عین المعارف( دیوان آسی)
شاعر: حضرت آسیؔ غازی پوری
مرتب: حضرت فانیؔ گورکھپوری
صفحات: 416،قیمت:400،سنہ اشاعت: 2017
ناشر: شاہ عبد العلیم آسی فاؤنڈیشن،نئی دہلی -25،موبائل:9911239401
مبصر: امتیاز سرمد اے -170،گراؤنڈ فلور-3،سوریا اپارٹمنٹ،دلشاد کالونی،دہلی-95

زیر تبصرہ کتاب معروف صوفی شاعر حضرت آسیؔ غازی پوری کا شعری دیوان ہے۔ حضرت آسی کی وفات کو سوسال سے زائد عرصہ گزر گیا، لیکن کلام آسی کی مقبولیت میں کوئی کمی نہیں آئی، بلکہ روز افزوں اس میں اضافہ ہوتا رہاہے۔ یہ دیوان پہلے بھی متعدد بار زیور طبع سے آراستہ ہو چکا ہے۔ پہلی بار اسے محمد اظہر مرچنٹ نے سلیمان پریس بنارس سے1917ء میں شائع کرایا ، دوسری بار آسی پریس گورکھپور سے شائع ہوا اور تیسری بار ادارہ یادگار آسی غازی پوری، کراچی ، پاکستان سے 1988ء میں اس کی اشاعت عمل میں آئی۔ کراچی و الا نسخہ صوری و معنوی ہر دو اعتبار سے معتبر ہے اور اہمیت کا حامل بھی۔ اسی نسخے کو بنیاد بناکر انجمن فیضان رشیدی، کمرہٹی، کلکتہ نے 1997ء میں اسے شائع کیا تھا۔ نسخہ کراچی کو پیش نظر رکھتے ہوئے ـــشاہ عبد العلیم آسی فائونڈیشن، نئی دہلی نے جنوری 2017ء میں اسے بڑے اہتمام سے شائع کیا ہے۔

دیوان آسی ’’عین المعارف‘‘کے مرتب سید شاہد علی سبز پوش فانی گورکھپوری ہیں، جو حضرت آسی کے تلمیذ ارشد، مرید و خلیفہ اور جانشین تھے۔ انھی کی ترتیب کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ اس نسخے کی تصحیح، تحقیق اور نظر ثانی کی ذمے داری معروف ناقد، محقق اور شاعر ڈاکٹر فضل الرحمن شررؔ مصباحی (سابق صدر:شعبۂ معالجات ، طبیہ کالج، قرول باغ، دہلی)نے بحسن و خوبی انجام دی ہے۔ 416؍صفحات پر مشتمل اس دیوان کے باب تعارف میں طبع شدہ نسخوں کے سر ورق کا عکس اور کلام آسی کا اشاعتی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ اس اشاعتی جائزے میں فاضل گرامی ابرار رضا مصباحی نے کلام آسی کی اشاعت کے تعلق سے اپنا تحقیقی نقطۂ نظر پیش کرکے قارئین کے لیے معلومات کا بیش بہا ذخیرہ فراہم کردیا ہے۔ یقینا موصوف کی یہ تحریر حضرت آسی پر تحقیق کرنے والوں کے لیے سنگ میل ثابت ہوگی۔ نقد و نظر کے باب میں ’حضرت آسی کی شاعری‘ کے عنوان سے مجنوں گورکھپوری کا فاضلانہ مقالہ شامل ہے، جس میں انھوں نے آسیؔ کے کلام کے محاسن بیان کرتے ہوئے خوب نکتہ آفرینیاں کی ہیں۔ آسی غازی پوری کے کلام کے تعلق سے مرزا غالب، علامہ کیفی چریاکوٹی، مولانا محمد علی جوہر، عارف ہسوی، پروفیسر حامد حسن قادری، عبدالسلام ندوی، پروفیسر کلیم الدین احمد ، فراق گورکھپوری، شمس الرحمن فاروقی جیسے مشاہیر اور یکتائے روز گار کے تاثرات اس نسخے کو مزید و قیع بناتے ہیں۔

حضرت آسی کے احوال و آثار کا جائزہ لیتے ہوئے مرتب دیوان، سید شاہد علی سبزپوش فانی گورکھپوری نے آسی غازی پوری کے حالات کو تفصیلی طور پر پیش کیا ہے۔ چوں کہ مرتب دیوان کو فنافی الشیخ کا درجہ حاصل تھا؛ اس لیے انھوں نے جس والہانہ پن سے حضرت آسی کے حالات پیش کیے ہیں وہ انھی کا حصہ ہے۔ فانی گورکھپوری خود دریائے معرفت کے شناور، عظیم شاعر اور فن شاعری کی باریکیوں سے کماحقہ واقف تھے؛ اس لیے انھوں نے حضرت آسی کی شاعری کی تفہیم جس انداز سے پیش کی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ زیر نظر دیوان میں غزلوں کے علاوہ مخمس، مثلث، سلام، قصیدہ، قطعات تاریخ اور رباعیات بھی شامل ہیں۔
حضرت آسی ایک قادر الکلام شاعر ہیں۔ اسلوب وزبان کے لحاظ سے ان کا بڑا مرتبہ ہے۔ ان کی شاعری عشق و محبت کی شاعری ہے۔ انھوں نے خیال بندی کا سہارا لے کر عشق حقیقی کو عشق مجازی کا جامہ پہنایا ہے۔ تصوف کے تمام تر اہم مسائل کو اپنی شاعری میں جگہ دی ہے، بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ حضرت آسی نے صوفیانہ اقدار کا پاس و لحاظ جس انداز سے کیا ہے، اس کی مثالیں اردو شاعری میں کم ہی ملیںگی۔ اس حوالے سے عہد حاضر کے معروف ناقد شمس الرحمن فاروقی نے دو ٹوک کہا ہیـ:


’’حضرت آسی سکندر پوری کے کلام میں خواہ وہ غزل ہو خواہ رباعی ، اردو زبان کی سلاست ، شگفتگی اور برجستگی کے وہی انداز نظر آتے ہیں جو ہمارے تمام بڑے شعرا کا خاصہ ہیں ۔ چوں کہ خیال بندی کے رنگ میں تجریدی ، پیچیدہ لیکن غیر حقیقی مضامین بیش از بیش بندھتے ہیں، اس لیے متصوفانہ مضامین اور تصوف کی سرمستی اور ربودیت کے انداز خیال بندی سے بہت بعید ہیں۔ آسی سکندر پوری صاحب کا کمال یہ نہیں ہے کہ وہ دبستان ناسخؔ کے میر ہیں، ان کا کمال در اصل یہ ہے کہ انھوں نے ناممکن کو ممکن کردکھایا ، یعنی خیال بندی کے رنگ میں تصوف بھر دیا۔ (عین المعارف ، ص:71)

واقعی آسی کی شاعری زبان و بیان کے لحاظ سے اہل نظر کو دعوت فکرو نظر دیتی ہے، یاران نکتہ داں کو صلائے عام دیتی ہے اور سالکانِ راہ طریقت کی راہ نمائی کرتی ہے۔ آسی کا یہ دعویٰ بھی ان کی سخن فہمی کی راہیں ہموار کرتا ہے ؎
شعر گوئی نہ سمجھنا کہ میرا کام ہے یہ
قالب شعر میں آسی فقط الہام ہے یہ
آسی کا کلام ان کے زمانے کے اہم اخبارات و رسائل کی زینت بنتا تھا اور شعری ذوق رکھنے والوں کے لیے تسکین کا سامان فراہم کرتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ دیوان کی اشاعت کے ساتھ ساتھ آپ کے کلام کا انتخاب بھی الگ الگ ناموں سے شائع ہوتا رہا ہے۔ حضرت آسی کے یہاں تصوف اور تغزل کی جلوہ گری دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے ؎
حسن کی کم نہ ہوئی گرمیِ بازار ہنوز
نقد جاں تک لیے پھرتے ہیں خریدار ہنوز

عاشقی میں ہے محویت در کار
راحت وصل و رنج فرقت کیا

مرزا غالب کا مشہور زمانہ شعر ہے ؎
آئینہ کیوں نہ دوں کہ تماشا کہیں جسے
ایسا کہاں سے لائوں کہ تجھ سا کہیں جسے
اس شعر کے مفہوم کو ذہن میں رکھ کر آسی کا درج ذیل شعر ملاحظہ کیجیے اور دیکھیے کہ بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے ؎
قطرہ وہی کہ روکشِ دریا کہیں جسے
یعنی وہ میں ہی کیوں نہ ہوں تجھ سا کہ