Powered By Blogger

جمعہ, اکتوبر 06, 2023

وفا کی شمع جلاؤ کہ ہم غزل کہہ لیں 
اداس رات ہے آؤ کہ ہم غزل کہہ لیں
مرغوب اثر فاطمی ۔
اردودنیانیوز۷۲ 
مرے رزق میں برکتیں ہوگئیں 
پرندوں کو دانا کھلانے  کے بعد، 
وارث اسلام پوری۔

ضیائے حق فاؤنڈیشن کی جانب سے بہار کے دو عظیم شاعر معین کوثر،اور افتخار عاکف کے اعزاز میں محفل اعزازیہ ومشاعرہ کا انعقاد ۔

پٹنہ پھلواری شریف 06/اکتوبر 2023 ( پریس ریلیز) صوبہ بہار  کی مشہور سرزمین۔۔ ۔۔  سے  تعلق رکھنے والے دو مشہور ومعروف شاعر معین کوثر،اور افتخار عاکف کے اعزاز میں نیاز نذر کی صدارت میں ایک خوبصورت محفل اعزازیہ ومشاعرہ مشاعرہ کا انعقاد ہوا،
مہمان خصوصی کے طور پرمشہور ومعروف شاعر، مصنف ،سابق ڈی ایس پی، مرغوب اثر فاطمی نے شرکت کی ۔
تقریب کا اہتمام  محمد ضیاء العظیم (ٹرسٹی  ضیائے حق فاؤنڈیشن )ڈاکٹر صالحہ صدیقی چئیر پرسن ضیائے حق فاؤنڈیشن) ڈاکٹر نصر عالم نصر اور ان کی ٹیم نے کیا، واضح رہے کہ ضیائے حق فاؤنڈیشن ایک سماجی ،فلاحی اور ادبی تنظیم ہے جو دیگر ادبی خدمات میں سرگرم رہنے کے ساتھ ساتھ تعلیمی کاموں میں بھی پیش پیش رہتی ہے،اس سے قبل بھی کئی اہم شعراء وادباء وصحافی کو ان کی علمی وادبی خدمات کی بناء پر اعزازات سے نواز چکی ہے، ٹرسٹ خصوصیت کے ساتھ ان شعراء وادباء کو تلاش کرتی ہے جو ایک اچھے فنکار ہونے کے باوجود بھی دنیائے ادب انہیں نظر انداز کرتی ہے اور وہ گمنامی کی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں، انہیں تلاش کرکے ان کے علوم وفنون سے دنیائے ادب کو متعارف کراتی ہے ،  مذکورہ فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام شہر پٹنہ  کے قلب میں واقع مسلم اکثریتی علاقہ پھلواری شریف میں ایک ادارہ مدرسہ ضیاء العلوم اور ایک لائبریری ضیائے حق فاؤنڈیشن پبلک لائبریری  بھی چل رہی ہے، جہاں  بچے بچیاں اپنی علمی وادبی پیاس بجھا رہے ہیں۔
 پروگرام  کی نظامت مشہور ومعروف طنز ومزاح کے شاعر رہبر گیاوی المعروف چونچ گیاوی، اور ڈاکٹر نصر عالم نصر نے کی، پروگرام کی شروعات عفان ضیاء نے نعت سےکیا، جبکہ باضابطہ آغاز وارث اسلام پوری نے اپنے مخصوص لب ولہجہ کے ساتھ نعت پاک سے محفل کو خوبصورت بنایا ۔
پھر ناظم مشاعرہ رہبر گیاوی المعروف چونچ گیاوی نے افتتاحی کلمات میں تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ضیائے حق فاؤنڈیشن کا مختصر تعارف میں انہوں نے کہا کہ بہت کم وقتوں میں یہ فاؤنڈیشن نے کارہائے نمایاں انجام دیا اور دے رہا ہے،  اس کے بعد دونوں شعراء افتخار عاکف، معین کوثر کو ان کی علمی وادبی خدمات کے اعتراف میں ضیائے حق فاؤنڈیشن کی جانب سے شال اور سند سے نوازا گیا ۔
پھر ایک خوبصورت مشاعرہ کا انعقاد ہوا، مشاعرہ میں مشہور ومعروف شاعر وادیب شکیل سہسرامی نے معین کوثر اور افتخار عاکف کے اعزاز میں تہنیتی اشعار بھیجیے جسے محمد ضیاء العظیم نے سامعین کے سامنے پڑھا، 
اشعار 
شکیل سہسرامی
شاعر خوب افتخار عاکف
سب کے محبوب افتخار عاکف
حضرتِ رمز سے یہ کرتے ہیں 
خود کو منسوب افتخار عاکف۔

یہ جو موصوف معین کوثر ہیں
طرزِ سنجیدگی کا مظہر ہیں
ان کے شعر و سخن کا کیا کہنا
میری نظروں میں ماہ و اختر ہیں۔


مشاعرہ میں شعراء کرام کے غزل سے چند اشعار 

سہیل فاروقی 
بدلنے کا ہنر بھی جانتا ہے 
میں نازاں ہوں مزاج دوستاں پر، 

نذر فاطمی 
ہمارے ساتھ ہی چلنے کی ضد اگر ٹھہری 
صعوبتوں میں بھی تم مسکرا سکو تو چلو، 

شمیم شعلہ 
ہے ہمیشہ کی طرح آج بھی روشن وہ چراغ 
آندھیاں آئیں بہت، جسکو بجھانے کے لئے، 

ڈاکٹر نصر عالم نصر 
اسے معلوم منزل بھی نہیں ہے 
مگر وہ سب سے آگے چل رہا ہے، 
چونچ گیاوی 
کہا یہ لیڈروں نے نوجوانو 
تم اپنے آپ کو بیدار کر لو 
الیکشن کا زمانہ آ رہا ہے 
سب اپنا اسلحہ تیار کر لو
میر سجاد
آج کے لوگ پہ حاوی ہے نئے دور کا رنگ 
اپنے اجداد کی تہذیب مٹانے نکلے، 

اصغر حسین کامل 
نہ کوئی دوست، نہ دشمن، نہ خاندان کی بات
زمیں پہ رہ کے وہ کرتا ہے آسمان کی بات،
 
وارث اسلام پوری 
نہ اتنا ہنسو دل دکھانے کے بعد 
تمہیں بھی ہے رونا رلانے کے بعد، 

افتخار عاکف 
پھوٹ پھوٹ کر رویا دل تب میں نے یہ غور کیا 
جان بوجھ کر K. K. D نے عاکف کو اگنور کیا، 

معین کوثر 
کسک، سوزش، تپک، افسردگی، بے چینی، مایوسی 
الہی تونے کیا کیا لکھ دیا میرے مقدر میں، 

محمد ضیاء العظیم 
ممکن ہے وہ مجھ کو بھول کر رہ لے گا 
اچھا ہے پھر مجھ کو بھی آسانی ہے، 

مرغوب اثر فاطمی (مہمان خصوصی شاعر ) 
منھ چڑھاتی ہیں مرا اب تو قفس کی تتلیاں 
قید کی مدت بتا صیاد کتنی رہ گئ
 

آخر میں ناظم مشاعرہ ڈاکٹر نصر عالم نصر نے پروگرام کے حوالے سے اپنے تاثرات کا اظہار کیا، انہوں نے دونوں بزرگ شاعر افتخار عاکف اور معین کوثر کے علوم وفنون اور ادبی خدمات کرتے ہوئے کہا کہ ان کی شخصیات محتاج تعارف نہیں ہیں، دنیائے ادب ان کے شعر وادب سے بھر پور استفادہ کرتی ہے، اس بزم میں ان کا تشریف لانا یہ ہمارے لئے خوش آئند ہے، کم وقتوں میں ان کے علوم وفنون پر گفتگو نہیں کی جاسکتی ہے۔نیز میں ضیائے حق فاؤنڈیشن کی سرگرمیوں سے بخوبی واقف ہوں، اس تنظیم نے ان دو شعراء کا حسن انتخاب کیا کہ ان کی خدمات کو سراہا، یہ تنظیم اپنے محاذ پر بھر پور کارہائے نمایاں انجام دے رہی ہے، آج مجھے یہاں بہت خوشی محسوس ہورہی، یہ محفل میری زندگی کے یادگار کا حسین لمحہ ہوگا، آپ سب کی اس بے لوث محبت کو میں تا عمر یاد رکھوں گا، پھر ضیائے حق فاؤنڈیشن کے برانچ اونر محمد ضیاء العظیم نے تمام مہمانان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ہماری یہ خوش بختی ہے کہ ہماری آواز پر آپ سب اپنی ہزارہا مصروفیات کے باوجود بھی یہاں آنے کی زحمت گوارا کی، ہم پروردگار کا شکر ادا کرتے ہیں اور آپ تمام مہمانان کا شکریہ، خصوصاً ڈاکٹر نصر عالم نصر ،ڈاکٹر صالحہ صدیقی چئیر پرسن ضیائے حق فاؤنڈیشن کا کہ آپ دونوں کی باہمی تعاون سے ہی یہ پروگرام منعقد ہوا، اب ہم سب کی کوشش ہو کہ اردو زبان وادب کی تعلیم سماج ومعاشرہ کا ہر ایک ایک بچہ حاصل کرے، پڑھے، سیکھے، اور بولے، ہماری تہذیب وثقافت اسی زبان کے ذریعہ زندہ وتابندہ رہ سکتی ہے، ہم میں سے ہر ایک فرد ایک ذمہ داری کے ساتھ اس زبان کی تشہیر واشاعت میں کوشاں رہے، پھر صدر محترم نیاز نذر کی اجازت سے محفل کے اختتام کا اعلان ہوا ۔
پروگرام میں مدرسہ ضیاء العلوم کے طلبہ سمیت پھلواری شریف کی معزز شخصیات شامل رہے ، 
اس پروگرام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں خصوصی طور پر ضیائے حق فاؤنڈیشن کی چیئرپرسن واسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو سمستی پور کالج (متھلا یونیورسٹی) ڈاکٹر صالحہ صدیقی،  ڈاکٹر نصر عالم نصر، محمد ضیاء العظیم کا نام مذکور ہے جن کی محنت وکاوش کی وجہ سے یہ پروگرام پایہ تکمیل تک پہنچ سکا، 
جبکہ عمومی طور پر فاطمہ خان، زیب النساء، شمیمہ بانو، فقیھہ روشن، قاری ابوالحسن،قاری عبدالواجد، مفتی نورالعظیم، حافظ ثناء العظیم، عفان ضیاء، حسان عظیم کا نام مذکور ہے.

جمعرات, اکتوبر 05, 2023

مفتی ثنا الہدی قاسمی کی کتاب"آفتاب جو ۼروب ہو گیا " کا اجرا  8 اکتوبر کو
اردودنیانیوز۷۲ 
مولانا شمشاد رحمانی صدارت کریں گے, مولانا مظاہر عالم قمر  مہمان خصوصی ہوں گے
پٹنہ (پریس ریلیز) مفتی محمد ثنا الہدی قاسمی
( نائب ناظم امارت شرعیہ, صدر اردو میڈیا فورم بہار,کاروان ادب, حاجی پور,  نائب  صدر اردو کارواں, مدیر اعلی ہفت روزہ نقیب,پھلواری شریف,پٹنہ )کی کتاب" آفتاب جو ۼروب ہو گیا" کا اجرا 8اکتوبر2023،بروزاتواربوقت:.10بجے دن بہار اردو اکادمی  کے سمینار ہال میں نور اردو لائبریری حسن پور گنگھٹی, بکساواں,ویشالی کے زیر اہتمام عمل میں آئےگا۔۔ یہ اطلاع دیتے ہوئے لائبریری کے سکریٹری مولانا نظرا لہدی قاسمی نے بتایا کہ تقریب رسم اجرا کی صدارت  مولانا شمشاد رحمانی, نائب امیر شریعت, امارت شرعیہ ,بہار اور جھارکھنڈ فرمائیں گے اور نظامت کا فریضہ ڈاکٹر ریحان ۼنی,سینئر صحافی اور قائم مقام صدر اردو ایکشن کمیٹی انجام دیں گے ۔ تقریب میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے مولانا مظاہرعالم قمر,سابق صدر مدرس, مدرسہ احمدیہ,ابا بکر پور ویشالی شرکت کریں گے ۔ اس موقع پر شفیع مشہدی,سابق چییرمین ,اردو مشاورتی کمیٹی,بہار,امتیاز احمد کریمی, رکن بہار پبلک سروس کمیشن,پروفیسر  محمد توقیر عالم,سابق پرو وائس چانسلر,مولانا مظہرالحق عربی فارسی یونی ورسیٹی , ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی,صدر شعبہ اردو ,پٽنہ یونیورسیٹی اور ارشد فیروز,چئرمین گورنمنٹ اردو لائبریری  اور انوارالحسن وسطوی, جنرل سکریٹری, کاروان ادب حاجی پور مہمانان ذی وقار کی حیثیت سے موجود رہیں گے۔اس موقع پر۔ راشد احمد,سینئر صحافی, قومی تنظیم, ڈاکٹر اسلم جاوداں,ناظم اعلی اردو کانسل ہند, ڈاکٹر عارف حسن وسطوی اور قمر اعظم صدیقی کتاب پر تبصرہ پیش کریں گے۔ مولانا نظر الہدی قاسمی نے اہل ذوق حضرات سے تقریب میں شرکت کی گذارش کی ہے۔

ڈاکٹر محمد اشتیاق حسین قریشی __مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

ڈاکٹر محمد اشتیاق حسین قریشی __
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی 
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 
 مشہور ماہر تعلیم، نامور ہومیو پیتھ معالج ،بانی جامعہ نور الاسلام نسواں مہپت مﺅ لکھنؤ ، دینی تعلیمی کونسل کے سابق جنرل سکریٹری ، ہفتہ وار ندائے ملت کے سابق مدیر ، مسلم مجلس اور مسلم مجلس مشاورت کے سابق رکن ڈاکٹر محمد اشتیاق حسین قریشی نے 26 اگست 2003ءمطابق 27 جمادی الثانیہ 1424ھ کو تہجد کے وقت صبح صادق سے کوئی آدھ گھنٹہ قبل بہتر سال کی عمر میں داعی اجل کو لبیک کہا، پس ماندگان میں اہلیہ چار صاحب زادے ، ڈاکٹر محمد شعیب قریشی، مولوی محمد صہیب قریشی، مولوی محمد جنید قریشی اور مولوی محمد عبید قریشی اور صاحب زادیوں کو چھوڑا۔ڈاکٹر صاحب تقریباً دس مہینے سے صاحب فراش تھے، گردہ کی تکلیف تھی، جس کے وہ خود بہترین معالج سمجھے جاتے تھے۔
 ڈاکٹر محمد اشتیاق حسین قریشی بن ڈاکٹر کرامت حسین کا آبائی وطن پرتاب گڈھ اتر پردیش تھا،قریشی صاحب وہیں پلے بڑھے، ہائی اسکول، انٹر تک کی تعلیم وہیں پائی، پرتاب گڈھ میں وہ دوران تعلیم جس شخصیت سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے وہ ان کے استاذ اور مربی مولوی عبید الرحمن صاحب جو گورمنٹ ہائی اسکول پرتاب گڈھ میں اردو وعربی کے استاذ تھے، انہیں کی تحریک پر ڈاکٹر صاحب نے نوجوانوں کی تنظیم اسٹوڈنٹس فیڈریشن بنائی اور اپنے احباب کے ساتھ گھر گھر سروے کرکے دار المطالعہ اور اسکول قائم کیا، اور اپنی صلاحیت دینی، تعلیمی اور تعمیری کاموں میں لگانے کی تربیت یہیں پائی، والد ہومیو پیتھ کے کامیاب معالج تھے، انہوں نے ڈاکٹر صاحب کو علی گڈھ سے بی ایس سی کرنے کے بعدباقاعدہ ہومیو پیتھک کی تعلیم دلائی ، پہلے ڈھاکہ میڈیکل کالج میں داخلہ لیا ، وہاں کے حالات نا ساز گار نظر آئے تو واپس آکر لکھنو ہومیو پیتھک میڈیکل کالج میں داخلہ لے کر فراغت حاصل کی، اور انہوں نے اس سلسلے میں لندن تک کا سفر کیا اور وہاں سے بھی پوسٹ گریجویٹ کی سند حاصل کیا، فراغت کے بعد لکھنؤ  کے ہومیو پیتھک کالج سے بحیثیت استاذ منسلک ہوئے اور سترہ سال کے بعد وہاں سے مستعفی ہوئے، ڈاکٹر عبد العلی صاحب حسنی کے انتقال کے بعد وہ حسنی فارمیسی امین آباد میں مطب کرنے لگے، اللہ رب ا لعزت نے دست شفا عطا فرمائی تھی، اس لے بڑی تعداد میں مریض ان کے یہاں جانے لگے اور ان کا کلینک لکھنؤ کے نامور کلینک میں شمار ہونے لگا ، غربائ، طلبہ اور علماءکی تشخیص وہ مفت کرتے اور دوائیاں بھی دیا کرتے ۔
 مفکر اسلام حضرت مولانا ابو الحسن علی ندوی ؒ کی صدارت میں لکھنو ¿ میں دینی تعلیمی کونسل کا قیام عمل میں آیا تو وہ حضرت مولانا کے دست وبازو بن کر کام کرنے لگے اور حضرت مولانا کے وصال کے بعد بڑی مشکل سے انہوں نے حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی ؒ کو اس کونسل کی صدارت کے لیے تیار کیا اور جب قاضی عدیل عباسی کا ۰۸۹۱ءمیں انتقال ہو گیا تو وہ اس تنظیم کے جنرل سکریٹری منتخب ہوئے او راخیر عمر تک اس عہدہ پر فائز رہے اور کہنا چاہیے کہ اس کونسل کی ساری تگ ودو ڈاکٹر صاحب کے دم قدم سے قائم تھی۔ ہفتہ وار ندائے ملت کے بھی وہ ایک زمانہ تک مدیر رہے، ان کے اداریے ملی مسائل سے متعلق قومی اخبارات سے مضامین کا انتخاب بھی انتہائی پسندیدہ تھا، وہ دیگر اخبارات کے لیے بھی مضامین اور مراسلے لکھا کرتے تھے، جن کی پذیرائی عوام وخواص میں خوب تھی ۔
 ڈاکٹر صاحب کو اللہ تعالیٰ نے گوناں گوں خوبیوں سے نوازا تھا، ان کی نظر نصاب ونظام تعلیم پر گہری تھی، وہ لڑکیوں کی مخلوط تعلیم کو پسند نہیں کرتے تھے، اس لیے انہوں نے جامعہ نور الاسلام نسواں کے نام سے مہپت مﺅ میں لڑکیوں کا تعلیمی ادارہ کھولا اور اسے پروان چڑھایا، ان کی لڑکی جو مدرسة البنات مالیگاو ¿ں کی نامور فاضلہ ہیں، اس کو پروان چڑھانے میں معاون بنی اورمیری لڑکی رضیہ عشرت نے اس ادارہ سے فیض پایا اور حفظ قرآن کے ساتھ عربی کی تعلیم بھی پائی، وہ ہر اس آدمی کی حوصلہ افزائی کرتے جو لڑکیوں کی تعلیم کے سلسلے میں ذرا بھی فکر مند رہتا، اسی مزاج کی وجہ سے انہوں نے جناب عارف علی انصاری صاحب کے گھر میں ۳۲ جون ۱۰۰۲ءسے قائم لڑکیوں کے مدرسہ کی سرپرستی قبول کی اور انصاری صاحب کو اس مدرسہ کا سکریٹری بنایا، کئی بار اس کے پروگرام میں شریک ہوئے،جیب خاص سے اس کی ترقی کے لیے کئی بار تعاون بھی کیا، ایک زمانہ میں یہ مدرسہ خیر آباد سیتا پور میں لڑکیوں کی دینی وعصری تعلیم کا تنہا مرکز تھا۔
 ڈاکٹر صاحب کی تربیت میں حضرت مولانا علی میاں ؒ اور مولانا منظور نعمانی ؒکا بڑا ہاتھ تھا، وہ ہر ایسی تحریک سے جڑ جاتے،جس سے حضرت مولانا کی کسی درجہ میں وابستگی ہوتی، چنانچہ انہوں نے مجلس تحقیقات ونشریات اسلام، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ، اصلاح معاشرہ، پیام انسانیت اور ندوة العلماءکے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، ۲۶۹۱ء میں جب حضرت مولانا ڈاکٹر سعید رمضان کی دعوت پر جینوا کا سفر کیا اور اس کے بعد انہوں نے لندن اور اسپین کے لیے رخت سفر باندھا تو ڈاکٹر صاحب ان کے رفیق سفر کے طور پر ساتھ تھے اور اس سفر کو کامیاب بنانے کے لیے ان کے دست وبازو بن کر کام کیا، ۲۶۹۱ءمیں حضرت مولانا کے ساتھ حج کا سفر کیا، ان کے تین لڑکے ندوہ سے فارغ ہوئے ڈاکٹر صاحب اور مسلم مجلس مشاورت کے کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے، انتخاب کے وقت سیاسی حضرات ان کی رائے اور مشورے کا بڑا اہتمام کیا کرتے تھے، سیاسی مسائل ومعاملات میں وہ ڈاکٹر عبد الجلیل فریدی کے پیرو کار تھے اور ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کیا کرتے تھے۔
 ڈاکٹر صاحب وضع قطع کے اعتبار سے عالم دین دکھتے تھے، چہرے پر ڈاڑھی اور بدن پر شیروانی میں ان کا چہرہ اور ہیئت انتہائی مرعوب کن تھی، وہ اقبال کے لفظوں میں نرم دم گفتگو اور گر دم جستجو کے صحیح مصداق تھے، مزاج سنجیدہ تھا، لیکن اس میں شگفتگی اور شائستگی کے عناصر بدرجہ اتم موجود تھے، انہوں نے عصری تعلیم کے فروغ کے لیے شہر میں نو رالاسلام ہی کے نام سے ایک اسکول بھی قائم کیا ، مقصد بنیادی دینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم اسلامی ماحول میں فراہم کرنا تھا۔
 ڈاکٹر صاحب لکھنو ¿ میں ملی ، تعلیمی ، سماجی خدمات کے روح رواں تھے اور ان کے ساتھ روح کے رواں ہونے کے لیے جس جسم کی ضرورت ہوتی ہے وہ بھی موجود تھی، اس لیے وہ جس کام کو کرتے اس میں برکت، حرکیت، نصرت الٰہی، نشاط اور روز افزوں ترقی کے مراحل طے ہوتے رہتے تھے۔
 ابن خلدون نے لکھا ہے کہ ا نسانوں کی طرح تنظیموں، اداروں کی بھی عمر طبعی ہوتی ہے، عمر طبعی تک پہونچنے کے بعد انسان فنا ہوجاتا ہے اور ادارے یا تو اضمحلال کا شکار ہوجاتے ہیں یا وجود سے عدم ان کا مقدر ہوجاتا ہے، ڈاکٹر صاحب اپنی عمر طبعی اور مقررہ حیات کے لمحات گذار کر دنیا سے چل بسے اور جن اداروں کو ان سے تقویت تھی ان میں سے کئی پر نزاع کا عالم طاری ہے اور کہنا چاہیے کہ اس کی سرگرمی اور فعالیت بھی ڈاکٹر صاحب کے ساتھ رخصت ہو کر ہوگئی ، البتہ انہوں نے جو تعلیمی ادارے قائم کیے تھے ان میں اب بھی زندگی دو ڑرہی ہے۔اللہ تعالیٰ ڈاکٹر صاحب کے حسن عمل کو قبول فرمائے اور ان کی سیئات سے در گذر فرما کر جنت الفردوس مین جگہ دے آمین۔

آخری نبی کے اخلاق وکردار

آخری نبی کے اخلاق وکردار 
Urduduniyanews72 
 عنوان کے مطابق گفتگو کرنے سے پہلے یہ معلوم کرنا ضروری ہے کہ اخلاق کسے کہتے ہیں؟  یہ خالص عربی لفظ ہے،اس کی واحد "خلق" ہے،اس کے معانی عادات واطوار، ملنساری،کشادہ پیشانی، اور آو بھگت کرنے کے ہیں۔علم الاخلاق باضابطہ ایک فن کی حیثیت رکھتا ہے،اسمیں اخلاقیات  سے متعلق بحث ہوتی ہےاورایک انسان کی اخلاقی تربیت کی جاتی ہے، ہرمذہب میں کچھ نہ کچھ حد تک یہ تعلیم موجود ہے،مگر اخلاقیات کی تکمیل کا سہرا پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سربندھتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد  اخلاقی تعلیم کا مکمل احاطہ اور اس کی تکمیل بھی ہے،حدیث شریف میں واضح طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمادیا کہ؛میں تواسی لئےبھیجاگیاکہ اخلاق حسنہ کی تکمیل کروں(مسند احمد )
اسی لئے شریعت اسلامیہ میں اخلاق کا دائرہ بہت وسیع ہے،ہر انسان جو اس دنیا میں آیا ہے اس کی ولادت سے وفات تک جو بھی روابط وتعلقات ہیں انہیں بہتر ڈھنگ سے نبھانے کا نام اخلاق ہے،اسلام میں جہاں والدین، اہل وعیال، عزیز ورشتہ دار، دوست واحباب، کے حقوق کو اداکرنے کا حکم ہے، وہیں انسانی بنیادوں پرجو بی رشتے ہوسکتے ہیں،ان کے پاس ولحاظ کی بھی بڑی تاکید آئی ہے،ایک انسان کا ضرورت کی بنیاد پر جانوروں سے بھی رابطہ ہوتا ہے، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حیوانات کے بھی حقوق بیان فرمائے ہیں۔
آج لوگوں نے اخلاق کو ایک دائرہ میں محدود کررکھا ہے،صرف اپنے دوستوں اور رشتہ داروں سے ہنسی خوشی ملنے اور تعلقات نبھانے کو اخلاق سمجھتے ہیں،یہ شریعت کے مزاج کے خلاف اور قرآن وحدیث سے دوری اور لاعلمی کا نتیجہ ہے۔اللہ رب العزت نے اپنی کتاب قرآن شریف میں جن جن باتوں کا حکم فرمایاہے، آپ صلی اللہ علیہ نےان تمام چیزوں کواپنی عملی زندگی کا حصہ بناکر پیش فرمادیاہے، کچھ لوگ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے پاس آئے اور سوال کیا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق بیان کیجئے؛انہوں نے پوچھا کہ تم قرآن نہیں پڑھتے ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق ہمہ تن قرآن تھا، (ابوداؤد )
قرانی تمام اخلاقی تعلیم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی عملی زندگی میں نچوڑ کر اخلاقیات کو پائہ تکمیل تک پہونچادیا ہے،اس بات کی گواہی خود کتاب الہی نے دی ہے، ارشاد خداوندی ہے؛اے محمد! تمہارےاخلاق اعلی معیار پرہیں(سورہ قلم )
اخلاق کا اعلی معیار کیا ہے؟
قرآن وحدیث کے مطالعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک انسان انتقام کے جذبے سے پاک ہوکر برائی کی جگہ بھلائی کرے، اور عفو ودر گزر سے کام لے،یہ اخلاق کا اونچا درجہ اور اعلی معیار ہے۔دراصل یہی سنت نبوی ہے،اور اسی نقش پر چلنے کی ضرورت ہے۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت کسی کو برا بھلا کہنے کی نہ تھی، برائی کے معاملے میں برائی نہیں کرتے تھےبلکہ درگزر کرتے اور معاف فرما دیتے تھے، (ترمذی )
دشمن سے انتقام لینا یہ کوئی بری بات نہیں ہے، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اپنے جانی دشمنوں پر کنٹرول حاصل ہواہے،تاریخ یہ کہتی ہے کہ انہیں معافی ہی ملی ہے۔فتح مکہ کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جانی دشمنوں کو یہ کہ معاف فرما دیا کہ آج کے دن تم پر کوئی ملامت نہیں ہے، جاؤ تم سب آزاد ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کےپیارےچچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے قاتل،نیز مرحوم چچا کے جگر کو چبانے والی کو بھی اس دن معافی ملی ہے، صفوان بن امیہ کو بھی اس دن  امان نصیب ہواجنہوں نےآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی خطرناک سازش رچی تھی، زہر میں بجھی ہوئی تلوار لیکر اس شرط پر عمیر بن وہب کو مدینہ روانہ کیا کہ تمہیں محمد کا کام تمام کردینا یے۔اس اخلاق کریمانہ سے متاثر ہوکر وہ بھی مسلمان ہوگئے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کریمانہ سے متاثر ہوکر پورا عرب مذہب اسلام کا علمبردار اور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا وفادار بنا ہے۔
یہ ماہ مبارک جسمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی ہے ان اخلاق کریمانہ کو برادران وطن کے سامنے پیش کرنے کی ہمیں دعوت دیتاہے۔
ابھی کچھ دنوں پہلے ملک کی نئی پارلیمنٹ میں ایک غیر مسلم ایم پی رمیش بدھوڑی نے ایک مسلم ممبر پارلیمنٹ دانش علی کو بھدی بھدی گالیاں دی ہےاوردہشت گرد بھی کہا ہے، صاف لفظوں میں انہوں نے یہ کہنے کی کوشش کی ہے کہ اسلام دہشت گردی سکھاتا ہے اور یہ تلوار کی زور پر پھیلا ہے،ایسے ناواقف لوگوں تک آخری نبی محمد عربی کے اخلاق وکردار کو پیش کرنےکی آج  شدید ضرورت ہے، اور یہ واضح کرنے کا موقع ہےکہ اسلام آخری نبی محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق سے پھیلا ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دشمنوں سے بھی انتقام نہیں لیا ہے،انہیں معاف فرمایا ہے،جنہوں نے آپ کو گالیاں دیں اس کے جواب میں یہی ارشاد فرمایا ہے کہ لوگ مجھے گالیاں دے رہے ہیں جبکہ میں" محمد" ہوں۔اسی سنت پر عمل کرتے ہوئے ان مواقع پر جہاں ہمیں مسلمان ہونے کی وجہ سے گالیاں دی جارہی ہیں، وہاں اسلام اور پیغمبر اسلام کے اخلاقی تعلیم کو پیش کرنا ہی مناسب حل اور صحیح جواب ہے۔   لعن وطعن اس مسئلہ کا حل ہےاور نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ  سنت رہی ہے، ایک موقع پر کفار ومشرکین کے ناروا سلوک سے تنگ آکر حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ نےیہ عرض کیا کہ؛ یارسول دشمنوں کے حق میں بدعا فرما دیجئے ،آپ کا چہرہ سرخ ہوگیا، فرمایا میں لعنت نہیں رحمت بناکر بھیجا گیا ہوں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دشمنوں کے حق میں دعائے خیر فرمائی ہے، اس سے متاثر ہوکر لوگوں نے اسلام کو اپنایا ہے، یہ ایک ایسا مذہب ہے جسمیں زور زبردستی کی گنجائش نہیں ہے۔ایمان دراصل دل سے قبول کرنےکا نام ہے،دشمنوں نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نیک سلوک سے متاثر زبان سے اسلام کا کلمہ پڑھا ہےاور دل سے اسلام کو اپنایا ہے، اسلامی تاریخ کا مشہور واقعہ ہے؛
ثمامہ بن آثال یمامہ کا ایک رئیس آدمی تھا، جو اسلام کا مجرم تھا، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ہاتھوں گرفتار ہو کر مدینہ آیا اور مسجد نبوی کے ایک ستون میں باندھ دیا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لئے آنے تو اس پر نظر پڑی، آپ نے دریافت کیا، ثمامہ تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا جائے، اس نے کہا،اگر قتل کرنا چاہیں تو ایک خونی مجرم کو قتل کریں گے، اور معاف کردیں تو احسان مند رہوں گا، اگر مال کی خواہش ہے تو حکم کیجئے، مال حاضر کردیا جائے گا، یہ گفتگو ہوئی اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم چلے گئے۔ دوسرے اور تیسرے روز بھی یہی باتیں ہوئیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے رہا فرما دیا۔ وہ اس برتاؤ سے اسقدر متاثر ہوا کہ رہائی پاکر ایک نخلستان  میں گیا،غسل کیا اور واپس آکراسلام قبول کرلیا۔ سیرت کی کتابوں میں ثمامہ بن آثال کا یہ تاریخی جملہ بھی محفوظ ہے؛
"اے محمد! زمین پر آپ کے چہرے سے زیادہ کوئی چیز مجھ کو مبغوض نہ تھی لیکن آج وہ محبوب ہے،مجھ کو آپ کےدین سے زیادہ کسی دین سے عداوت نہ تھی لیکن وہ آج تمام مذاہب سے عزیز تر ہے،مجھے آپ کے شہر سے زیادہ کسی شہر سے دشمنی نہ تھی لیکن وہ آج مجھے تمام شہروں سے خوشنما نظر آتا ہے، (سیرت النبی جلد دوم )
       وہ قوم ہی قائد اور فاتح ہے جہاں میں 
      جس قوم کے اخلاق کی چلتی رہے تلوار 
    اس قوم کی دنیا میں نہیں کچھ بھی حقیقت 
    جس قوم کے اخلاق کا گھٹ جاتا ہے معیار 

 ہمایوں اقبال ندوی 
نائب صدر، جمعیت علماء ارریہ 
و جنرل سکریٹری، تنظیم أبناء ندوہ پورنیہ کمشنری

منگل, اکتوبر 03, 2023

خاموشی کی اہمیتمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

خاموشی کی اہمیت
Urduduniyanews72 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
 نایب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ 

 اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خاموش رہنے والے کو نجات کا مزدہ سنایا ہے، (ترمذی رقم الحدیث:2501)من سکت نجا ومن صمت نجا (مسند احمد 2/159) کی معنویت تو یہی بتاتی ہے کہ انسانوں کو ہر وقت بولتے رہنے کی وبا سے چھٹکارا پالینا چاہیے، آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ جو شخص اپنی زبان اور شرمگاہ کی حفاظت کر لے اس کے لیے جنت کی بشارت ہے، خاموشی اس لیے بھی ضروری ہے کہ اللہ رب العزت نے ہمارے بول پر پہرے بٹھا رکھے ہیں، مَا یَل ±فِظُ مِن ± قَو ±لٍ اِلَّا لَدَی ±ہِ رَقِی ±ب µ عَتِی ±د µ۔ اس لیے بولنے میں ہمیں محتاط رہنا چاہیے، مبادا کوئی بات زبان سے ایسی نکل جائے جس کی پکڑ اللہ کے یہاں ہوجائے اور بندوں کے یہاں آدمی گرفت میں آجائے، اس لیے کہنا چاہیے کہ آزمائشوں سے نجات کا بڑا ہتھیار زبان بندی یعنی خاموشی ہے، لیکن آج کے دور میں انسان زیادہ بولنا کمال سمجھتا ہے، ہر چیز میں رائے دینا اپنا حق سمجھتا ہے، حالاں کہ شورو شغب تو آج کل فضائی آلودگی کا بھی حصہ شمار ہوتا ہے، لیکن انسان اس حقیقت کو یا تو بھول گیا ہے یا بھولتا جا رہا ہے، کبھی دنیا بڑی خاموش ہوا کرتی تھی، نہ گاڑی کا ہارن تھا اور نہ مشینوں کی گرگراہٹ، صنعتی ترقی نے اس دنیا کو تاریکی سے اجالے میں لانے کا کام کیا، لیکن اس کے ساتھ PIN DROP SILENT کی معنویت کہیں گم ہو گئی، اب ایسی خاموشی کا تصور ہی نہیں ہوپاتا کہ مجلس میں سوئی گرنے کی آواز سن لی جائے، ماضی میں ہندوستان میں ایسی عمارتیں بنا کرتی تھیں جو اس قدر خاموش ہوتی تھیں کہ ماچس کی تیلی جلانے کی آواز بھی اوپر کی منزل میں رہنے والا انسان سن لیتا تھا، اس دور میں زیادہ بولنا بکواس کے زمرے میں آتا تھا، اور اسے انتہائی برا سمجھا جاتاتھا، اس زمانہ میں خطوط بھی بہت طویل نہیں لکھے جاتے تھے، خیریت وعافیت، مطلب کی بات، دعا اور سلام، یہ بھی لکھا جاتا تھا کہ” تھوڑا لکھا ہے زیادہ سمجھنا“ لیکن اب وہ ماضی کا قصہ ہے، ہمارے عہد میں جملے تراشے جاتے ہیں، پھینکے جاتے ہیں، الفاظ کی سودا گری کی جاتی ہے، بات میں بات نکالی جاتی ہے گھمایا پھرا یا جاتا ہے، تب کہیں نمبر مطلب کی بات کا آتا ہے، وہ بھی اس انداز میں کہ کبھی تو الفاظ کی سودا گری اور جملے تراشی میں سامنے والا اصل مقصد تک پہونچ نہیں پاتا ہے اور اسے پوچھنا پڑتا ہے کہ آخر آپ کہنا کیاچاہتے ہیں، سماج کے کئی طبقہ سے جڑے لوگوں کی یہی حالت ہے۔
 اس کے بر عکس خاموشی کی اپنی زبان ہوتی ہے اور وہ کبھی کبھی گفتنی سے بڑھ جاتی ہے اور بے زبانی، زبان بن جاتی ہے اور یہ زبان اس قدر م ¶ثر ہوتی ہے کہ جب وہ داستان رقم کرتی ہے تو کلیجہ منہ کو آنے لگتا ہے، شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔
خموشی گفتنی ہے بے زبانی ہے زباں میری کلیجہ منہ کو آئے گا جب سنو گے داستاں میری
 خود آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے معمولات زندگی میں خاموشی کا بڑا مقام تھا، حضرت جابر بن سمرہ ؓ سے مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اکثر خاموش رہنے والے تھے، حضرت ابو ہریرہ ؓ کی ایک روایت میں خاموشی کو سب سے اونچی عبادت قرار دیا گیا ہے۔ (کنزالعمال 3/35رقم الحدیث 6881)
خاموشی کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس سے آپ کے اندر تحمل اور برداشت کا مزاج بنتا ہے، آپ کے اندر نئی توانائی آجاتی ہے، اسلام کی اصطلاح میں صبر برداشت ہی کا نام ہے، اگر آپ گالیاں سن کر بے مزہ نہ ہوئے اور کچھ جواب نہیں دیا تو وہ گالیاں دینے والے کی طرف لوٹ جاتی ہیں، وہ دوبارہ آپ کو گالی دینے کی پوزیشن میں نہیں ہوتا، کیوں کہ گندگی کی قے ایک ہی بار کی جا سکتی ہے، بار بار نہیں، خود میرا تجربہ ہے کہ میں نے ایک صاحب کے بُرا بھلا کہنے پر خاموشی اختیار کرلی، میری اس خاموشی کا کرب وہ صاحب سال بھر جھیلتے رہے، اور لوگوں نے ان صاحب کو اتنا لعن طعن کیاگیا کہ وہ خواہش کرنے لگے کہ، میں اپنی خاموشی توڑوں اور کم از کم اتنا کہہ دوں کہ معاف کر دیا، میں نے ایسی چپی سادھی کہ سامنے والا پریشان ہونے لگا،اسی لیے خاموشی کو کامیاب ہتھیار کہا گیا ہے، اس کے علاوہ اگر کوئی آپ کو کچھ کہتا ہے اور آپ خاموش رہ جاتے ہیں تو یہ معاملہ بندہ سے ہٹ کر معبود کے پاس چلا جاتا ہے اور جب اللہ انتقام لینے پر آجائے تو کہیں جائے پناہ نہیں ملتی۔ اسی لیے عقل مندوں نے خاموشی کو حکمت قرار دیا ہے، اس سے انسان بہت ساری پریشانیوں سے بچ جاتا ہے اور خاموش رہنے والے کو قلبی سکون حاصل ہوتا ہے۔

پیر, اکتوبر 02, 2023

گاندھی جینتی کے موقع ضیائے حق فاؤنڈیشن میں پروگرام کا انعقاد
Urduduniyanews72 
پھلواری شریف پٹنہ مورخہ 02/اکتوبر (پریس ریلیز) گاندھی جینتی کے موقع ضیائے حق فاؤنڈیشن میں ایک خوبصورت پروگرام کا انعقاد کیا گیا جس میں طلبہ وطالبات نے شرکت کرکے  بابائے قوم موہن داس کرم چند گاندھی کے یومِ پیدائش پر انہیں خراج عقیدت خود ان کے طرز میں خود کو ڈھال کر پیش کیا ، اس موقع پر ضیائے حق کے برانچ اونر پٹنہ محمد ضیاء العظیم نے مہاتما گاندھی کی سوانح اور ان کی تحریک سے روشناس کرایا،
ڈاکٹر صالحہ صدیقی چئیر پرسن ضیائے حق فاؤنڈیشن نے ویڈیو کال کے ذریعہ طلبہ وطالبات کے درمیان گاندھی جی کے حوالے سے بہترین گفتگو کی۔
واضح رہے کہ ضیائے حق فاؤنڈیشن ایک بیدار تنظیم ہے، جو بنیادی طور پر تعلیم وتربیت کے ساتھ ساتھ ہر طرح سے سماجی ومعاشرتی خدمات انجام دینے کے لئے ہمیشہ مستعد رہتی ہے ۔

مفتی ثناء الہدی

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی: زندگی کا سفر
Urduduniyanews72 
غالب شمس قاسمی دربھنگوی، نظرا محمد آباد دربھنگہ ۔
 سرزمین بہارعلم کی بستی اورادب کا گہوارہ رہی ہے، یہاں جابجا بزرگان دین کی قبریں ماضی کا پتہ دے رہی ہیں، ماضی کی شخصیتیں اگر بے نظیرتھیں، توزمانہء حال میں بھی گوہرنایاب موجود ہیں،ویشالی ضلع کے حسن پور گنگھٹی سے تعلق رکھنے والے حضرت  مولانا مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی  دامت برکاتہ العالیہ کی شخصیت محتاجِ تعارف نہیں ، آپ کی  ذات ہمہ گیراورآپ کی خدمات ہمہ جہت ہیں،آپ فی الحال امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ کے نائب ناظم، امارت شرعیہ کے ترجمان ہفت روزہ نقیب کے مدیر اعلیٰ،وفاق المدارس الاسلامیہ بہار کے ناظم،آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اورآل انڈیا ملی کونسل کے رکن تاسیسی ہیں، اسی طرح آپ معہد العلوم الاسلامیہ چک چمیلی( سرائے ویشالی)کے بانی مبانی بھی ہیں ہے،اعتراف خدمات میں آپ کو کئی سرکاری اعزاز سے نوازا جاچکا ہے ۔
 
مختصر حالات زندگی          
ولادت
آپ  کی ولادت 17/ نومبر 1958ء ( بہ مطابق 5/جمادی الاولی 1378ھ) بروز پیر محمد نور الہدیٰ کے یہاں حسن پور گنگھٹی موجودہ ضلع ویشالی میں ہوئی۔ ابتداء میں آپ کا نام شمیم الہدیٰ رکھا گیا، لیکن والد گرامی نے بعد میں ثناء الہدیٰ کردیا۔
 شجرۂ نسب
 محمد ثناء الہدیٰ ابن محمد نور الہدیٰ بن منشی علی حسن بن رجب علی بن سخاوت علی۔  
خاندان
آپ کے گاؤں میں گرچہ جہالت عام تھی، لیکن آپ کا خاندان مذہبی و عصری تعلیم سے آراستہ تھا، ہدی فیملی،تہذیب و شائستگی کے لئے علاقے بھر میں مشہور تھی، ان کے والد  محترم ماسٹر محمد نور الہدیٰ ڈبل ایم اے تھے،ایم اے فارسی میں بہار یونیورسٹی کے وہ  ٹاپر تھے، آپ کے دادا منشی علی حسن اچھے خوش نویس تھے ،اور انہیں گلستان و بوستان کے اکثر حصے زبانی یاد تھے۔

رسم بسم اللہ 
پانچ سال کی عمر میں آپ کی پھوپھو راشدہ خاتون نے رسم بسم اللّٰہ ادا کرائی، ناظرہ قرآن، اردو کا قاعدہ۔ پہلی، دوسری، تیسری،( مولانا محمد اسماعیل خان صاحب میرٹھی کی کتاب کا پورا سیٹ )اور فارسی کی پہلی، دوسری، انگریزی کی پہلی کنگ ریڈر، پہاڑہ اور جوڑ گھٹاؤ سب کی تعلیم پھوپھو کے پاس ہی ہوئی، بچپن ان ہی کے زیر تربیت گزرا، گھر کا ماحول علمی تھا، اسی لئے ابتداء ہی سے دین و ادب کا چسکا لگ گیا۔ 
اسکول کی تعلیم 
گھریلو تعلیم کے بعد 1966ء میں بکساما مڈل اسکول میں تیسرے درجے میں داخلہ کرایا گیا،یہاں انھوں نے پانچویں درجے تک تعلیم پائی، اسکول کے اساتذہ میں جگ لال جی، اور ماسٹر ہارون قابل ذکر ہیں۔ 

مدرسہ میں داخلہ 
1970ء میں مدرسہ احمدیہ ابابکر پور ویشالی میں درجۂ حفظ میں داخل ہوئے، قاری عتیق الرحمان صاحب کے پاس حفظ شروع کیا، ایک سال بعد مدرسہ احمدیہ چھوڑ کر گاؤں کے مکتب مدرسہ ملیہ میں پڑھنا شروع کیا۔یہاں ان کے حفظ کے استاد حافظ محمد مستقیم جتوارپوری تھے،جو اس گاؤں میں مکتب کے معلم تھے۔ 

مئو کا سفر
 1972ء میں دار العلوم مئو میں داخلہ کرایا گیا، دوسرے سال1973 کے آخر میں حفظ کی تکمیل ہوئی، فارسی اور عربی اول و دوم کی کتابیں دار العلوم مئو میں ہی پڑھیں، پھر عربی سوم میں مفتاح العلوم مئو میں داخلہ لیا۔ آپ نے حفص کی تکمیل قاری عبد المنان صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی درسگاہ میں یہیں سے کی،اس وقت مئو میں شیخ القراء قاری ریاست علی، مولانا عبد اللطیف نعمانی، اور ابو المآثر حبیب الرحمن اعظمی رحمھم اللّٰہ جیسے اکابر علماء موجود تھے۔ اگلے سال دوبارہ دار العلوم مئو میں داخلہ لیا، اور عربی چہارم پڑھا، اسی سال قاری ظفر الاسلام صاحب سے قرأت سبعہ کی بھی تکمیل کرلی۔
 
 سرزمین دیوبند میں 
               تکمیل تعلیم کی غرض سے 1978ء میں دار العلوم دیوبند کے لئے رخت سفر باندھا، پنجم عربی میں داخلہ لیا، دار العلوم دیوبند میں آپ  کی شخصیت و صلاحیت کو چار چاند لگ گئے، دیوبند کی علمی و ادبی فضا سے خوب استفادہ کیا، تحریر و تقریر میں جلا پیدا ہوئی، جمیعت الطلباء کے سکریٹری بنے، سجاد لائبریری کے لئے زمین خریدی،انقلاب کے زمانے میں آپ  وہاں کے طالب علم تھے، آپ نے ان احوال کو ذاتی ڈائری میں لکھا، جو ترجمان دیوبند کے خاص نمبر"وحید الزماں کیرانوی نمبر" کی زینت بنی، 1982ء میں دار العلوم دیوبند سے فراغت ہوئی، دورۂ حدیث میں آپ  تیسری پوزیشن سے کامیاب ہوئے ۔
                 82/1983ء میں دارالعلوم ہی سے افتاء کیا، حضرت مفتی محمود حسن گنگوہی علیہ الرحمہ سے رسم المفتی پڑھی،  حضرت مفتی نظام الدین اعظمی  سے فتویٰ نویسی کی مشق کی، اور  در مختار کے اسباق حضرت مفتی ظفیر الدین مفتاحی سے متعلق رہے،مفتی کفیل الرحمٰن نشاط عثمانی بھی کبھی کبھی مشق و تمرین کرایا کرتے تھے، اس زمانے میں وہ وہاں نقل فتاویٰ پر مامور تھے، جب حضرت مفتی نظام الدین اعظمی شروع سال میں حج کو گئے ، تو  حضرت مفتی سعید احمد پالنپوری نور اللہ مرقدہ نے چند دن افتاء کی کتابیں پڑھائیں،حضرت مفتی صاحب کی رائے یہ تھی کہ "فتاویٰ رشیدیہ کی زبان فتوی کی ہے، اس لیے  طلباء کو یہ کتاب  زیر مطالعہ رکھنا چاہیے، انہوں نے طلبہ پر واضح کیا کہ مفتی کے لیے ضروری ہے کہ اس کا دستخط بالکل واضح ہو، اس لیے کہ فتوی پر اعتماد مفتی کے نام کی وجہ سے ہوتا ہے، دو سطروں کے بیچ میں فاصلہ نہیں چھوڑنا  چاہیے، کہ کوئی عبارت بڑھا دے، اور تحریر ایسی گنجلک ہونی چاہیے کہ بیچ میں کچھ لکھنے کی گنجائش باقی نہ رہے"، 
آپ نے  دار العلوم  میں قاری محمد طیب قاسمی ؒ سے حجۃ اللّٰہ البالغہ،  مولانا محمد سالم قاسمیؒ سے  شرح عقائد نسفی ، مولانا عبد الخالق مدراسی سے متنبی ، مولانا بدر الحسن قاسمی  سے مقامات حریری،  مولانا خالد بلیاوی سے ملا حسن ،مولانا ریاست علی ظفر بجنوریؒ سے ہدایہ اولین، مولانا زبیر صاحبؒ سے میبذی، علامہ قمر الدین احمد گورکھپوری سے بیضاوی اور مولانا معراج الحق  صاحبؒ سے ہدایہ آخرین پڑھی،
دورۂ حدیث  ہی کے سال قضیۂ دار العلوم پیش آیا،کیمپ کے دنوں میں اسباق تقریباً پانچ مہینے تک زیادہ تر حضرت مفتی سعید احمد پالنپوریؒ سے متعلق رہے، اسی لئے آپ کی صحاح ستہ کے کئی اساتذہ  ہیں، اور ایک ایک کتاب کئی حصوں میں پڑھائی گئی تھی، جیسے کہ صحیح بخاری حضرت قاری  محمد طیب صاحب نور اللہ مرقدہ نے شروع کرائی، نصف اول کے ابتدائی حصے  حضرت مولانا مفتی سعید احمد پالنپوریؒ نے  پڑھائے، اس کے آگے مولانا نصیر احمد خانؒ نے پڑھایا، صحیح البخاری ثانی کے بھی بعض اجزاء کیمپ کے زمانے میں مفتی سعید احمد صاحبؒ پڑھا رہے تھے، دوبارہ دار العلوم کھلنے کے بعد مولانا نصیر احمد خان صاحبؒ نے مکمل کرائی۔اسی طرح  صحیح مسلم (ابتدائی حصہ) مفتی سعید احمد پالنپوریؒ پڑھا رہے تھے ،  
جامع ترمذی( از اول تا آخر)  مفتی سعید احمد پالن پوریؒ کے زیر درس رہی،
سنن ابو داؤد  مولانا خورشید احمد دیوبندی سے اور سنن نسائی مولانا  حسین احمد بہاری  جیسے جلیل القدر اساتذہ سے پڑھیں۔ 

عصری درسگاہوں سے استفادہ 
آپ نے عصری درسگاہوں سے خوب استفادہ کیا، آپ نے اتنی زیادہ ڈگریاں حاصل کر رکھی ہیں کہ بقول محمد فیاض قاسمی کے۔۔۔ کے" آپ نے حافظ، قاری، فاضل، مفتی، ادیب، ایم اے اور بی اے جیسی اتنی ڈگریاں حاصل کر رکھی ہیں، کہ ہمارے جیسا لاغر جسم والا ان ڈگریوں تلے دب جاتا، مگر یہ بآسانی اٹھائے ہوئے ہیں، لیکن سادگی کا اس قدر حملہ ہے، کہ کوئی سرسری دیکھنے والا صرف ایک ملاجی سمجھے، یا بہت مہربانی کرے تو میٹرک پاس گردان لے".
آپ نے فراغت کے ساتھ ہی پرائیویٹ سے میٹرک کا امتحان دیا، بعدہ بہار یونیورسٹی مظفر پور میں بی اے آنرز فارسی میں یونیورسٹی ٹاپ کیا،اور پہلی پوزیشن پائی،فارسی سے ہی ایم اے کیا،  اور پوری یونیورسٹی میں دوسری پوزیشن پائی، پی ایچ ڈی کا مقالہ بھی لکھ چکے تھے،  پروفیسر متین احمد صاحب بہار یونیورسٹی گائیڈ تھے، ان کے انتقال کی وجہ سے سے ڈاکٹر بنتے بنتے رہ گئے ۔اسی طرح بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ سے پانچ مضمون میں فاضل کیا، جامعہ اردو علی گڑھ سے ادیب کامل کیا، جامعہ دینیات سے فاضل دینیات اور عربک پرشین بورڈ الہ آباد سے بھی فاضل کی سند لی۔، 
عملی خدمات ۔
آپ نے فراغت کے بعد ٹیچرٹریننگ کیا،لیکن والد محترم کے مشورے سے تدریسی زندگی کا آغاز مدرسے سے کیا، چنانچہ 83 ء میں دار العلوم بربٹہ سمستی پور ( ملحق بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ)  میں پرائیویٹ طور پر درس و تدریس کی خدمت سے وابستہ ہوگئے،  یہاں قدوری،نور الایضاح،اورفارسی کی پہلی  آپ کے درس میں شامل رہی،  اس وقت آپ کی تنخواہ صرف تین سو روپے تھی۔، 
          یکم مئی 84ء مادرعلمی مدرسہ احمدیہ ابا بکر پورویشالی میں خدمت تدریس پر مامور ہوئے۔  1990ء میں آپ کو بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ نے ڈیپوٹیشن پرآپ کوبہارمدرسہ بورڈ کی تاریخ مرتب کرنے کے لئے بلالیا، یہاں آپ 1994 تک رہے، پروجیکٹ کی تکمیل کے بعد مدرسہ احمدیہ  میں  دوبارہ درس وتدریس  میں لگ گئے، آپ نے مدرسے کے درجۂ حفظ کو سدھارنے اور علمی ڈگر پر لانے کی کوشش کی، اسی کے ساتھ قدوری، ابو داؤد شریف اور آثار السنن جیسی کتابیں آپ کے زیر درس رہیں۔ 
 امارت شرعیہ سے وابستگی
    29 /اکتوبر 1995ء میں آپ کو امارت شرعیہ بہار و اڑیسہ کے مجلس ارباب حل و عقد کا رکن منتخب کیا گیا.
                         مئی  2003 ء میں  امیر شریعت سادس مولانا نظام الدین  صاحب کی ایماء پر بطور نائب ناظم امارت تشریف لائے،مارچ 2015ء سے امارت شرعیہ کے ترجمان ہفت روزہ نقیب کا اداریہ( اس کے مدیر جناب عبد الرافع کے صاحب فراش ہوجانے کی وجہ سے)لکھنا شروع کردیا تھا، البتہ دسمبر 2015 ء میں ایڈیٹرعبد الرافع کے انتقال پر ملال کے بعد آپ کو مستقل طور پر نقیب کی ادارت سونپ دی گئی ،اور تا حال امارت شرعیہ کے نائب ناظم، وفاق المدارس الاسلامیہ کے ناظم اور ہفت روزہ نقیب کے مدیر کی حیثیت سےخدمات انجام دے رہے ہیں۔ 
 
  آل انڈیا ملی ملی کونسل 
  فقیہ اسلام حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒ کی جوہر شناس نگاہ نے اس گوہر بے بہا کو پہچان لیا، چنانچہ قاضی صاحب نے کئی اہم ذمہ داریاں آپ کے سپرد کیں، آپ ملی کونسل کی پہلی میقات (سن 1992ء)میں بمقام میسورمعاون سیکرٹری بنے، اور دوسری میقات ( سن 1995)میں بہار میں رابندر ناتھ ٹیگور ہال میں سکریٹری بنائے گئے اور سن 2002 میں باضابطہ سکریٹری بنے،
  مسلم پرسنل لا بورڈ 
بورڈ کے ارکان مجلسِ تاسیسی نے مونگیر میں منعقدہ اجلاس 2مارچ 2003ء میں آپ کو بورڈ کا معزز رکن منتخب کیا۔  
شعر و ادب
مفتی صاحب کو شعر ، نظم اور  غزل سے بھی بڑی مناسبت تھی،  ضیاء اور عاصی تخلص اختیار فرماتے تھے، اسی طرح 1976ء سے 83 ء تک ثناء نوری، ضیاء رحمانی، بدر عالم طیبی جیسے فرضی نام سے افسانے لکھا کرتے تھے، فراغت کے بعد یہ سلسلہ پوری طرح سے بند کردیا۔  

قلمی خدمات ۔
آپ کی قلمی و ادبی خدمات کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ بہار کے بڑے بڑے ادیبوں نے آپ پر قلم فرسائی کی ہے،  ادبی و قلمی خدمات کے اعتراف میں انجمن ترقی اردو ویشالی نے سیمینار بعنوان" مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی شخصیت اور خدمات" کیا، جو کتابی شکل میں موجود ہے۔ 
آپ نے  زندگی، سیاست اور سیادت ہر ایک پر خوب لکھا ہے ۔ بقول انوار الحسن وسطوی
   " حقیقت میں مفتی صاحب نہ نرے مولوی ہیں اور نہ خالی خولی ادیب بلکہ ایک کثیر الجہات شخصیت ہیں۔ یہ ان کی گوناگوں دلچسپیوں اور ان کی وسعت نظری کا کمال ہے کہ انھوں نے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے جس کسی شخص میں بھی کوئی خوبی دیکھی تو اس کے قائل ہوئے اور اس شخصیت کو اپنی تحریر کا موضوع بنایا۔ مفتی صاحب انسانوں میں خامیاں نہیں ڈھونڈ تے، خوبیاں تلاش کرتے ہیں۔ خود بھی ان خوبیوں سے متاثر ہوتے ہیں اور مسلسل دوسروں کو بھی ان کی ترغیب دیتے ہیں"
یوں تو آپ دار العلوم مئو اور دار العلوم دیوبند دونوں جگہ تحریری و تقریری شعبوں میں حصہ لیتے رہے، البتہ جداری پرچوں سے کتابی تصنیف تک کا سفر  دار العلوم دیوبند کے  دور طالب علمی میں ہی  طے کیا، عربی ششم میں آپ کی سب سے پہلی کتاب "فضلاء دار العلوم دیوبند اور ان کی قرآنی خدمات" منظر عام پر آگئی تھی، جس میں پیش لفظ  مولانا ریاست علی ظفر بجنوری، اور مقدمہ مولانا انظر شاہ کشمیری رحمھما اللّٰہ نے لکھا ہے۔
اس کے بعد پے بہ پے ساڑھے چار درجن سے زائد کتابیں مختلف موضوعات پر منظر عام پر آچکی ہیں، جن کی فہرست درج ذیل ہے۔
  شرح حدیث پر:
تفہیم السنن شرح آثار السنن جلد اول (1996)
تفہیم السنن شرح آثار السنن جلد دوم (ء1998)
فن فقہ پر
(3) نئے مسائل کے شرعی احکام جلد اول(2014ء)
(4) نئے مسائل کے شرعی احکام جلد دوم (2018ء)
(5) حضرت فاطمہ کے جہیز کی حقیقت (1986ء)
(6) المسائل المستجدہ فی ضوء القرآن و السنۃ ( عربی ترجمہ؛ نئے مسائل کے شرعی احکام)
      اسلامیات
(7) المنہج السلیم الی دعوۃ اللہ العظیم (عربی ترجمہ: دین کی دعوت کا آسان طریقہ)
(8) دین کی دعوت کا آسان کا طریقہ (1986ء)
(9) اذان مجاہد ( قاضی مجاہد الاسلام قاسمی کی تقریر کا مجموعہ) (2007ء)
(10) دعا عبادت بھی -حل مشکلات بھی (2017ء)
(11) عمرہ حج و زیارت - سفر محبت و عبادت (2009ء)
(12) اچھا سماج بنائیے (2013ء)
(13) اصلاح کی فکر کیجیئے ( 2010ء)
(14) حرف حرف زندگی ( 2018ء)
(15) اتحاد امت اور اختلاف رائے - اصول و آداب ( 2016ء)
      
      تعلیم و تدریس
(16) تعلیم ترقی کی شاہ کلید (2015ء)
(17) مدارس اسلامیہ میں منصب تدریس اور طریقہ تدریس (2014)
(18) عصر حاضر میں مسلمانوں کا نظام تعلیم- تجزیہ مسائل و حل۔ ( 1992ء) ہمہ گیر تعلیمی مہم میں شامل نصابی کتاب
(19) آو ہم پڑھیں ( 2009ء)
(20) خاصیات ابواب ( 1987ء)
   
   ترتیب و تدوین
(21) نامے میرے نام  (جلد اول ) (مفتی صاحب کے نام لکھے گئے خطوط کا مجموعہ (2016ء)
(22) نامے میرے نام (جلد دوم ) زیر طباعت
(23) دیوان عبد اللطیف اوج (2015ء)
(24) دیوان سراج سلطانپوری (زیر طباعت)
(25) میری سنو ( مولانا نبی اختر مظاہری کا مجموعۂ کلام) [2012ء]
(26) گلدستۂ شادمانی( سہروں کا مجموعہ)[ 1990]
(27) حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی۔تھانوی اور مولانا عبد العزیز بسنتی کے علمی مراسلے ( 2016ء)
(28) ام شمیم جرنلسٹ ۔حیات و خدمات  (1989)
(29) قومی یک جہتی ( 1990)

ادبیات - ( تاریخ و تحقیق و تنقید)
(30) نقد معتبر (2009ء)
(31) حرف آگہی (2015ء)
(32) تذکرہ مسلم مشاہیر ویشالی (2001ء)
(33) فضلائے دارالعلوم اور ان کی قرآنی خدمات ( 1980)
(34) حرف تازہ_ غزلوں کا مجموعہ ۔ ( غیر مطبوعہ)
(35) یہ سفر قبول کرلے (2020ء)
(36) بہار مدرسہ بورڈ_ تاریخ و تجزیہ ( 1992)
(37) آوازہ لفظ وبیاں (2021ء)

خاکہ
(38) یادوں کے چراغ جلد اول (2009ء)
(39) ہادوں کے چراغ جلد دوم  ( 2017ھ)
(40) یادوں کے چراغ جلد سوم  ( 2022ء)
(41) یادوں کے چراغ جلد چہارم ( 2022ء )
(42) یادوں کے چراغ جلد پنجم ( غیر مطبوعہ )
(43) دکھتی رگیں ( افسانوں کا مجموعہ) [ غیر مطبوعہ]
(44) آدھی ملاقات ( مفتی صاحب کے مکاتیب کا مجموعہ)  [ 2022ء]
(45) سی اے اے، این آر سی، اور این پی آر - حقائق، اندیشے، مضمرات ۔( 2020ء)
(46) کورونا مسائل، مصائب اور مشکلات
(47) نقطۂ نظر ( 2020ء)
(48) زاویہ نظر (2022)
(49) تماشا مرے آگے (2022ء)
(50) تذکرہ مسلم مشاہیر بہار
(51) مکاتیب شاہ علی منعمی کا تنقیدی و تجزیاتی مطالعہ ( پی ایچ ڈی کے لئے لکھا گیا تحقیقی مقالہ،غیر مطبوعہ )

آپ پر لکھی گئی کتابیں
(1)مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی شخصیت اور خدمات( ڈاکٹر مشتاق احمد مشتاق )
(2) مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی اور ان کی ادبی خدمات ( یہ ڈاکٹر راحت حسین  کے پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے، جو کتابی صورت میں شائع ہے)
(3) مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی شعراء کرام کی نظر میں۔
  (مرتب: عبد الرحیم استاذ معھد العلوم الاسلامیہ چک چمیلی سرائے ویشالی)

آپ پر لکھے گئے مضامین جو دوسری کتابوں میں شامل ہوئے۔
(1) باتیں میر کارواں کی (عارف اقبال دربھنگوی)
(2) ہندوستان کے قائدین (شمیم اختر)
(3) بہار کی بہار (مولانا وصی احمد شمسی)
(4) ضلع اردو نامہ 2022/23 (مرتب: آفتاب عالم)

ایوارڈ:
قومی ایوارڈ برائے اساتذہ۔ ( تعلیمی میدان میں قابلِ ذکر خدمات کے اعتراف میں یوم اساتذہ پربدست صدر جمہوریہ ہند کشوری رمن نارائن (5 ستمبر 2000ء)
شمس الہدیٰ ایوارڈ ۔ بدست اس وقت کے  وزیر تعلیم حکومت بہار ،جے پرکاش نارائن یادو ۔ (4اکتوبر 1997ء) 
بہار اردو اکیڈمی ایوارڈ۔ 2017ء میں آپ کی کتاب "تعلیم: ترقی کی شاہ کلید" کے منظور ہونے پر.
توصیفی سند ( بہار مدرسہ بورڈ " تاریخ و تجزیہ" کی تصنیف پر چیرمین مدرسہ بورڈ محمد سہراب نے بتاریخ 20 اپریل 1995ء میں توصیفی سند عطا کی، اور فرمایا کہ " اگر بورڈ کے دائرۂ اختیار میں پی ایچ ڈی یا کامل کی ڈگری تفویض کرنا ہوتا، تو بورڈ انہیں اس علمی کام پر مذکورہ ڈگری ایوارڈ کرتا۔" 
اس کے علاوہ سیکنڑوں سرکاری و غیر سرکاری ایوارڈ اور اعزازات سے آپ نوازے گئے۔
بیعت و خلافت 
     حضرت مولانا حکیم محمد اسلام انصاری میرٹھ خلیفۂ اجل حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب کے دست گرفتہ ہیں ۔آپ کے صلاح و تقویٰ کو دیکھ کر 1425 ھ مطابق 2005ء میں حضرت مولانا حکیم محمد اسلام انصاری نے آپ کو اجازت و خلافت عنایت فرمائی، اور ایک خط  بھیجا" جس میں کچھ یوں رقم طراز ہوئے کہ " الحمداللہ حق تعالیٰ نے آپ کو فطری طور پر قلب کی صلاحیتیں عطا فرمائی ہیں، اور بعض دفعہ فطری صلاحیت اکتسابی صلاحیت سے بڑھ جاتی ہے۔ سو الحمد للّٰہ  یہ صلاحیت ... عطیۂ حق سے موجود ہے، اسلئے مناسب ہے کہ آپ اپنی صلاحیتوں سے دوسروں کو بھی بہرہ ور فرمائیں، اور مخلوق کی دینی اور اخلاقی تربیت کی طرف توجہ فرمائیں ۔ جو بھی طالب صادق آئے اُسے توبہ  کرادیا کریں۔ کبائر و صغائر سے توبہ اور توحید ورسالت اور بنیادی عقائد کا اقرار لے لیا کریں،
بہرحال طالبین کو محروم نہ فرمائیں، میں اس کی آپ کو اجازت دیتا ہوں ۔ حق تعالٰی اکابر مشائخ  کی راہ پر چلائے، اور بر و تقوی کی توفیق دے۔ آمین"     
حج
   آپ کو چار مرتبہ سفرحج کی سعادت نصیب ہوئی، پہلی مرتبہ 1989 ء مطابق 1409ھ میں حاجی شفیع الرحمٰن صاحب گولڈن ہائیڈ ایجینسی کولکاتہ کے صرفہ سے حج پر گئے،  مفتی صاحب نے ان کے لڑکے کو حفظ  کرایا تھا، اور یہ خدمت انہوں نے فی سبیل اللہ مجانا کی تھی، حالانکہ حاجی صاحب نے پیسہ  کی پیشکش کی، تو آپ نے کہا: کہ" میں قرآن پڑھانے پر اجرت نہیں لیتا ہوں "  
شفیع  الرحمٰن صاحب نے  پوچھا  کہ اگر انعام دوں تو لیں گے ؟! تو آپ نے فرمایا کہ بالکل ، اس پر انہوں نے کہا کہ میں آپ کو ایسا انعام دوں گا کہ زندگی بھر یاد رکھیں گے، اور پھر انہوں نے آپ کو انعام کے طور پر تحفۂ حج دیا، بلکہ مفتی صاحب کے مشورے سے وہ بھی اپنے اہلیہ کے ساتھ آپ کی معیت میں حج پر گئے۔
دوسرا حج 2002ء میں ۔
2012ء میں  تیسری مرتبہ سعودی حکمران شاہ عبداللہ کی دعوت پر ضیوف الحرمین الشریفین کی حیثیت سے سفر حج بیت اللہ کا شرف حاصل کیا۔
 چوتھی مرتبہ 2019ء میں خاندان کے پانچ افراد کے ساتھ ( جن میں مفتی صاحب کی اہلیہ اور ان کے بڑے صاحبزادے مولانا محمد نظر الہدیٰ قاسمی شامل تھے)حج کے مبارک سفر پر روانہ ہوئے،اور مناسک حج ادا کئے۔
 2015ء میں شاہ سلمان کی دعوت پر آپ غسل کعبہ کی تقریب کے موقع سے عمرہ کی سعادت حاصل کی، اس سفر میں مولانا محمد قاسم مظفر پوری بھی شریک سفر تھے۔

شادی
آپ کی شادی اپنے ماموں کی لڑکی عشرت پروین  بنت محمد عمر آزاد مرحوم سے بہ مقام شاہ میاں رہوا ڈاک خانہ، سہتھا ضلع ویشالی 5  اگست 1983 ء میں فراغت کے فوراً بعد ہوگئی تھی

اولاد و احفاد
آپ کی کل نو اولادیں ہوئیں، جن میں  پانچ لڑکے ہیں، ایک لڑکا محمد نصر الہدیٰ  ولادت کے چند ماہ بعد ہی چل بسا۔ بقیہ چار حی القائم ہیں ۔
(1) محمد نظر الہدیٰ ( دارالعلوم دیوبند سے فارغ التحصیل ہیں، چچازاد بہن ناز افزاء بنت محمد ضیاء الہدی ضیاء سے نکاح ہوا، ایک لڑکا، محمد الہدیٰ صغر سنی میں ہی چل بسا، چار لڑکی خنساء ہدی، حفصہ ہدی، فاطمہ ہدی،اور زینب ہدی حی القائم ہیں۔)
(2) محمد ظفر الہدیٰ ( دار العلوم دیوبند سے فارغ التحصیل ۔ چک حبیب اللہ میں مسرت جہاں بنت مولانا عبد الحنان مرحوم سے عقد نکاح ہوا، ایک لڑکا قاسم الہدیٰ ہے)
(3) محمد فخر الہدیٰ ( سول انجینئر ہیں)کی شادی قاری بلال الدین صاحب امام جامع مسجد موتی ہاری کی صاحب زادی "ذکری"سے ہے،
 (4) محمد نصر الہدیٰ ( بچپن میں وفات)
  (5) محمد ثمر الہدیٰ  (  انجینئرہیں )ایم ٹیک کے بعد حیدرآباد سے پی ایچ ڈی کررہے ہیں۔ 
   چار لڑکیاں بھی ہیں
   (6) رضیہ عشرت ( ان کی شادی  مولانا محمد سراج الہدی ندوی ازہری سے ہوئی، انہیں دو لڑکی سعیدہ سراج اور عائشہ سراج ہیں، اور تین لڑکے  یحییٰ سراج  صہیب سراج، خبیب سراج ہیں، یحییٰ سراج کم عمری میں ہی فوت ہوگئے۔)
 (7) غازیہ عشرت (  شادی ضیاء الحق نعمانی مقام نستہ ناصر گنج سے ہوئی، ایک لڑکا ارقم ضیاء تھا،جو کینسر کے موذی مرض میں کم عمری میں ہی چل بسا، تین لڑکی  ہانیہ ضیاء  آیبہ ضیاءاور ہادیہ ضیاء ہیں۔)
  (8) شاذیہ عشرت (  شوہر: ڈاکٹر اشتیاق احمد قاسمی مقام چندیہہ وایا اورائی، ضلع مظفر پور ہیں،ان کو ایک لڑکی منیبہ ہے )
   (9) ناصیہ عشرت۔ ( جامعہ ملیہ اسلامیہ میں بی اے کی طالبہ ہیں۔
    بھائی بہن میں سب سے بڑی رضیہ عشرت ہیں۔
آپ کے کل چھ  نواسیاں دو نواسےچار  پوتیاں اور ایک پوتا سے بھرا پرا خاندان ہے۔
 میرے ذاتی تأثرات
شعور کی سیڑھی چڑھ رہا تھا، تب کئی نام ذہن ودماغ میں گھومتے تھے، انہی میں سے ایک نام مفتی صاحب مد ظلہ العالی کا تھا، سجاد لائبریری میں آپ کی اکثر کتابیں موجود تھیں،اسی لئے تحریروں کے ذریعے آپ سے ملاقات ہوتی رہی، اخبار میں بھی اکثر آپ کے مضامین دل کشا پڑھتا، تین سال پہلے 2020ء میں آپ امارت کے وفد میں شامل ہوکرہمارےعلاقے میں آئے، ہمارے گھر آپ  قدم رنجا ہوئے، میرے لئے زندگی کی سب سے بڑی آرزو کی تکمیل ہورہی تھی،گھر میں خوب سارے پکوان بنے، دسترخوان لگا،آپ نے دولقمہ کھا کر سلاد پر اکتفا کیا،اس کے بعد آپ آرام کرنے کے لئے لیٹے، تومیں نے اپنی سعادت سمجھ کر آپ کے پیر دبائے، حضرت بڑے آدمی ہیں،علم کے سمندر ہیں،ہم جیسے کہاں ذہن میں رہتے،امسال التدریب فی القضاء میں داخل ہوا،مفتی صاحب کو اپنا مضمون دیا،اورآپ نے نقیب میں اسے شائع بھی کردیا، میرے لئے یہ بڑی خوش نصیبی کی بات تھی، حضرت کی یہ صفت خورد نوازی سے میں سب سے زیادہ متأثر ہوا،مفتی صاحب طلباء کی حد سے زیادہ حوصلہ افزائی فرماتے ہیں،کہتے ہیں "کوئی ماں کے پیٹ سے بڑا بن کرنہیں آتا ہے، انہی سیڑھیوں پر گرتے پڑتے اپنا مقام پالیتا ہے،مفتی صاحب سے دن بہ دن تعلق پروان چڑھتے رہے،ذاتی طور پرمجھے اشکال تھا، کہ اس دور قحط الرجال میں رجال ساز افراد کی کمی ہے، قاضی مجاہد الاسلام قاسمی جیسی مردم ساز شخصیت اب نہیں ملتی، لیکن آپ کودیکھ کر،سن کر ذرا تشفی ہوئی،ہمارے ایک درسی ساتھی اپنی کتاب ہدیہ میں پیش کرنے گئے، تو صرف ان کی حوصلہ افزائی کے لئے آپ نے وہ کتاب پڑھی، اور اس پر شاندار تبصرہ بھی نقیب میں لکھا،اور شائع بھی ہوا۔، 
پھرمفتی صاحب کے سامنے ویکیپیڈیا اردو پر آپ کے حالات اپلوڈ کرنے کا عزم ظاہر کیا، تومفتی صاحب نے خاموش حامی بھرلی ،اورآپ نے طالب علمی کے واقعات سنائے، حالاں کہ مفتی صاحب کی خدمات کے اعتراف میں بہار کے نامور قلمکاروں نے اتنا شاندار و جامع لکھا،اور ایسے ایسے جملے استعمال کئے ہیں کہ ہم جیسے وہاں تک پہنچ ہی نہیں سکتے، خیرسے: مفتی صاحب سادگی کے پیکراورانتہائی متواضع ہیں،ان کو پڑھ سن کر جوعکس ذہن میں بسا تھا ،آپ بالکل اس کے برعکس ہیں، آپ کے کمرے میں جانا ہوا،بڑی بےتکلفی سے ناشتہ پیش کردیا، طالب علمی کے زمانے میں ڈائریاں لکھتے تھے ، یا جو تحریریں تھیں، وہ سب آپ نے اب تک محفوظ رکھے ہیں، کمروں میں کتاب ہے، دھول ہے، کچھ چیزیں یہاں وہاں پھیلی ہوئی ہیں،  میں نے اب تک اتنی بڑی شخصیت کو اس انداز اور اس سادگی میں نہیں دیکھا، ظاہری زیبائش سے بے نیاز،بناوٹ سے کوسوں دور ہیں، بزرگوں کے بارے میں جو پڑھا تھا، آپ اس کے پرتو ہیں، یا شاید امارت اور بہار کی مٹی میں ہی اللہ نے تواضع، سادگی، تصنع سے نفرت، اور بے باکی رکھی ہے، 
بہر کیف: آپ کی موجودگی ہمارے لئے بلکہ برصغیر کے لئے کسی نعمت سے کم نہیں، کچھ لوگ مرنے کے بعد ان پر رونا روتے ہیں، لیکن زندہ شخصیات سے استفادہ کرنے کا نہیں سوچتے، حضرت کی شخصیت گزرے لوگوں کی نشانی ہے، اکابر علماء کی پرچھائی ہے، آپ کی ذات بے بہا سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے، اللہ آپ کے سایہ عاطفت کو تادیر قائم رکھے۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...