پر عمل کر سکے، شروع کتاب میں حسن خاتمہ کے اعمال پر بھی گفتگو کی گئی ہے، تاکہ انسان آخری سفر سے پہلے اپنی زندگی کو سنوار لے  اور جب اپنے اللہ کے دربار میں حاضر ہو تو ندامت اور رسوائی حصہ میں نہ آئے، اور دنیا میں بھی ان اعمال کی وجہ سےا یمان پر خاتمہ کی علامتیں عوام وخواص پر ظاہر ہوں ۔

جمعہ, اگست 11, 2023

ملحقہ مدارس میں نئی مجلس منتظمہ کے ضابطے مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ

ملحقہ مدارس میں نئی مجلس منتظمہ کے ضابطے 
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ 
—------------------------------------------------ 
مدارس ملحقہ میں نئی مجلس منتظمہ کی تشکیل کے قواعد و ضوابط کو عام کیا گیاہے، اسی کے مطابق نئی مجلس منتظمہ تشکیل دی جائے گی، اس ضابطہ میں بہت ساری خامیاں ہیں، جسکی طرف سرکار کی توجہ امارت شرعیہ نے مبذول کراءی تھی، اس ضابطہ کے اعتبار سے مجلس منتظمہ کاصدر، سکریٹری ڈونر عطیہ دہندگان میں سے ہی کوءی ہو سکتا ہے، اور عطیہ دس ہزار روپے کافی ہے، ان دنوں دس ہزار روپے کی جو اہمیت ہے ، اس سے دنیا واقف ہے، اس رقم کو لا کھ سے اوپر ہی ہونا چاہیے ، پھر ڈونر میں زمین ، جس نے دیا ہے اس کے بارے میں ضابطہ بالکلیہ خاموش ہے کہ ڈونرجس نے زمین دیا وہی سمجھا جائے گا یا یہ صفت ان کے وار ثوں تک بھی متعدی ہوگی اور بیٹا پوتا پر پوتا ناتی پر ناتی و غیرہ بھی ڈونر کی موت کے بعد صدر اور سکریٹری بننے کے مجاز ہوں گے ، یا زمین دہندگان کی موت کے بعد یہ سلسلہ ختم ہو جائے گا، اگر پوتا، پر پوتا و غیرہ بھی اس زمرے میں آئے گا تو مدارس کی حالت دگرگوں اور مزید خستہ ہو جائے گی۔

ضابطہ میں تعلیم سے" دلچپسی" رکھنے والے کو ممبر چننے کی بات بھی کہی گئی ہے ، "دلچسپی" کا پیٹ اتنا بڑا ہے کہ اس میں کوئی بھی سما سکتا ہے، رہ گیی فو قانیہ کی سند اس کا وقار، اعتبار اور اس کے حاملین کی صلاحیت آج کے دور میں اظہر من الشمش ہے۔ ایسے لوگ علمی اور تعلیمی رہ نمائی کس طرح کر سکیں گے، مدرسہ بورڈ ایکٹ میں بھی چیر مین بننے کے لیے مطلوبہ اوصاف کے ساتھ" دلچسی" کالفظ موجود ہے، اس دلچپسی کے پیٹ سے کیسے کیسے چیر میں نے اس عہدہ کو عزت بخشی اور مدارس ملحقہ کا جو حشر ہوا، اس کے بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت باقی نہیں ہے۔

کمیٹی میں بورڈ نمائندہ کی حیثیت سے ضلع ایجو کیشن افسر کی نامزدگی پر بھی پہلے اعتراض درج کرایا گیا تھا ضلع ایجو کیشن افسر کے بورڈ نما ئند ہ ہونے کی وجہ سے مدارس ملحقہ کی منتظمہ بالکل بے اثر ہو کر رہ جائے گی اور اس کا اقلیتی کردار بھی مجروح ہوگا، تنخواہ کی ادائیگی پہلے سے اس کے ہاتھ میں ہے، مدارس کی جانچ اور معائنہ کا حق محکمہ تعلیم نے اسے پہلے ہی دے رکھا ہے، بلکہ اب تو اپرسچیو کے کے پاٹھک خود بھی مدارس کا معائنہ کر رہے ہیں، ایسے میں ڈی ای او کام جلس منتظمہ کار کن ہو نا بڑے مسائل پیدا کرے گا، سرکار کو ان امور پر از سر نو غور کر کے اسے قابل عمل بناناچاہیے۔

حافظ محمد سعد انور شہید رحمۃ اللّٰہ علیہ سیتامڑھی بہار ۔۔۔۔۔۔۔آئینہء حیات اور مظلومانہ شہادت

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم 

حافظ محمد سعد انور شہید رحمۃ اللّٰہ علیہ سیتامڑھی بہار ۔۔۔۔۔۔۔
اردودنیانیوز۷۲ 
آئینہء حیات اور مظلومانہ شہادت 

✍️بہ قلم : محمد انواراللہ فلک قاسمی مؤسس و معتمد ادارہ سبیل الشریعہ رحمت نگر آواپور شاہ پور سیتامڑھی بہار و رکن تاسیسی آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ و نائب صدر جمعیت علماء ضلع سیتامڑھی بہار ۔ 

بائیس سالہ مظلوم شہید حافظ محمد سعد انور ابنِ محترم جناب محمد مشتاق صاحب حفظہ اللہ ، مقام منیا ڈیہ ،  پنڈول بزرگ ، نزد بالاساتھ ، تھانہ نانپور ، ضلع سیتامڑھی بہار کے رہنے والے تھے ، ان کا گاؤں مسلمانوں کی ایک چھوٹی سی آبادی پر مشتمل ہے ، اس میں بھی مسلکی اختلاف و افتراق کی خلیج بہت  ہے اور گرد و پیش کی تقریبآ وہی صورت حال ہے ، قریب میں بالا ساتھ اور بلواہا ہے ، جہاں مسلمانوں کی بہت بڑی آبادی ہے اور مسلکی اعتبار سے وہاں کوئی مسئلہ بھی نہیں ہے ،  مجاھد ملت حضرت مولانا عبد الحنان صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ ،  اسی بالاساتھ کے رہنے والے تھے ، اُنہیں کی فکر و مساعی ، جہد مسلسل ، اور غیر معمولی ایثار و قربانی سے جامعہ قاسمیہ دارالعلوم  بالاساتھ کا قیام عمل میں آیا تھا ، اس جامعہ نے اپنے گرد و پیش سے لے کر دور دراز تک ناخواندہ علاقوں میں مکاتب کا جال بچھایا اور علم کی شمع روشن کی اور آج بھی پورے آب و تاب اور رعنائیوں کے ساتھ قائم ہے ، اس وقت  جامعہ کا  باگ ڈور ، حضرت مجاہد ملت رحمۃ اللّٰہ علیہ کے کے فرزند ہوش مند حضرت مولانا قاری حفظ الرحمن صاحب رکن آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ہاتھوں میں ہے اور اس پورے علاقے میں جامعہ دینی تعلیم و تربیت کا مصدر اور شریعت و سنت کی ترویج و اشاعت کا محور ہے ۔ اسی دارالعلوم نے "منیا ڈیہ " کی ظلمت و جہالت کو دیکھ کر  " اسلامیہ تجوید القرآن" کے نام سے وہاں ایک مکتب کا نظام قائم کیا تھا ، "حافظ سعد انور شہید ،" اسی مکتب کے فیض یافتہ تھے ، ابتدائی اور بنیادی دینی تعلیم ، اسی مکتب کے ایک مخلص استاذ مولانا محمد رضوان الرحمٰن صاحب مفتاحی آواپوری سے حاصل کیا تھا اور آج بھی اس مکتب کا فیض جاری ہے ، اسی سے نئی نسلوں میں عقائد اسلامی کی صحیح ترویج و اشاعت ہورہی ہے ۔ رب کریم اپنی شان کریمی سے اس معدن ایمان و یقین اور سرچشمہء خیر کو دیر تک اور دور تک باقی رکھے ۔ 

حافظ سعد انور شہید مدرسہ حیات العلوم اور دارالعلوم وقف دیوبند میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

مکتب کی تعلیم کے بعد چھتر پور ، مہرولی ، دھلی کے مدرسہ حیات العلوم میں داخلہ لیا ،  وہاں شروع سے بیس ( 20) پارے تک قرآن کریم کا حفظ مکمل کیا ، اس کے بعد سنہ 2019ء میں  الجامعتہ الاسلامیہ دارالعلوم وقف دیوبند کے شعبہء حفظ میں داخل ہوئے اور وہاں قاری نصرالامین صاحب کی درسگاہ سے وابستہ رہے اور وہیں سے قرآن کریم کا حفظ مکمل کیا ۔  تکمیل حفظ قرآن کریم کے بعد وہ گھر لوٹ گئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
  
حافظ سعد انور شہید               دارالعلوم بالاساتھ میں 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
دارالعلوم وقف دیوبند سے تکمیل حفظ کے بعد ، فارسی عربی کی ابتدائی تعلیم کے لیے دارالعلوم بالاساتھ کا انتخاب کیا اور داخلہ لے کر تحصیل علم میں مصروف ہو گئے ،  عربی   فارسی کی ابتدائی تعلیم کا سلسلہ شروع ہی کیا تھا کہ خانگی احوال ، معاشی تقاضے اور کئی قسم کی ذمہ داریوں کے احساس نے ان کو گھیر لیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
گروگرام ہریانہ کا سفر 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسی احساس نے تعلیم 
کی تکمیل سے پہلے کسب معاش کے لیے 
   
ہریانہ "گروگرام " جانے پر مجبور کر دیا ، وہاں جانے کی وجہ یہ ہوئی ہوگی کہ  وہاں پہلے سے بڑے بھائی حافظ شاداب انور موجود تھے اور ٹیوشن کی راہ سے مسلمانوں کے بچوں کو ابتدائی دینی تعلیم دے رہے تھے ، سعد کے لیے کسب معاش کے دوسرے امکانات بھی یقیناً رہے ہونگے لیکن  سعد نے اس کو اپنی سعادت مندی کے خلاف سمجھا ہوگا کہ اللہ پاک نے میرے سینے کو قرآن دان بنایا ہے ،  لوح محفوظ کے بعد اگر قرآن کی حفاظت کا دوسرا کوئی مصدر و محور ہے تو وہ حافظ قرآن کا سینہ ہے اور کسب معاش کی دوسری راہ ، شاید مجھے حفاظت کے اس مصدر و محور اور مشن کا حصہ اور اس کی رکنیت سے محروم نہ بنا دے ، اس لیے مسجد و محراب اور تعلیم و تدریس کی راہ کو اختیار کیا اور اس کے لیے وہ نکل بھی گئے اور ایک مدت تک گروگرام  سکٹر نمبر ستاون (57) ہریانہ کی انجمن مسجد کی امامت وخطابت اور اذان جیسی " دعوت تامہ" کے مشن پر مامور ہوگئے اور اس تسلسل و استقامت  کے ساتھ وہاں رہے  جس طرح سعودی عرب جانے والے لوگ وہاں رہتے ہیں اور دو سال ، تین سال کے بعد واپس آتے ہیں ، ٹھیک اسی طرح حافظ سعد انور شہید ، تقریبآ تین سالوں کے بعد گھر لوٹنے والے تھے ۔ ان کی تیاری مکمل ہوچکی تھی اور وہ گھر لوٹنے کے لیے وقت کے منتظر تھے ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شہادت کی رات اور اہل خانہ سے بات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

جولائی سن 2023ء کا آفتاب ڈوب چکا تھا اور یکم اگست کی سحر ہونا چاہتی تھی ، سعد کا ریل ٹکٹ بھی بن چکا تھا ، وہ گھر پہنچ کر  والدین کریمین کی قدم بوسی چاہتے تھے ، بھائی بہنوں کی مسکراہٹ اور متبسم و شگفتگی کے حسین مناظر دیکھنا چاہتے تھے اور انہیں اپنا پیار ومحبت دینا چاہتے تھے  ،  گھر پر سبھوں کو انتظار تھا " ماں " بیٹے کی آمد کے لیے سراپا منتظر تھیں ، اپنی پلکیں بچھائے ہوئیں تھیں ، دیدار و ملاقات کا ارمان سجائے ہوئیں تھیں ، بہنوں کا دل خوشیوں سے لبریز تھا اور چھوٹا بھائی صادق انور ، آگے بڑھ کر استقبال کے لئے سراپا بیقرار تھا ، والد گرامی اپنی ضعیفی کو سہارے کی تسلی دے رہے تھے کہ نہ گھبراؤ میری توانائی آ رہی ہے ، دونوں طرف خیالوں کا ہجوم تھا جو ایک فطری بات ہے ، یہی وجہ تھی کہ سعد نے شہادت کی شب میں والدین کریمین سے باتیں کیں ، بڑے بھائی کی اہلیہ سے گفتگو ہوئی ، بہنوں سے ہم کلام ہوئے اور آخری بات ،  رات کے گیارہ بج کر بتیس منٹ پر بڑے بھائی "حافظ شاداب انور" سے کی  ، بڑے بھائی نے کہا کہ تم رات ہی میں میرے پاس چلے آؤ ! صبح تم کو گھر جانا ہے ، لیکن سعد نے کہا کہ بھائی جان ! امام صاحب یہاں نہیں ہیں اور فجر کی نماز مجھے پڑھانی ہے ، کوئی دوسرا پڑھانے والا بھی نہیں ہے ، اس لیے اس وقت آنا احساس ذمہ داری کے خلاف ہوگا اس لئے اب ان شاءاللہ نمازِ فجر کے بعد حاضری ہوگی آپ پریشان نہ ہوں مسجد کے باہر پولیس بھی تعینات ہے اور یہ خدا کا گھر ہے ، عبادت و بندگی کی جگہ ہے ، یہاں کوئی کیا کرے گا ؟ آپ فکر نہ کریں  ، بات مکمل ہوئی ، سعد اپنے بستر پر  فجر کی نماز اور امامت کی نیت کر کے محو خواب ہو گئے اور کچھ ہی دیر سویا ہوگا کہ  رات کے اندھیرے اور پولیس کی موجودگی میں ملک کے دشمن عناصر ، امن و سلامتی کے حریف ، اسلام اور مسلمانوں کے سیاہ ناگ ،  انسان نما درندے ، اقتدار و کرسی کے حریص ، سانپوں ، درندوں ، اور بھیڑیوں کی ایک ٹیم ، اپنے ہاتھوں میں آتشیں شعلے اور جان لیوہ اسلحوں کے ساتھ مسجد میں گھس گئی ، پہلے مسجد کو نذر آتش کیا اور اس کے بعد "حافظ سعد انور" نائب امام مسجد کو گولی مارا ، اس پر بھی اس کی درندگی اور حیوانیت کو سکون نہیں ملا تو جسم انور کے مختلف حصوں کو شمشیر آبدار کی تیز سانوں سے گود دیا اور پولیس تماشائی بنی رہی ، اس لیے کہ یہ اس کے بیٹے کی جان نہیں تھی ، یہ ایک مؤمن کے فرزند دلبند مؤمن کی جان تھی ۔ سعد انور کی شہادت ہوگئی اس نے جام شہادت نوش کر لیا ، اس کی روح قفسِ عنصری سے نکل گئی اور قندیل ضو فشاں بن کر جنت کے مینارہ نور کا حصہ بن گئی ، جنت کی غذائیں یقیناً مل رہی ہونگی حور و غلماں نے اس کا استقبال کیا ہوگا البتہ ہم سبھوں سے ایک مدت تک کے لیے ملاقات موقوف ہو گئی  ۔ 

سعد انور کی شہادت کے بعد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سعد انور کی شہادت کے بعد اس کی مظلومانہ شہادت کی خبریں ایک طوفان ، بجلی کی رو اور آتش صحرا کی طرح پورے ملک اور ملک سے باہر پھیل گئی ، ہر طرف ایک شور ، ایک غوغا ، ایک ہنگامہ برپا ہوگیا ، الکٹرانک اور شوشل میڈیا نے کہرام مچا دیا ، ملت ٹائمس کے نمائندوں نے حادثہ کی صحیح تصویر پیش کیا اور اچھی منظر کشی کی ۔ سعد انور سیتامڑھی کے رہنے والے تھے اور میرا تعلق بھی سیتامڑھی سے ہے اس لیے ملک بھر سے فکر مند احباب و شخصیات نے فون پر تفصیلات جاننے کی کوشش کی ، حضرت مولانا مفتی محمد ثناء الھدیٰ قاسمی صاحب پٹنہ ، حضرت مولانا رشید ندوی صاحب ، ممبئی ، محترم جناب صبیح بابو علی گڈھ ، انیس اسلم صاحب دھلی ، مولانا نسیم احمد صاحب وجےواڑہ آندھراپردیش قاری آیاز احمد صاحب سیتامڑھی اور دورو نزدیک کے متعدد احباب نے جنازے کی تفصیل اور تدفین سے متعلق معلومات حاصل کیں ۔ 

حافظ سعد انور شہید کا جنازہ منیا ڈیہ میں 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حافظ سعد شہید کی مظلومانہ شہادت کی خبر اہل خانہ پر ایک بجلی بن کر گر چکی تھی ، پورا گھرانہ صبر کے سایہ میں غم سے چور تھا ، جو طبعی بھی تھا اور شرعی بھی ، چاہیئے تو یہی تھا کہ شہید کی تدفین وہیں ہوتی جہاں مظلومانہ شہادت ہوئی تھی ، لیکن والدین کریمین کی اجازت نہیں ہوئی اس لیے سعد انور کے بڑے بھائی حافظ شاداب انور نے گھر لانے کا فیصلہ کیا اور قانونی راہ سے گذر کر بذریعہ ایمبولینس دو ( 2) اگست سن 2023ء کو سعد شہید کا جنازہ منیا ڈیہ لا یا گیا اور اس گھر میں پہنچا  جہاں سے تین ( 3) سال قبل نکلا تھا ۔ 

سعد انور شہید کا جنازہ اور زائرین کا ہجوم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جنازہ مشرقی سفالہ پوش مکان کے بر آمدہ میں رکھا ہوا تھا ، جسم زخموں سے چور تھا ، زندوں کے مانند زخموں سےتازہ خون رس رہا تھا ، چہرے پر سکون و طمانیت تھی حسن و جمال کا نور تھا ، کالی شرعی ڈاڑھی کے ہالہ میں چاند جیسی چاندنی چہرے پر چمک رہی تھی ، منھ کھلا ہوا تھا اور آنکھیں اس طرح وا تھیں کہ گویا  وہ حور و غلماں کے استقبالیہ مناظر کو دیکھ رہے ہیں اور جام کوثر و تسنیم سے شہادت کے وقت ، لگی پیاس کو بجھانے کے لئے تیار ہیں ، تاخیر صرف ان کے پہنچنے کی ہے ، اس لیے عملی طور پر وہ سب کو پیغام دے رہے تھے کہ تاخیر اچھی نہیں ہے ۔  لوگ آتے رہے اور ایک آہ بھر کر دیکھتے اور دیکھ کر جاتے رہے ، حافظ سعد انور شہید کی والدہ محترمہ اپنے جواں سال بیٹے ، نو خیز لخت جگر ، امیدوں کا مرکز ، بڑھاپے کی لاٹھی کی شکستگی اور جدائگی پر اشکبار تھیں لیکن نہ کوئی نوحہ تھا اور نہ ماتم ، بہنوں کا وہی حال تھا ، باپ اور بھائی کے آنکھوں کا آنسو غم سے خشک ہو چکا تھا اور چہرے پر شان شہادت کی جلوہ نمائی تھی ، طمانیت و تسکین کا قدرتی تحفہ مل چکا تھا اس لیے وہ سرخرو بھی تھے اور انہیں ہونا بھی چاہیے تھا ، یہی وجہ تھی کہ شہیدوں کے خون کے قدر شناس لوگوں نے صبر کی تلقین اور تعزیتی کلمات کے ساتھ ساتھ مبارکبادی بھی دے رہے تھے اور یہ بھی کہہ رہے تھے کہ حافظ سعد انور شہید کی مظلومانہ شہادت کا خون رنگ لائے گا ، ہند میں کسی بڑے صالح انقلاب کی بنیاد پر چکی ہے ، سعد انور مظلوم شہید کے جسم و تن کی تخم ریزی اور اس کی شہادت کا خون گلشن ہند کی آبیاری کرے گا اور اس کے موسم خزاں  کو  بہار آفریں بنائے گا ۔ 
 
نمازِ جنازہ اور تدفین 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دو ( 2) اگست سن 2023ء کو سعد انور شہید کا جنازہ  بذریعہ ایمبولینس گرو گرام سکٹر نمبر ستاون (57) کی انجمن مسجد سے  دن کے گیارہ  ( 11) بجے منیا ڈیہ پہنچا ، پہلے سے نماز جنازہ کے وقت کا اعلان کیا جا چکا تھا کہ آج ہی بعد نمازِ ظہر شہید کی نمازِ جنازہ ادا کی جائے گی اور منیاڈیہ کے آبائی جدید قبرستان میں تدفین ہوگی ، چنانچہ ایساہی ہوا ، دور دراز سے شرکت کرنے والے لوگ پہلے پہنچ چکے تھے ، مہسول سیتامڑھی  سے  سیاسی نمائندہ جنید صاحب اپنے رفقاء کے ساتھ پہنچے ہوئے تھے ، جمعیتِ علماء سیتامڑھی کے صدر عالی قدر محترم جناب ڈاکٹر اکرام الحق صاحب ، سکریٹری مخلص و محترم جناب مولانا احسان اللہ شمس صاحب ، شعبہء اصلاح معاشرہ کے ذمہ دار مفتی فیاض صاحب قاسمی اور راقم الحروف بھی جنازے میں شریک تھا ، امارت شرعیہ پٹنہ سے علماء کا ایک وفد بھی آگیا ، شوشل میڈیا ، گرد پیش کے علماء ، مدارس کے طلبہ اور غیور مسلمانوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی لیکن قرب و جوار کے مسلکی اسیر اور قیدی نے اپنی شرکت کو خلاف مسلک تصور کیا اور وہ لوگ شریک نہیں ہوئے جس سے اچھا اور موئثر پیغام نہیں جا سکا ، حالانکہ ان لوگوں کو سوچنا چاہیے تھا کہ نفرت کے سوداگروں کے ہتھیار پر کوئی مسلک کا نام لکھا ہوا نہیں ہوتا ہے بلکہ اس کو تو نفس مسلمان سے عداوت ہوتی ہے ۔
جنازہ وقت مقررہ پر ، جنازہ گاہ میں لایا گیا ، ایم ائی ایم کی جماعت  اور دوسرے ساتھیوں کے انتظار میں قدر تاخیر بھی ہوئی لیکن اہل خانہ کی تسلی کے خاطر اس کو گوارا کیا گیا ۔ اس وقفے میں قاری حفظ الرحمٰن صاحب ، قاضی وصی صاحب اور راقم نے مختصر تعزیتی پیغام دیا ، نماز جنازہ ادا کی گئی ، اس کے بعد تدفین عمل میں آئی اور ہمیشہ کے لیے سعد انور شہید کو رخصت کر دیا گیا ، اب جنت ہی میں ملاقات ہو سکے گی ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

حافظ سعد انور شہید کا خانگی پس منظر 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حافظ سعد انور شہید ، اپنے تینوں بھائیوں میں دوسرے نمبر پر تھے ، بڑے بھائی کا نام شاداب انور اور چھوٹے بھائی کا نام صادق انور ہے اور تینوں بحمدللہ حافظ قرآن ہیں ، چار بہنیں ہیں ، بڑی بہن کی شادی مولانا غلام رسول صاحب ، دملہ ،  مدھوبنی سے ہو چکی ہے ، وہ پونے مہاراشٹر میں دین کی خدمت سے وابستہ ہیں ۔ اس کے علاوہ تین بہنیں ہیں جو  یک بعد دیگرے ، شادی کی عمر کو پہنچ چکی ہیں ،  اس کے لیے اہل خانہ اور خصوصاً سعد انور شہید پہلے سے فکر مند تھے اور اس واقعہ کے بعد اہل خانہ کی مزید فکر مندی بڑھ گئی ہوگی ۔ والد صاحب پہلے ممبئی میں تجارت کرتے تھے ، لیکن اب عمر و صحت کی ناہمواری مانع ہے  ۔ شاداب اور سعد کی مختصر ، لیکن بابرکت آمدنی سبھوں کے لیے کفاف بنی ہوئی تھی اور اسی پر گذر بسر ہو رہا تھا ،  سعد انور شہید کی نانہال ، رام پور سگہری میں تھی وہ گھرانہ تعلیم و تربیت اور تہذیب شرافت کے اعتبار سے ممتاز تھا اور اب بھی ہے ، نانا کا نام : مدنی اختر کریمی تھا ، وہ اچھے خوش نویس اور خطاط تھے ، دارالعلوم بالاساتھ میں ایک عرصہ تک شعبہء خطاطی سے وابستہ رہے اور آج بھی ان کا خانوادہ رام پور سگہری میں اپنے محاسن سے ممتاز ہے اور علاقہ بھر میں اس کی اپنی شناخت ہے ، شاید یہی وجہ ہے کہ سعد کے اہل خانہ کا رکھ رکھاؤ ، متانت و سنجیدگی ، چہرہ مہرہ اور تہذیب و شرافت ، تمام تر وسائل کی قلت اور مسائل کے ہجوم کے باوجود نمایا ہے ، سماج و معاشرے میں ایسے گھرانے آبرومند سمجھے جاتے ہیں ، ان کی والدہ شروع ہی سے دینی مزاج رکھتی ہیں اس لیے بچوں کو دین کی تعلیم سے آراستہ کرتی رہیں ، ایک وقت تھا کہ حضرت مولانا عبد الحنان صاحب قاسمی رحمۃ اللّٰہ علیہ ، بالا ساتھ سے فجر کی نماز کے بعد تفریح کے لیے نکلتے تو سعد کے گھر پر ضرور جا تے وہاں ٹھرتے ، سعد کی والدہ  چنا چورا اور چائے سے حضرت کی ضیافت کرتیں اور بہت خوش ہوتیں کہ حضرت ہمارے یہاں تشریف لائے ہیں اور یہ معمول بن گیا تھا ، کیا بعید ہے کہ  اس درویش کے قدوم میمنت کی برکت سے وہ گھر سعادتوں سے بھر رہا ہو  ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ملت کے خوش نصیب افراد کا سعد انور شہید کے اہل خانہ کے ساتھ حسن سلوک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مقام شکر ہے کہ ہندوستان کے خوش نصیب اور ملت کے غیور مسلمانوں نے بطورِ خود دست غیب بننے کی کوشش کی ہے اور مزید دست تعاون دراز کر نے کی ضرورت ہے ہنگامے کی نہیں ۔ اس لیے کہ کسی کی عزت نفس کو مارکٹ کے حوالے کر دینا اچھی بات نہیں ہے لیکن ملت کے افراد نے بطورِ خود جو کچھ کیا اور کرنا چاہتے ہیں وہ بہت قابل ستائش اور لائق تبریک ہے ۔
رب کریم اپنی شان کریمی سے ان سبھوں کے ہاتھوں کو مضبوط بنائے اور سرسبز و شاداب رکھے ۔ آمین یارب العالمین بحرمت محمد ابوبکر و عمر و عثمان و علی و اصحابہ اجمعین ۔

جمعرات, اگست 10, 2023

امتحان کی تیاری __✍️ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

امتحان کی تیاری __
Urduduniyanews 72
✍️ مفتی محمد ثناء الہدیٰ  قاسمی
 نائب  ناظم  امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

اس دنیا کو اللہ رب العزت نے امتحان گاہ بنایا ہے، اس نے موت وحیات کو اسی لیے پیداکیا کہ جاناجائے کہ عمل کے اعتبار سے کون اچھا ہے ، دنیا کو آخرت کی کھیتی بھی کہا گیا ہے اور اسے ایسے مردار سے تعبیرکیا گیا ہے جو کتے کی طلب ہوتی ہے ، یہاں کی شادابی اوررونق، مال واولاد سب آزمائش اورفتنہ پیدا کرنے والی ہیں، جوادھر متوجہ ہوگیا اوردنیا کی چکا چوند میں کھوگیا ، حلال وحرام کی تمیزکھودیااوردنیا یا جاہ ومنصب اورعزوجاہ کی وجہ سے اللہ کو فراموش کر بیٹھا وہ اس امتحان میں فیل ہو گیا ، نا مرادی اور ناکامیابی اس کامقدر بن گئی ۔ 
امتحان کا لفظ سنتے ہی طلبہ کا ذہن پریشان ہوجاتا ہے۔ کیوںکہ اسے معلوم نہیں ہوتاکہ کس قسم کے سوالات کا سامنا انہیں کرنا پڑیگا،جوابات کے لیے اوقات بھی متعین اور محدود اور امتحان گاہ بھی تنگ ، پہلے طلبہ کتابوں سے تیاری کرتے تھے ، پھر اساتذہ نوٹس لکھا دیا کرتے تھے، سوالات دس پانچ سال کے حل کرادیتے تھے، اب اس کی بھی ضرورت نہیں ہوتی، چھپے ہوئے نوٹس اور گیس پیپر نے امتحان کے مراحل کو نسبتاً آسان کر دیا ہے ، اور گھبراہٹ ودہشت میں تھوڑی کمی آئی ہے ، لیکن اب بھی امتحان کا موسم آتے ہی ذہن ودماغ پر یہی فکر چھائی رہتی ہے کہ ہمارا کیا ہوگا۔ کیوں کہ امتحان کے وقت انسان یا تو قابل تعظیم ٹھہرتا ہے یا ذلت اس کا مقدر بنتی ہے ۔
لیکن اللہ رب العزت کی کرم فرمائی اور اس کی بے پناہ رحمتوں کا تصور کیجئے، اس مالک نے امتحان کی مدت گھنٹوں اور منٹوں میں مقرر نہیں کیا، اس نے انسانوں کو ایک لمبی عمر عطا فرمائی ، پوری دنیا کو امتحان گاہ بنادیا ، قرآن کریم جیسی کتاب عطا فرمائی جو لوگوں کی ہدایت او رزندگی میں پیش آنے والے ہر قسم کے حالات کا سامنا کرنے کے لیے ہمیں تیار کرتی ہے، پھر اس کتاب ہدایت کو قولی اور عملی طور پر سمجھانے کے لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا، صحابہ کرام، تابعین ، تبع تابعین اور علماء کرام کے ذریعہ مختلف ادوار کے لیے ایسا انتظام فرمایا کہ جب چاہیے سمجھ لیجئے، دیکھ کر سمجھئے، علماء سے پوچھ کر عمل کر لیجئے، کوئی دارو گیر اور اخراج نہیں ہے ، پوری مدت گذارنے کے اور وقت فراہم کرنے کے بعد جب اس دنیا سے کوچ کرے گا تو اب اسے ان سوالات کے جوابات دینے ہوں گے ، جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے ہی آؤٹ کر دیا تھا ، دنیاوی امتحان میں سوالات آؤٹ ہو جائیں تو امتحان رد ہوجاتا ہے ، اللہ رب العزت کی رحمت تو دیکھیے اس نے سوالات خفیہ نہیں رکھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بتا دیا کہ تین سوال قبر میں ہوں گے اور پانچ سوال قیامت کے دن ، تین سوال جو قبر میں ہوگا وہ رب ، دین اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کے بارے میں ہوگا، تمہارا رب کون ہے ، تمہارا دین کیا ہے ، اور اس ذات اقدس کے بارے میں تم کیا کہتے ہو؟ جس نے دنیاوی امتحان گاہ کو احکام خدا اور رسول کی روشنی میں برتا ہوگا، اور زندگی کتاب ہدایت کے مطابق گذاری ہوگی، وہ ان سوالوں کا صحیح جواب دے گا،اس کے لیے جنت کی کھڑکیاں کھول دی جائیں گی ، اور فرشتہ کہے گا کہ سو جا ، جیسی دلہن اطمینان کے ساتھ سوتی ہے ، اور جس نے امر خدا وندی کی ان دیکھی کی ہوگی وہ کہے گا کہ ہا ہا لا ادری ، افسوس میں کچھ نہیں جانتا ،بس یہیں سے امتحان کے نتیجے کا آغاز ہوجائے گا ، جہنم کی کھڑکیاں کھول دی جائیں گی اور مختلف قسم کے عذاب اس پر مسلط کر دیے جائیں گے ، پھر ایک طویل وقفہ کے بعد جسے اللہ ہی جانتا ہے ، دوسرا امتحان شروع ہو گا، اس کے بھی سوالات اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے آؤٹ کر دیے ہیں، یہ قیامت کا دن ہوگا اور انسان اس وقت تک میدان حشر سے ٹل نہیں سکے گا ، جب تک ان پانچ سوالوں کا جواب نہ دیدے، عمر کن کاموں میں لگایا، جوانی کن کاموں میں صرف کیا، مال کس ذریعہ سے کمایا ، اور کہاں خرچ کیا اور جو علم حاصل کیا اس پر کس قدر عمل کیا۔
 ان سوالوں کی روشنی میں ہمیں اپنی زندگی اور اپنے اعمال کا محاسبہ کرنا چاہیے کہ ہماری عمر فضولیات اور منکرات میں تو نہیں لگ رہی ہے ، جوانی اللہ کی دی ہوئی نعمت ہے اس کا غلط مصرف تو نہیں لیا جا رہا ہے ، مال کے حصول کے لیے ان طریقوں کا استعمال تو ہم نہیں کر رہے ہیں، جو ناجائز اور حرام ہیں، اسراف اور فضول خرچی ، دکھاوے ، آتش بازی میں مال کو خرچ تو نہیں کیا جا رہا، جن لوگوں کے پاس علم ہے وہ اس کی روشنی میں اعمال کا جائزہ لیں کہ ہمارا عمل تو کہیں علم کے خلاف نہیں ہے ، دنیا میں زندگی اگر صحیح انداز میں گذاری ہوگی تو ان سوالوں کے جوابات آسان اور مرضی مولیٰ کے مطابق ہوں گے تو اس کا حساب کتاب آسان ہو گا اور رزلٹ داہنے ہاتھ میں تھما دیا جائے گا، تو وہ خوش خوش لوٹے گا، اور جوان سوالات کے جوابات مرضی مولیٰ کے مطابق نہیں دے گا، اس کو پشت کی جانب سے بائیں ہاتھ میں رزلٹ دیا جائے گا، یہ اس بات کی علامت ہوگی کہ وہ ناکام ہو گیا ، اور دنیاوی زندگی میں  اموال واولاد نے اسے اللہ کے ذکر سے غافل کر دیا اب وہ جہنم کا ایندھن بنے گا۔ اس لیے قبل اس کے کہ ہمارے امتحان کی تیاری کا وقت پورا ہوجائے ، ہمیں اپنی تیاری پوری کر لینی چاہیے اورزندگی اس کتاب کے بتاتے ہوئے طریقہ کے مطابق گذارنی چاہیے؛ تاکہ قبر کے تین اور میدان حشر کے پانچ سوال کے جوابات میں ہمیں پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

۔۔کڑ و ا شر بت ۔۔۔۔۔۔ نکالیں سیکڑوں نہریں کہ پانی کچھ تو کم ہوگا مگر پھر بھی مرےدریاکی طغیانی نہیں جا تی انس مسرورانصاری * دارالتحریر* قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن(رجسٹرڈ) اردو بازار، ٹانڈہ۔ امبیڈکر نگر (ہو،پی)

۔۔۔۔۔۔۔کڑ و ا شر بت ۔۔۔۔۔۔۔۔ 
اردودنیانیوز۷۲ 
     ✍️ * انس مسرورانصاری
         ایک عالمی سروے کےمطابق گزشتہ پانچ سالوں میں دوسرے مذاہب کے تیرہ کروڑافراد نےمذہب اسلام کوقبول کیا۔ان میں ہرقوم ہرطبقہ ہر فرقہ اور فکر و خیال کےافراد شامل ہیں۔اعلا درجہ کے تعلیم یافتہ افرادکےعلاوہ پسماندہ،ناخواندہ۔آدی واسی حلقہ بگوش اسلام ہورہے ہیں۔اخبارات اور سوشل میڈیا کے مطابق گزشتہ دنوں شہرمرادآباد(یو،پی)میں پچاس دلتوں نے اسلام قبول کرنے کا اعلان کیاجن کوکلمہءطیبہ پڑھتے ہوئے ایک ویڈیو میں دکھایا گیا ہے۔(ایسی خبروں کومیڈیا والےظاہرنہیں کرتے) 
       دنیامیں تیزی کےساتھ اسلام پھیل رہاہے۔ایسا معلوم ہوتا ہےکہ بہت زیادہ عرصہ نہیں گزرےگاکہ اسلام دنیا کا سب سےزیادہ مقبول عام مذہب ہوجائےگا۔اس کی بنیادی وجہ اسلام کی اپنی کشش،اس کا نظام حیات وکائنات اوراس کے دشمنوں کی طرف سے پھیلائی جانےوالی غلط فہمیاں اور نفرت انگیزیاں ہیں۔قرآن کریم کے نسخوں کی بےحرمتی اوراس کوجلانا۔پیغمبراسلام کی شان میں گستاخیاں اورمسلمانوں کے خلاف انتہائی ظالمانہ شرانگیزیاں۔ایسے معاملات ہیں جو صالح ذہن وفکر کےعناصر اورغیرمتعصب،انصاف پسندافرادکو سوچنےپر مجبور کرتے ہیں کہ آخر اسلام میں ایساکیا ہےجس کے خلاف اس قدرشورشرابےاور ہنگامےاٹھائے جارہےہیں۔؟اس مقام پر انھیں اسلام اور پیغمبراسلام کےبارےمیں مطالعہ کی ضرورت پیش آتی ہے۔اورجب حقیقت کاسامنا ہوتا ہےتووہ بےساختہ پکار اٹھتےہیں۔لا الہ الاﷲ محمد الرسول اﷲ۔۔اسلام ایک ایسانظام سیاست و معیشت پیش کرتاہےجس کی کوئی مثال نظرنہیں آتی۔اس پرآشوب زمانہ میں صرف اسلام ہی انسان کےدکھوں اور پریشانیوں کا حل ہے۔ 
       وہ دن قریب ہے جب انڈیا میں اسلام اورمسلمانوں کے خلاف منو وادیوں کی ساری نفرت انگیزیاں،شر پسندیاں دھری کی دھری رہ جائیں گی۔ ہندو رہنماؤں کو یورپ سے سبق سیکھناچاہیے۔جہاں اسلام اتنی سرعت سے پھیل رہا ہے کہ اس کے دشمن اورحاسدین بوکھلاکررہ گئیے ہیں۔ان کی عقلیں سلب ہوگئی ہیں۔ یہی حال انڈیا میں ہونے کےآثارمو جود ہیں۔بس مسلمان اپنی بیداری کا ثبوت فراہم کریں اور سارے مسلکی اختلافات کو پس پشت ڈال دیں۔اسلام کو اپنے کرداروعمل سےظاہرکریں۔اس کے سواامن و عافیت کا کوئی اور دوسرا راستہ نہیں۔یہ مسلمانوں کی ذمہ داری بھی ہےاور فرض بھی۔ورنہ وہ خدا ورسول کے مجرم ہوں گے۔خدا کے رسول ﷺ نے یہی کیاتھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کوکردارو عمل کی بنیادپرکھڑاکیا۔عام اعلان حق سےپہلےآپ نے اپنے کردار وعمل سے اسلام کوظاہرکیا۔پھر بعدمیں اعلان حق فرمایااور لوگوں کواس کی دعوت دی۔مسلمانوں کو بھی یہی کرناہوگا۔اسلام کواپنےکرداروعل سے ظاہرکریں۔ 
     جہاں تک مسلم لڑکیوں کےارتدادکامعاملہ ہے،وہ یک طرفہ سچ نہیں ہے۔ سچ یہ ہےکہ یہ ایک ڈرامہ ہےجو مسلمانوں کو ہراساں اور پریشان کرنے کےلیےکھیلاجا رہاہے۔ہندو لڑکیوں کو مسلم لڑکیاں بناکرارتدادکافتنہ اٹھانے والےیہ نہیں جانتے کہ اس کا ردعمل خودانھیں کے خلاف اوراسلام کےلیےموافق وسازگار ہو کررہےگا۔یادرکھئے۔ہرایکشن کاایک ری ایکشن ہے۔ہر عمل کاایک ردعمل ہے۔ 
       آج بےشمار ہندو خواتین نقاب لگاکرمسلم عورتوں کے لباس میں اﷲ اوراس کے رسول کے نام پرمسلم گھروں میں جاکربھیک مانگ رہی ہیں۔میری نظرمیں ایسی درجنوں خواتین ہیں جن کاپیشہ ہی نقاب لگاکر بھیک مانگنا ہے۔
       مانتا ہوں کہ ارتداد کافتنہ موجود ہے۔ لیکن اس کی ذ مہ داری مسلم نوجوانوں پر آتی ہے۔ وہ اگراپنی لالچی اور حریص ذہنیت سے باز آ جائیں تو بازی پلٹ سکتی ہے۔ارتدادکےطوفان کوروکنےکےلیےمعاشرتی اصلاح اور خود اپنی کردار سازی کی ضرورت ہے۔۔مسلم بچیوں کوگمراہ کرنےکےلیےہندوتنظیموں کا لاکھوں روپیہ خرچ کرنا۔نوکری اور فلیٹ کی گارنٹی۔ لیکن افسوس کہ یہ ہندو فرقہ پرست تنظیموں کےغیردانش مند افراد نہیں جانتے کہ وہ کن ہاتھوں کی کٹھ پتلیاں ہیں۔ اپنے سیاسی مقاصد کےلیے مذہب کے نام پر گمراہ کرنے والے ان کے رہنماؤں میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جن کی بیٹیاں،بھتیجیاں اور بہنیں مسلمانوں کے گھروں میں خوش حال ازدواجی زندگی بسر کر رہی ہیں اور ان کے سرپرستوں کو کوئی اعتراض نہیں۔ ہسٹری اٹھاکر دیکھ لیجئے۔مجھے نام لینے کی ضرورت
 نھیں۔
        موجودہ حالات میں مسلمانوں کےلیے گمراہ کن ہندو شدت پسندوں کی سرگرمیاں ایک بڑی وارننگ اور انتباہ ہیں۔اب مسلمانوں کوبیدارہوجاناچاہئے۔
     آج کتنے ہی ہندو بھائی منتظر ہیں کہ مسلم سماج انھیں قبول کرے تو وہ اسلام قبول کرلیں۔مگر شاید ابھی وہ وقت نہیں آیا۔ 
     ہمارے قصبہ کےکئی ہندو، مسلمان ہوئے۔ ہندو رہنماؤں نے انھیں طرح طرح کےلالچ دیئے۔ ڈرایا،دھمکا یا۔یہاں تک کہ انھیں جیل تک کاٹنی پڑی ۔ قسم قسم کی تکلیفیں اٹھائیں لیکن ہندو دھرم میں واپس نہ گئے۔وہ آج بھی معمولی مزدورہیں۔اس کااجرتو اللہ ہی انھیں دےگاجن مشکل حالات میں وہ اسلام کے دامن سےلپٹےرہے۔ لیکن مسلم سماج نے انھیں قبول نہ کیا۔کوئی مسلم خاندان انھیں اوران کے بچوں کو شادی کےلیےنہ لڑکا دینےکےلیےتیارہےاورنہ لڑکی۔ دور دراز کے علاقوں میں ان کی شادیاں ہوتی ہیں۔ پھربھی وہ اسلام پر قائم ہیں۔ یقینی طور پر وہ ہم سے بہتر مسلمان ہیں۔ہمارا قصبہ مسلم باہلی چھہتر یعنی مسلم اکثریتی علاقہ ہے۔ کپڑے کی صنعت کے لیے بہت مشہور ہے۔ شاید ہی کوئی گلی ایسی ہوجس میں لکھ پتی اور کروڑپتی لوگ آبادنہ ہوں۔ یہ تجارت پیشہ افرادہیں مگران میں کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں جوان (اصل) مومنوں کی معیشت کوبہتربناسکے۔ وہ آج بھی مزدورہیں۔ ان کے بچے بھی مزدوری کرتےہیں۔جس قوم کا یہ حال ہو وہ بھلا کس طرح فلاح پاسکتی ہے۔ 
      مسلمانوں کابکھراہوامسموم معاشرہ کسی نوارد مسلمان کو خود میں ضم کرلینے کی صلاحیت سے محروم ہوچکا ہے۔وہ بھول گیا کہ جس رسول پر اپنی جان فداکرنےکاجھوٹادعوااورپروپیگنڈہ کرتاہے،اسی نبی ﷺ نےباربارفرمایاکہ ۔۔۔ مسلمان، مسلمان کابھائی ہے۔اس کے لیے وہی کچھ پسند کرے جو وہ خود اپنے لیے پسندکرتاہے۔۔۔۔ اسےنقصان نہ پہنچائے۔۔۔۔اس سےخیر خواہی کا معاملہ کرے۔۔۔۔،، 
       اس سے پہلے کہ ہم اقوم عالم کو اسلام کاپیغام دیں،ہمیں خود اس کے پیغام پر عمل کرنا ہوگا۔ہمیں اپنے کردار وعمل سے ثابت کرنا ہوگا کہ ہر مسلمان دوسرے مسلمان کابھائی ہےاور اپنے بھائی کےلیے وہی کچھ پسند کرتاہے جو وہ خود اپنے لیے پسند کرتاہے۔یہودیوں میں ایک روایت مشہورہےکہ جب فجر کی نماز کےلیے مسجدیں جمعہ کی نماز کی طرح بھرنےلگیں توسمجھ لو کہ یہودیت کا خاتمہ ہوچکا۔اس وقت ساری دنیا پر اسلام اورمسلمانوں کی حکمرانی ہو جائے گی۔،، 
      جس روز ایسا ہو گیا۔ وہ اسلامی انقلاب کاپہلا دن ہوگا۔تب کوئی مرتدنہ ہوگا۔کسی غیر مسلم کو اسلام قبول کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہ ہوگی۔ وہ سب
  کچھ چھوڑچھاڑکراسلام کے دامن سے لپٹ جائے گا۔اسے اٹھارہ کروڑ دیوی دیوتاؤں کی ضرورت نہ ہوگی۔ 
     ہمیں مرتد بچیوں کو گالیاں دینےاوربرابھلاکہنےسے پہلے اپنےلالچی،بےغیرت اور حریص بچوں کو گالیاں دیناچاہئیےاوراگرایمانی غیرت ہو تو خوداپنے آپ کو بھی گالیاں دےلیں۔اورخودہی کو برابھلاکہیں۔ 
       مرتد ہوجانے والی بچیوں کی فکر نہ کیجئے بلکہ اپنے بچوں کے لالچ اور ذہنی دیوالیہ پن کی فکرکیجئے۔ اپنی معاشرتی خرابیوں کے تدارک پرنگاہ کیجئے۔اپنی کوتاہیوں کو چھپانےکےلیےکالجوں اور یونیورسٹیوں کوبدنام نہ کیجئے۔۔
       تاریخ بتاتی ہےکہ جب بھی اسلام کےخلاف فتنے کھڑےکیےگئیے،اسےاورزیادہ ترقی اور عروج حاصل ہوا ہے۔#
        اسلام کو فطرت نے کچھ ایسی لچک دی ہے
        جتنا ہی دباؤ گے، ا تنا ہی یہ ا بھر ے گا

     نکالیں سیکڑوں نہریں کہ پانی کچھ تو کم ہوگا
      مگر پھر بھی مرےدریاکی طغیانی نہیں جا تی 
            انس مسرورانصاری
                            * دارالتحریر*
          قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن(رجسٹرڈ) 
         اردو بازار، ٹانڈہ۔ امبیڈکر نگر (ہو،پی)
                   رابطہ/9453347784/

بدھ, اگست 09, 2023

انڈیا مقابل این ڈی اے __مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمینائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

انڈیا مقابل این ڈی اے   __
Urduduniyanews 72
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

ہندوستان کی چھبیس چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں نے 2024کے الیکشن میں بھاجپا اور ان کی حلیف جماعتوں( جن کا اتحاد این ڈی اے کے نام سے جانا جاتا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ اس کے ساتھ چھوٹی بڑی چھتیس پارٹیاں ہیں )کو ہرانے کے لیے عظیم اتحاد ”انڈیا“ کے نام سے بنایا ہے، انڈیا کا مطلب ہے انڈین نیشنل ڈولپمنٹ انکلوزیو الائنس (I.N.D.I.A) یہ نام این ڈی اے پربھاری پڑ رہا ہے، جس کا مطلب ہوتا ہے نیشنل ڈیموکریٹک الائنس، بقول ممتا بنرجی این ڈی اے، انڈیا کو چیلنج نہیں کر سکتا، اس نام کا اعلان کانگریس کے صدر ملک ارجن کھرگے نے 18جولائی 2023کو بنگلور میں پٹنہ کے بعد حزب مخالف اتحاد کی دوسری میٹنگ میں کیا، اس نام کے اعلان سے ملکی سیاست میں ایک بھونچال سا  آگیا،اورلوگوں نے پہلی بار محسوس کیا کہ کانگریس کے پاس بھی تھنک ٹھینک ہے اور ان کے اندر بھاجپا کے نظریہ ساز ادارے کو مات دینے کی بڑی صلاحیت موجود ہے ، بھاجپا چاہے جو کہے؛ لیکن اس نے قومیت کے نام پر عوام کو گمراہ کرنے کے لیے ”اسکل انڈیا، ڈیجیٹل انڈیا“ جیسے نعروں کا استعمال کیا، اب ”انڈیا“ نام دے کر حزب مخالف نے اس کی ہوا نکال دی ہے۔
 بھاجپا نے اسی دن یعنی 18جولائی کو اپنے حلیف اڑتیس پارٹیوں کی میٹنگ بلائی، جس میں بھاجپا کے علاوہ کوئی قابل ذکر پارٹی موجود نہیں تھی، تعداد دکھانے کے لیے چراغ پاسوان کو بھی مودی جی نے گلے لگایا، جن سے پشوپتی پارس کے بغاوت کے بعد مکان خالی کرالیا گیا تھا، اور سامان سڑک پر نکال باہر کیا گیا تھا، تعداد بڑھانے کے لیے میگھالیہ کے وزیر اعلیٰ کو نراؤ سنگما کا بھی استقبال کیا گیا، جنہیں وزیر اعظم دنیا کی سب سے کرپٹ اور بد عنوان حکومت قرار دے چکے تھے،  مودی جی کا لب ولہجہ انتہائی جارحانہ تھا اور وہ ”انڈیا“ پر جم کر برسے، انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ ہندوستان کو لوٹنے والے لوگ ”انڈیا“ کے نام سے سر گرم ہو رہے ہیں، مودی جی نے اسی دن این ڈی اے کی میٹنگ کرکے حزب مخالف اتحاد کی خبروں کو دبانے کی کوشش کی، لیکن ”انڈیا“ کی خبر کو گودی میڈیا کے لیے یک سر نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہو سکا، اور وہ اپنی اہمیت کی وجہ سے پرنٹ میڈیا اور الکٹرونک میڈیا میں جگہ بنانے میں کامیاب رہی، اس محاذ پر بھی بھاجپا کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ 
حزب مخالف کی میٹنگ 17جولائی 2023کو بنگلور میں شروع ہوئی تھی، اسی دن این ڈی ٹی وی کی سینئر صحافی نغمہ سحر نے اپنے پروگرام ”سچ کی پڑتال“ میں لوگوں سے اس سوال کا جواب مانگا تھا کہ کیا حزب اختلاف 2024میں مودی کو شکست دے سکے گا، پینتیس ہزار لوگوں کی آرا آئیں، جن میں تراسی فی صد لوگوں نے ہاں میں جواب دیا، جبکہ پندرہ فی صد لوگوں کی رائے اس کے برعکس تھی، دو فی صد نے کچھ نہیں کہہ سکتے کہہ کر اپنی رائے دی ۔
اس جائزہ سے ایک رجحان سامنے ضرور آیا ہے، لیکن اسے حتمی نہیں کہا جا سکتا، البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ ”انڈیا“ نام کی وجہ سے حکمراں جماعت میں جو فکر مندی پائی جا رہی ہے، اس کی وجہ سے نئے نئے امکانات کے دروازے کھل سکتے ہیں، اور ہندوستانی مسلمانوں کو لبھانے کی کوشش بھی کی جا سکتی ہے، لیکن یہ صرف ”لبھاؤنا“ ہی ہوگا، بھاجپا اور آر ایس ایس کے نظریات ڈھکے چھپے نہیں ہیں اور انہوں نے مسلمانوں پر جو ظلم ڈھائے ہیں، ماب لینچنگ اور مختلف عنوانات سے قتل وغارت گری کا جو بازار گرم کیا ہے وہ تاریخ کا حصہ بن چکا ہے، اس لیے ہم سب کو ہوشیار خبردار اور بیدار رہنا چاہیے۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...