Powered By Blogger

منگل, جنوری 14, 2025

کامران غنی صباشعبۂ اردو نتیشور کالج، مظفرپور

--
کامران غنی صبا
شعبۂ اردو نتیشور کالج، مظفرپور
Urduduniyanews72 
حضرت واصف علی واصفؒ : تیری الفت نے محبت مری عادت کر دی
(پیدائش: 15 جنوری 1929، وفات 18 جنوری 1993)
حضرت واصف علی واصفؒ میری پسندیدہ شخصیات میں سے ایک ہیں۔ میں نے واصف صاحب کو دیکھا نہیں ہے، صرف ان کی تحریریں پڑھی ہیں، ان کے لکچرسنے ہیں، ان کی محفلوں کے فیض یافتگان کو سنا ہے اور اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ واصف صاحب میں اللہ نے غضب کی تاثیر رکھی ہے۔ان کے چھوٹے چھوٹے اقوال اپنے اندر ایک جہانِ معنی رکھتے ہیں۔ زندگی کے عمومی مسائل جن سے ہر شخص نبردآزما ہے، واصف صاحب ان مسائل کے حل اتنے سادہ اور قابلِ عمل انداز میں پیش کرتے ہیں کہ شاعری کے سہل ممتنع کی طرح ہم یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ اتنا آسان اور قابلِ عمل حل ہمارے ذہن میں از خود کیوں نہیں آ گیا؟
 حضرت واصف علی واصف 15جنوری 1929 کو خوشاب میں پیدا ہوئے۔ 18 جنوری 1993 کو لاہور میں آپ کا وصال ہوا۔ واصف صاحب انگریزی کے استاد تھے۔ آپ نے سول سروس کے امتحان میں نمایاںکامیابی حاصل کی تھی لیکن آپ کی آزادانہ اور قلندرانہ طبیعت نے سرکاری ملازمت کو قابلِ اعتنا نہیں سمجھا۔ ابتداء میں آپ نے پنجابی کالج میں درس و تدریس کے فرائض انجام دئیے بعدمیں "لاہور انگلش کالج" کے نام سے اپنا خود مختار ادارہ قائم کیا۔
واصف صاحب کا اختصاص آپ کی قوت تاثیر ہے۔ میں نے واصف صاحب کو صرف پڑھا ہے اور کسی حد تک انہیں سنا ہے۔ ان کے الفاظ خواہ تحریری صورت میں ہوں یا تقریری، ایسا محسوس ہوتا ہے گویا سماعت میں نہیں سیدھے دل میں اُتر رہے ہوں۔ ان کے وصال کے بعد جب ان کی تحریر و تقریر اس قدر پر تاثیر ہے تو خداہی جانے جن لوگوں نے انھیں براہ راست سنا ہوگا، اُن کی قوتِ تاثیر کا مشاہدہ کیسا ہوگا؟تقریباً 2014 سے میں حضرت واصف علی واصفؒ کو پڑھ رہا ہوں۔ان دس برسوںمیں شایدہی کوئی ایسا دن گزرا ہو جب میں نے واصف صاحب کی کوئی چھوٹی بڑی تحریر نہیں پڑھی ہو۔ ان کے بعض اقوال ذہن و دل میں اس طرح پیوست ہو چکے ہیں کہ کبھی کوئی مسئلہ در پیش ہو تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کے اقوال رہنمائی کے لیے نظروں کے سامنے آ کھڑےہوئے ہوں۔ میں نے واصف صاحب کو نہیں دیکھا ہے لیکن ان کے اقوال و افعال کی روشنی میں ان کی شخصیت کا جو ہیولہ میرے سامنے ابھرتا ہے وہ اقبالؔ کےقلندر سے مشابہ نظر آتا ہے۔ وہی قلندر جو عمل لے لیے راغب کرتاہے۔ جو کہتا ہے کہ ؎
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
واصف صاحب کہتے ہیں کہ علم وہی ہے جو عمل میں آ سکے، ورنہ ایک اضافی بوجھ ہے۔ واصف صاحب عِلم پر عَمل کو ترجیح دیتے ہیں۔ وہ علم و عمل کی ترویج و اشاعت کے لیے محبت کو لازم قرار دیتے ہیں اورہر اُس رویے کو ترک کر نے کی ترغیب دیتے ہیں جو محبت کی راہ میں ہو حائل ہو۔ دنیا میں انسان کی ساری کاوشیں، ساری جدوجہدیں سکون کے حصول کےلیے ہوتی ہیں۔ بسا اوقات انسان کے پاس دولت بھی ہوتی ہے، اسےعزت و شہرت اور مقام و مرتبہ بھی حاصل ہوتا ہے لیکن اس کی زندگی سکون سے خالی ہوتی ہے۔ گھریلو رنجشوں اور گلے شکووں نے ہم سب کے ذہنوں میں اس قدر کدورتیں بھر رکھی ہیں کہ ہماری کوئی محفل گلے شکووں سے خالی نہیں ہوتی۔ حسین مجروح نے کیا ہی سچا شعر کہا ہے ؎
وہ قحطِ مخلصی ہے کہ یاروں کی بزم سے
غیبت نکال دیں تو فقط خامشی بچے
واصف صاحب زندگی کو پرسکون بنانے کے لیےگلہ اور شکوہ ترک کر دینے پر بار بار زور دیتے ہیں ۔ ایک موقع پر وہ کہتے ہیں:
"زندگی سے تقاضا اور گلہ نکال دیا جائے تو سکون پیدا ہو جاتا ہے۔ سکون اللہ کی یاد سے اور انسان کی محبت سے پیدا ہوتا ہے۔ نفرت اضطراب پیدا کرتی ہے۔ اضطراب اندیشے پیدا کرتا ہے اور اندیشہ سکون سے محروم کر دیتا ہے۔ محبت نہ ہو تو سکون نہیں۔"
ایک جگہ اپنے معتقدین کی محفل میں وہ ان سے وعدہ کرواتے ہوئے کہتے ہیں:
"اگر آپ وعدہ کریں کہ کسی انسان کا گلہ نہیں کریں گے تو آپ سے وعدہ ہے کہ آپ کو انسان کے روپ میں رحمان ملے گا، یہ پکی بات ہے کہ اگر انسان کا گلہ نہیں کرو گے تو انسان کے روپ میں راز ملے گا، اگر کبھی گلہ پیدا ہو جائے تو اپنے اللّٰه سے معافی مانگو کہ یا اللّٰه مجھے نیک کر دے اور میرے اندر گلہ نہیں پیدا ہونا چاہئے۔"
اسی محفل میں وہ کیسے پتے کی بات کہتے ہیں:
" آپ صرف اس آدمی کا گلہ کر سکتے ہو جس سے آپ کے خیال میں خدا ناراض ہے اور یہ فیصلہ صرف قیامت کو ہو گا کہ اللّٰه کس سے ناراض ہے۔ لہٰذا قیامت سے پہلے گلہ نہیں کرنا، تو آپ مجھ سے یہ پکا وعدہ کر لو کہ کسی کا گلہ نہیں کریں گے۔"
واصف علی واصف ؒ دوسرے صوفیوںکی طرح ظاہر کی بجائے باطن کی اصلاح پر زور دیتے ہیں۔ البتہ ان کے یہاں اصلاح باطن کے نام پر شریعت سے فرار کی راہ نہیں نکلتی۔ شرعی احکامات پر عمل پیرا ہوئے بغیر سلوک و تصوف کے سبھی مشاغل ان کے یہاں سعی لاحاصل ہیں۔ ایک موقع پر اپنے مریدین کو نماز باجماعت کی تلقین کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں
"بزرگوں کے جتنے بھی آستانے ہیں کوئی آستانہ بھی آپ نے ایسا نہیں دیکھا ہوگا جہاں مسجد نہ ہو۔ہم نے تو کوئی نہیں دیکھا۔آپ نے شائد کوئی دیکھا ہومگر نہیں۔لاہور میں داتا صاحب(رحمۃ اللّٰہ علیہ) کا آستانہ دیکھیں تو مسجد سارےلاہور میں سب سے اچھی ہے۔مسجد شریعت ہےآستانے کو طریقت سمجھ لو۔تو انہوں نے طریقت کو مختصر کیا ہے اور شریعت کو زیادہ کیا ا ہوا ہے۔ہر جگہ ایسا ہے۔میاں میر صاحب(رحمۃ اللّٰہ علیہ) کی مسجد دیکھ لوشاہ جمال(رحمۃ اللّٰہ علیہ) کی مسجد دیکھ لو۔تو یہ لوگ شریعت کا احترام کرتے تھے۔بلکہ اپنے آستانے سے پہلے مسجد بنایا کرتے تھے۔تو وہ شریعت کو violateنہیں کرتے۔"
واصف صاحبؒ شریعت کی روح تک پہنچنے کے لیے محبت اور عشق کی راہ پر چلنے کی تلقین کرتے ہیں۔ اقبالؔ نے کہا تھا کہ عقل و دل و نگاہ کا مرشد عشق نہیں ہو تو شرع و دیں بھی بتکدۂ تصورات بن جاتےہیں ۔ واصفؒ صاحب کہتے ہیں کہ اللہ کی محبت کا راستہ بندے کی محبت کے راستے سے ہو کر گزرتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اللہ جن انسانوں کو اپنے قریب رکھتا ہے انہی انسانوں کو ، انسانوں کے قریب کر دیتا ہے ۔ یعنی جو شخص اللہ کے ہاں جتنا محبوب ہو گا ، اس کے لئے انسانوں کی دنیا اتنی محبوب ہو گی ۔ اللہ کے ساتھ محبت کرنے والے انسانوں سے بیزار نہیں ہو سکتے اور انسان سے بیزار ہونے والے اللہ کے قریب نہیں ہو سکتے۔ایک موقع پر وہ کہتےہیں کہ انسان کا دِل توڑنے والاشخص اللہ کی تلاش نہیں کرسکتا۔ایک بار دورانِ گفتگو ابلیس کے لعین ہونے کی وجہ بتاتے ہوئے انھوںنےکہا کہ ابلیس نے خدا کو نہیں انسان کو ماننے سے انکار کیا تھا۔ واصف صاحب نے کیاہی معرفانہ بات کہی:
"اِبلیس کا معبود تو تھا، محبوب کوئی نہ تھا۔ لعین ہونے کے لیے اِتنا ہی کافی ہے۔ اِنسان کی محبت کے بغیر خدا کا سجدہ‘ اَنا کا سجدہ ہے۔ خدا اِنسان سے محبت کرتا ہے اور اِبلیس اور اُس کے چیلے اِنسان سے محبت نہیں کرتے۔ کیسے کر سکتے ہیں!اِنسان سے محبت وہی کر سکتا ہے‘ جس پر خدا مہربان ہو۔ خدا جب کسی پر بہت مہربان ہو‘ تو اُسے اپنے بہت پیارے محبوب ﷺکی محبت عطا کر دیتا ہے۔"
معاملات کی صفائی کے بغیر محبت اور عبادت کے دعوے جھوٹے ہیں۔ واصف علی واصفؒ معاملات کی صفائی پر اس قدر زور دیتےہیں کہ بسا اوقات گمان ہوتا ہے کہ وہ معاملات کی صفائی کو عبادت سے بھی مقدم تصور کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جو شخص وعدہ پورا نہ کرے اور نماز پڑھتا جائے تو وہ منافق بن جاتاہے۔ واصف علی واصفؒ کے نزدیک عبادت صرف ظاہری رسوم و قیود کا نام نہیں ہے بلکہ ان کے مطابق ہر وہ عمل عبادت ہے جو اللہ کے نزدیک محبوب ہے اور ہر وہ عمل فریب ہے جو اللہ کے نزدیک مردود ہے، خواہ وہ ظاہری اعتبار سے عبادت ہی کیوں نہ ہو۔ ان کا یہ قول کتنا معرفانہ ہے کہ "عبادت وہی ہے جو محبوب کو منظور ہو جائے ورنہ کروڑوں سال کی عبادت ایک سجدہ نہ کرنے سے ضائع ہوتے دیکھی ہے۔ "
واصف صاحبؒ کی تحریریں خاص و عام سب کے لیے یکساں تاثیر رکھتی ہے۔ بے قرار روحوں کےلیے ان کی تحریروں میں سامان قرار ہے۔ گنہ گاروں کےلیے ان کی تحریروں میں "لاتقنطوا" کی نوید ہے۔ آج جب ہر چہار جانب مایوسی ہے، خوف ہے، شکوک و شبہات ہیں، خوف ہے، ایسے میں واصف صاحب کی باتیںہمیں مایوسی کے حصار سے باہر نکال کر امید و یقین کی جنت میں داخل کرتی ہے۔ آپ کہتے ہیں:
"اللہ کی رحمت پر بھروسہ کرلیا جائے، اس کے فضل سے مایوسی نہ ہونے دی جائے تو خوف نہیں رہتا۔ کوئی رات ایسی نہیں جو ختم نہ ہوئی ہو کہ کوئی غلطی ایسی نہیں جو معاف نہ کی جاسکے۔ کوئی انسان ایسا نہیں جس پر رحمت کے دروازے بند ہوں ، رحم کرنے والے کا کام ہی یہی ہے کہ رحم کرے۔ رحم اس فضل کو کہتے ہیں جو انسانوں پر ان کی خامیوں کے باوجود کیا جائے اور یہ رحم ہوتا ہی رہتا ہے کسی کو خوف زدہ نہ کیا جائے تو خوف کا عذاب ٹل جاتا ہے۔"
واصف صاحبؒ عصر حاضرکے صوفی ہیں۔ عصری مسائل پر ان کی گہری نظر ہے۔ڈپریشن، غصہ، نفرت، تعصب، مسلکی انتشار،خونی رشتوں کی شکست و ریخت ،آج کے زمانے کے وہ مسائل ہیں جن سے ہر شخص نبردآزما ہے۔ واصف صاحب ؒ کی پوری زندگی کا ماحصل انسانی رشتوں سے وابستہ مسائل کی تفہیم و تعبیر تھی۔ رشتوں کے استحکام کے لیے انھوں نے محبت، شکر اور برداشت ان تین صفتوں کو بطور خاص اپنے اندر پیدا کرنے کی تلقین کی۔ انھوں نے خود پسندی،انا، غرور اور ہر وہ صفت جو انسان کو دوسرے انسان کی نظر میں ناپسندیدہ بناتی ہے، ترک کرنے پر زور دیا۔ ایک موقع پر آپ نے ارشاد فرمایا:
"اسلام میں داخل ہونے کے بعد اگر کوئی یہ دعویٰ کرے کہ وہ دوسرے مسلمانوں پر فوقیت رکھتا ہے’ تو اسے غلط سمجھیں۔ اپنی فضیلت کو فضیلت کے طور پر بیان کرنا ہی فضیلت کی نفی ہے’ انسان کی کم ظرفی ہے’ جہالت ہے۔ اصل فضیلت تو دوسروں کو فضیلت دینے میں ہے جیسا کہ علم میں دوسروں کو شامل کرنے کا نام علم ہے ورنہ علم سے دوسروں کو مرعوب کرنا اور احساسِ کمتری میں مبتلا کرنا جہالت ہے۔"
واصف صاحبؒ انسان کی عزت نفس کو ٹھیس پہنچانے کو گناہ کبیرہ سمجھتے تھے۔ انھوںنے نمائش سے بچنے اور سادہ زندگی گزارنے پر زور دیا۔ ان کے نزدیک وہ نمود و نمائش جس سے کسی کی غربت مجروح ہوتی ہو ناپسندیدہ ہے۔ ایک مقام پر انھوںنے کہا :
اگر نمائش کے بلب بند کر دو اور کسی غریب کے گھر میں ایک چھوٹا سا بلب جلا دو تو وہ نمائش سے بہتر ہے۔اگر تیرے گھر کی نمائش اس کے گھر کا چراغ بجھا رہی ہے تو میرا خیال ہے کہ اپنے گھر کی نمائش بند کر دو. تم اور کچھ نہ کرو صرف ایک کام کرو کہ دولت کا اظہار نہ کرو پھر غریب آدمی پریشان ہونا چھوڑ دے گا۔"
قطع تعلق اسلام میں انتہائی ناپسندیدہ عمل ہے۔ اللہ کے رسول نے تین دن سے زیادہ کسی مسلمان سے بات بند کرنے کو ناجائز قرار دیا۔ ہم میں سے ہر شخص قطع تعلق کی کراہت اور اس کی وعید سے واقف ہے لیکن المیہ ہے کہ ہم میں سے بیشتر لوگ اس گناہ کبیرہ میں ملوث ہیں۔ واصف صاحبؒ انسان کی نفسیات کا گہرا شعور رکھتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ رنجش کی حالت میں مذہبی اصول و ضوابط بالائے طاق رکھ دئیے جاتے ہیں۔ چنانچہ ایسے موقع پر وہ آیات و احادیث کی بجائے چند جملوں میں ایسی گہری بات کہہ جاتے تھے جو سیدھے دل پر چوٹ کرتی تھی۔ قطع تعلق کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے ایک بار انھوں نے کہا کہ "جس کا جنازہ نہیں چھوڑ سکتے اس سے تعلق کبھی مت توڑنا۔" اسی طرح ایک اور موقع سے آپ نے بڑا ہی بلیغ جملہ کہا۔ آپ نے فرمایا کہ جب "تعلق رکھنا ہے تو جھگڑا کس بات کا اور جب تعلق نہیں رکھنا تو جھگڑا کس بات کا۔"
مجھے افسوس ہے کہ میں نے واصف صاحبؒ کو نہیں دیکھا۔ اگر دیکھتا تو فرط عقیدت سے آپ کے دستِ مبارک کو بوسہ دیتا۔ میری زندگی پر آپ کے بے شمار احسانات ہیں۔ میرے ذہن کی منفی لہروں کو مثبت سمت عطا کرنے، میرے اندر کے اشتعال کو تھنڈا کرنے اور میرے اندر کے وحشی کو کسی حدتک انسان بنانے میں آپ کی تحریروں کا غیر معمولی کردار ہے۔ اللہ آپ کے درجات بلندفرمائے۔(آمین)۔ احمد ندیم قاسمی کا یہ شعر حضرت واصف علی واصفؒ کی ذات پر صد فیصد صادق آتا ہے ؎
مجھ کو دشمن کے ارادوں پہ بھی پیار آتا ہے
تیری الفت نے محبت مری عادت کر دی






--

ہفتہ, جنوری 04, 2025

احساس وآگہی کا نقیب انس مسرور انصاری کی کتاب عکس اور امکان پر ایک تاثراتی تحریر

احساس وآگہی کا نقیب 
انس مسرور انصاری کی کتاب عکس اور امکان پر ایک تاثراتی تحریر
Urduduniyanews72 
وصیل خان 

اس وقت میرے مطالعہ کی میز پر ٹانڈہ امبیڈکر نگر کے معروف شاعر وادیب انس مسرور انصاری کی تازہ ترین تجزیاتی تحریر پر مبنی کتاب " عکس اور امکان ,, موجود ہے جو بیشتر ادبی و تحقیقاتی مضامین پر مشتمل ہے ۔ میری عادت رہی ہے کہ میں کسی کتاب کا نہ تو طائرانہ مطالعہ کرتا ہوں نہ ہی سرسری اظہار خیال بلکہ  پوری کتاب کو بہ نظر عمیق پڑھنے کے بعد ہی اپنی رائے اور اظہار خیال کیلئے چند شکستہ  الفاظ جمع کرپاتا ہوں۔ کسی کی  بے جا تعریف وتو صیف ، مدح سرائی اور خواہ مخواہ کی  تنقیص کو بھی اللہ نے  میری فطرت سے دور رکھا ہے ۔  عام  روش سے مکمل انحراف اور تنقید و تنقیص میں فرق کرتے ہوئے خالص علمی سطح پر کلام کرتا ہوں ۔ اللہ اسی نہج کو قائم رکھے ۔ 
کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق 
نے آبلہ مسجد ہوں نہ تہذیب  کا فرزند ۔ 
انس مسرور صاحب سے میری واقفیت اس وقت سے ہے جب انہوں نے جولانگاہ ادب میں اولین  قدم رکھا تھا لیکن وہ دن اور آج کا دن نہ رکے نہ تھمے  نہ ہی تھکن سے سمجھوتہ کیا آج بھی بساط ادب پر پورے طمطراق سے نہ صرف  متمکن ہیں بلکہ آس پاس کے ادبی حلقوں میں  معتبر درجے پر فائز ہیں ۔ اب تک نثر ونظم پر مشتمل ان کی متعدد کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں ۔  انس مسرور انصاری صاحب ایک کہنہ مشق شاعر وادیب ہیں ،وہ ادب کی مختلف النوع اصناف پر نہ صرف طبع آزمائی کرتے ہیں بلکہ ان کی بیشتر کاوشات معیارو اعتبار کے درجہ پر فائز نظر آتی ہیں ۔ انس مسرور صاحب کی  شعری و نثری تخلیقات تصورات وجذبات کے امتزاج کا ایسا نگارخانہ ہے جس میں زندگی کے مختلف رنگ جھلکتے ہیں ،انسانی عظمت  میں آپ کا یقین غیر متزلزل  ہے ان کے یہاں خالی خولی جذباتی انداز نہیں بلکہ زندگی کے ٹھوس حقائق کا اظہار صاف ونمایاں نظر آتا ہے ۔ روایات کا احترام ان کی تخلیقات کا نمایاں عنصر تو ہے ہی ساتھ ہی وہ نیرنگ زمانہ کی بنتی بگڑتی صورتحال پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں اور مثبت حل بھی  تلاش کرلیتے ہیں ۔ ماضی اور حال کے دھندلکوں میں وہ نہ خود ایک تابناک مستقبل دیکھ رہے ہیں بلکہ اپنے قاری کو بھی اس تابناکی کا مشاہدہ کراتے ہیں ۔ اندھیروں کی گہری تہوں کا سینہ چاک کرکے اجالوں کو دیکھ لینا اور موسم خزاں میں بہار کا مشاہدہ بڑی بات ہے ، مزید یہ کہ وہ جس اسلوب میں قاری سے مخاطب ہوتے ہیں اس کی کشش وسادگی دلوں کو مسخر کرتی چلی جاتی ہے جس کا سبب یہ ہے کہ ان کا احساس ان کے  تخلیقی وجدان سے پوری طرح مربوط و منسلک ہے ۔ 
 عکس اور امکان ان کی تازہ ترین نثری تصنیف ہے جس میں کل بارہ مضامین شامل ہیں اولین مضمون تعلیقات نعت پر ہے جسے خالص تحقیقی انداز میں تحریر کیا گیا  ہے جس میں صنف نعت کے متعدد گوشوں پر مدلل اور موثر روشنی ڈالتے ہوئے قرآن واحادیث اور اس میدان کی عبقری شخصیات کے حوالے سے سیر حاصل بحث کی گئی ہے ۔ کتاب سے ایک اقتباس ہم یہاں نقل کررہے ہیں جس سے زبان وبیان پر گرفت کے ساتھ ان کی فکری رفعت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ 
" قوموں کے عروج وزوال کی تاریخ بتاتی ہے کہ دنیا میں کسی بھی قوم کو عروج صرف اس کی علمی برتری اور فوقیت کی بنیاد پر حاصل ہوتا ہے ۔ قرون وسطیٰ میں عرب مسلمانوں کو زندگی کے ہر میدان میں جو برتری اور تفوق حاصل تھا وہ صرف ان کی علمی برتری کا نتیجہ تھا۔ اس زمانہ میں مسلمان نہ صرف عقلی علوم میں یگانہ و یکتا تھے بلکہ دینی علوم کے امام بھی وہی تھے ۔ "
   دوسرا مضمون پروفیسر محمود الٰہی زخمی کی ادبی تحریکات و خدمات اور مولانا آزاد کے جریدہ الہلال کے تجزیاتی مطالعے پر مشتمل ہے ۔ اسی طرح ابوعلی حسن ابن اللہیشم اور یگانہ روزگار طبیب فلسفی شیخ بوعلی سینا کی فنی تحریکات ،ایجادات و اختراعات پر موثر گفتگو کی گئی ہے ۔ کچھ مضامین عصری ادباء و شعراء کی  شعری و نثری تخلیقات پر مشتمل ہیں جن میں انور جلال پوری ، شرافت حسین ،ڈاکٹر امین احسن ، احمد شبلی ، ذکی طارق ، ڈاکٹر ایم  نسیم اعظمی  اور مولانا شمشاد منظری شامل ہیں ۔ آج کے اس قحط الرجال میں خصوصاََ اردو ادب جس طرح اکھڑی  اکھڑی سانسیں لے رہا ہے اس طرح کی کتابیں یقیناً حیات بخش ثابت ہوسکتی ہیں ، انس مسرور انصاری کی یہ کاوش قابل قدر ہے ،ہم ایوان ادب میں اس خیر مقدم کرتے ہیں ۔ شائقین یہ کتاب قومی اردو تحریک  فاؤنڈیشن،سکراول ،اردو بازار ،ٹانڈہ ضلع امبیڈکر نگر  224190 یوپی سے حاصل کرسکتے ہیں۔

جمعہ, جنوری 03, 2025

مجبور اور نہ تم کو شرمسار کروں گانہ بھی ہوں گا تیرا تو دیدار کروں گا :سریش کمار

مجبور اور نہ تم کو شرمسار کروں گا
نہ بھی ہوں گا تیرا تو دیدار کروں گا :سریش کمار
Urduduniyanews72 
پی، ٹی، ای، سی، سرہتہ ویشالی میں ادبی وثقاتی پروگرام کا انعقاد ۔
 ویشالی مورخہ 03/جنوری (پریس ریلیز :محمد ضیاء العظیم) سرہتہ پی، ٹی، ای، سی میں مورخہ 02/جنوری بروز جمعرات کی شام ایک ادبی وثقاتی پروگرام کا انعقاد کیا گیا، جس میں اسکول بیسیس ٹریننگ لینے والے +2 کے اساتذہ نے پروگرام میں حصہ لیا،
پروگرام کی صدارت محترم سریش کمار پرنسپل پی، ٹی، ای، سی، سرہتہ نے کی، جبکہ نظامت کے فرائض کو محترم انیل کمار معلم چک غلام الدین ہائی اسکول ویشالی نے انجام دیا ۔ پروگرام پورے جوش وخروش کے ساتھ منایا گیا ۔ اساتذۂ کرام نے نظمیں، غزلیں، نغمات، اور مکالمے کے ذریعہ پروگرام کو دلچسپ بنایا، محترم انیل کمار چک غلام الدین ہائی اسکول ویشالی نے ایک دلچسپ مکالمہ پیش کیا، جس پر سامعین سے خوب داد وتحسین سے نوازا، محمد ضیاءالعظیم ،صدر عالم نے اپنے اشعار سنائے، ان کے علاوہ جن اساتذۂ کرام نے اس پروگرام میں حصہ لیا ان کی فہرست اس طرح ہے، ستیم کمار، منچون کمار، سنجیو کمار، نوین کمار، راجنی کماری، سمی، سریش پرساد، مکیش کمار، شاہد، سرفراز عالم کے نام مذکور ہیں ۔
آخر میں صدر محترم سریش کمار نے صدارتی خطبہ میں اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے تمام اساتذۂ کرام کو ٹریننگ مکمل ہونے کی پیشگی مبارکبادی دیتے ہوئے کہا کہ ہم سب یہاں ٹریننگ کے لئے حاضر ہوئے ہیں، اور اب وہ اختتام پر ہے، پھر انہوں نے اردو ہندی زبان وادب سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اردو ہندی کا رشتہ اتنا مضبوط اور مستحکم ہے کہ دونوں زبانیں سگی بہنیں ہیں، میں اردو شاعری کو بڑے شوق سے پڑھتا ہوں، اردو شاعری کا دائرہ بہت وسیع ہے، اردو شاعری میں سیاسی، معاشی، اقتصادی، معاشرتی، ہر پہلوؤں پر گفتگو ہوتی ہیں، شاعروں نے اپنے کلام میں کہیں سے بھی تشنگی کا احساس نہیں ہونے دیا ہے، آپ اساتذۂ کرام کی دلچسپی جو شعر وادب، نغمات ،اور مکالمے سے جو ہیں وہ مجھے دیکھ کر بیحد خوشی ہوئی، پھر صدر محترم سریش کمار نے اپنی شاعری، غزلیں سناکر محفل میں ایک نئی زندگی پیدا کردی دی، ساتھ ساتھ بڑے خوبصورت لب ولہجے کے ساتھ ہندی اور بھوجپوری نغمات گا کر سنایا، محفل میں موجود اساتذۂ کرام نے بھر پور داد وتحسین سے نوازا ۔
اس کے بعد صدر محترم کی اجازت سے پروگرام کے اختتام کا اعلان کیا گیا ۔
واضح رہے کہ سرہتہ ویشالی میں پانچ ایام کی رہایشی ٹریننگ حاصل کرنے ویشالی ضلع کے مختلف اسکولوں کے اساتذۂ کرام مورخہ 30/دسمبر 2024 سے 03/جنوری 2025 تک یہاں تشریف لائے تھیں، جو اپنے آخری پڑاؤ پر پہنچ چکی ہے ۔

جمعرات, جنوری 02, 2025

پیام انسانیت کے وفد کا سیمانچل دورہ

پیام انسانیت کے وفد کا سیمانچل دورہ
Urduduniyanews72 
Urduduniyanews72 @gmail.com 
ملک میں ایک ایسی تحریک جو خالص انسانی بنیاد پر کام کرتی ہے وہ پیام انسانیت ہے۔اس کےمحرک وبانی مفکر اسلام حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ علیہ ہیں۔ ۱۹۵۰ء کے اوائل ہی میں مولانا نےوطن میں اس تحریک کی ضرورت محسوس کی اور اس عنوان پر تحریرو تقریرکا سلسلہ جاری فرمادیا تھا، مگر باضابطہ ایک تحریک کی شکل میں ۱۹۷۴ء میں الہ آباد سے اس کاآغاز فرمایا ہے۔حضرت کے انتقال کے بعدحضرت مولانا سیدعبداللہ حسنی رحمۃ اللہ تاحیات اس اہم ذمہ داری کو بحسن وخوبی نبھانے رہے اور پورے ملک میں پیام انسانیت کے بندے تیار ہوگئے،اور اس وقت ناظم ندوۃ العلماء حضرت مولانا سید بلال عبدالحی حسنی ندوی مدظلہ العالی کی سرپرستی میں یہ کاروں رواں دواں ہے۔ ملک میں پیام انسانیت کی موجودہ وقت میں تین سو یونٹ کام کررہی ہے۔نیز تحریک پیام انسانیت کے کام کاج کی نوعیت ونگرانی اور تعارف کے لئے مرکزی ٹیم گاہے گاہے ملکی وریاستی دورے بھی کرتی رہتی ہے۔اسی مقصد کے تحت ایک وفد کا ماہ دسمبر کے اختتام پر سیمانچل اور نیپال کا دورہ ہوا ہے،اس ٹیم میں مولانا جنید احمد صاحب ندوی نیشنل آرگنائزر پیام انسانیت، مولانا سمعان خلیفہ صاحب ندوی، نامور مصنف ڈاکٹر عبدالحمید اطہرصاحب ندوی اور انجینئر مصلح الدین سعدی صاحب شامل تھے۔کشنگنج، پورنیہ، ارریہ اور نیپال میں تعارفی اجلاس منعقد کئے گئے، اس موقع پر وفد نے بہت ہی خوبصورت انداز میں تحریک کا تعارف اور اغراض ومقاصد سے ہمیں روشناس کرایا اور اس کی ضرورت واہمیت پر موثر گفتگو کرتے ہوئےچونکا دینے والے اعداد وشمار بھی پیش کئے ہیں،ان کی جانکاری ہمارے لئے بہت ہی ضروری ہے، اسی مقصد کے تحت یہ تحریر لکھی جارہی ہے۔
 مہمان وفد نے اپنی گفتگو میں یہ باتیں پیش کی ہیں کہ" اس وقت سب سے بڑا مسئلہ ملک کی آزادی کا ہے۔کس چیز سے آزادی؟ بھوک سے آزادی کا ہے،بھوک دنیا میں اموات کی نمبر ایک وجہ بنی ہوئی ہے، اس کے بعد ایڈز کینسر وغیرہ موت کی وجہ ہیں، دنیا میں ۸۲۰/ملین لوگ دائمی طور پر بھوکے ہیں، دنیا کے ایک تہائی بھوکے ہندوستان میں رہتے ہیں، ایسے نازک حالات میں ہم تحریک پیام انسانیت اپنی اولین ترجیح اور ذمہ داری سمجھتے ہیں کہ ہندوستان کو بھوک سے آزادی دلانے کے لئے اپنی وسعت میں ہم جو کچھ کرسکتے ہیں وہ کریں،ہم اپنے ملک عزیز کو بھوک سے آزاد ملک بنانے کے لئے اپنی عاجزانہ کوشش کررہے ہیں،اگر ہم میں سے ہر کوئی اس منفرد پہل میں ساتھ دے تو اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں کہ بھوک سے پاک ہندوستان کا خواب ہمارا پورا ہوسکتا ہے۔
آج ہمیں بیماری سے آزادی چاہئے، اس وقت ہندوستان کو فی ۱۰۰۰۰/دس ہزار افراد پر ۱۵/پندرہ ڈاکٹروں اور ۲۰/بیس اسپتالوں کے بستروں کی ضرورت ہے، ہمارے پاس فی الحال اس تعداد کا نصف ہے، اس کے معنی یہ ہے کہ ۷۰۰/سات سوملین (۷۰/ستر کروڑ) لوگ نظام صحت سے دور اور بنیادی ہیلتھ کیئر سے محروم ہیں۔
ہندوستان دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے اور دنیا کی ۲۰/بیس فیصد سے زیادہ نابینا آبادی کا گھر بھی ہے۔ بدقسمتی سے، یہ کسی بھی ملک میں نابینا بچوں کی سب سے بڑی تعداد کا بھی گھر ہے۔ ہندوستان میں نابینا پن میں ۵۰/پچاس سال کی عمر کے بعد تیزی سے اضافہ ہوتا ہے۔ شہری ہندوستان میں ماہر امراض چشم اور آبادی کا تناسب ہر پچیس ہزار افراد پر ایک ماہر ہے، لیکن دیہی ہندوستان میں، یہ تقریباًہر ڈھائی لاکھ افراد پر ایک ماہر ہے،ہائی پر ٹینشن (Hypertension) کو طویل عرصے سے ہندوستان میں دائمی بیماری کے بوجھ، بیماری اور اموات کے لیے ایک بڑے خطرے والے عوامل میں سے ایک کے طور پر تسلیم کیا جاتا رہا ہے، جو کہ ملک میں ہونے والی تمام اموات میں سے 10۰8/ فیصد ہے۔ہم تحریک پیام انسانیت اپنی عاجزانہ کوششوں سے حالات پر قابو پانے کے لیے کیمپوں کا اہتمام کرتے ہیں۔ عام اور خصوصی میڈیکل کیمپس۔آئی چیک اپ کیمپس۔ ہم خصوصی آئی چیک اپ کیمپس اور ان میں حسب استعداد آنکھوں کے چشموں کے ہدیہ دینے کا بھی اہتمام کرتے ہیں۔
آج ملک کو منشیات سے آزادی چاہئے، گانجہ استعمال کرنے والے لوگ ۳/تین کروڑ ۱۰/دس لاکھ ہیں، افیم کا استعمال کرنے والے ۲/دوکروڑ ۳۰/تیس لاکھ ہیں، ہیروئن کا کرنے والے ۶۳/تیرسٹھ لاکھ لوگ ہیں، میڈیکل دوائیوں سے نشہ کرنے والے لوگ ۲۵/پچیس لاکھ ہیں، ناک کے ذریعے سے کھینچ کر نشہ کرنے والے ۷۷/ستترلاکھ ہیں، انمیں ۵۱/اکاون لاکھ مرد ہیں اور ۲۶/چھبیس لاکھ بچے ہیں جو اپنی ناک کے ذریعہ کھینچ کر نشہ کرتے ہیں، شرابیوں کی تعداد اس وقت وطن عزیز میں سولہ کروڑ ہے"۔
مذکورہ بالا اعداد وشمار سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اپناملک اس وقت تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے، مذہب اور ذات پات کی سیاست یہاں ہورہی ہے، انسانیت کے لئے کوئی فکر نہیں ہے، پیام انسانیت یہ غیر سیاسی اور غیر مذہبی تحریک کانام ہے،انسانیت کی خدمت کے لئے وجود میں آئی ہے،یہ انبیائی مشن ہے، لہذا اس تحریک سے ہمیں وابستہ ہونے کی ضرورت ہے، یہ ہمارے لئے ضروری بھی ہے اورموجودہ حالات کے تناظر میں یہ ہماری مجبوری بھی ہے۔مدارس ومساجد اور خانقاہوں کی حفاظت کے لئے بھی پیام انسانیت کا اسٹیج ہمارے لئےبہت ہی موثر اور معاون ہے۔
حضرت علی میاں رحمۃ اللہ فرماتے تھے کہ "پیام انسانیت کی تحریک، ملک کے تمام دینی، تعلیمی، علمی کوششوں اور تحریکوں کے لئے ایک حصار کی حیثیت رکھتی ہے جس کے اندر رہ کر ہرکوشش کامیاب ہوسکتی ہے اوراس کو اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے پرسکون اور معتدل فضا مہیا ہوگی، اس لئے اس تحریک کو میں ہرتحریک کا خادم اور معاون سمجھتا ہوں، اور میرے نزدیک ہر دعوت وتحریک کو اس کا خیر مقدم کرنا چاہئے،کم سےکم اس کی حیثیت وہ ہےجو کسی فراش یا سقہ، یا زمین برابر کرنے والے، یا شامیانہ لگانے والے کی ہوتی ہے، جس کے بعد کوئی بھی جلسہ یا اجتماع ہوسکتا ہے، خواہ وہ خالص مذہبی نوعیت کا ہو یا تعلیمی بحث و مذاکرہ کا"۔
            جس کی ادا ادا پہ ہو انسانیت کو ناز 
             مل جائے کاش ایسا بشر ڈھونڈتے ہیں ہم
راقم الحروف 
ہمایوں اقبال ندوی 
نائب صدر، جمعیت علماء ارریہ 
وجنرل سکریٹری، تنظیم أبناء ندوہ پورنیہ کمشنری

منگل, دسمبر 31, 2024

نئے سال کا آغاز: ایک نیا سفر

نئے سال کا آغاز: ایک نیا سفر

Urduduniyanews72 
نیا سال ایک نیا آغاز، ایک نئی امید اور نئی جدوجہد کا پیغام لے کر آتا ہے۔ یہ دن نہ صرف ایک کیلنڈر کی تبدیلی کا علامت ہے بلکہ ایک نئے سفر کی شروعات کا بھی اعلان کرتا ہے۔ جب ہم پچھلے سال کے تجربات اور یادوں کو پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھتے ہیں، تو یہ وقت ہمیں اپنے مقاصد پر نظر ثانی کرنے، اپنی زندگی کے راستے کو دوبارہ ترتیب دینے اور خود کو نئے سرے سے دریافت کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔
نئے سال کی آمد ہمیں ایک موقع فراہم کرتی ہے کہ ہم اپنے گذشتہ سال کی کامیابیوں اور ناکامیوں پر غور کریں۔ یہ لمحے ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ زندگی مسلسل تبدیلی کا نام ہے۔ ہر دن ایک نیا موقع ہے اور ہر سال ایک نیا مرحلہ۔ نئے سال کی ابتدا ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ ہم نے گزشتہ سال کیا سیکھا، کہاں غلطی کی، اور آئندہ سال کو کیسے بہتر بنا سکتے ہیں۔
نئے سال کی قراردادیں ایک روایتی عمل ہیں جن میں لوگ اپنے ذاتی، پیشہ ورانہ یا جسمانی اہداف کے بارے میں سوچتے ہیں۔ یہ اہداف کچھ بھی ہو سکتے ہیں، جیسے کہ وزن کم کرنا، نئی مہارتیں سیکھنا، زیادہ وقت اپنے اہل خانہ کے ساتھ گزارنا، یا زندگی کے کسی مقصد کی طرف قدم بڑھانا۔ یہ قراردادیں صرف لفظوں تک محدود نہیں رہنی چاہئیں بلکہ ان پر عمل بھی ضروری ہے۔ نئے سال کا آغاز ایک نیا عزم اور لگن کا وقت ہوتا ہے، جب ہم اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کے لئے سرگرم ہو جاتے ہیں۔
نیا سال ہمیں اپنی زندگی کے تمام پہلوؤں میں خوشی، سکون اور کامیابی کی دعائیں دینے کا موقع دیتا ہے۔ یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہمیں اپنے ارد گرد کے لوگوں کی قدر کرنی چاہیے، چاہے وہ دوست ہوں، خاندان ہو یا وہ افراد جو ہماری زندگی میں خوشی کی لہر لاتے ہیں۔ نیا سال ایک نیا آغاز ہونے کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنی زندگی کو بہتر بنانے اور دوسروں کی خوشی میں شریک ہونے کی ترغیب دیتا ہے۔
آج کے دور میں نئے سال کا جشن بہت سے مختلف طریقوں سے منایا جاتا ہے۔ کچھ لوگ دوستوں اور خاندان کے ساتھ محفلیں سجاتے ہیں، کچھ لوگ عبادت گاہوں میں جا کر دعا گو ہوتے ہیں، جبکہ کچھ لوگ سفر کرتے ہیں یا نئے تجربات حاصل کرنے کے لئے نئے راستوں پر نکل پڑتے ہیں۔ ہر طریقہ مختلف ہو سکتا ہے لیکن تمام جشن کا مقصد ایک ہی ہے: خوشی، محبت اور امید کا پیغام دینا۔
نیا سال ہمیں اپنے ارد گرد کے لوگوں کے لئے محبت، عزت اور خوشی کے پیغامات دینے کا بہترین موقع فراہم کرتا ہے۔ یہ وقت ہے جب ہم اپنے رشتہ داروں، دوستوں اور ہمسایوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے اقدامات کرتے ہیں۔ محبت اور مہربانی انسانیت کا بنیادی جزو ہیں اور ہمیں اپنے تعلقات میں ان اصولوں کو ترجیح دینی چاہیے۔ نئے سال کا جشن نہ صرف اپنی خوشیوں کو منانے کا موقع ہوتا ہے، بلکہ دوسروں کی خوشیوں میں شریک ہونے کا بھی ہوتا ہے۔\
نیا سال ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ زندگی ایک مسلسل سفر ہے جس میں خوشی، غم، کامیابیاں اور ناکامیاں سب کچھ ہیں۔ ہمیں ہر سال کو ایک نئے آغاز کے طور پر دیکھنا چاہیے اور اس میں نئی امید، نیا عزم اور نیا جذبہ تلاش کرنا چاہیے۔ ہر دن کو ایک نیا موقع سمجھیں اور اس کے ساتھ اپنی زندگی کو بہتر بنانے کے لئے محنت کریں۔ نیا سال ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ ہم کس طرح اپنی زندگی میں مثبت تبدیلی لا سکتے ہیں اور ایک نئی سمت میں قدم بڑھا سکتے ہیں۔
نتیجہ: 
نیا سال ایک نیا موقع ہے، ایک نیا آغاز، اور ایک نیا عہد۔ یہ ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ زندگی میں تبدیلی لانے کے لئے صرف ارادے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر ہم اپنے اندر کی طاقت اور عزم کو بروئے کار لاتے ہیں، تو ہم اپنے تمام مقاصد اور خوابوں کو حقیقت میں بدل سکتے ہیں۔ نئے سال کے ساتھ ہی ہمیں اپنی زندگی کو بہتر بنانے، دوسروں کی مدد کرنے اور دنیا کو ایک بہتر جگہ بنانے کے لئے کام کرنا چاہیے۔

از قلم ✍️: احمد علی ندوی 
معلم: خنساء اسلامک انگلش اسکول بہیڑہ ،دربھنگہ ،بہار

کیلنڈر کے بدلنےسے مقدر کب بدلتا ہےڈاکٹر صالحہ صدیقی (الٰہ آباد)

کیلنڈر کے بدلنےسے مقدر کب بدلتا ہے
Urduduniyanews72 
ڈاکٹر صالحہ صدیقی (الٰہ آباد)

سال 2024 میں ہندوستان نے سماجی اور معاشی میدانوں میں قابل ذکر ترقی کی ہے۔ اقتصادی سروے 2023-24 کے مطابق، حقیقی جی ڈی پی میں 6.5 سے 7 فیصد کے درمیان اضافہ متوقع ہے، جو وبائی مرض کے بعد معیشت کی تیز رفتار بحالی کی نشاندہی کرتا ہے۔ افراط زر کی شرح میں مسلسل کمی دیکھی گئی، جو 4 فیصد کے ہدف کی جانب بڑھ رہی ہے، جبکہ بنیادی افراط زر (نان فوڈ، نان فیول) 3.1 فیصد پر مستحکم ہے۔ 
خواتین کی لیبر فورس میں شرکت کی شرح میں بھی اضافہ ہوا، جو 2017-18 میں 23.3 فیصد سے بڑھ کر 2022-23 میں 37 فیصد ہوگئی، جس کی بنیادی وجہ دیہی خواتین کی بڑھتی ہوئی شرکت ہے۔ تاہم، سماجی سطح پر کچھ چیلنجز بھی درپیش رہے۔ مسلم معاشرہ تاریخی، سماجی، اقتصادی اور سیاسی مسائل کا سامنا کر رہا ہے، جو ان کی زندگیوں پر منفی اثرات مرتب کر رہے ہیں۔ مستقبل کے حوالے سے، ہندوستان کی معیشت میں تیز رفتار ترقی کے امکانات روشن ہیں۔ توقع ہے کہ 2030 تک ہندوستان دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت بن جائے گا، جس کی جی ڈی پی 2022 میں تقریباً 3.5 کھرب ڈالر سے بڑھ کر 2030 تک 7.3 کھرب ڈالر تک پہنچنے کی امید ہے۔ مزید برآں، قابل تجدید توانائی کے شعبے میں بھی نمایاں پیش رفت ہوئی ہے۔ پچھلے ساڑھے آٹھ سالوں میں نصب شدہ غیر فوسل ایندھن کی صلاحیت میں 396 فیصد اضافہ ہوا، اور ملک کی توانائی کی کل صلاحیت کا تقریباً 46.3 فیصد اب غیر فوسل ذرائع سے حاصل ہوتا ہے، جو پائیدار توانائی کے تئیں ہندوستان کے عزم کی عکاسی کرتا ہے۔ 
ان تمام عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے، ہندوستان کا مستقبل سماجی اور معاشی دونوں اعتبار سے روشن نظر آتا ہے، بشرطیکہ موجودہ چیلنجز کا مؤثر حل تلاش کیا جائے اور ترقی کی رفتار کو برقرار رکھا جائے۔سال 2024 میں ہندوستان نے سماجی اور معاشی میدانوں میں قابل ذکر ترقی کی ہے۔ اقتصادی سروے 2023-24 کے مطابق، حقیقی جی ڈی پی میں 6.5 سے 7 فیصد کے درمیان اضافہ متوقع ہے، جو وبائی مرض کے بعد معیشت کی تیز رفتار بحالی کی نشاندہی کرتا ہے۔ افراط زر کی شرح میں مسلسل کمی دیکھی گئی، جو 4 فیصد کے ہدف کی جانب بڑھ رہی ہے، جبکہ بنیادی افراط زر (نان فوڈ، نان فیول) 3.1 فیصد پر مستحکم ہے۔ خواتین کی لیبر فورس میں شرکت کی شرح میں بھی اضافہ ہوا، جو 2017-18 میں 23.3 فیصد سے بڑھ کر 2022-23 میں 37 فیصد ہوگئی، جس کی بنیادی وجہ دیہی خواتین کی بڑھتی ہوئی شرکت ہے۔ تاہم، سماجی سطح پر کچھ چیلنجز بھی درپیش رہے۔ مسلم معاشرہ تاریخی، سماجی، اقتصادی اور سیاسی مسائل کا سامنا کر رہا ہے، جو ان کی زندگیوں پر منفی اثرات مرتب کر رہے ہیں۔ مستقبل کے حوالے سے، ہندوستان کی معیشت میں تیز رفتار ترقی کے امکانات روشن ہیں۔ توقع ہے کہ 2030 تک ہندوستان دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت بن جائے گا، جس کی جی ڈی پی 2022 میں تقریباً 3.5 کھرب ڈالر سے بڑھ کر 2030 تک 7.3 کھرب ڈالر تک پہنچنے کی امید ہے۔ 
مزید برآں، قابل تجدید توانائی کے شعبے میں بھی نمایاں پیش رفت ہوئی ہے۔ پچھلے ساڑھے آٹھ سالوں میں نصب شدہ غیر فوسل ایندھن کی صلاحیت میں 396 فیصد اضافہ ہوا، اور ملک کی توانائی کی کل صلاحیت کا تقریباً 46.3 فیصد اب غیر فوسل ذرائع سے حاصل ہوتا ہے، جو پائیدار توانائی کے تئیں ہندوستان کے عزم کی عکاسی کرتا ہے۔ ان تمام عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے، ہندوستان کا مستقبل سماجی اور معاشی دونوں اعتبار سے روشن نظر آتا ہے، بشرطیکہ موجودہ چیلنجز کا مؤثر حل تلاش کیا جائے اور ترقی کی رفتار کو برقرار رکھا جائے۔سال 2024 میں، مختلف شعبوں میں ترقی کے ساتھ ساتھ کچھ کمی اور چیلنجز بھی دیکھے گئے جو ہندوستان اور دیگر ممالک کی مجموعی ترقی پر اثرانداز ہوئے۔
1. ماحولیاتی چیلنجز:
موسمیاتی تبدیلی: 2024 میں گلوبل وارمنگ کے اثرات مزید شدت اختیار کر گئے، جس سے گرمی کی شدید لہریں اور قدرتی آفات میں اضافہ ہوا۔
ماحولیاتی تحفظ کے وعدوں پر عملدرآمد میں کئی ممالک ناکام رہے۔
2. اقتصادی مسائل:
افراطِ زر اور بیروزگاری نے عام عوام کی زندگی کو متاثر کیا۔کئی شعبوں میں غیر متوقع معاشی دباؤ کے باعث چھوٹے کاروبار اور زراعت متاثر ہوئے۔عالمی سطح پر معیشت کی سست روی، جس کی وجہ یوکرین جنگ کے اثرات اور دیگر عالمی تنازعات ہیں۔
3. سماجی مسائل:
عدم مساوات اور غربت کے مسائل میں نمایاں کمی نہیں آئی۔خواتین اور اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے پیش رفت کے باوجود، کئی علاقوں میں عدم مساوات جاری رہی۔
4. تعلیمی شعبے میں کمی:
ترقی پذیر ممالک میں ڈیجیٹل تعلیم تک رسائی کی کمی نمایاں رہی۔تعلیمی بجٹ میں کمی اور معیاری تعلیمی مواقع کی کمیابی نے تعلیم کے شعبے میں مسائل پیدا کیے۔
5. صحت کے مسائل:
نئی بیماریوں اور ویکسینیشن کے حوالے سے مسائل۔صحت کے بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری کی کمی نے دیہی علاقوں میں صحت کی سہولیات کو متاثر کیا۔
6. سیاسی چیلنجز:
سیاسی عدم استحکام اور تنازعات، خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں، اقتصادی اور سماجی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنے۔سماجی ہم آہنگی کو برقرار رکھنے میں ناکامی اور مذہبی و نسلی تنازعات۔
7. ٹیکنالوجی کے منفی اثرات:
مصنوعی ذہانت اور آٹومیشن کے بڑھتے ہوئے استعمال نے بیروزگاری میں اضافہ کیا۔سائبر سیکیورٹی کے خطرات میں اضافہ ہوا۔2024 میں درپیش ان چیلنجز سے سیکھ کر، ممالک کو پائیدار ترقی، سماجی انصاف، اور ماحولیاتی تحفظ کے لیے مزید موثر حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔2024 کے تجربات کی روشنی میں، ان پہلوؤں پر توجہ دینا ضروری ہے تاکہ مستقبل میں ترقی اور خوشحالی کو یقینی بنایا جا سکے:
1. معیشت کی مضبوطی:
روزگار کے مواقع: بیروزگاری کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے ہنر مندی کے پروگراموں اور چھوٹے کاروباروں کی حمایت پر توجہ دی جائے۔
معاشی ناہمواری: دولت کی منصفانہ تقسیم اور غربت کے خاتمے کے لیے پالیسیاں بنائی جائیں۔
زرعی ترقی: زراعت کے جدید طریقوں کو فروغ دینا اور کسانوں کے مسائل حل کرنا۔
2. ماحولیاتی تحفظ:
قابل تجدید توانائی: قابل تجدید ذرائع جیسے سولر اور ونڈ انرجی پر سرمایہ کاری بڑھائی جائے۔
شجرکاری مہمات: جنگلات کی کٹائی کو روک کر شجرکاری مہمات کو فروغ دیا جائے۔
آلودگی کا خاتمہ: صنعتی آلودگی پر قابو پانے اور پلاسٹک کے استعمال کو کم کرنے کے اقدامات کیے جائیں۔
3. تعلیم اور تحقیق:
معیاری تعلیم: دیہی اور پسماندہ علاقوں میں معیاری تعلیمی سہولیات فراہم کی جائیں۔
ڈیجیٹل تعلیم: انٹرنیٹ اور ٹیکنالوجی تک رسائی کو عام کیا جائے۔
تحقیق کی اہمیت: تعلیمی اداروں میں تحقیق کے مواقع پیدا کیے جائیں، خاص طور پر سائنس اور ٹیکنالوجی میں۔
4. صحت کا بہتر نظام:
صحت کی بنیادی سہولیات: دیہی علاقوں میں اسپتال اور کلینک کی دستیابی یقینی بنائی جائے۔
ویکسینیشن اور بیماریوں کی روک تھام: وبائی امراض کے خلاف موثر منصوبہ بندی۔
ذہنی صحت: ذہنی صحت کے مسائل کو ترجیح دی جائے اور مشاورت کی سہولیات فراہم کی جائیں۔
5. سماجی ہم آہنگی:
مساوات: خواتین، اقلیتوں، اور پسماندہ طبقات کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔
مذہبی ہم آہنگی: رواداری اور باہمی احترام کو فروغ دینے کے لیے تعلیمی اور سماجی مہمات چلائی جائیں۔
غربت کا خاتمہ: سماجی تحفظ کے پروگرامز کے ذریعے ضرورت مندوں کو سہارا دیا جائے۔
6. سیاسی استحکام:
شفافیت: حکومتی فیصلوں میں شفافیت اور احتساب کو یقینی بنایا جائے۔
سیاسی ہم آہنگی: مختلف نظریات کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے مذاکرات کو فروغ دیا جائے۔
 اصلاحات: انتخابات کو شفاف اور غیر متنازع بنانے کے لیے مؤثر اقدامات کیے جائیں۔
7. ٹیکنالوجی کا مثبت استعمال:
ڈیجیٹل معیشت: ڈیجیٹلائزیشن کو فروغ دے کر معیشت کو مضبوط بنایا جائے۔
سائبر سیکیورٹی: سائبر خطرات سے نمٹنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی اور تربیت پر زور دیا جائے۔
مصنوعی ذہانت: AI اور آٹومیشن کے شعبے میں ملازمت کے نئے مواقع پیدا کیے جائیں۔
8. عالمی تعاون:
بین الاقوامی تعلقات: تجارتی اور ماحولیاتی معاہدوں میں فعال کردار ادا کریں۔
امن کا فروغ: عالمی سطح پر امن و امان کے قیام کے لیے موثر سفارتی حکمت عملی اپنائیں۔
یہ پہلو زندگی کے تمام شعبوں میں پائیدار ترقی اور خوشحالی کو یقینی بنا سکتے ہیں، بشرطیکہ ان پر ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔

جمعہ, دسمبر 27, 2024

ज़िया ए हक़ फाउंडेशन की ओर से भारत के महान नेता, पूर्व प्रधानमंत्री डॉ. मनमोहन सिंह जी को भावपूर्ण श्रद्धांजलि।

ज़िया ए हक़ फाउंडेशन की ओर से भारत के महान नेता, पूर्व प्रधानमंत्री डॉ. मनमोहन सिंह जी को भावपूर्ण श्रद्धांजलि।
Urduduniyanews72 

डॉ. मनमोहन सिंह ने देश के आर्थिक और सामाजिक विकास में अभूतपूर्व योगदान दिया। उनकी ईमानदारी, विद्वत्ता, और मृदुभाषी नेतृत्व ने भारत को नई ऊंचाइयों पर पहुंचाया। उनका जीवन और योगदान हर भारतीय के लिए प्रेरणास्रोत रहेगा।
उनकी स्मृति में, ज़िया ए हक़ फाउंडेशन उनके आदर्शों पर चलते हुए समाज सेवा और राष्ट्रीय विकास के प्रति अपनी प्रतिबद्धता दोहराता है। ईश्वर उनकी आत्मा को शांति प्रदान करें और उनके परिवार को इस कठिन समय में संबल दें।
डॉ. मनमोहन सिंह जी को श्रद्धांजलि देते हुए मोहम्मद वकार, मोहम्मद हाशिम, मोहम्मद ओसामा, और डॉ. सालेहा सिद्दीकी ने अपने विचार साझा किए:
मोहम्मद वकार ने कहा "डॉ. मनमोहन सिंह जी देश के सच्चे सेवक थे। उन्होंने अपने नेतृत्व और विद्वता से देश की अर्थव्यवस्था को नई ऊंचाइयों पर पहुंचाया। उनका जीवन हमें ईमानदारी और कर्तव्यनिष्ठा का संदेश देता है।"मोहम्मद हाशिम ने कहा "उनका योगदान न केवल भारतीय अर्थव्यवस्था के लिए ऐतिहासिक था, बल्कि उन्होंने समाज में सादगी और सेवा की मिसाल कायम की। उनका नेतृत्व और दृष्टिकोण हर भारतीय के लिए प्रेरणा का स्रोत रहेगा।" मोहम्मद ओसामा ने कहा 
"डॉ. सिंह ने अपनी विद्वता और दूरदृष्टि से भारत को वैश्विक स्तर पर एक सम्मानजनक स्थान दिलाया। उनकी मृदुभाषी और सादगीपूर्ण शैली हर किसी को प्रभावित करती थी। उनकी कमी हमेशा महसूस होगी।"डॉ. सालेहा सिद्दीकी ने कहा"डॉ. मनमोहन सिंह जी एक अद्वितीय विद्वान और सच्चे राष्ट्रसेवक थे। उन्होंने न केवल भारत को आर्थिक रूप से सशक्त किया बल्कि राजनीति में नैतिकता का उदाहरण प्रस्तुत किया। उनकी स्मृतियां हमें सदैव प्रेरित करेंगी।"
इन चारों ने मिलकर कहा कि डॉ. मनमोहन सिंह का जीवन और योगदान सदैव याद किए जाएंगे, और उनके आदर्शों को आगे बढ़ाने का प्रयास किया जाएगा।
"देश उन्हें हमेशा याद करेगा।"

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...