Powered By Blogger

جمعرات, ستمبر 14, 2023

مؤمن کامل کے اوصاف - قرآن کریم کی روشنی میں

مؤمن کامل کے اوصاف - قرآن کریم کی روشنی میں 
Urduduniyanews72 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ
 ہر انسان کامیابی کا خواہش مند ہوتا ہے اور یہ خواہش اس کے اندر فطری ہے، اس کی تکمیل کے دنیا بھر کے اہل خرد نئے نئے فامولے پیش کرتے ہیں، بازار میں اس عنوان پر ہندو بیرون ہند کے مصنفین کی بہت ساری کتابیں موجود ہیں او ردعویٰ کیا جاتا ہے کہ اگر ان فارمولوں پر عمل کیا جائے تو کامیابی آپ کا مقدر ہے، جیت آپ کی ہے۔
 قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے کامیاب انسانوں کے اوصاف کا ذکر کیاہے۔ اور اسے فلاح سے تعبیر کیا ہے، فلاح کے معنی ہر مراد کا پورا ہونا اور ہر تکلیف سے محفوظ رہنے کے آتے ہیں، نماز کے لیے اذان کا معاملہ ہو یا اقامت کا مؤذن فلاح کی طرف ہی لوگوں کو بلاتاہے، لیکن آپ غور کریں تو معلوم ہوگا کہ فلاح کے جو حقیقی معنی ہیں اس کا حصول انسانوں کے لیے اس دنیا میں پورے طور پر ممکن نہیں ہے، دنیاوی زندگی میں نہ تو ہر مراد پوری ہوتی ہے اور نہ ہر تکلیف سے بچناممکن ہوتاہے، اسی طرح زوال نعمت کے امکان سے بھی انسانی قلوب پریشان رہا کرتا ہے، اسی لیے دنیا کو دار المحنت سے تعبیر کیا گیا ہے، اطمینان اور سکون کی جگہ تو صرف جنت ہے، اگر اللہ اپنے فضل سے عطا فرمادیں۔
کامیابی کے لیے سب سے پہلی چیز تزکیۂ نفس ہے، اللہ رب ا لعزت کا ارشاد ہے قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکیّٰ(سورۃ الاعلیٰ: 19) جس نے خود کو پاک کر لیا وہ کامیاب ہے، مفسرین نے تزکیہ کی تفسیر میں کفر وشرک اور گناہوں سے پاک ہونا لکھا ہے، یہی اصل تزکیہ ہے، کیوں کہ جب نفس کفر وشرک سے پاک ہوگا تو دل اللہ رب العزت کے ذکر کی طرف مائل ہوگا اور وہ اللہ کی یاد کے لیے نماز پڑھا کرے گا، وَذَکَرَ اسْمَ رَبِّہِ فَصَلیّٰ (سورۃ الاعلیٰ :20)میں یہی بات کہی گئی ہے، جب قلب کفر وشرک سے پاک ہوگا تو آدمی کی رغبت ایمان واسلام ، ارکان اور تزکیہ کے لیے جن اوصاف کی ضرورت ہے اس کی طرف ہوگی، پھر کامیابی اس کا مقدر ہوگی، اللہ رب العزت نے اٹھارہویں پارہ کے آغاز اور انتیسویں پارہ کے سورۃ معارج میں کامیاب انسانوں کے اوصاف کا خصوصیت سے ذکر کیا ہے، ان میں سے پہلی چیزنماز ہے، جن کا ذکر اوپر گذر چکا ہے، نمازی کے دل میں اللہ کی محبت جاگزیں ہوتی ہے، اللہ کی بڑائی اور ہر جگہ حاضر وناظر ہونے کا خیال اسے بُرے کاموں سے روکتا ہے، وہ اپنے پاس اللہ کو محسوس کرتا ہے، لیکن یہ اوصاف ایمان والوں میں اسی وقت پیدا ہوں گے جب اس کی نماز خشوع کے ساتھ یعنی سکون کے ساتھ ہو، خشوع میں سکونِ قلبی اور سکونِ جسمانی دونوں شامل ہے، سکون قلبی تو یہ ہے کہ دل اللہ کی طرف ہی پورے طور پر متوجہ ہو اور سکون جسمانی کا مطلب ہے کہ نماز میں فضول حرکتیں نہ کریں، خصوصا ایسی حرکتیں جو نماز میں خلل ڈالنے والی ہوں۔ اس لیے کہ اللہ بڑا بے نیاز ہے، اگر بندہ اس کی طرف متوجہ نہیں رہتا ہے تو اللہ بھی اس سے اپنا رخ پھیر لیتا ہے، اسی لیے نماز میں ادھر ادھر دیکھنے ، بدن کے کسی حصے سے کھیلنے، دامن مڑوڑنے، ڈاڑھی میں بار بار ہاتھ لے جانے سے منع کیا گیا ہے، کیوں کہ یہ سب خشوع کے خلاف ہیں، مجمع الزوائد کی ایک روایت کے مطابق سب سے پہلے امت سے خشوع اٹھ جائے گا او رقوم میں خاشعین کی کمی ہوجائے گی یا وہ نظر نہیں آئیں گے۔ نماز خشوع سے پڑھی جائے تو اس کا اثر زندگی پر وہ پڑتا ہے جس کا ذکر قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے کیا ہے کہ نماز برے اور فحش کاموں سے روکتی ہے، نماز کو خشوع سے پڑھنے کی وجہ سے یہ صفت خود بخود بندے کے اندر پیدا ہوجاتی ہے کہ وہ فضول اور لا یعنی بحثوں اور غیر نفع بخش کاموں سے دور بھاگتا ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ آدمی کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ لا یعنی چیزوں کو چھوڑدے یہ کامیاب ایمان والوں کی دوسری صفت ہے۔
تیسرا وصف جو ایمان والوں کی کامیابی کے لیے ضروری ہے وہ ہے انفاق فی سبیل اللہ، اس کی دو شکلیں ہیں ایک تو سال گذرنے کے بعد اپنے مال سے ڈھائی فی صد نکالنا یہ تو فرض ہے، دوسرا ہے صدقات نافلہ یعنی فقراء، یتامیٰ، مساکین پر خرچ کرنا، اس بات کو قرآن کریم کی دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ نے واضح کر دیا ہے کہ تم اس وقت تک خیر کو نہیں پا سکتے جب تک اپنی پسندیدہ چیز کو خرچ نہ کرو، اس کو قرآن کریم میں قرض حسنہ سے تعبیر کیا گیا ہے، اور حکم دیا گیا ہے کہ اللہ کو قرض حسنہ دو، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے جسے امام بخاریؒ نے حفص بن غیاث سے روایت کیاہے کہ تمہارا مال تو وہی ہے جو تم نے اللہ کے راستے میں اپنے ہاتھ سے خرچ کر دیا اور جو رہ گیا وہ تمہارا نہیں تمہارے وارث کا مال ہے، ایمان والے کے اندر جب یہ صفت پیدا ہوتی ہے تو وہ بہت سارے گناہ اور رذائل سے بچ جاتا ہے، دینے کا یہ مزاج جب بڑھتا ہے تو آدمی سخی کہلاتا ہے اور جنت میں جانے کے من جملہ اوصاف میں سے ایک سخاوت بھی ہے۔ للزکوٰۃ فاعلون کی تعبیر بتاتی ہے کہ کہ اس وصف میں زکوٰۃ واجبہ اور صدقات نافلہ دونوں شامل ہیں، کیوں کہ فرض زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے قرآن کریم کی تعبیر آتو الزکوٰۃ اور ایتاء زکوٰۃ کی رہی ہے۔ بعض نے یہاں زکوٰۃ سے مراد تزکیہ لیا ہے، یعنی روحانی امراض بعض حسد ، کینہ، ربا، تکبر ، حرص اور بخل وغیرہ سے خود کو محفوظ کر لینا اور محفوظ رکھنے کی کوشش کرنا ۔ 
چوتھی صفت مؤمن کے اندر یہ ہونی چاہیے کہ وہ محرمات سے اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرے اور شہوانی خواہشات کا غلبہ اس کے اندر نہ ہو، جو لوگ شہوت پوری کرنے کے لیے اپنی بیویوں تک محدود رہتے ہیں، وہ قابل ملامت نہیں ہیں، جنسی خواہشات کی تکمیل ایک فطری تقاضہ ہے، اس کے لیے بیوی اور باندیوں کا ذکر کیا گیا ہے، باندیاں اب ہوتی نہیں،ا س لیے اب اس کام کا جائزطریقہ بیوی تک محدود ہو کر رہ گیا ہے اور وہ بھی شرعی حدود وقیود کے ساتھ۔
پانچویں صفت امانتوں میں خیانت نہ کرنا اور ان کی رعایت کرنا ، یعنی حفاظت کرنا ہے، امانات کہہ کر کے اللہ رب العزت نے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ اس میں ہر قسم کی امانت شامل ہے، بغیر اجازت کے کسی کا راز دوسروں پر کھولنا ، ملازمت کے جو اوقات ہیں اس کے مطابق وقت نہیں لگانا، یہ سب امانت میں خیانت ہے اور ایمان والوں کو امانت کی پوری رعایت کرنے کا حکم دیا گیا ہے، ورنہ وہ کامل مومن نہیں ہوسکتا، اسی کے ساتھ اللہ نے معاہدے اور وعدوں کی پاسداری بھی کامل ایمان والوں کی چھٹی صفت کے طور پر بیان کیا ہے۔ اگر کوئی مومن معاہدہ کی خلاف ورزی کرتا ہے تو وہ دوسرے فریق کو دھوکہ دے رہا ہے، حالاں کہ معاہدہ کی پابندی فرض کے درجہ کی چیز ہے، اسی طرح وعدہ خلافی بھی مذموم ہے، کسی سے وعدہ کرلیا جائے تو اسے پورا کیا جائے، یہ بھی ضروری ہے، معاہدہ کی خلاف ورزی پر تو عدالت تک کا دروازہ کھٹکھٹایا جا سکتا ہے، البتہ وعدہ کی خلاف ورزی پرداروگیر اللہ ہی کر سکتا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے منافق کی جو پہچان بتائی ہے اس میں امانت میں خیانت اور وعدوں کی خلاف ورزی شامل ہے، اور منافق کامل مومن تو دو ر کی بات ہے، اس کا ایمان بھی محض دکھا وا ہوتا ہے۔
اور ساتویں صفت نماز کی حفاظت ہے، یہاں صلوٰۃ جمع لایا گیاہے تاکہ پنج وقتہ نماز یں اس میں شامل ہوجائیں، جنہیں اپنے وقت پر ادا کرنا ہے، پہلی صفت میں نماز کا ذکر خشوع کے حوالہ سے تھا۔ یہاں فرض نماز کی حفاظت کی بات کہی گئی ہے۔ سورۃ معارج میں ’’الذِیْنَ ھُمْ عَلی صَلَاتِھِمْ دَائِمُوْن‘‘ کہہ کر نماز پر مداومت ، پابندی اور ہمیشگی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، اس سورۃ میں ان تمام اوصاف کے ساتھ اللہ رب العزت کے عذاب سے ڈرنے اور شہادتوں پر قائم رہنے کا بھی ذکر موجود ہے، اللہ کا ڈر ، اللہ کی خشیت اور اللہ کا خوف شاہ کلید ہے، جس سے ہمارے اعمال میں اعتدال اور توازن پیدا ہوتا ہے اور نیک عمل کی طرف رغبت پیدا ہوتی ہے، سورۃ العصر میں جہاں زمانہ کی قسم کھا کر اللہ رب العزت ارشاد فرمایاہے کہ انسان گھاٹے میں ہے، مگر وہ انسان جو ایمان والے ہیں، عمل صالح کرتے ہیں، حق کی تلقین ان کا شیوہ اور صبر تحمل، برداشت ان کی عادت ہے، ایسے لوگ کامیاب ہیں۔
 ان اوصاف کے حاملین کی زندگی میں ایسی تبدیلی آتی ہے جو ہر کوئی محسوس کر سکتا ہے، ایسے لوگ قرآن کی اصطلاح میں ’’عباد الرحمن‘‘ ہوجاتے ہیں جو زمین پردبے پاؤں عاجزی اور نرمی سے چلتے ہیں، جب نا سمجھ اور نادان لوگ ان سے گفتگو کرنے لگتے ہیں تو وہ سلامتی طلب کرکے اپنی راہ لیتے ہیں، ان کی راتیں رب کے سامنے سجدے اور قیام میں گذرتی ہیں، او روہ اللہ سے دوزخ کے عذات سے محفوظ رکھنے کی دعائیں مانگتے رہے ہیں، وہ خرچ میں اسراف اور بخالت سے بچتے ہیں اور اعتدال کے ساتھ خرچ کرتے ہیں،وہ اللہ کے علاوہ کسی کو نہیں پکارتے، وہ ناحق قتل نہیں کرتے، زنا سے پرہیز کرتے ہیں، وہ جھوٹے کاموں میں شریک وسہیم نہیں ہوتے اور لغویات سے با عزت نکل جاتے ہیں، وہ اپنی بیوی اور بچوں کو آنکھوں کی ٹھنڈک بنانے اور انہیں پر ہیز گاروں کا مقتدیٰ بنانے کی دعا مانگتے رہتے ہیں، ایسے ہی لوگ جنت کے مستحق قرار پائیں گے۔
 ان اوصاف اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی تبدیلیوں پرمزید گفتگو کی جا سکتی ہے، اہل علم نے پوری پوری کتابیں اور مفسرین نے صفحات کے صفحات اس موضوع پرلکھ ڈالے ہیں، لیکن یہاں ایجاز سے کام لیا گیا ہے، امید ہے کہ ان اوصاف کو اپنا کر ہم مومن کامل بنیں گے اور جنت کے مستحق ہوں گے۔ وماتوفیقی الا باللہ

ایک ملک ایک انتخاب

ایک ملک ایک انتخاب 
Urduduniyanews72 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ
 ہندوستان میں ایک ملک ایک کرنسی ، ایک دفاعی فوج، ایک قانون، ایک جھنڈا، ایک عدالتی نظام اور ایک نظام مواصلات کا پہلے ہی سے رائج ہے، اسی بنیاد پر رومنگ سسٹم کو ختم کر دیا گیا، اب ایک ملک ایک انتخاب کی بات چل رہی ہے اور اسی کے لیے غالباپارلیامنٹ کا خصوصی اجلاس ۱۸؍ستمبر سے خلاف معمول بلا یا گیا ہے، اور اس موضوع کے مختلف پہلوؤں کے جائزہ لینے کے لیے ایک آٹھ نفری کمیٹی سابق صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند کی سر براہی میں بنائی گئی ہے، کانگریس کے ادھیر رنجن چودھری نے اُس کمیٹی سے خود کو الگ کر لیا ہے اس لیے اب ارکان کی تعداد سات رہ گئی ہے۔
 آزادی کے بعد 1967تک ملک میں سیاسی استحکام تھا، ریاستوں میں چھوٹی چھوٹی پارٹیاں خود رو پودے کی طرح سامنے نہیں آئی تھیں، مرکز اور ریاست کے بارے میں انتخابی نظریہ الگ الگ نہیں ہوا کرتا تھا، سیاسی استحکام کی وجہ سے دونوں کی مدت کا ر ایک ساتھ مکمل ہوتی تھی اور انتخاب بھی ایک ساتھ ہوجاتا تھا، یہ ایک اتفاق تھا، قانونی اور دستوری طور پر ایساکرانا ضروری نہیں تھا۔1967میں آٹھ ریاستوں میں کانگریس بر سر اقتدار نہیں آسکی اور آپسی رسہ کشی میں اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے پارلیامنٹ کو 1970میں وقت سے پہلے تحلیل کر دیا، 1975میں ہنگامی حالت (ایمرجنسی) کے نافذ ہوئے کے بعد پارلیامنٹ کی مدت کار چھ سال ہو گئی، 1977میں جنتا پارٹی کی حکومت بنی تو اس نے کئی ریاستوں کے وزراء اعلیٰ کو ہٹا کر صدر راج لگا دیا، جنتا پارٹی کی حکومت ڈھائی سال میں ہی گر گئی ، اس طرح ریاست اور مرکز میں ایک ساتھ انتخاب کرانا ممکن نہیں ہوسکا اور دونوں کے انتخابات الگ الگ ہونے لگے، کیونکہ ہندوستان کی تمام ریاستی اسمبلیوں کی مدت کار ایک ساتھ ختم نہیں ہورہی تھی اور پارلیامنٹ کی مدت کار سے اسمبلیوں کی مدت کار کا جوڑ نہیں بیٹھ رہا تھا،لیکن یہ چرچا کا موضوع رہا کہ ایک ملک ، ایک انتخاب مفید ہے یا مضر ۔
 سب سے پہلے 1999میں لا کمیشن نے اپنی 170 ویں رپورٹ میں پارلیامنٹ اور اسمبلی کے انتخابات ایک ساتھ کرانے کی تجویز رکھی 2015میں عوامی شکایات ، قانون وانصاف کی پارلیمانی کمیٹی نے دونوں انتخاب ایک ساتھ کرانے کی سفارش کی ، 2017میں نیتی آیوگ نے ایک دستاویز جاری کیا، جس کے مطابق دو مرحلوں میں انتخاب کی تجویز رکھی گئی تھی۔اگست2018میں لا کمیشن نے نیتی آیوگ کی دومراحل میں انتخابات کرانے کی تجویز کو تسلیم دسمبر 2022میں لا کمیشن نے ایک ساتھ انتخاب کرانے کی تجویز پر سیاسی پارٹیوں ، انتخابی کمیشن، بیورو کریٹ، ماہرین تعلیم وسیاست سے رائے طلب کی ، رائے کیا آئی، لا ء کمیشن نے اس رپورٹ کو اب تک عام نہیں کیا ہے۔
 پھر ایسا کیا ہوا کہ مودی جی اور بھاجپا کو بیک وقت اس کی یاد آگئی، اسکی وجہ حزب مخالف کا اتحاد ہے اور حکومت ایک نیا موضوع چھیڑ کربے روزگاری، مہنگائی، سرحد پر چینی تناؤ سے لوگوں کی توجہ بٹانا چاہتی ہے، چندریان -۳کی کامیابی میں  گو حکمراں طبقے کا کوئی کمال نہیں ہے، یہ سارا کمال اسرو کا ہے،لیکن اس کی کامیابی کا سہرا بھی مودی جی نے اپنے سر لے لیا اور لوگوں کی توجہ اس کامیابی کی طرف مبذول کرنے کے لیے ایک لمبی تقریر کر ڈالی اور جن کی یہ اصل کامیابی تھی ان کو تقریر کرنے اور اپنی بات رکھنے کے لیے بہت کم وقت مل سکا۔
 اب تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ 18ستمبر سے 22ستمبر تک پارلیامنٹ اور راجیہ سبھا کا خصوصی اجلاس بلالیا گیا ہے، جس کا کوئی ایجنڈہ بھاجپا کے علاوہ کسی کے سامنے نہیں ہے۔ سیاسی پنڈتوں کے اندازے کے مطابق اس خصوصی اجلاس کی پانچ نشستوں میں خواتین رزرویشن،یکساں شہری قانون، ایک ملک ایک انتخاب ، آئی پی سی ، سی آر پی سی قوانین میں ترامیم کے لیے بل پیش کیا جا سکتا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومت بڑی جلدی میں ہے خود آر ایس ایس، اور بھاجپا کے اندر بڑا طبقہ مودی جی کے خلاف ہے اور وہ اگلے انتخاب میں نتن گڈگری کو وزیر اعظم کا چہرہ بناکر پیش کرنا چاہتا ہے، آر ایس ایس اور بھاجپا کو شکایت یہ ہے کہ مودی کی طاقت کے آگے ان دونوں تنظیموں کی کوئی وقعت نہیں رہ گئی ہے اور کہنے والے یہ کہنے لگے ہیں کہ مودی ہے تو ممکن ہے، مختلف پروگراموں میں مودی، مودی کا ورد کیا جاتا ہے اور پوری ٹیم میں کسی اور کا نام آتا ہی نہیں ہے، بہت ہوا تو کبھی امیت شاہ کا نام لے لیا گیا، اس لیے مودی جی عجلت میں ہیں جو کچھ کرنا ممکن ہو کرگذرنا چاہتے ہیں، اسی لئے مودی نے فوری طورپر ایک ملک، ایک انتخاب کے موضوع پر غورکرنے کے لئے کمیٹی بنائی اور اس کا چیرمین سابق صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند کو بنادیا، سابق صدر جمہوریہ کی اس سے بڑی توہین اور کیا ہوگی کہ انہیں ’’ون نیشن، ون الیکشن‘‘ کمیٹی کا چیرمین بنا دیا گیا ہے، اور پتہ نہیں کس لالچ یا کس خوف سے ا نہوں نے اس کو قبول بھی کر لیا ہے، ہندوستان کی تاریخ میں یہ پہلا واقعہ ہے کہ سابق صدر جمہوریہ نے ایک چھوٹی کمیٹی کی صدارت قبول کر لی ہو۔
 ظاہر ہے بھاجپا اور آر ایس ایس کے تھنک ٹینک نے اس کا خاکہ پہلے سے بنا رکھا ہوگا، کمیٹی اس خاکے پر مہر لگادے گی اور حکومت اسے خصوصی اجلاس میں پیش کرکے اس کی منظوری پارلیامنٹ سے لینا چاہے گی، لیکن یہ دوسرے بل کی منظوری کی طرح آسان نہیں ہوگا، کیوں کہ ایک ملک ایک انتخاب کے لیے دستور میں پانچ ترمیمات کرنی ہوں گی، اور چونکہ انتخاب مرکز اور ریاست دونوں کا معاملہ ہے، اس لیے ریاستی اسمبلیوں سے بھی اس کی منظوری لینی ہوگی۔ 2018میں لاء کمیشن نے جو سفارشات پیش کی تھیں، اس کے مطابق دستور کی دفعہ 83,85,172,174اور 356میں اس کام کے لیے ترمیم ضروری ہوگی، تبھی اسمبلیوں کی مدت کار کوکم اور زیادہ کرکے پارلیامنٹ کے ساتھ انتخاب کرانا ممکن ہو سکے گا۔
 اگر اسمبلی اور پارلیامنٹ کے انتخاب ایک ساتھ ہونے کی منظوری مل جاتی ہے اور قانون بن جاتا ہے تو انتخاب کے اخراجات یقینا بہت کم ہو جائیں گے اور دوسرے کاموں کے لیے وقت بھی اچھا خاصہ بچے گا اور انتخابی کام کاج جلد نمٹ جائے گا، ہو سکتا ہے اس کی وجہ سے ملکی سیاست میں استحکام ہو، اس کے ذریعہ سازش کرکے حکومت گرانے اور بدلنے کی مہم پر بھی لگام لگ سکتی ہے، لیکن صدر راج کے امکانات بڑھ جائیں گے، بعض حالات میں طویل مدت تک ریاستوں کو مرکز کے زیرنگیں رہنا پڑسکتا ہے اور اگر اسمبلی تحلیل کرکے وسط مدتی انتخابات کرائے گیے تو پھر انتخابات الگ الگ شروع ہوجائیں گے، اور ایک ملک ایک انتخاب کا فارمولہ دھرا کا دھرا رہ جائے گا۔ ریاست کے مفادات پس پشت چلے جائیں گے او رلوگوں کی ساری توجہ مرکزی انتخاب پر مبذول رہے گی، بھاجپا کی سوچ یہ ہے کہ عظیم اتحاد انڈیا میں جو چھوٹی ریاستی پارٹیاں شامل ہیں وہ اپنے وجود کے لیے اسمبلی انتخاب پر توجہ مرکوز رکھیں گی اور بھاجپا کے لیے مرکز تک پہونچنے کا راستہ ایک انتخاب کی وجہ سے صاف ہو جائے گا۔

اتوار, ستمبر 10, 2023

نفرت کی کاشت- ملک کے لئے خطرناک 
Urduduniyanews72 
✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ

آپ نے مختلف قسم کے فصلوں کی کاشت کے بارے میں پڑھا اور سنا ہوگا، اس کے لہلہانے کی تدبیر یں بھی آپ کو بتائی گئی ہوں گی، کتنا پانی، کتنا کھاد، کتنی نکیونی اور کیسی آب وہوا کس فصل کے لیے چاہیے، اس کی واقفیت آپ کو مجھ سے زیادہ ہے، اہل فن نے اس پر کتابیں لکھی ہیں اور مختصر مدت میں زمین سے کس قد رزائد پیدا وار حاصل کر سکتے ہیں، اس کا علم ہمارے کسان کما حقہ رکھتے ہیں، تبھی تو ہندوستان غذائی اجناس میں خود کفیل ہوگیا ہے۔
 ہندوستان میں گذشتہ چند دہائیوں سے ہمارے حکمراں اور سیاست دانوں نے ایک اور کاشت شروع کی ہے، یہ کاشت ہماری زمین پر نہیں، دل ودماغ پر کی جا رہی ہے، یعنی اس کاشت کے لیے جس زمین کا استعمال کیا جا تا ہے، وہ دل اور دماغ کی زمین ہے، یہ نفرت کی کاشت ہے، ہندوستان کے اکثریتی طبقات کے دل ودماغ میں پہلے یہ بیج ہندتوا کے نام پر ڈالا جاتا ہے، فرقہ پرست افراد اور تنظیمیں گرم گرم تقریروں اور اسلام دشمن بیانات کے ذریعہ اس کو کھاد پانی فراہم کرتی ہیں، سپریم کورٹ آڑے آتا ہے تو ان کو یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں ہوتا کہ ہم کسی کی اجازت کے پابند نہیں ہیں، بابری مسجد انہدام سے لے کر نوح میوات کے فسادات تک سر کشی اور قانون کی خلاف ورزی اس طرح کی گئی ہے کہ اگر اقلیتیں کرتیں تو آج کی پوری قیادت جیلوں میں سڑ رہی ہوتی، لیکن اکثریتی طبقہ اور شر پسندوں کے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہو رہا ہے، احمد آباد کے فسادی قانون کی گرفت سے عموما باہر رہے، بابری مسجد کے انہدام کے مجرمین کو سزا نہیں دی جا سکی، بلقیس بانو کے خاندان کو تہہ تیغ کرنے اور اس کی اجتماعی آبروریزی کے مجرمین عمر قید کی سزا کے باوجود جیل سے باہر آکر دندناتے پھر تے ہیں۔
نفرت کی اس کاشت کو پروان چڑھانے اور اسے بار آور کرنے کے لیے فرقہ پرستوں نے الگ الگ طریقے ایجاد کر رکھے ہیں، کہیں مسلمانوں کو دیکھ کر جے شری رام کا نعرہ لگائیں گے ، کہیں مسلم آبادی سے گذرتے ہوئے دل آزار جملے پھینکیں گے، بے وجہ کسی مسلمان پر الزام لگا کر ماب لنچنگ کر دیں گے، کہیں مسلمانوں کو دوکان ومکان اور علاقہ خالی کرنے کی نوٹس دیںگے، کہیں پنچایت میں مسلمانوں کو بُرا بھلا کہہ کر اپنی بھڑاس نکالیں گے اور کبھی مسلمانوں کے بائیکاٹ کا فیصلہ سنائیںگے کہ ان سے کاروباری معاملات نہ کرو، ان سے سودا سلف نہ لو تاکہ وہ خود ہی علاقہ خالی کرکے چلتے بنیں اور نفرت کی یہ کاشت پروان چڑھتی رہے، مسلمانوں کو اس قدر خوف کی نفسیات میں مبتلا کر دیا جائے کہ وہ چوں نہ بولیں اور ’’ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم‘‘ کی عملی تصویر بن کر رہیں یا کم از کم اپنی مذہبی اور تہذیبی شناخت سے دست بردار ہو جائیں۔ 
ادھر نفرت کی کھیتی کے لیے ایک او رزمین فرقہ پرستوں نے منتخب کر لی ہے اور وہ ہے ابتدائی درجات کے اسکولوں میںنفرت کا ماحول پیداکرنا، پہلے یہ اونچے درجات کے تعلیمی اداروں میں ہوا کرتا تھا، لیکن اب نفرت کی کھیتی کے لیے چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کو اسکول میں تیار کیا جا رہا ہے، انہیں مسلمانوں کے خلاف تقریریں رٹائی جارہی ہیں اور پھر انہیں اسکول کے کلچر پروگرام اور طلبہ کی صلاحیتوں کے مظاہرے کے نام پر عوام کے سامنے پیش کرایا جاتا ہے اور تالیوں کی گرگراہٹ آئندہ اس مہم کو جاری رکھنے کا حوصلہ بچوں میں پیدا کرتا ہے، مسلم بچے جن اسکولوں میں پڑھ رہے ہیں، ان کو نفسیاتی طورپر بے عزت کیا جاتا ہے، تازہ واقعہ ۲۴؍ اگست کو مظفر نگر ضلع کے نہا پبلک اسکول خبر پور کا ہے ، یہ گاؤں منصور پور سے قریب واقع ہے، اس اسکول کی پرنسپل تریپتا تیاگی نے ون کے جی کے ایک مسلم طالب علم التمش ولد محمد ارشاد کو پورے کلاس کے ہندو طلبہ سے تھپڑ لگوایا اور تلقین کرتی رہی کہ اور زور سے مارو، قصور یہ تھا کہ وہ ہوم ورک کرکے نہیں لایا تھا، اسکولی طلبہ میں یہ جرم اتنا بڑا نہیں ہے کہ اس کی سزا کے طورپر غیر مسلم بچوں سے پٹائی کرائی جائے، سزا وہ استانی خود بھی دے سکتی تھی ، کہتی ہے کہ میں معذور ہوں، اس لیے اٹھ نہیں سکتی تھی، یہ ایسا عذر لنگ ہے، جس کو کوئی بھی عقل مند تسلیم نہیں کرے گا، اگر وہ معذور ہے تو اسکول کیسے آتی ہے اور پرنسپل کی ذمہ داری کس طرح سنبھالتی ہے، چلیے تھوڑی دیر کے لیے مان لیتے ہیں کہ وہ اٹھ نہیں سکتی تھی، لیکن کیا وہ بچے کو اپنے پاس بلا کر بیٹھے بیٹھے تنبیہ نہیں کر سکتی تھی ، اس کے علاوہ اسکول میں تو مار پٹائی قانونا جرم ہے، وہ تو ایسے ہی قانون کے خلاف ورزی کر رہی تھی اور مسلم لڑکے کو صرف ذلیل کرنا چاہتی تھی، اس کے رونے گڑ گڑانے معافی مانگنے تک کا اس پر کوئی اثر نہیںہوا، بچے کا چہرہ سوج گیا۔
 مسلم بچے کے ساتھ اس ذلت آمیز سلوک کی ویڈیو اسکول کے ہی کسی نے بنایا اورسوشل میڈیا پر وائرل ہوا، ویڈیو بنانے والا بھی فرقہ پرست ہی ہوگا، چنانچہ اس نے مسلمانوں کو نفسیاتی طورپر اپنی ہتک محسوس کرانے کی غرض سے اسے عام کر دیا ، بات جب گلے پڑنے لگی تو اس کی مختلف تاویلیں کی جانے لگیں، حد یہ ہے کہ اتر پردیش کے وزیر تعلیم اس کی حمایت میں آگیے اور کہا کہ تریتبا نے معافی مانگ لی تو بات ختم ہو گئی، بھلا کوئی کسی کی عزت سے کھلواڑ کرے، معصوم ذہنوں میں نفرت کی بار آوری کرے اور اسے معاف کر دیا جائے، چاہیے تو یہ تھا کہ اس استانی کو فوری طور سے گرفتار کیا جاتا اور جیل کی سلاخوں کے پیچھے رکھ کر غیر جانبدارانہ تحقیق کی جاتی ، لیکن جب وزیر تعلیم ہی کلین چٹ دے رہے ہیں تو کون اس معاملہ کو اٹھا پائے گا، البتہ خبر یہ آ رہی ہے کہ معاملہ کو رفع دفع کرنے کے لیے اسکول کو بند کر دیا گیا ہے، التمش کے والد نے اس بچے کا نام اسکول سے کٹوا دیا ہے، لیکن وہ نا مزد ایف آئی آر درج کرنے کو تیار نہیں ہوئے، وہ بھی خوف کی نفسیات میں مبتلا ہوگیے اور انہیں لگا کہ یوگی کے راج میں انصاف کا ملنا دشوار ہے، اس لیے انہوں نے کوئی مقدمہ درج نہیں کرایا، جب اصل متاثر سامنے نہ آئے تو مقدمہ ایسے ہی کمزور ہوجاتا ہے۔ 
دھیرے دھیرے یہ معاملہ سرد پڑجائے گا، لیکن اس عورت کی اس ذلیل حرکت کی وجہ سے یہ بچہ تا زندگی ایک خاص نفسیات میں مبتلا رہے گا، وہ مایوسی اور ڈپریشن کا شکار ہوکر زندگی گذارے گا، اور جن بچوں سے اس عورت نے اسے پٹوایا وہ پوری زندگی مسلمانوں کو لقمۂ تر سمجھ کر ان کے ساتھ ظلم وزیادتی کرتے رہیں گے اور پھر نفرت کی یہ کاشت امربیل کی طرح پھیلتی چلی جائے گی ، جس سے ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب جو اب نام کی حد تک ہی باقی ہے؛ بالکلیہ ختم ہو کر رہ جائے گی۔
اس واقعہ سے ہندوستان کی جو شبیہ خراب ہوئی تھی اسے کم کرنے اور مسلم سماج کے غصے کو کم کرنے کے لیے کٹھوا جموں کشمیر میں مبینہ طورپر ایک مسلم استاذ کے خلاف افواہ پھیلائی گئی کہ اس نے بلیک بورڈ پر جے شری رام لکھنے والے بچے کی پٹائی کی اور آئندہ ایسا کرنے پر جان سے مارنے کی دھمکی بھی دی اور اس میں وزن پیدا کرنے کے لیے ایک خاص مذہب کے لوگوں کے ذریعہ سڑک پر احتجاج کرایا گیا اورپوری کوشش کی گئی کہ اس کو بنیاد بنا کر مظفر نگر کے واقعہ کو ہلکا کیا جائے، لیکن ایسانہیں ہو سکا، البتہ کٹھوا کے واقعہ پر باضابطہ ایف آئی آردرج ہوا، اور جانچ شروع ہو گئی، مظفر نگر کے واقعہ پر مسلمانوں نے احتجاج نہیں درج کرایا اور نہ متاثر طالب علم کے والد نے کوئی ایف آئی آر درج کرائی، واقعتا ہم لوگ اس قدر پُر امن ہیں کہ ہر حال میں شانت رہتے ہیں، ایسا قانون کے احترام اور خوف کی نفسیات کی وجہ سے ہوتا رہا ہے، اور شاید آئندہ بھی ہوتا رہے گا۔
** گھرآنگن کی شاعری***
اردودنیانیوز۷۲ 
      ✍️       ٭ انس مسرورؔانصاری 

           ہندوستان کی مہذ ب زبانوں میں شاعری کےبیشتر حصّےعورت کےذکرسےعبارت ہیں لیکن جیساکہ ‘‘گھرآنگن’’میں کرشن چند ر نےلکھاہے:
          ‘‘شاعراپنی محبوبہ کو جنگل جنگل،صحراصحراتلاش کرتاہےمگرکبھی وہاں نہیں تلاش کرتاجہاں وہ پائی جاتی ہے۔یعنی اپنےگھرمیں۔مزاحیہ یاطنزیہ شاعری میں گھرکی عورت کاذکر آتاہےلیکن اس تذکرےمیں عورت ہدفِ ملامت بن کراُبھرتی ہے۔رزمیہ شاعری میں عورت ایک نرس ہےیاروتی پیٹتی بیوہ ہے، بےبس اورمجبور،ماحول حشر کاہے،گھرکانہیں۔فلسفیانہ شاعری میں بالعموم عرش کےمسائل سے بحث کی جاتی ہےاور عورت بالعموم گھرکےفرش پرکام کرتی ہوئی پائی جاتی ہے۔کبھی کبھی فلسفی شاعرعورت کاذکرکردیتے ہیں تواکثراوقات اُس کی متلؤن مزاجی کاگلہ بھی کرتےہیں۔کیوں کہ عظیم فلسفیانہ شاعری صرف مردوں نےکی ہے۔اس لیےاُنہیں  حق پہنچتاہےکہ جوچاہیں کہہ دیں۔عورت تک فلسفی شاعرکے افکارنہی پہنچتے،کیونکہ وہ اُس کاکھاناتیارکرنےمیں مصروف ہوتی ہے۔’’ 
      کرشن چندرکایہ تبصرہ حقائق پرمبنی ہے۔یہ خلاء نہ صرف ہندوستانی زبانوں میں پایاجاتاہےبلکہ دنیا کی قدیم وجدیدزبانوں کی شاعری،گھر آنگن کےموضوع سےتقریباّّ محروم ہے۔ہم دنیابھرکی شاعری میں عورت کوڈرائنگ روم یا کافی ہاؤس میں مشروبات سے شغل کرتےہوئے،پرائے مردوں سےہنس ہنس کرباتیں کرتے ہوئے،کئی روپ میں دیکھ سکتے ہیں لیکن ہمیں وہ عورت کہیں نظرنہیں آتی جواپنی فطری حیا وشرم کےباعث بعض مرتبہ اپنے شوہرسےبھی آنکھ نہیں ملاپاتی۔شاعری میں شوخ وچنچل، قاتل،بے رحم اورستم گرحسینہ تونظرآجاتی ہےلیکن اس وفا شعاراورپاکبازبیوی کادوردورتک پتانہیں جوگھرمیں چلتی پھرتی،اٹھتی بیٹھتی،کھاناتیار کرتی،شرٹ کی ٹوٹی ہوئی بٹن ٹانکتی،حسدورقابت میں جلتی ہوئی،بچوں کویونیفارم پنہاکر اسکول بھیجتی اوررات گئےتک اپنےشوہر،اپنے مجازی خداکے انتظارمیں اونگھتی اوردیرسے گھرلوٹنےپرکھاناگرم کرتی ہوئی ہوتی ہے۔ 
       ہم یہ بات مان بھی لیں کہ مغربی تہذیب میں اس عورت کاوجودکبھی نہیں رہامگر مشرق میں پائی جانےوالی اس حقیقت کوہم کیسےفرامو ش کرسکتے ہیں۔دورکیوں جایئےصرف اردو شاعری کامطالعہ کرلیجئےجو عورت کےذکرسےبھری پڑی ہے، لیکن ہمیں گھرکی عورت کہیں بھی نظرنہیں آ تی اوراگرعورت جیسی کسی مخلوق کوشاعروں نے پیش کیاہےتووہ آسمان کی حورہوکررہ گئی ہےیاایک قاتل اورخنجربکف حسینہ کی صورت اختیارکیےہوئےہے۔عورت ہمیں کہیں نہیں ملتی۔اس کےعشوہ واندازاورنازونیازکاذکرتوملتاہے لیکن اس کے تقدس،پاکیزگی، نازک جذبات واحساسات، اس کی فطری شرافت اوروفاداری کاذکرنہیں ملتا۔کیونکہ ہماری شاعری میں عورت کبھی کنوارپن سےآگے نہیں بڑھ سکی۔یعنی عورت کوکبھی اس کے اصل رنگ وروپ اورصحیح مقام سےپیش نہیں کیاگیا۔ہمیشہ اس کی صورت پہلے مسخ کی گئی، پھراسے سامنے لایاگیا۔
          اُردوشاعری میں عورت کبھی ماورائی اورقابلِ پرستش مخلوق رہی ہےاورکبھی لائقِ صد نفریں۔!میں سمجھتاہوں کہ شاعروں نےاپنی بےوفامحبوبہ  کوکبھی وفاشعاربیوی بننےکاحق  اورموقع نہیں دیا۔یہ شاعر کی بےایمانی اورحقائق سےچشم پوشی ہے
اُردوشاعری میں اس خلاکوپُرکرنےکی اوّلین کوشش فراقؔ گورکھپوری کی ہے۔نداؔ فاضلی کی توجہ بھی اس طرف ہوئی اوراحمدندیم قاسمی نے بھی عورت کےصحیح خدوخال ابھارنےکی سعی کی لیکن وہ بھی اس قتا لۂ عالم حسینہ کو صرف محبوبہ بنا سکے،اس سے شادی کرنےکی جرأت قاسمی میں بھی نہیں ہوئی۔انھوں نے البتہ اتناکیاکہ عرش کی حورکو فرش پراتارکراسےغورسےدیکھا اورلب کشاہوئے ۔
 دیکھ ری توپنگھٹ پرجاکرمیرا ذکرنہ چھیڑاکر
میں کیاجانوں وہ کیسےہیں کس کوچےمیں رہتےہیں
 میں نےکب تعریفیں کی ہیں اُن کےبانکےنینوں کی 
وہ اچھےخوش پوش جواں ہیں،میرےبھیّا کہتےہیں 
       قاسمی نےاتناتوکیاکہ شاعری کی الّھڑاورشوخ وچنچل دوشیزہ کوایک بھائی عطاکردیا لیکن وہ گھریلوعورت ہمیں پھر بھی کہیں دکھائی نہیں دیتی جس کےوجودکو اقبالؔ نےتصویرِ کائنات کارنگ کہا ہے۔ 
   ‘‘وجودِزن سے ہےتصویرِ کائنات میں رنگ۔’’ 
 لیکن اقبال کی شاعری میں زن یعنی عورت کاکوئی اہم کردار نہیں۔اکثرشاعروں نےگھرکی عورت کونظرانداز کیا۔اردوشاعری میں اس کمی کو جاں نثاراخترؔ(1974/1914) نےپوراکرنےکی کوشش کی اور شاعری میں پہلی بارایساہواکہ گھریلوعورت کوموضوعِ سخن بنایاگیا۔
     جاں نثاراخترؔکی رباعیات کا مجموعہ‘‘گھرآنگن’’ کی شاعری عائلی اورگھریلوموضوعات سے عبارت ہے۔یہ دیکھ کرخوشی ہوتی ہےکہ غالبؔ واقبالؔ اور دیگر شعرائےاردوکی نظرانداز کی ہوئی شوخ وچنچل اورسربرہنہ لڑکی کو اخترؔ نےپہلی بارسہاگن کاروپ دیااوراس سےشادی کرکے اس کےسرپردوپٹّہ ڈال کراپنے گھرلےگئےاوراس سےجی بھرکے پیارکیا۔عورت جوشاعری میں ہمیشہ ایک محبوبہ اورشراب پلانےولی (ساقی)رہی ہے،اختر نےاسےآوارگی کی دلدل سےنکال کراس کےساتھ ایک خوبصورت ساگھربسایا۔اس کےرنج وراحت کےشریک ہوئے۔اپنےدکھ سکھ میں اسےشامل کیا۔عورت کواس کاصحیح مقام اخترؔ نےدیا۔             
       ۔۔گھرآنگن۔۔کی عورت ہماری اپنی محبوب بیوی اورشریکِ حیات ہےجوہمارےدکھ سےدکھی اورہمارےسکھ سےسکھی ہے،اور جورات گئےتک ہماراانتظارکرتی، کھاناگرم کرکےہمیں پیارسےکھلا تی ہے۔دیر سےگھرآنےکی شکایت کرتی ہے۔ہم سےلڑتی جھگڑتی ہے۔روٹھتی اورمناتی ہے۔ہمارے بچوں کواسکول پہنچاتی ہے۔ہم سےلڑتی ہےاورہمیں جی جان سے ٹوٹ کرپیاربھی کرتی ہے۔ یہ عورت پھولوں کی گلابی اور سُرمئی وادیوں کےبجائےہمارے اپنےگھرمیں رہتی ہے۔      
         اخترؔکاکمال یہ ہےکہ انھوں نےعورت کواس کےتمام فطری تقاضوں اورنسائی حسن کےساتھ پیش کیاہے۔خوبیوں اور خامیوں کےساتھ۔!مکمّل ایک عورت جوشوہرکی نینداُچٹ جانےکےخوف سےاپنےکپڑوں کی سرسراہٹ بھی روک لیتی ہےاور بہت خاموشی کے ساتھ اپنے ‘‘اُن’’کوچادراڑھادیتی ہے۔ 
  کپڑ و ں کو سمیٹے ہو ئے اُ ٹھی ہے مگر
  ڈ ر تی ہے کہیں اُ ن کو نہ ہو جا ئے خبر
  تھک کرابھی سوئےہیں کہیں جاگ نہ جائیں
  د ھیر ے سے اُ ڑھا رہی ہے اُ ن کو چا د ر 
         عورت کےاندررشک وحسد اوررقابت کاجذبہ شدیدہوتاہے۔وہ برداشت نہیں کرسکتی کہ دو سراکوئی اس کےشوہرکوآنکھ بھی اٹھاکردیکھے۔شوہر سےاُس کی بےپناہ محبت کایہ بھی ایک اندازہے۔
ہرچاند نی را ت اُ س کے د ل کو د ھڑکائے 
 بھولےسےبھی کھڑکیوں کےپردے نہ ہٹائے
ڈ رتی ہے کسی وقت کو ئی شو خ کر ن
چپکے سے نہ اُ ن کے پا س آ کر سو جا ئے 
        مردگھرکےباہرکاکام کرتاہے لیکن عورت بھی ازدواجی زندگی کوخو ش گواربنانےکے لیےگھرکےاندر کچھ کم محنت نہیں کرتی۔ہم گھرکےآنگن میں اسےکام کرتےہوئےدیکھ سکتے ہیں۔وہ خنجرچلانےکےبجائے کچن کی صفائی کرتی اوربرتن مانجھتی ہےاوراپنے شوہرکا بوجھ ہلکا کرتی ہے ؂
گاتی ہوئی ہاتھوں میں یہ سنگر کی مشین
قطر و ں سے پسینے کے شر ا بو ر جبین
مصروف کسی کام میں دیکھوں جوتجھے
تو ا و ر بھی مجھ کو نظر آ تی ہے حسین
       کل کی بےنیازخنجربکف محبوبہ شادی کےبعدایسی محبت کرنےوالی شریکِ حیات بن جاتی ہےجوشوہرکےقدموں کی آہٹ پاکراپنی سُدھ بُدھ کھو بیٹھتی ہے،یہاں تک کہ اُن کے قدموں کی آہٹ سےچونک پڑتی ہےاورکچن میں توےپرجلتی ہوئی روٹی چھوڑکراپنے ہم سفر کااستقبال خوش دلی سےکرتی ہے ؂
آہٹ مرے قدموں کی جوسن پائی ہے
 بجلی سی تن بد ن میں لہر ا ئی ہے
دوڑی ہے ہراک بات کی سدھ بسراکے
روٹی، جلتی، تو ے پر چھو ڑ آ ئی ہے
       یہ کوئی ماورائی مخلوق نہیں،بلکہ ہمارےدرمیان دھرتی پرچلتی پھرتی ہوئی حساس عورت ہےجوچائےپراپنےشوہر کاانتظارکرسکتی ہےاوردیر ہونےپرطرح طرح کےوہم اورخدشات میں مبتلاہوکر بےقرارہوسکتی ہے؂
ہر ا یک گھڑ ی شا ق گز ر تی ہو گی
سو طر ح کے و ہم کر کے مر تی ہو گی
گھرجانےکی جلدی تو نہیں مجھ کومگر
و ہ چا ئے پہ ا نتظا ر کر تی ہو گی 
           گھرآنگن کی عورت مختلف اندازمیں ہمارےسامنے آتی ہے۔شریکِ حیات کی تمام ترذمّہ داریوں کےساتھ ! ؂
پانی کبھی دے رہی ہے پھلواری میں
کپڑے کبھی رکھ رہی ہے الماری میں
تو کتنی گھر یلو سی نظر آ تی ہے
لپٹی ہوئی ہاتھ کی دھلی ساری میں 
                                              ****
 ا شکوں سے بھرے نین کلا ئی سے چھپائے
 کہتی ہےمیں کیامانگوں بس اب اس کےسوائے
 جا تے ہو تو سینے سے لگا کر ا ک با ر
 یوں بھینچ لو مجھ کو کہ مرا د م گھُٹ جائے
                                                 *****
فکروں سے اُ تر گئی ہے صورت اُ ن کی
اُ لجھی ہو ئی ر ہتی ہے طبیعت اُ ن کی 
آ ئے گی سکھی کہا ں سے ہمت اُ ن میں
میں ہی نہ بندھا ؤں گی جوہمت اُ ن کی
       جاں نثاراخترؔ کی ر باعیوں میں خالص ہندوستانی تہذیب وتمدن اورعام گھریلوزندگی کے نشیب وفرازکی جھلکیاں پوری آب وتاب کےساتھ نظرآتی ہیں۔اُن کےاُسلوب میں آبشارکی سی ترنم ریزی ہے۔ڈاکٹر زیبامحمود لکھتی ہیں:
         ‘‘جاں نثاراخترکےفن پارےاس امرکی تصدیق کرتےنظرآتےہیں کہ انسان جذبات وخیالات کامجموعہ ہے۔جاں نثار اخترکی شخصیت رومان پرور ہے۔اُن کےرومانی خیالات میں جوخلوصِ درداورترنّم ملتاہےوہ اُن کی اپنی یادوں کامرہونِ منت ہے۔جاں نثاراخترجہاں ایک طرف مارکسی فکرونظرسےمرعوب نظرآتےہیں تودوسری طرف ہندیائی عناصرکی خوشبوسے بھی اُن کاکلام معطّر ہے۔وہ ڈاکٹرکشورسلطانہ کی تحریرکے حوالےسےکہتی ہیں کہ غالب نے اُردوزبان کوسلیس اُسلوبِ بیان عطاکیاہےاور مراسلہ کومکالمہ بنادیاہے۔جاں نثاراخترنےاپنی نظم کومکالمہ بنادیاہے۔اُنھوں نے اپنی شاعری میں جدیدروش اختیارکرکےسادگی اور سلاست کےایسےخوشنمابیل بوٹےکھلائے ہیں جنھیں اُردوشاعری کی زینت کہاجاسکتاہے۔’’ 
      زیبا محمودلکھتی ہیں کہ ‘‘بنیادی طورپروہ محبت کے شاعرہیں اورامن ومحبت اُن کاپسندیدہ موضوع ہے۔بیان کی سادگی،صداقت وسلاست سے مزین ہے،اُن کا اندازِبیان دل پزیر ہے۔رومانی جذبات نگاری میں سماجی شعورسمونےمیں اُن کو یدِطولیٰ حاصل ہےاوراس اعتبار سےاُن کی شاعری میں رومان کا ایک نمایاں اورمربوط پہلوسامنے آیاہے......جاں نثاراخترکی رومانیت یک رخی نہیں بلکہ ہشت پہلونگینےکی وقعت رکھتی ہےجس سےمعنی ومفہوم کی شعاعیں پھوٹتی نظرآتی ہیں۔اُن کی شاعری میں اُن کا دھیمالہجہ رومانی تلخی میں شرابور ہے۔جاں نثاراخترکی شاعری کی دنیاپُرکیف کیفیات کا اظہارہےاورجب وہ سیاسی اور انقلابی میدان میں قدم رکھتے ہیں تواُن کی شاعری اُن کے فطری مزاج سے ہم آہنگ نظرآتی ہےاوراُن کافطری رجحان لفظیات پرحاوی ہے۔اُنھوں نے رومان اور انقلاب کےاحساس کوانتہائی خوبصورت جمالیاتی پیکرعطا کیاہےجواُن کی شاعرانہ شخصیت کی تشکیل میں اساسی اہمیت رکھتاہے۔اُن کی شاعری میں ایک صاحبِ دل کا جوش وخروش ہےاوراُن کی شعری صدامیں عزم واستقلال کی گونج ہے۔درحقیقت وہی فن پارہ پائدارہوتاہےجومحض فن کے معیارپرنہیں بلکہ زندگی کی کسوٹی پربھی پورااُترےاورجاں نثاراخترنےاپنےفن پاروں میں رومان اورافادیت دونوں کو ملحوظ رکھاہے۔زندگی کی صداقتوں سےلبریزاُن کےشعری فن پارےگراں قدراہمیت کےحامل ہیں اوراس دورکی حسیت کے بھر پورترجمان بھی۔رومانیت کی تواناآوازبھی۔جس میں شدت بھی ہےاوردل بستگی بھی ۔’’
    ‘‘انتقادیات،،ص،73/68۔۔ڈاکٹرزیبا محمود) 
         جاں نثاراخترکاشعری اُسلوب نہایت نرم مگرتواناہے۔وہ انقلاب کی بات بھی کرتےہیں تو بہت نرم لہجے میں۔ترقی پسند شاعرہونےکےباوجوداُن کی شاعری میں گھن گرج نہیں بلکہ شیتل پانی کی پُرسکون طراوت ہے۔ایک برفیلی آگ ہےجواُن کے شعری پیکروں میں آتش فشانی کرتی ہے۔بلاشبہ وہ محبت کے نغمہ نگارہیں۔محبت کی دیوی کےپجاری ہیں۔سب سےبڑی اور اہم بات یہ ہےکہ دوسرےشاعروں کی طرح اُنھیں کسی خیالی محبوبہ کی بھی ضرورت نہیں۔وہ مقدرکےسکندرتھےکہ صفیہ باجی(مجازؔ کی بہن) جیسی محبت کرنےوالی ہم سفربیوی ملیں جو ہمیشہ اُن کےحوصلوں کوتقویت دیتی رہیں۔اُن کی رحلت کےبعدجاں نثاراخترکو خدیجہ،آپاجیسی چاہنےوالی شریکِ حیات ملیں۔اُن کےجیسا خوش نصیب شاعرکون ہوگا۔ان ، حالات میں اگروہ آتش وآہن کی بات کرتےتوواقعی تعجب ہوتا۔ 
تو د یش کے مہکے ہو ئے آ نچل میں پلی 
 ہرسوچ ہےخوشبوؤں کےسانچےمیں ڈھلی
ہا تھو ں کو یہ جو ڑ نے کا د ل کش ا نداز
ڈ ا لی پہ کنو ل کی جس طر ح بند کلی 
                                               ****
 یہ تیر ا سبھا ؤ یہ سلیقہ یہ سر و پ
 لہجےکی یہ چھاؤں،گرم جذبوں کی یہ د ھوپ
 سیتا بھی ، شکنتلا بھی ، ر ا د ھا بھی تو
 یگ یگ سے بد لتی آ ئی ہے تو ر و پ
      درج بالارباعیات کےمطالعہ کےبعدہم یہ کہہ سکتےہیں کہ اردوشاعری میں پہلی بارعورت کواس کےاصلی اورنسائی روپ میں پیش کرنےکی ایک کامیاب اور فعال کوشش کی گئی ہےاور یہ جاں نثاراخترؔ کاحصّہ ہے۔             
       سردارؔ جعفری،ساحرؔلدھیا نوی،مخدوم محی الدین اوراخترؔ الایمان جیسےبلندآہنگ شاعروں کےدرمیان رہ کراپنی شاعری کو گھن گرج سےبچانامشکل تھا لیکن یہ مرحلہ بھی اُنھوں نے سرکیا۔ان کی شاعری چاندنی کی طرح ٹھنڈی اور پانی کی طرح شیتل ہے،پہاڑی ندی کی طرح پُرشور نہیں بلکہ سمندر کی طرح پُرسکون اور گمبھیر۔! 
                                 *******    

      ٭ انس مسرورؔانصاری

قومی اُردوتحریک فاؤنڈیشن(انڈیا)
                 رابطہ:۔ ب9453347784/

ہفتہ, ستمبر 09, 2023

کوچنگ انسٹی چیوٹ پر نئی پابندیاں
Urduduniyanews72 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ
 محکمہ تعلیم حکومت بہار نے کوچنگ انسٹی چیوٹ کے ضوابط میں بڑی تبدیلیاں کی ہیں، اور کوچنگ انسٹی چیوٹ پر نئی پابندیاں عائد کر دی ہیں، ان کے مطابق کوئی بھی کوچنگ سرکاری تعلیمی اداروں خواہ وہ اسکول ہو یا کالج کے اساتذہ سے اپنے یہاں تدریسی کام نہیں لے سکتا، کوچنگ کی فیس میں من مانی نہیں چلے گی، ڈی ایم اس پر نہ صرف نگاہ رکھیں گے بلکہ حسب ضرورت اس میں کٹوتی بھی کر سکتے ہیں، منظوری کے لیے ضروری ہوگا کہ ہر درجہ کا کار پیٹ ایریا 300اسکوائر فٹ ہو، تعلیمی اوقات بھی وہ رکھنے ہوں گے جو سرکاری تعلیمی اداروں کا تدریسی اوقات نہ ہو، تاکہ طلبہ سرکاری اسکولوں اور تعلیمی اداروں میں اپنا وقت لگا سکیں گے، کوچنگ میں وہاں کی سہولیات کو مد نظر رکھ کر طلبہ کی تعداد مقرر کی جائے گی اور جب ضرورت ہوگی ضلع مجسٹریٹ کو اس میں کسی بھی تبدیلی کا حق ہوگا اور وہ طلبہ کی فلاح کو سامنے رکھ کر کوئی بھی حکم دے سکتے ہیں، ڈی ایم کے حکم کی خلاف ورزی پر کوچنگ کا رجسٹریشن ختم کیا جا سکے گا۔ یہ ابھی ایک ڈرافٹ ہے اور اس پر عام لوگوں کو سات دنوں کے اندر رائے دینے کو کہا گیا ہے۔ محکمۂ تعلیم نے اسے ویب سائٹ پر لوڈ کردیا ہے۔directors.edu@gmail.comپر اپنی رائے بھی سکتے ہیں۔

جمعرات, ستمبر 07, 2023

سی بی آئی کے التوا شدہ مقدمات

سی بی آئی کے التوا شدہ مقدمات
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
سنٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (CBI) ملک کا باوقار ادارہ سمجھاجاتارہاہے، اس کا کام جرائم اوربدعنوانی کی تحقیق اور ملزمین کے خلاف مقدمات کرکے اسے سزا دلانا ہے، اس کی اپنی عدالت ہے، پہلے وہاں سے فیصلہ ہوتا ہے اور پھر ہندوستان کی مروجہ عدالت میں نچلی سطح سے اوپر تک اس کے خلاف اپیل کی جاسکتی ہے، سی بی آئی بھی عدالت کے فیصلے کو اوپری عدالت میں چیلنج کرسکتی ہے اور کرتی رہی ہے، حال ہی میں آپ نے سنا ہوگا کہ سی بی آئی، لالو جی کی ضمانت رد کرانے کے لئے سپریم کورٹ گئی ہے۔
سی بی آئی کی تحقیق اور عدالت میں مقدمات کے حوالہ سے سنٹرل ویجی لینس کمیشن (CVC) کی رپورٹ کے مطابق سی بی آئی کے ذریعہ بدعنوانی کے 6841مقدمات ملک کی مختلف عدالتوں میں زیر غور ہیں، تفصیلات کے مطابق 313مقدمات 20سال، 2039مقدمات 15سال، 2324مقدمات 5سے 10سال اور 842سے زیادہ مقدمات 3سے 5سال سے عدالتوں میں زیر التوا ہیں یہ رپورٹ 31دسمبر 2022ء تک کی ہے۔ اس کے علاوہ ملک کی مختلف عدالتوں میں فیصلہ پر نظرثانی اور اپیلیں اس کے علاوہ ہیں۔ 12408 مقدمات وہ ہیں جو ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ میں نظرثانی کی منتظر ہیں، ایسے مقدمات کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ 417وہ مقدمات ہیں جو 20سال سے زائد سے زیر التوا ہیں، 688اپیلیں نظرثانی کی پندرہ سالوں سے منتظر ہیں، 2314معاملات10سال، 4005مقدمات پانچ سے دس سال اور 2881مقدمات دو سے پانچ سال اور 2103مقدمات دوسال سے کم عرصہ سے نظرثانی کی فہرست میں ہیں، ساٹھ معاملات وہ ہیں، جن کی گزشتہ تین سالوں سے اب تک جانچ بھی شروع نہیں ہوسکی ہے، جو مقدمات زیر التوا ہیں ان میں گروپ اے کے افسران کے خلاف 52اور گروپ بی اور سی کے انیس(19) مقدمات کی تحقیقات التواء میں ہیں۔ 2022ء میں سی بی آئی نے جو مقدمات درج کیے ان کی تعداد 946ہے، جن میں 829عام اور 117 ابتدائی جانچ سے متعلق ہے، ان میں سے 30مقدمات ریاستی حکومتوں کے اور 107مقدمات مختلف عدالتوں کے فیصلے کے نتیجے میں سی بی آئی کے پاس آئے ہیں۔ 
ان اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے یہاں جرائم کی تحقیق اور سزا دلانے کا عمل کس قدر سست ہے، کہا جاتا ہے کہ انصاف میں تاخیر کا عمل خود بے انصافی ہے۔ یقینا اس سست رفتاری کی ایک بڑی وجہ سی بی آئی کے پاس کام کا زیادہ بوجھ اور عملے کی کمی ہے، یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے، جس کو دور نہیں کیا جاسکتاہے۔ اپنے مخالفین کو غلط طور پر پریشان کرنا اگر حکمراں طبقہ چھوڑ دے تو کام کا بوجھ سی بی آئی پر کم ہوجائے گا اور عملے کی تعداد بڑھاکر کام میں تیزی لائی جاسکتی ہے۔ اس سے مجرمین کو سزا بھی جلد ملے گی اور سی بی آئی کی کارکردگی پر مختلف موقعوں سے جو سوالات اٹھتے رہے ہیں اس میں کمی بھی آئے گی۔

بدھ, ستمبر 06, 2023

یک طرفہ بلڈوزر کاروائی___
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
 ہریانہ کے نوح میں شوبھا یاترا کے دوران ہوئے پر تشدد واقعات اور فرقہ وارانہ فسادات نے ریاست کے لا اینڈ آرڈر کی چولیں ہلا کر رکھ دیں، اس سے زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ اس واقعہ کے بعد وہاں کی بی جے پی سرکار اپنی ناکامی پر پردہ ڈالنے کے لئے یک طرفہ طور پر کاروائی کرتے ہوئے بلڈوزر کے ذریعہ بے قصور لوگوں اور غریب مسلمانوں کے بیشتر مکانات، دوکانوں اور کاروباری اداروں کو منہدم کرنا شروع کر دیا، اور دلیل یہ دی گئی کہ یہ انہدامی کاروائی نا جائز تعمیرات کی بنیاد پر کی جا رہی ہے، آخر حکومت اتنے دنوں سے کیا کر رہی تھی کہ برسوں سے آباد آشیانے کو اب اجاڑ نے کے لئے کمربستہ ہو گئی، ہاں جب پانی سر سے اونچا ہو گیا  اور شاہ راہ کے قریب واقع سینکڑوں دکانوں اور مکانوں کو زمیں بوس کر دیا گیاتو پنجاب ہریانہ ہائی کورٹ نے اس معاملہ پر از خود نوٹس لیتے ہوئے توڑ پھوڑ کی کاروائی پر روک لگادی اور حکومت سے اب تک منہدم کئے گئے مکانات ودوکانوں کی فہرست طلب کی مگر یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا جن لوگوں کے مکانات گرائے گئے، حکومت اس کی از سر نو تعمیر کرائے گی یا اس کا معقول معاوضہ دے گی، یا یوپی اور مدھیہ پردیش کی حکومتوں کی طرح عدالتی پھٹکار سن کر خاموش ہو جائے گی، کیونکہ ہریانہ کی کھٹر سرکار نے جو انہدامی کاروائی کی ہے اس میں ایسے لوگوں کے بھی مکانات ہیں جن کا اس واقعہ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، فلہراگاؤں جو جنگل میں پہاڑوں کے دامن میں واقع ہے، وہاں کے غریب مسلمانوں کی پوری بستی کو اجاڑ دیا، جہاں کے لوگوں نے تنکا تنکا جمع کرکے آشیانہ تیار کیا تھا، یک لخت بلڈوزر نے سب کو کنکڑ، پتھر اور ملبے میں تبدیل کردیا، انہیں حالات کے پس منظر میں مشور شاعر بشیر بدر نے کہا تھا کہ
لوگ ٹوٹ جاتے ہیں ایک گھر بنانے میں
تم ترس نہیں کھاتے بستیاں جلانے میں
ہر دھڑکتے پتھر کو لوگ دل سمجھتے ہیں
عمریں بیت جاتی ہیں دل کو دل بنانے میں
افسوس اس بات پر بھی ہے کہ اتنے بڑے اقدام سے پہلے حکومت کسی کو نوٹس تک جاری نہیں کرتی، بلکہ اس کو جہاں جہاں مسلم آبادی نظر آئی اجاڑ تی چلی گئی اور بے قصوروں کو مجرم بتا کر دھڑ پکڑ کرتی رہی ہے، جس کی وجہ سے مسلمان خوف ودہشت کے ماحول میں زندگی گزار رہے ہیں اور جہاں تہاں پناہ لینے پر مجبور ہیں، دوسری طرف اس فساد کے کلیدی مجرم شر پسند بلا روک ٹوک کے دندناتے پھر رہے ہیں، بلکہ انتظامیہ اور پولیس کی موجودگی میں مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیزی اورنعرے بازی کرتے نظر آ رہے ہیں، انصاف کے اس دوہرے پیمانے نے ملک کے عوام کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ نفرت کی سیاست کرنے اور مذہب کا استحصال کرنے والوں نے ملک کو کہاں پہونچا دیا ہے، اگر ملک کا سنجیدہ اور امن پسند طبقہ اس کے خلاف آواز بلند نہیں کرتا تو نفرت کی آگ اور اس کی چنگاری سے کسی کا گھر محفوظ نہیں رہے گا، کیوں کہ یہ سب کچھ 2024ء کے عام انتخابات کے لئے ریہرسل کیا جا رہا ہے، اس کے لئے ہوشیار رہئے، بیدار رہئے اور نفرت کی سیاست کرنے والوں کو کیفر کردار تک پہونچانے کی سعی مسلسل کیجئے۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...