Powered By Blogger

جمعرات, اگست 17, 2023

مسر و ر ہے یہ آ ئینہ تطہر بھی گو ا ہ قر آ ن کے لبو ں پہ ہے نغمہ حسین کا انس مسرورانصاری قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن (رجسٹرڈ)

*****جلو ہ حسین کا *****
اردودنیانیوز۷۲ 
             * انس مسرورانصاری

     مقتل میں لٹ گیا سب ا ساثہ حسین کا
     شکرِخدا ہے پھر بھی و ظیفہ حسین کا
 
    طو فا نِ بر ق و با د ہے حملہ حسین کا
     پتھر کو تو ڑ تا ہو ا شیشہ حسین کا
  
    نکلا ہے لب پہ ذ کرِ حسینی لیے ہو ئے 
     اس ما ہ کا ہر ا یک ر سا لہ حسین کا
  
   جانِ یز ید یت ہےگلے میں پھنسی ہو ئی
   مضبوط کس قد ر ہے شکنجہ حسین کا

   غیرت سے پا نی پا نی تھا دریا فرأت کا
   حسرت سے د یکھتا رہا چہر ہ حسین کا

   نا نا کی ملکیت میں ہے یہ ساری کائنات
   مکًہ حسین کا ہے مد ینہ حسین کا

   شا نِ حسین شر حِ قر آ نِ عظیم ہے
  آ سا ن تو نھیں ہے سمجھنا حسین کا

   ظلمت سرائے دہر میں قند یل کی طرح
   روشن ر ہا چر ا غِ سرا پا حسین کا

   بچتا نہ ا یک فر د یز ید ی سپا ہ کا
   قدرت نے ہا تھ روک دیا تھا حسین کا

 سردیں گےپرنہ ہاتھ میں فاسق کےدیں گےہاتھ
   یہ جو ش یہ غضب یہ ا ر ا د ہ حسین کا

   اصغرکےخوں سےلکھ دیا، اسلام زند ہ باد
   یہ د م یہ حو صلہ یہ کلیجہ حسین کا
 
  پیا سے حسین کب ہیں یہ گو یا ہوا فرأت
   خود میرا قطرہ قطرہ ہے پیا ساحسین کا

   اسوہ رسول کا ہے، شر یعت رسول کی 
   سیرت کے آ ئینے میں ہے جلو ہ حسین کا
 
  نفرت یز ید یت کا ہے ا ک نا م د و سرا
   نصرت کے سا تھ ہوتا ہے چرچہ حسین کا

   نا نا سے مومنوں کی شفاعت کرا ئیں گے 
   جاری ر ہے گا حشر میں سکّہ حسین کا

   شاخوں میں جتنےپھول تھےسب ہوگئےجدا
   قا ئم سروں پہ پھر بھی ہے سا یہ حسین کا

   لپٹی ہو ئی رِ د ا ئے معطر سے عظمتیں 
   پڑھتے ہو ئے و ہ رتبے قصید ہ حسین کا
  
 جیسے کلا مِ ر ب ہو ز با نِِ رسو ل پر
   با تیں نبی کی ا و ر ہے لہجہ حسین کا

   سجد ے نثا ر لا کھو ں تقد س مآ ب کے
افضل ہےسارے سجدوں میں سجدہ حسین کا

   گھو ڑ ے پہ جب سوار ہو ا فاطمہ کا لا ل
   حو ر یں ا تا ر نے لگیں صد قہ حسین کا

   صحرا میں بین کر تی ر ہی سرخ سرخ دھوپ
   ا و ر چو متی تھیں کر نیں عما مہ حسین کا
 
اک مورچہ پہ دشت کے خوش ہے یز ید یت
لیکن ہر ا یک د ل پہ ہے قبضہ حسین کا

مو من ہے، مر دِ حق ہے ، خد ا کو عز یز ہے
ا پنا لیا ہے جس نے طر یقہ حسین کا

لا ز م ہے نسلِ نّو کو ا سے منتقل کر یں
قسمت سے جو ملا ہمیں ورثہ حسین کا

مسر و ر ہے یہ آ ئینہ تطہر بھی گو ا ہ 
قر آ ن کے لبو ں پہ ہے نغمہ حسین کا
                         انس مسرورانصاری
            قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن (رجسٹرڈ) 
                     رابطہ/9453347784*
*******************************************

بدھ, اگست 16, 2023

انجنیر ارمان الہدیٰ اعلی تعلیم کے لیے امریکہ روانہ ___پٹنہ 16اگست (پریس ریلیز /عبدالرحیم برہولیاوی)

انجنیر ارمان الہدیٰ اعلی تعلیم کے لیے امریکہ روانہ ___
اردودنیانیوز۷۲ 
پٹنہ 16اگست (پریس ریلیز /عبدالرحیم برہولیاوی)
 ضلع ویشالی کے علمی خانوادہ
،خانوادہ  ہدیٰ کے چشم وچراغ
 ،ماسٹر محمد عطاء الہدیٰ رحمانی کے فرزند اکبر، نامور عالم دین  ،نائب ناظم امارت شرعیہ،ناظم وفاق المدارس الاسلامیہ و رکن آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ  مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی  کے بھتیجا انجینیر ارمان الہدیٰ اپنے تحقیقی مقالہ کی تکمیل اور اعلی تعلیم کی غرض سے آج دہلی سے  انڈیگو کی
فلایٹ سے براہ   استنبول امریکہ کے لیے روانہ ہوگیے،اس موقع سے اعز و اقرباء کی بڑی تعداد نے انہیں دعاؤں کے ساتھ رخصت کیا،وہ نیو ہمپشائر  
یونیورسٹی (New Hampshire University U. S. A) میں پروفیسر افتخار اعظم کی نگرانی میں اپنا تحقیقی مقالہ پی ایچ ڈی کے لیے  مکمل  کرینگے انکے مقالہ کا عنوان ہے ____
( Topic_Health monitoring of floating offshore wind turbines - PHD,University of New Hampshire in Durham,Nevada (USA)__
واضح ہوکہ خانوادہ ہدیٰ ویشالی ضلع کے نامور  علمی خانوادوں میں سے ایک ہے۔اس خانوادہ میں دینی و عصری تعلیم کا حسین امتزاج پایا جاتا ہے ۔اس خانوادہ میں دس حافظ قرآن،چار قاسمی عالم دین ،دو ندوی عالم ،دو مفتی،سات ایم اے،تین پی ایچ ڈی ہولڈر  اور تین ڈاکٹر ہیں۔ اگر پیشہ وارانہ جایزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ اسکول و مدرسہ  ملاکر کل پندرہ اساتذہ تعلیم وتر بیت کے میدان میں بیش قیمت خدمات انجام دے رہے ہیں'اس خانوادہ کے  سرپرست مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی صاحب کی ملی ،علمی ،تعلیمی اور فکری خدمات انتہائی وقیع ہیں،ادب تنقید اور صحافت کے میدان میں بھی ان کی ایک الگ اپنی شناخت و پہچان ہے
ملک ہندوستان ہی نہیں بیرون ملک میں بھی روزآنہ ان کے  مزہبی، سیاسی، سماجی، ادبی مقالے، مضامین تبصرے کثرت سے شایع ہو رہے ہیں اور پڑھے بھی جارہے ہیں_
اللّٰہ رب العزت اس خانوادہ کو بری نظر اورشرور و فتن سے محفوظ رکھے اور خدمات کے دایرہ کو مزید وسعت بخشے. یہ اطلاع عبدالرحیم برہولیاوی بانی وایڈمن العزیز میڈیا سروسز نے دی ہے

منگل, اگست 15, 2023

سفرنامۂ ہند۔۔کیپٹن الیگزینڈرہملٹن۔۔بحوالہ۔۔اورنگ زیب عالمگیر،،۔ مصنف ( انس مسرورؔانصاری) قومی اُردوتحریک فاؤنڈیشن سکراول،اُردوبازار،ٹانڈہ۔ امبیڈ کرنگر(یو،پی)

ہملٹن کاسفرنامۂ ہند۔اوراورنگ زیب عالمگیر 
اردودنیانیوز۷۲ 
     ✍️        ٭انس مسرورؔانصاری
   
    بھارت ایک قدیم ملک ہے۔اس کی قدامت اورپر اسراریت۔اس کےدریااورپہاڑ۔اس کے جنگل اور میدان۔سرسبزوادیاں۔شہراورقصبات۔اس کے گاؤں۔اس کے کسان اورکھیت کھلیان۔اس کی بساطِ رنگین وسنگین ۔ مافوق الفطرت واقعات۔اس کی عبادت گاہیں اور تعمیرات۔اس کی تہذیب وتمدّن۔سماجی رسوم ورواج۔ تایریخی عمارتیں۔قلعے۔اجنتا۔ ایلورہ،کھجوراہو۔تاج محل۔شاہ جہانی مسجد۔لال قلعہ۔جھولتے میناروں والی عمارتیں۔اوربہت سارے عجائبات ہمیشہ غیرملکی سیّاحوں کے لیے کشش اورتوجہ کامرکزرہے ہیں۔قدیم چینی سیّاح فاہیان سے ابن بطوطہ اوران کے بعدیہاں آنے والےسیّاحوں کےناموں کی فہرست بہت طویل ہے۔انھوں نے سفرنامے لکھےاوراس ملک کےجغرافیائی، تاریخی وتہذیبی اورتمدّنی منظروں کی عکس ریزی کی۔ ان سفرناموں میں ہندوستان رچا بسا ہوا ہے۔ 
        مغل بادشاہ اورنگ زیب عالمگیرکے عہدمیں برطانوی سیّاح الیکزینڈرہملٹن ہندوستان میں واردہوا، اورمشرق کے اس پُراسرارملک میں پچیس سال تک گھومتارہا۔ اُس نےاورنگ زیب عالمگیرسے بھی ملاقات کی۔بادشاہ نے اس کی ایسی شاندارخاطرتواضع کی کہ ہملٹن متاثرہوئے بغیرنہ رہ سکا۔اُس نے اپنے سفرنامۂ ہندمیں اورنگ زیب کی بہت تعریف کی ہے۔اُس کایہ سفرنامہ بہت مشہوراورمقبول ہوا۔
    چونکہ اورنگ زیب ہندوستان کےعظیم مغل تاجدار کے علاوہ ایک دین دارمذہبی آدمی بھی تھا،اس لیے ہندوبرہمنیت اس کی سخت مخالف رہی ہے۔وہ برہمنیت جس نےکبھی کسی مذہبی واصلاحی تحریک اور دوسرے مذہبی لوگوں کوپسندنہیں کیا۔ان سے نفرت کی اور انھیں مٹادیناچاہا۔سناتن دھرم کے علاوہ اس کے نزدیک ہرمذہب باطل ہے۔ اس نے اورنگ زیب کے خلاف ہمیشہ محاذ آرائی کی۔ مشہورمورّخ پنڈت ایشوری پرشاد لکھتے ہیں۔ 
        ‘‘پرماتماکی شان ہے کہ اورنگ زیب رعایاکاجتنا بڑاخیرخواہ تھا، برہمنی نفرت نے اسے اتناہی بدنام کیا۔کوئی اسے ظالم کہتاہے اورکوئی قاتل کہتاہے۔کوئی مندروں کوگرانے والابتاتاہے۔کوئی ہندوؤ ں کاکٹّردشمن سمجھتاہے لیکن حقیقت میں وہ‘‘عالمگیر’’کے لقب کا مستحق ہے۔اورنگ زیب کے ہم عصرہندووقائع نگار وں کابیان ہے کہ وہ ایک نیک دل حکمراں اورنیک صفت انسان تھا۔اس کاعہدِحکومت اتنااچھاتھااوروہ خود اتنااچھاتھا کہ پرماتما نے ہندوستان کی باگ ڈوراور حکومت اس کے حوالے کرکے بے فکری سے اپنی آنکھیں بندکرلی تھیں۔اورنگ زیب سلطنت کے باغیوں کے لیے سخت گیراورعام رعایاکے لیے نہایت نرم دل تھا۔          (تاریخِ ہند۔ص، 58/پنڈت ایشوری پرشاد)
     دوسرے سیّاحوں کی طرح کیپٹن الیکزینڈر ہملٹن نے بھی اس ملک کاجغرافیہ،تہذیب وتمدّن ،زبان اور لوگوں کے رہن سہن کے بارے میں اپنے سفرنامۂ ہندمیں تفصیل سے لکھاہے۔اورنگ زیب سے ملاقات کے باب میں لکھتاہے۔
      ‘‘بادشاہ اپنے مذہب پر پوری طرح کاربندہے۔اس کی خواہش ہےکہ عام مسلمان بھی اپنےمذہب کےپابندہوں۔ان کے کرداروعمل سے ظاہرہوکہ وہ مسلمان ہیں۔لیکن مسلمانوں پراس کے مذہبی حقوق کے باوجوداُن پر سختی نہیں کرتا۔پھربھی اس کی مذہبی شخصیت کے اثرات رعایاسے ظاہرہوتے ہیں۔ہندوستان میں بہت سے مذاہب اورعقائدکے لوگ رہتے بستے ہیں لیکن وہ سب ایک قوم کہلاتے ہیں۔مذہب کوریاست سے الگ رکھاگیا ہے۔ مذہب کی تبلیغ واشاعت کے لیے کسی فرقہ پرکوئی پابندی نہیں ہے۔وہ جس طرح چاہے اپنے مذہب وعقائد کی تبلیغ کرسکتاہے۔’’ ’ 
       ‘‘یہی حال تجارت،صنعت وحرفت اورزراعت کابھی ہے۔ بادشاہ نے بہت سارے اضافی ٹیکس معاف کررکھے ہیں جس کے نتیجے میں ہرپیشہ سے متعلق افرادخاصے مطمئین اورخوش نظرآتے ہیں۔ہرچیز فروغ پارہی ہے۔ برائے نام ٹیکس ہونے کی وجہ سے بازاروں میں ہرچیز سستے داموں میں ہے۔اسی مناسبت سےاشیائےخوردنی کے نرخ بہت ارزاں ہیں۔عام طورپرخوشحالی کادَوردَورہ ہے۔خوشحالی کی وجہ سے رعایا خودبادشاہ کی مدد  گارہے۔ ایسامیں نے ہندوستان کے علاوہ کہیں اورنہیں دیکھاکہ بادشاہ اوررعایاکے درمیان رشتہ ورابطہ اتنا قریبی ہو جتناکہ اورنگ زیب اوراس کی رعایامیں ہے۔’’ 
     ‘‘مسلمانوں اوریہاں کےقدیم باشندوں کےرہن سہن اورلباس وغیرہ میں اب بھی نمایاں فرق نظرآتاہےمگر یہ فرق بھی خاص خاص موقعوں پرظاہرہوتاہے۔’’ 
     ہملٹن لکھتاہے کہ ‘‘ہندوستان کی تجارت کامقابلہ یورپ کے بڑے بڑے ممالک بھی نہیں کرسکتے۔یہاں کا صرف ایک تاجر سالانہ بیس بیس مال بردار جہاز دوسرے ملکوں کوبھیجتاہے۔ہرجہاز میں دس ہزارپونڈ سے پچیس ہزارپونڈتک کی ما لیت کاسامان ہوتاہے۔ہزاروں پونڈسالانہ کی مچھلیاں ما لابارسے یورپ کے ملکوں میں روانہ کی جاتی ہیں۔سیکڑوں جہاز  ہندوستانی مال کی برآمدات کے لیے یہاں کی بندرگاہوں میں مال سے لدے کھڑے رہتے ہیں۔’’ 
      ‘‘حکومت کوسالانہ مالیہ ساٹھ کروڑروپئے وصول ہوتاہے۔صنعت وحرفت کوخوب فروغ حاصل ہے۔اورنگ زیب نےاپنی رعایا پرسے اُن تمام نامناسب ٹیکسوں کو ہٹا لیاجو اس کے باپ شاہ جہاں اور اس سے بھی پہلے کے مغل بادشاہوں نےلگارکھےتھے۔اورنگ زیب نے تخت نشین ہوتے ہی رعایاپرسےاسّی(80) قسم کے ٹیکس ہٹالیے تھے جورعایاکی ترقی اورخوش حالی میں مانع تھے۔’’ 
      ‘‘ہندوؤں اورمسلمانوں کے درمیان پرانی تفریق کم ضرور ہوئی ہے مگرختم نہیں ہوئی ہے۔ان کے کھانے،پینے اورپہننے اوڑھنے میں یہ تفریق اب بھی نمایاں ہے لیکن ایسالگتاہے کہ زیادہ عرصہ نہیں گزرے گاکہ یہ تفریق کم سے کم ہوتی جائےگی۔دونوں قوموں کے درمیان یک رنگی اوریکجہتی کی رفتاربتارہی ہےکہ جیسےجیسے وقت گزرے گا،سوائے مذہب کےسب ایک رنگ میں رنگ جائیں گے۔’’ 
      ‘‘اورنگ زیب نے اپنی حکمتِ عملی اورعدل گستری سےہندومسلم قومی ایکتااوراتحادکوقائم وبرقراررکھا ہے۔یہی و جہ ہے کہ حکو مت کاوفادارکوئی بھی ہو، خواہ مسلمان ہویاہندو،بڑے بڑے عہدوں پرفائزہے۔ وفاداروں کے لیےترقی اوردرجۂ کمال کے دروازے کھلے ہوئے ہیں۔ صلاحیت کی بنیادپربڑے بڑے منصب عطاکیے جاتے ہیں۔اس سلسلے میں مذہب،قومیت اورنسل ورنگ میں تمیزنہیں کی جاتی۔ایک طرف جہاں میرجملہ اس کافوجی کمانڈرہے وہیں مشہوراورنامور سالاروں میں جسونت سنگھ اورجَے سنگھ کی طرح اوربھی بہت سے ہندو منصب دارہیں جن پروہ پوری طرح اعتمادکرتاہے۔اس کی عظیم سلطنت کاسارانظم ونسق اورتمام مالی اُمورکانگراں یعنی وزیرِخزانہ دیوان رگھوناتھ کھتّری ہے۔یہ اتنابڑاشاہی منصب ہے جس کے حصول کے لیے سلطنت کے اُمراء ورؤساءہمیشہ کوشاں رہتے ہیں۔حکومت کے دوسرے کلیدی شعبوں میں مسلمانوں کی طرح ہندوبھی اعلاعہدوں پرہیں۔بادشاہ وفاداروں کووفاداری کابھرپور صِلہ دیتاہے لیکن اپنے دشمنوں اورغدّاروں کوکبھی معاف نہیں کرتا۔اسی کےعہد حکومت میں۔انڈیا‘‘سونے کی چڑیا’’کے نام سےمشہور ہوا۔اس نے پچاس سال تک نہایت شان وشوکت اور دبدبہ کے ساتھ حکومت کی ۔’’
       (سفرنامۂ ہند۔۔کیپٹن    الیگزینڈرہملٹن۔۔بحوالہ
۔۔اورنگ زیب عالمگیر،،۔
              مصنف
    ( انس مسرورؔانصاری)

 
قومی اُردوتحریک فاؤنڈیشن                 

      سکراول،اُردوبازار،ٹانڈہ۔
      امبیڈ کرنگر(یو،پی)           

   رابطہ/9453347784-

آ تسمیہ جونیئر ہائی سکول میں یوم ازادی بڑے دھوم دھام سے منایا گیا

آ تسمیہ جونیئر ہائی سکول میں  یوم ازادی بڑے دھوم دھام سے منایا گیا
Urduduniyanews 72
15 اگست 2023 موضوع میری ماٹی میرا دیش پر تسمیہ جونیئر ہائی سکول میں  یوم ازادی کا انعقاد کیا گیا جس کی تیاری سہ  روزہ ورک شاپ کے ذریعے سے ہوئی 
 بچوں کو جس میں  قومی ترانہ نعرے پریڈ  پرچم کے ادا ب ان سب کی جانکاری دی گئی پروگرام کے شروعات میں اسکول کے مینیجر سید اعجاز احمد اور پرنسپل جاوید مظہر نے پرچم کشائی کی اسکول کے بچوں نے قومی ترانہ پڑھا شہیدوں کی یاد میں نعرے لگائے پروگرام کی شروعات تلاوت کلام پاک اسعر صدیقی درجہ ساتھ بی کے پرسوز اواز سے ہوئی اردو اور انگلش کا ترجمہ عافیہ اور اقراء  درجہ چھ کی طالبات نے پیش کیا درجہ ساتھ کے عمار علی نے نعت اور درجہ اٹھ کی  ا طالبات زویا اور سارہ نے حمد پیش کی ایل کے جی کے طلبہ اور طالبات نے ترانہ اللہ اللہ پیش کیا یو کے جی کے طلبہ اور طالبات نے ہیلو سونگ پیش کیا درجہ اول کے طلبہ اور طالبات نے ہندوستان ہمارا ہے درجہ دوم کے طلبہ اور طالبات نے سواگت ہے شریمان اپ کا درجہ سوم کے طلبہ اور طالبات نے ماں باپ کے لیے م لیے کرنا نہیں نا راض کبھی ان کو خدارا درجہ پنجم کے طلبہ اور طالبات نے انگلش گیت ال وی ہیلپ  درجہ ششم کے طالبات نے پروفیشنل ڈرامہ درجہ ہفتم کی طالبات نے انگریزی ڈرامہ  موبائل مانیا اور درجہ حشتم کی طالبات نے تعلیمی گیٹ یہ ننھے پھول ہی ایک دن نیا بھارت بنائیں گے سبھی بچوں نے اپنے اپنے پروگرام کو بڑے جوش و خروش کے ساتھ پیش کر کے سب کا دل جیت لیا اس موقع پر مہمان خصوصی گیانی گربچن سنگھ نے بچوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ سبھی طلبہ طالبات کو  تعلیم کے ساتھ مورل ویلیوز پر  بھی دھیان دینا چاہیے سب کے غم اورخوشی کا  خیال رکھنا چاہیے مل جل کر رہنا چاہیے ایک دوسرے کا پریشانیوں می ساتھ دینا چاہیے زندگی کا سب سے  انمول موٹی  موتی انسانیت ہے  پیسے سے صرف سامان خریدا جا سکتا ہے سکون نہیں اسکول کے پرنسپل نے 15 اگست کی اہمیت بتاتے ہوئے بچوں کو اپنے دیش معاشرہ اور معاشرے کی ترقی  کے لیے   کہا اج کا بچہ کہ اج کا بچہ ہے اس ملک کا مستقبل ہے اسکول کے مینیجر سید اعجاز احمد نے بچوں کو اونچی تعلیم  اور سادہ زندگی کی اہمیت بتائی اس موقع پر بچوں کے ذریعے انگریزی ہوم سائنس ماڈل کی سائنس ماڈل کے ایک نمائش بھی لگائی گئی جس میں خوبصورت ماڈل بنانے والے  130 بچوں کو انعامات سے نوازا گیا پروگرام کے بعد بچوں کو مٹھائی تقسیم کی گئی

ضیائے حق فاؤنڈیشن کی جانب سے یوم آزادی کے موقع پر ڈرائینگ مقابلہ کا انعقاد۔

ضیائے حق فاؤنڈیشن کی جانب سے یوم آزادی کے موقع پر ڈرائینگ مقابلہ کا انعقاد۔
Urduduniyanews 72
پھلواری شریف پٹنہ 14/اگست 2023 (پریس ریلیز:محمد ضیاء العظیم )   
”مدرسہ ضیاء العلوم زیر اہتمام ضیائے حق فاؤنڈیشن “ البا کالونی پھلواری شریف (پٹنہ) میں یوم آزادئ ہند کی مناسبت سے ایک ڈرائنگ مقابلہ (Drawing Competition) کا انعقاد کیا گیا۔اس پروگرام میں شریک تمام طلبہ وطالبات  نے بڑی دلچسپی کے ساتھ ،نقاشی ،پینٹنگ،آرٹ اینڈ کرافٹ وغیرہ میں حصہ لیا۔جس میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کرنے  والے طلبہ و طالبات کو سند اور انعامات سے  نوازا گیا،جو ان کے روشن مستقبل کے لئے کار آمد ثابت ہوگا (انشاء اللہ)۔جن طلبہ وطالبات نے نمایاں طور پر کامیابی حاصل کی ہیں ان کی فہرست کچھ اس طرح ہیں۔ عالیہ پروین بنت شمس عالم ، حمزہ اخلاق بن اخلاق انصاری، فقیھہ روشن بنت ڈاکٹر فیروز عالم ،نایاب حسین بنت ساجد علی ،حریم قادری بنت محاسن قادری، صادقین اختر بنت عابد علی اختر کا نام ہے ۔ان کے علاوہ چند طلباء وطالبات نے عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے جن کی فہرست یوں ہے، میراب راشد بن راشد منہاج، عبدالنافع ، حذیفہ بن عرشی ،عافیہ انور بنت انور خان، ارحم علی بن روشن ،عمار انجم بن صفدر انجم، ارقم حیات بن فضل ربی ،عفان ضیاء بن محمد ضیاء العظیم ۔
اس موقع پر طلبہ وطالبات سے خطاب کرتے ہوئے مولانا محمد ضیاء العظیم قاسمی نے پندرہ اگست یوم آزادی کی تاریخی پس منظر یاد دلاتے ہوئے کہا کہ ! یوم آزادی ہندوستان میں ہر سال 15 اگست کو قومی تعطیل کے طور پر منایا جاتا ہے۔ سن 1947 15/اگست میں  ہندوستان نے ایک طویل جدوجہد کے بعد انگریزوں کے تسلط سے ملک ہندوستان کو آزادی ملی ۔ برطانیہ نے قانون آزادی ہند 1947ء کا بل منظور کر کے قانون سازی کا اختیار مجلس دستور ساز کو سونپ دیا تھا۔ اس کے بعد علم وفن پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ! علم وفن کی اہمیت وفضیلت، عظمت وترغیب اور تاکید، جس بلیغ و دل آویز انداز میں پائی جاتی ہے اس کی نظیر اور کسی دوسری چیزوں میں نہیں ملتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ رب العزت نے سیدنا ابوالبشر حضرت آدم علیہ السلام کو فرشتوں پر فوقیت دیتے ہوئے انہیں آدم کو سجدہ کرنے کا حکم دیا، تعلیم و تربیت، درس و تدریس تو گویا زندگی کے سب سے بڑے مقاصد میں سے ایک مقصد اور جزولاینفک ہے۔  علم وفن وجہِ فضیلت ِآدم ہے علم ہی انسان کے فکری ارتقاء کاذریعہ ہے۔علم ہی انسانوں کو راہ نجات، راہ ہدایت، راہ راست، اور صراط مستقیم کی جانب گامزن کرتی ہے ۔اور انہیں مقاصد کے تحت بچوں میں خود اعتمادی ان کی حوصلہ افزائی اور ان کے اندر موجود صلاحیتوں کو ابھارنے، انہیں روشن مستقبل کے لیے تیار کرنے کی غرض سے انٹر نیشنل ٹرسٹ ”ضیائے حق فاؤنڈیشن“نےصوبہ بہار کے دارالحکومت میں ایک مدرسہ کا افتتاح کیا ہے ۔حالانکہ یہ مدرسہ پہلے سے بچوں کو درس و تدریس کے فریضے انجام دے رہا تھا جو کہ اب ”مدرسہ ضیاء العلوم “ کے نام سے اپنی خدمات انجام دے رہا ہے ۔تاکہ غریب امیر سبھی بچوں کو یکساں پلیٹ فارم مل سکے،جہاں صرف علم و ہنر کو فوقیت دی جائے گی،اسی جذبے کے تحت 14/اگست 2023 بروز سوموار کوبمقام ”مدرسہ ضیاء العلوم “ البا کالونی پھلواری شریف (پٹنہ) میں ایک ڈرائنگ مقابلہ (Drawing Competition) کا انعقاد کیا گیا، جس میں طلبہ وطالبات نے پورے جوش وخروش کے ساتھ ہندوستانی علم (جھنڈا) نقشہ، مجاہدین آزادی کی تصاویر بناکر اپنی ہنر مندی کا ثبوت دیتے ہوئے انہیں خراج عقیدت پیش کی۔
واضح رہے کہ ضیائے حق فاؤنڈیشن اردو ہندی زبان وادب کے فروغ،غریب بچوں میں تعلیمی فروغ،انسانی فلاح و بہبود،مظلوم محکوم و معاشی طور پر کمزور خواتین کی مدد،صحت،قدرتی آفات میں ہنگامی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے علاوہ مستقل نوعیت کے فلاحی منصوبہ جات پر بھی کام کرتا ہے۔جن میں بے روزگار خواتین کو روزگار دینا،ان کے علم و ہنر کو نئی پہچان دینا،سلائی،بنائی کڑھائی جیسے ہنر کو سامنے لانا،فیس جمع نہ کر پانے والے غریب بچوں کو فری میں اردو،ہندی زبان و ادب اورقرآن مجید جیسی بنیادی تعلیم فراہم کرانا۔یتیم اور بے سہارا بچوں کی تعلیم اور کفالت کا منصوبہ،سڑکوں کے کنارے بے بس و لاچار لوگوں کی مددان سب کی صحت کے لیے فری چیک اپ وغیرہ کا اہتمام، اردو ہندی زبان و ادب کے فروغ کے لیے بھی خصوصی کام کرنا،مختلف ادبی،علمی،لٹریری پروگرام کا انعقاد کرانا، پرانے شعرأ و ادباء کے ساتھ ساتھ نئے قلم کاروں کو بھی فروغ دینا،انہیں پلیٹ فارم مہیا کرانا ،فری لائبریری کا انتظام جیسے اہم کام شامل ہیں۔بہت ہی کم وقت میں منعقد اس پروگرام میں کثیر تعداد میں طلبہ وطالبات شامل رہیں، جبکہ مقابلہ میں تیس طلبہ وطالبات کی فہرست تھی۔لیکن مقابلہ میں بچوں کی بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی خواہش اور ان میں خوشی کو دیکھ کر ضیائے حق فاؤنڈیشن کے ممبران اور کمیٹی نے فیصلہ لیا ہے کہ اس طرح کے پروگرام انشا ء اللہ وقتا فوقتا اب کیا جائے گا تاکہ بچوں کو بھی پلیٹ فارم مل سکے ان کی حوصلہ افزائی ہو سکے۔اس پروگرام میں تلاوت قرآن پاک شاداب خان ،شخصی تعارف و نظامت محمد ضاء العظیم (ضیائے حق فاوٗنڈیشن برانچ اونر وڈائریکٹر مدرسہ ضیاءالعلوم )نے کرائی ،
پروگرام کا مکمل خاکہ ہندوستان کی مشہور ومعروف اور بے باک قلمکار وماہر اقبالیات ڈاکٹر صالحہ صدیقی، چئیر پرسن ضیائے حق فاؤنڈیشن واسسٹنٹ پروفیسرشعبہ اردو سمستی پور کالج نے بنایا ۔

پروگرام میں جن لوگوں نے اپنا تعاون پیش کیا ہے ان کی فہرست مولانا محمد عظیم الدین رحمانی، قاری ابو الحسن، مصباح العظیم روشن آرا، رونق آرا، زیب النساء، فاطمہ خان، عفان ضیاء،حسان عظیم، شارق خان،مولانا کاشف وغیرہ کے نام شامل ہے ۔

اتوار, اگست 13, 2023

تحریک آزادی اور امارت شرعیہ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

تحریک آزادی اور امارت شرعیہ
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ(9431003131)
امارت شرعیہ کے اکابر نے غلام ہندوستان کو آزاد کرانے کے لئے جو جہد کی، وہ تاریخ کا روشن باب ہے،ترک موالات، خلافت تحریک اورانڈی پینڈینٹ پارٹی کا قیام تحریک آزادی کو ہی کمک پہونچانے کی ایک کوشش تھی، بانی امارت شرعیہ حضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد علیہ الرحمہ(ولادت ۱۳۰۱ھ۔وفات ۱۳۵۹ھ)حب الوطنی کے جذبہ سے سرشار تھے اور ان کے متعلقین ومتوسلین مختلف انداز میں جدوجہدآزادی میں شریک رہے،کامریڈتقی رحیم لکھتے ہیں: ’’امارت کے تمام رہنما اور اہم کارکن مذہبی اثر ورسوخ کے حامل ہونے کے ساتھ جانے ہوئے کٹر سامراج مخالف سیاہی رہنما بھی تھے، مولانا مشہود احمدندوی قادری موجودہ پرنسپل مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ ،امیر شریعت اول مولانا سید شاہ بدرالدین قادری ؒ پر لکھے گئے ایک مضمون میں مولانا محمد سجادؒ کا تعارف ان الفاظ میں کراتے ہیں:’’ایک مرد مجاہد اورآزادی کے سرخیل وعلم بردار حضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجادؒ جو قت اور زمانہ کے حالات کو دیکھ رہے تھے اورحالات کے صحیح نباض تھے‘‘۔(ہمارے امیر۸،مرتبہ مولانا رضوان احمد ندوی)
مولانانورالحق رحمانی رقم طراز ہیں:’’آپ مجاہد اعظم اور جنرل سپاہی بھی تھے، جب پہلی جنگ کی تیزوتند ہوا چلی اورزبردست طوفان اٹھا تو بہت سی قدآور شخصیت پستہ ہوگئیں ،لیکن آپ مستحکم چٹان کی طرح جمے رہے، آپ حضرت شیخ الہند اورحضرت شیخ الاسلام کے ساتھ جنگ آزادی میںشریک رہے، جب حضرت شیخ الہندؒنے ۱۹؍جولائی ۱۹۲۰ء کو ترک موالات کا فتویٰ دیا تواس کو مرتب کرکے ۴۸۴ دستخطوں کے ساتھ شائع کرنے والی آپ ہی کی شخصیت تھی(ہمارے امیر۳۹)مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد ؒ نے خطبۂ صدارت اجلاس مرادآباد میں آزادی کی لڑائی کے لئے ہندو مسلم کو متحد کرنے کی بات کہی، مولانا نے فرمایاکہ گھر کے غیر مسلم قوموں سے پہلے مصالحت وموادعت کی جائے، پھر بیرونی دشمنوں سے گھر کی حفاظت کی جائے،مولانامحمد سجاد ؒ محمد علی جناح کو اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں:’’اصلی فساد ہلاکت کا سرچشمہ برٹش حکومت کا دستور حکومت ہے یہ روگ بمنزلہ سل ودق کے ہے اور فرقہ وارانہ فسادات یانوکریوں یا وزارتوں میں حق تلفی بمنزلہ پھوڑا پھنسی کے ہے‘‘(مکاتب سجاد۲۵)آگے لکھتے ہیں:’’جناب کو معلوم ہے کہ اس کا علاج بجز اس کے کیاہوسکتا ہے کہ حکومت کے موجودہ سسٹم میں کلیۃ انقلاب برپا کیاجاجائے،لیکن یہ انقلاب صرف تحریروں، تقریروں،جلسوں اور جلوسوں سے حاصل نہیں ہوسکتا اورنہ صرف ظالموں کو برا کہنے سے، اس کے لئے ہمیشہ صرف ایک اصول ہے کہ ظالموں اور جابروں کے استبداد کو ختم کرنے کے لئے اور اقامت عدل وانصاف ورضائے الہی کے لئے مظلوم قوم اپنے جان ومال کی قربانی پیش کرے اور اس اصول پر عمل کرنے کے لئے دو طریقے امتداد تاریخ عالم انسانی سے رائج ہیں، ایک طریقہ جہاد بالسیف ہے اور دوسرا طریقہ بغیر مدافعت جہاد اعلان حق اور تسلیم باطل سے قولاوعملاانکار ،جس کو حرب سلمی بھی کہتے ہیں اور عرف عام میں عدم تشدد کے ساتھ سول نافرمانی‘‘(مکاتب سجاد۲۷)
مسلم لیگ نے آپ کے حرب سلمی کے مشورے کو نہیں مانا تو مولانا کو اس کا بہت افسوس ہوا، محمد علی جناح کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں’’مجھے افسوس ہے کہ مسلم لیگ نے اصل مقصد کو پیش نظر رکھ کر برٹش شہنشایت کے خلاف حرب سلمی کے ذریعہ محاذ جنگ میں قدم رکھنے کا فیصلہ نہیں کیا، معلوم ہوتاہیکہ مسلم لیگ کی رہنمائی جن ہاتھوں میں ہے ان کی اکثریت آج بھی انگریزوں پر اعتماد رکھتی ہے(مکاتب سجاد ۳۲)مولانا نے گانگریس کے ترک موالات کی تجویز کی حمایت میں ایک فتویٰ بھی لکھ کر شائع کیا،سری کرشنا سنگھ اپنے تحقیقی مقالہ ۱۶۸ پر لکھتے ہیں:ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق وہ بہار میں علماء کی تحریک کو جنم دینے والے ایسے خطرناک اور کٹر انتہاپسند تھے  جس نے ابوالکلام آزاد اورپان اسلامزم کے دوسرے بڑے داعیوں سے مل کر یہاں سب سے پہلے ایجی ٹیشن شروع کیا(بحوالہ جدوجہد آزادی میں بہار کے مسلمانوں کا حصہ ص۲۳۳)
امارت شرعیہ کے پہلے امیر شریعت حضرت مولانا سید شاہ بدرالدین قادری ؒ (ولادت ۱۸۵۲ء ،وفات ۱۹۲۴ئ) اس معاملہ میں اس قدر حساس تھے کہ ۱۹۱۵ء مطابق ۱۳۳۳ھ میں آپ کی علمی خدمات اور بااثر شخصیت ہونے کی وجہ سے انگریزوں نے انہیں شمس العلماء کا خطاب اور تمغہ دیا تھا، جسے بعض وقتی مصالح کی وجہ سے آپ نے قبول بھی کرلیا تھا،یکم اگست ۱۹۱۹ء مطابق ۱۳۳۸ھ میں خلعت وتمغہ دونوں کمشنر کو واپس کردیا اورلکھاکہ:’’میں اپنے دلی رنج وغم کا اظہار اس میں سمجھتاہوں کہ اپنے خطاب شمس العلماء ،خلعت وتمغہ وعطیہ سلطنت برطانیہ کو واپس کردوں؛ تاکہ اراکین سلطنت ہم لوگوں کے اس بے انتہا رنج وغم کا اس سے اندازہ کرلیں (ہمارے امیر ص ۷)مولانا کا یہ ردعمل برطانوی حکومت کے ذریعہ ہند وبیرون ملک پر ان ظالمانہ رویہ اور غیر منصفانہ اقدام کے نتیجہ میں سامنے آیا جو انگریزوں نے روا رکھا تھا، اس کی وجہ سے حضرت امیر شریعت اول انگریزوں سے سخت نفرت کرتے تھے اور وہ ان شرائط کو بھی ماننے کو تیار نہیں تھے جو انگریزوں نے ترک   مسلمانوں کو ذلیل کرنے کے لئے لگائے تھے،امیر شریعت اول نے تحریک خلافت اور تحریک موالات میں بھی حصہ لیا اور اپنے حلقہ کو اس پر آمادہ کیاکہ وہ ملک کی آزادی کے لئے کام کریں۔کامریڈتقی رحیم لکھتے ہیں:’’بہار میں عدم تعاون کا افتتاح بہاری مسلمانوں کے سب سے بڑے مذہبی رہنما مولانا شاہ بدرالدین قادری پھلواری شریف نے اپنے خطاب شمس العلماء کی واپسی سے کیا‘‘( جدوجہد آزادی میں بہار کے مسلمانوں کا حصہ ص۱۸۹)
 امیر شریعت ثانی مولانا محی الدین قادری اورمولانا سید شاہ قمرالدین رحمھما للہ نے تحریک ترک موالات اور تحریک خلافت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، کامریڈ تقی رحیم لکھتے ہیں:’’امارت شرعیہ کے اثر میں آکر بہار کے مسلمان اپنے امیر کی ہدایت کے بموجب آزادی کی جدوجہد میں کانگریس کی مدد کرنے کو اپنا ضروری مذہبی فرض ماننے لگے تھے۔
امیر شریعت رابع حضرت مولانا سید شاہ منت اللہ رحمانیؒ (ولادت ۱۹۱۲،وفات ۱۹۹۱ئ)شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی کے انتہائی معتمد اور چہیتے شاگرد تھے، جب حضرت مدنی جیل میں تھے توآپ نے بھی آزادی کی لڑائی کو تیز کرنے کے لئے جیل کی صعوبتیںبرداشت کیں،دوبار جیل گئے اور جدوجہدآزادی میں اپنا حصہ ادا کیا،مولانا منت اللہ رحمانیؒ نے جدوجہد آزادی میں جو عملی اقدامات کئے اس کی وجہ سے وہ میرٹھ، مظفرنگر، سہارن پور ضلع میں تحریک آزادی کے ذمہ دار(ڈکٹیٹر)بنائے گئے، آزادی کے لئے بڑے مصائب جھیلے۔۱۹۳۶ء میں مسلم انڈپینڈنٹ پارٹی کے ٹکٹ پر آپ کامیاب بھی ہوئے، لیکن ۱۹۴۰ء میں پارلیمانی سیاست سے آپ کنارہ کش ہوگئے، حافظ امتیاز رحمانی اپنے مضمون ’’جنگ آزادی اور حضرت امیر شریعتؒ میں لکھتے ہیں:’’پارلیمانی سیاست سے علحدگی کا یہ مطلب نہیں کہ حضرت نے تحریک آزادی سے اپنے آپ کو الگ کرلیا تھا یا خانقاہ رحمانی کے مریدین ،مخلصین اور متوسلین کو یہ ہدایت دی کہ وہ تحریک آزادی سے اپنے آپ کو الگ کرلیں، حضرت نے ملک وملت کے وسیع تر مفاد کے پیش نظر سرگرمی کے ساتھ جدوجہد جاری رکھی اورتحریک آزادی کی جدوجہد میں جو خفیہ سرکلر،پوسٹر اور پمفلٹ شائع ہوکر بہار کے بڑے حصے میں تقسیم ہوا کرتے تھے ،ان کی طباعت کا سب سے بڑا مرکز خانقاہ رحمانی تھا(امیر شریعت حضرت مولانا منت اللہ رحمانی،مرتبہ مولانا عمیدالزماں قاسمی ص ۴۷۹)
پانچویں امیر شریعت حضرت مولانا عبدالرحمن صاحب(ولادت۱۹۰۳، وفات ۱۹۹۸) بھی سچے محب وطن اور جدوجہد آزادی میں اکابرامارت کے شانہ بشانہ رہے، مولانا انیس الرحمن قاسمی سابق ناظم امارت شرعیہ لکھتے ہیں:’’آپ سچے محب وطن اور مجاہدآزادی بھی تھے، جنگ آزادی میں بے لوث حصہ لیا تھا، ڈاکٹر سید محمود ،ڈاکٹر راجندر پرساد سابق صدر جمہوریہ کی قیادت میں چھپرہ شہر میں کام کیا، حق منزل جو اس زمانہ میں سیاسی سرگرمیوں کا مرکز تھا، وہاں قیام کرتے(ہمارے امیر ۲۵)
چھٹے امیر شریعت حضرت مولانا سید نظام الدین صاحبؒ (۱۹۲۷،وفات ۲۰۱۵ئ)آزادی کی تحریک کے وقت بالکل جوان تھے اور دارالعلوم دیوبند کے اساتذہ کے ذریعہ چلائی جارہی تحریک کے دست وبازو تھے۔مولانا شاہ فیاض عالم ولی اللہی جدجہد آزادی میں اپنے اور مولانا سید نظام الدین کے رول کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’ہم دونوں دیہاتوں میں نکل جاتے اورلوگوں کو انگریزوں کے خلاف بھڑکاتے ،راستہ میں کھانے کے لئے جھولے میں بھنے ہوئے چنے او رگڑ رکھ لیتے تھے، کھانا ملاتو کھالیانہیں تو چنے اور گڑکھاکر پانی پی لیا، (باتیں میر کارواں کی، از عارف اقبال ۱۶۶)
ان کے علاوہ قاضی حسین احمد صاحب جو امارت شرعیہ کے ایک زمانہ میں ناظم تھے، آزادی کے لئے ان کی محنت قابل رشک تھی،ترک موالات کے مسئلہ سے دوسرے قائدین کی طرح قاضی احمد حسین بھی متفق تھے، انہوں نے اس سلسلے میں گاندھی جی سے ملاقات کی، اور ملک کی آزادی میں روس اور افغانستان کے تعاون سے انگریزوں کو ہندوستان سے نکالنے کی تجویز رکھی، گاندھی جی نے اس تجویز سے اتفاق نہیں کیا،ان کی سوچ تھی کہ دوسروں کے بل پر اگر ہم آزادی حاصل کریں گے تو برطانیہ سے نکل کر دوسرے معاون ملکوں کے رحم وکرم پرہو جائیں گے، انہوں نے واضح لفظوں میں قاضی احمد حسین صاحب کو کہاکہ ’’ہندوستان میں خود اتنی طاقت ہونی چاہئے کہ وہ بلابیرونی مدد کے آزاد ہو اور تب وہ اپنی آزادی کی حفاظت کرسکے گا‘‘۔
گاندھی جی سے ان کی یہ ملاقات چھپی نہیں رہ سکی ،انگریزحکومت کے جاسوس ان کے پیچھے لگ گئے اوران کی گرفتاری کا فیصلہ ہوا، چنانچہ ۱۹۲۱ء میں خلافت کانفرنس گیا کے دفتر سے قاضی صاحب کی گرفتاری عمل میں آئی، شاہ محمد عثمانؒ لکھتے ہیں:’’قاضی صاحب کو دفعہ ۱۲۴ الف بغاوت کے الزام میں چھ ماہ کی سزائے قید بامشقت دی گئی تھی، وہ جب گرفتار ہوئے تو شہر میں دکانین احتجاج کے طور پر بند ہوگئیں، اسکول بند کردئے گئے، سرکاری دفاتر میں بھی بہت سے لوگ نہیں گئے گھے، وہ رہاہوئے تو اسٹیشن پر ان کے استقبال کو آدمیوں کا ہجوم جمع تھا، پلیٹ فارم اور اسٹیشن کا کمپائونڈ اوراس سے باہر سڑکوں پر لوگ جمع تھے اور نعرے لگارہے تھے(حسن حیات ۶۰۰۶۱)
 ان کے علاوہ بہت سارے امارت شرعیہ کے نامور لوگوں نے بھی اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر کام کیا، مثال کے طورپر مولانا مفتی ظفیرالدین صاحب مفتاحی، شیخ عدالت حسین، حافظ محمد ثانی وغیرہ کا نام لیا جاسکتاہے۔ڈاکٹر ابولکلام قاسمی شمسی لکھتے ہیں:’’جنگ آزادی میں امارت شرعیہ نے اہم رول ادا کیا، اس سے منسلک ،دانشوران اور عوام نے تحریک آزادی میں بھرپور حصہ لیا، ان میں سے مولانا محمد سجاد،مولانا سید شاہ محی الدین امیر شریعت مولانا شاہ محمد قمرالدین، مولانا سید منت اللہ رحمانی ،قاضی احمد حسین، مولانا عبدالوہاب، مولانا حافظ محمد عثمان، مولانا عثمان غنی، شیخ عدالت حسین، سعیدالحق وکیل،ڈاکٹر سیدعبدالحفیظ فردوسی، مسٹر محمد یونس بیرسٹر، مولانا عبدالصمدرحمانی، مسٹر محمد محمود بیرسٹر،مسٹرخلیل احمد ایڈوکیٹ کے علاوہ سیکڑوں علماء ہیں(تحریک آزادی میں علماء کرام کا حصہ ۳۰۲)
امارت شرعیہ کے پہلے ناظم،مفتی اور امارت شرعیہ کے ترجمان جریدہ امارت اور نقیب کے مدیر محترم مولانا محمد عثمان غنیؒ نے جدوجہد آزادی میں اپنے قلم کے ذریعہ مجاہدین میں جوش وجذبہ اور حوصلہ پیدا کیا، آپ کی تحریروں نے انگریزوں کو بے حد پریشان کیا، جس کے نتیجہ میں امارت کے پرچے ضبط ہوئے، ضمانت طلب کی گئی،مولانا محمد عثمان غنیؒ کو جیل کے اندر ڈالا گیا، لیکن یہ مرد مجاہد اس قدر حب الوطنی کے جذبہ سے سرشار تھاکہ قید وبند کی صعوبتیں بھی اس کے قلم کو روک نہیں سکیں اور ’’امارت‘‘ کو بالآخر بند کردینا پڑا، اس کے بعد’’ نقیب‘‘ کے نام سے امارت کا ترجمان نکلناشروع ہوا،جوآج تک نکل رہاہے، آزادی سے قبل تک اس نے انگریزوں کے خلاف قلمی جہاد کیا،اورآزادی کے بعد مسلمانوں کو متحد ومتفق کرنے ،اصلاح معاشرہ اوراہم موضوعات پر اس کے مضامین ومقالات آج بھی موثر کردار ادا کررہے ہیں۔
میں نے اپنے ایک مضمون ’’بے باک صحافی۔ مولانا مفتی محمد عثمان غنی‘‘ میں لکھاتھا:’’آپ کی تحریروں میں حکومت برطانیہ پر جارحانہ تنقید ہواکرتی تھی، اوریہ تنقید حکومت لئے ناقابل برداشت تھی، کئی بار مقدمہ چلا، ۸؍مئی ۱۹۲۶ء کے ایک اداریہ پر حکومت نے اس شمارہ کو ضبط کرلیا اور سرکار انگلیشہ نے بغاوت کا مقدمہ کردیا،۲؍نومبر ۱۹۲۶ء کو نچلی عدالت سے ایک سال قید اور پانچ سو روپے جرمانہ کا حکم دیا تھا، ایک ماہ جیل میں رہنے کے بعد ۲۷؍دسمبر ۱۹۲۶ء کو عدالت عالیہ سے ضمانت منظور ہوئی، قید کی سزا ختم ہوگئی، مگر جرمانہ بحال رکھا گیا۔
۱۹۲۷ء اگست میں بتیا فساد کے موقع سے ۲۰؍صفر ۱۳۴۶ھ مطابق ۱۹؍اگست ۱۹۲۷ء کا ایک اداریہ پھر حکومت کی جبین اقتدار پر شکن کا سبب بن گیا، دفعہ ۱۵۳(ایف) کے تحت مقدمہ چلا، ایک سال قید ،ڈھائی سو روپے جرمانہ کی ادائیگی کا حکم ہوا، سرعلی امام نے مولانا کی طرف سے اس مقدمہ میں پیروی کی، ایک روز جیل میں رہنے کے بعد ضمانت ملی، ڈسٹرکٹ جج کے یہاں سے ۳۰؍اپریل ۱۹۲۸ء کو مولانا کو انصاف ملا اور وہ بری کردئے گئے، تیسری بار پھر ایک اداریہ کی وجہ سے ۱۳۵۲ھ میں حکومت بہار نے ایک ہزار روپے کی ضمانت طلب کی، امارت شرعیہ کے ذریعہ اس جرمانہ کی ادائیگی ممکن نہیں ہوئی اور ’’امارت‘‘کو بند کردینا پڑا۔مولانا ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی شمسی لکھتے ہیں:’’امارت شرعیہ کے پندرہ روزہ جریدہ’’امارت ‘‘نے اپنے انقلابی مضامین کے ذریعہ لوگوں کے دلوں میں جوش آزادی پیدا کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا، اس کے باغیانہ وانقلابی مضامین کی وجہ سے انگریزوں نے اس پر مقدمہ چلایا اورجرمانہ عائد کیا، بالآخر اس کو بند کردیناپڑا(تحریک آزادی میں علماء کا حصہ ۲۰۳)شاہ محمد عثمان ؒ کے ان جملوں پر اپنی بات کو ختم کرتاہوں ،لکھتے ہیں:’’امارت شرعیہ  اورجمعیۃ علماء کے لوگ تو جنگ آزادی میں کود جانے کے حامی تھے اور وہ کود گئے(ان کے لئے) جہاد جہاد حریت میں شرکت محض قومی نظریہ نہیں بلکہ اسلامی مفادات کا تقاضہ تھا(حسن حیات ۸۶)

ہفتہ, اگست 12, 2023

احکام میت __مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمینائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

احکام میت __
Urduduniyanews 72
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

مولانا مفتی قاضی محمد ذکاء اللہ شبلی مفتاحی کا وطن اصلی موجودہ ضلع سیتامڑھی کی مردم خیز بستی مولانگر بلاک پوپری ہے، لیکن انہوں نے عرصہ سے اپنا مسکن اور میدان عمل اندور کو بنا رکھا ہے، وہ اس شہر اور علاقہ کی محبوب مقبول شخصیت ہیں، وہ مدرسہ بھی چلاتے ہیں، وعظ وتذکیر بھی کرتے ہیں اور مختلف موضوعات پر مفید اور اصلاحی کتابیں مرتب کرکے عوام کی ضرورتوں کی تکمیل بھی کرتے رہتے ہیں، چہرے پر تقویٰ کا نور اور دل میں محبت رسول کا سرور واضح طور پر محسوس کیا جاتا ہے، خانقاہ رحمانی مونگیر او روہاں کے اکابر سے بے پناہ عقیدت ومحبت رکھتے ہیں، امیر شریعت سابع کے دست گرفتہ اور ان کے معتمد رہے ہیں، موجودہ امیر شریعت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی دامت برکاتہم سے بھی ا نہیں بے پناہ عقیدت ومحبت ہے، امارت شرعیہ سے بھی گہرا تعلق ہے، وہاں کے ہم جیسے چھوٹے بھی چلے جائیں تو احساس نہیں ہونے دیتے کیہ ہم چھوٹے ہیں، میزبانی کا مزاج ہے اور سخاوت  سرشت کا حصہ، اس لیے جو ملتا ہے ان کا گرویدہ ہوجاتا ہے، وہ جامع مسجد چھاؤنی کے خطیب، جامعہ ہدایت الاسلام اندور کے ناظم ، رابطہ مدارس اسلامیہ بھوپال ، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن، امام اعظم تعلیمی ٹرسٹ اور تنظیم علماء وبزم حرا کے صدر ہیں۔
مفتی صاحب کی گیارہ کتابیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازیں (اردو، ہندی) آپ حج کے سفر پر ہیں (اردو) آداب حج (ہندی) فکری ارتداد کے پھیلتے جراثیم، عمرہ کے آداب (اردو، ہندی)ذکر مرشد (اردو)  بچوں کی بنیادی تعلیم قرآن ( ہندی، اردو) میت سے متعلق چار اہم مسائل (اردو، ہندی)  دار القضاء کی اہمیت وضرورت (اردو) نماز کا طریقہ سنت کے مطابق (ہندی) ماں کا سایہ (اردو) طباعت کے مرحلہ سے گذر کر مقبول ہو چکی ہیں۔ چار کتابیں اور بھی مؤلف کے سینہ سے سفینہ میں منتقل ہو رہی ہیں، اور جلد ہی طباعت کے مراحل سے گذرنے والی ہیں، ان کے نام  واہ ! سیدنا معین ؓ، عمل چھوٹا آداب زیادہ، ہدایت کی روشنی اور مقام علماء ہیں۔
 مفتی صاحب کی ایک اہم کتاب جو آپ کے ہاتھوں میں ہے، تجہیز وتکفین سے متعلق ضروری اور اہم مسائل پر مشتمل "احکام میت "کے نام سے ہے، جس کی اشاعت جامعہ ہدایت الاسلام ولی نگر نا پتہ مونڈلہ اندور سے ہو رہی ہے۔ پنچانوے صفحات پر مشتمل اکہتر موضوعات ومسائل پر یہ کتاب محیط ہے، جس میں روح نکلنے سے قبل اور بعد تجہیز وتکفین، جنازہ ، غسل ، ایصال ثواب،  اور زیارت قبور سے متعلق اہم مسائل زیر بحث آءے ہیں، رطب ویابس سے گریز کیا گیا ہے، اور مفتی بہ قول کو درج کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے، جزءیات میں انہیں مسائل کو جگہ دی گئی ہے جو کثیر الوقوع ہیں، نادر الوقوع چیزوں کو  دوسری کتابوں کے مطالعہ کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے، ہر جگہ حوالے بھی دیے ہیں تاکہ قاری پورے اعتماد کے ساتھ اس پر عمل کر سکے، شروع کتاب میں حسن خاتمہ کے اعمال پر بھی گفتگو کی گئی ہے، تاکہ انسان آخری سفر سے پہلے اپنی زندگی کو سنوار لے  اور جب اپنے اللہ کے دربار میں حاضر ہو تو ندامت اور رسوائی حصہ میں نہ آئے، اور دنیا میں بھی ان اعمال کی وجہ سےا یمان پر خاتمہ کی علامتیں عوام وخواص پر ظاہر ہوں ۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...