Powered By Blogger

منگل, مارچ 04, 2025

** اللٌٰہ ***

** اللٌٰہ *** 
Urduduniyanews72
میرے جنوں کو شعلہ بیانی دےاللٌٰہ 
پتھر بھی ہوجائے پانی، دےاللٌٰہ

میرےدریدہ پیراہن بھی مہک اٹھیں
پھولوں سادن رات سہانی دےاللٌٰہ

میرےباغ کےگل بوٹےبھی ہوں خوش تر
گوہرِ شبنم کی ارزانی دےاللٌٰہ

میرےتیرےبیچ نہ کوئی حائل ہو
ایسا کوئی رازِ نہانی دےاللٌٰہ

طیبہ جاؤں پلکوں سے ذرات چنوں 
قسمت کو انمول نشانی دےاللٌٰہ

صحراؤں میں بیت گئی یہ عمرتمام 
برسوں کاپیاساہوں، پانی دےاللٌٰہ

موجوں کی طغیانی کا ادراک ملے
کشتی کو اب اذنِ روانی دےاللٌٰہ

خاک کاپیکرہوں لیکن تو چاہے تو
میری غزل کونور فشانی دےاللٌٰہ

اپنی قوم کے نام جسے منسوب کروں 
ایسی غیرت خیز کہانی دےاللٌٰہ

گھر آنگن کومہکادےتورحمت سے
بیلا، جوہی،رات کی رانی دےاللٌٰہ

میری کیااوقات دعا کو ہاتھ اٹھاؤں 
تو چاہے تو سب آسانی دےاللٌٰہ

سب اشعار انس مسرورکےہوں مقبول 
ایسا طرزِ پاک بیانی دےاللٌٰہ
                    **********     
                * انس مسرورانصاری
         ,قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن
سکراول،اردوبازار،ٹانڈہ۔ضلع امبیڈکرنگر۔224190/
                                ( یو، پی) 
                      رابطہ/9453347784/

جمعہ, فروری 28, 2025

رمضان المبارک کے روزے صبر وتحمل کا پیغام ۔

رمضان المبارک کے روزے صبر وتحمل کا پیغام ۔
     مضمون نگار :  محمد ضیاء العظیم قاسمی ،
معلم  چک غلام الدین ہائی اسکول بیلسر ،ویشالی ،بہار 
موبائل نمبر 7909098319 
Urduduniyanews72
           اللہ رب العزت نے اس دنیا کی تخلیق فرما کر انسانوں کے سلسلے کو جاری وساری فرمایا، اور انسانوں کے مزاج اور اس کی ضروریات کے مطابق دنیا کی تمام چیزوں کو پیدا فرمایا ہے۔ رب کائنات نے انسانوں کی تخلیقات ایک عظیم مقصد کے تحت فرمائی ہے، انسان جب اپنی تخلیقی پس منظر پر غور وفکر کرکے آیات قرآنی پر نظر ڈالتا ہے تو اسے اس بات کا علم واندازہ ہوتا ہے کہ انس وجن کی تخلیقات رب کائنات کی عبادت وریاضت اور بندگی کے واسطے کی گئی ہے، وَمَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَالۡاِنۡسَ اِلَّا لِيَعۡبُدُوۡنِ (الذریات: ٥٦)
ترجمہ: اور میں نے جنات اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔

عبادت وبندگی نام ہے امر بالمعروف ونہی عن المنکر یعنی احکامات الہی کے بنائے حدود اور دائرے میں رہ کر زندگی گزارنے کا۔
اللہ رب العزت نے انسانوں پر چند احکامات فرض کیے ہیں جنہیں بجا لانا لامحالہ کلمۂ طیبہ پڑھنے والوں اور اس پر یقین کرنے والوں کے لئے لازمی ہے، ان احکامات میں سے ایک حکم رمضان المبارک کے روزے ہیں،
اللہ رب العزت نے مسلمانوں پر رمضان المبارک کا روزے فرض کیے ہیں۔ اور روزہ نام ہے صبح صادق سے غروب آفتاب تک کھانے پینے اور نفسانی خواہشات سے رک جانے کا۔
روزہ ارکان اسلام کا ایک رکن ہے،  رمضان المبارک اسلامی سال کا  نواں مہینہ ہے اس ماہ کی فضیلت واہمیت، افضلیت و برتریت دیگر ماہ سے بڑھے ہوئے ہیں۔ کیوں کہ یہ ماہ اپنے اندر کئی جہت سے خصوصیات کا حامل ہے، اور سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اسی ماہ میں کلام اللہ کا نزول ہوا جس کی شہادت خود قرآن مجید نے دی ہے۔ 

شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰى وَ الْفُرْقَانِۚ (البقرۃ: ١٨٥)
ترجمہ: رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگوں کے لئے ہدایت اور رہنمائی ہے اور فیصلے کی روشن باتوں (پر مشتمل ہے۔) 
اللہ رب العزت نے روزے کی فرضیت کے وجوہات بھی خود قرآن مجید میں واضح طور پر بیان فرمائے:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ (البقرۃ: ١٨٣)
ترجمہ: اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم متقی (پرہیزگار) بن جاؤ۔

تقوی کیا ہے؟
تقوی کا استعمال شرعی لحاظ سے دو معنوں پر ہوتا ہے، بچنا احتیاط کرنا، اور گناہ ومعصیت سے خوفزدہ ہوتے ہوئے دور رہنا ،ظاہر ہے کہ جب کسی چیز سے انسان خوفزدہ ہوگا  تبھی ان چیزوں سے احتیاط کرے گا، تقوی کا اصل تقاضہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے قائم کردہ اصول شکنی سے خوفزدہ ہونا اور اس خوف کی وجہ سے ناجائز خواہشات اور تمام قسم کے معصیت اور فواحش سے بچنا۔
رمضان المبارک کے روزے ہمیں تقویٰ وخشئیت الہی کا درس دیتا ہے، کیوں کہ روزے کی حالت میں حلال اور جائز ومباح چیزیں بھی حرام ہیں اور یہ محض رب کی اطاعت و بندگی کے تقاضے پورے کرنے کے لئے، یقیناً اللہ رب العزت نے انسانوں کے درجے اور مراتب طے کرتے ہوئے واضح طور پر فرمان جاری کردیا کہ ہمارے نزدیک محترم ومکرم اور معظم وہ بندہ ہے جو مجھ سے میرے معاملے میں تقویٰ پرہیزگاری کا لحاظ رکھے؛ يَآ اَيُّـهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّاُنْثٰى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا ۚ اِنَّ اَكْـرَمَكُمْ عِنْدَ اللّـٰهِ اَتْقَاكُمْ ۚ اِنَّ اللّـٰهَ عَلِيْـمٌ خَبِيْـرٌ (الحجرات: ١٣)
اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک ہی مرد اور عورت سے پیدا کیا ہے اور تمہارے خاندان اور قومیں جو بنائی ہیں وہ اس لیے تاکہ تمہیں آپس میں پہچان ہو، بے شک زیادہ عزت والا تم میں سے اللہ کے نزدیک وہ ہے جو تم میں سے زیادہ پرہیزگار ہے، بے شک اللہ سب کچھ جاننے والا خبردار ہے۔

یقیناً رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ ہمارے لئے زہد وتقویٰ کا درس دیتا ہے، مسلمان اس ماہ میں محض خوشنودئ الہی کے لئے کھانے پینے کے ساتھ ساتھ نفسانی خواہشات سے خود کو دور رکھ کر بندگی کے تقاضے پورے کرنے کی سعی کرتے ہیں، اور بزبان حال وقال اس بات کا عہد کرتے ہیں کہ میری عبادت وریاضت اور میری بندگی، میری موت وحیات، میرا جاگنا سونا، میرا اٹھنا بیٹھنا، میرا چلنا پھرنا، میری ہر سانس میری ہر آس یہ محض آپ کے لئے ہے، آپ کے احکامات کی پیروی آپ کے فیصلے پر راضی رہنا یہی میرا سرمایۂ حیات ہے، ہم سے جس طرح کی بھی قربانی کا مطالبہ ہوگا ہم ایک رب کی خاطر اس کے لیے مستعد رہیں گے۔
وہی  رب ہے جس نے انسانوں کو پیدا فرمایا اور اشرف المخلوقات کے شرف سے نوازتے ہوئے اس پر وہی احکامات مسلط فرمائے جسے وہ با آسانی بجا لا سکے ”لايُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا“ اللہ کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ کا مکلف نہیں کرتا۔ (البقرۃ: ٢٨٦)
 یقیناً اللہ کی ذات وصفات اونچی اور بلند ہے، وہ ارحم الراحمين والی صفت رکھتے ہیں، وہ کبھی بندوں کے ساتھ دشواریاں نہیں چاہتے ہیں بلکہ سہولت اور آسانی چاہتے ہیں، یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ (البقرۃ: ١٨٥)
 اللہ بندوں کے لئے سہولت چاہتے ہیں دشواری نہیں، اور رمضان المبارک کے روزے بندوں کے حق میں ہر محاذ پر بہتر اور اعلیٰ ہے، روزے سے ہمارے اندر تقویٰ کے ساتھ ساتھ تحمل و برداشت اور صبر کے آداب پیدا ہوتے ہیں،صبر وضبط یہ اسلامی تعلیمات کا اہم جزو ہے، اللہ رب العزت نے صبر کرنے والوں کو اپنا خاص دوست قرار دیتے ہوئے فرمایا: ”ان اللہ مع الصابرين“ یقیناً اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہیں،(البقرۃ: ١٥٣) صبر و تحمل اور ضبط کے اوصاف یہ بڑی نعمت ہے، اور اس کے ذریعہ ہماری زندگی مکمل کامیاب وفلاح پا سکتی ہے، اللہ رب العزت نے ایسے لوگوں کے لیے خوشخبری سنائی ہے اور مومنین کے اوصاف میں یہ ایک اہم صفت ہے؛ والکاظمین الغیظ والعافین عن الناس۔ (آل عمران: ١٣۴) ترجمہ: اور وہ اپنے غصے کو ضبط کرتے ہیں اور لوگوں کو معاف کردیتے ہیں۔

روزے کی فضیلت و اہمیت پر اگر توجہ دی جائے تو یہ مسلمانوں کے لئے بڑا ذریعہ و وسیلہ اور موقع ہے کہ وہ اپنے رب کی رضا خوشنودی حاصل کرے، کیوں کہ اللہ کا وعدہ روزہ دار کے سلسلے میں بےپناہ انعامات و اکرامات کا ہے۔

رمضان المبارک کے روزوں کی اہمیت و فضیلت اور تقاضوں کے سلسلے میں چند احادیث:

عن ابی هریرة قال، قال رسول ﷲ صلی الله علیه وآله وسلم: من صام رمضان ایماناً و احتسابا غفرله ماتقدم من ذنبه. (صحیح البخاری‘ 1: 10‘ کتاب الایمان‘ رقم حدیث: 38)
ترجمہ: حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے ایمان اور احتساب کے ساتھ رمضان کا روزہ رکھا اس کے پچھلے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔

الصیام جُنة من النار کجُنة أحدکم من القتال مالم یخرقھا بکذب وغیبة.
ترجمہ: جس طرح میدانِ جنگ میں دفاع کے لئے ڈھال ہوتی ہے۔ روزے تمہارے لئے اسی طرح آگ (جہنم) کے لئے ڈھال ہیں۔ جب تک کہ انسان اس ڈھال (روزہ) کو جھوٹ اور غیبت سے توڑ نہ ڈالے۔

علیکم بالصوم فإنه لا مثل له
ترجمہ: تم پر روزہ رکھنا فرض ہے کہ روزے جیسی عبادت کی کوئی مثال نہیں۔

قال اللہ عزوجل کل عمل ابن اٰدم له إلا الصیام فإنه لي وأنا أجزي به والذي نفس محمد بیدہ لخلوف فم الصائم أطیب عند اللہ من ریح المسك.
ترجمہ: ابن آدم ہر عمل اپنے لئے کرتا ہے مگر روزہ صرف میری خاطر رکھتا ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا۔ خدا کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں محمد ﷺ کی جان ہے، روزے دار کے منہ کی بُو خدا تعالیٰ کے نزدیک مشک و عنبر سے بھی زیادہ فرحت افزا ہے۔

ان تمام پہلوؤں پر اگر ہم توجہ دیں گے تو یقیناً ہمیں اس بات کا علم واندازہ ہوگا کہ روزہ ایک اہم عبادت ہے اور اس سے انسان کے اندر تقویٰ وخوف الہی پیدا ہوتا ہے اور ان چیزوں سے ہی دنیا و آخرت کی کامیابی ہے، اور رمضان المبارک کے روزے ہمیں صبر و تحمل کا پیغام دیتا ہے۔

جمعہ, فروری 21, 2025

ایک کامیاب اور مثالی اجلاس

ایک کامیاب اور مثالی اجلاس 
Urduduniyanews72
 رات جامعہ جویریہ للبنات ریہی پوسٹ چھتیونہ تھانہ رانی گنج ضلع ارریہ کے جلسے میں شرکت ہوئی۔علماء کرام کی ایک خاصی تعداد موجود تھی اور جلسہ یک روزہ ہی تھا، ایسے موقع پر عموما افرا تفری کا ماحول ہوتا ہے،منتظمین اجلاس یہ باور کراتے ہیں کہ ہم بہت پریشان ہیں، مقررین حضرات کو گھر واپسی کی جلدی ہوتی ہے، لہذااس موقع پر گزارشات کی بارش ہوتی ہے ،کوئی یہ کہتا ہے کہ :مجھے جلدی نکلنا ہے،کوئی یہ دھمکی دیتا ہے کہ;میرا بیان پہلےہونا ہے،دوسری جگہ بھی جلسہ کرنا ہےوغیرہ،۔بحمداللہ یہاں پر کوئی بھاگا دوڑی ہمیں دیکھنے میں نہیں آئی اور نہ کوئی درخواست اس نوعیت کے پیش ہوئی،میزبان ومہمان سبھی پرسکون ہیں،مقامی احباب آنے والے مہمان علماء کرام کے استقبال میں شاداں وفرحاں ہیں۔ جامعہ کی بچیاں ظہر بعد سے مغرب تک اپنے پروگرامس سے فارغ ہوچکی ہیں ،باپردہ اب علماء کرام کی باتیں سن رہی ہیں، پہلے یہ گھاس پھوس کے مکانات میں رہ رہی تھیں اب بفضل اللہ پختہ مکانات میں ہیں،سوا دوسو طالبات جامعہ جویریہ للبنات میں پڑھتی ہیں، ڈیڑھ سو باہر سے پڑھنے آتی ہیں اور پچہتر بچیاں ہاسٹل میں مقیم ہیں۔
نائب امیر شریعت حضرت مولانا شمشاد صاحب رحمانی کی صدارت اور استاد گرامی قدر جناب حضرت مولانا ومفتی نعیم الدین صاحب ندوی کی حسن نظامت میں پروگرام جاری وساری ہے۔ رات بھر کا جلسہ مجھے ہضم نہیں ہوتا ہے اسی لئے اس حوالہ سے قیل قال کی عادت ہے، اسی عادت سے مجبور ہوکرمیں نےسرپرست جامعہ جناب الحاج جاوید صاحب سے پوچھ لیا کہ حاجی صاحب! یہ جلسہ رات بھر کا ہے؟ بولے نہیں مفتی صاحب، آپ لوگ چاہیں تو نو بجے رات تک ختم کرسکتے ہیں، ہم منتظمین اجلاس کی جانب سے کوئی اصرار نہیں ہے۔یہ جواب سنکر موجود علماء کرام کو بڑی خوشی ہوئی اورسوال داغنے پر میری بھی پذیرائی ہوئی، نائب صدر جمعیت علماء بہار جناب مفتی اطہر القاسمی صاحب نے برجستہ یہ کہا کہ مفتی صاحب، آپ یہ بات ہر جگہ بولتے رہئے اور لکھتے رہئےکہ رات بھر کا پروگرام مفید نہیں ہے،بلکہ صحت وسماج پر اس کا منفی اثر پڑ رہا ہے۔اس سے آگے بڑھ کر دو دو دن کا جلسہ بلکہ سہ روزہ بھی کیا جاتا ہے اور یہ میلہ کی ایک شکل ہے، لذت کام ودہن کیلئے لوگ ان جیسے پروگرامس کو منعقد کررہے ہیں۔جمعیت علماء ارریہ کی طرف سے اس کی اصلاح کے لئے باضابطہ اکاون علماء کرام کی دستخط شدہ تحریر واپیل بھی جاری کی گئی ہے مگر اس کا فائدہ بہت کم دیکھنے میں آیا ہے۔
خدا کا بہت بہت شکر ہے کہ جو شرائط جمعیت نے اصلاح اجلاس کے حوالہ سے رقم کی تھی اس کا سوفیصد فائدہ آج ہمیں یہاں جناب مولانا ساجد صاحب ناظم جامعہ جویریہ للبنات ریہی کے نظر آیا ہے،بہت ہی منظم اور خوبصورت کانفرنس آج ہم نے یہاں دیکھا ہے ،ہر خطیب کے لئے ۲۰/منٹ کا وقت متعین ہے،یہ بات کرسی خطابت پر جلوہ افروز ہونے سے پہلے ہر مقرر کے گوش گزار کردی جاتی ہے،جلسہ کا عنوان بھی بہت خوبصورت ہے،تحفظ ایمان اور تقسیم اسناد کانفرنس ہے،رابطہ مدراس اسلامیہ بہار کے جنرل سکریٹری، جناب مولانا ومفتی خالد انور صاحب قاسمی کی مکمل رہنمائی اس اجلاس کو حاصل ہے،اسٹیج پر آنے والے ہر خطیب کی توجہ جلسہ کے موضوع پر مبذول ہوجاتی ہے، ضروری اور کام کی باتیں ہورہی ہیں لایعنی اور لانبی تقریریں جو بسا اوقات مقابلہ آرائی کا سماں پیش کرتی ہیں اور سامعین سن سن چکنا چور ہوجاتے ہیں ،یہ مصیبت دور تک جامعہ کے جلسہ میں نظر نہیں آئی ہے،دکانیں ہیں اور نہ میلہ جیسا یہاں سماں ہے،بلکہ ایک روحانی وایمانی مجلس کا احساس واستحضار ہورہا ہے،،واقعی "تحفظ ایمان کانفرنس" اسم بامسمی ہے۔فلله الحمد والمنة۔
اس موقع پر ناظم جامعہ جویریہ للبنات ریہی جناب حضرت مولانا ساجد صاحب اور ان کے رفقاءکار کےہم ممنون ومشکور ہیں کہ آپ نے بہت ہی کامیاب اجلاس منعقدکیا ہے اوراس حوالہ سے علاقہ کے لئےبہترین مثال پیش کی ہے،نیزہر ایک مہمان خطیب کو اعزای ایوارڈ سے نواز کر اس کانفرنس کو تاریخی و یادگار بنادیاہے،باری تعالٰی شرف قبولیت سے نوازے، اور جامعہ کی قبولیت ومقبولیت میں ترقی کا اسے سامان بنادے، آمین 
جزاکم اللہ خیرا 
ہمایوں اقبال ندوی 
نائب صدر، جمعیت علماء ارریہ 
وجنرل سکریٹری، تنظیم أبناء ندوہ پورنیہ کمشنری 
۲۱/شعبان المعظم ۱۴۴۶ھ مطابق ۲۰/فروری ۲۰۲۵ء

اتوار, فروری 16, 2025

تسمیہ جونیئر ہائی اسکول کا ۳۳ واں سالانہ جلسہ، علم، ثقافت اور شاندار کامیابیوں کا جشن

تسمیہ جونیئر ہائی اسکول کا ۳۳ واں سالانہ جلسہ، علم، ثقافت اور شاندار کامیابیوں کا جشن
Urduduniyanews72
مظفر نگر، ۱۶ فروری ۲۰۲۵

تسمیہ جونیئر ہائی اسکول نے اپنا ۳۳ واں سالانہ جلسہ کو جوش و خروش اور شان و شوکت کے ساتھ منایا۔ یہ تقریب علمی کامیابیوں، ثقافتی پروگراموں اور حوصلہ افزا خطابات کا شاندار امتزاج تھی، جس نے طلبہ، اساتذہ اور والدین کو نہایت متاثر کیا۔

تقریب کے نمایاں لمحات

تقریب کا آغاز طلبہ کی نمائش سے ہوا جہاں ہونہار طلبہ نے سائنس ماڈلز، فن پارے اور تخلیقی منصوبے پیش کیے۔ مہمانان گرامی نے ان کی کاوشوں کو بے حد سراہا۔

مہمان خصوصی پروفیسر ڈاکٹر افروز الحق (سابق وائس چانسلر، ایچ۔ اے یونیورسٹی، امپھال) اور اعزازی مہمان ڈاکٹر آئی۔ پی۔ پانڈے (سابق سائنسدان، ISRO) کا پر تپاک استقبال ڈاکٹر ایس فاروق (صدر، تسمیہ آل انڈیا ایجوکیشنل اینڈ سوشل ویلفیئر سوسائٹی، نئی دہلی) نے کیا۔ انھیں گلدستے، یادگاری شیلڈ اور تحائف پیش کیے گئے۔

اس موقع پر اسکول کے سالانہ مجلہ "نور" کی رونمائی بھی کی گئی جس میں طلبہ اور اساتذہ کی ادبی و تخلیقی صلاحیتوں کی عکاسی کی گئی ہے۔

جناب جاوید مظہر (قائم مقام پرنسپل، تسمیہ جونیئر ہائی اسکول) نے سالانہ رپورٹ پیش کی، جس میں اسکول کی گذشتہ سال کی کامیابیوں، تعلیمی ترقیات اور دیگر اہم اقدامات کا ذکر کیا گیا۔

تقریب کی نظامت مزاری شمہ تبسم (سینئر معلمہ، تسمیہ جونیئر ہائی اسکول) نے نہایت خوبصورتی سے انجام دی، جن کی شاندار نظامت نے محفل کو پرکشش اور منظم رکھا۔

طلبہ نے بہترین ثقافتی پروگرامز پیش کیے:

استقبالیہ نغمہ "دادا دادی، نانا نانی" (یو۔ کے۔ جی)، نظم "تتلی ہوں میں" (یو۔ کے۔ جی۔ لڑکے)، نظم "تتلی ہوں میں" (یو۔ کے۔ جی۔ لڑکیاں)، حب الوطنی نغمہ "چھوٹے چھوٹے سپاہی ہیں" (درجہ اول)، اردو نظم (درجہ دوم)، حوصلہ افزا نغمہ "آشاؤں کا ایک دن" (درجہ چہارم)، والدین کے نام نغمہ "نہیں کرنا نہیں ناراض کبھی" (درجہ سوم اور چہارم/پنجم)، اساتذہ کے نام نغمہ "گرو کا جی گیان ہے" (درجہ ششم اور ہفتم)، متاثر کن نغمہ "آسمان کو ایک دن" (درجہ ہفتم)، حمد "ہم ہیں سارے غم کے مارے" (درجہ ہشتم)۔

ثقافتی سرگرمیوں کی شاندار نظامت مسز خوش نصیب (سینئر معلمہ) نے کی، جنہوں نے تقریب کو نہایت دلکش اور متحرک رکھا۔

نمایاں کارکردگی کے حامل طلبہ کو ٹرافیاں، اسناد، اور ۱۰۰۰ روپے کا چیک بطور انعام پیش کیا گیا۔

۱۰۰ فیصد حاضری انعام پورے سال مکمل حاضری برقرار رکھنے والے طلبہ کو ٹرافیاں اور اسناد دی گئیں۔

مولانا شوکت قاسمی، زبیر احمد، اور جاوید مظہر کو سال بھر مسلسل حاضری پر خصوصی اعزاز سے نوازا گیا۔ اعزازی مہمان ڈاکٹر آئی۔ پی۔ پانڈے (سابق سائنسدان، ISRO) نے کہا کہ سائنس، جستجو اور محنت کامیابی کی کلید ہیں، طلبہ کو چاہیے کہ وہ تحقیق، خلائی سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں آگے بڑھیں۔

مہمان خصوصی پروفیسر ڈاکٹر افروز الحق (سابق وائس چانسلر، ایچ۔ اے یونیورسٹی، امپھال) نے کہا کہ تعلیم ایک ترقی پسند معاشرے کی بنیاد ہے۔ کامیابی کے لیے تحقیق، مہارتوں کے فروغ اور جدت پسندی پر توجہ مرکوز کریں۔

صدارتی خطاب، ڈاکٹر ایس فاروق (صدر، تسمیہ سوسائٹی، نئی دہلی)

طلبہ کو نظم و ضبط، اخلاص اور ادب کی اہمیت سمجھائی، والدین کو تلقین کی کہ وہ اپنے بچوں کی تعلیم میں فعال کردار ادا کریں۔ لڑکیوں کی تعلیم کی ضرورت پر زور دیا اور انہیں علم و خود اعتمادی سے آراستہ کرنے کی تاکید کی۔

خاندانی اقدار پر روشنی ڈالتے ہوئے طلبہ کو والدین، اساتذہ اور بزرگوں کا احترام کرنے کی نصیحت کی۔

جناب جاوید مظہر (قائم مقام پرنسپل) نے شکریہ کلمات پیش کیے، جن میں مہمان گرامی، اساتذہ، طلبہ اور والدین کا شکریہ ادا کیا، جن کی کوششوں سے یہ تقریب کامیاب ہوئی۔ تقریب کی خاص پذیرائی سید اعجاز احمد (مینجر) کو دی گئی، جنہوں نے اپنی قیادت اور انتھک محنت سے جلسے کو شاندار بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔

تقریب کا اختتام قومی ترانے سے ہوا، جس کے بعد سالانہ میلے کا افتتاح کیا گیا، جس نے خوشیوں اور مسرت کا سماں باندھ دیا۔

تسمیہ جونیئر ہائی اسکول کا ۳۳ واں سالانہ جلسہ ایک یادگار کامیابی ثابت ہوا، جس میں اساتذہ، طلبہ، سابق طلبہ اور والدین کی بھرپور شرکت نے اسے شاندار بنا دیا۔

(طنزیہ ومزاحیہ افسانچے) ٭ انس مسرورؔانصاری

(طنزیہ ومزاحیہ افسانچے)
 Urduduniyanews72
              ٭ انس مسرورؔانصاری
                                       /9453347784/
                         
                            اکتیس کامہینہ
    اتوارکادن تھا۔فرصت کے اوقات تھے۔سرفرازصاحب گھرہی پرتھے۔بچے کھیل کودمیں مصروف تھے۔اُن کی بیوی طاہرہ بیگم نے آپسی گفت گوکے دوران کہا: 
  ‘‘سچ کہتی ہوں اورمجھے جھوٹ بولنے کی عادت ہے نہیں۔میرے دل میں جس قدرتمھاری محبت ہے اُس کااندازہ تم رائی بھربھی نہ لگاسکوگے۔’’طاہرہ بیگم کی بات کاٹتے ہوئے سرفرازنے کہا:‘‘لیکن بیگم! شاید تم بھول رہی ہوکہ یہ مہینہ اکتیس دنوں کاہے اورآج ابھی اُنتیس تاریخ ہے۔تنخواہ ابھی دوروزبعد ملے گی۔یعنی ابھی تم کوتین روزتک مسلسل پیارومحبت کی باتیں کرنی پڑیں گی۔ویسے ابھی تم نے جومکا لمے مجھے سنائے،وہ کس فلم کے ہیں۔؟’’ 
  ‘‘اُوہ....تویہ بات ہے۔؟سچ کہتی ہوں ،میری باتوں کاتم نے یقین کیاہے اورنہ کبھی کروگے۔ پیاربھری باتیں تمھیں کسی فلم کامکالمہ معلوم ہوتی ہیں۔حدہوگئی۔غضب خداکا۔تم سوچتے ہوکہ میں اس طرح کی باتیں تمھاری تنخواہ کے لیے کرتی رہی ہوں۔؟آج سے حرام جوتمھاری تنخواہ کاایک دھیلابھی اپنی ہتھیلی پر
َ رکھوں۔میرے اسکول کی تنخواہ اتنی کم بھی نہیں کہ میں تمھارے پیسوں کی مہحتاج رہوں(آنکھو پررومال رکھتے ہوئے)جب سے اس گھرمیں آئی ہوں کبھی سکھ کاسانس لینانصیب نہ ہوا۔تمھارے ساتھ میرارشتہ کیا ہواکہ میری توتقدیرہی پھوٹ گئی۔کوئی دوسری ہوتی توکب کارفوچکّرہوگئی ہوتی۔ایک میں ہی ایسی جنم جلی ہوں جوہزارطعنوں تشنوں کے باوجودبھی نباہ رہی ہوں۔کتنے اچھے اچھے رشتے میرے لیے تھے ،مگرگھرکے بڑے بوڑھے تم میں نہ جانے کون سے سُرخاب کے پرلگے دیکھے کہ رشتہ کرلیا۔میرے لیے کیارشتہ کہ کوئی کمی تھی۔ایک سے ایک پڑھے لکھے عقل مند لوگ چاہتے تھے۔ میں نصیبوں جلی تمھارے ہتھے چڑھ گئی۔’’(ہلکی ہلکی سسکیاں ) 
 ‘‘ٹھیک کہتی ہوطاہرہ بیگم!وہ لوگ عقل منداورخوش نصیب تھے جوبھاگ نکلے۔میں بے چارہ سیدھاسادہ بندہ تمھارے حسن کے جال میں پھنس گیا۔’’
 سرفرازکمرہ سے نکل کرباہرریلنگ میں آکرکھڑاہوگیا
اوراخبارد یکھنےلگا۔ ۔طاہرہ بیگم کافی دیرتک بک بک جھک جھک کرتی رہیں۔زبان کے ساتھ ساتھ کام دھندوں میں ہاتھ بھی چلتارہااوروہ بالکونی میں کھڑابظاہراخبار دیکھ رہاتھا لیکن سماعت کی ساری قوت طاہرہ بیگم کی زبانی ریکارڈنگ پرلگی ہوئی تھی۔وہ زیرلب مسکرائے بھی جارہاتھا۔اپنی بیوی طاہرہ کوچھیڑکراُس کی جلی کٹی باتوں میں اسے بڑالطف آتا۔وہ جانتاتھاکہ طاہرہ دل کی بہت اچھی ہےاورچند۔سکنڈکےاندراسے منالیناکچھ بھی مشکل نہیں۔ 
                                                       *٭٭
                                  کھوٹاسکہ
    ایک مدت کے بعدرتن اورچمن جب ملے توپرانی یاریاں تازہ ہوگئیں۔گئے دنوں کی یادیں زندہ ہوگئیں۔دونوں بہت جذباتی ہوگئے اوردیرتک ایک دوسرے کوگلے لگاتے رہے۔خیرخیریت پوچھنے کے بعدرتن نے پوچھا:‘‘اورکہویار!کیسی گزررہی ہے۔بھابی اوربچوں کاکیاحال ہے۔؟’’
 چمن نے مسکراتے ہوئے بتایا:‘‘سب ٹھیک ٹھاک ہے یار!ایک لڑکاڈاکٹرہے۔دوسراانجینئرہے ہے۔تیسراانسورش کمپنی میں ملازم ہے۔تینوں اپنی بیوی بچوں کوساتھ لے کرالگ الگ شہروں میں رہ رہے ہیں اوربہت خوش حال ہیں۔’’
 ‘‘بہت خوش نصیب ہوتم، مگریار!تمھاراچوتھااورسب میں چھوٹابیٹابھی توتھا۔؟’’رتن نے پوچھا۔‘‘وہ کیاکر رہاہے۔؟وہ بھی کسی پوسٹ پرضرورہوگا۔؟’’
 ‘‘کیابتاؤں یار!چوتھے لڑکے کوپڑھانہیں سکا۔وہ ایک نائی کی دوکان پرحجام ہے۔’’
 رتن کوبڑی حیرت ہوئی۔اس نے کہا:‘‘توپھراس کم بخت کوگھرسے نکال کیوں نہیں دیتے جوتمھار ے خاندان کی پگڑی اُچھال رہاہے۔حدہوگئی۔بھلایہ بھی کوئی بات ہوئی ۔تعلیم یافتہ خاندان کالڑکاحجام ؟ میں توکہتاہوں کہ ایسے نالائق بیٹے کوگھرسے باہرہی نکال دو۔’’
      ‘‘کیسے گھرکے باہرنکال دوں۔اُسی کی کمائی سے توگھرکاخرچ چلتاہے۔***
                              
                           نہلے پردہلا
 گاؤں کے کنجوس مہاجن لیلارام ساہوکارکے پاس بھگوان کادیاسب کچھ تھا۔کسی چیزکی کوئی کمی نہ تھی۔دھن دولت تومانوچھپرپھاڑکربرس رہاتھا۔بس اُسے ایک ہی تکلیف تھی۔اس کااکلوتابیٹاسکھ دیونہاتانہیں تھا۔ہزاروں باروہ اسے سمجھابجھاکرتھک ہاربیٹھاتھا۔پھراس کی سمجھ میں ایک ترکیب آئی۔ اس نے اپنے بیٹے کونہانے کی عادت ڈالنے کے لیے ایک دن سکھ دیوسے کہا: 
      ‘‘بیٹا!اگرتم روزبلاناغہ نہاؤ گے توایک مہینہ کے بعدمیں تمھیں ایک سوروپئے انعام میں دوں گا۔’’ 
 باپ کی پیش کش سن کربیٹابہت خوش ہوا۔سوروپئے کے لالچ میں وہ روزانہ بلاناغہ نہانے لگا۔آخر جب ایک ماہ پوراہوگیاتواس نے باپ کواس کاوعدہ یاددلایااور سوروپئے کامطالبہ کیا۔کنجوس باپ نے مسکراتے ہوئے اس کی تعریف کی اوراس کے ہاتھ میں ایک بل تھمادیاجس میں ایک سوپچیس روپئے صابن کے درج تھے۔لیلارام نے بیٹے سے کہا۔‘‘تمھارے سوروپئے انعام کے اورپچاس روپئے جیب خرچ سے کاٹ کریہ بل دوکاندارکواداکیاجائے گا۔’’ 
 بیٹے نے مسکراتے ہوئے باپ سے کہا۔‘‘بابوجی!آپ سوروپئے مجھے دیں۔میں روزانہ بلاصابن کے نہاتارہاہوں۔’’ 
                    ٭٭
                             ساس اورداماد
 گاؤں میں قیام کے دوران ایک روزمہمان بڑی دل چسپ نظروں سے میزبان کی لڑکی کوبھینس کا دودھ دوہتے ہوئے دیکھ رہاتھا۔اچانک ایک بھینسے کوپھنکاریں مارتے ہوئے تیزی سے آتے ہوئے دیکھ کروہ دوڑکرایک دیوارپرچڑھ گیااورچیخ چیخ کرلڑکی کوخبردارکرنے لگا۔مگرلڑکی ٹس سے مس نہ ہوئی بلکہ بے خوف اپنے کام میں مشغول رہی۔اس کے اطمینان میں کوئی فرق نہ آیا۔بھینساپھنکاریں مارتاہوا بھینس کے قریب آکررک گیا۔کچھ دیربھینس کودیکھتارہا پھرسرجھکاکرواپس چلاگیا۔
      ۔۔اس خوفناک بھینسے کواپنی طرف آتے دیکھ کرتمھیں ڈرنہیں لگا۔؟’’شہری مہمان نے لڑکی سے پوچھا۔
 ‘‘ہرگزنہیں۔’’لڑکی نے بڑے اطمینان سے جواب دیا۔‘‘میں جانتی تھی کہ بھینساکچھ نہیں کرے گا۔کیونکہ یہ بھینس اس کی ساس ہے۔’’
                                       ٭٭
                           شرم وحیا
    گاؤں کے رہنے والے حکیم صاحب دین شہرمیں مطب کھولے ہوئے تھے۔گاؤں اورشہرکے درمیان ایک قبرستان پڑتاتھاجس میں بے شمارقبریں تھیں۔گھرسے شہرمیں دواخانہ آتے وقت یادواخانہ سے گھرجاتے وقت جب حکیم صاحب دین قبرستان کے قریب پہنچتے تواپنے چہرے پررومال ڈال لیتے ۔ایک دن کسی نے وجہ پوچھی توکہنے لگے۔‘‘اس قبرستان میں بہت سی قبریں ایسی ہیں جن میں وہ لوگ دفن ہیں جومیراعلاج کرتے کرتے اس قبرستان تک پہنچے۔اس لیے جب میں یہاں سے گزرنے لگتا ہوں توشرمندگی کی وجہ سے منھ پرکپڑاڈال لیتاہوں۔آخرانسان کے اندرکچھ توشرم وحیاہونی چاہئے۔’’
                           ٭٭
                          آتنک وادی 
     مئی کی سلگتی ہوئی دھوپ۔شدت کی گرمی سے پریشان حال لوگ۔پسینے سے شرابوروردی میں شہرکے کوتوال مانک چندکہیں دورکے دورے سے واپس آئے تھے۔بھاری بھرکم جسم سنبھالے نہیں سنبھل رہاتھا۔ سانسیں سینے میں نہیں سمارہی تھیں۔اپنے آفس میں داخل ہوتے ہی انھوں نے اپنے آپ کوکرسی پر ڈھیرکردیاْ۔وہ بری طرح ہانپ رہے تھے۔ان کی تونداس طرح اوپرنیچے ہورہی تھی مانوغبارے میں ہوابھری اورنکالی جارہی ہو۔انھوں نے گھنٹی بجائی توایک سپاہی فوراََحاضرہوا۔‘‘انسپکٹرماتادین کوبلاؤ۔’’انھوں نے آدیش دیا۔ سپاہی سلوٹ مارکرچلاگیا۔دومنٹ میں انسپکٹرماتادین حاضرہوگیا۔‘‘سر!آپ نے مجھے بلایا۔ْ’’ 
 ‘‘ہاں ،ماتادین۔دیکھو۔سنو!کچھ سپاہیوں کو ساتھ لے کرجاؤ اورسڑک پرسے کسی بڑی بڑ ی مونچھوں والے کوپکڑلاؤ۔ذراموٹااورتگڑاآدمی ہو۔’’انسپکٹرجانےلگا توکوتوال نے اسے روکا۔‘‘دیکھو!اوپرسے بہت پریسرہے۔ہم پرالزام ہے کہ آتنک وادیوں کوہم چھوٹ دے رہے ہیں اورہمارے تھانے سے اب تک ایک بھی آتنک وادی نہیں پکڑاجاسکا ہے۔اس لیے اگرکوئی مونچھ والانہ ملے توکسی داڑھی والے کوہی پکڑلائیو۔آخرفائل بناناضروری ہے اوراس کاپیٹ بھرنابھی ضروری ہے۔نوکری اور پرموشن کامعاملہ ہے۔اب جاؤ۔’’
                                      *٭٭ 
                             انس مسرورؔانصاری
         anasmasrooransari@gmail.com

اتوار, فروری 09, 2025

ڈاکٹر تابش مہدی کا انتقال ایک فرد کا نہیں نصب العین کا زیاں ہے

ڈاکٹر تابش مہدی کا انتقال ایک فرد کا نہیں نصب العین کا زیاں ہے 
Urduduniyanews72
ادارہ ادب اسلامی مظفرپور کے زیر اہتمام ڈاکٹر تابش مہدی کی یاد میں دعائیہ و شعری نشست

مظفرپور 09 فروری (پریس ریلیز)

ڈاکٹر تابش مہدی ادب اسلامی کے ایک مضبوط ستون تھے. ان کے انتقال سے صالح ادب کی روایت کو شدید نقصان پہنچا ہے. ان خیالات کا اظہار محمد سلمان سابق صدر شعبئہ فارسی ایس این ایس آر کے ایس کالج سہرسہ نے ڈاکٹر تابش مہدی کی یاد میں منعقد دعائیہ نشست کی صدارت فرماتے ہوئے کیا. دعائیہ نشست کا اہتمام ادارہ ادب اسلامی مظفرپور کی طرف سے حضرت علی اکیڈمی مسلم کلب پکی سرائے میں کیا گیا تھا. ادارہ کے سرپرست محمد ہشام طارق نے ڈاکٹر تابش مہدی کی علمی و ادبی اور ملی خدمات کا اجمالی جائزہ پیش کرتے ہوئے ان کی گوناگوں خدمات پر گفتگو کی. انھوں نے کہا کہ تابش مہدی کے نظریہ ادب سے نئی نسل کو متعارف کروانا ہم سب کی ذمہ داری ہے. نتیشور کالج مظفرپور کے صدر شعبہ اردو کامران غنی صبا نے ڈاکٹر تابش مہدی سے اپنے مراسم کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان کا انتقال صرف ایک فرد کا نہیں، ایک انجمن اور نصب العین کا زیاں ہے. تشکیک، الحاد اور لادینیت کی اندھی میں ایک چراغ جو اپنی پوری حرارت کے ساتھ روشن تھا خاموش ہو گیا ہے لیکن اس نے جاتے جاتے کئی ایسے چراغ روشن کر دییے ہیں جو آندھیوں کی زد میں بھی ہمیشہ مسکراتے رہیں گے. نوجوان اسکالر اسلم رحمانی نے ڈاکٹر تابش مہدی کی صالح ادبی قدروں پر روشنی ڈالتے ہوئے ادب کے تعلق سے ان کے واضح نظریات پر گفتگو کی. انھوں نے کہا کہ نئی نسل کو ڈاکٹر تابش مہدی کی کتابوں کا مطالعہ کرنا چاہئے. پروگرام کے پہلے حصہ کی نظامت اسلم رحمانی نے کی جبکہ دوسرے حصہ کی صدارت بزرگ شاعر ڈاکٹر صبغتہ اللہ حمیدی نے فرمائی اور نظامت کا فریضہ معروف شاعر محفوظ عارف نے بحسن و خوبی انجام دیا. شعری نشست میں علی احمد منظر، تعظیم احمد گوہر، کامران غنی صبا،حبان الحق حاذق، احمد مسرور، محفوظ عارف اور ایمل ہاشمی نے اپنے کلام پیش کیے. دونوں سیشن کا آغاز حضرت علی اکیڈمی کے طالب علم محمد عطاء اللہ کی تلاوت اور اختتام کامران غنی صبا کے اظہار تشکر پر ہوا. نشست میں قاضی وسیم غازی، ابو طلحہ، نہاں پروین، الصبا صدیقی، نغمہ پروین، رقیہ پروین، صوفیہ پروین وغیرہ نے شرکت کی.

پیر, فروری 03, 2025

لے آئ زندگی تو انبار غم کہاں سےیہ کب کی دشمنی تھی اس جان ناتواں سے، کاظم رضا ۔

لے آئ زندگی تو انبار غم کہاں سے
یہ کب کی دشمنی تھی اس جان ناتواں سے، 
کاظم رضا ۔
Urduduniyanews72
ضیائے حق فاؤنڈیشن کی جانب سے صوبۂ بہار کے تین شاعروں کے اعزاز میں محفل اعزازیہ ومشاعرہ کا انعقاد ۔

پٹنہ پھلواری شریف 03/فروری 2025 ( پریس ریلیز:محمد ضیاء العظیم ) صوبہ بہار کی مشہور سرزمین۔۔ ۔۔ سے تعلق رکھنے والے تین مشہور ومعروف شاعر رہبر گیاوی المعروف چونچ گیاوی ،مظہر وسطوی اور ڈاکٹر نصر عالم نصر کے اعزاز میں صابر سہرساوی کی صدارت میں مورخہ 02/فروری 2025 بروز اتوار کو ایک خوبصورت محفل اعزازیہ ومشاعرہ مشاعرہ کا انعقاد ہوا، 
تقریب کا اہتمام محمد ضیاء العظیم (ٹرسٹی ضیائے حق فاؤنڈیشن )ڈاکٹر صالحہ صدیقی چئیر پرسن ضیائے حق فاؤنڈیشن) ڈاکٹر نصر عالم نصر (رکن ضیائے حق فاؤنڈیشن) اور ان کی ٹیم نے کیا، واضح رہے کہ ضیائے حق فاؤنڈیشن ایک سماجی ،فلاحی اور ادبی تنظیم ہے جو دیگر ادبی خدمات میں سرگرم رہنے کے ساتھ ساتھ تعلیمی کاموں میں بھی پیش پیش رہتی ہے،اس سے قبل بھی کئی اہم شعراء وادباء وصحافی کو ان کی علمی وادبی خدمات کی بنا پر اعزازات سے نواز چکی ہے، ٹرسٹ خصوصیت کے ساتھ ان شعراوادبا کو تلاش کرتی ہے جو ایک اچھے فنکار ہونے کے باوجود بھی دنیائے ادب انہیں نظر انداز کرتی ہے اور وہ گمنامی کی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں، انہیں تلاش کرکے ان کے علوم وفنون سے دنیائے ادب کو متعارف کراتی ہے ، مذکورہ فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام شہر پٹنہ کے قلب میں واقع مسلم اکثریتی علاقہ پھلواری شریف میں ایک ادارہ مدرسہ ضیاء العلوم طلبہ وطالبات کو تعلیم وتربیت سے آراستہ وپیراستہ کر رہا ہے ۔
 پروگرام کی نظامت مشہور ومعروف شاعر سید رضوان حیدر اور کاظم رضا نے کی، پروگرام کی شروعات قاری عبد الواجد عرفانی نے تلاوت قرآن پاک سے کیا ، پھر ڈاکٹر نصر عالم نصر نے اپنے مخصوص لب ولہجہ کے ساتھ نعت پاک سے محفل کو خوبصورت بنایا ۔ پھر محمد ضیاء العظیم نے ضیائے حق فاؤنڈیشن کے تعارف کے ساتھ ساتھ اعزازات سے نوازنے والے تینوں شعراء کا تعارف کرایا ۔
اس کے بعد ناظم مشاعرہ نے نظامت کی ذمہ داری سنبھالتے ہوئے تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کیا اور ضیائے حق فاؤنڈیشن کا مختصر تعارف میں انہوں نے کہا کہ بہت کم وقتوں میں یہ فاؤنڈیشن نے کارہائے نمایاں انجام دیا اور دے رہا ہے، اس کے بعد تینوں شعرا کو ان کی علمی وادبی خدمات کے اعتراف میں ضیائے حق فاؤنڈیشن کی جانب سے شال اور سند سے نوازا گیا ۔
پھر ایک خوبصورت مشاعرہ کا انعقاد ہوا۔ مشاعرہ میں پڑھے گئے شعراکے کلام سے چند اشعار ۔
مظہر وسطوی 
فصل گل، رنگ چمن، باد صبا کا مطلب، 
ہر کلی کو ہے پتہ ناز وادا کا مطلب ۔ 
نذر فاطمی 
ہمارے ساتھ ہی چلنے کی ضد اگر ٹھہری 
صعوبتوں میں بھی تم مسکرا سکو تو چلو۔
ڈاکٹر نصر عالم نصر 
اے رب کائنات ترا دل سے شکریہ، 
لاکھوں میں انتخاب کے قابل بنا دیا ۔
چونچ گیاوی 
محفل میں بھیڑ اب تو متشاعروں کی ہے،
 ہے شاعروں کے واسطے محدود دائرہ، 
مرنے کا انتظار تھا بے صبری سے اسے، 
ابا جو مر گئے تو بنی بیٹی شاعرہ ۔
وارث اسلام پوری 
کوئی بھی وفاؤں کا خریدار نہیں ہے، پہلی سی یہاں رونق بازار نہیں ہے ۔
افتخار عاکف 
پھوٹ پھوٹ کر رویا دل تب میں نے یہ غور کیا 
جان بوجھ کر K. K. D نے عاکف کو اگنور کیا۔
محمد ضیاء العظیم 
ممکن ہے وہ مجھ کو بھول کر رہ لے گا 
اچھا ہے پھر مجھ کو بھی آسانی ہے۔
سلمان احمد ساحل 
نظم "پلکوں کی اولتی" 
اسرار عالم سیفی 
متاع دین بھی اس میں حیات دنیا بھی، 
عجب ہے رنگ طرحدار شاعری کرنا ۔
چودھری سیف الدین سیف 
بے حجابانا تو اے زیست جدھر جاتی ہے، 
ہر نظر میں تری تصویر اتر جاتی ہے ۔
کاظم رضا 
صحن حرم سے اٹھے یا کوچۂ بتاں سے ، فتنہ رہے گا فتنہ چاہے جگے جہاں سے ۔
ڈاکٹر شمع ناسمین نازاں 
ناز خود پر کیوں نہ ہو نازاں کہ اب 
شاعری ہونے لگی ہے بہتر بہت ۔
سید رضوان حیدر 
یہ فروائ نعمت یہ نوازش رضوان، 
شاعری کچھ نہیں انداز ہے شکرانے کا ۔
افسر جمال افسر 
اردو مری تہنیت ہے، پہچان ہے اردو، 
اردو ہے مری جان، مری شان ہے اردو ۔
اثر فریدی 
اکڑ رہے ہو حقیقت تمہیں نہیں معلوم، 
حیات اتنا کہاں اختیار دیتی ہے ۔
معین گریڈیہوی 
رہنے تو دیجیے سدا چین وسکون سے، نفرت کی آگ آپ لگایا نہ کیجیے ۔
خالد عبادی 
اندھوں کا فرمان یہی ہے 
کام نہ لیجیے بینائی سے ۔
ظفر صدیقی 
مظلوموں نے چھوڑ دی امید انصاف، اب تو جانبدار عدالت ہوتی ہے ۔
آخر میں صدر محترم صابر سہرساوی نے اپنی شاعری کے ساتھ اپنے تاثرات کا اظہار کیا، اعزازات سے نوازے گئے نے تینوں شاعروں کے کلام پر اور ان کی خدمات پر گفتگو کرتے ہوئے انہیں مبارکبادی پیش کی ۔ اور کہا کہ میں ضیائے حق فاؤنڈیشن کی سرگرمیوں سے بخوبی واقف ہوں، اس تنظیم نے ان تینوں شعراء کا حسن انتخاب کیا اور ان کی خدمات کو سراہتے ہوئے ان کی بہترین حوصلہ افزائی کی ، یہ تنظیم اپنے محاذ پر بھر پور کارہائے نمایاں انجام دے رہی ہے، آج مجھے یہاں بہت خوشی محسوس ہورہی، یہ محفل میرے لئے یادگار ثابت ہوا ، آپ سب کی اس بے لوث محبت کو میں تا عمر یاد رکھوں گا، پھر ضیائے حق فاؤنڈیشن کے برانچ اونر محمد ضیاء العظیم نے تمام مہمانان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ہماری یہ خوش بختی ہے کہ ہماری آواز پر آپ سب اپنی ہزارہا مصروفیات کے باوجود بھی یہاں آنے کی زحمت گوارا کی، ہم پروردگار کا شکر ادا کرتے ہیں اور آپ تمام مہمانان کا شکریہ، خصوصاً ڈاکٹر نصر عالم نصر ،ڈاکٹر صالحہ صدیقی چئیر پرسن ضیائے حق فاؤنڈیشن کا کہ آپ دونوں کی باہمی تعاون سے ہی یہ پروگرام منعقد ہوا، اب ہم سب کی کوشش ہو کہ اردو زبان وادب کی تعلیم سماج ومعاشرہ کا ہر ایک ایک بچہ حاصل کرے، پڑھے، سیکھے، اور بولے، ہماری تہذیب وثقافت اسی زبان کے ذریعہ زندہ وتابندہ رہ سکتی ہے، ہم میں سے ہر ایک فرد ایک ذمہ داری کے ساتھ اس زبان کی ترویج واشاعت میں کوشاں رہے، پھر صدر محترم کی اجازت سے محفل کے اختتام کا اعلان ہوا ۔
پروگرام میں مدرسہ ضیاء العلوم کے طلبہ سمیت پھلواری شریف کی معزز شخصیات شامل رہے ، 
اس پروگرام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں خصوصی طور پر ضیائے حق فاؤنڈیشن کی چیئرپرسن واسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو سمستی پور کالج (متھلا یونیورسٹی) ڈاکٹر صالحہ صدیقی، ڈاکٹر نصر عالم نصر، محمد ضیاء العظیم کا نام مذکور ہے جن کی محنت وکاوش کی وجہ سے یہ پروگرام پایہ تکمیل تک پہنچ سکا، 
جبکہ عمومی طور پر فاطمہ خان، زیب النساء، شمیمہ بانو، فقیھہ روشن، قاری ابوالحسن،قاری عبدالواجد، مفتی نورالعظیم، حافظ ثناء العظیم، عفان ضیاء، حسان عظیم کا نام مذکور ہے۔

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...