Powered By Blogger

جمعرات, فروری 08, 2024

" کاروان ادب"

معروف شاعر فرد الحسن فرد اور اردو دوست شخصیت سید شکیل حسن ایڈوکیٹ کا انتقال سرزمین عظیم آباد کا ناقابل تلافی نقصان :
 " کاروان ادب" 
اردودنیانیوز۷۲ 
_______________________________________
حاجی پور(. نمائندہ ) اردو کے معروف شاعر و ادیب فرد الحسن فرد اور اردو دوست شخصیت سید شکیل حسن ایڈوکیٹ کے انتقال پر "کاروان ادب" ،حاجی پور کے صدر مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی اور جنرل سکریٹری ٹری انوار الحسن وسطوی نے اپنے گہرے صدمے کا اظہار کرتے ہوئے اپنے مشترکہ تعزیتی بیان میں کہا ہے کہ جناب فرد الحسن ایک اچھے شاعر، بہترین نثر نگار، ایک خوش اخلاق اور ملنسار انسان تھے-  وہ پٹنہ کے مشہور "ارم پبلکیشن" دریا پور کے مالک تھے-  انہوں نے ادبا و شعرا کی تقریبا 400 کتابیں شائع کی تھیں-  اردو ان کا اوڑھنا بچھونا تھا - لہذا ہمارے درمیان سے اچانک ان کا اٹھ جانا اردو شعر و ادب کا ایک نا قابل تلافی نقصان ہے- " کاروان ادب" کے صدر اور جنرل سکریٹری نے سید شکیل حسن ایڈوکیٹ کے تعلق سے اپنے تعزیتی بیان میں کہا ہے کہ موصوف گرچہ ادیب و شاعر نہیں تھے، لیکن وہ کافی پڑھے لکھے اور ایک دانشور تھے-  وہ اردو نواز اور ادب نواز شخصیت تھے-  اپنے سینے میں ملت کا بے پناہ درد رکھتے تھے-  وہ ادبی اور مذہبی جلسوں میں پابندی سے شرکت کرتے تھے-  بڑی بڑی ادبی و مذہبی شخصیتوں سے ان کے مراسم تھے - وہ بالخصوص محبان اردو کے درمیان بہت مقبول تھے-  انہیں لوگ عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے-  وہ بذریعہ فون اپنے چاہنے والوں سے مربوط رہتے تھے - کسی کی تحریر اخبار یا رسالے میں شائع دیکھتے تو اسے شاباشی دیتے اور اپنے تاثرات سے نوازتے- تعزیتی بیان میں کہا گیا ہے کہ فرد الحسن فرد اور سید شکیل حسن ایڈوکیٹ ایسی متحرک، فعال اور باغ و بہار طبیعت کے انسانوں کا اٹھ جانا واقعی باعثِ ملال ہے-  دعا ہے کہ اللہ تعالی مرحومین کی لرزشوں کو درگزر فرما کر انہیں جنت میں اعلی مقام عطا فرمائے - "کار وان ادب" کے نائب صدر ڈاکٹر بدر محمدی، سکریٹریز سید مصباح الدین احمد مولانا قمر عالم ندوی کے علاوہ محمد عظیم الدین انصاری، ماسٹر محمد فدا الہدی، ڈاکٹر عارف حسن وسطوی، مولانا نظر الہدی قاسمی،عبدالرحیم برہولیاوی ، قمر اعظم صدیقی اور مظہر وسطوی، اردو کونسل، ویشالی کے صدر نسیم الدین احمد صدیقی ایڈوکیٹ، نائب صدر نصر امام اور ڈاکٹر تابش عبید اللہ خاں وغیرہ حضرات نے بھی جناب فرد الحسن فرد اور سید شکیل حسن ایڈوکیٹ کے انتقال پر اپنے گہرے ملال کا اظہار کیا ہے اور اللہ رب العزت سے ان کی مغفرت کی دعا کی ہے-

تحقیق کی زبان دھوپ کی طرح روشن ہونی چاہیے- شہاب ظفر اعظمی

تحقیق کی زبان دھوپ کی طرح روشن ہونی چاہیے- شہاب ظفر اعظمی
اردودنیانیوز۷۲ 
پٹنہ ۔ 7 فروری ۔
تحقیق کسی چیز کو اس کی اصل شکل میں دیکھنے کا نام ہے -حقائق کی بازیافت میں  رائے تاویل اور قیاس کی کوئی جگہ نہیں ہے- تحقیق کے لیے استدلال ٬مسلسل عمل٬ غیر جانبداری ٬محنت شاقہ٬حافظہ اور زبان پر گرفت ضروری عناصر ہیں ۔ان خیالات کا اظہار ڈاکٹر شہاب ظفر عظمی نے شعبہ اردو کی ایک تقریب میں کیا۔ انہوں نے اردو تحقیق اصول اور مبادیات کے عنوان سےتحقیق کے اصولوں پر مثالوں کے ساتھ مدلل گفتگو کی۔ انہوں نے طلبہ کو تحقیق کے دوران جذباتیت روایت پرستی گنجلک زبان اور تن آسانی سے بچنے کی تلقین کی۔
 واضح ہو کہ آج شعبہ اردو پٹنہ یونیورسٹی کے زیر اہتمام پی ایچ ڈی کورس ورک کے تحت شعبے میں ایک افتتاحی اجلاس کا انعقاد کیا گیا۔ موضوع تھا "اردو تحقیق اصول اور مبادیات ''۔ اس موضوع پر اپنی قیمتی و تجرباتی باتیں پیش کرنے کے لیے دو خاص مہمانان پروفیسر جاوید حیات اور ڈاکٹر قاسم خورشید کی موجودگی شعبے کے طلبہ و طالبات کے لیے پرمسرت اور حوصلہ افزا تھی ۔
 شعبہ اردو پٹنہ یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کورس کے اس افتتاحی اجلاس کی صدارت ڈاکٹر سورج دیو سنگھ نے کی جبکہ کلیدی خطبہ ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی نے پیش کیا ۔دو خاص مہمانوں میں پروفیسر جاوید حیات اور ڈاکٹر قاسم خورشید نے تحقیق کے امور اور اصول پر تکنیکی گفتگو پیش کرتے ہوئے طلبہ کو اس کے اہم نکات کی طرف متوجہ کیا۔ ڈاکٹر قاسم خورشید نے تحقیق کی سمت و رفتار پر واضح طور سے باتیں کیں جن میں ہر مواد کو اہم قرار دیتے ہوئے اس کی اصل تک رسائی کرنا ضروری بتایا۔ اس کے لیے انہوں نے بسمل عظیم آبادی  اور رام پرشاد بسمل سے منسوب ایک غزل کی مثال دیتے ہوئے بہت اچھی تقریر پیش کی ۔پروفیسر جاوید حیات نے تحقیق کی مبادیات کے حوالے سے دستی نمونوں کی قدرو قیمت کو ضروری جاننے کی تلقین کی اور تحقیق کے طریقہ کار میں ترتیب کو ناگزیر بتایا ۔انہوں نے غالب کے کئی اشعار کو حوالے کے طور پر پیش کیا۔ صدارتی خطبے میں پروفیسر سورج دیو سنگھ نے اس پروگرام کی غرض و غایت بیان کی اور طلبہ کو پابندی وقت٬دل جمعی اور ڈسپلن کی خوبیاں بتاتے ہوئے تحقیق کی سنجیدگی کی جانب متوجہ کیا ۔شعبے کے استاد ڈاکٹر محمد ضمیر رضا نے بحسن وخوبی اس پروگرام کی نظامت کی جبکہ شکریہ کے فرائض ڈاکٹر عشرت صبوحی نے ادا کیے۔  تقریب کا آغاز ڈاکٹر عارف حسین کی نعت خوانی سے ہوا تھا ۔تقریب میں شعبے کے طلبہ و طالبات کے علاوہ دیگر کالج کے طلبہ اور ریسرچ اسکالرز بھی کثیر تعداد میں شریک ہوئے۔

بدھ, فروری 07, 2024

اکبر رضا جمشید __کثیر الجہت شخصیت

اکبر رضا جمشید  __کثیر الجہت شخصیت
Urduduniyanews72 
 ✍️ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ

سید اکبر رضا نقوی (ولادت 5؍ جولائی 1944ئ) قلمی نام اکبر رضا جمشید بن سید علی جواد وسکینہ خاتون بی اے، بی ایل، سبکدوش ڈسٹرکٹ جج ساکن افضل پور، پچھم گلی نزد مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ ، پٹنہ کا شمار بہار کے انگلیوں پر گنے جانے والے محبتیں اردو میں ہوتا ہے ، وہ بغیر کسی تنظیم اور فرد کے تعاون کے اردو کی خدمت کرنے والے کو ہر سال ’’اکبر رضا جمشید ایوارڈ ‘‘سے نوازتے ہیں، اردو کے نام پر تقریبات کا انعقاد کرتے ہیں، اور سارا صرفہ اپنی جیب خاص سے کرتے ہیں، اب تک 2013ء سے وہ ترسٹھ (63)لوگوں کو ایوارڈ دے چکے ہیں، جن میں بقول ثوبان فاروقی بابائے اردو ویشالی انوار الحسن وسطوی ان کے صاحب زادہ عارف حسن وسطوی اور دوسرے نامور شعراء ادباء شامل ہیں، ان میں علیم اللہ حالی ، شوکت حیات، عطا عابدی ، اشرف استھانوی مرحوم، کامران غنی صبا ، انوار الہدیٰ ، ڈاکٹر ظفر انصاری ظفر ، حسن نواب حسن کے اسماء گرامی شامل ہیں، افسوس کی بات یہ ہے کہ اردو کی اصل خدمت مدارس کے علماء کرتے ہیں، اور اردو اصلاً وہیں زندہ ہے، اکبر رضا جمشید کے انصاف کی عدالت میں کوئی مولوی اب تک ایوارڈ کا مستحق نہیں قرار پایا یا تو جج صاحب نے اس حقیقت سے اپنی آنکھیں موند لی ہیں، یا ان کے مشیر انہیں اپنے ہی گرد الجھائے رکھنا چاہتے ہیں، حقیقت جو بھی ہو دیو مالائی روایت میں انصاف کی دیوی کی آنکھیں کالی پٹی سے بندھی ہوتی ہیں، بغیر دیکھے بھی مولانا ابو الکلام قاسمی شمسی کو ایک پلڑا میں ڈال دیا جائے تو دوسری طرف کے پلڑے میں رکھے کئی’’ بٹکھرے‘‘ پر وہ تنہا بھاری پڑیں گے ، رونا صرف اسی کا نہیں ہے، اس کا بھی ہے کہ اردو کے حقیقی خادموں کی ہر سطح پر ان دیکھی ہو رہی ہے، کیا سرکاری اور کیا غیر سرکاری ۔
 زیر مطالعہ کتاب انہیں اکبر رضا جمشیدسے انٹر ویو اور مصاحبہ پر مشتمل ہے، جسے ڈاکٹر عطاء اللہ خان، عرفی نام علوی اور ادبی نام ڈاکٹر اے کے علوی (ولادت 23؍ ستمبر 1955ئ) صدر جمہوریہ ایوارڈ یافتہ ابن ڈاکٹر اٰل حسن خان مرحوم نے مرتب کرکے ادارہ فکر ونظر ، صمد منزل ، کرن سرائے، سہسرام کے زیر اہتمام ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس نئی دہلی سے شائع کرایا ہے ، ایک سو چار صفحہ کی قیمت دوسو روپے جج صاحب کی آمدنی کے اعتبار سے تو زائد نہیں ہے، لیکن یہ قیمت اردو کے عام قاری کے لیے خرید تے وقت بوجھ ثابت ہوگا، آپ کہہ سکتے ہیں کہ خرید تاکون ہے، اب تو اہل علم تک پہونچانا بھی مصنف ہی کی ذمہ داری ہوتی ہے، جس کا تذکرہ خود اکبر رضا جمشید نے ایک سوال کے جواب میں کیاہے ، جو اسی کتاب میں مذکور ہے، اگر ایساہے تو جتنی قیمت چاہیے رکھ دیجئے، فرق کیا پڑتا ہے، لیکن کتاب ملنے کے جو چار پتے درج ہیں ان میں بک امپوریم سبزی باغ ، پٹنہ ۔4، شاید مفت دینے کو تیار نہ ہو بقیہ تین پتے جن کا تعلق موضوع کتاب اورمصنف سے ہے ، شاید وہاں سے حصول مطلب حسب منشاء ہو سکے، کتاب کا انتساب جناب اکبر رضا جمشید کی اہلیہ محترمہ ارشاد بیگم اور ان کے دونوں صاحب زادگان کے نام ہے، اس کے بعد اکبر رضا جمشید کے سوانحی کوائف کا اندراج کیا گیا ہے،جس کا نصف کم سے کم مکررہے، کیوں کہ ٹائٹل کے آخری پیج پر بھی وہ تفصیلات درج ہیں، بلکہ سوانحی کوائف میں تصنیفات کی تعداد دس اور ٹائٹل پر  تصانیف کا ذکر ہے، جن میں چار کم ازکم ڈرامے ہیں، اور ایک کتاب اردو شعراء کی حب الوطنی پرزیر طبع ہے، سوانحی کوائف میں اکبر رضا جمشید کے فن اور شخصیت پر ایک اور کتاب کا علم ہوتا ہے ، جسے پرویز عالم نے مرتب کیا ہے ، ایک درجن میں دو کم، ایوارڈ اور اعزازات بھی جج صاحب کو دیے گیے ، اس کا بھی ہمیں سوانحی کوائف سے پتہ چلتا ہے ، پھر اکبر صاحب کے ذریعہ مختلف سالوں میں ایوارڈ یافتگان کا ذکر بھی اس کتاب میں ملتا ہے۔ 
اے کے علوی صاحب کے قلم سے ہی اس کتاب کا پیش لفظ تحریر ہوا ہے، یہ بیانیہ اور داستانی انداز میں ہے ، جس میں اے کے علوی صاحب نے جمشید اکبر صاحب کا حلیہ، اردو کے قارئین کے ذریعہ کتابوں کی ناقد ری اور ان کے والد صاحب کی خدمات کا بھی قدرے تفصیل سے ذکر کیاہے، لیکن اتنا بھی نہیں کہ اسے اطناب سے تعبیر کیا جائے ، تین صفحہ کے پیش لفظ کو ایجاز ہی کہناچاہیے، اس کے بعد اکبر رضا جمشید وکثیر الجہت شخصیت کے عنوان سے وہ انٹر ویو ہے، جو اس کتاب کا اصل موضوع ہے ، اے کے علوی صاحب نے سوالات ایسے مرتب کیے تھے کہا کبر صاحب کی پرت در پرت ، شخصیت کھل کر سامنے آجاتی ہے ، اکبر رضا صاحب نے بھی سوالات کے جوابات میں اپنی شخصیت ، خدمات تصنیفات اپنے مقدس سفر ایوارڈ کے دائرہ کا زایوارڈ میں دی جانے والی چیزوں کا تذکرہ کیا ہے ، البتہ دی جانے والی رقم کو صیغۂ راز میں رکھا ہے ، کچھ تو خفا میں رہے تاکہ قاری کا تجسس بڑھتا رہے، یہ انٹر ویو چودہ سے باون صفحات پر جا کر ختم ہوتا ہے، اس کے بعد تاثرات کا سلسلہ شروع ہوتا ہے، جن میں بیش تر ایوارڈ کی تقریبات اکبر رضا صاحب کی کسی کتاب کے اجراء پر اظہار خیال سے ماخوذ ہے، جن لوگوں کے تاثرات کو اس کتاب میں جگہ دی گئی ہے ان میں سابق صدر جمہوریہ اور اس وقت کے وزیر خوراک حکومت ہند فخر الدین علی احمد قاضی عبد الودود ، مولانا سید کلب عابد، پروفیسر اجتبیٰ حسین رضوی، شکیلہ اختر، عابد رضا بیدار ، سرور علی ، شوکت حیات، شفیع قریشی ، ہارون رشید ، مولانا ظفر عباس ، مولانا اسد رضا ، میجر بلبیر سنگھ، نذرا حسن ، منیر حسین، پروفیسر علیم اللہ حالی، سید شاہ شمیم الدین احمد منعمی،پروفیسر شمشاد حسین ، ڈاکٹر قمر الحسن ، انیل سلبھ، اعجاز علی ارشد ،ریحان غنی، محفوظ عالم، نتیش کمار، فخر الدین عارفی، ریاض عظیم آبادی، محمد نعمت اللہ ، اشرف استھانوی، مولانا محمد محسن ، ہیمنت شریواتسو، پروفیسر منظر اعجاز، ڈاکٹر ارمان نجمی، سیدشہباز عالم ، سید ارشاد علی آزاد، پروفیسر کلیم الرحمن ، امتاز احمد کریمی ، معین کوثر، پروفیسر قیام منیر، اسماعیل حسین نقوی، انوار الحسن وسطوی، آفتاب احمد اور سلطان آزاد کے تاثرات شامل ہیں، جو سب کے سب ان کی تقریروں سے ماخوذ ہیں، اس فہرست کو آپ دیکھیں، اس میں مسلم بھی ہیں، غیر مسلم بھی ، سیاسی حضرات بھی ہیں اور صحافی بھی ، شیعہ بھی ہیں اور سنی بھی، ادیب بھی ہیں اور شاعر بھی، ان میں کئی وہ بھی ہیں، جو اکبر رضا جمشید ایوارڈ پا چکے ہیں، اتنے حضرات کی گواہی جب اکبر رضا جمشید کی شخصیت اور خدمات کے حوالہ سے سامنے آگئی ہیں تو ان کی شخصیت کے کثیر الجہات ہونے اور ان کی خدمت کی وقعت اور عظمت کس کے دل میں جاںگزیں نہیں ہوگی، اور کون ان کے اخلاق وکردار کا اسیر نہیں ہوگا، اسلام میں دوہی کی گواہی ثبوت کے لیے کافی ہوتی ہے، یہ اتنے بڑے بڑے اساطین علم کی شہادت اور اتنی بڑی تعداد میں اکبر رضا جمشید کی محبوبیت ومقبولیت کی بین دلیل ہے، خدا انہیں سلامت رکھے اور خوب کام لے۔
 اس کتاب کو میرے پاس لے کر اکبر رضا جمشید خود تشریف لائے تھے، میری ان سے پہلی ملاقات تھی، تپاک سے ملے، محبت سے پیش آئے ، اعترف کیا کہ میں آپ تک نہیں پہونچ سکا تھا،ا لبتہ آپ کی تحریریں دیکھتا رہا ہوں۔ کتاب کے مصنف نے انتہائی کی تھی، اے کے علوی بھی محبت کرتے ہیں، اس کتاب کی ترتیب میں جو سلیقہ انہوں نے برتا ہے وہا ں کی سلیقہ مندی کا حسین مظہر ہے۔

ہفتہ, فروری 03, 2024

*علم اور اہل علم کی قدر*

*علم اور اہل علم کی قدر* 
Urduduniyanews72 
*🖋️محمد فرمان الہدیٰ فرمان* 

علم  اللہ تعالی کی وہ عظیم نعمت ہے جس کی فضیلت اور اہمیت ہر دور میں تسلیم کی گئی ہے ۔ یہ ان انعامات میں سے ہے جن کی بناء پر انسان دیگر مخلوقات سے افضل ہے۔ علم ہی ہے جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو عطا فرما کر اس کے ذریعے فرشتوں پر ان کی برتری ثابت فرمائی۔ 
       دینِ اسلام میں حصولِ علم کی بہت تاکید کی گئی ہے اور علم و اہلِ علم  کی متعدد فضیلتیں وارد ہوئی ہیں اور مسلمانوں کو علم کے حصول پر ابھارا گیا ہے۔ اور جس طرح علم کی اہمیت و فضیلت مسلّمہ ہے، اُسی طرح اِس نعمتِ عظیم کے حامل افراد کی فضیلت سے بھی انکار ممکن نہیں۔ رسول اللہ ﷺ  کی اس امت میں تو بالخصوص اہلِ علم بہت اعلی مقام کے حامل ہیں حتیٰ کہ انہیں انبیائے کرام کا وارث قرار دیا  گیا ہے جیسا کہ فرمانِ نبوی ہے "العلماء ورثة الانبیاء" ۔ اور علم کو فرض قرار دیتے ہوئے نبی کریم ﷺ نے فرمایا"طلب العلم فریضة علی کل مسلم و مسلمہ" یعنی دین کا اتنا علم جس سے حلال و حرام کی پہچان ہوجائے، اسکا حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔
 عصرِ حاضر میں ہم مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم عصری تعلیم میں اتنا مصروف ہو چکے ہیں کہ دینی تعلیم میں وقت لگانے کو وقت کی بربادی سمجھنے لگے ہیں، اور اسمیں کہیں نا کہیں والدین کا بھی قصور ہے کیونکہ گھر ہی پہلا ادارہ ہوتا ہے ، جب بچہ گھر میں دینی علم اور علماء سے نفرت، عصری علم کیلئے جہد وجہد دیکھے گا تو یہی سیکھے گا اور جب انکی تربیت دینی نا ہو تو یقیناً یہ نیک اولاد نہیں بنیں گے۔ پھر یہی بچے اپنے والدین کو بیت المعمرین (Old age home) میں چھوڑتے ہیں تو والدین کو تکلیف ہوتی ہے کہ ہمارے بچے اتنے برے کیسے ہوگئے ؟ حالانکہ وہ یہ نہیں دیکھتے کہ یہ سب انکی دنیاوی تربیت کا خمیازہ ہے جو وہ بھگت رہے ہیں ۔
عصری تعلیم کی محبت اور دینی تعلیم سے دوری کے سبب ہی آج ہم دنیا میں آگے تو ہیں لیکن ہمارے پاس علم اور علماء کی قدر و عزت نہیں، آج ہم مسلمانوں کی صورتحال یہ ہے کہ ہم اہلِ علم حضرات بالخصوص ائمہ مساجد اور علماء کو بالکل حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، ہم منتظر ہوتے ہیں کہ ان سے کچھ غلطی ہو اور ہمیں ان پر طنز کرنے کا موقعہ ملے۔ اہلِ علم نیک ہوتے ہیں لیکن وہ بھی بشر ہوتے ہیں نا کہ کوئی فرشتے اور غلطی کرنا ہر بشر کی فطرت ہے۔ اللہ نے جہاں بھی اپنے نیک بندوں کا ذکر کیا وہاں کہا  میرے نیک بندوں سے گناہ بھی ہوتے ہیں لیکن وہ فوراً توبہ کرلیتے ہیں۔ آج ہمارے دلوں سے علماء کی محبت بالکل ختم ہو چکی ہے، اگر دینی علم کے حصول کی بات کی جائے تو کچھ ایسی باتیں ہمارے گوش گزار ہوتی ہیں کہ گھر میں کوئی حافظ بنا لینگے، گھر میں اتنے سارے حفاظِ کرام موجود ہیں کسی کی بھی سفارش سے بخشش ہوجائے گی۔ ہمیں تو یہ جذبہ ہونا چاہیے تھا کہ ہم امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دے کر خود اس قابل بنیں کہ ہم امت کی سفارش کرسکیں ۔ اور جن کی سفارش کے بھروسے ہم بیٹھے ہیں ہم ان کی قدر کرنا بھی نہیں جانتے۔ اور اس غلط فہمی میں ہیں کہ کسی کی بھی سفارش سے ہماری بخشش ہو جائے گی۔ ذرا غور کریں کہ ہماری قبر کی اتنی لمبی زندگی میں ہماری سفارش کون کریگا ؟ 
یہاں صرف ہمارا دینی علم کام آئے گا اور وہ دینی علم جس پر ہم عمل پیرا ہوئے، دینی علوم کا حصول ہم پر فرض ہے اور فرض میں کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ ہم سب اس سے واقف ہیں کہ ہمارے معاشرے میں دینی تعلیم کو کس حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، جبکہ دینی علم کی فضیلت بھی ہم پر عیاں ہے، میرے کہنے کا مقصد یہ نہیں کہ عصری تعلیم سے کنارہ کشی اختیار کی جائے بلکہ میرا مقصد ہے کہ عصری اور دینی دونوں تعلیم کو حاصل کیا جائے کیونکہ دونوں کی اہمیت ہے، اس دار فانی میں رہنے کیلئے عصری تعلیم ضروری ہے جبکہ عالم برزخ اور آخرت کے لئے دینی تعلیم کا حصول لازم ہے، لیکن آج ہم مسلمان دینی تعلیم سے اس قدر دور ہیں کہ ہمیں حلال وحرام اور فرائض و واجبات کا علم تک نہیں۔ اگر ہم دینی علم نہیں حاصل کررہے تو ہمیں کم از کم اہلِ علم یعنی علماء کی قدر کرنی چاہیے کیونکہ یہ وہ وسیلہ ہے جو ہمیں اللہ کے ہاں محبوب اور مبغوض بنانے کی طاقت رکھتا ہے، اگر ہم علماء سے محبت کریں تو کوئی بعید نہیں کہ اللہ بھی ہم سے محبت کرے اور ہماری آخرت سنور جائے لیکن اگر ہم علماء سے نفرت کریں گے تو ہم ملعون ہوجائینگے، آج کل اکثریت علماء سے اسی لئے نفرت کرتی ہے کیونکہ وہ دینی علوم کے حامل ہیں، لیکن ہمیں سوچنا چاہیے کہ یہی لوگ ہیں جن کی وجہ سے قیامت رکی ہوئی ہے، جیسا کہ حدیث میں وارد ہوا ہے "لا تقوم الساعة حتى يقال الله الله" یعنی قیامت اس وقت تک نہیں آئی گی جب تک روئے زمین پر کوئی اللہ اللہ کہنے والا ہو ، اور حدیث قدسی میں ہے "من عادى لى وليا فقد آذنته بالحرب" یعنی جو شخص میرے کسی ولی سے دشمنی رکھے گا اسے میری طرف سے اعلان جنگ ہے ۔
 ان احادیث سے عیاں ہے کہ کس طرح ہم علماء کی قدر کے ذریعے اللہ کے محبوب بن سکتے ہیں، اور کس طرح آج ہم علماء سے نفرت کرکے اللہ سے جنگ مول لے رہے ہیں۔ اور نبی کریم ﷺ نے تو یہ تک فرما دیا کہ جو ہمارے علماء کی قدر نا کرے وہ ہم میں سے نہیں، اس سے بڑی اور کیا وعید ہو سکتی ہے کہ ہم مسلمانوں اور دین اسلام کی صف سے نکال دیے جائیں، آج اللہ کو حاضر و ناظر رکھتے ہوئے یہ عہد کرلیں کہ ہم اللہ اور رسول کے متعین کردہ مقام و مرتبہ کو علمائے کرام کے سر کا تاج بنائیں گے اور اللہ اور رسول سے محبت و الفت کے ساتھ عمومی طور پر تمام مسلمانوں سے اور خصوصی طور پر علمائے کرام سے محبت و الفت رکھیں گے ان شاءاللہ عزوجل

ایک مقدمہ ایسا بھی

ایک مقدمہ ایسا بھی 
اردودنیانیوز۷۲ 
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ
==============================
مقدمات میں عموما مدعی یا مدعیہ ، مدعیٰ علیہ یا مدعیٰ علیہا میں سے ایک غلطی پر ہوتا ہے، یہ دونوں جب عدالت جاتے ہیں تو عدالت مقدمات کی سماعت کرکے فیصلہ دیا کرتی ہے، لیکن آپ کی واقفیت شاید کسی ایسے مقدمہ سے نہیں ہوگی، جس میں مدعی، مدعی علیہ کے ساتھ ڈسٹرکٹ کورٹ میں مقدمہ کی سماعت کوبھی غلط قرار دیا گیا ہو، نچلی عدالت کے فیصلے کے بعد اعلیٰ سطحی عدالت میں فیصلے بدلتے رہنے کی روایت قدیم ہے، لیکن نچلی عدالت کے ذریعہ مقدمہ کی سماعت ہی غلط ہو، یہ نادرالوقوع ہے، ایسا ہی ایک واقعہ جسٹس من میت سنگھ اڑوڑہ کی عدالت میں سامنے آیا ہے، محترمہ من میت سنگھ نے ہندوستان اسکارٹس اینڈ گائیڈز ایسی سو ایشن کے ایک مقدمہ میں مدعی اور مدعا علیہ کے ساتھ ضلعی عدالت کی سماعت کو ہی غلط قرار دے دیا ہے، دہلی ہائی کورٹ میں سماعت کے دوران جسٹس من میت سنگھ نے واضح کر دیا کہ ضلعی عدالت میں مدعی سنیتا ونود ودھوڑی کو ایسوسی ایشن کا قومی سکریٹری مانتے ہوئے دائر مقدمات کو سماعت کے لیے لینا ہی نہیں چاہیے تھا، عرضی خارج ہونے کے بعد درخواست گذار کے ذریعہ ادارہ کے سکریٹری کی حیثیت سے معاملہ کرنا سرے سے غلط تھا، ایسوسی ایشن کے موجودہ سکریٹری گریش جوپال نے عدالت کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے، حالاں کہ جسٹس من میت سنگھ اڑوڑہ نے نچلی عدالت کی سماعت کو غلط رار دینے  کے باوجود ضلعی عدالت کے فیصلے کو بر قرار رکھا اور ایسوسی ایشن کا جو انتخاب ۵؍ مئی ۲۰۱۹ء کو ہوا تھا اسے غیر قانونی قرار دے کر انتخاب کرانے والے ممبران کو توہین عدالت کا مرتکب قرار دیا ہے، یہ معاملہ ایسوسی ایشن کے نئے عہدیداران کے انتخاب سے متعلق تھا۔

جمعہ, فروری 02, 2024

مولانا محمد سجاد ___حیات اور کارنامے

مولانا محمد سجاد ___حیات اور کارنامے
اردودنیانیوز۷۲ 
 ✍️ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
 
بانی امارت شرعیہ مولانا ابو المحاسن محمد سجاد رحمۃ اللہ علیہ کاشماربیسویں صدی کی اہم علمی ،سماجی، مذہبی اور سیاسی شخصیتوں میں ہوتا ہے،علامہ انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ انہیں فقیہ النفس عالم کہا کرتے تھے ،واقعہ یہ ہے کہ بیسویں صدی کے نامور اور بافیض لوگوں کی مختصر سے مختصر کوئی فہرست تیار کی جائے گی تو اس میں مولانا ابو المحاسن محمد سجاد رحمۃ اللہ علیہ کا نام ضرور ملے  گا ،وہ ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے اور ان کا میدان عمل میں علم، سماج، مذہب، دین و سیاست سب کا گزر تھا، ان کے مضامین و مقالات ان کی علمی گہرائی اور گیرائی کا پتہ دیتے ہیں، جمعیت علماء اور امارت شرعیہ اپنے وجود میں مولانا کی مرہون منت ہے، ان اداروں کے قیام کے خاکے بنانا، ان خاکوں میں رنگ بھرنے کے لیے اپنی پوری زندگی داؤ پر لگا دینا ان کی زندگی کی بڑی خصوصیات میں سے ایک ہے ،جس کے لیے پوری ملت مولانا کی مرہون منت ہے ۔
ان خصوصیات کی وجہ سے مولانا کی حیات و خدمات محققین کی توجہ کا مرکز رہا ہے اور بہت ساری کتابیں ان پر طبع ہو چکی ہیں، ان کتابوں میں مولانا مسعود عالم ندوی کی محاسن سجاد، مولانا عبدالصمدرحمانی کی حیات سجاد انہیں دونوں کتابوں سے اخذ کردہ مضامین کا مجموعہ حیات سجاد مرتبہ مولانا انیس الرحمن قاسمی ،انہیں کی مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد حیات و خدمات (سیمینار میں پڑھے گئے مقالات کا مجموعہ) مولانا اختر امام عادل کی حیات ابو المحاسن اور مولانا طلحہ نعمت ندوی کی حضرت مولانا ابو المحاسن محمد سجاد، انتہائی مستند محقق اور قابل قدر مجموعے ہیں ،ان میں ایک مجموعہ جمعیت علماء کی جانب سے منعقد ان پر سیمینار کے مقالوں کا ہے اور دو خالص تحقیقی نوعیت کا کام ہے، ان میں مولانا اختر امام عادل کی کتاب حیات ابو المحاسن کا جواب نہیں۔
    اب ڈاکٹر مولانا عبدالودود قاسمی کی نئی کتاب مولانا محمد سجاد ۔حیات اور کارنامے کے نام سے سامنے آئی ہے، یہ دراصل ان کا پی ایچ ڈی کا تحقیقی مقالہ ہے جسے انہوں نے پی ایچ ڈی کے مقالوں میں جو رطب ویابس ہوتا ہے، اسے حذف کر کے مقالہ کی تلخیص منظر عام پر لانے کا کام کیا ہے، اور اچھا کیا ہے۔
 ڈاکٹر عبدالودود قاسمی اپنے اصلی نام سے زیادہ اور قلمی نام واؤ قاسمی سے کم جانے جاتے ہیں ،16؍ اکتوبر 1973کو الحاج ماسٹر محمد یوسف رحمہ اللہ کے گھر ڈلوکھر، مرزا پور، تھانہ لدنیا ضلع مدہو بنی میں آنکھیں کھولیں، دارالعلوم دیوبند سے فاضل اور متھلا یونیورسٹی سے ایم اے،بی ایڈ، پی ایچ ڈی کیا، یو جی سی کا نیٹ نکالا اور ان دنوں سی ایم بی کالج ڈیوڑھ، گھوگھر ڈیہا، مدھوبنی میں اسسٹنٹ پروفیسرکے عہدے پر فائز ہیں، عمر فرید میموریل ایوارڈ برائے ادب اور انور جلال پوری ایوارڈ برائے نقابت حاصل کر چکے ہیں ،ایوارڈ میں کیا سب ملا،دوستوں کو بھی نہیں بتاتے، اس لیے اسے پردۂ خفا میں ہی رہنے دیجئے، عکس سخن، درسگاہ اسلامی۔ فکر و نظر کی بستی، صدائے اعظم، دربھنگہ کا محرم تاریخ و تجزیہ، موصوف کی مطبوعہ کتابوں میں شامل ہے،یہ تو رہا مصنف کا تعارف، اب رخ کتاب کی طرف کرتے ہیں۔
 227 صفحات کی اس کتاب کا پیش لفظ خود مصنف نے لکھا ہے، جس میں احوال واقعی کا ذکر ہے، قطعہ ٔتاریخ پروفیسر سید شاہ طلحہ رضوی برق کا ہے، کتاب کا انتساب والدین مرحومین کے نام ہے،جو مصنف کی سعادت مندی کی دلیل ہے ’’جن کی بے پناہ محبتوں اور دعاؤں کے صدقے‘‘ وہ علمی کاموں کے لائق بنے۔
 ڈاکٹر عبدالودود قاسمی نے اس کتاب میں مولانا کے خاندانی حالات ،نام و نسب ، تحصیل علم ،تدریسی خدمات اور تبحر علمی کا تفصیل سے جائزہ لیا ہے، مولانا سجادؒ کی ازدواجی زندگی، جسمانی خد و خال ،اخلاق و عادات، اساتذۂ کرام، تلامذہ، رفقائے کار اور معاصرین پر روشنی ڈالی ہے، مولانا سجادؒ کی سیاسی و سماجی خدمات، ان کی سیاسی بصیرت اور نقطۂ نظر کو بھی موضوع بحث بنایا ہے، انجمن علماء بہار، جمعیت علماء ہند ،خلافت کمیٹی اور مسلم انڈیپینڈنٹ پارٹی کے قیام، مقاصد اور خدمات کو زیر بحث لا کر اس عہد کی ملی اور سیاسی تنظیموں کی خدمات اور طریقۂ کار پر کلام کیا ہے،’’ وفات سجاد‘‘ ’’یاد سجاد‘‘ ’’ماتم سجاد‘‘ ’’ذکر سجاد‘‘ اور قطعۂ تاریخ وفات کو بھی اس کتاب میں جگہ دی گئی ہے۔
کتاب کا بڑا حصہ مولانا سجاد کی اردو تصانیف ،ان کے نثر کی خصوصیات اور ان تصانیف کی اہمیت کے جائزے پر مشتمل ہے جن کتابوں پر گفتگو کی گئی ہے اس میں حکومت الٰہیہ، فتاوی امارت شرعیہ، مقالات سجاد، سیاسی مقالات، مکاتیب سجاد، قانونی مسودے، خطبۂ صدارت، قضایا سجاد،امارت شرعیہ :شبہات و جوابات، خاص اہمیت کی حامل ہیں ،مولانا کے افکار و خیالات ان کتابوں کی روشنی میں جاننے کی کوشش کی گئی ہے۔
آخر میں مولانا سجاد کے بارے میں ہم عصر ادبی و مذہبی اور دور حاضر کے دانشوروں کی آراء قلم بند کی گئی ہیںاور اس نتیجے پر پہنچا گیا ہے کہ ایک عالم دین، ایک مفکر ،ایک مدبر و محقق اور انشاء پردازی کی تمام خوبیاں ان میں بدرجۂ اتم موجود تھیں۔
روشان پرنٹرس دہلی کے مطبع میں چھپی اس کتاب کا ناشر ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی ہے، 200 روپے دے کر الفاطمہ ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ ڈیوکھر ،بابو برہی ،مدھوبنی بہار، بک امپوریم سبزی باغ پٹنہ، ناولتی بکس و بک گیلری قلعہ گھاٹ دربھنگہ سے حاصل کر سکتے ہیں، مفت لینے کی خواہش ہو( جو اچھی نہیں ہو تی)تو مصنف کے موبائل 9534590987پر فون کر لیں۔

جمعرات, فروری 01, 2024

آخر میں ایک بات

آخر میں ایک بات 
Urduduniyanews72 
ماہ جنوری کے اختتام پر لوگوں نے راحت کی سانس لی ہے۔سخت ٹھنڈک سے سبھی کو نجات ملی ہےاور ہمارےجسم کو آرام نصیب ہوا ہےمگرساتھ ہی اس مہینہ کے اختتام پرکچھ ایسی خبریں بھی موصول ہوئی ہیں جن سے بالخصوص مسلمانوں کو شدید قلبی تکلیف پہونچی ہےاورہند کےملت اسلامیہ کاجگرپارہ پارہ ہوگیاہے۔ انمیں پہلی خبرملک کی راجدھانی دہلی کے مہرولی کی ہے۔ چھ سو سالہ قدیم اخونجی مسجد جسمیں مدرسہ بھی چل رہا تھا بلڈوز سے شہید کردی گئی ہے،قرآن کریم کے نسخے، اساتذہ وطلبہ کے ساز و سامان سب مسجد کے ملبے کے ساتھ دفن کردئیے گئے ہیں، یہ کارروائی علی الصباح دہلی اتھاریٹی نے پولس کی مدد سے انجام دی ہے۔سب سے پہلے امام صاحب ودیگر موجودین کو یرغمال بنالیا گیا، ان کے موبائل فون ضبط کئےگئےتاکہ کسی کو اس انہدامی کاروائی کی خبر نہ ہوسکے،پھر سب کچھ تہس نہس کردیا گیاہے۔ اس وقت وہاں صرف مٹی کا ڈھیر ہے۔ مسجد کا نام ونشان  تک بھی موجودنہیں ہے۔
دوسری خبر شہر وارانسی سے یہ مل رہی ہے کہ ڈسٹرکٹ جج نے اپنی سروس کے آخری دن گیان واپی جامع مسجد کے تہہ خانے میں ہندو فریق کو پوجا کی اجازت دے دی ہے، ابھی ابھی یہ خبر  بھی مل رہی ہے کہ راتوں رات مذکورہ مسجد کےتہہ خانے میں مورتی نصب کرکے اس کی پوجا بھی شروع ہوچکی ہے۔ اس فیصلے کے خلاف مسلم پرسنل لا بورڈ نےالہ آباد ہائی کورٹ میں قانونی چارہ جوئی کی بات کہی ہے اور یہ ضروری بھی ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ اس نازک ترین وقت میں بیداری کی شدید ضرورت ہے۔سوال یہ قائم ہوتا ہے کہ آخرکیسی بیداری اور کس کی بیداری مطلوب ہے؟
 سوشل میڈیا میں اس وقت مفکر اسلام حضرت علی میاں رحمۃ اللہ علیہ کی ایک آڈیو گشت کر رہی ہے۔جن حالات کا ہم سامنا کررہے ہیں مولانا نے بہت پہلے سے ہی اس کی پیش گوئی فرمادی ہےاور اسے ایک بڑافتنہ کہا ہے،نیز اس کے حل کےلئے آخری بات کہ کر علماء کرام کو خطاب بھی کیا ہے۔
حضرت نےیہ واضح انداز میں فرمادیاہے کہ علماء کرام کی طاقت سے ہی اس کا مقابلہ کیا جاسکتا ہےا۔حضرت کی یہ تقریر پورے ملک کی تصویر بدل سکتی ہے،اور ہم اس برے حالات سے نکل سکتے ہیں، اے کاش اس پر عمل ہو اور پورے ملک کے علماء کرام متحد ہوکر آج ہی سے اس انقلابی کام کو ایک تحریک کی شکل دیکر کرنے لگیں، مولانا فرماتے ہیں ؛
"آخر میں ایک بات کہ کر ختم کرتا ہوں کہ اس وقت ہندوستان میں ایک ایسا دور ایا ہےجو ہمارے علم میں پہلے کبھی نہیں ایا۔ دور اکبری کو کسی قدر مشابہت ہے لیکن دور اکبری بھی اس درجے میں خطرناک نہیں تھا جتنا یہ دور جو چل رہا ہے۔ اس وقت اکثریت نے یہ طے کر لیا ہے کہ اس ملک کو"اسپین" بنا کر رہیں گے۔ یعنی اس میں مسلمان رہیں گے مگر اپنے تمام ملی تشخصات کو چھوڑ کر۰۰۰۰۰۰۰ اذانیں بھی زور سے نہ ہوں، مسجدوں کی کثرت بھی، مسجدوں کا جائے وقوع بھی اور مسجدوں کا وجود بھی خطرے میں ہے۔ بابری مسجد کے ساتھ جو واقعہ پیش ایا اس نے اس کے لیے راستہ کھول دیا ہے۔ صاف صاف ہندو اخبار نے بھی اور کالم نگار اور ان کے سوچنے سمجھنے والے انگریزی اخباروں میں بھی جو مضامین نکل رہے ہیں اور ہندی اخباروں میں بھی صاف صاف یہ ہے کہ ہم مسلمانوں کو بالکل ہندو بن کر رہنا ہوگا، ہندوستانی بن کر رہنا ہوگایا مسلمان بن کر رہنے کی اب گنجائش نہیں ہوگی۔ لباس میں ،صورت وشکل میں ، زبان میں،رسم الخط میں اور تہذیب میں سب میں ان تمام امتیازی خصوصیات سے دستبردار ہو جائیں جن سے دور سے یہ معلوم ہوتا ہو کہ یہ مسلمان ہیں۔
 اس وقت اس فتنے کو روکنے کے لیے سب سے بڑی طاقت ہو سکتی ہے وہ علماء کی ہو سکتی ہے اور ہمارے فضلاء مدارس کی ہو سکتی ہے۔ وہ جہاں جہاں کے رہنے والے ہوں وہاں کی مسجدوں میں تقریر کریں، جمعہ کے دن تقریر کریں، عیدین میں تقریر کریں ،خوشیوں کے موقع پر تقریر کریں، نکاح وغیرہ کی مجلسوں میں تقریر کریں کہ ہمیں پورے ملی تشخص کے ساتھ اس ملک میں رہنا ہےاور کسی ایک چیز کو نہیں چھوڑنا ہے۔ہم اس کے لیے بھی تیار نہیں ہیں کہ ہمارا پاجامہ ٹخنے سے نیچے ہو، ہم اس کے لیے بھی تیار نہیں کہ اپنی داڑھی کو ایسا کر لیں کہ محسوس یہ ہو کہ اتفاقا کچھ بال اگ آئے ہیں۔ ہم بالکل شریعت پر عمل کریں گے، شریعت کے ساتھ رہیں گے، ہمارا نظام تعلیم وہی یہی رہے گا، بچوں کو توحید کی تعلیم دیں گے، دینیات پڑھائیں گے، اردو سے واقف بنائیں گے، اردو رسم الخط کو زندہ رکھیں گے۔ سب سے بڑی ذمہ داری اپ پر عائد ہوتی ہے اور اپ ہی بہتر طریقے پر یہ ذمہ داری ادا کر سکتے ہیں۔ لیکن یہ بات بھی سن لیجیے اور دل پر لکھ لیجئے کہ اس وقت کا سب سے بڑا فتنہ ہے متحدہ کلچر اور ملی تشخص سے دستبردار ہونا۔افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے دینی حلقے یا علمی حلقے کے بعض لوگ بھی جو قلم کا استعمال جانتے ہیں اور علمی زبان میں بات کر سکتے ہیں وہ بھی اس کی دعوت دینے لگے ہیں کہ مسلمانوں کو اس پر اصرار نہیں کرنا چاہیے۔ پرسنل لاکے سلسلے میں جو اصرار کیا سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف خواہ مخواہ ہندوؤں میں اس سےایک رد عمل پیدا ہوا، وہ سمجھے کہ مسلمان بہت تنگ دل اور تنگ نظر ہیں۔
 صاف صاف کہتے ہیں ہم یہاں پوری خصوصیات کے ساتھ رہیں گے، اس کے ساتھ ہم امید رکھتے ہیں کہ اللہ تعالی ہم کو اس ملک کی قیادت نصیب فرمائے گا۔ اس لیے کہ اس ملک کی ابادی کا کوئی عنصر اس قابل نہیں ہے کہ وہ اس ملک کو بچائے خطرے سے۔ سب دولت پرست ہیں،مادہ پرست ہیں، نفس پرست ہیں، طاقت پرست ہیں، اقتدار پرست ہیں، جاہ پرست ہیں۔
 اس لیے ہم عزت کے ساتھ رہیں گے، ہم اپنے تشخص کے ساتھ رہیں گے، سر اونچا کر کے چلیں گے، ہماری نگاہیں شرم سے جھکی ہوئی نہیں ہوں گی بلکہ ہماری نگاہیں بلند ہوں گی۔ اور سمجھیں گے کہ ہم جو کر رہے ہیں وہ صحیح ہے اور ہندوستان کا دستور اس کی اجازت دیتا ہے۔ ہندوستان اسی حالت میں صحیح سلامت مامون محفوظ اور خوشحال رہ سکتا ہےکہ اس میں ایک دوسرے کو اس کی ازادی دی جائے کہ وہ اپنے مذہب پر عمل کریں، اور مذہبی شعائر کامظاہرہ کر سکیں"
(حضرت علی میاں رحمۃ اللہ علیہ )

ہمایوں اقبال ندوی 
نائب صدر، جمعیت علماء ارریہ 
وجنرل سکریٹری، تنظیم أبناء ندوہ پورنیہ کمشنری 
یکم فروری ۲۰۲۴ء بروز جمعرات

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...