Powered By Blogger

بدھ, جولائی 26, 2023

✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار ، اڈیشہ وجھارکھنڈ

ابوالمحاسن مولانا محمد سجادؒ
 اور
Urudduinyanews72
مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمن سیوہارویؒ ___
✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار ، اڈیشہ وجھارکھنڈ
امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ کا قیام 19/ شوال1339 ھ =26 جون 1921ء کو ہوا تھا، اس وقت بانی امارت شرعیہ مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد کی عمر اکتالیس (41) سال (ولادت صفر 1299ء دسمبر1881ئ) تھی، اور مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی (ولادت 1318ھ-1900ء وفات 2 اگست1962ئ) عمر کے اعتبار سے اکیس(21) سال کے تھے، امارت شرعیہ کے قیام کے بعد1922ء میں انہوں نے دارالعلوم دیو بند سے سند فراغت پائی، مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد جمعیت علماء کے قیام کی مجلس امرتسر میں شریک تھے، اس سے قبل خلافت کانفرنس دہلی میں بھی ابوالمحاسن مولانا محمدسجاد نے شریک ہو کر تقریر فرمائی تھی، بقول سحبان الہند مولانا احمد سعید دہلوی اس تقریر کوسن کر’’کوئی آنکھ اور کوئی دل ایسا نہیں تھا جس نے اثر قبول نہ کیا ہو‘‘ (حیات سجاد مضمون مولانا احمد سعید دہلوی) 
سحبان الہندمولانا احمد سعید دہلوی (ولادت1306 ھ=1888ئ) اور مولانا محمد سجاد کی عمر میں صرف نو (9) سال کا فاصلہ تھا، اس کے باوجود مولانا احمد سعید نہ صرف ان سے عقیدت و محبت رکھتے تھے؛ بلکہ باپ کی طرح سمجھتے تھے، چنانچہ لکھتے ہیں: ’’مولا نا مجھ سے اپنی اولاد کی طرح محبت کرتے تھے اور میں بھی ان کی عزت اور ان کا احترام باپ کی طرح کرتا تھا اور بعض جلسوں میں میں نے ان کی موجودگی میں ان تعلقات کا اظہار بھی کیا تھا‘‘ (حیات سجاد) جب سحبان الہند مولانا احمد سعید (م3 جمادی الثانیہ 1379 ھ=4 دسمبر1959ئ) کا عمر میں زیادہ تفاوت نہ ہونے کے باوجود یہ حال تھا تو مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی سے تعلقات کی نوعیت کیا رہی ہوگی، اسے بآسانی سمجھا جاسکتا ہے۔ مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد جمعیت علماء ہند کے ذمہ داروں کے ہر دور میں دست راست رہے، جمعیت علماء بھی ان کی ملی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی تھی اور ان کے مشورے سے کام آگے بڑھتا تھا، ایک زمانہ تک بہار کی حد تک جمعیت علماء اور امارت شرعیہ تو جڑواں تنظیمیں تھیں، یہ تعلق اور انسلاک اس قدر تھا کہ جمعیت علماء کے اس وقت کے صدر شیخ الاسلام حضرت مولاناحسین احمد مدنی رحمتہ اللہ علیہ نے لکھنؤ اجلاس کے بعد ایک سرکلر کے ذریعہ بہار میں جمعیت علماء کو ہدایت دی تھی کہ’’وہ زکوۃ کی رقومات حاصل کرنے کی کوشش نہ کریں؛ بلکہ مسلمانوں کو سمجھا ئیں کہ وہ زکوۃ اور صدقات کی رقم حسب معمول امارت شرعیہ کے بیت المال کو ادا کرتے رہیں‘‘ مولانا نورالدین بہاری (جو اس وقت جمعیت علماء کے ناظم تھے)نے ایک مکتوب کے ذریعہ جمعیت علماء بہار کے ذمہ داران کو اس سے مطلع کیا تھا، اس تعلق کے نتیجے میں دونوں تنظیموں کے ارکان بھی تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ ایک ہی ہوا کرتے تھے، چنانچہ جمعیت علماء ہند کے ذریعہ شروع کی گئی بیش تر تحریکات مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد کے زرخیز ذہن کی پیداوار تھی، بلکہ اس زمانہ میں بیش تر تحریری کام مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد ہی کیا کرتے تھے،مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد’’جمعیت علماء ہند کی میٹنگوں میں پابندی سے شریک ہوتے تھے، وہ جمعیت علماء ہند کے دل اور دماغ تھے، 1938ء میں جب مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی ندوۃ المصنفین کے قیام کے بعد مولانا مفتی عتیق الرحمن صاحب کی دعوت پر کلکتہ سے جامعہ عربیہ امروہہ اورپھر مستقل طور پر دہلی منتقل ہوئے تو جمعیت علماء کی سرگرمیوں کے وہ کل وقتی ساتھی بن گئے، اس درمیان انہوں نے مولانا ابوالمحاسن محمد سجادؒ کوقریب سے دیکھا، ان کی فکری اور علمی عظمت کے قائل ہوئے، اس وقت سے امارت شرعیہ کے ہر کاموں میں حسب ضرورت و سہولت مجاہد ملت کا تعاون ملتا رہا، مولانا حفظ الرحمن سیوہارویؒ نے مولانا ابوالمحاسن محمد سجادؒ کے بارے میں لکھا ہے:’’جماعت کے ذمہ دار ارکان اور میں نے بارہا یہ منظر دیکھا ہے کہ جب کسی مسئلہ پر حضرت مولانا محمد سجاد صاحب دلائل و براہین و فقہی بصیرت کے ساتھ بحث فرماتے تو حضرت مفتی(کفایت اللہ)صاحب بھی بے حد متاثر ہوتے اور ان کے علمی تبحر کا اعتراف کرتے ہوئے بے ساختہ ان کی زبان سے کلمات تحسین نکل جاتے (حیات سجاد ص 148) 
مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی نے بانی امارت شرعیہ مولانا ابوالمحاسن محمد سجادؒ سے اپنی پہلی ملاقات اور تعارف پر بھی روشنی ڈالی ہے،لکھتے ہیں’’حضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد صاحب‘‘نائب امیر شریعت بہار سے میرا تعارف جمعیت علماء ہند کے واسطے سے ہوا تھا، ان کو دہلی میں سب سے پہلے جمعیت علماء کی ایک مجلس مشاورت میں دیکھا اپنے قریب بیٹھنے والوں سے دریافت کیا تو انہوں نے مولانا مرحوم کا تعارف کرایا اور نہ صرف یہ بلکہ میرے اور مولانا کے درمیان تعارف با ہمی کا رشتہ بن گئے اس وقت سے اور تادم وفات حضرت مولانا سے انتہائی ربط و ضبط قائم رہا (حیات سجاد) جمعیت علماء ہند اور امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ کے اسی اشتراک عمل کا نتیجہ تھا کہ جمعیت علماء ہند کے اجلاس مراد آباد کی صدارت مولانا ابوالمحاسن محمد سجادؒ نے کی اور اس میں وہ تاریخی خطبہ دیا جس کو مولانا حفظ الرحمن سیوہارویؒ نے اسلامی سیاست کی لائبریری میں انسائیکلو پیڈیا قرار دیا ہے۔ 1929ء میں سول نافرمانی کی تحریک شروع ہوئی تو مولانا حفظ الرحمن سیوہارویؒ کو نائب امیر شریعت بہار مولانا محمد سجاد کے ساتھ عملی طور پر کام کرنے کا موقع ملا، محلہ بلی ماران کی تاریک گلی میں ادارہ حربیہ‘‘ کے کاموں کی انجام دہی کے لیے جب مولانا محمد سجادؒ مقیم ہوئے تو مولانا حفظ الرحمن سیوہارویؒ جو پہلے ہی سے مولانا کے علم و فکر کے مداح اور قدرداں تھے، ان کے دست و باز و؛ بلکہ نفس ناطقہ بن کر سامنے آئے، مولانا سجاد نے انہیں ادارہ حربیہ کے رضا کار ان کا کمانڈر بنا رکھا تھا، ان کے ذمہ گھوم گھوم کر اس تحریک کا جائزہ لینا اور اس کی کامیابی کے لئے جدو جہد کرنی تھی، مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی ؒنے اس تحریک کو کامیاب کرنے کے لئے مولا نا سجادؒ کی ہدایت کے مطابق دورے کئے، جس کے بڑے دور رس اثرات ملک پر پڑے اور آزادی کی طرف تیزی سے قدم بڑھتا چلا گیا، اس موقع سے تحریک کے کئی شرکاء بشمول مولانا محمد میاں صاحبؒ گرفتار ہوئے، مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی، مولانا محمد سجاد کی طے کردہ حکمت عملی کی وجہ سے گرفتاری سے بچتے رہے؛ لیکن بالآخر کچھ دنوں کے لئے انہیں بھی جیل جانا پڑا، اس کے بعد جمعیت علماء کی جانب سے جو بھی تحریک چلائی گئی مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمن سیوہارویؒ، مولانا ابوالمحاسن محمد سجادؒ کے ساتھ دست بازو بن کر کام کرتے رہے، بہار میں امارت شرعیہ نے جمعیت علماء ہند کی تحریکات کو آگے بڑھانے کا کام کیا کیوں کہ بہار کی حد تک امارت اور جمعیت کے کاموں میں تفریق نہیں تھی، ایک زمانہ میں حضرت مولانا عبد الصمد رحمانی (م10 ربیع الثانی1392 ھ=14 مئی1973ئ) امارت شرعیہ کے نائب امیر شریعت بھی تھے اور جمعیت علماء  بہار کے صدر بھی، اس سے قبل مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد جمعیت علماء بہار اور مرکزی جمعیت کے ناظم اور امارت کے نائب امیر شریعت کی حیثیت سے کام کرتے رہے تھے۔ 
ملک میں شاردا ایکٹ کے خلاف تحریک چلی، مدح صحابہ کے لئے ایجی ٹیشن ہوا، مجلس تحفظ ناموس شریعت قائم ہوئی، آزاد ہند کا دستور اساسی بنایا گیا، سیاسی انتخابات میں شرکت کی تجویز پاس ہوئی، چھپرہ بہار میں جمعیت علماء کی سیاسی کانفرنس ہوئی، یوم فلسطین منایا گیا، نظارت اور امارت شرعیہ کا مسودہ تیار ہوا، واردھا تعلیمی اسکیم کا تجزیہ کیا گیا، ہندور پورٹ کے بائیکاٹ کا فیصلہ ہوا، سب میں فکر، قلم اور بڑی حد تک قیادت مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد ؒکی تھی؛ لیکن ان تحریکات کو کامیاب کرنے میں ہر سطح پر جمعیت علماء اور امارت شرعیہ بہار کے ارکان خصوصاً مجاہد ملت حضرت مولانا سیوہاروی کی عملی قوت کا بڑا دخل تھا، تاآنکہ مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد رحمۃ اللہ علیہ کا17 شوال المکرم 1359ھ =18 نومبر1940ء کو انتقال ہو گیا۔ رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ 
بانی امارت شرعیہ کے انتقال کے بعد بھی مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی ؒکا تعلق امارت شرعیہ اور بانی امارت شرعیہ سے باقی رہا، چنانچہ جب حضرت مولانا سید شاہ منت اللہ رحمانیؒ نے مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد ؒکے مقالہ حکومت الٰہی کو مولانا کے انتقال کے بعد 1941ء میں شائع کرنا چاہا تو مجاہد ملت نے بے پناہ مشغولیت کے باوجود اس کتاب کے لئے وقیع مقدمہ لکھا، اس مقدمہ میں انہوں نے اس مقالہ کی خصوصیات اور مندرجات پر تفصیلی گفتگو کی، مجاہد ملت کو مولانامحمد سجاد سے جو تعلق خاطر تھا اور مولانا کی صلاحیت کے وہ جس قدر معترف تھے، اس کا اظہار انہوں نے اس مقدمہ میں برجستہ اور برملا کیا ہے۔ لکھتے ہیں: 
’’اسی مقدس جماعت میں ایک زبر دست عالم ہم فکر، مدبر اور قانون شریعت اور قانون سیاست کی اس جامع ہستی کو دیکھتے ہیں، جو قوت گویائی میں اگر چہ’’ وَاحلُل عُقدَۃً مِّن لِّسَانِی‘‘ کا منظر پیش کرتی ہے، لیکن قوت و فکر و عمل میں بسطتہ فی العلم کا پیکر نظر آتی ہے۔ مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد (نائب امیر شریعت صوبہ بہار) ہندوستان کے ان چیدہ علماء متبحرین میں سے تھے، جو ہندوستان کی مشترک سیاسیات میں حصہ دار ہونے کے باوجود ’’حکومت الٰہیہ‘‘کے اس نصب العین کو کبھی فراموش نہیں کرتے تھے جو ان کی جدو جہد کا حقیقی مرکز ومحور تھا (حکومت الٰہی طبع ثانی) مجاہد ملت نے اس کتاب پر مقدمہ لکھنے کو اپنی سعادت قرار دیا ہے اور اس کا اختتام ان جملوں پر کیا ہے۔ ’’ہم کو یقین ہے کہ تمام اسلامی مساعی حضرت مولانا کی روح کی شادمانی اور طمانیت کا باعث ہوں گی اور بلاشبہ مولانا کے یہ تمہیدی کلمات کو آغاز کار کے طور پر ہمیشہ’’سعی مشکور سمجھا جائے گا‘‘۔(ص32) 
امارت شرعیہ کے دو امراء شریعت کے انتخاب کے موقع سے سید الملت مولانا سید محمد میاںؒ اور سحبان الہند مولانا احمد سعید دہلوی بطور مشاہد شریک ہوئے تھے، چوتھے امیر شریعت سید شاہ مولانا منت اللہ رحمانی ؒکے انتخاب کے موقع سے 24 مارچ 1957ء کو مرکزی جمعیت سے مشاہد کے طور پر مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی جو اس وقت جمعیت علماء  ہند کے ناظم اعلیٰ تھے، تشریف لائے، اس موقع سے نائب امیر شریعت مولانا عبد الصمد رحمانیؒ نے جو امیر شریعت ثالث کے وصال کے بعد (مثل امیر شریعت کام کر رہے تھے) طریقہ کار کی وضاحت حضرت مولانا ریاض احمد صاحب (م1382 ھ =1962ئ) صدر مجلس کی اجازت سے سات سو (700)مدعوئین کے سامنے کی اور ان سے گذارش کیا کہ آپ حضرات اس عظیم منصب کے لئے نام پیش کریں؛ چنانچہ چار نام آئے نائب امیر شریعت مولانا عبد الصمد رحمانی نے اپنا نام واپس لے لیا اور اسے خارج از بحث قرار دیا؛ بقیہ تین نام حضرت مولانا سید شاہ امان اللہ صاحب سجادہ نشیں خانقاہ مجیبیہ پھلواری شریف پٹنہ، مولاناسید شاہ منت اللہ رحمانی سجادہ نشیں خانقاہ رحمانی مونگیر اور حضرت مولانا سید نظام الدین صاحبؒ خانقاہ مجیبیہ کے رہ گئے، مولانا عبد الصمد رحمانی کی تجویز تھی کہ یہ سب نام ایسے پیش کئے گئے ہیں جن کا احترام صوبہ بہار کے ہر طبقہ میں ہے، اس لیے اس اجلاس میں ناموں کی وجہ ِترجیح پر بحث نہ کی جائے، اس پر پھر یہ سوال کھڑا ہوا کہ جن کے نام پیش کئے گئے ہیں؟ ان کے اوصاف بھی بیان کئے جائیں یا نہیں، مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی شروع سے مجلس میں موجود تھے چنانچہ انہوں نے کہا: 
’’ان بزرگوں کے ناموں پر وجہ ترجیح کی حیثیت سے تو بحث نہ کی جائے، مگر محرک اور مؤید صاحب ایسا کر سکتے ہیں کہ اپنے پیش کردہ ناموں سے متعلق بغیر تقابل کے ان کے اوصاف حمیدہ اور اہمیت پر روشنی ڈالیں (ماخوذ: چوتھے امیر شریعت کے انتخاب کی مختصر کاروائی) 
مجاہد ملت کی اس تجویز کو سب نے پسند کیا ’’ چنانچہ مولانا مقبول احمد صدیقی اور مولانا عبد الرحمن صاحب ہر سنگھ پوری نے اپنے ذریعہ پیش کردہ ناموں کے سلسلے میں وضاحت فرمائی کہ وہ اس منصب کے لائق ہیں اور کسی نقطہ نگاہ سے ان کا انتخاب بہتر ہوگا ۔(امارت شرعیہ دینی جد و جہد کا روشن باب از مفتی ظفیر الدین مفتاحی) 
یہ تفصیل تاریخی طور پر دونوں بزرگوں کے تعلقات اور ہم آہنگی پر روشنی ڈالتی ہے اور ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ان حضرات کے درمیان ملی کاموں میں کس قدر توافق تھا، اور وہ دونوں کس قدر انہماک اور مستعدی کے ساتھ ملت کے کاموں کو انجام دیا کرتے تھے، 
حضرت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی کا وصال 1962ء میں ہوا اور کہنا چاہیے کہ’’ آں قدح بشکست و آں ساقی نہ ماند‘‘ یعنی وہ پیالہ ٹوٹ گیا اور پلانے والا نہ رہا، اس طرح وہ زمانہ گذر گیا اور وہ بات ہی ختم ہو گئی۔

کوئی تبصرے نہیں:

اردودنیانیوز۷۲

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!

ایک تکبیر جو مکمل تقریر ہے!                   Urduduniyanews72 آج ماہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہے، فجر کی نماز کے بعد ایک عمل کا اض...