Powered By Blogger

جمعرات, دسمبر 14, 2023

حاسدوں کے شر سے اللہ کی پناہ

حاسدوں کے شر سے اللہ کی پناہ
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناءالہدی قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑکھنڈ 

حسد کسی دوسرے کی نعمت وراحت، صلاحیت وصالحیت جاہ ومنصب ، مقبولیت اور شہرت کو دیکھ کر جلنا اور پھر اس کے زوال کا خواہش مند ہونا، بلکہ اس کے زوال کی ہر ممکن تدابیر اختیار کرنا حسد کہلاتا ہے، شریعت کی نظر میں یہ حرام اور گناہ کبیرہ ہے، اس کے بڑے مضر اثرات سامنے آتے ہیں، حسد کے گناہ کا صدور پہلی بار آسمان پر ہوا تھا، جب ابلیس نے حضرت آدم کو خلیفۃ اللہ قرار دینے سے حسد کیا اور اس گناہ کی وجہ سے  وہ راندہ درگاہ ہواتھا، دنیا میں سب سے پہلا واقعہ حضرت آدم علیہ السلام کے صاحب زادگان کے درمیان حسد کا ہوا،جس کے نتیجہ میں قابیل نے اپنے بھائی ہابیل کو قتل کیا، پھر یہ سلسلہ دراز ہوتا ہوا حضرت یوسف علیہ السلام تک پہونچا ان کے بھائیوں نے ان سے حسد کیا اور اس کے نتیجہ میں ان کو کنوئیں میں ڈال دیا تاکہ کم از کم وہ حضرت یعقوب علیہ السلام اور بھائیوں کی نظر سے اوجھل ہو جائیں، کوئی مسافر انہیں نکال کر کسی دوسری جگہ لے جائے، مکہ کے مشرکین کی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے مرحلے میں رسول نہیں ماننے اور ایذا پہونچانے میں اسی حسد کا دخل تھا، تبھی تو وہ کہا کرتے تھے کہ اللہ کو رسول بنانے کے لیے (نعوذ باللہ ) کوئی اور نہیں ملا تھا، حضرت اسماعیل علیہ السلام کے خاندان سے آپ کا ہونا بھی حسد کا سبب تھا، کیوں کہ بنی اسرائیل میں جتنے نبی آئے وہ سب حضرت اسحاق علیہ السلام کی نسل سے تھے، یہودیوں میں آج تک جو نفرت مسلمانوں سے پائی جاتی ہے ان کے بہت سارے اسباب میں سے ایک حسد بھی ہے۔

حسد کرنے والوں کو پہلا نقصان تو خود ہی پہونچتا ہے کہ وہ دوسرے کی ترقیات کو دیکھ کر جلتا ، کڑھتا رہتا ہے، وہ خود کچھ نہیں کرتا، لیکن سامنے والے کے سلسلے میں زوال نعمت کا طلب گار ہوتا ہے، حسد کا نقصان جس سے حسد کیا جائے اس کو اس وقت پہونچتا ہے جب حاسد زوال نعمت کے لیے تدبیریں کر نے لگے، اسی لیے اللہ رب العزت نے سورہ فلق میں حاسدوں سے اس وقت  پناہ چاہنے کو کہا ، جب وہ حسد کرنے لگے۔

 حسد کرنے والا ہمیشہ اذیت میں مبتلا ہوتا ہے، میرے گاؤں میں میرے ہی ایک ہم عصر تھے جو مجھ سے بہت حسد کرتے تھے، میں جب کہیں تقریر کرتا تو وہ بے تحاشہ رونے لگتے ،میں نے ایک بار  ان سےپوچھا کہ آپ پر رقت اور گریہ کیوں طاری ہوتی ہے تو کہنے لگے کہ میں سوچتا ہوں تم مجھ سے ایک سال چھوٹے ہو اور اس قدر آگے بڑھ گیے اور میں کچھ نہیں کر پایا، میں نے کہا کہ میرے ساتھ چلتے تو کوئی مقام حاصل کر سکتے تھے، لیکن مھے دیکھ کر کڑھنے سے تو کچھ نہیں ہوگا، ان کا جسم اس جلن کی وجہ سےا نتہائی لا غر ہو گیا تھا، بعد میں دماغی توازن بھی جاتا رہا، اور بالآخر جلتے کڑھتے ہی وہ موت کی نیند سو گیے۔

 حسد میں زوال نعمت کی حاسد کس قدر تدبیریں کرتا ہے اس کا اندازہ آپ اس سے لگا سکتے ہیں کہ ایک آدمی اپنے پڑوسی کے لیے زوال نعمت کی دعا کرانے کسی بزرگ کے پاس پہونچ گیا، بزرگ نے فرمایا کہ میں کسی کے لیےزوال نعمت کی دعا تو نہیں کر سکتا، البتہ میں تمہاری ترقی کی دعا کر سکتا ہوں، حاسد نے کہا یہی صحیح، بزرگ نے کہا کہ دعا قبول ہونے پر تم جس سے حسد کرتے ہو اس کو تم سے دو گنا مل جائے گا، یہ بات حاسد کو انتہائی بری لگی ، بزرگ نے کہا بولو کیا کروں دعا کروں، کہنے لگا کہ دعا کر دیجئے کہ میری ایک آنکھ پھوٹ جائے تاکہ  اس کی دونوں آنکھیں چلی جائیں اور وہ پورا اندھا ہو کر کسی کام کا نہ رہے، میرے پاس ایک آنکھ بچے گی ، میں اسی سے کام چلا لوں گا۔

شریعت نے اسی لیے حسد کرنے سے منع کیا اور حاسدین سے اللہ کی پناہ چاہنے کی تلقین کی اور ارشاد فرمایا:أَمْ يَحْسُدُونَ النَّاسَ عَلَىٰ مَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ (النساء54) لوگ دوسرے آدمیوں سےان چیزوں پر جلتے ہیں جو اللہ رب ا لعزت نے بطور فضل انہیں عطا کیا ہے، ابن ماجہ کی ایک روایت میں ہے کہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے، جس طرح آگ لکڑی کو جلا دیتی ہے، دیلمی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بھی نقل کیا ہے کہ جس طرح ایلوا شہد کو خراب اور برباد کر دیتا ہے ویسے ہی حسد ایمان کو فساد میں مبتلا کر دیتا ہے، طبرانی میں ہے کہ جب تک آپس میں لوگ حسد نہیں کریں گے خیر پر رہیں گے  اور فرمایا : حسد کرنے والا مجھ سے نہیں ہے۔ حاکم اور دیلمی نے یہ بھی نقل کیاہے کہ ابلیس اپنی ذریات کو انسان میں ظلم وحسد کی تلاش کا حکم دیتا ہے، اس لیے کہ یہ دونوں چیزیں انسان کو شرک تک پہونچا دیتی ہیں۔

اپنے بھائیوں کو پریشانی میں مبتلا دیکھ کر جو لوگ خوش ہوتے ہیں، وہ بھی حاسدین میں ہے،یہ بھی ہو سکتا ہےکہ اللہ تعالیٰ اس کے بھائی کو پریشانی اور مصیبت سے نجات دے کر اس کو اس مصیبت میں مبتلا کر دے ۔ ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے، حاسدین کو قیامت میں سخت ندامت اور شرمندگی کا سامنا کرنا ہوگا، کیوں کہ دوسروں کی دنیا پر حسد کرکے اس نے اپنی آخرت تباہ کرلی، کیوں کہ آخرت میں حاسد کی نیکیاں محسود کو دیدی جائیں گی، مکافات نہیں ہوگا تو محسود کا گناہ بھی حاسد کے سر ڈال دیا جائے گا۔ یعنی نیکی برباد ، گناہ لازم

بخاری ومسلم کی مشہور روایت ہے کہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک دوسرے سے دشمنی ، باہم حسد اور قطع تعلق نہ کرو، اللہ کے بندے بھائی بھائی بن جاؤ، آپس میں رابطہ بنا رہے ، اس کے لیے حکم ہوا کہ کسی مسلمان کے لیے تین دن سے زیادہ اپنے بھائی سے بات چیت بند رکھنا جائز نہیں ہے۔

 در اصل حسد کرنے والا اللہ کے فیصلے پر راضی نہیں ہوتا کیوں کہ اگر راضی ہوتا تو اپنے بھائی کو اللہ کی جانب سے دی جانے والی چیزپر راضی رہتا اور اس کے خلاف اس کے دل میں حسد پیدا نہیں ہوتا، آپ نے بار بار یہ بات سنی ہوگی کہ مولوی بہت اچھا کھاتا ہے، یہ کہنا بھی کم تنخواہ کے باوجود مولوی کی اچھی رہائش ، بود وباش سے حسد کی وجہ سے کیا جاتا ہے، ایسا کہنے والا اس بات کو بھول جاتا ہے کہ رزق کی تقسیم اللہ نے کی ہے ، کسی کے حصے میں کچھ رکھا اور کسی کے حصہ میں کچھ ، گویا ایسے جملے کہنے والا اللہ کی اس تقسیم سے نا خوش ہے، جو اللہ نے اپنے بندوں کے درمیان کی ہے، اسی لیے حضرت حسن بصری ؒ نے فرمایا کہ حسد نہ کیا کرو، اس لیے کہ تمہارے بھائی کو جو نعمتیں حاصل ہو ئی ہیں وہ اگر اللہ رب ا لعزت نے بطور انعام دیا ہے تو تمہیں اس شخص سے حسد کرنے کا جواز اس لیے نہیں ہے کہ وہ اللہ کی جانب سے انعام یافتہ ہے اور اگر اللہ نے اسے ابتلا وآزمائش کے طور پر یہ نعمتیں دی ہیں تو بھی حسد نہ کرو، اس لیے کہ اگر وہ اس ابتلا  وآزمائش سے اللہ کی مرضی کے مطابق نہیں نکلا تو جہنم اس کی منتظر ہے۔

 حسد ہی کی طرح ایک چیز رشک ، غبطہ اور منافست ہوا کرتی ہے، اس میں انسان دوسرے کی نعمت کا زوال نہیں چاہتا بلکہ اپنے اندر وہ چیزیں پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے ، یہ نا جائز اور حرام نہیں ہے، خیر کے کاموں میں مسابقت شرعی طور پر مطلوب ہے، اللہ رب العزت نے سورۃ مطففین کی آیت فلیتنافس المتنافسون میں یہی بات کہی ہے، فقہاء نے رشک اور منافست کے درجات فرض، واجب، مستحب اور جائز کے طور پر بیان کیے ہیں، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایسےلوگوں کے بارے میں جس نے قرآن کریم کے علم کے ساتھ حلال وحرام کو جانا اور اس پر عمل کیا اور دوسرے وہ جس کو اللہ نے مال دیا اور اسے اللہ کے راستے میں خرچ کیا، رشک کرنے کو درست قرار دیا ہے۔

 اس لیے حسد سے آخری حد تک گریز کرنا چاہیے اور اس سے بچنے کی شکل حضرت ابو درداء نے یہ بتائی ہے کہ موت کو کثرت سے یاد کیا جائے اور محسود کے بارے میں مدح وستائش کے الفاظ نقل کیے جائیں، دل سے کینہ کدورت، بغض وعداوت نکال دیا جائے ورنہ یہ جہنم تک پہونچا نے کا ذریعہ بن جائے گا، اور دنیاوی زندگی بھی جہنم بن جائے گی 

حسدجب کسی کے اندر پیدا ہوتا ہے تو وہ تنہا نہیں ہوتا اپنی ذریت کو بھی ساتھ لاتا ہے کہنا چاہیے کہ منکرات کی پوری فوج اس کے ساتھ ہوتی ہے۔جن میں سے ہر ایک تنہا جہنم رسید کر نے کے لیے کافی ہے۔مثلا حاسد کے دل میں محسدود کی جانب سے کینہ بھرا ہوتا ہے۔اور سب جانتے ہیں کہ کینہ کدورت کے ساتھ آدمی جنت میں نہیں جاسکتا ہے ۔اسی لیے اللہ رب العزت نے ایمان والوں سے کینہ رکھنے سے منع کیااور ایک صحابی کے بارے میں کینہ نہ رکھنے کی وجہ سے جننتی ہونے کا بار بار اعلان فرمایا۔حاسدین کے دلوں میں چھپے کینے بعض وعداوت کاذریعہ بھی بنتے ہیں۔یہ عداوت بڑھ کر محسود کو نقصان پہوںچانے کے کام آتے ہیں۔جیسے حضرت یوسف علیہ السلام کو ان کےبھاءیوں نے کنویں میں ڈال کر نقصان پہونچا نے کا ارادہ کیا ۔بات جب آگے بڑھتی ہے تو حاسد محسود کو قتل کرنے کی سوچتا ہے کبھی یہ کام وہ خود کر گذرتا ہے جیسا قابیل نے ہابیل کے ساتھ کیا۔اگر وہ خود اس پر قادر نہیں ہوتا تو دوسروں سے پیسے دے کر کراتا ہے جسے آج کی اصطلاح میں سپا ری دینا کہتے ہیں۔غرض حسد میں نقصان ہی نقصان ہے۔کاش مسلمان اس بات کو سمجھ پاتے

اللہ ہم سب کی حسد سے حفاظت فرمائے اس کے لیے ہمیں ہر دم اللہ کی پناہ چاہنی چاہیے۔جس کا طریقہ اللہ رب العزت نے خود ہی قرآن مجید میں سکھایا ہے۔

بدھ, دسمبر 13, 2023

مصنوعی بارش

مصنوعی بارش
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑکھنڈ

بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی سے حکومت، عدالت، سماجی خدمت گار سبھی فکر مند ہیں، اس آلودگی میں دن بدن اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے، سپریم کورٹ نے از خود اس کا نوٹس لیا ہے اور تمام سرکاروں کو ڈانٹ پلاتے ہوئے کہا ہے کہ اس موضوع پر سیاسی لڑائی نہیں ہو سکتی، عدالت نے پنجاب، ہریانہ اتر پردیش اور راجستھان کو اس بات کو یقینی بنانے کو کہا ہے کہ فصلوں کی باقیات کھیت میں نہیں جلائی جائیں گی، اس معاملہ میں عدالت نے سخت تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم فضائی آلودگی کے سبب لوگوں کو مرنے نہیں دے سکتے۔
 عدالت کے تبصرے، ہدایت اور حکم کے باوجود فضاء میں جو کثافت اور آلودگی پھیلی ہوئی ہے، وہ اس کے حکم سے دور تو ہو نہیں سکتی، اس کے لیے کچھ نہ کچھ کرنے کی ضرورت ہے، حکومتی سطح پر بھی اور عوامی سطح پر بھی، اس لیے کہ گندگیاں عوام کے ذریعہ ہی پھیلتی ہیں، اور سرکاری کارندے جب وقت پر صفائی کا کام نہیں انجام دیتے تو وہ فضائی آلودگی کا سبب بن جاتے ہیں، او ربڑھتے بڑھتے انسانی زندگی اور صحت کو متاثر کرتے ہیں۔
سائنس دانوں کا خیال ہے کہ فضائی آلودگی کو مصنوعی بارش کے ذریعہ ختم تو نہیں،البتہ کم کیا جا سکتا ہے، اس عمل کو انگریزی میں کلاؤڈ سیڈنگ Cloud Seedingاور ہندی میں کترم بارش کہتے ہیں،عالمی سطح پر سائنس دانوں کے ذہن میں 1940میں یہ خیال پہلی بار آیا تھا،1956میں امریکی کیمیاداں کو AIRCRAFTING AND PERCEPTION پر کام کرتے ہوئے اس کا احساس ہوا کہ اگر فضا میں موجود بادلوں میں فریزنگ کے عمل کو تیز کر دیاجائے تو مصنوعی بارش کرائی جا سکتی ہے، چنانچہ اس نے اس پر تجزبہ کیا اور پہلی بار 1946میں یہ تجربہ کامیابی سے ہم کنار ہو ا، اس ایجاد کا سہرا دو سائنس داں ونسٹ شیفر اور برنارڈ ووینگو کو جاتا ہے، آج دنیا کے پچاس سے زائد ملک مصنوعی بارش سے فائدہ اٹھا رہے ہیں، جن میں سر فہرست امریکہ، چین، مالی، تھائی لینڈ، روس، آسٹریلیا، جاپان، متحدہ عرب امارات، فرانس، جرمنی ہیں، یہ اطلاع عالمی موسم تنظیم 2017کی رپورٹ سے ماخوذ ہے۔
مصنوعی بارش ایک سائنسی طریقہ سے کرایا جاتا ہے، اس میں ہوائی جہاز کے ذریعہ بادلوں کے بیچ ہوا میں سلور آیوڈین، خشک برف اور کلورائڈ چھوڑے جاتے ہیں، جس سے بادلوں میں غیر معمولی نمی پیدا ہوجاتی ہے اور بارش ہونے لگتی ہے، یہ بارش موسمی بارش سے زیادہ تیز ہوتی ہے اور زیادہ ہونے کی وجہ سے اس کے اثرات دیر تک باقی رہتے ہیں، البتہ اس عمل سے بارش کروانے کے لیے بادلوں کا وجود ضروری ہے، بادل اگر نہیں ہے تو مصنوعی بارش کی کوشش ناکام ہوجاتی ہے، سائنس داں مصنوعی بادل بنانے کی بھی کوشش کر رہے ہیں، مصنوعی بارش کا بڑا انحصار ہوا کے رخ پر ہوتا ہے، اگر تیز ہوا چھڑکاؤ کیے گیے بادل کو اڑالے جائے تو مطلوبہ زمین پر بارش برسانے کا کام انتہائی مشکل ہوجاتا ہے۔
 دہلی حکومت نے فضائی آلودگی پر قابو پانے کے لیے مصنوعی بارش کرانے کا فیصلہ کیا ہے، اگر یہ بارش صرف دہلی اور این سی آر کے علاقہ میں کرائی جائے گی تو تیرہ کروڑ روپے کاخرچ آئے گا اور مرکزی حکومت کے ساتھ عدالت کی اجازت بھی ضروری ہوگی، با خبر ذرائع کے مطابق یوگی حکومت نے کانپور کے سائنس دانوں کو اس سمت میں پہل کرنے کو کہا ہے۔
 مصنوعی بارش قدرت کا عطیہ نہیں ہے، اس لیے یہ قدرتی انداز میں ہونے والی بارش کے مقابل نہیں ہو سکتا، بلکہ اس کے بر عکس اس کو مصنوعی بنانے کا بڑا نقصان انسانی زندگی اور صحت پر پڑتا ہے جو کسی بھی طرح فضائی آلودگی کے نقصانات سے کم نہیں ہے، اس عمل میں کاربن ڈائی آکسائیڈ، کلیشم کلورائیڈ،آکسائڈ، المونیم آکسائڈ اور زنک کااستعمال ہوتا ہے، ان میں سب سے زیادہ خطرناک سلور آیوڈائیڈ ہے، جو ایڈز، ملیریا اور کینسر کے مرض میں انسان کو مبتلا کر سکتا ہے، یہ کیمیکل ہاضمہ کے نظام بھی خراب کرتا ہے، گردوں اور پھیپھڑوں میں اس کی وجہ سے زخم ہو سکتا ہے، جلد پر سیاہ دھبے بھی پڑ سکتے ہیں، معدے اور پیٹ میں انتہائی انفیکشن کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے، یہ کیمیکل ہماری فصلوں میں سرایت کرکے اسے بھی زہریلا بنا دیتے ہیں، اسی لیے کئی سائنس دانوں کا ماننا ہے کہ ماحولیات کے ساتھ اس طرح کا کھلواڑ خطرناک ثابت ہو سکتا ہے، اس عمل سے سمندر کی سطح آب اور اوزون پر بھی بُرا اثر پڑے گا۔اس کے بر عکس قدرتی بارش سے ایسا کوئی نقصان نہیں ہوتا، بلکہ تمام چرند پرنداور فصلوں کو اس سے فائدہ پہونچتا ہے، بے اختیار اللہ رب العزت کی یہ بات یاد آتی ہے، فبای آلاء ربکما تکذبان، رب کی کن کن نشانیوں کو جھٹلاؤ گے۔

اتوار, دسمبر 10, 2023

اپنوں کے ہاتھوں عورتوں کا قتل

اپنوں کے ہاتھوں عورتوں کا قتل
Urduduniyanews72 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑکھنڈ 

عورت کے اوپر ہونے والے نت نئے مظالم کے تذکرے عام یں، حمل کی حالت میں ان کا قتل، عام سی بات ہوگئی ہے ، سسرال میں افراد خاندان کی طرف سے ان کی ذہنی اذیت رسانی اور خادموں کی طرح ان سے کام لینے کے قصے بھی ڈھکے چھپے نہیں ہیں، تلک جہیز کے نام پر جوان کا قتل ہوتا ہے، وہ اس پر مستزاد 

 ابھی حال میں یو این ڈرگس اینڈ کرائم (UNODC) اور یو این ویمنس ایجنسی کی تحقیق کے مطابق گذشتہ دو دہائیوں میں خاندان کے افراد کے ہاتھوں اڑتالیس ہزار آٹھ سو (48800)عورتوں کو جان سے ہاتھ دھونا پڑا، ان میں سب سے بڑی تعداد افریقہ کی ہے۔ جہاں بیس ہزار عورتوں کو ان کے اپنے لوگوں نے مار دیا، 2022 میں اس تعداد میں خاصہ اضافہ ہوا ، تحقیق کے مطابق نواسی ہزار عورتیں اور لڑکیوں کا قتل ہوا، جس میں اڑتالیس ہزار آٹھ سو وہ عورتیں ہیں جو خاندان کی ستم رانی کا شکار ہو کر جاں بحق ہوئیں، یہ مجموعی طور پر قتل ہونے والی عورتوں کا پچپن 55 فیصد ہے، مارنے والوں میں بڑی تعداد خود ان کے شوہر کی ہے، مردوں کا قتل نسبتا کم ہوا، ان کی تعداد مجموعی واردات میں صرف بارہ فی صد ہے۔

یہ اعداد وشمار گذشتہ دو دہائی میں درج واقعات میں سب سے زائد ہیں، مجموعی طور پر پوری دنیا میں جنگ کو چھوڑ کر قتل کے واردات میں کمی آئی ہے، لیکن عورتوں کو قتل کرنے کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔

یہ بات اطمینان کی ہے کہ 2010 سے یورپین ممالک میں ایسے واقعات میں اکیس فیصد کی کمی درج کی گئی ہے،البتہ اتری امریکہ میں یہ تعداد 29 فی صد بڑھی ہے، کوربین میں بھی اس قسم کے جرائم میں آٹھ فی صد کا اضافہ ہوا ہے، اس معاملہ میں افریقی ممالک نے ایشیا کو یچھے چھوڑ دیا ہے، رپورٹ کے مطابق 2022 میں صرف افریقہ میں بیس ہزارعورتوں کا قتل ہوا ، جب کہ ایشیا میں یہ تعداد اٹھارہ ہزار چار سو رہی ۔

 ہندوستان کی بات کریں تو ہمارے پاس 2022 کے اعداد وشمار دستیاب نہیں ہیں، لیکن گذشتہ دہائی میں ایسے واقعات میں بہت کمی آئی ہے، فی صد میں اعداد وشمار کو دیکھیں تو ہر ایک لاکھ آبادی میں اپنوں کے ہاتھ ماری جانے والی عورتیں افریقی ممالک میں 2.8 ، ایشیائ میں 0.8، امریکہ میں 1.5، یورپ میں 0.6، اوثینیا میں 1.1 فی صد ہے۔

 غور طلب بات یہ ہے کہ جو ممالک آزادی نسواں کی بات کرتے ہیں، ان کے یہاں عورتوں کے قتل کے واقعات کثرت سے ہوتے ہیں، اسلام نے عورتوں کو جو خاندانی تحفظ فراہم کیا ہے، اس کی وجہ سے مسلمانوں کے درمیان اس قسم کے واقعات کم ہوتے ہیں، کاش دوسرے مذاہب بھی اسلامی تعلیمات کو اپنا لیں تو عورتوں پر اس قسم کے ظلم وستم کا سد باب ہو سکتا ہے۔

ہفتہ, دسمبر 09, 2023

حضرت امیر شریعت کے ہاتھوں مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی کی کتاب کا اجرا

حضرت امیر شریعت کے ہاتھوں مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی کی کتاب کا اجرا 
اردودنیانیوز۷۲
پٹنہ(پریس ریلیز) 9/ دسمبر.     امیر شریعت مفکر ملت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی صدر وفاق المدارس الاسلامیہ امارت شرعیہ اور جناب امتیاز احمد کریمی رکن بہار پبلک سروس کمیشن کے ہاتھوں مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی کی 54 ویں کتاب کا اجراء عمل میں آیا "تماشہ میرے آگے" نامی اس کتاب میں مفتی صاحب نے سیاسی اور سماجی حالات و مسائل پر پوری بالغ نظری سے تجزیہ و تبصرہ کر کے نتائج اخذ کیے ہیں، یہ کتاب سیاسی اور سماجی میدان میں خدمت انجام دینے والوں کے لیے اپنی تقریر کے مواد کے حصول میں انتہائی معاون ہے، اس اہم کتاب کا اجراء دارالملت رام پور سگھری بلبھدر پور کے اجلاس عام میں ہوا جو وفاق المدارس کے بین المدارس تربیتی اجتماع کے موقع سے منعقد کیا گیا تھا،اس کتاب کی تصنیف پر مولانا حسین احمد بالا ساتھ مولانا عبدالقوی سابق صدر مدرس دارالملت رامپور سگھری،مولانا نظام الدین اسامہ ندوی صدر مدرس دارالملت الامداد چیری ٹیبل ٹرسٹ کے بانی جناب صہیب احمد، جناب امتیاز کریمی،عبدالرحیم بڑھولیاوی،انوار الحسن وسطوی،عارف وسطوی ،مولانا محمدانوار اللہ فلک قاسمی صحافی رضوان احمد وغیرہ نے مبارک باد دی ہے، جلد ہی مفتی صاحب کی دو اور کتابوں کا اجرا عمل میں آگیا،اس کے قبل مفتی صاحب کی تصنیف "نئے مسائل کے شرعی احکام" کا عربی ایڈیشن کا اجراء نامور فقیہ اور صدرآل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کے ہاتھوں اسلامک فقہ اکیڈمی کے 32 ویں سیمینار منعقدہ پلاپٹی تامل ناڈو میں ہوا تھا، حضرت مفتی صاحب کے معتقدین، متوسلین اور محبین کرام نے عافیت کے ساتھ ان کے لیے درازی عمر کی دعا فرمائی تاکہ اپ کا قلم ایسے ہی رواں دواں رہے۔

انتظار کے سترہ دن

انتظار کے سترہ دن 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑکھنڈ 
اترکاشی سلکیاراٹرنل میں پھنسے لوگ اب باہر آگیے ہیں، اور پورے ہندوستان نے راحت کی سانس لی ہے، ہر دن یہ خبر آتی تھی کہ بس رات تک وہ باہر نکل آئیں گے اور پھر رات ہوجاتی تھی اور کامیابی کا سورج نکلے بغیر ہی غروب ہوجاتا تھا، ساری تکنیک استعمال کر لی گئی ، امریکن ہوجر بھی ناکام ہو گئی وہ سرنگ کے اندر کھدائی کرتے ہوئے ہی ٹوٹ گئی اور اس کی دھمک اس قدر تھی کہ مزید چٹان کے گرنے کا خطرہ پیدا ہو گیاتھا، ساری مشینیں اور اوزار ناکام ہو گیے تو ذمہ داروں کو کھدائی کی پرانی تکنیک جسے ریٹ ہول مائننگ(RAT HOLL MINING) کہا جاتا ہے کا خیال آیا یہ طریقہ کوئلے کی کان میں استعمال کیا جاتا ہے، چھینی اور ہتھوڑے کی مدد سے ایک آدمی کا ٹتا ہے ، دوسرا ملبہ اٹھا تا ہے، یہی طریقہ عمل میں لایا گیا تب جا کر کرب والم کے سترہ دن کا اختتام ہوا اور ملک نے راحت کی سانس لی اور اکتالیس مزدور بعافیت سرنگ سے نکال لیے گیے۔غنیمت یہ ہے کہ سترہ دن گذرنے اور پھنسے رہنے کے بعد بھی وہ مایوسی کے شکار نہیں ہوئے، اور  انہوں نےحوصلہ نہیں ہارا، ان میں سے بعضوں کی صحت بگڑنے کی پہلے خبر آئی تھی، لیکن اسے دبا دیا گیا تاکہ مزدور اور ان کے خاندان والے مایوسی کے شکار نہیں ہوجائیں ، جن حالات میں ان کی زندگی گذر رہی تھی ، اس میں آدمی ڈپریشن میں چلا جاتا ہے، مایوسی کا اس قدر غلبہ ہوتا ہے کہ کبھی جان کے لالے پڑ جاتے ہیں، ان حالات کے باوجود کام جنگی پیمانے پر کیا جا تارہا،کھداءی کے لیے جنہوں نے جان ہتھیلی پر لے کر کام کیا ان میں چار مسلمان  تھے۔منا قریشی  کی جانباز ی کاتذکرہ تو مڈیا والوں نے خوب کیااس مہم کے مقامی اور مرکزی ذمہ دار بھی مسلمان تھے،پی ایم او آفس نگرانی کرتی رہی، فوج کے سو جوان، آئی ٹی بی پی کے ایک سو پچاس ، این ڈی آر ایف کے پچاس ، ایس ڈی آئی ایف کے سوجوان، بیس سے زائد ہندوستانی اور دس غیر ملکی ماہرین اس کام میں لگے ہوئے تھے۔ 

اس حادثہ نے ملک کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے، ابھی پورے ملک میں انتیس (29) جگہوں پرسرنگوں کی کھدائی  کا کام ہو رہا ہے، نقل وحمل کی وزارت (سڑک اور پریوہن) نے ان تمام ٹرنل کے تحفظ کے جائزہ کا فیصلہ لیا ہے، اس نے کوکن ریلوے سے معاہدہ کیا ہے کہ سات دنوں میں اس کے حلقے میں بنائے جا رہے ٹرنل کی حفاظتی رپورٹ سامنے آجائے ، اس کام کی ذمہ داری نیشنل ہائی وے اتھارٹی آف انڈیا (NHAI)اور دہلی میٹرو کے ماہرین کو دی گئی ہے، یہ سات دنوں میں سبھی ٹرنل کا جائزہ لے کر نقل وحمل کی وزارت کو رپورٹ کریں گے۔ 

ان دنوں جن مقامات پر ٹرنل بنانے کا کام چل رہا ہے،وہ ہماچل پردیش میں 12،جموں کشمیر میں 6، اڈیشہ اور راجستھان میں دو ، دو، مدھیہ پردیش ، کرناٹک، چھتیس گڈھ، اترا کھنڈ اور دہلی میں ایک ایک  ہیں، ان سرنگوں کی مجموعی لمبائی کم وبیش اناسی (79)کلومیٹر ہے۔ 

آئندہ ٹرنل کی تعمیر میں کسی قسم کا کوئی حادثہ نہ ہو اس کے لیے ٹیکنیکل اورجغرافیائی صورت حال کا جائزہ لینا ضروری ہوگا، کیوں کہ اس قسم کے حادثات ٹکنیکل اور جغرافیائی مطالعہ کی کمی کے نتیجے میں ہی واقع ہوتے ہیں، کام کے شروع کرنے کے پہلے یہ جاننا ضروری ہےکہ یہاں زمین دھنسنے اور پہاڑ کے تودے کے گرنے کے کس قدر امکانات ہیں اس کے بعد ہی کام آگے بڑھا نا چاہیے، سرنگوں کی تعمیر سے پہلے ایک پائلٹ سرنگ  بھی تیار کرنا چاہیے اور معاون انتظامات مکمل ہونے چاہیے، تبھی اس قسم کے حادثات سے بچا جا سکے گا۔  حادثات تاریخ اور وقت بتا کر نہیں آتے اس لیے پہلے سے کیے گیے حفاظتی تدابیر کے ذریعہ ہی اس قسم کے حادثات سے بچا جا سکتا ہے۔

جمعرات, دسمبر 07, 2023

ڈاکٹر امام اعظم


ڈاکٹر امام اعظم
اردودنیانیوز۷۲
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑکھنڈ


شعر وادب تنقید وتحقیق اور صحافت کی معروف ، مشہور اور مقبول شخصیت ڈاکٹر امام اعظم نے اپنی خوابگاہ کولکاتہ میں 23؍ نومبر2023ء کو آخری سانس لی، رات کو نماز ، کھانے وغیرہ سے فارغ ہو کر دوستوں کی مجلس میں ساڑھے گیارہ بجے تک مشغول رہے او رپھر سوئے تو سوئے رہ گیے، کسی کو پتہ ہی نہیں چلا کہ روح کب پرواز کر گئی، صبح کو چہل قدمی کے ان کے جو رفقاء تھے، ان کو نہ پا کر دروازہ کھٹکھٹایا تو وہ ایسی جگہ جا چکے تھے، جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا، موبائل کان سے لگا ہوا تھا، جیسے انہوں نے آخری وقت میںا پنے حالات بتانے اور طبی امداد کے لیے کسی کو فون کرنا چاہا ہو، لیکن رابطہ نہ ہو سکا ہو، جوپوری زندگی دوسروں کی خدمت میں لگا رہا ، اللہ نے یہ گوارہ نہیں کیا کہ وہ آخری وقت میں دوسروں کا دستگیر اور احسان مند ہو، جنازہ کا فی تاخیر سے کل ہو کر ان کی مستقل قیام گاہ گنگوارہ بیلا موڑ دربھنگہ پہونچا ، جمعہ کی نماز کے بعد ان کے قائم کردہ مدرسہ البنات فاروقیہ کے صدر مدرس مولانا محمد مستقیم قاسمی نے جنازہ کی نماز پڑھائی، جنازہ اعلان شدہ وقت سے پہلے ادا کیے جانے کے باوجود مجمع اچھا خاصا تھا، علماء، صلحاء، شعراء، ادبا اور عام مسلمانوں کی اچھی خاصی تعداد موجود تھی، تدفین ان کے آبائی قبرستان گنگوارہ ہی میں ہوئی، جو ان کے نانا کے مکان کے جنوب میں واقع ہے۔حاضری میری بھی اسی دن ہوئی، لیکن تجہیز وتکفین کا مرحلہ گذر چکا تھا، میں نے ان کے صاحب زادگان ، بھائیوں اور متعلقین سے تعزیتی کلمات کہے، انہیں حوصلہ دلایا اور راضی برضا ئے الٰہی رہنے کی تلقین کی ، پس ماندگان میں ڈاکٹر زہرہ شمائل بنت سید منظر امام (م24؍اگست 2018) دو لڑکے ڈاکٹر نوا امام ، صحافی انجینئر فضا امام اور ڈاکٹر حیا فاطمہ کو چھوڑا۔

ڈاکٹر امام اعظم کا اصل نام سید اعجاز حسن تھا، مظہر امام اور منظر امام سے خاندانی تعلق اور مصاہرت تھی، انہوں نے اپنا قلمی نام امام اعظم منتخب کیا اوار ان کی ادبی خدمات کی وجہ سے یہ نام اس قدر مقبول اور زبان زد عام وخاص ہوا کہ اصل نام پر دۂ خفا میں چلا گیا، ان کی ولادت 20؍ جولائی1960کو محلہ گنگوارہ دربھنگہ میں محمد ظفر المنان ظفر فاروقی عرف گیندا (م24؍اگست 2010،مطابق 13؍ رمضان المبارک 1431ھ ) بن مولوی نہال الدین (م1990) بن مولوی محمد جمال الدین بن مولوی اکبر علی (ساکن موضع بھیرو پور موجودہ ضلع ویشالی )اور بی بی مظہر النساء ، بیگم نرگس (م 4؍ مئی1970) کے گھر ہوئی، جہاں ان کے والد اپنے سسر محمد امیر السلام عرف مجھلے بابو (م ۲۱؍ جنوری ۱۹۷۷ء) کی ایما سے 1965میں موضع مدھے پور دربھنگہ سے نقل مکانی کرے آبسے تھے اور اپنا مسکن ’’کاشانہ فاروقی‘‘ کے نام سے تعمیر کرلیا تھا، گنگوارہ میں ظفر فاروقی نے ایک بیگہ زمین خرید کی تھی، کاشانہ فاروقی اسی کے ایک حصہ پر موجود ہے، ڈاکٹر امام اعظم نے متھلا محل کمپلکس محلہ گنگوارہ ، ڈاکخانہ سارا موہن پور ضلع دربھنگہ میں ’’ادبستان‘‘ کے نام سے اپنا مکان تعمیر کرایا اور والدین کی یاد میں اپنا ہی ایک شعر کندہ کراکے لگوایا وہ یہ ہے۔

خدا کی امانت ہم اس کے مکیں ہے گینداؔ ونرگس ؔکا باغ حسین

 ڈاکٹر امام اعظم ہر دم رواں پیہم جوان رہنے والی شخصیت تھی،ا نہوں نے تعلیمی اور صحافتی میدان میں بیش بہا خدمات انجام دیں، ان کی ’’ادارت ‘‘ میں نکلنے والے رسالہ’’تمثیل نو‘‘ کی ملک وبیرون ملک میں ایک شناخت تھی، اور اہل علم وقلم میں پذیرائی بھی۔2001 سے مسلسل اتنے علمی، معیاری، ادبی اور ضخیم شماروں کا نکالنا آسان نہیں تھا ، وہ نکالتے بھی تھے اور اہل تعلق تک بڑی محبت سے پہونچاتے بھی تھے،انہوں نے کم وبیش تیس معیاری ادبی کتابیں شاعری، ادب، تنقید وتحقیق ، مونوگراف، شجرے وغیرہ کی شکل میں علمی دنیا کو دیے، ان میں ان کے دوشعری مجموعے نیلم کی آواز، اور قربتوں کی دھوپ بھی شامل ہے، انہوں نے ’’نصف ملاقات‘‘ کے نام سے مشاہیر ادب کے خطوط مظہر امام کے نام مرتب کیا، ان کے نام آئے ہوئے خطوط کو شاہد اقبال نے چٹھی آئی ہے کے نام سے مرتب کیا جو شائع ہو کر مقبول ہوا، ان کی مرتب کردہ کتابوں میں اقبال انصاری فکشن کا سنگ میل، مولانا عبدا لعلیم آسی۔ تعارف اور کلام ، عہد اسلامیہ میں دربھنگہ اور دوسرے مضامین، ہندوستانی فلمیں اور اردو (ادبی جائزے) فاطمی کمیٹی رپورٹ۔ تجزیاتی مطالعہ، نامۂ نظیر، اکیسوی صدی میں ، اردو صحافت، مظہر امام ، نقوش علی نگر: تبصرے ا ورتجزیے، سہرے کی ادبی معنویت، پہلی جنگ آزادی میں اردو زبان کا کردارسے ان کا ادبی اسلوب، مطالعہ کی گہرائی، تجزیوں کی گہرائی، تاریخ وتنقید پر مضبوط گرفت کا پتہ چلتا ہے، ان کا قلم ادب وتنقید ، تاریخ وتحقیق کے حوالہ سے انتہائی رواں تھا اور انہوں نے پوری زندگی اپنی اس صلاحیت سے خوب خوب کام لیا، ان کی خدمات کی پذیرائی بھی ان کی زندگی میں خوب ہوئی، چنانچہ نو کتابیں ان کی شخصیت اور خدمات پر ان کے حوالہ سے مختلف اہل قلم نے تصنیف کیں، جن میں ڈاکٹر امام اعظم: اجمالی جائزہ، دربھنگہ کا ادبی منظر نامہ، ڈاکٹر امام کی ادبی وصحافتی خدمات کے حوالہ سے ، ڈاکٹر امام اعظم کی باز آفرینی ، جہان ادب کے سیاح اور ڈاکٹر امام اعظم کی ادبی جہتیں خاص طور سے قابل ذکر ہیں، ان کے مجموعۂ کلام قربتوں کی دھوپ کا انگریزی ترجمہ سید محمود احمد کریمی نے کیا، مختصر میں کوئی بات کہی جا سکتی ہے تو وہ یہ کہ مناظر عاشق ہرگانوی کے گذر جانے کے بعد وہ تنہا ایسے ادیب تھے جو تمام اصناف کے ساتھ تحقیق وتاریخ پر بھی سنی سنائی نہیں ، گہری اور شعوری نظر رکھتے تھے۔

 میرے تعلقات ان سے انتہائی قدیم تھے، پہلے فون سے رابطہ رہا، اس کے بعد بالمشافہ ملاقات کی نوبت آئی، وہ مجھ سے بے پناہ محبت کرتے تھے، اور میں ہی کیا ان کے اخلاق وعادات ، تواضع وانکساری اور تعلقات نبھانے کی غیر معمولی صلاحیت کی وجہ سے ہر آدمی یہی سوچتا تھا کہ وہ ان سے زیادہ قریب ہے، جن دنوں وہ دربھنگہ ’’مانو‘‘ میں ریجنل ڈائرکٹر تھے اور وہ اس کی توسیع کے لیے کوشاں تھے، خیال آیا کہ کیوں نہ ’’مانو‘‘ کا ایک سنٹر حاجی پور ویشالی میں بھی قائم ہو ،مولانا قمر عالم ندوی اس کام کے لیے آمادہ ہوئے، میں نے ان کی آمادگی دیکھ کر ایک خط اس سلسلے کا دربھنگہ ان کے نام لکھا کہ وہ مولانا قمر عالم ندوی پر اس کام کے لیے اعتماد کر سکتے ہیں اور اگر ایک سنٹر یہاں کھل گیا تو مجھے خوشی ہوگی، انہوں نے فی الفور اس کی منظوری دیدی، مولانا قمر عالم ندوی کی محنت سے جب تک وہ دربھنگہ میں رہے،یہ مرکز دکھ رام سکھ رام کالج حاجی پور میں چلتا رہا،ا فسوس کہ ان کے جانے کے بعد یہ سلسلہ قائم نہ رہ سکا، انتقال کے وقت وہ کولکاتہ ریجنل سنٹر کے ڈائرکٹر تھے اور بہت اچھا کام کر رہے تھے، جب بھی کولکاتا جانا ہوتا ان کے یہاں حاضری ہوتی، ضیافت کرتے، محبت سے اپنی کتاب دیتے اور اس وقت کا عکس تمثیل نو میں محفوظ کر دیتے، یہ ان کی محبت کی ہی بات تھی کہ انہوں نے ڈاکٹر نوا امام کی نکاح خوانی کے لیے بحیثیت قاضی مجھے منتخب کیا تھا او رمیرے ہی ذریعہ یہ کام انجام پایا۔

 جب بھی ان کی کوئی نئی کتاب یا تمثیل نو کا شمارہ آتا تو وہ پہلے بذریعہ ڈاک مشہور ادیب اور اردو کے حوالہ سے انتہائی فعال شخصیت انوار الحسن وسطوی کے پاس میرے نام کی کاپی بھی ارسال کر تے اور وہ کسی نہ کسی ذریعہ سے مجھ تک پہونچ جاتی، لیکن جب ان کے صاحب زادہ ڈاکٹر نوا امام کی شادی محمد ابو رضوان صاحب ساکن لال پھاٹک جمال الدین چک کھگول کی لڑکی ڈاکٹر بینش فاطمہ سے ہوئی تووہ یہ کام اپنے سمدھی سے لینے لگے اور ان کے سمدھی ابو رضوان پابندی سے سعادت سمجھ کر یہ کام انجام دیتے، ڈاکٹر امام اعظم کی محبت ہی کی بات تھی کہ جہاں کہیں میرا نام داخل نہیں ہو سکتا تھا وہاں بھی وہ میرے داخلے کی شکل نکال لیتے تھے، انہوں نے اپنی کتاب ’’نگارخانہ کولکاتہ‘‘ میں ویشالی کے اس فقیر کو شامل کرنے کے لیے واردین کے حوالہ سے جگہ نکالی اور میرے اوپر اشعار کہے، جو اس کتاب میں شامل ہے
ڈاکٹر ایم صلاح الدین نے جب گنگوارہ ادب وتہذیب اور علم ورفان کا مرکز کے عنوان سے جو مضمون لکھا، اس میں گنگوارہ آنے والوں میں میرا بھی نام درج کرایا، عبد الرحیم بن ڈاکٹر مولوی انور حسین برھولیاوی جب میرے اوپر مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی شعراء کی نظر میں،کتاب تالیف کی تو انہوں نے میرے اوپر بحر وبر کی گہرائی کے عنوان سے طویل نظم لکی جو اس کتاب کے صفحہ 53 سے 56 تک شائع شدہ ہے۔ نگار خانہ کولکاتہ طبع ہو کر آئی تو اس میں کولکاتہ کی مذہبی شخصیات کا تذکرہ نہیں تھا، خصوصا مولانا ابو سلمہ شفیع کا، میں نے ایک طویل خط انہیں لکھا اور بتایا کہ جو مولانا ابو سلمہ شفیع، حکیم محمد زماں حسینی، ابو کریم معصومی وغیرہ ان لوگوں میں تھے جنہوں نے طویل کیونسٹ حکومت میں مذہبی اقدار اور دینی علوم کی پاسداری کی اس لیے ان حضرات کی شمولیت کے بغیر یہ نگار خانہ مکمل نہیں ہے، انہوں نے اس خط کو تمثیل نو میں شائع کیا اور بعد میں یہ چھٹی آئی ہے میں بھی شامل ہوا، انہوں نے کئی مضامین تمثیل نو میں شائع کئے، تازہ شمارہ تمثیل نو کا جو وہ پریس کو دے کر رخصت ہوئے اس میں انہوں نے میرے دو مضامین شائع کیے۔

ڈاکٹر صاحب کی دلچسپی کا دوسرا بڑا میدان تعلیمی تھا، اوپر لکھا جا چکا ہے کہ وہ مولانا آزاد یشنل یونیورسٹی کے کولکاتہ ریجنل آفس کے ڈائرکٹر تھے، اس کے علاوہ انہوں نے 2010 میں الفاروق ایجوکیشنل اینڈ ویلفیر ٹرسٹ گنگوارہ میں قائم کیا تھا، جس کے تحت وہ مدرسۃ البنات فاروقیہ، فاروقی آئی ٹی آئی، فاروقی اورنٹیل لائبریری، مولانا مظہر الحق عربی فارسی یونیورسٹی کا نالج ریسورس سنٹر 225 چلا کرتا ہے، اللہ کرے یہ سلسلہ آگے بھی جاری رہ سکے۔

 میری آخری ملاقات اکتوبر کے اواخر میں ان سے ان کے دفتر 1اے/ 1 چھاتو بابو لین (محسن ہال) کولکاتا میں ہوئی تھی، استقبال کے لیے دفتر سے نیچے اترے، واپسی میں پھر گاڑی پر چھوڑنے آئے، علمی ادبی مسائل پر دیر تک گفتگو رہی، کئی پروجکٹ پر کام کے لیے تبادلہ خیال ہوا، یہ آخری موقع تھا ان سے تبادلہ خیال کا اللہ رب العزت ان کی مغفرت اور پس ماندگان کو صبر جمیل دے، اب یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ ’’کہیں سے آب بقاء دوام لا ساقی‘‘ بقاء دوام تو صرف اللہ کو حاصل ہے، بندوں کو تو ایک نہ ایک دن جانا ہی ہوتا ہے، البتہ اس شعر کا پہلا مصرعہ حسب حال ہے۔ 

جو بادہ کش تھے اٹھتے جاتے ہیں

جھوٹوں پر اللہ کی لعنت

جھوٹوں پر اللہ کی لعنت
Urduduniyanews72
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑکھنڈ

بدگمانی، طعن وتشنیع، چغل خوری کی طرح جھوٹ بولنا بھی ان دنوں عام ہے اور اسے گناہ ہونے کا خیال لوگوں کے دلوں سے نکل گیا ہے، لوگ کثرت سے جھوٹ بولتے ہی نہیں، جھوٹ لکھتے بھی ہیں اور جھوٹی گواہی بھی دیا کرتے ہیں، ایسا کرتے وقت وہ بھول جاتے ہیں کہ جھوٹوں پر اللہ کی لعنت قرآن واحادیث میں مذکور ہے اور جس بات کو اللہ کے رسول کہہ دیں اس سے سچی بات اور کس کی ہو سکتی ہے۔ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے۔ فَنَجْعَلْ لَعْنَۃَ اللّٰہِ عَلی الکَاذِبِیْنَ۔ اللہ کی لعنت کریں ان پر جو جھوٹے ہیں، (سورۃ آل عمران: ۶۱) ایک دوسری جگہ ارشاد ہے: اِنَّ اللّٰہَ لَا یَھْدِیْ مَنْ ھُوَ مُسْرِفٌ کَذَّابٌ (سورۃ مؤمن: 28)
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جھوٹ سے بچتے رہو، اس لیے کہ جھوٹ فسق وفجور اور جہنم کی طرف لے جانے والی چیز ہے، آدمی جھوٹ بولتا ہے، جھوٹ کی تلاش میں رہتا ہے بالآخر اللہ رب العزت کے یہاں اس کا نام جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے، جھوٹ کی شناعت بیان کرتے ہوئے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ آدمی کے جھوٹ بولنے کی بد بو کی وجہ سے رحمت کے فرشتے اس سے ایک میل دور چلے جاتے ہیں، ایک حدیث میں منافق کی تین علامتوں میں سے ایک جھوٹ کو قرار دیا گیا اور تینوں علامتوں کے ذکر میں سر فہرست اسے رکھا گیا، فرمایا: اذا حدث کذب۔ اور دوسری حدیث میں منافق کی چار علامتیں بیان کی گئیں، اس میں دوسرے نمبر پر اس جملہ کو رکھا گیا، اس سے جھوٹ کی شناعت کا پتہ چلتا ہے، مسند احمد اور بیہقی کی ایک روایت میں مذکور ہے کہ جھوٹ ایمان کی ضد ہے اور مؤمن جھوٹی خصلت کے ساتھ پیدا نہیں ہوتا، مسند احمد ہی میں ہے کہ ایک دل میں سچ اور جھوٹ دونوں جمع نہیں ہو سکتے۔
 ان دنوں سماج میں مختلف قسم کے جھوٹ رائج ہیں، جھوٹ بولنا تو عام سی بات ہے، جھوٹ لکھنا بھی اسی میں شامل ہے، دفتر کا وقت جو مقرر ہے، وقت پر نہ آکر آمد میں اس وقت کا اندراج کرنا، یا رفت کا جو وقت مقرر ہے اس سے پہلے جا کر وقت کے کالم میں دفتر کا آخری وقت بھرنا، یہ جھوٹ لکھنا ہے، اسی طرح تعلیمی اداروں کے ذمہ داران کسی کے بارے میں جانتے ہوں کہ اس کے اخلاق وعادات ٹھیک نہیں ہیں، مگر کیرکٹر سرٹیفیکٹ میں اس کے بر عکس لکھنا تحریری جھوٹی گواہی دینے کے زمرے میں آتا ہے۔جھوٹی سفارش کرنا، قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے  وَاجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِکہہ کر جھوٹی باتوں سے بچنے کو کہا ہے، تجارت میں عیب دار سامان کو درست اور نقلی کو اصلی کہہ کر فروخت کرنا جھوٹ کی ایسی قسم ہے، جس میں جھوٹ کے ساتھ فریب اور دھوکہ بھی پایا جاتا ہے۔
ارشاد فرمایا کہ بد گمانی سے بچو، کیوں کہ کسی کے خلاف بد گمانی سب سے بڑا جھوٹ ہے، جھوٹ کی ایک قسم  یہ بھی ہمارے یہاں رائج ہے کہ گھر سے نکلتے وقت بچے نے دامن پکڑااور کہا کہ ابا! ٹافی لیتے آئیے گا، آتے وقت ہم نہیں لائے تو یہ جھوٹے وعدہ جیسا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ اس قسم کے معاملات سے  بچیں جس میں جھوٹ کا شائبہ بھی ہو، حضرت عبد اللہ بن عامر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ ان کی والدہ نے انہیں اپنے پاس بلایا کہ وہ کچھ انہیں دیں گی، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کہ تمہارا کیا دینے کا ارادہ تھا، ان کی والدہ نے کہا کہ کھجور دینے کا ارادہ تھا، فرمایا: اگر تم اسے کھجور نہ دیتی تو تمہارے نامہئ اعمال میں ایک جھوٹ لکھا جاتا۔
کسی بات کو حقیقت کے خلاف کہنا یا لکھنا جھوٹ کہلاتا ہے، جھوٹ کبھی تو دفع مضرت کے لیے بولا جاتا ہے اور کبھی جلب منفعت یعنی نفع کے حصول کے لیے، آج کل خوشامد کرنے والے اپنے آقا کو خوش کرنے کے لیے خلاف واقعہ جو باتیں ذکر کرتے ہیں وہ بھی جھوٹ کی اعلیٰ قسم ہے، جو نفع کے حصول کے لیے بولا جاتا ہے، بزرگوں کے بارے میں ایسی کرامات کا بیان جو کبھی ظہور پذیر نہیں ہوئے اور اسے لوگوں میں عقیدت پیدا کرنے کے لیے مریدوں نے پھیلا دیے، یہ بھی جھوٹ ہے، جس کو آج کل لوگ جھوٹ سمجھتے ہی نہیں، جھوٹ بولنا کسی بھی طرح مسلمانوں کے شایان شان نہیں ہے، اس سے خود اس شخص کا وقار تو گرتا ہی ہے، پوری ملت کے بارے میں بد گمانی پیدا ہوتی ہے، جھوٹ لکھنے کی ایک قسم ”حسابات کی تصنیف“ ہے، ٹی اے، ڈی اے اور سفر خرچ کے نام پر غلط اندراج کرنا اسی قبیل کی چیز ہے، بعض دفعہ حسابات کی یہ تصنیف اس قدر مضحکہ خیز ہوتی ہے کہ اس کا جھوٹ روشن دن کی طرح عیاں ہوتا ہے، لیکن جھوٹ لکھنے والے کو  توتصنیف کرنی ہے اور سفر خرچ کے نام پر زیادہ سے زیادہ روپے وصولنے ہیں اس لیے عقل بھی ماری جاتی ہے اور جھوٹ لکھنے کا وبال الگ ہوتا ہے، اسے کہتے ہیں دنیا کے متاع قلیل کے حصول کے لیے آخرت تباہ کرنا۔
 جھوٹ کی یہ شناعت اس وقت اور بڑھ جاتی ہے جب جھوٹا شخص صاحب اقتدار بھی ہو، ایسے شخص کی پہلی سزا تو یہ ہے کہ وہ اللہ کے نظر کرم سے محروم ہوگا، باری تعالیٰ نہ تو اس سے بات کریں گے اور نہ ہی اس کو معاف کریں گے،ا س صورت حال کا لازمی نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ اسے جنت میں داخل ہونے سے روک دیا جائے، مسند بزار کی ایک روایت ترغیب وترہیب میں یہ بھی منقول ہے کہ تین شخص جنت میں نہیں جا سکتے،بوڑھا، زنا کار، جھوٹا بادشاہ اور متکبر فقیر۔
 جھوٹ بولنے کی ایک قسم یہ بھی ہے کہ ہنسنے ہنسانے کے لیے جھوٹ بولا جائے، ایسے شخص کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تباہی اور بر بادی کی دعا کی ہے یہ روایت ابو داؤد اور ترمذی شریف دونوں میں مذکور ہے کہ جو شخص ہنسنے، ہنسانے کے لیے جھوٹ بولے اس کے لیے بر بادی ہے، حدیث میں ”ویل“ کا لفظ آتا ہے، جو جہنم کے طبقوں میں سے ایک طبقہ بھی ہے۔
 جھوٹ بولنے کو حدیث میں خیانت سے تعبیر کیا گیا ہے اور خیانت بھی بڑی خیانت، کیوں کہ سامنے والا اس کی بات کو سچ مان رہا ہے، حالاں کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے،ہمیں اچھی طرح یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ جھوٹ ہلاک اور برباد کرنے والی چیز ہے، نجات صدق ہی میں ہے، فرمایا گیا: ”الصِّدْقُ یُنْجِیْ وَالکِّذْبُ یُھْلِکْ“ سچ سے نجات ملتی ہے اور جھوٹ سے آدمی ہلاک ہوجاتا ہے، بچپن میں ہم لوگوں نے ایک کہانی پڑھی تھی کہ ایک چرواہا روز آواز لگاتا تھا کہ بھیڑیا آیا، بھیڑیا آیا، کئی روز تک لوگ اس کی آواز پر لوگ دوڑتے رہے اور اس کے جھوٹی آواز لگانے سے پریشان ہوکر لوٹتے رہے، عاجز آکر لوگوں نے اس کے شور کرنے کو جھوٹا سمجھ کر مدد کے لئے آنا چھوڑ دیا، ایک دن واقعتا بھیڑیا آگیا، اس نے بہت آواز لگائی، کوئی نہیں آیا، بالآخر بھیڑیے نے اپنا کام کرلیا اور اس کو ہلاک کرڈالا، اس کہانی کو پڑھا کر استاذ بتاتے تھے کہ اس سے سبق ملتا ہے کہ جھوٹ بولنے سے لوگوں کا اعتماد ختم ہوجاتا ہے اور بے اعتمادی انسان کو ہلاکت کے دہانے تک پہونچا دیتی ہے۔
 یہاں پر وہ مشہور روایت بھی ذہن نشیں رہنی چاہئے کہ ایک صاحب جو بہت سارے گناہ میں ملوث تھے، اپنے گناہوں کا اقرار آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کیا اور یہ بھی عرض کیا کہ ایک ہی گناہ کو میں چھوڑ سکتا ہوں، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے جھوٹ چھوڑنے کا حکم دیا، وہ اس پر عامل ہوگیا اور اسلام بھی لے آیا تو سارے گناہ دھیرے دھیرے اس کیچھوٹ گئے کہ جھوٹ نہ بولنے کا وعدہ کرلیا تھا اور سچ بولنے کی شکل میں داروگیر کا خطرہ منڈلا رہا تھا۔
جھوٹ بولنے کا بڑا نقصان یہ ہے کہ جب انسان مسلسل جھوٹ بولتا ہے تو اس کے دل پر سیاہ دھبہ پڑ جاتا ہے پھر تسلسل کی وجہ سے یہ دھبہ بڑھتا رہتا ہے تاآنکہ اس کا قلب توے کی طرح سیاہ ہوجاتا ہے اور اس مرحلہ میں داخل ہوجاتا ہے کہ جب اس کے دل، آنکھ اور کان پر مہر لگ جاتی ہے اور وہ خیر قبول کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوجاتا ہے، البتہ اگر اس نے پہلے مرحلہ میں ہی توبہ کرلیا تو وہ دھبہ مٹ جاتا ہے اور خیر کی طرف رغبت کا احساس باقی رہتا ہے، اللہ ہم سب کو اس سے محفوظ رکھے۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...